HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الاعراف ۷: ۱۴۸- ۱۷۱ (۹)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنْ م بَعْدِہٖ مِنْ حُلِیِّھِمْ عِجْلاً جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُھُمْ وَ لَا یَھْدِیْھِمْ سَبِیْلًا اِتَّخَذُوْہُ وَکَانُوْا ظٰلِمِیْنَ{۱۴۸} وَلَمَّا سُقِطَ فِیْٓ اَیْدِیْھِمْ وَرَاَوْا اَنَّھُمْ قَدْ ضَلُّوْا قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ{۱۴۹} وَلَمَّارَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْ م بَعْدِیْ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّکُمْ وَاَلْقَی الْاَ لْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآئَ وَلَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ{۱۵۰} قَالَ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ{۱۵۱} 
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَا لُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَذِلَّۃٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ{۱۵۲} وَالَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْ م بَعْدِھَا وَاٰمَنُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ م بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۱۵۳}
وَلَمَّا سَکَتَ عَنْ مُّوْسَی الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ وَفِیْ نُسْخَتِھَا ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ ھُمْ لِرَبِّھِمْ یَرْھَبُوْنَ{۱۵۴} وَاخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَہٗ سَبْعِیْنَ رَجُلاً لِّمِیْقَاتِنَا فَلَمَّآ اَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ قَالَ رَبِّ لَوْشِئْتَ اَھْلَکْتَھُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِیَّایَ اَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَھَآئُ مِنَّا اِنْ ھِیَ اِلَّا فِتْنَتُکَ تُضِلُّ بِھَا مَنْ تَشَآئُ وَتَھْدِیْ مَنْ تَشَآئُ اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ{۱۵۵} وَاکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَ قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ وَرَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ{۱۵۶} اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسَوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ{۱۵۷} 
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ{۱۵۸}
وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ{۱۵۹} وَقَطَّعْنٰھُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ اَسْبَاطًا اُمَمًا وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اِذِ اسْتَسْقٰہُ قَوْمُہٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشَرَۃَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْھِمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْھِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ{۱۶۰}
وَاِذْ قِیْلَ لَھُمُ اسْکُنُوْا ھٰذِہِ الْقَرْیَۃَ وَکُلُوْا مِنْھَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْلَکُمْ خَطِیْٓئٰتِکُمْ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ{۱۶۱} فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآئِ بِمَا کَانُوْا یَظْلِمُوْنَ{۱۶۲}
وَسْئَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْتَاْتِیْھِمْ حِیْتَانُھُمْ یَوْمَ سَبْتِھِمْ شُرَّعًا وَّیَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ لَاتَاْتِیْھِمْ کَذٰلِکَ نَبْلُوْھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْن{۱۶۳} وَاِذْ قَالَتْ اُمَّۃٌ مِّنْھُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَانِ اللّٰہُ مُھْلِکُھُمْ اَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا قَالُوْا مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ{۱۶۴} فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖٓ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْھَوْنَ عَنِ السُّوْٓئِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ م بَئِیْسٍ م بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ{۱۶۵} فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُھُوْا عَنْہُ قُلْنَا لَھُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِئِیْنَ{۱۶۶} 
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْھِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ یَّسُوْمُھُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابِ اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۱۶۷} وَقَطَّعْنٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا مِنْھُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْھُمْ دُوْنَ ذٰلِکَ وَبَلَوْنٰھُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ{۱۶۸} فَخَلَفَ مِنْ م بَعْدِھِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ھٰذَا الْاَدْنٰی وَیَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُلَنَا وَاِنْ یَّاْتِھِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہٗ یَاْخُذُوْہُ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوْا مَا فِیْہِ وَالدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ{۱۶۹} وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ{۱۷۰} وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَھُمْ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌ م بِھِمْ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّ اذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ{۱۷۱}
موسیٰ (خدا کے حضور میں تھاکہ اُس) کی قوم نے اُس کے پیچھے اپنے زیوروں سے۵۰۵؎ ایک بچھڑا بنا لیا، ایک دھڑ جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔۵۰۶؎ کیا اُنھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ نہ اُن سے بولتا ہے، نہ اُن کی رہنمائی کر سکتا ہے۵۰۷؎؟ (اِس کے باوجود) اُنھوں نے اُسے (معبود)ٹھیرایا اور وہ سخت ظالم تھے۔ پھر جب پچھتائے اور دیکھا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہماری غلطی معاف نہ کی تو ہم نامراد ہو جائیں گے۔ ۵۰۸؎(اِس کے بعد) جب موسیٰ غصے اور رنج سے بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا ۵۰۹؎تو (آتے ہی) کہا: تم نے میرے پیچھے میری بہت بری جانشینی کی ہے۔ کیا تم اپنے پروردگار کے حکم سے پہلے ہی جلدی کر بیٹھے؟۵۱۰؎  اُس نے تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارون) کا سر پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچنے لگا۵۱۱؎ ۔ ہارون نے کہا: میری ماں کے بیٹے، اِن لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں۔۵۱۲؎  اِس لیے دشمنوں کو میرے اوپر ہنسنے کا موقع نہ دے اور مجھے اِن ظالم لوگوں کے ساتھ نہ ملا۔۵۱۳؎ (تب) موسیٰ نے دعا کی: میرے رب، تو مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر دے۵۱۴؎ اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔۱۴۸-۱۵۱
(ارشاد ہوا) جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنا یا ہے، اُن کے پروردگار کا غضب اُنھیں پہنچ کر رہے گا اور وہ اِسی دنیا کی زندگی میں ذلت سے دوچار ہوں گے۔ ہم جھوٹ باندھنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۵۱۵؎ ۔ (ہاں)، جن لوگوں نے برے کام کیے، پھر اُن کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لائے ۵۱۶؎تو اِس کے بعد تیرا پروردگار یقینا بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۱۵۲-۱۵۳
پھر جب موسیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوا۵۱۷؎ تو اُس نے وہ تختیاں اٹھا لیں۵۱۸؎۔اُن سے جو کچھ منقول ہے۵۱۹؎، اُس میں اُن لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت تھی ۵۲۰؎جو اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ہوں۔ اور موسیٰ نے اپنی قوم کے ستر آدمی منتخب کیے تاکہ وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں۵۲۱؎۔ پھر جب (وہ حاضر ہوئے اور) اُن کو زلزلے نے آ پکڑا۵۲۲؎ تو موسیٰ نے کہا: پروردگار، اگر تو چاہتا تو پہلے ہی اِن کو اور مجھے ہلاک کر دیتا۔ کیا تو ایک ایسے کام پر ہمیں ہلاک کرے گا جو ہمارے اندر کے احمقوں نے کیا ہے؟ یہ سب تیری آزمایش تھی۔ تواِس سے جس کو چاہے (اپنے قانون کے مطابق) گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے، ہدایت بخش دے۵۲۳؎۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے۔ سو ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔ (پروردگار)، تو ہمارے لیے اِس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ ہم نے تیری طرف رجوع کیا ہے۔ فرمایا: میں اپنے عذاب میں تو اُسی کو مبتلا کرتا ہوں، جسے چاہتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے،۵۲۴؎ سو (قیامت کے لیے) میں اُس کو اُن لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے اور زکوٰۃادا کریں گے اور ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے ۵۲۵؎ـــــ (اُن۵۲۶؎ لوگوں کے لیے)جو (آج) اِس نبی امی رسول۵۲۷؎ کی پیروی کریں گے جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں۵۲۸؎۔وہ اُنھیں بھلائی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام ٹھیراتا ہے۵۲۹؎ اور اُن کے اوپر سے وہ بوجھ اتارتا اور بندشیں دور کرتا ہے جو اب تک اُن پر رہی ہیں۵۳۰؎۔ لہٰذا جو اُس پر ایمان لائے، جنھوں نے اُس کی عزت کی اور اُس کی نصرت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُس روشنی کی پیروی اختیارکرلی جو اُس کے ساتھ اتاری گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔۱۵۴-۱۵۷
کہہ دو۵۳۱؎ (اے پیغمبر)، لوگو، میں تم سب کی طرف۵۳۲؎ اُس خدا کا رسول ہو کر آیا ہوں جو زمین و آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہی زندگی دیتا اور وہی مارتا ہے۵۳۳؎۔ سو اللہ اور اُس کے نبی امی رسول پر ایمان لاؤ جو خود بھی اللہ اور اُس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے۵۳۴؎ اور اُس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ یاب ہو جاؤ۔۱۵۸
(بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ اِسے ضرور مانیں گے ، اِس لیے کہ) موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا ہمیشہ رہا ہے جو حق کے مطابق رہنمائی کرتے اور اُسی کے مطابق انصاف کرتے ہیں۵۳۵؎۔ (تاہم زیادہ وہی ہیں جو نافرمان رہے)۔ ہم ۵۳۶؎نے اُنھیں بارہ گھرانوںمیں تقسیم کرکے الگ الگ گروہ بنا دیا تھا۔۵۳۷؎ جب اُس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی اِس پتھر پر مارو۔ (اُس نے ماری) تو اُس سے بارہ چشمے بہ نکلے، اِس طرح کہ ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کر لی۔ (صرف یہی نہیں)، ہم نے اُن پر بدلیوں کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اتارے۵۳۸؎، کھاؤ یہ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تمھیں دی ہیں۵۳۹؎۔ (افسوس کہ جن پر یہ عنایت ہوئی، اُنھوں نے اِس کی ناقدری کی) اور (اِس طرح) ہمارا کچھ نہیں بگاڑا، بلکہ اپنے اوپر ہی ظلم کرتے رہے۔ ۱۵۹-۱۶۰
اور (اُنھیں وہ واقعہ یاد دلاؤ)، جب اُن سے کہا گیا کہ اِس بستی ۵۴۰؎میں جا کر بس جاؤ اور اِس میں جہاں سے چاہو، کھاؤ اور دعا کرو کہ پروردگار، ہمارے گناہ بخش دے۵۴۱؎ اور (بستی کے) دروازے ۵۴۲؎میں (عجز کے ساتھ) سرجھکائے ہوئے داخل ہو،۵۴۳؎ ہم تمھاری خطائیں معاف کر دیں گے اور (تم میں سے) جو لوگ اچھا رویہ اختیار کریں گے، اُن پر اور بھی عنایت فرمائیں گے۔ پھر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے ایک دوسری بات سے بدل دیا۵۴۴؎۔ چنانچہ اُن پر ہم نے آسمان سے عذاب اتارا، اِس لیے کہ وہ (اپنے اوپر) ظلم کرتے رہے تھے۵۴۵؎۔ ۱۶۱-۱۶۲
اور اُن سے اُس بستی کا حال بھی پوچھو ۵۴۶؎جو سمندر کے کنارے تھی،۵۴۷؎ جب وہ سبت ۵۴۸؎کے معاملے میں (خدا کے حدود سے) تجاوز کرتے تھے۔جب اُن کی مچھلیاں سبت کے دن منہ اٹھائے ہوئے پانی کے اوپر آجاتی تھیں اور جب سبت کا دن نہ ہوتا تو نہیں آتی تھیں۔ ہم اِس طرح اُنھیں آزماتے تھے، اِس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۵۴۹؎۔ اور(اُنھیں یاد دلاؤ)، جب اُن میں سے ایک گروہ نے (نصیحت کرنے والوں سے) کہا۵۵۰؎:تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا سخت سزا دینے والا ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا: تمھارے پروردگار کے حضور اپنا عذر پیش کرنے کے لیے اور اِس لیے کہ یہ (خدا کے غضب سے) بچ جائیں۵۵۱؎۔ پھر جب اُنھوں نے وہ سب کچھ بھلا دیا جس سے اُنھیں یاددہانی کی گئی تھی تو ہم نے اُنھیں نجات دی جو برائی سے روک رہے تھے اور جنھوں نے (اپنے اوپر) ظلم کیا تھا، اُنھیں ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا، اِس لیے کہ وہ نافرمان ہو چکے تھے۔۵۵۲؎ چنانچہ جس چیز سے روکے گئے تھے، جب سرکشی کے ساتھ وہی کیے چلے گئے تو ہم نے کہہ دیا کہ جاؤ ذلیل بندر بن جاؤ۔۵۵۳؎۱۶۳-۱۶۶
اور (وہ بات بھی یاد دلاؤ)،جب تمھارے پروردگار نے (اپنے اِس) فیصلے سے (اُنھیں) آگاہ کیا کہ روز قیامت تک وہ برابر ایسے لوگوں کو اُن پر مسلط کرتا رہے گا جو اُنھیں نہایت برے عذاب دیں گے۔۵۵۴؎ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار بہت جلد سزا دینے والا بھی ہے اور یقینا بخشنے والا اور نہایت مہربان بھی ہے۔۵۵۵؎ ہم نے زمین میں اُن کی جمعیت مختلف گروہوں کی صورت میں پراگندہ کر دی۔ اُن میں کچھ نیک بھی ہیں اور کچھ اِس سے مختلف بھی۔۵۵۶؎ ہم نے اُنھیں اچھے اور برے حالات سے آزمایا تاکہ وہ پلٹیں۔ پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے ناخلف لوگ کتاب الٰہی کے وارث ہوئے جو (اُس کی آیتوں کے عوض) اِس دنیا ے دوں کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں سب معاف کر دیا جائے گا اور اگر وہی متاع حقیر پھر مل جائے تو اُسے بھی لے لیں گے۔ کیا اُن سے اِسی کتاب کے بارے میں عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ پر حق کے سوا کوئی بات نہ لگائیں اور جو کچھ اِس کتاب میں (لکھا) ہے، اُنھوں نے اُسے اچھی طرح پڑھا بھی ہے۵۵۷؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ) خدا سے ڈرنے والوں کے لیے آخرت کا گھر ہی بہتر ہے، پھر کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ (ہاں)، جو کتاب الٰہی کو مضبوطی سے تھامتے اور نماز کا اہتمام رکھتے ہیں، (وہی اصلاح کرنے والے ہیں ۵۵۸؎اور ) اصلاح کرنے والوں کا اجر ہم ضائع نہیں کریں گے۔ (اُنھیں یاد بھی ہے) ، جب ہم نے پہاڑ کو اُن کے اوپر معلق کر دیا تھا گویا وہ سائبان ہے اور وہ گمان کر رہے تھے کہ وہ اُن پر گرا ہی چاہتا ہے۵۵۹؎۔ (فرمایا): یہ جوکچھ ہم نے تمھیں دیا ہے، اِسے مضبوطی سے پکڑو ۵۶۰؎اور جو کچھ اِس میں (لکھا) ہے، اُسے یاد رکھو۵۶۱؎ تاکہ (خدا کے غضب سے) بچے رہو۔۵۶۲؎ ۱۶۷-۱۷۱

۵۰۵؎ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زیورات لوگوں نے چندے میں دیے تاکہ جس طرح کا معبود وہ چاہتے ہیں، اُن سے بنا دیا جائے۔

۵۰۶؎ اُس زمانے کے مصر میں بت گری کا فن جس درجے کو پہنچا ہوا تھا، اُس سے واقف کسی شخص کے لیے ایک ایسا بچھڑا ڈھال لینا کچھ مشکل نہ تھا جس میں سے اُس کے ڈکرانے کی آواز نکلتی ہو۔ چنانچہ اِس بچھڑے کی مورت بناتے وقت یہ صنعت گری بھی کی گئی تھی کہ اُس میں سے جب ہوا گزرتی تو جس طرح بچھڑے ڈکرتے ہیں، اُسی طرح کی آواز اُس سے نکلتی تھی۔

۵۰۷؎ یہ بنی اسرائیل کی بلادت پر تبصرہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’قرآن نے یہ ساری تصریح بنی اسرائیل کی بلادت، عقلی بے مایگی اور ساتھ ہی اُن کی ناقدری و ناسپاسی ظاہر کرنے کے لیے کی ہے کہ جس خداے بے ہمتا و بے مثال نے اُن کو اپنے جلال و جمال کی وہ شانیں دکھائیں جو اوپر مذکور ہوئیں، اُس کی قدر اُنھوں نے یہ کی کہ اپنے ہی زیوروں سے ایک بچھڑا بنایا، بچھڑا بھی کوئی سچ مچ کا نہیں،بلکہ صرف ایک جسد، ایک قالب، ایک دھڑ جس میں سے بھاں بھاں کی آواز نکلتی تھی اور اُس کے متعلق یہ باور کر لیا کہ یہی وہ خداوند خداہے جو بنی اسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے چھڑا کر لایا اور یہی اپنی رہنمائی میں بنی اسرائیل کو ارض موعود کی بادشاہی دلائے گا! اِس طرح اُنھوں نے اپنا وہ شوق پورا کر لیا جس کا اظہار اُنھوں نے حضرت موسیٰؑ کے سامنے اُن کے طور پر جانے سے پہلے کیا تھا اور جس پر حضرت موسیٰؑ نے ان کو ڈانٹ بتائی تھی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۶۵)   

۵۰۸؎ یعنی بنانے کو تو بنا بیٹھے، مگر جب بھاں بھاں کرتا ہوا بچھڑا بن کر سامنے آیا اور یہ معلوم ہوا کہ اب یہ بنی اسرائیل کا خدا ہے تو حضرت ہارون اور دوسرے مصلحین کے توجہ دلانے پر بہت سے لوگ جن کے اندر کچھ سوجھ بوجھ تھی، سخت نادم ہوئے اور اپنے پروردگار سے معافی کی درخواست کرنے لگے۔

۵۰۹؎ اِس حادثے کی خبر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو پہاڑ پر ہی دے دی تھی۔ چنانچہ جب وہ پلٹے ہیں تو مفسدین کی اِس کامیاب شرارت پر نہایت غصے میں اور اپنی قوم کی نادانی اور جہالت پر نہایت غم و افسوس کی حالت میں پلٹے ہیں۔

۵۱۰؎ استفہام یہاں سرزنش اور ملامت کے لیے ہے۔ یعنی اِس سے پہلے کہ خدا تمھیں اپنی شریعت دے اور بتائے کہ تم اُس کا معبد کس طرح بناؤ گے اور کس طریقے سے اُس کی عبادت کرو گے، تم اپنا خدا خود تراش کر بیٹھ گئے؟

۵۱۱؎ یہ موسیٰ علیہ السلام کے غلبۂ حال اور جوش حمیت کی تصویر ہے کہ اُنھوں نے تختیاں ایک طرف پھینکیں اور حضرت ہارون کے بال پکڑ کر اُنھیں جھنجھوڑنے لگے کہ اصل ذمہ داری تمھاری تھی، تم نے اِس فتنے کو کیوں سر اٹھانے دیا؟

۵۱۲؎ یہ حضرت ہارون نے اپنی صفائی پیش کی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔انداز خطاب بہت پیارا ہے۔ ’یا اخی‘ نہیں کہا ،بلکہ ’ابْنَ اُمَّ‘ ’اے میرے ماں جائے‘ کہا جس سے شفقت اور استمالت، دونوں چیزیں نمایاں ہو رہی ہیں۔ حضرت ہارون ؑنے صفائی میں فرمایا کہ ’قوم نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ لوگ مجھے قتل کر دیں‘ ۔اِس سے واضح ہے کہ اُنھوں نے نہ صرف یہ کہ اُس فتنہ سے لوگوں کو روکا ،بلکہ اُس کے لیے اپنی جان بھی خطرے میں ڈال دی، لیکن قوم کی بھاری اکثریت سامری کے چکمے میں آگئی اور خود اُن کے ساتھ اتنی قلیل تعداد رہ گئی کہ طاقت کے زور سے اُن کے لیے اُس کو روکنا ممکن نہیں رہا۔ اِس وجہ سے اُنھوں نے۔۔۔ مصلحت اِسی میں دیکھی کہ حضرت موسیٰؑ کی واپسی کاانتظار کریں کہ مبادا اُن کا کوئی اقدام کسی مزید مضرت کا باعث ہو جائے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۶۸)   

۵۱۳؎ مطلب یہ ہے کہ میں اِس فتنے سے بالکل بری ہوں۔ یہ تمام شرارت ہمارے دشمنوں کی ہے۔ مجھ پر عتاب ہوا تو یہ اُن کے لیے خوشی کا باعث ہو گا کہ فتنہ تو اُنھوں نے اٹھایا اور ذمہ دار مجھے ٹھیرا دیا گیا۔ اِس سے ضمناً اُس الزام کی بھی تردید ہو گئی ہے جو بائیبل کی کتاب خروج میں اُن پر لگایا گیا ہے کہ گو سالہ سازی کا یہ سارا کام اُنھی کے اہتمام میں ہوا تھا*۔ قرآن نے دوسرے مقامات میں صراحت فرمائی ہے کہ اِس جرم عظیم کا مرتکب خدا کا پیغمبر ہارون نہیں، بلکہ بدبخت سامری تھا جس نے اپنی کیادی اور منافقت سے یہ فتنہ پیدا کیا۔

۵۱۴؎ یعنی اگر بھائی سے فیصلہ کرنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے یا میں نے آکر مواخذہ کرنے میں کوئی زیادتی کر دی ہے تو ہمیں معاف فرما دے۔

۵۱۵؎ بنی اسرائیل نے بچھڑے کو معبود بنا کر پوجنے کا جرم پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اور اُس کی موجودگی میں کیا تھا۔پھر وہ جس منصب کے لیے منتخب کیے گئے تھے، اُس کو حاملین کو اُن کے جرائم کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی لازماً دیتا ہے۔ اِس لیے فرمایا ہے کہ اِس افترا کا بدلہ اُنھیں ہر حال میں دیا جائے گا تاکہ اُس جماعت کی تطہیر ہو جائے جو خدا کے دین کی شہادت کے لیے منتخب کی گئی ہے۔

۵۱۶؎ یعنی تجدید ایمان کی، اِس لیے کہ بنی اسرائیل کا یہ گناہ اُن گناہوں میں سے تھا جن سے آدمی کا ایمان سلب ہو جاتا ہے۔ اگر گناہ کی نوعیت یہ نہ ہوتی تو صرف رویے کی اصلاح کافی تھی۔

۵۱۷؎ اصل الفاظ ہیں:’سَکَتَ عَنْ مُّوْسَی الْغَضَبُ‘۔’سَکَتَ‘ کے بعد’عَنْ‘ہے۔ یہ اِس بات پر دلیل ہے کہ یہاں یہ فعل ’زال‘یا اِس کے ہم معنی کسی لفظ پر متضمن ہو گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ خاموش ہوئے اور اُن کا غصہ دور ہو گیا۔

۵۱۸؎ اِس سے ضمناً بائیبل کی اُس روایت کی تردید ہو جاتی ہے کہ تختیاں پھینکنے سے ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں۔

۵۱۹؎ یعنی تورات میں منقول ہے۔ اصل میں لفظ ’نُسْخَۃ‘آیا ہے۔ یہ کسی تحریر کی حرف حرف نقل کو بھی کہتے ہیں۔ یہاں یہ اِسی معنی میں ہے۔

۵۲۰؎ یہ دونوں لفظ ساتھ ساتھ آئیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں اِس سے ہدایت حاصل ہو گی اور قیامت میں خدا کی رحمت و عنایت جو اُس ہدایت پر عمل کا نتیجہ ہے۔

۵۲۱؎ بنی اسرائیل کا جرم چونکہ اجتماعی نوعیت کا تھا، اِس لیے اُن کے ستر آدمی منتخب کیے گئے جو اجتماعی توبہ کے لیے اُن کی نمائندگی بھی کریں اور اِس موقع پر اپنے پروردگار سے ازسرنو اطاعت کا عہد بھی استوار کر لیں۔

۵۲۲؎ یہ زلزلہ خدا کے جلال کا ظہور تھا تاکہ بنی اسرائیل اِس بات کو یاد رکھیں کہ جس خدا کے ساتھ وہ معاملہ کر رہے ہیں، اُس کی قدرت کتنی بے پناہ ہے اور اُنھوں نے اگر دوبارہ اِسی طرح کے کسی جرم کا ارتکاب کیا تو اُن کے ساتھ وہ کیا معاملہ کر سکتا ہے۔

۵۲۳؎ یہ ہدایت و ضلالت کے باب میں سنت الہٰی کا حوالہ بھی ہے اور نہایت لطیف طریقے سے اِس بات کی طرف اشارہ بھی کہ پروردگار، تیری آزمایشوں میں پورا اترنا کوئی آسان بازی نہیں ہے۔ بندہ صرف ارادہ اور اُس ارادے کو بروے کار لانے کی سعی کر سکتا ہے۔ اُس کی کامیابی کا انحصار تمام تر تیری عنایت اور توفیق بخشی پر ہے اور ہم اُسی کی درخواست کر رہے ہیں۔

۵۲۴؎  یعنی ہر ایک کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا،صرف اُنھی کو کرتا ہوں جنھیں اپنے قانون عدل کے مطابق چاہتا ہوں کہ اُن کو مکافات عمل سے دوچار کر دیا جائے۔ مگر جہاں تک رحمت کا تعلق ہے ، وہ ہر کافر و مومن کے لیے عام ہے اور اِس دنیا میں ہر ایک کو پہنچ رہی ہے۔

۵۲۵؎ موسیٰ علیہ السلام کی دعا پوری قوم کے لیے تھی اور تعمیم کے ساتھ مانگی گئی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کے جواب میں اصل ضابطہ بیان فرمادیا ہے کہ اُس کا عذاب کن لوگوں پر آتا ہے اور دنیا اور آخرت میں اُس کی رحمت سے کون بہرہ یاب ہوتے ہیں۔ اِس جواب کا آخری فقرہ خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ یوں نہیں فرمایا کہ ’یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا‘ ،بلکہ اسلوب بدل کر فرمایا :’وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ‘ ۔اسلوب کی اِس تبدیلی سے مبتدا پر خاص طور پر زور دینا مقصود ہے کہ خاص کر وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لائیں گے۔ جو لوگ قرآن کے نظائر پر نگاہ رکھتے ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اُس عہد و میثاق کی طرف اشارہ ہے جوبنی اسرائیل سے آیندہ آنے والے انبیا پر ایمان لانے کے لیے لیا گیا تھا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۷۱)

اِس کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہوں: سورئہ مائدہ (۵) کی آیت ۱۲ اور سورئہ آل عمران (۳) کی آیات ۸۱-۸۲ جن میں یہ عہد و میثاق تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

۵۲۶؎ حضرت موسیٰ کی دعا کا جواب پچھلے فقرے پر ختم ہو گیا ہے۔ یہاں سے آگے اب تضمین کے طریقے پر کلام کو مطابق حال کر دیا ہے کہ اِس وقت ’وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ‘کے مصداق کون لوگ ہوں گے۔

۵۲۷؎ یہ تینوں لفظ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعارف کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ آپ بنی اسمٰعیل میںپیدا ہوئے جنھیں اُن کے بھائی بنی اسرائیل امی کہتے تھے اور اُن کے بالمقابل بنی اسمٰعیل کے لیے یہ گویا ایک امتیازی لقب بن چکا تھا، اِس لیے کہ وہ اُس طریقے سے حاملین کتاب و شریعت نہیں تھے، جس طرح بنی اسرائیل تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی اور صرف نبوت ہی نہیں، اُس کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی سرفراز فرمایا تھا۔ چنانچہ خدا کی زمین پر آخری دینونت آپ ہی کے ذریعے سے برپا کی گئی جو اب پوری انسانیت کے لیے خدا کی سب سے بڑی حجت ہے۔

۵۲۸؎ تورات میں یہ ذکر اِس طرح آیا ہے:

’’خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے ، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا، تم اُس کی سننا ۔۔۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں اُن کے لیے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کر وں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا، وہی وہ اُن سے کہے گا اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے تو میں اُن کا حساب اُس سے لوں گا۔‘‘ (استثنا۱۸: ۱۵-۱۹)

استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِس سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل پر خود حضرت موسیٰ ہی نے یہ حقیقت واضح کر دی تھی کہ آنے والا نبی بنی اسمٰعیل، یعنی امیوں میں پیدا ہو گا، اِس لیے کہ اِس سیاق میں’تیرے بھائیوں میں سے‘ یا ’اُنھی کے بھائیوں میں سے‘ کا مطلب اِس کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا۔ یہ حضرت موسیٰؑ کی زبان مبارک سے گویا اُسی بشارت کا اعادہ تھا جو سیدنا ابراہیمؑ نے حضرت اسمٰعیل ؑکی نسل سے ایک رسول کی بعثت کی دی تھی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۷۴)   

اِس کے بعد اُنھوں نے لکھا ہے:

’’اِس سے یہ بھی واضح ہوا کہ وہ صرف نبی نہیں ہو گا، بلکہ رسول بھی ہو گا، اِس لیے کہ ’میری مانند‘ اور ’تیری مانند‘ سے مراد حضرت موسیٰ کے مانند ہے اور حضرت موسیٰ فرعون اور اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے، جن کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو نجات حاصل ہوئی اور فرعون اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے تباہ کر دیا۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِسی طرح اپنی قوم قریش اور اہل عرب کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۷۴)

تورات میں دوسری جگہ فرمایا ہے:

’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا، فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اُس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی۔‘‘ (استثنا ۳۳: ۲)

استاذ امام لکھتے ہیں:

’’آتشی شریعت سے میرے نزدیک اُسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جو سیدنا مسیحؑ نے ظاہر فرمائی ہے کہ اُس کے ہاتھ میں اُس کا چھاج ہوگا، وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے گا، دانے کو بھس سے الگ کرے گا، پھر دانے کو محفوظ کرے گا اور بھس کو جلا دے گا۔ یہ ٹھیک ٹھیک رسول کی وہ خصوصیت بیان ہوئی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا کہ وہ اپنی قوم کے لیے عدالت بن کر آتا ہے اور حق و باطل کے درمیان اُس کے ذریعے سے فیصلہ ہو جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۷۴)

انجیل میں یہ بشارت آپ کے اسم گرامی کی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ سیدنا مسیح فرماتے ہیں:

’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے، یعنی سچائی کا روح۔‘‘ (یوحنا۱۴: ۱۶-۱۷)
’’لیکن مددگار، یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا، وہی تمھیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے، وہ سب تمھیں یاد دلائے گا۔‘‘(یوحنا۱۴: ۲۶)
’’اِس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا، کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اُس کا کچھ نہیں۔‘‘(یوحنا۱۴: ۳۰)    
’’لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمھارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا ، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے، تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘ (یوحنا۱۵: ۲۶)
’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمھارے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمھارے پاس نہ آئے گا۔‘‘(یوحنا۱۶: ۷)
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں، مگر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ ، یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا، اِس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا، لیکن جو کچھ سنے گا ، وہی کہے گا اور تمھیں آیندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ (یوحنا۱۶: ۱۲-۱۳)
’’۔۔۔کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اِس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے، دے دی جائے گی ۔ اور جو اُس پتھر پر گرے گا، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، لیکن جس پر وہ گرے گا، اُسے پیس ڈالے گا۔‘‘(متی ۲۱: ۴۲-۴۴)   

اِن ارشادات میں لفظ ’مددگار‘ ،ظاہر ہے کہ آرامی یا سریانی کے کسی لفظ کا ترجمہ ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ یہ اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام احمد کے ہم معنی کوئی لفظ تھا جسے انجیل کے مترجمین نے کچھ سے کچھ بنا دیا ہے اور پیش و عقب میں ایسے بے جوڑ فقرے اور الفاظ داخل کر دیے ہیں کہ اِس کا مطلب خبط ہو کر رہ جائے۔

استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِن پیشین گوئیوں پر غور کیجیے۔ حضرت عیسیٰؑ بنی اسرائیل میں آخری نبی ہیں۔ اُن کے بعد کوئی نبی بنی اسرائیل میں نہیں آیا۔ پھر اِن پیشین گوئیوں کا مصداق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ آخر وہ پتھر کون ہو سکتا ہے جس کو معماروں نے تو رد کر دیا تھا، لیکن بالآخر وہی کونے کے سرے کا پتھر بن گیا؟ یہ کس کی شان ہے کہ جو اُس پر گرے گا، اُس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے اور جس پر وہ گرے گا، اُس کو پیس ڈالے گا؟یہ کس کا مرتبہ بیان ہوا ہے کہ وہ دنیا کا سردار ہے جو ابد تک لوگوں کے ساتھ رہے گا اور وہ باتیں بتائے گا جو حضرت مسیح بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ضد اور مکابرت کی بات اور ہے، لیکن جو شخص بھی اِن پیشین گوئیوں پر انصاف اور غیرجانب داری کے ساتھ غور کرے گا، وہ پکار اٹھے گا کہ یہ اگر کسی پر راست آ سکتی ہیں تو صرف نبی امی اور رسول خاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی راست آسکتی ہیں۔ نبی امی کے سوا اور کون اِن کا مصداق ہو سکتاہے؟‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۷۵) 

۵۲۹؎ یعنی جو پاک چیزیں اُنھوں نے حرام کر رکھی ہیں، اُنھیں حلال قرار دیتا ہے اور جو ناپاک چیزیں یہ حلال کیے بیٹھے ہیں، اُنھیں حرام قرار دیتا ہے۔

۵۳۰؎ اشارہ ہے اُن خودساختہ پابندیوں کی طرف جو یہود کے فقیہوں نے اپنی فقہی موشگافیوں سے اور اُن کے صوفیا اور رہبان نے اپنے تورع کے مبالغوں سے اپنے اوپر لاد رکھی تھیں، نیز اُن پابندیوں کی طرف جو اُن کی سرکشی کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اُن پر عائد کر دی گئی تھیں۔

۵۳۱؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر تک بات پہنچ گئی تو یہاں سے آگے آپ کی دعوت بھی آپ ہی کی زبان مبارک سے لوگوں ، بالخصوص بنی اسرائیل کے سامنے پیش کر دی گئی ہے۔

۵۳۲؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل اِس بہانے سے گریز و فرار کے راستے تلاش نہ کریں کہ آپ اُن کے لیے نہیں، بلکہ صرف بنی اسمٰعیل کے لیے خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث ہوئے ہیں اور وہی آپ کو ماننے کے مکلف ہیں۔اِس سے واضح ہو گیا کہ آپ کی بعثت سب کی طرف ہے، خواہ وہ بنی اسمٰعیل ہوں یا بنی اسرائیل اور خواہ عربی ہوں یا عجمی، سب اِس کے پابند ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں، اگر آپ کی دعوت اُن تک پہنچ جائے۔

۵۳۳؎ مطلب یہ ہے کہ متنبہ ہو جاؤ، تمھارا معاملہ کسی عام انسان سے نہیں ہے، اُس خدا کے رسول سے ہے جو پوری کائنات کا بادشاہ، تنہا معبود اور تمھاری زندگی اور موت کا مالک ہے۔ اُس کی دعوت سے اعراض کرو گے تو اِس کے نتائج معمولی نہیں ہوں گے۔

۵۳۴؎ یعنی جس بات کی دعوت دے رہا ہے، سب سے پہلے خود اُس پر ایمان لایا ہے، لہٰذا سنجیدگی سے سنو۔ نہ اُس کے لیے ممکن ہے کہ اُس کی تبلیغ میں کوئی مداہنت کرے اور نہ تم اُس کی مخالفت کرکے خدا کے مواخذے سے بچ سکتے ہو۔ یہ وہی چیز ہے جس کا تعارف موسیٰ علیہ السلام نے تمھیں پہلے ہی کرا دیا تھا کہ جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا، وہی وہ لوگوں سے کہے گا۔

۵۳۵؎ اصل الفاظ ہیں:’اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ‘۔ لفظ’اُمَّۃٌ‘کی تنکیر قلت کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور ’یَھْدُوْنَ‘اور ’یَعْدِلُوْنَ‘میں ایک فعل ناقص محذوف ہے، اِس لیے کہ قرینہ اُس پر دلالت کر رہا ہے ۔ یہ اُن کے علما اورقضاۃ کی طرف اشارہ ہے جن میں صالحین کا ایک قلیل گروہ ہمیشہ رہا ہے۔ اِن آیات کے زمانۂ نزول میں بھی اِس طرح کے لوگ موجود تھے جنھوں نے کھلے ذہن کے ساتھ اسلام کو دیکھا اور اُس کی صداقت کا اعلان کر دیا۔

۵۳۶؎ ’اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ‘کے الفاظ سے جو تضمین شروع ہوئی تھی، وہ پچھلی آیت پر ختم ہو گئی۔ یہاں سے آگے سلسلۂ کلام پھر اُسی سرگذشت سے جڑ گیا ہے جو بیان ہو رہی تھی۔

۵۳۷؎ اصل میں لفظ ’قَطَّعْنٰھُمْ‘آیا ہے۔ یہ یہاں اچھے معنی میں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یعنی ایک ہی باپ کی اولاد بارہ خاندانوں کی شکل میں پھلی پھولی، اور ہم نے ہر خاندان کو امتوں اور قوموں کی شکل میں بڑھایا اور پھیلایا اور اِسی اعتبار سے اُن کو اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے بھی نوازا، لیکن اُنھوں نے ہر نعمت کی ناقدری کی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۷۷)

۵۳۸؎ من و سلویٰ کیا تھے؟ اِس کی وضاحت ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۵۷ کے تحت کر چکے ہیں۔ پینے کے لیے پانی ، کھانے کے لیے من و سلویٰ اور دھوپ کی تپش سے بچنے کے لیے بدلیوں کے سایے کا یہ اہتمام کتنا بڑا معجزہ اور کتنا عظیم احسان تھا، اِس کا اندازہ کوئی شخص اگر کرنا چاہے تو اُسے جزیرہ نماے سینا کے اُس بیابان کو جا کر دیکھنا چاہیے ، جہاں لاکھوں کی تعداد میں بنی اسرائیل آ کر ٹھیرے تھے، بالخصوص جبکہ مصر کی طرف سے اُن کی رسد کا سلسلہ بھی منقطع تھا اور جزیرہ نما کے شمال اور مشرق میں عمالقہ کے قبیلے بھی آمادئہ مزاحمت تھے۔

۵۳۹؎ مطلب یہ ہے کہ یہ نعمتیں گویا زبان حال سے دعوت دیتی تھیں کہ اپنے پروردگار کی اِس عنایت سے فائدہ اٹھاؤ اور اُس کے شکر گزار بن کر رہو۔

۵۴۰؎ اصل میں لفظ’الْقَرْیَۃ‘آیا ہے۔ اِس کے استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جس طرح چھوٹے دیہات کے لیے مستعمل ہے، اُسی طرح بڑے بڑے شہروں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اِس سے مراد فلسطین ہی کا کوئی شہر ہے، اِس لیے کہ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۵۸ میں ’فَکُلُوْا مِنْھَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا‘کے جو الفاظ اِس کے لیے آئے ہیں، وہ اِسی سرزمین کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔

۵۴۱؎ اصل الفاظ ہیں:’قُوْلُوْا حِطَّۃٌ‘۔اِن میں ’حِطَّۃٌ‘ ایک جملے کا قائم مقام ہے، یعنی ’مسئلتنا حطۃ‘۔ ’حِطَّۃٌ‘’حط یحط‘سے ہے جس کے معنی جھاڑ دینے کے ہیں۔یہاں اِس سے مراد گناہوں کا جھاڑ دینا ہے۔ عربی اور عبرانی چونکہ قریب الماخذزبانیں ہیں، اِس وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ عبرانی میں بھی یہ جھاڑ دینے اور بخش دینے کے مفہوم میں مستعمل رہا ہے۔

۵۴۲؎ اصل الفاظ ہیں:’وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا‘۔’الْقَرْیَۃ‘کے بعد ’الْبَاب‘کا لفظ جس طرح یہاں آیا ہے، اِس سے عربیت کی رو سے بستی کا دروازہ ہی مراد ہو سکتا ہے، اِسے’خیمۂ عبادت کا دروازہ‘ کے معنی میں لینے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔

۵۴۳؎ اِس مفہوم کے لیے اصل میں ’سُجَّدًا‘کا لفظ آیا ہے۔ صاف واضح ہے کہ اِس سے مراد یہاں سر جھکانا ہے۔ قرآن کی یہ آیت دلیل ہے کہ ’سجد‘عربی زبان میں جس طرح زمین پر پیشانی رکھ دینے کے معنی میں آتا ہے، اِسی طرح محض سر جھکا دینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔

۵۴۴؎ یعنی بنی اسرائیل کے کچھ بدبختوں نے ’حِطَّۃٌ‘کے لفظ کو جو استغفار اور توبہ کا کلمہ تھا، اِس سے بالکل مختلف مفہوم رکھنے والے کسی لفظ سے بدل دیا۔’بَدَّلَ‘کا جو لفظ اصل میں استعمال ہوا ہے، یہ جب اپنے دو مفعولوں کے ساتھ آتا ہے تو اِس کے معنی ایک چیز کی جگہ دوسری چیز کو رکھ دینے کے ہوتے ہیں۔ لفظ کی یہ نوعیت پیش نظر رہے تو اِسے محض رویے کی تبدیلی کے معنوں میں نہیں لیا جا سکتا۔ اِس کے صاف معنی یہی ہیں کہ اُنھوں نے اِس لفظ کو کسی دوسرے لفظ سے تبدیل کر دیا ۔

۵۴۵؎ اِس عذاب کے لیے ’آسمان سے عذاب‘ کی یہ تعبیر اُسی طرح اختیار کی گئی ہے، جس طرح کسی ہول ناک آفت کو قہر آسمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل پر یہ عذاب غالباً ارض فلسطین کے قریب ایک شہر شطیم میں آیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اِس شہر میں اُنھوں نے موآبی عورتوں سے بدکاریاں کیں، اُن کی دعوت پر مشرکانہ قربانیوں میں شریک ہوئے اور اِس طرح گویا بالواسطہ اُن کے دیوتا بعل فغور کی پرستش میں اُن کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اِن جرائم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایک سخت وبا بھیجی جس میں اُن کے چوبیس ہزار مردوزن ہلاک ہو ئے۔

۵۴۶؎ یہ اسلوب یہاں زجر و توبیخ کو ظاہر کر رہا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اپنی اِن تمام کرتوتوں کے باوجود جو بیان ہوئیں، اپنی پاکی و برتری کے زعم سے باز نہیں آتے اور اپنے آپ کو خدا کا چہیتا اور لاڈلا بنائے بیٹھے ہیں تو ذرا اِن سے اُس قریے کا ماجرا پوچھو جس نے سبت کی بے حرمتی کی اور اُس کی سزا میں خدا نے اُس کو نمونۂ عبرت بنا دیا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۷۸)

۵۴۷؎ یہ مقام غالباً ایلہ یا ایلات یا ایلوت تھا۔ اسرائیل کی یہودی ریاست نے یہاں اِسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے۔ اردن کی مشہور بندرگاہ عقبہ اُس کے قریب ہی واقع ہے۔ حضرت سلیمان کے عہد میں بحر قلزم کے لیے اُن کے جنگی اور تجارتی بیڑے کا صدر مقام یہی بستی تھی۔ اِس کا محل وقوع بحر قلزم کی اُس شاخ کے انتہائی سرے پر ہے، جو جزیرہ نماے سینا کے مشرقی اور عرب کے مغربی ساحل کے درمیان ایک لمبی خلیج کی صورت میں نظر آتی ہے۔

۵۴۸؎ سبت چھٹی کے دن کو کہتے ہیں۔ یہ اصلاً جمعہ کا دن تھا جسے بنی اسرائیل نے اُس کے اگلے دن سے بدل ڈالا۔ اُن کے ہاں یہ دن پشت در پشت تک دائمی عہد کے نشان کے طور پر خدا کی عبادت کے لیے خاص تھا اور اِس میں اُن کے لیے کام کاج، سیر و شکار ، حتیٰ کہ گھروں میں آگ جلانا اور لونڈی غلاموں سے کوئی خدمت لینا بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔

۵۴۹؎ آیت میں مچھلیوں کے منہ اٹھائے ہوئے پانی کے اوپر آجانے کا ذکر جن الفاظ میں ہوا ہے، وہ یہ ہیں: ’اِذْتَاْتِیْھِمْ حِیْتَانُھُمْ یَوْمَ سَبْتِھِمْ شُرَّعًا‘۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔’شُرَّع‘،’شارعۃ‘ کی جمع ہے۔جب یہ لفظ نیزوں کے لیے بولا جاتا ہے تو اِس سے مراد سیدھے اٹھائے ہوئے نیزے ہوتے ہیں۔ یہاں یہ لفظ مچھلیوں کے لیے آیا ہے تواِس سے منہ اٹھائے ہوئے مچھلیاں مراد ہیں۔ پلی ہوئی مچھلیوں کے تالاب کے کنارے اُن کے ابھرنے کے اوقات میں کھڑے ہو جائیے تو یہ دل کش منظر نظرآئے گا کہ مچھلیاں اپنے سر سطح پر اِ س طرح ابھارے ہوئے نظر آئیں گی گویا وہ اپنے نیزے سیدھے کیے ہوئے ہیں۔ سمندروں کے کنارے جو شکارگاہیں ہوتی ہیں، اُن میں یہ منظر اور بھی دلفریب اور طمع انگیز ہوتا ہوگا۔ یہود کی شریعت میں سبت ،یعنی ہفتے کے دن کام کاج اور سیروشکار وغیرہ کی ممانعت تھی، لیکن وہ صبر نہ کر سکے۔ اُنھوں نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار کے لیے مختلف قسم کے حیلے ایجاد کر لیے۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ جب کوئی قوم کسی نافرمانی میں اصرار کے حد تک بڑھ جاتی ہے اور اچھوں کے سمجھانے سے بھی باز نہیں آتی تو اُس معاملے میں اُس کی آزمایش سخت سے سخت تر ہو جاتی ہے تاکہ وہ اپنا پیمانہ اچھی طرح بھر لے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہی صورت حال بنی اسرائیل کے لیے پیدا کر دی۔ عام دنوں میں تو یہ مچھلیاں نظر نہ آتیں یا بہت ہی کم نظر آتیں، لیکن سبت کے دن معلوم ہوتا کہ اُن کے ہاں بارات اتری ہوئی ہے۔ یہ چیز اُن کی حرص کو اور بھڑکا دیتی۔ مشہور ہے کہ آدمی جس چیز سے روک دیا جائے، اُس کی خواہش اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔۔۔بنی اسرائیل اپنی شامت اعمال سے اِس دہرے فتنے میں مبتلا ہو گئے اور پھر اِس حد تک خراب ہوئے کہ نیکوں کی تلقین و موعظت تو درکنار، خدا کے عذاب سے بھی اُن کو تنبیہ نہیں ہوئی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اُن پر لعنت کر دی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۷۸)

۵۵۰؎ اِس سے مزید وضاحت ہو گئی کہ اُس بستی کے لوگوں نے خدا کے حکم سے سرکشی کی یہ راہ نصیحت کرنے والوں کی تلقین و نصیحت کے علی الرغم اختیار کیے رکھی۔

۵۵۱؎ دعوت و تبلیغ کا اصلی مقصد یہی ہے اور اِس کام کے لیے اٹھنے والوں کے لیے ذمہ داری کی آخری حد بھی یہی ہے کہ وہ زندگی کے آخری لمحے تک برابر اِس کام میں لگے رہیں اور اپنی دعوت کبھی منقطع نہ کریں۔ ختم نبوت کے بعد اب اُن کی دعوت میں کوئی ایسا مرحلہ کبھی نہیں آ سکتا، جب وہ فرض کر لیں کہ اُن کا کام پورا ہو گیا، اِس لیے نہ ماننے والوں کو عذاب الہٰی کے لیے چھوڑ کر اب وہ اُن سے الگ ہو سکتے ہیں۔

۵۵۲؎ یہ سزا اُس قانون کے مطابق دی گئی جو بنی اسرائیل کے منصب شہادت کے لیے انتخاب کے بعد خاص اُن کے لیے مقرر کر دیا گیا تھا۔ دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

۵۵۳؎ یہ لعنت کا جملہ ہے۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۶۶ میں اِس کا جو نتیجہ بیان ہوا ہے، اُس سے واضح ہے کہ وہ بندروں سے جس طرح مشابہ ہوئے، اُس کی نوعیت ایسی محسوس تھی کہ گردوپیش کی بستیوں کے لوگ اُسے دیکھ کر عبرت حاصل کر سکتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خواہش نفس کی پیروی میں جب وہ بندروں کی طرح کسی حد کے پابند نہیں رہے تو پہلے اُن کی سیرت مسخ ہوئی اور اِس کے بعد ایک ظاہری فرق جو تھوڑا سا رہ گیا تھا، وہ بھی بالآخر مٹ گیا۔ یہاں تک کہ اِس لعنت نے اُن کے ظاہر و باطن ، ہر چیز کا احاطہ کر لیا۔

۵۵۴؎ بنی اسرائیل کو اِس فیصلے سے ابتدا ہی میں آگاہ کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ بائیبل کے صحیفوں ـــــ احبار اور استثنا ـــــ میں کئی جگہ اِس کا ذکر ہوا ہے۔ انبیا علیہم السلام اِس کے بعد بھی اُنھیں اِس کی یاددہانی کرتے رہے۔ یسعیاہ، یرمیا اور دوسرے تمام نبیوں کے صحائف اِسی تنبیہ پر مشتمل ہیں۔ آخر میں سیدنا مسیح علیہ السلام نے یروشلم کی گلیوں میں اِس کی منادی کی۔ یہ فیصلہ کس طریقے سے نافذ ہوا؟ دنیا کی تاریخ اِس کی گواہی دیتی ہے۔ اِس وقت بھی ارض مقدس میں یہ اِسی مقصد سے جمع کیے جا رہے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ آشیاں بندی بھی ایک نئے طوفان کی دعوت ہے جس کے بعد اِن کی پوری مجتمعہ قوت ان شاء اللہ یک قلم ختم ہو جائے گی۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۳۸۱)

۵۵۵؎ یعنی اتمام حجت ہو جائے تو سزا دینے میں دیر نہیں کرتا اور لوگ رجوع کر لیں تو فوراً معاف بھی کر دیتا ہے، اِس لیے کہ صرف سریع العقاب ہی نہیں، اِس کے ساتھ غفور و رحیم بھی ہے۔

۵۵۶؎ مطلب یہ ہے کہ انفرادی حیثیت سے تو نیک و بد، ہر طرح کے لوگ اِن کے اندر موجود ہیں، مگر اجتماعی حیثیت سے یہ اُن تمام اوصاف سے محروم ہو چکے ہیں جو اِنھیں دنیا کی قوموں میں سربلند رکھ سکتے تھے۔

۵۵۷؎ اصل میں لفظ ’دَرَسُوْا‘آیا ہے۔ یہ اصلاً گھسنے کے معنی میں آتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہاں یہ لفظ یہود کے لیے بطور تعریض استعمال ہوا ہے کہ کتاب کو تو پڑھتے پڑھتے اُنھوں نے گھس ڈالا، لیکن حال وہی رہا کہ ساری زلیخا پڑھ جانے کے بعد بھی یہ پتا نہ چل سکا کہ زلیخازن بود کہ مرد!‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۸۲)

۵۵۸؎ آیت میں یہ فقرہ ایجاز کے قاعدے سے محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اِسے کھول دیا ہے۔

۵۵۹؎ یہ خدا کی قدرت اور اُس کے جلال کا ایک مظاہرہ تھا جو اِس لیے کیا گیا کہ بنی اسرائیل ہمیشہ اِس بات کو یاد رکھیں کہ جس خدا کے ساتھ وہ یہ عہد باندھ رہے ہیں، اُس کی قدرت کتنی بے پناہ ہے اور اُنھوں نے اگر اِس کی خلاف وزری کی تو وہ اُن کے ساتھ کیا معاملہ کر سکتا ہے۔ بائیبل میں اِس کا ذکر اِن الفاظ میں ہوا ہے:

’’اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے اور وہ پہاڑ سے نیچے آ کھڑے ہوئے اور کوہ سینا اوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خداوند شعلہ میں ہو کر اُس پر اترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا۔‘‘(خروج۱۹: ۱۷-۱۸)

۵۶۰؎ یعنی اِسے پوری مضبوطی کے ساتھ لو اور زندگی کے تمام مراحل میں پورے استقلال اور عزیمت کے ساتھ اِس کی ہدایات کی پیروی کرو۔

۵۶۱؎ مطلب یہ ہے کہ اِس کا حرف حرف ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھو، خواہ وہ اِس کے احکام و ہدایات سے متعلق ہو یا اِس کی تنبیہات سے متعلق جو اِن احکام و ہدایات سے انحراف کے نتائج کے بارے میں تمھیں سنائی گئی ہیں۔

۵۶۲؎ اصل الفاظ ہیں:’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘۔موقع کلام کا تقاضا ہے کہ یہاں اِنھیں خدا کے غضب سے بچنے کے مفہوم میں لیا جائے۔

______

* ۳۲: ۱- ۶۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B