[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
امکان غالب ہے کہ حضرت ارقم ۵۹۴ء میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام عبد مناف تھا لیکن اپنی کنیت ابوارقم سے مشہورہوئے۔ اسد (ابوجندب)ان کے دادا اور عبداﷲ پڑدادا تھے۔ارقم قریش کے ذیلی قبیلہ بنو مخزوم سے تعلق رکھتے تھے،کعب بن لؤی ان کے آٹھویں جد تھے ۔ان کی والدہ تماضر بنت حذیم (امیمہ یا صفیہ بنت عبد الحارث) بنو سہم یا بنو خزاعہ(ابن سعد) سے تھیں۔ابو عبیداﷲ ان کی کنیت تھی۔
ارقمؓ قریش کے اہل دانش میں سے تھے،اس کا ثبوت حلف الفضول میں ان کی شرکت سے ملتا ہے ۔اس عہد نامے کا پس منظر یہ ہے۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مکہ لڑائی جھگڑوں کا مرکز بن چکا تھا ۔وہاں کے باشندگان اس صورت حال سے عاجز آ چکے تھے کیونکہ ان کے لیے تجارتی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہ رہا تھا۔ جنگ فجار (۵۸۵ء)کے بعدشہر کو جھگڑوں سے پاک کرنے کی ضرورت زیاد ہ محسوس ہونے لگی ۔ اسی اثنا میں یمن کے شہر زبید سے (بنو اسد کا) ایک تاجر مکہ آیا اوربنو سہم کے ایک شخص کو کچھ سامان فروخت کیا لیکن اس نے طے شدہ قیمت دینے سے انکار کر دیا۔ تاجرجبل ابو قبیس پر چڑھ گیا اورانصاف کے لیے چلانے لگا تب قریش کے بڑے سرداروں کاعبداﷲ بن جدعان کے گھر اجلاس ہو جس میں طے ہوا کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اورمظلوموں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے مشترکہ کاوشیں کی جائیں۔پھرشرکا نے حجر اسود کے پاس جا کر عہد کیا اور ایک معاہدہ تحریر کر کے خانہ کعبہ کے اندر رکھ دیا۔اس معاہدے کو حلف الفضول کا نام دیا گیا کیونکہ اس میں فضل نام کے تین حضرات نے حصہ لیا،اس کی دوسری وجۂ تسمیہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہ معائدہ اہل مکہ کے لیے فضائل کا باعث بنا ۔بنو ہاشم،بنو اسد،بنو زہرہ ،بنو حارث اور بنو تیم کے قبائل اس عہد میں شریک ہوئے لیکن بنو نوفل اور بنو امیہ نے حصہ نہ لیا۔حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم،ابو بکرؓ، عبداﷲؓ بن جدعان اور ارقمؓ بن ابو ارقم حلف الفضول کے ارکان میں شامل تھے۔ حلف الفضول سے عربوں کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی تو نہ آئی تاہم، ایک مائل بہ جنگ معاشرے میں انصاف کی کرن چمکی،یمن اور دوسرے علاقوں سے مکہ میں تاجروں کی آمد ورفت میں رکاوٹیں کم ہو گئیں۔ اخلاق اسلامی اور حقوق انسانی کی تاریخ میں یہ حلف ایک سنگ میل کے طور پر سامنے آتا ہے۔آمد اسلام کے بعد بھی کچھ نزاعات اس کی بنیاد پرنمٹائے گئے ۔
ارقمؓ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔وہ حضرت ابوبکرؓ کی دعوت پر ایمان لائے، انھی کی نصیحت پرحضرت عثمانؓ مشرف باسلام ہوئے تھے۔سیدنا عثمانؓ کے خلعت ایمان پہننے کے دوسرے دن ابوبکرؓ ابوعبیدہؓ بن جراح،عثمانؓ بن مظعون،عبدالرحمانؓ بن عوف ،ابوسلمہؓبن عبدالاسداورارقمؓ بن ابو ارقم کو نبئ آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے ،سب نے آپ کے دست مبارک پر بیعت ایمان کی۔ نعمت ہدایت پانے والوں میں ارقمؓ کا ساتواں (یا بارہواں) نمبر تھا۔ پہلی روایت کی تائید ارقمؓ کے بیٹے عثمان کے اس قول سے ہوتی ہے،میرے والد اسلام میں داخل ہونے والے ساتویں شخص تھے۔ ارقمؓ کا گھر کوہ صفاکے دامن میں مشرقی جانب ایک تنگ گلی میں تھا،عام لوگوں کو یہاں آنے جانے والوں کی خبر نہ ہوتی ۔ ابتدائے اسلام میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم اسی گھرمیں نشست فرماتے تھے، تب قریش کی طرف سے ایذاؤں کا خطرہ تھا ،اس لیے آپ نے مشرکوں سے مخفی رہ کر دعوت حق کو پھیلایا۔ آپ دار ارقمؓ میں حاضر ہونے والے مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیتے اوریہ باہر جا کر آپ کے ارشادات عام کرتے۔اس طرح دار ارقمؓ کو پہلا اسلامی مدرسہ یاپہلی مسلم جامعہ کہا جا سکتا ہے۔۳ نبوی میں جب اہل ایمان کی تعداد اڑتیس ہوگئی تو ابوبکرؓ نے ایمان کا اظہار کرنے پر اصرار کیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، ابھی ہم قلیل ہیں، ابوبکرؓ اپنی بات پر زور دیتے رہے تو آپ مسلمانوں کو لے کر بیت اﷲ کے گرد پھیل گئے ۔ابوبکرؓ کھڑے ہوکر خطبہ دینے لگے ،انھوں نے مکہ والوں کو اﷲ ورسول کی دعوت دینا شروع کی تھی کہ مشرکین ان پر اور سامعین اہل ایمان پر پل پڑے۔عتبہ بن ربیعہ نے اپنی بھاری جوتی اتار لی اور ابوبکرؓ کو پیٹنے لگا ، ا ن کے پیٹ پر چڑھ کر جوتے کے کنارے سے ان کے چہرے پراتنی ضربیں لگائیں کہ منہ سوج کر کپا ہو گیااور ناک اس میں چھپ گئی۔اسی دن آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچاحمزہؓ بن عبدالمطلب اور ابوبکرؓ کی والدہ ام خیرؓ نے اسلام قبول کیا ۔ مخلصین اہل ایمان کی تعداد چالیس ہو گئی تھی، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دار ارقمؓ ہی میں بیٹھ کر دعا فرمائی،اے اﷲ!تمہیں عمرؓ بن خطاب یاعمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے جو زیادہ پسند ہے،اس کے ذریعے اسلام کو عزت بخش۔یہ بدھ کا دن تھا، اگلے ہی روز یعنی جمعرات کو عمرؓ بن خطاب نے گلے میں تلوار لٹکا کر دارارقمؓ کا رخ کیا ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور چالیس کے قریب صحابہؓیہاں جمع تھے۔عمرؓ کا ارادہ سب کو قتل کرنے کا تھا،راستے میں نُعیمؓ بن عبداﷲ سے ملاقات ہوئی ۔انھوں نے کہا،تمہاری بہن فاطمہؓ اور بہنوئی سعیدؓ بن زید مسلمان ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہو چکے ہیں،پہلے ان کی خبر لے لو۔ عمرؓنے جا کر ان کو مارا پیٹا لیکن سورۂ طہٰ کی آیات سننے کے بعد دل پلٹ گیا ۔ اب وہ مسلمان ہونے کے ارادے سے نکلے، خبابؓ بن ارت سے ملاقات ہوئی اورپھر دار ارقمؓ پہنچ گئے۔عمرؓ مشرف باسلام ہوئے تویہاں موجود مسلمان باہر نکلے، نعرۂ تکبیر بلندکیا اوربلا جھجک کھلم کھلا بیت اﷲ کا طواف کیا۔۳ نبوی (۶ نبوی،ہجرت حبشہ کے بعد:ابن کثیر) میں حمزہؓ و عمرؓ کے مسلمان ہونے سے اہل ایمان کو تقویت مل گئی تو اﷲ کی طرف سے حکم نازل ہوا، فاصدع بما تؤمر ۔جس (دین متین کی تبلیغ )کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے ہانکے پکارے کہہ دیجیے۔ (سورۂ حجر :۹۴) تب دار ارقمؓ کو دار اسلام کہا جانے لگا۔
ارقمؓ مدینہ کو ہجرت کرنے والے اولین مسلمانوں میں شامل تھے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارقمؓ اور زیدؓ بن سہل(ابوطلحہؓ)یا عبداﷲؓ بن اُنیس(ابن کثیر) میں مواخات قائم فرمائی۔ آپ نے دوسرے صحابہؓ کی طرح انھیں بھی مدینہ میں گھر تعمیر کرنے کے لیے قطعۂ زمین عنایت فرمایا۔
ارقمؓ بن ابو ارقم نے جنگ بدر میں شرکت کی ،نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے انھیں ایک تلوار عنایت فرمائی۔ مالک بن ربیعہ کہتے ہیں ، مجھے جنگ بدر کے دن بنومخزوم کی شاخ بنوعایذ کی تلوار ملی جو مرزبان کے نام سے مشہور تھی ۔جب آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مال غنیمت جمع کرانے کا حکم دیا تو میں نے اسے غنیمتوں کے ڈھیر میں ڈال دیا۔اس میں سے جس نے جو چیز مانگی آپ نے دے دی۔اس تلوار کو ارقمؓ نے پہچان کر مانگ لیا تو آپ نے انھیں دے دی۔ ارقمؓ جنگ احد،جنگ خندق اور باقی تمام غزوات میں بھی آپ کے شانہ بشانہ شریک رہے۔ آپ نے صدقات جمع کرنے لیے انھیں عامل بھی مقرر کیا۔
ارقمؓ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،ان کا شمار ان چندصحابہ میں ہوتا ہے جنھوں نے کتابت وحی کی۔ان کی نمایاں تحریر وہ خط ہے جو انھوں نے نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر قبیلۂ بنو محارب کے عُظیم بن حارث کو لکھا۔ابن عساکر نے اس کا متن نقل کیا ہے،’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔ یہ خط محمد رسول اﷲ کی جانب سے عُظیم بن حارث محاربی کو تحریر کیا جاتا ہے۔( ملک ہذیل کی وادئ نخلہ کا )فخ کی گھاٹی سے لے مجمعہ تک کا چشمہ اسے دیا جاتا ہے۔اس سرزمین میں کوئی اس کے ساتھ نزاع نہیں کرے گا۔ یہ کچھ اور قطعات اراضی ہیں جو فلاں فلاں اشخاص کو دیے جاتے ہیں۔‘‘کوشش کے باوجود ہمیں پتا نہیں چل سکا کہ یہ خط کب اور کس غرض سے لکھاگیا کیونکہ ابن عساکر کے علاوہ کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا،انھوں نے بھی سیاق و سباق نہیں بتایا۔ تاریخ اسلامی کے مطالعہ سے محض اتنا معلوم ہوتا ہے کہ غطفان کے ذیلی قبائل بنو محارب اور بنو ثعلبہ غزوۂ ذات الرقاع(۴ ھ ) میں نخل یا نخلہ کی وادی میں مسلمانوں کے مقابلہ پر آئے تھے۔ بنو غطفان جنگ خندق (شوال ۵ ھ)میں بھی مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوئے ،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ کے ایک تہائی باغات کے پھلوں کے بدلے میں ان سے صلح کا معاہدہ تحریر کرایالیکن سعدؓ بن معاذ کے مشورے پر اسے نافذ نہ فرمایا۔غطفان کی دیگر مہم جوئیوں کا بیان بھی ملتا ہے لیکن بنو محارب اورعُظیم بن حارث کا کہیں تذکرہ نہیں۔بنو محارب ۱۰ھ میں مسلمان ہوئے۔
ابن حزم نے ارقمؓ کو اصحاب ثلاثہ (وہ اصحاب رسول جن سے تین مرفوع احادیث روایت ہوئی ہوں)میں شمار کیا ہے۔ان کے بیٹے عثمانؓ اورپوتے عبداﷲ بن عثمانؓ نے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔
ارقمؓ بن ابوارقم نے بیت المقدس جانے کا ارادہ کیااورسفر کی تیاری مکمل کرنے کے بعد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے رخصت چاہنے کے لیے آئے۔آپ نے دریافت فرمایا،سفر پر کیوں جا رہے ہو؟کوئی ضرورت یا تجارت اس کا باعث بنی ہے؟ انھوں نے جواب دیا،یا نبی اﷲ!میرے باپ آپ پر فدا ہوں،میری نیت ہے کہ بیت المقدس میں نماز پڑھوں۔آپ نے فرمایا،’’میری اس مسجد (نبوی) میں ادا کی گئی نمازمسجد حرام کے سوا باقی تمام مسجدوں کی نماز سے ایک ہزار گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘ارقمؓ نے یہ ارشاد سنا تو بیٹھ رہے اور سفر کا ارادہ ترک کر دیا۔
ایک اور مشہور حدیث رسول ارقمؓ کی روایت کردہ ہے،’’اس شخص کی مثال جو جمعہ کے دن امام کا خطبہ شروع کرنے کے بعد لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا ، ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے دو افراد کو ہٹاتا ہوامسجد میں داخل ہوتا ہے ایسے ہے گویاکوئی اپنی انتڑیوں کوجہنم کی آگ میں گھسیٹ رہا ہو۔
مشہور روایت ہے کہ ارقمؓ کے والد نے اسلام قبول نہ کیاتھا۔ ابن ابی خیثمہ نے انھیں اہل ایمان میں شمار کیا ہے لیکن ابن عبد البر نے ان کی رائے کو غلط قرار دیا ہے۔ ابوحاتم رازی نے عبید اﷲ کے بجائے عبداﷲ بن ارقم کو ارقمؓ بن ابوارقم کا بیٹا بتایا ہے ،ابن عبدالبر کہتے ہیں ،یہ بھی ایک سہو ہے،اس کی وجہ یہ رہی کہ ارقمؓ بن ابوارقم نام کے دو صحابہ تھے، ایک بنومخزوم کے ارقمؓ جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں دوسرے بنو زہرہ کے ارقمؓ بن ابو ارقم زہری ۔عبداﷲ ارقم زہری کے بیٹے تھے۔
خلیفۂ دوم عمرؓ بن خطاب نے ارقمؓ کے ماموں نافعؓ بن عبدالحارث کو مکہ کا گورنر مقرر کیا۔ ارقمؓ عہد عثمانیؓ میں بیت المال کے نگران بھی رہے۔
ارقمؓ بن ابوارقم کی وفات کے بارے میں دو روایتیں ہیں جن میں بیان کردہ سن وفات میں بہت تفاوت ہے۔ ابو نُعیم کی روایت کے مطابق وہ ۱۳ھ (۶۳۴ء) میں فوت ہوئے جس دن خلیفۂ اول ابوبکرؓ نے وفات پائی ۔ابن مندہ کہتے ہیں کہ انھوں نے عہد معاویہؓ میں ۵۵ھ(۶۷۵ء)یا ۵۳ء(۶۷۳ء) میں وفات پائی، ابوبکرؓ کی وفات بھی اسی دن ہوئی۔ ارقمؓ کی وصیت کے مطابق جنازہ سعدؓ بن ابی وقاص نے پڑھایا۔سعدؓاس وقت مدینہ کی نواحی بستی عقیق میں واقع اپنے گھر میں تھے۔مدینہ کے اموی گورنر مروان نے کہا،کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی کی میت کو ایک غائب شخص کے لیے روک رکھا جائے؟ وہ خود جنازہ پڑھانا چاہتا تھا لیکن ارقمؓ کے بیٹے عبیداﷲؓ نہ مانے۔ بنو مخزوم نے ان کا ساتھ دیا۔اس موقع پر تلخ کلامی بھی ہوئی ، سعدؓ آن پہنچے تو قضیہ ختم ہوا۔ اس حساب سے ان کی عمرتراسی (یا پچاسی)سال ہوئی۔ابن عبدالبر نے دونوں روایتوں میں اس طرح تطبیق کی ہے کہ سعدؓ کے والد ابو ارقم اور ابوبکرؓ ۱۳ھ (۶۳۴ء)میں ایک ہی دن فوت ہوئے جب کہ ارقمؓ کی وفات ۵۵ھ(۶۷۵ء) میں عہد معاویہؓ میں ہوئی۔اس طرح ابن ابی خیثمہ کا قول درست ثابت ہو جاتا ہے کہ ابو ارقمؓ مسلمان ہوئے اور انھیں نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف بھی حاصل رہا۔
ارقمؓ بن ابو ارقم کی اولاد نرینہ دو باندیوں سے ہوئی ،ایک ام ولد سے عبیداﷲؓ اوردوسری سے عثمانؓنے جنم لیا۔بنواسد بن خزیمہ کی ہند بنت عبداﷲ سے امیہ اور مریم پیدا ہوئیں۔ایک اور ام ولد سے صفیہ کی ولادت ہوئی۔ابن سعد کہتے ہیں،عثمان بن ارقمؓ سے ارقمؓکی نسل آگے چلی جب کہ عبیداﷲؓ کی اولادمیں سے کوئی نہ بچا کہ سلسلہ چلتا۔
ارقمؓ نے اپنی زندگی ہی میں اپنا گھر بیٹے کو تحفۃً دے دیا اور تاکید کی کہ اسے نہ بیچنا ۔ ابن سعد کہتے ہیں، میں نے خود دار ارقمؓ میں تحفے کی یہ دستاویز دیکھی ہے۔ اس میں تحریر تھا،بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم،وہ گھر (یا قطعۂ اراضی)جو صفا میں ہے ،اس کے بارے میں ارقمؓ کا فیصلہ ہے کہ حرم کے پاس ہونے (اور ابتدائے عہد نبوت میں اس گھر کے اہم ہونے) کی وجہ سے اسے حرمت دی جائے ، بیچا جائے نہ وراثت میں منتقل کیا جائے۔ تحریر پردو اشخاص ہشام بن عاص اور اس کے آزادکردہ غلام کی گواہی ثبت تھی چنانچہ گھر اسی حالت میں قائم رہا،اس میں ایک قبہ (یا مسجد) بھی تھا۔ارقمؓ کی اولاد اس میں رہتی رہی یا اسے کرایے پر اٹھاتی رہی لیکن جب یہ ان کے پوتوں کے ہاتھ آیا تو انھوں نے دوسرے عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کے آگے فروخت کر دیا۔ارقمؓ کے پوتے عمران بن عثمانؓ بیان کرتے ہیں،مجھے وہ دن یاد ہے جب ابو جعفر کے دل میں دار ارقمؓ ہتھیانے کا خیال آیا ۔ ایام حج میں وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کر رہا تھا۔ہم گھر کی چھت پر نصب خیمے میں بیٹھے تھے ، ہمارے نیچے اتنے قریب سے گزرا کہ میں چاہتا تو اس کی ٹوپی اتار لیتا۔مروہ سے اترتے اور کوہ صفا پر چڑھتے ہوئے وہ ہمیں دیکھتا ر ہا۔کچھ عرصہ کے بعد حضرت حسنؓ کے پڑ پوتے محمد بن عبداﷲ نے منصور کے خلاف بغاوت کی تواس نے انھیں قتل کرا دیا۔ ارقمؓ کے دوسرے پوتے عبداﷲ بن عثمانؓ محمد بن عبداﷲ کے ساتھی تھے لیکن بغاوت میں حصہ نہ لیا تھا، اس کے با وجودابو جعفر نے انھیں بیڑیوں میں جکڑنے کا حکم دے دیا۔ پھر کوفہ سے ایک شخص شہاب بن عبدرب ان کے پاس آیا اور کہا،اگر تم دار ارقمؓ بیچ دو تو میں تمہیں بیڑیوں سے چھڑا سکتا ہوں۔عبداﷲ کی عمر اسی برس سے تجاوز کر چکی تھی اور وہ قید و بند سے عاجز آئے ہوئے تھے۔ پھر بھی انھوں نے کہا، یہ گھر صدقہ کیا ہوا ہے،میرا اس میں صرف ایک حصہ ہے ،بقیہ میں میرے بھائی بہن شریک ہیں۔شہاب نے کہا، آپ اپنا حصہ دے دیں تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں۔نا چار ہو کر وہ سترہ ہزار دینارلے کر گھر سے دست بردار ہو گئے۔ان کے بھائی بہنوں کو بڑی رقوم ملیں تووہ بھی اپنے حصے فروخت کر کے چلتے بنے۔ اس طرح دار ارقمؓ ابو جعفر منصور کے ہاتھ آ گیا۔ منصور کے بعد اس کابیٹا مہدی خلیفہ بنا تو اس نے اپنی بیوی (اورباندی)،موسیٰ اور ہارون الرشید کی والدہ خیزران کو تحفے میں دے دیاجس نے اس کی تعمیر نو کی اور یہ بیت الخیزران کہلانے لگا۔ مہدی کا پوتا جعفر بن موسی خلیفہ بنا تو دار ارقمؓ اس کے پاس آگیا،اس میں مصر کے شطوی اور یمن کے عدنی بھی رہتے رہے۔ آخر کار اسے موسیٰ بن جعفر کی اولاد میں سے غسان بن عباد نے خرید لیا۔ شاہ عبدالعزیز کے دور حکومت میں حرم کی پہلی سعودی توسیع ہوئی تومسعی (صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا راستہ) پر چھت ڈال کر دار ارقمؓ کو اس میں شامل کر لیا گیا ۔دار ارقمؓ بظاہردنیا میں موجود نہیں رہا تاہم اس کی یاد زندہ اور تاریخ تابندہ ہے۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، الطبقات الکبری(ابن سعد)،معجم الصحابہ(ابن قانع)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)،تاریخ دمشق الکبیر(ابن عساکر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)،سیراعلام النبلا (ذہبی)،البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)،تہذیب التہذیب(ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ:Montgomery Watt)
_______________________