HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

بچہ اور ماں

موٹر سائیکل ایک بڑی خطرناک سواری ہے۔ یہ گاڑی کی طرح تیز رفتار ہوتی ہے مگر صرف دو پہیوں کی بنا پر اس کا توازن برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔موٹر سائیکل چلانے والے سے زیادہ اس کے پیچھے بیٹھی خواتین خطرے کی زد میں ہوتی ہیں ۔ کیونکہ وہ موٹر سائیکل پر ایک طرف رخ کرکے بیٹھتی ہیں اور ہیلمٹ بھی نہیں پہنتیں۔بعض اوقات خاتون کی گود میں کوئی شیرخوار بچہ بھی ہوتا ہے۔خاتون ایک ہاتھ سے خود کو اور دوسرے ہاتھ سے اپنے معصوم بچے کو سنبھالتی ہے۔

سڑک پر جاتے ہوئے مجھے یہ منظر ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔اس لیے کہ ان تینوں میں سب سے زیادہ غیر محفوظ یہی بچہ ہوتا ہے۔مگرمیں دیکھتا ہوں کہ یہی غیر محفوظ بچہ سب سے زیادہ بے فکر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے باپ نے موٹر سائیکل کا اور اس کی ماں نے اس کا سارا بوجھ اپنے اوپر لے کر اسے ہر فکر سے آزاد کررکھا ہوتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ جب یہ بچہ بڑا ہوگا تو اسے اپنے ماں باپ کی مہربانیوں کااحساس ہوگا اور وہ اپنی بساط کی حد تک ان کے احسانات کا جواب دینے کی کوشش کرے گا۔

اس منظر کو دیکھ کر ساتھ ہی مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ تمام انسان ایک دوسری سواری پر بھی سوار ہیں۔یہ زمین ہے جو بغیر پہیوں کے خلا میں معلق ہے اور موٹر سائیکل کی رفتار سے ہزاروں گنا زیادہ تیزی سے حرکت کررہی ہے۔مگر ایک تھامنے والا اس پر سوار انسانوں کو تھامے ہوئے ہے۔لاکھوں برس سے یہ سواری اس طرح ہموار چلی جارہی ہے کہ وہ نہ سواریوں کو جھٹکے دیتا اور نہ انھیں گرنے ہی دیتا ہے۔

مگر یہ انسان جو اخلاقی حس رکھتا ہے، ماں باپ کا حق پہچانتا ہے، اُس مہربان کی دیگر تمام نعمتوں کی طرح اِس نعمت سے بھی منہ پھیرلیتا ہے۔وہ زمین کی اس سواری کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اسے یہ کوئی احسان محسوس نہیں ہوتا۔اسے بتابھی دیا جائے کہ وہ ستر ماؤں سے بڑھ کر تمھیں چاہتا ہے۔اس لیے تم پر لازم ہے کہ تم بھی ماں سے ستر گناہ زیادہ اس سے محبت کرو۔ اس کا شکر کرو۔ مگر انسان اس کے لیے صبح وشام شکریے کے دو لفظ کہنا گوارا نہیں کرتا۔ حالانکہ اس کا شکریہ تو جان دے کر بھی ادا نہیں ہوسکتا۔

کتنا عجیب ہے وہ مہربان اور کتنا عجیب ہے یہ انسان۔


اصل خبر 

یہ حادثے کے شکار ایک ہوائی جہاز کی تصویر تھی ۔طیارے کا ملبہ اور ہلاک شدگان کی لاشیں جائے حادثہ پر بکھری پڑیں تھیں۔آگ بجھانیوالا عملہ شاید کچھ جلدی آگیا تھا۔اس لیے ان لاشوں کے جھلسنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔لیکن آگ بجھنے سے قبل ان کے لباس کے علاوہ سر کے بال اور اور جسم کی کھال کو بھی چٹ کرچکی تھی۔

یہ ایک بہت بھیانک تصویر تھی۔ مگر اس تصویر میں ایک یاددہانی بھی تھی۔یہ یاددہانی جہنم کی اُس آگ کی تھی جو اللہ تعالیٰ نے مجرموں کے لیے تیار کر رکھی ہے۔سورہ معارج میں ہے کہ یہ وہ آگ ہے جس کی لپٹ ہی چمڑی ادھیڑ ڈالے گی۔ وہ پکار پکار کر ان لوگوں کو بلائے گی جو حق کو نظر انداز کرتے اور مال کو جمع کرتے ہوں گے۔

عام طور پر جہازمیں آسودہ حال لوگ سفر کرتے ہیں۔عام لوگوں کے لیے مالداروں کے طبقے میں شامل ہونا زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔چنانچہ وہ حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیرمال جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مال اور اس سے ملنے والی راحتیں اور آسانیاں ان کی کھال کو موٹا کرنا شروع کردیتی ہیں۔وہ بے حس ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔انہیں خدا یاد رہتا ہے اورنہ روز قیامت۔ وہ ان سے بے نیاز ظلم و عدوان کی زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ زندگی کا جہازایک روز اچانک بغیر کسی اطلاع کے زمیں بوس ہوجاتا ہے۔

پھر انسان رہ جاتا ہے اور وہ آگ جس کی پسندیدہ غذا یہ موٹی کھال ہوتی ہے۔اور آج تو سائنس نے یہ بتادیا ہے کہ آگ کی جلن کا سارا عذاب صرف یہ کھال محسوس کرتی ہے۔اسی لیے جب جب یہ کھال جھلس جائے گی اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ پیدا کردیں گے۔(النساء 56:4)

قرآن نازل ہی اس لیے ہوا تھا کہ حرام کھاکر مال اکھٹا اور کھال کوموٹا کرنے والوں کو اس آگ کی خبر دیدے۔جب لوگ قرآن نہیں پڑھتے تو کوئی طیارہ گرجاتا ہے تاکہ یہ خبر اخبار میں آجائے۔مگر افسوس کہ لوگ اخبار میں بھی سب کچھ پڑھتے ہیں ،اصل خبر نہیں پڑھتے۔


گیلی لکڑیاں

ہوا، آگ، پانی اور مٹی زندگی کے بنیادی عناصر ہیں۔اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کیا ہے کہ کرہ ارض پر زندگی کے یہ تمام بنیادی عناصر کثرت سے موجود رہیں۔تاہم ان عناصر میں سے آگ ایک ایسا عنصر ہے جو حرارت کی شکل میں تو سورج سے تمام جانداروں کو براہِ راست ملتا رہتا ہے ، مگر آگ کی شکل میں یہ عام دستیاب نہیں ہے۔البتہ اللہ تعالیٰ نے وہ ایندھن بافراط اس دھرتی پر رکھ دیا ہے جس سے انسان آگ حاصل کرسکتے ہیں۔

موجودہ دورمیں قدرتی گیس آگ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ سستے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔تاہم اس سے قبل انسانی تاریخ کے تمام عرصے میں آگ کے لیے ایندھن کے طور پر لکڑیاں ہی استعمال ہوتی رہی ہیں۔ہزاروں سال تک انسان جنگلات اور درختوں سے لکڑیوں کو کاٹتے اور ان سے اپنے گھر اور چولہے گرم رکھتے رہے ہیں۔آج بھی ان علاقوں میں جہاں گیس موجود نہیں یہی ایندھن آگ کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔

جن لوگوں نے لکڑی کو ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ لکڑی پر پانی کا پڑنا اسے ایندھن کے طور پر استعمال کے قابل نہیں رہنے دیتا۔لکڑی جتنی خشک ہوگی ، اتنی ہی جلدی اور تیز آگ پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ لکڑی گیلی ہوجائے تو وہ جلتی نہیں۔ جل بھی جائے تو آگ کم اور دھواں زیادہ دیتی ہے۔.

دورِ جدیدکے مسلمانوں کی دینداری کا معاملہ بھی گیلی لکڑیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کررکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک گروہ اسلام کا علمبردار بن کر دنیا میں رہے۔ اسلام کے چمن میں مسلمانوں کی فصل درختوں کی شکل میں پیدا ہوتی رہے ۔ یہ لوگ اپنے وجود کو ایندھن کی طرح جلاکر ہدایت کی روشنی برقرار کھیں۔ مگر بدقسمتی سے آج کا مسلمان اپنا مقصدِ حیات بھول گیا ہے۔اس نے اپنے وجود میں خواہشات اور تعصبات کی نمی کو اس طرح جذب کرلیا ہے کہ اب وہ خدا کے کام کے لیے ایک گیلی لکڑی بن چکا ہے۔ اور ایسی لکڑی اول تو ایندھن کے طور پر استعمال ہونے کے قابل رہتی نہیں اور اگر کیا بھی جائے تو اس سے آگ کے بجائے دھواں نکلتا ہے ۔

ایمان کی آگ ، عمل صالح کی حرارت اور اخلاقِ حسنہ کی روشنی صرف اس وجود سے پھوٹتی ہے جس نے مفادات، خواہشات اور تعصبات کی ہر نمی سے خود کو پاک کرلیا ہو۔ یہ پاک وجود دنیا میں رہتا اور اس سے استفادہ کرتا ہے، مگر اسے اپنا مقصود نہیں بناتا۔ وہ خواہشات نفسانی کو اپنا معبود نہیں بناتا۔وہ حیوانی جذبات کو زندگی کا محور نہیں بناتا۔ وہ مادی لذات کو زندگی کا مرکز نہیں بناتا۔

ایسا بندہ مومن دنیا کو سرائے سمجھ کر زندگی بسر کرتا ہے۔دنیا کی رنگینیاں اسے اپنی جانب کھینچتی ہے، مگر وہ ان کے عارضی حسن کے لیے جنت کی ابدی بادشاہی کا نقصان اٹھانا گوارا نہیں کرتا۔ اس کے ہر لمحے، پیسے اور صلاحیت کا بہترین مصرف یہ ہوتا ہے کہ اس سے جنت حاصل کی جائے۔ایسا شخص تارک الدنیا تو نہیں ہوتا۔وہ شادی کرتا، گھر بناتا اور معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ مگر وہ جانتا ہے کہ اسے حدود میں جینا ہے، ہوس میں نہیں۔ ضرورت میں جینا ہے خواہش میں نہیں۔اسے معلوم ہوتاہے کہ دنیا ہی اس کے امتحان کا پرچہ ہے۔ یہ پرچہ اگر نہیں دیا تو آخرت کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ مگر وہ جانتا ہے کہ بہرحال یہ دنیا کمرۂ امتحان ہے، کمرۂ آرام نہیں۔ یہی یقین اسے خد اکے کام کے لیے خشک لکڑی بنادیتا ہے۔

دوسری طرف جو لوگ آخرت کو مقصودکے مقام سے ہٹادیں، وہ جتنی بھی دینداری اختیار کرلیں ، ان کی دینداری سے آگ کے بجائے دھواں پیدا ہوتا ہے۔وہ دھواں جس سے حرات پیدا ہوتی ہے نہ روشنی۔ یہ لوگ انفاق کرتے ہیں ، مگر ریا کاری کے ساتھ، یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ، مگر غفلت کے ساتھ، یہ لوگ نصرت دین کے لیے اٹھتے ہیں، مگر تعصبات کے ساتھ ۔ان کی تمام تر دینداری ان کی خواہشات اور جذبات کے تابع ہی ہوتی ہے۔

ایسی گیلی لکڑیاں دنیا میں ایندھن نہیں بن پاتیں۔ البتہ قیامت کے دن وہ ضرور ایندھن بنیں گی، مگر یہ ایندھن جہنم کا ہوگا۔وہ جہنم جہاں انسان اور پتھر ایک ساتھ جلائے جائیں گے۔


نیا آدمی نئی قوم

’’آج دنیا بھر میں مسلمانو ں کے خلاف ظلم ہورہا ہے۔یہود و ہنود ، امریکہ روس، مغربی میڈیا سب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مشغول ہیں۔آپ دیکھیے کہ کشمیر سے بوسنیا اور فلسطین سے چیچنیا تک ہر جگہ مسلمان جبر کی زد میں ہیں۔ساری دنیا کی طاقتیں مسلمانوں کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ ہر جگہ وہ ظلم کا شکار ہیں۔اس کا تازہ ترین نمونہ افغانستان اور پھر عراق پر امریکہ کے مظالم ہیں۔‘‘

یہ صاحب بے تکان بول رہے تھے اور میں خاموشی سے بیٹھا سن رہا تھا۔جب وہ بول چکے تو میں نے ان کی بارگاہ میں عرض کیا : کبھی آپ نے غور کیا کہ جتنے مظالم غیر مسلم کررہے ہیں، مسلمان خود مسلمانوں کے ساتھ اس سے زیادہ ظلم کر رہے ہیں۔ایران و عراق کی آٹھ سالہ جنگ آپ کے پڑوس میں لڑی گئی۔ قیام بنگلہ دیش کے وقت جان، مال اور آبرو کی بربادی کی داستانیں تاریخ کے خونی ورق پر آج بھی رقم ہیں۔پھر یہ بتائیے کہ آپ کے جاگیر دارانہ نظام میں جان مال اور آبرو کے خلاف ہونے والا کون سا ظلم ہے جو نہیں ہوتا۔چوری ، رہزنی ،ڈاکہ، زنا با لجبر اور قتل کی وارداتیں آپ کے شہروں کے معمولات میں شامل ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہاں انسانوں کو زندگی گزارنے کی بنیادی انسانی ضروریات بھی میسر نہیں۔ صاف پانی، تعلیم،روزگار، علاج و معالجہ اور انصاف جیسی چیزیں جو معاشرے کے لیے ناگزیر ہیں، آپ کے ہاں ایک غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔آپ غریب ہیں تو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلاسکتے۔ سفارش نہیں ہے تو ملازمت نہیں مل سکتی۔کوئی بڑی بیماری ہوجائے تو مرنے والا تو مرتا ہے مگر پورے خاندان کا دیوالیہ کرادیتا ہے۔ کوئی پوچھنے نہیں آتا۔آپ پر اگر کوئی ظلم ہوجائے تو پولیس کا تصور ہی دہشت زدہ کردیتا ہے۔ برسوں کچہری عدالت کے چکر لگاکر بھی انصاف نہیں مل پاتا۔پھر ان سب کے ساتھ رشوت، ملاوٹ، کرپشن اور ان جیسے کتنے ہی مسائل ہیں جنہو ں نے ایک عام آدمی کی زندگی کو مسائل کا جہنم بنا رکھا ہے۔

اگر آپ ایک کیلکولیٹر اٹھائیں اور مسلمانوں کے مسائل کو شمار کرنا شروع کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جو مسائل و مصائب ہم غیر مسلموں کے ہاتھوں جھیل رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ مسائل وہ ہیں جو آج مسلمانوں نے خود اپنے لوگوں کے لیے پیدا کررکھے ہیں۔

انہوں نے میری بات پوری نہیں ہونے دی اور کہنے لگے۔ یہ سارے مسائل جو تم نے گنوائے ہیں دراصل امریکی اور مغربی سازشوں کا نتیجہ ہیں۔امریکہ اور اس کے حواریوں کا صرف ایک علاج ہے۔ ان کے خلاف جہاد ہونا چاہیے۔جب امریکہ کا ناپاک وجود مٹ جائے گا تو ہمارے سارے مسائل بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔

میں نے ان سے کہا کہ پہلے دنیا بھر کے مسلمانوں پر برطانیہ مسلط تھا۔اس کے خاتمے کے بعد بھی ہمارے مسائل ایسے ہی رہے۔ پھر سوویت یونین مسلط ہوا۔ اس کے خاتمے کے بعد بھی ہمارے مسائل ایسے ہی رہے۔ اب اگر امریکہ بھی ختم ہوجاتا ہے تو ہمارے مسائل پھر بھی ختم نہیں ہوں گے۔

آپ سوچیے کہ آپ جن طاقتوں کی بات کررہے ہیں اگر وہ ظلم کر بھی رہی ہیں تو تنہا آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔مجھے بتائیے کہ آپ امریکہ،روس، ہندوستان اور مغرب کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔جبکہ آپ اگر فیصلہ کرلیں کہ آپ اپنے معاشرے کی اصلاح کرلیں تو کم از کم اپنے اردگرد آپ کئی درجے اعلیٰ سیرت واخلاق کے لوگ پیدا کرسکتے ہیں جو نہ جانے کتنے بندگان خدا کی مشکلات دور کریں گے ۔ کتنے معذوروں، بیواؤں،یتیموں ،مسکینوں اور ضعیفوں کا سہارا بنیں گے۔ کتنے بیماروں کا علاج کراکر ان کی زندگی بچائیں گے۔کتنی بے آسرا لڑکیوں کی شادیاں کراکر ان کا خاندان بسائیں گے۔ کتنے نوجوانوں کو تعلیم دلاکر ان کی زندگی سنواریں گے۔کتنے لوگوں کو جنت کے راستے تک پہنچادیں گے۔

ہمیں اپنی تعمیر کرنی ہے۔ یہ تعمیر نفرت اور تخریب کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔اٹھیے اور اپنے اردگرد محبت پھیلانا شروع کیجیے۔لوگوں کی اخلاقی تربیت کیجیے۔ انہیں اچھا انسان بنائیے۔زندگی میں کم از کم ایک انسان کی زندگی میں اجالا کردیجیے۔آپ دیکھیں گے کہ پھر اس چراغ سے کتنے چراغ جلیں گے۔

وہ کچھ نہ بولے اور سر جھکادیا۔ایک نیا آدمی پیدا ہوگیا۔ ایک نئی قوم پیدا ہوگئی۔

______________

B