HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانفال ۸: ۹- ۱۹ (۲)

اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ{۹} وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَئِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ{۱۰} اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً لِّیُطَھِّرَکُمْ بِہٖ وَیُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ{۱۱} اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَانٍ{۱۲} ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ شَآقُّوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَمَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ{۱۳} ذٰلِکُمْ فَذُوْقُوْہُ وَاَنَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ{۱۴}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْھُمُ الْاَدْبَارَ{۱۵} وَمَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰہُ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ{۱۶} فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْہُ بَلَا ٓئً حَسَنًا اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ{۱۷} ذٰلِکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکٰفِرِیْنَ{۱۸} اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآئَ کُمُ الْفَتْحُ وَاِنْ تَنْتَھُوْا فَھُوَ خَیْرٌلَّکُمْ وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ فِئَتُکُمْ شَیْئًا وَّلَوْ کَثُرَتْ وَاَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ{۱۹}
یاد کرو، جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے۱۹؎ تو اُس نے تمھاری فریادسن لی (اور فرمایا کہ) میں ایک ہزار فرشتے تمھاری مدد کے لیے بھیج رہا ہوں جو لگاتار پہنچتے رہیں گے۔۲۰؎ یہ اللہ نے صرف اِس لیے کیا کہ تمھارے لیے خوش خبری ہو اور اِس لیے کہ تمھارے دل اِس سے مطمئن ہوں۔(ورنہ حقیقت یہ ہے کہ) مدد تو اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے۲۱؎۔ یقینا اللہ زبردست ہے،بڑی حکمت والا ہے۔ یاد کرو ، جب اللہ اپنی طرف سے تمھاری تسکین کے لیے تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا ۲۲؎اور آسمان سے تم پر پانی برسا رہا تھا ۲۳؎کہ اُس کے ذریعے سے تمھیںپاک کرے اور تم سے شیطان کی نجاست دور کرے۲۴؎ اور (تمھیں کچھ دیر کے لیے سلا کر) تمھارے دلوں کو مضبوط کرے اور تمھارے قدم جما دے۲۵؎۔ یاد کرو، جب تمھارا پروردگار فرشتوں کو وحی کر رہا تھا۲۶؎ کہ میں تمھارے ساتھ ہوں،تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو۲۷؎۔میں اِن منکروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں۲۸؎،سو تم اِن کی گردنوں پر مارو اور اِن کے پور پور پر چوٹ لگا ئو۲۹؎۔ یہ اِس لیے کہ یہ اللہ اور اُس کے رسول کے مقابلے کو اُٹھے ہیں اور جو اللہ اور اُس کے رسول کے مقابلے کو اٹھتے ہیں تو اللہ (اُن کے لیے) سخت سزا دینے والا ہے ــــ یہ ہے (تمھاری سزا)، اِسے (ابھی) چکھ لو اور (جان لو کہ آگے) منکروں کے لیے آگ کا عذاب ہے۳۰؎۔۹-۱۴
ایمان والو،جب اِن منکروں سے تمھارا مقابلہ باقاعدہ فوج کشی کی صورت میں ہو۳۱؎ تو اِنھیںپیٹھ نہ دکھائو اور (خوب سمجھ لو کہ) جو اُس وقت اِن کو پیٹھ دکھائے گا، الاّ یہ کہ جنگ کے لیے پینترا بدلنا چاہتا ہو یا اپنی فوج کے کسی دوسرے حصے سے ملنا چاہتا ہو تو وہ خدا کا غضب لے کر لوٹا۔ اُس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۳۲؎۔(ایمان والو، تم کیوں جان چرائو، جبکہ تمھاری طرف سے خدا لڑتا ہے)؟ سو (حقیقت یہ ہے کہ اِس جنگ میں) تم نے اِن کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اِن کو قتل کیا ہے اور (اے پیغمبر)، جب تو نے اِن پر خاک پھینکی تو تو نے نہیںپھینکی، بلکہ اللہ نے پھینکی ہے۳۳؎، (اِس لیے کہ منکروں کو اپنی شانیں دکھائے) اور اِس لیے کہ مسلمانوں پر اللہ اپنی طرف سے خوب عنایت فرمائے۳۴؎۔ بے شک، اللہ سمیع و علیم ہے۔ یہ جو کچھ ہوا، تمھارے سامنے ہے۳۵؎ اور(اِس کے ساتھ) یہ( بشارت)بھی کہ اللہ اِن منکروں کی تمام تدبیریں۳۶؎ بے کار کرکے رہے گا۔اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو (قریش کے لوگو)، یہ فیصلہ آگیا ہے۳۷؎۔ اگر (اب بھی) باز آجائو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے اور اگر پھر یہی کرو گے تو ہم بھی یہی کریں گے اور تمھاری جمعیت، خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمھارے کچھ کام نہ آئے گی۔ (خوب سمجھ لو کہ) اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۳۸؎۔ ۱۵-۱۹

۱۹؎ مسلمانوں کی تعداد چونکہ اِس جنگ میں بہت تھوڑی تھی اور وہ بے سروسامان بھی تھے، اِس لیے استاذ امام کے الفاظ میں، ہر شخص سراپا عجز و نیاز اور یک سر دعا و فریاد بنا ہوا تھا۔ اِن دعائوں میں لوگوں نے کس طرح اپنے دل نکال کر اپنے رب کے سامنے رکھ دیے تھے، اُس کا اندازہ کسی حد تک اُس دعا سے کیا جا سکتا ہے جو اُس موقع پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔آپ نے عرض کیا تھا : ’’خدایا، یہ ہیں قریش، اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کر دیں۔ خدایا، اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ خدایا، اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو روے زمین پر پھر کوئی تیری عبادت نہ کرے گا*۔‘‘

۲۰؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ میدان جنگ میں حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے زیادہ دخل اِسی چیز کو ہوتا ہے کہ لڑنے والوں کو اِس بات کا اطمینان رہے کہ جب ذرا کمزور ہوں گے تو پیچھے سے کمک لازماً پہنچ جائے گی۔

۲۱؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کیا جائے تو جو کچھ بھی مدد حاصل ہوتی ہے، خدا ہی سے حاصل ہوتی ہے اور تمھیں بھی لازماً حاصل ہوتی ، مگر پہلے اِس لیے بتا دیا گیا کہ یہ چیز تمھارے لیے خوش خبری ہو اور تمھارے حوصلے کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بن جائے۔

۲۲؎ آیت میں مضارع کا صیغہ ہے۔ اِس کے ساتھ حرف ’اذ‘ ہو تو فعل ناقص کی ضرورت نہیں ہوتی، اُس کا مفہوم آپ سے آپ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی صورت اِس سے پیچھے ’یَعِدُکُمْ‘ اور ’تَسْتَغِیْثُوْنَ‘ میں بھی ہے۔ آیت میں نیند کے بجاے اونگھ کا ذکر ہوا ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ اِس طرح کی صورت حال میں اونگھ آجائے تو آدمی کچھ سو ہی لیتا ہے۔ چنانچہ یہ لفظ نہایت برمحل استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے یہ چیز مسلمانوں پر اڑھا دی، جیسا کہ ’یُغَشِّیْکُمْ‘ کے لفظ سے واضح ہے اور وہ جنگ سے پہلے رات میں سو لیے۔ اِس سے اُن کے اعصاب اور دل و دماغ کو اتنا سکون حاصل ہو گیا کہ وہ تازہ دم ہو کر میدان میں اتر سکیں۔ یہ فی الواقع خدا کی تائید کا ظہور تھا، اِس لیے کہ جہاں صبح ایک دل بادل فوج کا سامنا کرنا ہو، وہاں رات میں سو لینا آسان نہیں ہوتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ میدان جنگ میں فوج کے لیے سو لینے کا موقع مل جانا ہی اول تو بڑی نعمت ہے، لیکن اِس سے بڑی نعمت اِس موقع سے صحیح فائدہ اٹھا سکنا ہے۔ اِس لیے کہ نیند کے لیے موقع مل جانا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اِس کا اصلی انحصار دل و دماغ کی حالت پر ہے اور یہ چیز ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی، اُنھی کو حاصل ہو تی ہے جن پر خداے مقلب القلوب اپنے فضل خاص سے یہ سکینت طاری کر دے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۴۵)

۲۳؎ یعنی زمین کا پانی اگر میسر نہیں تھا تو اپنی عنایت خاص سے اُس نے آسمان کو حکم دیا کہ وہ اپنا پانی برسا دے۔ رات کی نیند اور اِس سے پہلے فرشتوں کے اترنے کی بشارت کے بعد یہ تیسری تائید الہٰی ہے جو بدر کے موقع پر ظاہر ہوئی۔

۲۴؎ یہ اُن وساوس کی طرف اشارہ ہے جو ناپاکی کی حالت میں ہجوم کر سکتے اور عین میدان جنگ میں لوگوں کو خدا کی یاد اور اُس کی تائید و نصرت پر اعتماد سے محروم کر سکتے تھے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ پانی کے حیوانی فوائدچونکہ ہر شخص کے علم میں ہیں ، اِس لیے اللہ نے اُن سے صرف نظر فرمایا اور اُن کے بجاے پانی کی روحانی برکات کا ذکر کیا ہے۔ بندئہ مومن کے لیے زیادہ اہمیت اِنھی کی ہوتی ہے۔ اِس موقع پر بھی صحابۂ کرام کو زیادہ پریشانی یہی ہو سکتی تھی کہ نماز کے لیے وضو کیسے ہو گا، طہارت کے لیے کیا کریں گے اور غسل کی ضرورت پیش آگئی تو اُس کے لیے کیا صورت اختیار کی جائے گی؟

۲۵؎ اصل الفاظ ہیں:’ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ‘۔یہ دونوں باتیں پانی سے نہیں، بلکہ نیند سے متعلق ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ نیند ہی سے متعلق ہو سکتی ہیں۔ قرآن نے یہاں ترتیب صعودی کا طریقہ اختیار کیا ہے، یعنی پہلے پانی اور اُس کے بعد نیند کے فوائد بیان کیے ہیں۔ یہی اسلوب سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱۸۵ میں بھی ہے۔ ’وَلِیَرْبِطَ‘میں حرف’ل‘کا اعادہ اِسی لیے کیا گیا ہے۔

۲۶؎ اِس سے معلوم ہوا کہ فرشتے بھی اپنے علو مرتبت کے باوجود خدا تک براہ راست رسائی نہیں رکھتے۔ اُس کے احکام اُنھیں بھی وحی کے ذریعے سے ہی ملتے ہیں۔

۲۷؎ اِس سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک یہ کہ فرشتے بھی خدا کی معیت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔دوسری یہ کہ بدر کی جنگ میں بھی اصلی چیز مسلمانوں کی اپنی شجاعت اور ثابت قدمی تھی۔ فرشتوں کا کام اُنھیں ایک طرف بٹھا کر خود لڑنا نہیں تھا، بلکہ منکروں کو ٹھیک اُن کے سامنے کر دینا اور اُنھیں ثابت قدم رکھنا تھا۔

۲۸؎ لڑنے والوں کی اصلی طاقت اُن کے حوصلے میںہوتی ہے، اِس لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ منکرین جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ بھی نہیں کر سکیں گے۔

۲۹؎ یعنی مسلمانوں کی تلواروں سے۔ یہ اُس بے بسی کی تصویر ہے جو مرعوبیت کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ حریف میں جب تک دم خم ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ اِس بات کا موقع وہ مشکل ہی سے دیتا ہے کہ آپ جہاں چاہیں، اُس کے مار دیں، لیکن جب اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تو پکڑ کر اُس کی چندیا پر جوتے لگا دیجیے، وہ چوں بھی نہ کر سکے گا۔ تعیین محل کے ساتھ جب کسی کو مارنے کے لیے کہا جائے تواِ س میں اُس کی تحقیر و تذلیل بھی مدنظر ہوتی ہے اور اِس سے اُس کی بے بسی کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۴۹)

۳۰؎ قرآن کے عام اسلوب کے مطابق اثناے کلام میں خطاب کا رخ پھر گیا ہے اور یہ بات قریش کو مخاطب کرکے فرما دی ہے۔

۳۱؎ یعنی گوریلا وارفیر یا کروفر کی جنگ کی صورت میں نہیں، جس میں حملہ کرو، لوٹو اور بھاگ جائو کے اصول پر جنگ کی جاتی ہے، بلکہ جب منظم فوج کشی کے طریقے پرمقابلہ ہو۔

۳۲؎ اِس سے معلوم ہوا کہ خدا کے حکم پر اورقتال فی سبیل اللہ کے لیے میدان میں اترنے کے بعد بزدلی اور فرار کی نوعیت کا پیٹھ دکھانا حرام ہے۔ کسی صاحب ایمان کو ہرگز اِس کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بے اعتمادی، دنیا کی آخرت پر ترجیح اور موت و حیات کو اپنی تدبیر پر منحصر قرار دینے کا جرم ہے جس کی ایمان کے ساتھ کوئی گنجایش نہیں مانی جا سکتی۔

۳۳؎ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر آمنے سامنے ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر خاک زمین سے اٹھائی اور ’شاھت الوجوہ‘کہہ کر کفار کی طرف پھینک دی**۔یہ لعنت کا جملہ اور قدیم ترین زمانے سے لعنت کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ مسلمان اِس کے ساتھ ہی یک بارگی حملہ آور ہوگئے۔ قرآن میں یہ اِسی واقعے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’یہاں زبان کا یہ اسلوب بھی نگاہ میں رہے کہ بعض مرتبہ فعل کی نفی سے مقصود نفس فعل کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ اِس فعل کے ساتھ اُن شان دار نتائج کی نسبت کی نفی ہوتی ہے جواِ س فعل کے پردے میں ظاہر ہوئے۔ مٹھی بھر نہتے مسلمانوں کا قریش کی دل بادل غرق آہن فوج کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر ڈال دینا یا آںحضرت کے دست مبارک سے پھینکی ہوئی چٹکی بھر خاک کا ایک ایسا طوفان بن جانا کہ تمام کفار کو اپنی اپنی آنکھوں کی پڑ جائے، یہ مسلمانوں کی چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی تلواروں یا پیغمبرکی ’رمی‘ کے کارنامے نہیں تھے ،بلکہ اُس دست غیب کے کارنامے تھے جو مسلمانوں کی میانوں اور پیغمبر عالم کی آستینوں میں چھپا ہوا تھا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۵۱)

۳۴؎ اصل الفاظ ہیں:’وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْہُ بَلَا ٓئً حَسَنًا‘۔ اِس کا معطوف علیہ یہاں عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق حذف کر دیا ہے، اِس لیے کہ اوپر کے الفاظ سے وہ خود بخود واضح ہو رہا ہے۔

۳۵؎ اصل میں ’ذٰلِکُمْ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ جب اِس طرح آتا ہے تو پورے جملے کا قائم مقام ہوتا ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔آگے حرف ربط’و‘کا تعلق اِسی جملے کے مفہوم سے ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ یہ جملہ ٹھیک ٹھیک اوپر کے جملہ ’ذٰلِکُمْ فَذُوْقُوْہُ، وَاَنَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ‘ کا مدمقابل جملہ ہے، یعنی کفار کے لیے یہ چپت نقد ہے جو اُن کو بدر میں لگی اور تمھارے لیے یہ فتح عظیم نقد ہے جو تمھیں حاصل ہوئی۔ اب آگے اُن کے لیے دوزخ ہے اور تمھارے لیے یہ بشارت کہ کفار کی سازشوں کے تمام تار و پود بکھر جائیں گے اور دین حق کا بول بالا ہو گا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۵۲)

۳۶؎ اصل میں لفظ ’کَیْد‘ آیا ہے ۔ اِس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ بدر کی جنگ مسلمانوں کے کسی اقدام کے نتیجے میں نہیں ہوئی، بلکہ قریش کے لیڈروں کی سازش کے نتیجے میں ہوئی۔ اُنھوں نے قافلۂ تجارت کی حفاظت کا بہانہ تراشا اور ایک لشکر جرار لے کر مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی بنا پر اِس کو اور اِس کے بعد بھی جو کچھ وہ کریں گے، اُسے ’کَیْد‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی چال اور سازش کے ہیں۔

۳۷؎ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش کو اِس جنگ میں اپنی فتح کا کامل یقین تھا۔ بدر کے لیے روانگی سے پہلے اُنھوں نے کعبے کے پردے پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ خدایا، اُس کی مدد کر جو دونوں لشکروں میں سب سے اعلیٰ ہو، جو دونوں گروہوں میں سب سے اشرف ہو، جو دونوں قبیلوں میں سب سے بہتر ہو***۔اِس طرح خود اُنھوں نے اِس جنگ کو حق و باطل میں فیصلے کی میزان ٹھیرا لیا تھا، چنانچہ یہ فیصلہ آگیا۔ آگے آیت ۴۱ میں غزوۂ بدر کو قرآن نے ’یَوْمَ الْفُرْقَان‘ کہا ہے۔ اُس کی وجہ یہی ہے۔

۳۸؎ یہ پوری آیت نصیحت بھی ہے اور فضیحت بھی۔ مطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہی سوچ سکتے ہو کہ آیندہ مزید تیاری اور قوت و شوکت کے ساتھ حملہ آور ہو گے۔ سو جان لو کہ یہ چیز بھی تمھارے کچھ کام نہ آئے گی، اِس لیے کہ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ (آخری ) ٹکڑاساری آیت کی جان ہے اور اِس کے دو لفظوں میں کفار کے لیے دھمکیوں کا اور اہل ایمان کے لیے بشارتوں کاایک جہان ہے۔ فرمایا کہ اب آئے جس کو آنا ہو اور لڑے جس کو لڑنا ہو اور جمع کرے وہ جتنی جمعیت جمع کر سکتا ہو، اہل ایمان کے ساتھ ہم ہیں ہم!! سبحان اللہ۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۵۳)

______

* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۲/ ۲۳۹۔تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر۲/ ۳۸۳۔

 ** السیرۃ النبویہ، ابن ہشام۲/ ۲۴۵۔

*** تفسیر القرآن العظیم۲/ ۳۹۲۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B