[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
حضرت نُعیم (نون کی پیش کے ساتھ،اسم تصغیر ) قریش کی شاخ بنوعدی(بنوکعب بن عدی) سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے والد کا نام عبداﷲ،دادا کا اُسید اور پڑدادا کا عبد عوف تھا۔ فاختہ بن حرب عدویہ ان کی والدہ تھیں۔نحّام(کھوں کھوں کرنے والا) ان کا لقب تھا ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس کی وجہ تسمیہ بنا ، میں نے جنت میں نُعیم کے کھانسنے کی آواز سنی۔
حضرت نُعیم حضرت عمر کے مشرف باسلام ہونے سے قبل ایمان لا چکے تھے لیکن پہلے پہل انھوں نے اپنا ایمان چھپائے رکھا۔اسلام کی طرف سبقت کرنے والے اہل ایمان (السابقون الاولون) میں ان کا نمبر گیارہواں (بروایت ابوبکر بن ابوجہم) یا اڑتیسواں(بقول ابن ابی خیثمہ) تھا۔ ابوعبیدہ بن جراح،ارقم بن ابوارقم،عثمان بن مظعون، سعید بن زید،خباب بن ارت،عبداﷲ بن مسعود ،جعفر بن ابو طالب اورصُہیب بن سنان نے بھی قریباً اسی زمانے میں اسلام قبول کیا جب نُعیم ایمان لائے ۔
ایک روزعمر بن خطاب نے گلے میں تلوار لٹکا کر کوہ صفاکے دامن میں واقع دارارقم کا رخ کیا جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور چالیس کے قریب صحابہ جمع تھے۔ان کا ارادہ ان سب کو قتل کرنے کا تھا،راستے میں نُعیم بن عبداﷲ سے سامنا ہو گیا۔انھوں نے پوچھا،کدھرجا رہے ہو؟ بتایا، میں بے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کررہا ہوں جس نے قریش میں انتشار پیدا کر دیا ہے، ان کی عقلوں کو زائل کیا،ان کے دین پر عیب جوئی کی اور معبودوں کو برا بھلا کہا۔میں اسے قتل کر کے رہوں گا۔ نُعیم نے کہا، کیوں خود فریبی میں مبتلا ہو،تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرے گا تو کیا بنوعبد مناف تمھیں زمین پرچلتا پھرتا چھوڑ دیں گے؟تو اپنے گھر والوں کے پاس جا کر ان کے معاملات کیوں نہیں سدھارتا۔کون سے گھر والے ؟عمر نے پوچھا۔تمہاری بہن فاطمہ، تمھارا بہنوئی اور چچا زاد سعید بن زید، میاں بیوی دونوں مسلمان ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہو چکے ہیں، پہلے ان کی خبر تولو۔ اب عمرپلٹے اور اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر کا رخ کر لیااوروہاں جاکر خود مائل بہ اسلام ہو گئے۔
زمانۂ جاہلیت میں نُعیم اپنے قبیلے بنوعدی میں رہتے تھے لیکن اسلام لانے کے بعد اس کی ذیلی شاخ بنورزاح میں منتقل ہو گئے۔ انھوں نے فوراًمدینہ کو ہجرت نہ کی، وجہ ان کی صلۂ رحمی و اقربا نوازی تھی۔ بنوعدی کی کئی بیوائیں اور یتیم ان کی پرورش میں تھے جنھیں وہ ہر ماہ راشن دیتے تھے ۔جب انھوں نے ہجرت کرنا چاہی تو قبیلے والوں نے روک لیا اور کہا ، جس دین پر مرضی رہیں، آپ اپنے گھر میں رہیں اور یہاں سے مت جائیں۔آپ ہمارے مسکینوں کا خیال رکھتے ہیں، ہمارے لیے یہی کافی ہے۔آپ سے کوئی تعرض نہ کرے گا،ایسا ہوا تو ہم سب آپ کو بچاتے بچاتے اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔آخر کار ۶ ھ میں صلح حدیبیہ (یا ۷ھ میں جنگ خیبر ) کے بعد نُعیم اپنے خاندان کے چالیس افراد کو لے کر مدینہ منتقل ہو گئے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں گلے لگایا اورفرمایا ،نُعیم! تمھاری قوم تمھارے حق میں میری قوم سے بہتر ثابت ہوئی ۔نُعیم نے کہا، یا رسول اﷲ! آپ کی قوم بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا،میری قوم نے تو مجھے نکال دیا لیکن تمہاری قوم نے تمھیں اپنے پاس رکھا۔نُعیم نے جواب دیا، یا رسول اﷲ! آپ کی قوم نے آپ کو ہجرت پر مجبور کیا اور میری قوم نے مجھے اس فضیلت سے روکے رکھا۔ نُعیم نے بعد کے تمام غزوات میں شرکت کی۔
نًعیم سریۂ زید بن حارثہ میں شامل تھے ۔ رجب ۶ھ میں بنوفزارہ نے زیدکے قافلے پر حملہ کیا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے تھے۔رمضان ۶ ھ میں ان کے زخم مندمل ہوئے تو انھوں نے اس قبیلے پرجوابی حملہ کیا۔نُعیم بن عبداﷲ، زید کے ساتھ تھے ، انھوں نے زبردست قتال کیا۔
سخت سردیوں میں ایک بارفجر کی اذان ہوئی تو نُعیم اپنی اہلیہ کی شال اوڑھے لیٹے تھے۔انھوں نے سوچا، کاش مؤذن یہ (بھی) کہہ دیتا ،جو( اس ٹھنڈ میں) گھر میں بیٹھا رہے ،اسے کوئی گناہ نہ ہو گا۔تبھی انھوں نے ’الصلاۃ خیر من النوم‘ (نمازنیند سے بہتر ہے ) کے بعد مؤذن کو یہی الفاظ پکارتے سنا۔
نُعیم ۱۳ھ میں عہد صدیقی کے آخر میں ہونے والی جنگ اجنادین میں یا۱۵ ھ میں سیدنا عمر کے دور خلافت میں لڑی جانے والی جنگ یرموک میں شہید ہوئے۔ کچھ اہل تاریخ کا کہنا ہے،ان کی شہادت عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جنگ موتہ میں ہوئی۔
نُعیم کی اہلیہ زینب بنت حنظلہ بنو طے سے تعلق رکھتی تھیں،ان سے ابراہیم پیدا ہوئے۔عاتکہ بنت حذیفہ سے ان کی بیٹی امہ نے جنم لیا۔
ایک انصاری صحابی ابو مذکورکے پاس ایک قبطی غلام یعقوب کے علاوہ کچھ نہ تھا،اسے بھی وہ مدبّر بنا چکے تھے یعنی اپنی وفات کے بعد اس کی آزادی کا اعلان کر چکے تھے ۔ (ایسے غلام کوعام طور پر کوئی نہیں خریدتا تھا) اچانک انھیں اپنا قرض ادا کرنے کے لیے رقم کی سخت ضرورت پڑگئی، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومعلوم ہوا تو آپ نے(اسے اپنی طرف سے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا)چنانچہ صحابہ سے پوچھا،کون یہ غلام مجھ سے خریدے گا؟نُعیم بن عبداﷲ نے آٹھ سو درہم دے کر اسے خرید لیا ۔آپ نے قیمت وصول کر کے انصاری کو بھجوا دی۔ وہ غلام اس سال فوت ہوا جب عبداﷲ بن زبیر خلیفہ بنے۔(بخاری: ۶۹۴۷، فتح الباری،ابو داؤد:۳۹۵۷)
نُعیم کے بیٹے ابراہیم نے اپنا گھر تین لاکھ درہم میں اپنے پڑوسی مروان کے آگے بیچ دیا تاکہ وہ اسے اپنے گھرمیں شامل کر کے اس کی توسیع کرسکے لیکن کچھ لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا کہ یہ سودا خودنُعیم نے کیا، وہ اس وقت زندہ نہ تھے۔
نُعیم سے نافع اور محمد بن ابراہیم تیمی نے چند مرسلہ روایات نقل کی ہیں۔مسند احمد کی روایت ۵۷۲۰ کی سند میں نُعیم کا نام صالح بتایا گیا ہے ۔کہا جاتا ہے ، یہ نام خودآنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو دیا تھا تاہم ابن ابی حاتم اور ابن حجر ( الاصابہ )کے سوا کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا،دیگر اہل انساب و تراجم کے ہاں موجود نہیں۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، الطبقات الکبری(ابن سعد)،الجامع المسند الصحیح (بخاری)، معجم الصحابہ(ابن قانع)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)،البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)،سیراعلام النبلا (ذہبی)،الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)
_____________