الطاف احمد اعظمی
[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
یہ بات بھی میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کو بادشاہ سے کوئی کد نہیں۔ بادشاہ کو عادل ہونا چاہیے، شریعت کا پابند ہوناچاہیے۔ خلیفہ ہے تو وہ اللہ کے قانون کو، شریعت کو جاری کرنے والا ہو اور شوریٰ کا پابند ہو۔ شوریٰ کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے قانون کے تابع ہو اور اجتہاد پر مبنی ہو۔ اجتہاد کے لیے ضروری ہے کہ اہل علم، اہل استنباط اور اہل الرائے اس کے ممبر ہوں۔‘‘ ۲۷
راقم کا خیال ہے کہ جمہوریت کے بارے میں اوّل الذکر گروہ غلطی پر ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت بطور ایک سیاسی نظام کے عین اسلام ہے وہ جمہوریت کے فلسفہ اوراس کی تاریخ سے پورے طورپر واقف نہیں ہیں۔ انھوں نے یہ دیکھ کر کہ جمہوریت میں آمریت کے برخلافحکمران کا انتخاب ہوتا ہے اور اس میں خاص و عام سب شریک ہوتے ہیں اور ہر شخص کو آزادیِ فکر و عمل حاصل ہے، گمان کرلیا کہ یہ عین اسلامی طرز حکومت ہے۔
لیکن یہ محض جزئی مشابہت ہے۔ یہ اسی طرح کی مشابہت ہے جو اسلام کے نظریۂ معیشت اور سوشلزم میں ہے کہ دونوں ہی نظام ارتکازِ زر کے خلاف ہیں۔ اس جزئی مشابہت کو دیکھ کر بعض اہلِ علم نے خیال کیا کہ اسلام سوشلزم کا حامی ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے اسلامی سوشلزم کی اصطلاح وضع کرلی۔ جس طرح یہ بات غلط ہے، اسی طرح پہلی بات بھی غلط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا ایک اپنا منفرد سیاسی نظام ہے جو مشاورت کے اصول پر مبنی ہے۔ ۲۸ یہ شورائی نظام تمام مادّی نظامات سے بالکل الگ ہے۔ وہ ایک خدا پرستانہ نظام ہے جس میں خدا کی حاکمیت کا تصور مرکزی حیثیت رکھتاہے اور اس میں مادّہ اور روح دونوں کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ریاست کے امور عقل اور وحی دونوں کی رہ نمائی میں انجام دیے جاتے ہیں، جب کہ جمہوریت کے سیاسی فلسفہ میں روحانیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، وہ ایک خالص مادّہ پرستانہ سیاسی نظام ہے اورا س میں عوام ہی حاکم اور قانون ساز ہوتے ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے ذکر ہوچکاہے۔
میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ دوسرے عصری مادّی نظامات کے مقابلے میں جمہوریت اپنے متعدد نقائص کے باوجود قابلِ ترجیح ہے اور اہل دنیا کے لیے ایک مفید سیاسی نظام ہے۔ لیکن اہلِ اسلام کے لیے جمہوریت میں کشش کا کوئی سامان نہیں ہے، اور کیوں کر اس طرف ان کا میلان ہوسکتا ہے کہ وہ مادّی طرز فکر کی ترجمان ہے۔ یہ اس لیے بھی قابلِ ترجیح نہیں ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام ہر پہلو سے جمہوریت سے فائق ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہاں جمہوریت کے عناصرِ ترکیبی کا جائزہ اسلامی زاویۂ نگاہ سے لوں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ جمہوریت اور اسلام کے بعض اصولوں میں جو مشابہت نظر آتی ہے وہ بالکل ظاہری مشابہت ہے، فی الواقع ان میں مغائرت ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہو کہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں جو نقائص ہیں اور ان کا ذکر اس سے پہلے ہوچکاہے، ان سے اسلام کا سیاسی نظام پاک ہے۔
(۱) حاکمیتِ عوام: اسلامی نقطۂ نظر سے جمہوریت کی سب سے بڑی نظری خامی اس کا تصوّرِ حاکمیت ہے، یعنی یہ خیال کہ عوام ہی اصل فرماں روا، حاکم اور قانون ساز ہیں۔
اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیتِ عوام کے بجائے حاکمیتِ الٰہ کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں کسی انسان کو خواہ اس کا تعلق طبقۂ عوام سے ہو یا خواص سے، یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ حاکم بن کر دوسرے انسانوں پر حکومت کرے۔ اس میں عوام تو کجا، علماء و مشائخ کو بھی ’’اربابِ من دون اللّٰہ‘‘ بننے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ حکومت کرنے کا حق صرف اس خدائے ذوالجلال کو حاصل ہے جو انسانوں کا خالق و مالک اور ان کا پروردگار ہے۔ وہی اصلی حاکم ہے اور بقیہ سارے انسان اس کے بندے اور تابعِ فرمان ہیں۔
جن لوگوں کے ہاتھ میں سیاسی نظام کی باگ ڈور ہوتی ہے ان کی حیثیت حاکم کی نہیں بلکہ اصلی حاکم کی طرف سے بندوں کے اجتماعی معاملات کے نگراں اور منتظم کی ہے۔ ان کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ وہ خود حاکمِ کائنات کی مرضی کے مطابق چلیں اور بندگانِ خداکو بھی اس کے احکام و قوانین کے مطابق جو اس کی آخری کتاب میں دیے گئے ہیں، چلائیں اور عدل وانصاف کے ساتھ ان کے معاملات کی دیکھ بھال کریں۔ اسلام میں حکومت ایک امانت ہے اس لیے اس کا حق وہی لوگ ادا کرسکتے ہیں جو امین ہوں۔
انسان کی فطرت اس بات سے ابا کرتی ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی کرے، خواہ یہ غلامی استبدادِ شخصی کی صورت میں ہو یا جمہوریت کے خوش نما لباس میں۔ اسلام کے سیاسی نظام کے سوا کوئی دنیوی نظام ایسا نہیں ہے جو انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دے سکے۔
(۲) انفرادی آزادی: جمہوریت میں انفرادی آزادی کو بہت اہمیت حاصل ہے، لیکن اس کا مطلب مطلق آزادی نہیں، جیسا کہ جمہوریت کے نادان حامی خیال کرتے ہیں اور اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ مطلق آزادی کا مطلب فکری اور عملی انارکی ہے اور اس سے معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ ایشیاء اور افریقہ کے جمہوری ملکوں میں اس بے قید آزادی کے اندوہ ناک مظاہر اکثر وبیشتر دیکھنے میں آتے ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں ہندوستان میں دلّی اور ملک کے دوسرے حصوں میں سکّھوں کے ساتھ ہونے والا انسانیت سوز سلوک، ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلمانوں کا قتلِ عام، اور ابھی حال ہی میں اڑیسہکے عیسائیوں کی جان و مال کی بربادی اسی بے قید آزادی کے مہلک نتائج ہیں۔
اسلامی نظام میں کسی شخص یا گروہ کو اس نوع کی مطلق آزادی حاصل نہیں ہے۔ یہاں آزادی کا مفہوم اور اس کی حدود بالکل واضح ہیں۔ آزادی کا مطلب قوانین کے دائرہ میں رہ کر عمل کی آزادی ہے۔ قانون کی حد سے آگے قدم بڑھاتے ہی یہ آزادی مسلوب ہوجاتی ہے۔
اسلامی نظام میں ہر شخص کو خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، مذہب وعقیدہ، تنظیم واجتماع بشرط یہ کہ اچھے کاموں کے لیے ہو، نہ کہ شر وفساد پھیلانے کے لیے، اور کسبِ معاش کی پوری آزادی اور یکساں مواقع حاصل ہیں۔ متانت اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر اظہارِ خیال اور اختلافِ رائے کا حق بھی سب کو حاصل ہے۔ اس میں مالک اور نوکر اور مرد اور عورت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔
عہدِ نبوی کا واقعہ ہے کہ ایک عورت کو جب اس کے شوہر نے مارا تو اس نے کھلے عام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اپنے شوہر کی شکایت کی (سورۂ مجادلہ: ۱)۔ ایک بار کسی بات پر حضرت عمر کی بیوی نے ان کو پلٹ کر جواب دیا تو انھوں نے کہا، اب تمہارا یہ رتبہ ہوگیا، وہ بولیں کہ تمہاری بیٹی تو رسول اللہ سے دوبدو ایسی باتیں کرتی ہے۔۲۹
یہ اظہارِ رائے کی آزادی ہی تھی کہ ایک مرتبہ خلیفۂ دوم نے منبر پر کھڑے ہوکر کہا: اسمعوا وطیعوا ’’سنو اور مانو‘‘تو ایک شخص نے بے باکی کے ساتھ کھڑے ہوکر کہا: نہیں، پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ جو لباس پہنے ہوئے ہیں وہ کیسے بنا؟ جب خلیفہ کے فرزند عبداللہ بن عمرنے ان کی طرف سے تسلّی بخش جواب دے دیا تو اس نے کہا، ہاں اب کہو، ہم سنیں گے اور مانیں گے۔ ۳۰ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمر تقریر کر رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوگیا اور بولا: اتّق اللّٰہ یا عمر’’اے عمر، خدا سے ڈرو۔‘‘ حاضرینِ مجلس کو یہ بات گراں گزری اور ان میں سے ایک شخص نے اس کو خاموش کرنے کی کوشش کی تو خلیفہ نے کہا، اس کو کہنے دو، اگر یہ لوگ نہ کہیں تو ان کا کیا فائدہ اور ہم ان کی نہ سنیں تو ہماری کیا ضرورت۔‘‘۳۱
(۳) مساوات: جمہوریت میں جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے، سب لوگ خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، گورے ہوں یا کالے، پیدائش کے اعتبار سے مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہب، جنس اور رنگ ونسل کی بنیاد پران کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہرشخص اپنی قابلیت اور سعی وجہد سے حکومت کے اعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ قانون کی نظر میں ہر آدمی مساوی حیثیت رکھتا ہے۔
لیکن مساوات کے یہ سارے جمہوری دعوے محض کاغذ کی زینت ہیں، عمل کی دنیا میں ان میں سے ایک دعویٰ بھی آج تک حقیقت کا جامہ نہیں پہن سکا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیشتر جمہوری ملکوں میں سماج کے کمزور طبقات اور اقلیتوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ چوں کہ جمہوریت میں اکثریت کی حکومت کا قاعدہ چلتا ہے اس لیے جو طبقہ تعداد میں زیادہ ہوتا ہے وہ سماج کے ان طبقات کے ساتھ جو تعداد میں کم ہوتے ہیں، ناروا سلوک کرتا ہے، ان کو خود سے حقیر اورکم تر سمجھ کر ان کے خلاف ہر طرح کی زیادتی کو جائزسمجھتا ہے۔ ان کی جان ومال اور آبرو کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اتنا ہی نہیں، اقلّیت کی زبان کو مٹانے، ان کی تہذیبی اقدار کی بیخ کنی کرنے، ان کے ملّی تشخّص اور تہذیبی امتیازات کو اکثریت کے تہذیبی دھارے میں ضم کرنے کو وہ اپنا قومی او رملکی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میں دلتوں اور مسلمانوں اور امریکہ میں کالوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک جمہوریت کی نظری مساوات کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔
اسلام کا تصوّرِ مساوات اس عیب سے بالکل پاک ہے۔ وہ ایک متوازن تصوّرِ مساوات ہے، جس میں منافقت کا ادنیٰ شائبہ شامل نہیں ہے۔ اس تصوّرِ مساوات میں اس بات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ سارے انسان باعتبارِ پیدائش مساوی ہیں۔ فرمایا ہے:
یٰٓا اَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءًالخ (سورۂ نسآء: ۱)
’’اے لوگو، اپنے اس رب کی نافرمانی سے بچو، جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا، اور پھر دونوں (کے اتّصال) سے بہت سے مرداور عورت (بنا کر روئے زمین پر) پھیلا دیے۔‘‘
ظاہر ہے کہ جب تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں تو پھر ان کے درمیان رنگ و نسل اور زبان اورمذہب کی بنیاد پرامتیاز کرنے کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے۔ رنگ ونسل اور زبان کا اختلاف فروعی حیثیت رکھتاہے، کیوں کہ ان کا تعلق پیدائش سے نہیں بلکہ جغرافیائی حالات سے ہے۔اسلام میں ہر شخص خواہ وہ سیاہ فام ہو یا سفید فام، عورت ہو یا مرد، عجمی ہو یا عربی، مالک ہو یا نوکر، یکساں عزت و احترام کا مستحق ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
’’اے لوگو، تم سب کا رب ایک ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اورکسی کالے کو کسی گورے پر، اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری نہیں ہے مگر تقویٰ کے لحاظ سے۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘۳۲
اسی طرح حقوق اور سماجی حیثیت کے معاملے میں جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق و امتیاز روا نہیں ہے۔ فرمایا:
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.(بقرہ: ۲۲۸)
’’ان کے (یعنی عورتوں کے) لیے وہی حقوق ہیں جو مردوں کے عورتوں پر ہیں۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ ج بَعْضُکُمْ مِّنْ ط بَعْضٍ.(سورۂ اٰل عمران: ۱۹۵)
’’میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کروں گا، تم سب آپس میں ایک ہو (یعنی ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہو)۔‘‘
کنیزوں سے نکاح کے ذکر میں فرمایا ہے:
وَمَنْ لَّم یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ط وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُمْ مِّنْ م بَعْضٍ . (سورۂ نسآء: ۲۵)
’’اور تم میں سے جس کو یہ مقدرت حاصل نہ ہو کہ وہ آزاد مومنہ عورت سے نکاح کرسکے تو وہ ان مومنہ لونڈیوں سے جو تم لوگوں کی مملوکہ ہوں، نکاح کرلے، اللہ کو تمہارے ایمان کی خوب خبر ہے، تم سب آپس میں ایک ہو۔‘‘
انسانی مساوات کی یہ اعلیٰ تعلیم محض کوئی نظری معاملہ نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں جو اسلامی معاشرہ وجود میں آیا وہ مساوات کی مذکورہ بالا تعلیم پر مبنی تھا۔ اس میں پیدائشی اعتبار سے کوئی پست وبلند نہیں تھا۔ امیر وغریب اور آقا و غلام سب آپس میں بھائی تھے۔ سب کو دنیوی اور دینی ترقی کے یکساں مواقع حاصل تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو لشکر شام کی طرف بھیجا گیا اس کے کمانڈر ایک نو عمر صحابی اسامہ بن زید تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے فرزند۔اس لشکر کی روانگی کا حال ایک اسلامی مؤرّخ کے لفظوں میں ملاحظہ ہو:
’’حضرت اسامہ گھوڑے پر سوار تھے اور جانشینِ رسول (خلیفہ) پیادہ پا گھوڑے کے ساتھ دوڑ رہے تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوف لگام تھامے ہوئے تھے۔ اسامہ نے کہا، اے جانشینِ رسول! آپ بھی سوار ہو لیں، ورنہ مجھے اترنے کی اجازت دیں۔ فرمایا، نہ میں خود سوار ہوں گا اور نہ تم کو اترنے کی اجازت دوں گا۔ یہ تعلیم اس بنا پر تھی کہ کوئی نو عمروں اور غلام زادوں کو حقیر نہ سمجھے۔‘‘۳۳
حضرت عمر کے سفر شام کا حال بیان کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی نے لکھاہے کہ ’’حضرت علی کو مدینہ کی خلافت دی اور خود ایلہ کو روانہ ہوئے۔ یُرفا ان کا غلام اوربہت سے صحابہ ساتھ تھے۔ ایلہ کے قریب پہنچے تو کسی مصلحت سے اپنی سواری غلام کو دی اور خود اس کے اونٹ پر سوار ہوئے۔ راہ میں جو لوگ دیکھتے تھے، پوچھتے تھے کہ امیر المومنین کہاں ہیں؟ فرماتے کہ ’’تمہارے آگے۔‘‘۳۴
مساوات کی اسلامی تعلیم پر اس وقت بھی عمل کیا گیا جب اسلامی معاشرے میں بہت سی خرابیاں آگئی تھیں۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ عہدِ عباسی کے نامور خلفاء مامون الرشید (۸۱۳۔۸۳۳) اور معتصم (۸۳۳۔۸۴۲) لونڈیوں کے بطن سے تھے۔۳۵ مصر وشام میں ۱۲۵۰ سے ۱۳۸۲ تک جن مسلمانوں نے حکومت کی وہ غلام یعنی مملوک تھے۔۳۶
ہندوستان میں پہلی اسلامی حکومت قائم کرنے والا قطب الدین ایبک (۱۲۰۶۔۱۲۱۰) سلطان شہاب الدین غوری (۱۲۰۲۔۱۲۰۶) کا غلام تھا۔ قطب الدین کے بعدجو لوگ تخت حکومت پر بیٹھے وہ سب غلام تھے۔ یہ دور جو تقریباً ایک سو سال پر محیط ہے، تاریخ میں عہدِ غلاماں (The Slave Period) کے نام سے مشہور ہے۔
اسلام کے تصورِ مساوات میں تیسری چیز جو نمایاں حیثیت رکھتی ہے وہ قانونی مساوات ہے، یعنی سارے لوگ خواہ ان کا تعلق سماج کے کسی طبقہ سے ہو، قانون کی نظر میں مساوی ہیں۔ اور اس کی مثالیں اسلامی تاریخ میں بکثرت ہیں۔ ایک بار قبیلۂ قریش کی ایک عورت فاطمہ بنت قیس نے چوری کی تو مسلمانوں نے اسامہ بن زیدکے توسّط سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کرائی کہ عورت کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔ آپ نے فرمایا:
والذی نفس محمد بیدہ لو سرقت فاطمۃ بنت محمد لقطعت یدہا.۳۷
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر فاطمہ بنت محمد نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘
خلیفۂ دوم کے عہد کا واقعہ ہے کہ مصر کے گورنر عمرو بن العاص کے صاحب زادے محمد بن عمرو نے ایک قبطی مصری کو محض اس بنا پر تازیانے مارے کہ گھوڑ دوڑ میں اس کا گھوڑا آگے نکل گیا تھا۔ خلیفہ کو جب اس زیادتی کی خبر ملی تو باپ اور بیٹے دونوں کو مدینہ طلب کیا اور مصری کے ہاتھ میں کوڑا دے کر فرمایا: ’’مار شریفوں۳۸ کے بیٹے کو۔‘‘ صاحب زادے کی پٹائی کے بعد فرمایا ’’عمرو بن العاص کی چندیاں پر بھی درّے لگا، کیوں کہ خدا کی قسم اس نے اس کی حکومت ہی کے بل پر تجھے مارا ہے۔‘‘ مگر مصری نے کہا کہ امیر المومنین، جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا اور میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا۔‘‘ ۳۹ اس موقع پر خلیفہ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
منذکم تعبدتم الناس وقد ولدتہم امہاتہم احرارا.۴۰
’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا ہے حالاں کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا۔‘‘
حضرت عمرہی کے دورِ خلافت کا واقعہ ہے کہ جبلہ بن الایہم غسانی نے ایک بدّو کو تھپڑ مار دیا۔ اس نے بھی ایسا ہی کیا اور معاملہ خلیفہ تک پہنچا۔ انھوں نے بدّو کے بدلے کو درست قرار دیا۔ اس فیصلے پر غسّانی نے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا ’’امیر المومنین، یہ کیسے ہوسکتاہے؟ وہ ایک عام آدمی ہے اورمیں اپنے علاقے کا بادشاہ ہوں۔ خلیفہ نے فرمایا ’’اسلام نے دونوں کو بھائی بنا دیا ہے، اب تم صرف تقویٰ کے ذریعہ سے اس پر فضیلت حاصل کرسکتے ہو، کسی اور صورت میں نہیں۔۴۱ ‘‘
علامہ شبلی نعمانی نے ’’کنزل العمال‘‘ کے حوالے سے اس واقعے کو اس طرح بیان کیا ہے:
’’جبلہ بن الایہم غسانی شام کا مشہور رئیس بلکہ بادشاہ تھا اور مسلمان ہوگیا تھا۔ کعبے کے طواف میں اس کی چادر کا ایک گوشہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے آگیا۔ جبلہ نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا۔ اس نے بھی برابر کا جواب دیا۔ جبلہ غصّے سے بے تاب ہوگیا اور حضرت عمرکے پاس آیا۔ حضرت عمرنے اس کی شکایت سن کر کہا، تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی۔ اس کو سخت حیرت ہوئی اور کہا کہ ہم اس رتبہ کے لوگ ہیں کہ کوئی شخص ہمارے ساتھ گستاخی سے پیش آئے تو قتل کا مستحق ہوتا ہے۔ حضرت عمرنے فرمایا، جاہلیت میں ایسا ہی تھا۔ لیکن اسلام نے پست وبلند کو ایک کردیا۔ اس نے کہا کہ اگر اسلام ایسا مذہب ہے جس میں شریف وذلیل کی کچھ تمیز نہیں تو میں اسلام سے باز آتا ہوں۔ غرض وہ چھپ کر قسطنطنیہ چلا گیا۔‘‘۴۲
خود خلیفۂ دوم نے اپنے بیٹے عبد الرحمن بن عمر پر شراب نوشی کے جرم میں حد جاری کرکے حاکم اور رعایا کے درمیان قانونی مساوات کی ایک ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ کے صفحات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔۴۳ جمہوریت کے علم بردار قانون کی نظر میں مساوات (equality before the law) کا بہت چرچا کرتے ہیں، لیکن کیا وہ کوئی ایسا واقعہ پیش کرسکتے ہیں کہ کسی جمہوری ملک کے فرماں روا نے اپنے اہلِ خاندان کو ان کے کسی جرم پر خود اپنے ہاتھوں سزا دی ہو یا پیش قدمی کرکے عدالت سے سزا دلوائی ہو؟
ابھی تک جمہوریت کی نظری خامیوں سے بحث کی گئی ہے اوراس کے بالمقابل اسلامی نظام حکومت کے نظری اور عملی پہلوؤں کو پیش کرکے دکھایا گیا ہے کہ اس کے اصول اورقاعدے زیادہ عمدہ اور عدل پر مبنی ہیں۔ اب آگے جمہوریت کے عملی نقائص پر گفتگو ہوگی اور اس کے بعد اسلام کے شورائی نظام کے عملی طریقوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جائے گا۔
عملی اعتبار سے جمہوریت کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں حکومت کی تشکیل براہِ راست عوام کے ذریعہ ہوتی ہے۔ جن ملکوں بالخصوص ایشیاء اور افریقہ کے عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے، ان سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ سیاسی بیداری کا ثبوت دیں گے اور ان ہی افراد کو منتخب کریں گے جو سیاسی فہم اور قانون سازی کی صلاحیت رکھتے ہوں، نادانی کی بات ہوگی۔ اور یہ بات ان ملکوں کے جمہوری تجربوں سے بالکل واضح ہے۔
دوسرا عملی نقص یہ ہے کہ عوام انتخاب کے ذریعے اپنے جو نمایندے چنتے ہیں ان کے لیے کسی طرح کی علمی قابلیت اور سیرت کی خوبی لازمی نہیں ہے۔ ہر شخص خواہ وہ بالکل ناخواندہ ہو، عوام کا نمایندہ بن سکتا ہے، حتّی کہ خراب سیرت کے لوگ بھی اکثر اوقات مجلسِ قانون ساز کے رکن منتخب ہوجاتے ہیں۔
یہ طرفہ تماشا نہیں تو کیا ہے کہ حکومت کے مختلف مناصب پر تقرّر کے لیے ایک خاص لیاقت ضروری ہے، اس کے بغیر کسی عہدہ کا حصول ناممکن ہے۔ لیکن سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جس کے لیے کوئی لیاقت مطلوب نہیں ہے، حالاں کہ یہ شعبہ حکومت کے دوسرے تمام شعبوں کے لیے مثل دماغ کے ہے۔ اگر اس شعبہ میں صاحبِ علم افراد نہ ہوں تو حکومت کے دوسرے شعبوں کی کارکردگی کا متأثر ہونا لازمی ہے۔ یہی وہ شعبہ ہے جو مجلسِ آئین ساز کی شکل میں قوانین وضع کرتا ہے اور مجلسِ عاملہ کی شکل میں ان کو نافذ کرتا ہے۔ کام کی یہ نوعیت خود بتاتی ہے کہ اس شعبہ میں کس قسم کے افراد کی ضرورت ہے۔ ماہرینِ علمِ سیاست کا یہ متّفقہ خیال ہے کہ کوئی جمہوری حکومت صرف اسی صورت میں کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے جب اسے دوراندیش اور بیدار مغز قیادت میسّر ہو۔
جمہوریت کے مذکورہ نقص ہی کی وجہ سے افلاطون (۴۲۸۔۳۴۸ ق م) نے اپنی کتاب ریاست (The Republic) میں لکھاہے:
’’جمہوریت محض نراج کا نام ہے، اس میں بناوٹ اور تصنّع کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے شہری خود غرضی اور مکّاری میں ایسے ڈوبے ہوتے ہیں کہ کوئی کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ شہریوں میں فرقہ بندیاں نمودار ہوتی ہیں اور ہر فرقہ کا کوئی ایسا مکّار اور چال باز آدمی سردار بن جاتا ہے جسے اپنے اقتدار کے علاوہ کسی اور بات کی فکر نہیں ہوتی۔ آخر میں ایک وقت آتا ہے جب انھی فرقوں کے سرداروں میں سے ایک شہر کا مطلق العنان بادشاہ بن بیٹھتا ہے۔ اس شخص کی ہوس اور شہرت کی بے لگامی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوتی ہے، دیکھنے میں وہ دوسروں کا بادشاہ، لیکن دراصل اپنی خواہشوں کا بے بس غلام ہوتا ہے، اور کوئی ایسی کمینی اور ظالمانہ حرکت نہیں ہوتی جو اس سے سرزد نہ ہو، اس لیے کہ اس کا دل عقل کی روشنی اور اخلاق کی رہبری سے محروم ہوتا ہے۔‘‘۴۴
جمہوریت کا تیسرا عملی نقص اس کا جماعتی طریقۂ انتخاب ہے۔ اس قاعدے کے مطابق وہی لوگ بحیثیت امیدوار کھڑے ہوتے ہیں جن کو کوئی سیاسی جماعت اپنا امیدوار بناتی ہے۔ اور جماعت ان ہی لوگوں کو اپنا امیدوار بناتی ہے جو جماعت کے قائدکے فرماں بردار ہوتے ہیں یا کسی ایسے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مفادات کی یہ جماعت نگراں اور محافظ ہوتی ہے۔ اس طرح ہر سیاسی جماعت ملک و قوم کے مفاد کو پیش نظر رکھنے کے بجائے جماعتی یا شخصی مفادات کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملکی سیاست میں جماعتی اور شخصی مفادات کو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔
اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہے کہ سماج کے بہت سے افرادعلم و تجربہ اور کردار کی خوبیاں رکھنے کے باوجود محض سرمایہ کی قلّت اور کسی سیاسی جماعت یابڑی سیاسی شخصیت سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے ملکی سیاست سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ملک باصلاحیت اور صاحبِ کردار افراد سے محروم ہوجاتا ہے اور ملک کی زمامِ اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آجاتی ہے جو نااہل ہی نہیں ہوتے بلکہ پرلے درجے کے خود غرض اور مفاد پرست ہوتے ہیں۔ اور بالآخر ایسے بدقماش لوگوں کے ہاتھوں ملک تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔
جمہوریت کا چوتھا عملی نقص یہ ہے کہ اس میں انتخاب کا عمل مسرفانہ ہے۔ اس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ ملک کی دولت ضائع ہوتی ہے اور دوسرا نقصان جو زیادہ بڑا ہے، یہ ہے کہ انتخاب میں وہی لوگ حصّہ لے سکتے ہیں جو خود سرمایہ دار ہوںیا کسی سرمایہ دار یا سیاسی جماعت کی انھیں حمایت حاصل ہو۔ اس طرح دیکھیں تو درپردہ وہ لوگ حکومت چلاتے ہیں جو سرمایہ دار ہوتے ہیں، اور ان لوگوں کو اپنے صنعتی اور تجارتی مفادات کے علاوہ کسی دوسری بات سے مطلق دلچسپی نہیں ہوتی۔
جمہوریت کے برخلاف اسلام کا شورائی نظام ان سب خرابیوں سے پاک ہے۔ اس میں حکومت کی تشکیل تو انتخاب ہی کے ذریعے سے ہو گی لیکن درج ذیل شرائط کی پابندی لازمی ہے۔
(۱) انتخاب میں وہی لوگ حصہ لینے کے مجاز ہیں جو اس کے اہل ہوں (سورۂ نسآء: ۵۸)۔ حضرت ابو ذر غفّاری سے روایت ہے کہ:
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے حکومت کے کسی عہدے پر مامور کیا جائے۔ آپ نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا، ابوذر، یہ ایک بھاری امانت ہے اور تم ایک کم زور آدمی ہو۔ قیامت کے دن یہ امانت باعث رسوائی ہوگی، مگر اس کے لیے نہیں جو اس کو حق کے ساتھ اٹھائے اور اس کی ذمّہ داریوں کو کماحقّہ ادا کرے۔‘‘۴۵
اسی تعلیم کا اثر تھا کہ خلیفۂ دوم نے منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد فرمایا:
’’اگر میں جانتا کہ کوئی دوسرا مجھ سے زیادہ امورِ خلافت کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس صورت میں منصبِ خلافت کی ذمّہ داری قبول کرنے کے مقابلے میں میرا قتل کیا جانا میرے لیے زیادہ راحت کا باعث ہوتا۔‘‘۴۶
قرآن میں اہلیت کا جو معیار مقرر کیا گیا ہے وہ ’’علم وجسم‘ ۴۷ اور تقویٰ ہے۔
(۲) کوئی شخص خود کسی عہدہ کا خواہش مند نہ ہو لیکن اگر کوئی ذمّہ داری اس کو دی جائے تو قبول کرلے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
انا، واللّٰہ، لانولی علی ہذا العمل احداً سائلہ ولا احداً حرص علیہ.۴۸
’’خدا کی قسم، میں کسی ایسے آدمی کو انتظام حکومت میں کوئی عہدہ نہ دوں گا جو اس کا خواستگار ہو اور اس کی حرص رکھتا ہو۔‘‘
عہدہ طلب نہ کرنے کی وجہ بھی آپ نے بتادی ہے۔ عبدالرحمن بن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا:
یا عبد الرحمن، لا تسأل الامارۃ، فانک ان اعطیتہا عن مسئلۃ وکلت الیہا وان اعطیتہا عن غیر مسئلۃ اعنت علیہا.۴۹
’’اے عبد الرحمن، امارت طلب نہ کرو، کیوں کہ اگر وہ تمھیں طلب کرنے پر ملی تو تمھیں اس کے حوالے کردیا جائے گا اور اگر بغیر مانگے مل گئی تو اللہ کی طرف سے اس کام میں تمہاری مدد کی جائے گی۔‘‘
اس سلسلے میں ایک دوسری روایت بھی قابلِ ذکر ہے جس میں امارت سے متعلق ایک استفسار کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اے ابوبکر وہ اس کے لیے ہے جو اس سے بے رغبت ہو، نہ کہ اس کے لیے جو اس پر ٹوٹا پڑتا ہو، وہ اس کے لیے ہے جو اس سے بچنے کی کوشش کرے، نہ کہ اس کے لیے جو اس پر جھپٹے، وہ اس کے لیے ہے جس سے کہا جائے کہ یہ تیرا حق ہے، نہ کہ اس کے لیے جو خود کہے کہ یہ میرا حق ہے۔‘‘۵۰
عہدہ و منزلت کی طلب ایک فطری خواہش ہے اور اس سے وہی لوگ بے نیازی اختیار کرسکتے ہیں جن کے نفس پاکیزہ یعنی تقویٰ کے حامل ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیق نے جب حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کیا تو ان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’عمر پہلی چیز جس کی طرف سے میں تمھیں ہوشیار رہنے کی نصیحت کرتا ہوں وہ خود تمہارا نفس ہے۔ ہر نفس کی کچھ خواہش ہوتی ہے اور جب تم اس کی کوئی خواہش پوری کردو گے تو وہ آگے بڑھ کر دوسری خواہش کے لیے مچلنے لگے گا۔ اوردیکھو اصحابِ رسول میں سے اس گروہ سے ہوشیار رہنا جن کے پیٹ پھول گئے ہیں، نگاہوں میں ہوس بس گئی ہے، اور ان میں سے ہر ایک کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے۔۔۔ اچھی طرح سمجھ لو کہ جب تک تم اللہ سے ڈرتے رہوگے، جب تک تمہاری روش درست رہے گی، یہ لوگ بھی تمہارے لیے سیدھے رہیں گے۔‘‘۵۱
(۳) انتخاب غیر جماعتی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست جسدِواحد کی طرح ہے، اس لیے سیاسی اور مذہبی یا کسی اور بنیاد پرجماعت سازی کا مطلب اس کی ہیئتِ اجتماعی کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام میں فرقہ بندی ممنوع ہے، خواہ یہ سیاسی ہو یامذہبی۔ فرمایا ہے:
وَلَا تَکُوْنُوا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلفُوا.(اٰل عمران: ۱۰۵)
’’(اے مسلمانو!) ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے باہم تفرقہ اور اختلاف کیا۔‘‘
اسلامی نظام حکومت میں مجلسِ شوریٰ ہی کوحزبِ اختلاف کی حیثیت حاصل ہے، اس کو پورا حق حاصل ہوگا کہ وہ غیر جانبدارانہ طور پر حکومت پر تنقید اور اس کا محاسبہ کرے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے ارکان کا انتخاب غیرجماعتی بنیاد پرہو۔
(۴) امیر ریاست (صدر مملکت)۵۲ کاانتخاب براہِ راست عوام کے بجائے اہل الرّائے کے ذریعے سے ہو اور یہ اہل الرّائے مجلس شوریٰ کے منتخب ارکان ہوں گے۔ ماضی میں اس کی کئی نظیریں موجود ہیں۔ خلیفۂ اوّل کا انتخاب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار اور مہاجرین کے مشورہ سے ہوا، یہ لوگ اپنی قوم کے اہل الرّائے تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ کی حیثیت مجلسِ شوریٰ کی تھی۔ اگرچہ خلیفۂ دوم کو نامزد کیا گیا تھا لیکن بعد میں بیعت عام کے ذریعہ جس میں مدینہ کے اہلِ الرائے شریک تھے، اس نام زدگی کی توثیق ہوئی۔ خلیفۂ سوم کی شہادت کے بعد بدقسمتی سے انتخابِ امیر کا طریقہ موقوف ہوگیا اور ملوکیت کا دور شروع ہوا۔
اس میں استثنائی حیثیت اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیزؓ (۷۱۷۔۷۲۰)کی ہے۔ انھوں نے دوبارہ شورائی طریقۂ انتخاب کو اختیار کیا۔ سلیمان بن عبد الملک (۷۱۵۔۷۱۷) نے ان کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا لیکن وہ اس تقرر سے راضی نہیں ہوئے اور اعلان فرمایا:
ایّہا الناس، انّی ابتلیت بہذا الامر من غیر رائی منّی ولا طلبۃ ولا مشورۃ من المسلمین، وانی قد خلعت ما فی اعناقکم من بیعتی فاختاروا لانفسکم غیری.۵۳
’’لوگو! مجھے میری رائے اور خواہش، نیز مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر حاکم بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے میں تمھیں اپنی بیعت سے آزاد کرتا ہوں۔ اب تم میرے سوا جس کوچاہو اپنا امیر بنا لو۔‘‘
چنانچہ اس وقت جو لوگ مسلمانوں کے اہل الرّائے تھے انھوں نے اپنی خوشی سے عمر بن عبد العزیزؒ کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا۔ یہ اہل الرّائے دراصل اہلِ استنباط ہیں جن کا ذکر ان لفظوں میں ہوا ہے:
وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلآی اُولِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْ. (سورۂ نسآء: ۸۳)
’’اگر وہ اس خبر کو رسول اور اپنے اولو الامر تک پہنچادیتے تو ان میں جو اہلِ استنباط ہیں وہ (اس خبر کی اصلیت کو بآسانی) جان لیتے۔‘‘
اس آیت سے اسلامی نظام حکومت میں اہل الرّائے کا مقام اور ان کا کارِ منصبی بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ حکومت سازی میں اہلِ استنباط کی رائے کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ عوام کاکام یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنا نمایندہ بنائیں جو ان کے درمیان اپنی معاملہ فہمی اور حسنِ سیرت کے لحاظ سے ممتاز ہوں۔ اور پھر یہ اخیارِ امّت اسلامی ریاست کے امیر کو منتخب کریں۔ یہی طریقہ مطابقِ عقل ہے اور تجربے اور مشاہدے سے بھی اس کی افادیت ثابت ہوچکی ہے۔۵۴
(۵) اہل الرّائے اور امیر دونوں کا انتخاب سادگی سے ہو۔ ہر امیدوار کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں اپنا تعارف کرائے اور بتائے کہ اگر وہ منتخب ہوگیا تو عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کام کرے گا۔ اس مقصدکے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے موجودہ ذرائع کا استعمال پہلے سے مقررہ ضوابط کے مطابق کیا جائے اوراس کا خرچ اسلامی ریاست برداشت کرے۔ آج کل جمہوری ملکوں میں الیکشن کے موقع پر جس طرح تعارف و تشہیر (campaigning) کے نام پر ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اور مسرفانہ طریقے اختیار کیے جاتے ہیں وہ سب ممنوع ہوں۔ کسی امیدوار کو اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ خود کو منتخب کرانے کے لیے اپنی دولت کا بے جا استعمال کرے اور جدید تشہیری وسائل کے ذریعہ سے شور وہنگامہ کرکے عام لوگوں کے امن و سکون اورکاروباری مشاغل میں خلل انداز ہو۔ جس طرح شخصی تعارف سیدھا اور براہ راست ہوتاہے اسی طرح انتخابی تعارف بھی سیدھا اور آسان ہونا چاہیے، جیسا کہ اہلِ ایمان کو ہدایت کی گئی ہے:
یٰٓاََ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا.(سورۂ احزاب: ۷۰)
’’اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو (یعنی داؤں پیچ سے کام نہ لو)۔‘‘
گزشتہ صفحات میں جمہوریت اوراسلام کے نظامِ حکومت کا جو تقابلی تعارف پیش کیا گیا ہے اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ ان نظامات میں نہ صرف اصولی اختلاف ہے بلکہ ان کے لائحہ عمل بھی مختلف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمدّنی مسائل کا حل نہ جمہوریت میں ہے اور نہ ہی کسی اور سیاسی نظام میں، ان کا حل صرف اسلام کے شورائی نظام میں ہے جو خدا کے قانون (قرآن) اور مسلمانوں کے اہل الرّائے کے مشورہ پر مبنی ہے۔ قانونِ خداوندی اور مشاورت سے انحراف کا دوسرا نام آمریت اور استبدادی حکومت ہے۔ چوں کہ غیر مسلموں کے پاس جمہوریت کا کوئی موزوں متبادل نہیں ہے اس لیے جمہوری نظام ان کے لیے مفید ہے، لیکن مسلمانوں کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ ان کے پاس اسلام کا شورائی نظام موجود ہے جو جمہوریت سے بدرجہا فائق ہے۔ وہ ان نقائص سے جیسا کہ تفصیل سے بیان کیا گیا، بالکل خالی ہے جو جمہوری نظام میں پائے جاتے ہیں۔
____________