الطاف احمد اعظمی
ماہنامہ اشراق (نومبر ۲۰۱۱ء) میں محترم پروفیسر خورشید عالم کے مضمون ’’عہد رسالت میں خواتین کا سیاسی کردار‘‘ کی دوسری قسط نظر سے گزری، اس کی پہلی قسط نہیں دیکھ سکا۔ فاضل مضمون نگار ان اہل علم میں سے ہیں جن کا میں قدرداں ہوں اور ان کی تحریریں غور سے پڑھتا ہوں۔ لیکن افسوس کہ ان کے اس مضمون میں بعض باتیں ایسی ہیں جن سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ قرآن مجید کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے چند اہم امور کی طرف ان کی توجہ مبذول کراؤں گا۔ امید ہے وہ ان پر غور فرمائیں گے۔
۱۔ اسلامی سماج میں عورتوں کے کردار کے متعلق ہمارے علما مختلف الراے ہیں۔
ایک گروہ ان علما کا ہے جو اجتماعی زندگی میں عورتوں کی شرکت تو درکنار، وہ انھیں مساجد میں جمعہ اور عیدین کی نمازیں بھی پڑھنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، خواہ حالات موافق ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی تنگ نظری اور تشدد کا مظاہرہ عورتوں کے حجاب کے معاملے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے نزدیک اسلام میں جو حجاب مطلوب ہے، اس میں جسم کے دیگر اعضا کے ساتھ عورتوں کا چہرہ بھی شامل ہے، اس کا کوئی حصہ کھولنا جائز نہیں ہے۔ بعض متشدد علما تو ہاتھوں (یعنی پنج انگشت) کو بھی چھپانا ضروری خیال کرتے ہیں۔ قرآن کی آیت ’اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا‘ * (مگر جو اس میں سے (ناگزیر طور پر) ظاہر ہو جائے) سے ان کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے۔ لیکن وہ اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے عورت کا ظاہری لباس وغیرہ مراد ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ تاویل تحریف معنوی کے زمرہ میں آتی ہے۔
دوسرا گروہ ان علما کا ہے جو اس کے برعکس خیال رکھتے ہیں۔ وہ حجاب جیسے مسائل میں وسیع النظری کے مظاہرہ سے آگے بڑھ کر اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کی شرکت کے حامی ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک وہ اسلامی ریاست کے کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو سکتی ہیں، حتیٰ کہ وہ صدر مملکت اور وزیر اعظم بھی بن سکتی ہیں۔ فاضل مضمون نگار کا تعلق اسی دوسرے گروہ سے ہے۔ ان کے زیر بحث مضمون سے یہ بات بالکل واضح ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس شادی سے بلقیس کے یہاں جو لڑکا ہوا، علامہ عبداللہ یوسف علی نے اس کا نام ‘Mengelek’ لکھا ہے اور کہا ہے کہ اس نے اپنی ماں سے مل کر حبشہ (Abyssinia) کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ عورت کے سیاسی کردار اور اس کی حکمرانی کے بارے میں یہ قطعی دلیل ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، نومبر ۲۰۱۱ء ، ۵۸)
لیکن عورتوں کی حکمرانی کے معاملے میں دلیل قطعی کی حیثیت شاذ تاریخی واقعات کو نہیں، بلکہ قرآن و سنت کے نصوص کو حاصل ہے۔ قرآن حکیم میں اہل ایمان کو تاکید کی گئی ہے کہ سماجی ذمہ داریوں (مناصب) پر ان ہی افراد کو مامور کیا جائے جو ان کی اہلیت رکھتے ہوں۔* اسی اصول کے مطابق گھر (فیملی) کا کفیل (قوّام) عورتوں کے بجاے مردوں کو بنایا گیا ہے** بالکل کھلی بات ہے کہ جب ایک عورت عام حالات میں گھر کی قوام نہیں ہو سکتی ہے تو کسی اسلامی ریاست کی حکمران کیونکر ہو سکتی ہے۔
جب یہود نے طالوت کی بادشاہت پر اعتراض کیا تو ان کے نبی نے جواب دیا کہ اللہ نے اسی کو تمھاری بادشاہت کے لیے منتخب کیا ہے اور اس کو علم اور جسم میں فراخی عطا کی ہے *** ۔معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ اجتماعی معاملات کی باگ ڈور اسی شخص کے ہاتھ میں دی جائے جو ’’علم و جسم‘‘ میں فوقیت رکھتا ہو۔ اس ربانی قاعدہ کے مطابق عورت ملک کی حکمران نہیں ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ اس معاملے میں مردوں پر فضیلت نہیں رکھتی ہے اور یہ بالکل بدیہی بات ہے۔ وہ صاحب علم تو ہو سکتی ہے، لیکن مردوں کے مقابلے میں ’’صاحب جسم‘‘ نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کے جسم کی ایک ایک ساخت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ قوم و ملک کے اجتماعی معاملات کا بارگراں اس کے دوش ناتواں پر نہ رکھا جائے، یہ اس کے ساتھ مہربانی نہیں، ظلم عظیم ہو گا۔
اس گفتگو سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ راقم عورتوں کو صرف گھروں تک محدود رکھناچاہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت کسی سماجی ذمہ داری کے اٹھانے کی اہلیت رکھتی ہے، یعنی علم وجسم، دونوں اعتبار سے اس قابل ہے کہ وہ اس ذمہ داری سے کما حقہٗ عہدہ برآ ہو سکے تو وہ اس کے سپرد کی جاسکتی ہے۔ مثلاً تعلیم و صحت کے شعبوں میں ان کی شرکت میں کوئی حرج نہیں، بلکہ صحت کے شعبے سے ان کی وابستگی خواتین کے معالجہ میں بے حد مفید ہے۔ لیکن یہ شرکت اسی وقت مفید ہو گی، جب ان کے کاموں کا دائرہ مردوں سے الگ ہو، مخلوط شرکت مفید کے بجاے سخت مضرت رساں ہے، جیسا کہ روزمرہ کے مشاہدہ سے بالکل واضح ہے۔ اسی طرح جو عورتیں دین کا علم رکھتی ہوں اور ان کے پاس فاضل وقت بھی ہو تو وہ خواتین میں دعوت و تبلیغ کا کام کر سکتی ہیں، بلکہ ان کو یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔
اجتماعی زندگی میں مسلم عورتوں کی اس مشروط اجازت کے باوجود یہ بات کسی حال میں فراموش نہ ہو کہ عورتوں اور مردوں کے فرائض جداگانہ ہیں اور عام حالات میں ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ سورۂ احزاب کی آیات ۳۳ اور ۳۴ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی سرگرمیوں کا اصلی مرکز سیاسی گلیارے نہیں، بلکہ ان کا گھر ہے، یعنی بچوں کی احسن پرورش اور ان کی عمدہ تعلیم و تربیت۔ یہ ایک بڑی بھاری سماجی ذمہ داری ہے جس سے عورت ہی صحیح ڈھنگ سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے۔ اس سے تغافل کا مطلب سماج کی بنیاد کو کمزور کرنا ہے۔ جب تک گھر اپنی مضبوط بنیادوں پر قائم رہیں گے، سماج بھی مضبوط اور صحت مند ہو گا۔ ماضی میں جن سماجوں نے اس معاملے میں کج روی دکھائی، وہ انجام کار تباہ و برباد ہو گئے۔
یہی وجہ ہے کہ عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں عورتوں کو ہر طرح کے حقوق دیے گئے اور ان کو غیر معمولی عزت و احترام کا مقام حاصل ہوا، لیکن سیاسی معاملات میں ان کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیااس عہد میں کسی عورت کو خلیفہ بنایا گیا؟ خلافت تو بڑی چیز ہے، کسی صوبے کا عامل (گورنر) ہی بنایا گیا ہو۔ کیوں؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے۔ ان مناصب کے لیے وہ فطری طور پر موزوں نہیں ہے، جیسا کہ اوپر تفصیل سے ذکر ہوا۔
یہاں میں مولانا مودودیؒ کی تفسیر کا وہ حاشیہ نقل کروں گا جو انھوں نے سورۂ احزاب کی مذکورہ آیات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں، بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں، مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں، ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں ’’مسافر نوازی‘‘ کے لیے استعمال کی جائیں، اور تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ و انگلستان بھیجی جائیں؟ عورت کے بیرون خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ نے جنگ جمل میں حصہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انھیں شاید نہیں معلوم کہ خود حضرت عائشہؓ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد و الزہد میں، اور ابن المنذر، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اس آیت (وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ) پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا، کیونکہ اس پر انھیں اپنی وہ غلطی یاد آجاتی تھی جو ان سے جنگ جمل میں ہوئی تھی۔‘‘ (تفہیم القرآن ۴/ ۹۰۔۹۱، حاشیہ ۴۸)
۲۔ فاضل مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’اگلا جملہ بھی اللہ کا قول ہے: ’لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی‘ (وہ لڑکا جو تیرے ذہن میں ہے، اس لڑکی کی طرح نہیں)۔ یعنی جس لڑکے کی تمنا اور طلب تو نے کی تھی، وہ اس لڑکی کے مانند نہیں جو تجھے عطا کی گئی ہے مقام افسوس ہے کہ اردو کے اکثر مترجمین نے اپنے ذہنی پس منظر کی وجہ سے اس جملے کا غلط ترجمہ کیا ہے۔ صرف مولانا احمد رضاخان بریلوی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے صحیح ترجمہ کیا ہے۔ علم بیان میں مشبہ اور مشبہ بہ کے قاعدے کے مطابق یہ ترجمہ کہ ’’لڑکا لڑکی نہیں ہوتا‘‘، قطعی غلط ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، نومبر ۲۰۱۱ء ، ۵۹)
راقم کو اس بات سے اتفاق نہیں کہ ’لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی‘ اللہ کا قول ہے۔ ’اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی‘* کی طرح ’لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی‘ بھی زوجۂ عمران کا قول ہے، نہ کہ اللہ کا۔ ان دونوں فقروں کے درمیان ’وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعْتْ‘ ** جملۂ معترضہ ہے اور وہ اللہ کا قول ہے۔ اس کی متعدد نظیریں قرآن میں موجود ہیں۔ اسی سورہ میں ٹھیک زیربحث آیت کے نیچے حضرت مریم کا یہ قول نقل ہوا ہے: ’قَالَتْ ہُوْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ‘۔ *** آگے کا جملہ ’اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ‘ ****جملۂ معترضہ ہے اور یہ اللہ کا قول ہے۔
فاضل مضمون نگار نے ’لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی‘ کا جو مفہوم قوسین میں بیان کیا ہے، اس سے بھی مجھے اتفاق نہیں۔ اس مفہوم سے آیت کا مطلب ہی الٹ گیا ہے۔ میں نے ’لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی‘ (لڑکا لڑکی کی طرح نہیں) کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:
’’اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا کہ کسی ایک مقام تک محدود ہو کر رہے، وہ کسی رکاوٹ کے بغیر ہر کام آسانی کے ساتھ کر سکتا ہے اور ہر شخص سے کسی روک ٹوک کے بغیر مل سکتا ہے، جب کہ لڑکی ایسا نہیں کر سکتی ہے۔‘‘ (تفسیر میزان القرآن ۱/ ۳۵۶ حاشیہ ۲۶)
۳۔ فاضل مضمون نگار نے لکھا ہے کہ حضرت مریم نبی تھیں، اور اس سلسلے میں انھوں نے علامہ ابن حزم کی راے نقل کی ہے۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ فرشتے کا حضرت مریم کے پاس آنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ نبی تھیں ۔ حضرت زکریا کے پاس بھی فرشتہ آیا تھا تاکہ انھیں اولاد کی بشارت دے، جیسا کہ قرآن (آل عمران ۳: ۳۹) اور انجیل (لوقا ۱: ۵۔۱۰) میں مذکور ہے، لیکن اس کے باوجود وہ نبی نہیں تھے، بلکہ اپنی قوم کے کاہن تھے، اس سلسلے میں موصوف نے جو دوسرے دلائل دیے ہیں، وہ بہت کمزور ہیں۔ حضرت مریم کے نبی نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے دوسرے نبیوں کی طرح، کار نبوت انجام نہیں دیا۔ اگر وہ نبی ہوتیں تو حضرت یحییٰ کی طرح جو ان کے ہم عصر تھے، دعوت و ارشاد کا کام کرتیں، لیکن اس سلسلے میں قرآن اور اناجیل، دونوں خاموش ہیں۔
۴۔ فاضل مضمون نگار نے سورۂ مریم کی آیت ۲۲ کی وضاحت میں مولانا آزادؒ کی تفسیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ دور دراز جگہ (مَکَانًا قَصِیًّا) سے مراد ناصرہ ہے جو یروشلم کے شمال مشرق میں ہے۔ * لیکن اس حوالے کو نقل کرنے میں موصوف سے زبردست سہو ہوا ہے۔ منقولہ حوالے کا تعلق ’مَکَانًا قَصِیًّا‘ (مریم، آیت ۲۲) کے بجاے ’مَکَانًا شَرْقِیًّا‘ (آیت ۱۶) سے ہے۔ مولانا آزاد کی پوری عبارت اس طرح ہے:
’’آیت ۱۶ میں ’’مَکَانًا شَرْقِیًّا‘‘ کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم ہیکل چھوڑ کر جہاں ان کی پرورش ہوئی تھی، اپنے آبائی وطن ناصرہ میں چلی گئیں۔ یہ یروشلم کے شمال مشرق میں واقع ہے اور باشندگان یروشلم کے لیے مشرق کا حکم رکھتا ہے۔ انجیل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، کیوں کہ وہ اس معاملے کا محل وقوع ناصرہ ہی بتلاتے ہیں۔‘‘ (ترجمان القرآن ۴/ ۱۰۳۸،اساھتبہ اکادمی دہلی، ۱۹۸۰ء، اضافی حواشی)
مولانا آزاد نے اپنی تفسیر میں ’’مَکَانًا قَصِیًّا‘‘ سے کوئی بحث نہیں کی ہے۔ دوسرے مفسرین نے انجیل کی پیروی کرتے ہوئے اس سے بیت اللحم مراد لیا ہے۔ ** راقم نے اس خیال سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اکثر مفسرین نے ’’مَکَانًا قَصِیًّا‘‘ (دور کے مقام) سے بیت اللحم مراد لیا ہے تاکہ حمل کی وجہ سے وہ جس ذہنی پریشانی اور قلبی اذیت میں مبتلا تھیں اس سے نجات مل سکے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بیت اللحم میں جا کر ان کا حمل بڑی آسانی سے سب پر ظاہر ہو جاتا اور بچے کی ولادت سے پہلے ہی ان کی زندگی وبال جان بن جاتی۔ حضرت مریم ہو سکتا تھا کہ وہ کسی ایسی جگہ چلی جائیں جو اجنبی اور سنسان ہو۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ اگلی آیت (فَاَجَآءَ ھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ) *** سے بالکل واضح ہے۔‘‘ (تفسیر میزان القرآن۲/ ۵۴۳، حاشیہ نمبر ۸)
سورۂ مومنون (۲۳) کی آیت ۵۰ ’وَاٰوَیْْنٰہُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ‘ * سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت مریم نے وضع حمل کے وقت جس کھجور کے درخت کا سہارا لیا تھا، وہ اسی ٹیلے (ربوہ) پر رہا ہو گا، جہاں ایک چشمہ بھی رواں تھا، جیسا کہ سورۂ مومنون کی مذکورہ آیت میں ہے۔
۵۔ فاضل مضمون نگار نے سورۂ مریم (۱۹) کی آیت (۲۴) ’فَنَادَاہَا مِن تَحْتِہَا اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا‘ کا ترجمہ کیا ہے: ’’اس وقت ان کے نیچے کی جانب فرشتے نے ان کو آواز دی کہ غم نہ کر تیرے پروردگار نے تمھارے لیے نیچے ایک چشمہ پیدا کر دیا ہے‘‘۔** اکثر مفسرین نے ’فَنَادٰھَا‘ کا فاعل فرشتے ہی کو قرار دیا ہے، لیکن راقم نے اس خیال سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:
’’زیادہ تر مفسرین نے ’’فَنَادٰھَا‘‘ میں ’نَادٰی‘ کا فاعل فرشتہ اور ’’مِنْ تَحْتِھَا‘‘ میں ضمیر کا مرجع ’’نَخْلَۃ‘‘ کو قرار دیا ہے۔ اور مفسرین نے بھی اسی خیال کو ترجیح دی ہے۔ (دیکھیں تفہیم القرآن و تدبر قرآن وغیرہ)۔ بعض مفسرین کے خیال میں ضمیر ’’ھَا‘‘ کا مرجع ’پائنتی‘ ہے (تفہیم القرآن)۔ راقم کو ان تاویلات سے اختلاف ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ’’نَادٰی‘‘ کا فاعل شکم مادر میں موجود بچہ یعنی حضرت عیسیٰ، اور ’’مِنْ تَحْتِھَا‘‘ کی ضمیر کا مرجع شکم مادر ہے جس کے اندر سے بچے نے آواز دی۔ اس خیال کی تائید آگے کی آیت ۲۹ سے ہوتی ہے۔ ولادت کے وقت شکم کے اندر سے آنے والی ندا سن کر حضرت مریم کے مضطرب قلب کو بڑا سکون ملا اور انھیںیقین ہو گیا کہ یہ بچہ غیر معمولی کمالات کا حامل ہے۔ چنانچہ جب وہ اسے اپنی گود میں لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس پہنچیں اور قوم کے بزرگوں نے انھیں کوسنا شروع کیا تو انھوں نے بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے پوچھو کہ یہ کیا معاملہ ہے، اور پھر بچے نے تقریر شروع کر دی (انی عبداللہ.....)۔ اگر حضرت مریم کو ولادت کے وقت اس غیر معمولی تکلم کا تجربہ نہ ہوا ہوتاتو وہ بچے کی طرف ہرگز اشارہ نہ کرتیں۔‘‘ (تفسیر میزان القرآن ۲/ ۵۴۳، حاشیہ نمبر ۱۱)
۶۔ فاضل مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’سب باتیں معمول سے ہٹ کر ہو رہی ہیں۔ چشمہ اور کھجوریں صرف کھانے پینے کے لحاظ سے وجہ تسکین نہ تھیں، بلکہ یہ دونوں معجزے یہ ثبوت دے رہے تھے کہ مریم پاک باز ہیں اور ان کا کردار شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اللہ تعالیٰ مریم کو تسلی دیتا ہے کہ جس طرح وہ اسباب کے بغیر پانی اور کھجور کو وجود میں لا سکتا ہے، بالکل اسی طرح وہ بغیر باپ کے بچہ بھی پیدا کر سکتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، نومبر ۲۰۱۱ء، ۶۴)
مذکورہ اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مریم وضع حمل کے وقت جس جگہ ٹھہری تھیں، وہاں پہلے سے کھجور کا درخت موجود نہیں تھا، لیکن قرآن کا بیان اس کے برعکس ہے، اس کے الفاظ ہیں: ’فَاَجَآءَ ہَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ‘ * (پس درد زہ اسے کھجور کے تنے کے پاس لے گیا (تاکہ وہ وضع حمل کے وقت اس کا سہارا لے سکیں)۔ الفاظ آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ درخت پہلے سے موجود تھا۔ اس کے ماقبل اور مابعد کی آیات میں ایسا کوئی قرینہ نہیں جس سے اس بات کی نفی ہوتی ہو۔
رہا پانی، یعنی چشمے کی بات تو اس بات میں اختلاف کی گنجایش ہے۔ ’تَحْتَکِ سَرِیًّا‘ (آیت ۲۴) کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہاں پہلے سے کوئی چشمہ موجود نہیں تھا، اللہ نے اسے اپنی قدرت سے پیدا کر دیا، اور اس مطلب کی بھی گنجایش ہے کہ ان کے نیچے، یعنی نشیب کی جانب سے پہلے ایک چشمہ رواں تھا، لیکن وہ اس سے بے خبر تھیں، میرے نزدیک یہ دوسرا مطلب ہی درست ہے۔ سورۂ مومنون (۲۳) کی آیت ۵۰ سے، جس کا ذکر میں اس سے پہلے کر چکا ہوں، اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔
۷۔ فاضل مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’قرآن نے جن چیدہ انبیا کا ذکر کیا ہے، ان کی مائیں، بہنیں، اور بیٹیاں پرورش و تربیت کے مرحلہ سے لے کر حق و باطل کی آویزش کے مرحلہ تک ان کے مشن کو آگے بڑھانے اور عدل و انصاف پر مبنی نظام کے قائم کرنے میں ان کے پہلو بہ پہلو شریک رہیں۔ انھوں نے دینی، معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں ان کا ساتھ دیا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، نومبر ۲۰۱۱ء، ۶۶۔۶۷)
مذکورہ عبارت کسی تاریخی ثبوت و شہادت سے خالی حددرجہ مغالطہ انگیز ہے۔ کوئی ایک مثال تو دی جاتی کہ دیکھو اللہ کے فلاں نبی کی مائیں اور ان کی بہنیں اور ان کی بیٹیاں عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرنے میں ان کے شانہ بہ شانہ شریک تھیں۔ مشکل یہ ہے کہ پروفیسر موصوف خدا کے دین کو بس ایک سیاسی نظام سمجھتے ہیں، اور مولانا مودودیؒ کی اتباع میں کسی استثنا کے بغیر تمام انبیا کا مشن عدل اجتماعی کے نظام کی اقامت قرار دیتے ہیں۔ لیکن درحقیقت تمام انبیا کا مشن اقامت توحید کے سوا اور کچھ نہ تھا، جیسا کہ قرآن میں متعدد جگہوں پر ارشاد ہوا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا ہے: ’یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْْرُہُ‘ ’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے ...۔‘‘ دوسری جگہ ہے:
قُلْ یَآاَیُّہَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلاَ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللّٰہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ. وَاَنْ اَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا وَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ. وَلاَ تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنْفَعُکَ وَلاَ یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ. وَاِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٗٓ اِلاَّ ہُوَ وَاِنْ یُرِدْکَ بِخَیْْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ.(یونس۱۰: ۱۰۴۔۱۰۷)
’’(اے نبی امی) کہہ دو، اے لوگو! اگر تم میرے دین کے بارے میں (ابھی تک) متردد ہو تو (جان لو کہ) تم اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو، میں ان کی عبادت نہیں کرتا، بلکہ اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمھیں وفات دیتا ہے، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں یقین رکھنے والوں میں سے ہوں، اور یہ بھی حکم ہوا ہے کہ یک سو ہو کر (خدا کی) اطاعت پر اپنے آپ کو قائم رکھو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ (کہ غیر خدا کی اطاعت کرنے لگو)۔ اور اللہ کو چھوڑ کر ان کو نہ پکارو جو نہ تم کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ اگر تم نے ایسا کیا (یعنی غیر خدا کو پکارا) تو مشرکوں میں شامل ہو جاؤ گے۔ اور اگر اللہ تمھیں کسی تکلیف میں ڈال دے تو اس کے سوا کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں، اور اگر تم کو کوئی بھلائی پہنچانا چاہے تو کوئی اس کے فضل کو روکنے والا بھی نہیں، اور وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، اپنے فضل سے نوازتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔‘‘
عدل اجتماعی کے نظام کی اقامت کی بات تو اس وقت کی ہے جب مدعو قوم کی غالب تعداد خدائی دین، یعنی توحید کو قبول کر لے اور سماج میں شرک کی جگہ توحید کو غلبہ حاصل ہو جائے۔ توحیدی غلبہ کے بغیر عدل اجتماعی کے نظام کا قیام ممکن نہیں ہے۔
۸۔ سیاست دین اسلام کا ایک شعبہ ہے، نہ کہ کل دین، اور سیاست کا واضح مطلب اقتدار و حکومت ہے۔ لیکن فاضل مضمون نگار نے دین اسلام کے سارے اجزاے ترکیبی کو ’’سیاسی سرگرمیاں‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’جن واقعات کا تعلق دین کی جستجو، اس کی حوصلہ افزائی کرنے، نئے دین میں داخل ہونے، اس کی طرف دعوت دینے، اس کی خاطر مشکلات کا سامنا کرنے، وطن سے ہجرت کرنے، بیعت کرنے اور اس دین کے دفاع کی خاطر جہاد کرنے سے ہو، ان سب کو سیاسی سرگرمیاں سمجھاجائے گا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، نومبر ۲۰۱۱ء، ۶۶)
یہ حد درجہ مبالغہ آمیز خیال ہے۔ میں نہایت ادب سے پروفیسر موصوف کی خدمت میں عرض کروں گا کہ وہ اسلام کی تعبیر و تشریح میں غلو سے پرہیز کریں۔ خدا کے دین کے ہر جز کو وہی جگہ دیں جو قرآن و سنت کے واضح نصوص میں دی گئی ہے، اس میں افراط و تفریط کا رجحان غلط اور سخت مضرت رساں ہے۔ ’تمکن فی الارض‘ یعنی اقتدار و حکومت اہل ایمان کا بنیادی ہدف نہیں، بلکہ دوسری نعمتوں کی طرح یہ چیز بھی اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش ہے جو اعمال صالحہ کے نتیجے میں اس کے صالح بندوں کو ہر دور میں ملتی رہی ہے۔ فرمایا ہے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْْءًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ. وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.(النور ۲۴:۵۵۔۵۶)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انھیں زمین میں اقتدار (یعنی حکومت) عطا کرے گا، جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو (جو صاحب ایمان و عمل تھے) اس نے اقتدار عطا کیا، اور ان کے اس دین کو جسے ان کے لیے پسند کیا (سرزمین عرب میں خوب اچھی طرح)جما دے گا اور ان کے خوف کو (جس میں وہ اب تک مبتلا رہے ہیں) امن سے بدل دے گا۔ (بشرط یہ کہ) وہ میری ہی عبادت کریں، کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں، اور جو اس (احسان) کے بعد ناشکری کریں گے (یعنی میری خالص عبادت چھوڑ کر شرک کریں گے) تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔ اور (تمھیں تاکید کی جاتی ہے کہ) نماز کا اہتمام کرو اور (خوش دلی سے) زکوٰۃ دو، اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (یعنی اللہ کے فضل و کرم کے مستحق ٹھہرو)۔‘‘
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا کام حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنا نہیں کہ یہ اہل دنیا کا دستور العمل ہے، بلکہ اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا اور معاشرے کی اصلاح کر کے اسے ایک توحیدی معاشرہ بنانا ہے۔ جب اس کارخیر سے خوش ہو کر اللہ مالک الملک * اقتدار عطا فرما دے تو پھر اس کی زمین پر عدل و قسط پر مبنی نظام قائم کرنا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ قرآن میں داؤد علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا گیا ہے:
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ. (آ ۳۸:۲۶)
’’اے داؤد، ہم نے تمھیں زمین میں خلیفہ (یعنی صاحب اقتدار) بنایا ہے، تو لوگوں کے درمیان حق (و عدل) کے مطابق فیصلہ کرو۔‘‘
اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ داؤد علیہ السلام نے جدوجہد کر کے حکومت حاصل نہیں کی، بلکہ اللہ نے انھیں عطا کی تھی۔ اس ’’عطا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اللہ نے انھیں علم و حکمت سے نوازا اور پھر وہ موافق حالات پیدا کر دیے کہ وہ اقتدار کے مالک بن گئے۔ **
جس طرح اللہ تعالیٰ اس سے پہلے اہل ایمان کو ملک و اقتدار عطا کر چکا ہے، اسی طرح آج بھی عطا کرے گا، بشرط یہ کہ مسلمان من حیث الجماعت اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال سے ثابت کر دیں کہ اگر اس نے انھیں ملک و اقتدار عطا کیا تو وہ لوگوں کے معاملات میں دیانت دار، عدل گستر، اور دوسرے انسانی گروہوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر حکومت کرنے والے ہوں گے۔ یوسف علیہ السلام کے لفظوں میں: ’اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ‘ *** (میں حفیظ اور علیم ہوں (یعنی بہترین نگران اور نظم و انتظام کا وافر علم رکھتا ہوں))۔
امید ہے کہ پروفیسر موصوف میری ان معروضات کو تنقید کے بجاے ایک دینی بھائی کی خیر خواہی پر محمول فرمائیں گے۔
______________