HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

رخصتی کے وقت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر

[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حدیث وسیرت کی روایات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھے سال تھی، جبکہ ان کی رخصتی اس کے تین سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ حدیث وسیرت کے کلاسیکی اہل علم کے ہاں اسی بات پر اتفاق چلا آ رہا ہے، تاہم دور جدید میں بعض اہل علم نے متعدد پہلووں سے ان روایات پر شبہات وارد کیے ہیں اور ان کے تاریخی وواقعاتی استناد کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس ضمن میں ان حضرات کی تحریروں سے اس زاویہ نظر کا بنیادی محرک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر مستشرقین کے اعتراض کی بنیاد کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو اس کم سنی میں ام المومنین کے ساتھ آپ کے نکاح کو ایک غیر اخلاقی فعل کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاہم متعلقہ روایات کو ناقابل قبول ثابت کرنے کے لیے ان حضرات کی طرف سے متعدد علمی نکات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ یہ بحث ایک عرصے سے جاری ہے اور زیر بحث روایات کی تائید یا تردید کے ضمن میں متعدد اہل قلم کی نگارشات سامنے آ چکی ہیں، تاہم بعض پہلووں سے یہ بحث کسی قدر تشنہ محسوس ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں ہم زیر نظر سطور میں اس بحث کے مختلف پہلووں کے حوالے سے اپنا طالب علمانہ نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

روایات کی اسنادی حیثیت

سب سے پہلا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ محدثانہ معیار کے لحاظ سے زیر بحث روایات کا مقام ومرتبہ اور حیثیت کیا ہے؟ اس حوالے سے متعدد ناقدین نے جس نکتے کو بہت نمایاں طور پر بلکہ استدلال کے مرکزی نکتے کے طور پر پیش کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس مضمون کی روایات کے مرکزی راوی کی حیثیت ہشام بن عروہ کو حاصل ہے جو محدثین کی تصریح کے مطابق مدینہ منورہ سے بصرہ چلے جانے کے بعد آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اور چونکہ ان سے زیر بحث روایات کو نقل کرنے والے تمام راوی اہل بصرہ میں سے ہیں، جبکہ ان کے مدنی تلامذہ میں سے کسی نے یہ روایت نقل نہیں کی، اس لیے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت انھوں نے اپنے اختلاط کے دور میں بصرہ میں بیان کی تھی اور یہ چیز ان کے بیان کو قابل اعتماد نہیں رہنے دیتی۔

واقعہ یہ ہے کہ یہ نکتہ جس قدر زور وشور سے اٹھایا گیا ہے، علمی وتاریخی لحاظ سے اتنا ہی کمزور اور بے بنیاد ہے، اس لیے کہ حدیث وسیرت کی کتب میں اس مضمون کی روایات کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح اور رخصتی کے وقت ام المومنین کی عمر بالترتیب چھے اور نو سال ہونے کی بات خود ام المومنین سے ایک درجن کے قریب الگ الگ سندوں سے مروی ہے اور ام المومنین کے متعدد شاگردوں نے یہ روایت ان سے مختلف الفاظ میں اجمالاً یا تفصیلاً نقل کی ہے۔ ان رواۃ کی تفصیل حسب ذیل ہے:

۱۔ عروہ بن زبیر

ان سے اس روایت کو ان کے درج ذیل چار شاگردوں نے نقل کیا ہے:

الف۔ ہشام بن عروہ (بخاری، ۳۶۸۱۔ مسلم، ۱۴۲۲)

ب۔ ابن شہاب زہری (مسلم، ۱۴۲۲)

ج۔ ابو الزناد (المعجم الاوسط، ۶۹۵۷)

د۔ عبد اللہ بن عروۃ (معرفۃ الثقات، ۲۳۴۳)

گویا عروہ بن زبیر سے اس روایت کو نقل کرنے میں ہشام متفرد نہیں ہیں، بلکہ ان کے تین متابع بھی موجود ہیں جن میں حدیث وسنت کے جلیل القدر امام، ابن شہاب زہری بھی شامل ہیں۔

۲۔ اسود بن یزید (مسلم، ۱۴۲۲)

۳۔ عبد اللہ بن صفوان (مستدرک حاکم، ۶۷۳۰)

۴۔ عبد اللہ ابن ابی ملیکۃ (سنن النسائی الکبریٰ، ۵۳۶۵)

۵۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن (سنن النسائی، ۳۳۷۹)

۶۔ قاسم بن محمد (الآحاد والمثانی ۳۰۰۷۔ طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۲۲)

۷۔ عبد الملک بن عمیر (طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۲۹)

۸۔ عبد الرحمن بن محمد بن زید بن جدعان (طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۳۱)

۹۔ یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب (مسند احمد، ۲۵۸۱۰۔ مسند ابی یعلیٰ، ۴۶۷۳۔ مسند اسحاق بن راہویہ، ۱۱۶۴)

۱۰۔ عمرۃ بنت عبد الرحمن (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۸/۵۸)

۱۱۔ ابو عبیدۃ (سنن النسائی الکبریٰ، ۵۳۶۹)

اس کے ساتھ اگر ذخیرۂ حدیث وسیرت کی ان روایات کو بھی شامل کر لیا جائے جن میں ام المومنین عائشہ کا واسطہ موجود نہیں اور بعض دوسرے صحابہ یا تابعین نے یہی مضمون بیان کیا ہے تو اس بات کا تاریخی ثبوت مزید یقینی ہو جاتا ہے۔ یہ روایات درج ذیل ہیں:

۱۲۔ ابو عبیدۃ عن عبد اللہ بن مسعود (ابن ماجہ، رقم ۱۸۷۷)

۱۳۔ ابو اسحاق عن مصعب بن سعد (الطبقات الکبریٰ ۸/ ۶۰)

۱۴۔ یزید بن جابر عن ابیہ (مستدرک، ۶۷۱۴)

۱۵۔ ابوعبیدہ عن جابر بن زید (مسند الربیع، ۵۲۲، ۷۴۱)

۱۶۔ حبیب مولیٰ عروۃ (مستدرک، ۶۷۱۶)

۱۷۔ جعفر بن برقان عن الزہری (الطبقات الکبریٰ ۸/ ۶۱)

۱۸۔ سعید بن ابی عروبۃ عن قتادۃ (طبرانی، المعجم الکبیر، ۲۳/ ۱۹)

یہ ڈیڑھ درجن روایات بنتی ہیں اور ہشام بن عروہ کا نام ان میں سے صرف ایک سند یعنی عروہ بن زبیر کی سند میں آتا ہے، جبکہ باقی تمام سندوں سے ان کا سرے سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے، اس لیے یہ نکتہ کہ بوقت رخصتی ام المومنین کی عمر نو سال ہونے کی بات اکیلے ہشام بن عروہ نے اپنے اختلاط کے دور میں بیان کی ہے، علمی لحاظ سے بالکل ناقابل التفات ہے۔

مخالف تاریخی قرائن ودلائل

بحث کی تکمیل کے لیے ان تاریخی استدلالات کا ایک جائزہ لینا بھی ضروری ہے جو اس دعوے کے حق میں پیش کیے گئے ہیں کہ ام المومنین کی عمر اس موقع پر نو سال سے کہیں زیادہ تھی اور یہ کہ وہ اس وقت اٹھارہ یا انیس سال کی نوجوان لڑکی تھیں۔ اس نوعیت کے استدلالات کا ایک جامع خلاصہ مولانا حبیب الرحمن کاندھلویؒ نے اپنے رسالہ ’’تحقیق عمر عائشہ‘‘ میں بیان کر دیا ہے، اس لیے سہولت کی غرض سے ہم نے نقد وتبصرہ کے لیے انھی کی تحریر کو بنیاد بنایا ہے۔

مولانا کاندھلویؒ نے اس ضمن میں کل چوبیس دلیلیں بیان کی ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو اس قیاس پر مبنی ہیں کہ مختلف روایات میں ام المومنین کا اور ان کے مختلف ذمہ داریاں انجام دینے کا ذکر جس انداز سے ہوا ہے، ان سے ایک نوعمر بچی کا نہیں بلکہ ایک جوان لڑکی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ مثلاً یہ کہ:

-جب حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کی ترغیب دی تو آپ کے پوچھنے پر انھوں نے کہا کہ میرے ذہن میں دو رشتے ہیں۔ ایک کنواری لڑکی یعنی عائشہ ہے اور دوسری ایک شوہر دیدہ خاتون یعنی سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا۔

-ہجرت کے بعد جب ام المومنین کے اہل خانہ نئی آب وہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہو گئے تو وہ ان کی تیمار داری کرتی رہیں۔

-وہ غزوۂ احد میں، (بلکہ مولانا کاندھلوی کی تحقیق کے مطابق غزوۂ بدر میں بھی) شریک ہوئیں اور خواتین کے ساتھ مل کر زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی رہیں، جبکہ اسی غزوے میں چودہ سال کے لڑکوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔

-ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ وہ اسامہ بن زید کی ناک پونچھ دیں یا ان کے زخم سے خون صاف کر دیں۔

معمولی غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ مذکورہ امور کو اس دعوے کے حق میں تائیدی قرائن کے طور پر اسی وقت پیش کیا جا سکتا ہے جب کسی دوسری صریح اور مضبوط دلیل سے بنیادی مقدمہ ثابت ہو جائے۔ اس کے بغیر مذکورہ تمام قرائن ایک کمزور اور بالواسطہ استنباط سے زیادہ درجہ نہیں رکھتے اور ان کی بنیاد پر خود ام المومنین کے واضح اور صریح بیان کو علمی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔

مولانا کے پیش کردہ بعض استدلالات ایسے مفروضات پر مبنی ہیں جن کا اپنا ثبوت تاریخی لحاظ سے یقینی نہیں۔ مثلاً ام المومنین سے روایت ہے کہ جب مکہ مکرمہ میں سورۂ قمر کی آیت: ’بل الساعۃ موعدہم والساعۃ ادہی وامر‘ اتری تو میں ایک لڑکی تھی اور کھیلتی پھرتی تھی۔ (بخاری، ۴۵۹۵) اس سورہ کی پہلی آیت میں شق قمر کے معجزے کا ذکر ہوا ہے جو مکی دور نبوت میں رونما ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس معجزے کے ظہور کے وقت ام المومنین کی عمر اتنی تھی کہ وہ کھیلتی پھرتی تھیں اور انھیں اس بات کا بھی شعور تھا کہ قرآن کی فلاں آیت نازل ہوئی ہے۔ چونکہ سورہ کے داخلی اسلوب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ساری سورہ یک بارگی نازل ہوئی ہوگی، اس لیے اگر متعین طور پر معلوم ہو جائے کہ شق القمر کا معجزہ کس سن میں رونما ہوا تھا تو ام المومنین کا مذکورہ بیان کسی حد تک قرینہ بن سکتا ہے، تاہم ذخیرۂ سیرت میں اس معجزے کے زمانہ ظہور کی تعیین سے متعلق کوئی قابل وثوق قرائن موجود نہیں۔

اردو کے سیرت نگاروں میں سے مولانا مودودی نے اس واقعے کو ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے۔ (تفہیم القرآن، ۵/ ۲۲۹) تاہم انھوں نے ان قرائن یا دلائل کا ذکر نہیں کیا جن سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ اس کے برخلاف سید سلیمان ندوی کی رائے یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے کچھ ہی پہلے کا ہے ۔ (سیرت النبی ۳/۱۷۰) فرض کیجیے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے تو بھی اس وقت ام المومنین کی عمر معروف روایت کے مطابق تین سال بنتی ہے اور ایک غیر معمولی طور پر ذہین وفطین بچی کو اس عمر میں سنی ہوئی ایک آیت کا یاد رہ جانا کوئی بعید از امکان بات نہیں۔

یہاں مولانا کاندھلوی نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بظاہر ناقابل فہم ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’شق قمر کا واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے۔ مفسرین کا بیان ہے کہ یہ سورت سن ۴ نبوی میں نازل ہوئی۔‘‘ (ص ۱۸) یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں۔ اگر شق قمر کا واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل رونما ہوا ہو تو یہ ۸ نبوی کا سن بنتا ہے، چنانچہ سورۃ القمر کا نزول بھی اس کے بعد ہی ماننا چاہیے۔ واقعہ اگر ۸ نبوی کا ہے تو سورۃ ۴ نبوی میں کیونکر نازل ہو سکتی ہے؟

اسی طرز استدلال کی ایک اور مثال دیکھیے:

ایک روایت میں ام المومنین یہ بیان کرتی ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو انھیں صورت حال کا پورا شعور تھا۔ (بخاری، ۴۶۴) اس بیان کو کسی دلیل کے بغیر ۵ نبوی میں (جو عام روایت کے مطابق ام المومنین کا سن ولادت بھی ہے) کی جانے والی اجتماعی ہجرت حبشہ پر محمول کیا گیا ہے، حالانکہ حبشہ کی طرف اجتماعی ہجرت اس کے بعد یعنی ۷ نبوی میں بھی ہوئی، جبکہ سیدنا صدیق اکبر کے ارادۂ ہجرت کے بارے میں محدثین کا خیال یہ ہے کہ وہ شعب ابی طالب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محصور کیے جانے کے بعد ۷ یا ۸ نبوی کاواقعہ ہے، (فتح الباری ۷/۲۳۲) بلکہ بعض ارباب سیرت نے اسے ہجرت مدینہ کے بالکل قریب ۱۳ نبوی کا واقعہ قرار دیا ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ۳/۴۹۹۔ تاریخ الخمیس، ۳/۳۱۹) ظاہر ہے کہ ان مختلف احتمالات کی موجودگی میں یقینی طورپر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ام المومنین کی روایت میں حبشہ کی طرف جس ارادۂ ہجرت کا ذکر ہے، وہ ۵ نبوی ہی کی ہجرت حبشہ ہے۔

مولانا کے پیش کردہ بعض استدلالات بالکل سوء فہم پرمبنی ہیں۔ مثال کے طور پر طبری نے سیدنا ابوبکر کے نکاحوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں دو نکاح کیے تھے۔ ایک قتیلہ بنت عبد العزیٰ سے جن سے عبد اللہ اور اسماء پیدا ہوئیں اور دوسرا ام رومان سے جن سے عائشہ اور عبد الرحمن پیدا ہوئے۔ اس موقع پر طبری نے لکھا ہے:

فکل ہولاء الاربعۃ من اولادہ ولدوا من زوجتیہ اللتین سمیناہما فی الجاہلیۃ وتزوج فی الاسلام اسماء بنت عمیس.(تاریخ طبری ۲/ ۳۵۱)’’ان کے یہ چاروں بچے ان کی زمانہ جاہلیت کی دو بیویوں سے پیدا ہوئے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، جبکہ اسلام کی حالت میں انھوں نے اسماء بنت عمیس سے نکاح کیا۔‘‘

یہاں ’فی الجاہلیۃ‘ کا تعلق ’زوجتیہ‘ سے ہے اور مراد ہے وہ دو بیویاں جن سے سیدنا ابوبکر نے زمانہ جاہلیت میں نکاح کیا تھا، لیکن اس کا تعلق ’ولدوا‘ سے جوڑتے ہوئے مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ چاروں بچے زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئے تھے۔

بعض دلیلوں میں روایات سے صریحاً کھینچ تان کر، بلکہ ان کے اصل مدعا کے بالکل برعکس نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ام المومنین کا یہ بیان منقول ہے کہ:

لم اعقل ابوی الا وہمایدینان الدین ولم یمر علینا یوم الا یاتینا فیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طرفی النہار بکرۃ وعشیۃ.(بخاری، ۴۶۴)’’مجھے اپنے والدین کے بارے میں شعور ہوا تو وہ اس دین کو اختیار کیے ہوئے تھے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور شام کو ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں۔‘‘

ام المومنین کی مراد یہ ہے کہ بدو شعور سے ہی انھوں نے اپنے والدین کو اسلام پر قائم دیکھا۔ اسلوب سے واضح ہے کہ بعثت نبوی اور ان کے والدین کے اسلام کو قبول کرنے کا واقعہ ان کے شعور کی عمر سے پہلے ہو چکا تھا، چنانچہ اپنے شعور کی ابتدا سے ہی انھوں نے جو کیفیت دیکھی، وہ یہ تھی کہ والدین اسلام پر قائم تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز صبح اور شام کے اوقات میں ان کے گھر آیا کرتے تھے۔ لیکن اس روایت سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’اس حدیث میں برملا یہ دعویٰ فرما رہی ہیں کہ بعثت نبوی کے وقت میں صاحب عقل وہوش تھی اور یہ جو کچھ پیش آتا رہا، میری نظروں کے سامنے ہوتا رہا۔‘‘ (حبیب الرحمن کاندھلوی، ’’تحقیق عمر عائشہ‘‘، ص ۳۱) یہ بدیہی طور پر اپنے ذہنی مفروضات کو روایت کے الفاظ میں پڑھنے کی ایک افسوس ناک مثال ہے۔

مولانا کی پیش کردہ ایک اور دلیل میں بھی غالباً سوء فہم ہی کارفرما ہے۔ انھوں نے طبری کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مکی عہد میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو یہ چاہا کہ اپنی بیٹی عائشہ کو، جن کی نسبت اس سے پہلے جبیر بن مطعم کے ساتھ طے ہو چکی تھی، رخصت کر دیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں مطعم بن عدی اور ان کی اہلیہ سے بات کی تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تمھاری بیٹی ہمارے بیٹے کو بھی بے دین بنا دے گی۔ مولانا نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین اس وقت کوئی چھوٹی بچی نہیں، بلکہ جوان اور رخصتی کے قابل تھیں۔

تاہم مولانا نے سیدنا ابوبکر اور مطعم بن عدی کے مکالمے کا واقعہ جس تناظر میں بیان کیا ہے، طبری میں وہ اس سے بالکل مختلف سیاق میں نقل ہوا ہے۔ وہاں نہ تو سیدنا ابوبکر کے ارادۂ ہجرت کا ذکر ہے اور نہ ام المومنین کو رخصت کر کے جبیر بن معطم کے گھر بھیج دینے کے حقیقی ارادے کا۔ طبری نے یہ واقعہ یوں نقل کیا ہے کہ جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر سیدنا ابوبکر سے سیدہ عائشہ کے رشتے کے لیے بات کی تو ان کی والدہ ام رومان نے کہا کہ عائشہ کے رشتے کی بات مطعم بن عدی اپنے بیٹے کے لیے کر چکے ہیں اور ابوبکر وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اس پر سیدنا ابوبکر ام المومنین کی رخصتی کے ارادے سے نہیں، جیسا کہ مولانا کاندھلوی نے بیان کیا ہے، بلکہ اپنے وعدے کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کے لیے مطعم بن عدی اور ان کی بیوی کے پاس گئے اور اس موقع پر جو گفتگو ہوئی، اس میں مطعم اور ان کی اہلیہ نے یہ کہا کہ اگر ہم تمھاری بیٹی کے ساتھ اپنے بیٹے کی شادی کر دیں گے تو وہ اسے بھی بے دین بنا دے گی۔ (طبری، ۲/ ۲۱۲)

معلوم نہیں مولانا نے اس واقعے کو سیدنا ابوبکر کے حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے کیسے جوڑ دیا اور پھر یہ نتیجہ کیسے اخذکر لیا کہ وہ واقعی اس موقع پر ام المومنین کو رخصت کر کے جبیر بن مطعم کے گھر بھیجنا چاہتے تھے۔

مولانا نے عربی زبان وادب اور تاریخ وانساب میں ام المومنین کی مہارت کو بھی اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال نہیں ہو سکتی۔ ان کا فرمانا ہے کہ ’’مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاغل مکہ کی زندگی سے بالکل مختلف تھے۔ یہاں قرآن، صوم وصلوٰۃ کے مسائل اور ملکی مہمات پیش نظر رہتیں۔ یہاں کا ماحول یہی تھا۔ اس ماحول کا انساب، تاریخ، شعر وشاعری سے کوئی دورکا واسطہ نہ تھا۔ ....... لہٰذا یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ام المومنین نکاح سے قبل عاقلہ اور بالغہ تھیں۔ انھوں نے یہ تمام فنون اپنے والد سے حاصل کیے۔‘‘ (ص ۴۹، ۵۰)

یہ ایک عجیب وغریب استدلال ہے۔ اس وقت کے عرب تمدن میں مذکورہ علوم سکھانے کے لیے کوئی باقاعدہ تعلیمی یا تحقیقی ادارے قائم نہیں تھے جن سے وابستگی علمی وتحقیقی مہارت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہو۔ یہ چیزیں خدادا د فہم وفراست کے ساتھ ساتھ ارد گردکے ماحول اور شخصیات سے ہی سیکھی جاتی تھیں اور ام المومنین کو اس کے مواقع شادی کے بعد بھی پوری طرح میسر تھے۔ اپنے والد کے ساتھ بھی ان کا رابطہ تھا اور مدینہ میں موجود مہاجرین اورانصار کی خواتین، بلکہ یہودی عورتیں بھی ان سے ملنے کے لیے آتی رہتی تھیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وہ شعر وشاعری نہ سہی، تاریخ وانساب کا علم بہرحال سیکھ سکتی تھیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت قرآن اور صوم وصلوٰۃ ہی کی باتیں نہیں کرتے رہتے تھے، بلکہ مجلس کی مناسبت سے ہر طرح کے موضوع پر گفتگو میں شریک ہوتے تھے اور مختلف امور سے متعلق آپ کی معلومات پر بسا اوقات صحابہ بھی حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔

تاریخی اعتبار سے مولانا کی پیش کردہ صرف دو دلیلیں ایسی ہیں جن میں کھینچا تانی اور تکلف کا عنصر نہیں پایا جاتا اور جو کسی حد تک قابل توجہ ہیں۔

ایک یہ کہ مورخ ابن اسحاق نے، جن کا بیان ابن ہشام نے بھی نقل کیا ہے، اپنی سیرت میں عہد مکی میں ان حضرات کا ذکر کرتے ہوئے جنھوں نے بعثت نبوی کے بعد بالکل ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا، دوسرے بہت سے افرادکے ساتھ سیدنا ابوبکر کی صاحب زادیوں سیدہ اسماء اور سیدہ عائشہ کا بھی نام درج کیا ہے اور لکھا ہے کہ عائشہ اس وقت چھوٹی عمر کی تھیں۔ (سیرۃ ابن اسحاق ۲/ ۱۲۴۔ سیرت ابن ہشام ۲/ ۹۲)

بظاہر اس بیان سے مولانا کا یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ ’’ابن ہشام کی تصریح کے مطابق ..... ام المومنین حضرت عائشہؓ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے کافی قبل سن ۱ نبوت میں مشرف بااسلام ہو چکی تھیں۔‘‘ (تحقیق عمر عائشہ، ص ۳۵) تاہم ابن اسحاق کے اس بیان کو ام المومنین کے اپنے بیان کی تردید کے لیے بنیاد بنانا اس لیے درست نہیں کہ اول تو ابن اسحاق نے اپنے اس بیان کا کوئی ماخذ نہیں بتایا۔ یہ یا تو ان تک پہنچی ہوئی کوئی ایسی اطلاع ہے جس کی سند معلوم نہیں اور یا پھر محض سبقت قلم ہے۔ دوسرے امکان کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابن اسحاق اور ان کے شاگرد ابن ہشام، دونوں نے سیدہ عائشہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا ذکر کرتے ہوئے ام المومنین کا وہی معروف بیان نقل کیا ہے جس میں وہ بتاتی ہیں کہ ان کا نکاح چھے سال کی عمر میں جبکہ رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ (سیرۃ ابن اسحاق، ۵/ ۲۳۹۔ سیرت ابن ہشام، ۶/ ۵۷)

دوسرا استدلال جسے اس معاملے میں بظاہر نتیجہ خیز کہا جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے اسے اس نقطہ نظر کے کم وبیش سبھی حاملین نے بیان کیا ہے، یہ ہے کہ ام المومنین کی ہمشیرہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے متعلق یہ معلوم ہے کہ ان کی وفات ۷۳ھ میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند دن بعد ہوئی تھی۔ اس ضمن میں تاریخی روایات میں دو مزید باتیں ملتی ہیں۔ ایک ان کے بیٹے عروہ بن زبیر کا یہ بیان کہ وفات کے وقت سیدہ اسماء کی عمر سو سال تھی (ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق ۶۹/ ۲۲) اور دوسرے، ابن ابی الزناد کا یہ بیان کہ اسماء، ام المومنین عائشہ سے عمر میں دس سال بڑی تھیں۔ (ابن عبد البر، الاستیعاب ۲/۶۱۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ ۱۱۹۲۷۔ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق ۶۹/۱۰) ان دونوں بیانات کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہجرت کے موقع پر سیدہ اسماء کی عمر ۲۷ سال تھی اور چونکہ وہ ام المومنین عائشہ سے دس سال بڑی تھیں، اس لیے ہجرت کے موقع پر ام المومنین کی عمر ۱۷ سال ہونی چاہیے۔

یہ دلیل اس ضمن میں پیش کی گئی سب دلیلوں میں زیادہ قوی اور متاثر کن ہے، تاہم ہمارے خیال میں دو وجوہ اسے فیصلہ کن قرار دینے میں مانع ہیں۔

ایک یہ کہ مذکورہ نتیجہ عروہ بن زبیر اور ابن ابی الزناد، دونوں کے بیانات کو درست مان کر باہم ملائے بغیر نکالنا ممکن نہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان میں سے عروہ بن زبیر تو سیدہ اسماء کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے گھر کے آدمی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کے بیان پر اعتماد نہ کیا جائے، لیکن ابن ابی الزناد کے بیان کی حیثیت یہ نہیں ہے۔ وہ تبع تابعی ہیں، یعنی ام المومنین کے ہم عصر نہیں۔ اس کے اس بیان کا ماخذ بالکل معلوم نہیں اور عین ممکن ہے کہ یہ محض ان کا اندازہ یا کوئی سنی سنائی بات ہو۔ پھر ابن عبد البر نے ان کے بیان کے الفاظ یہ نقل کیے ہیں کہ ’کانت اکبر من عائشۃ بعشر سنین او نحوہا‘۔ (الاستیعاب ۲/ ۶۱۶) اس کا مطلب یہ ہے کہ متعین طور پر دس سال کے فرق کو وہ بھی جزم کے ساتھ بیان نہیں کر رہے۔ غالباً ذہبی نے اسی بات کے پیش نظر یہ لکھا ہے کہ:

کانت اسن من عائشۃ ببضع عشرۃ سنۃ.(سیر اعلام النبلاء ۲/ ۲۸۸)
’’اسماء، عائشہ سے تیرہ تا انیس سال بڑی تھیں۔‘‘

دوسری بات یہ کہ عروہ بن زبیر نے جس سیاق میں اپنی والدہ کی عمر سو سال ہونے کی بات کہی ہے، اس سے یہ قوی تاثر ملتا ہے کہ ان کا مقصد متعین طور پر (Exactly) ان کی عمر بتانا نہیں، بلکہ دراصل ان کے بڑھاپے کو نمایاں کرنا ہے۔ عروہ کا بیان ہے:

کانت اسماء وقد بلغت ماءۃ سنۃ ولم یقع لہا سن.(تاریخ مدینۃ دمشق ۶۹/ ۲۷)’’اسماء کی عمر سو سال کو پہنچ گئی تھی، پھر بھی ان کا کوئی دانت نہیں گرا تھا۔‘‘

تاریخ وسیرت کی روایات میں کسور کا اعتبار نہ کرتے ہوئے پوری دہائیوں کے لحاظ سے تاریخیں اور عمریں بیان کر دینے کا اسلوب عام ہے، اس لیے اگر ۷۳ھ میں وفات کے وقت ان کی عمر چرانوے یا پچانوے سال بھی ہو تو زبان کے عام اسلوب کے مطابق اس کو سو سال سے تعبیر کر دینے میں کوئی مانع نہیں۔ خاص طور پر جب گفتگو کا سیاق سیدہ اسماء کے بڑھاپے کو نمایاں کرنے کا تقاضا کر رہا ہو تو ایسے موقع پر مبالغے کے اسلوب میں یہ کہہ دینا کہ ’’سو سال کی عمر میں بھی ان کے دانت بالکل سلامت تھے‘‘ ہرگز اس کا متحمل نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر سیدہ اسماء کی عمر متعین طور پر پورے سو سال قرار دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین بھی اس نتیجے کو ماننے پر متفق نہیں ہیں اور علامہ ذہبی نے ابن ابی الزناد کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:

فان کان ما ذکرہ ابن ابی الزناد صحیحا من ان اسماء تکبر عائشۃ بعشر سنوات فہذا یعنی ان اسماء ماتت عن عمر ۹۱ سنۃ.(تاریخ الاسلام ۵/ ۳۵۴)

فعمرہاعلی ہذا احدی وتسعون سنۃ.(سیر اعلام النبلاء ۳ /۳۸۰)’’اس بیان کی روشنی میں ان کی عمر اکانوے سال ہوگی۔‘‘

فرض کر لیں کہ نکاح کے وقت اپنی عمر کے بارے میں خود ام المومنین کے اپنے صریح اور مستند بیان کو چھوڑ دوسرے افراد کی عمر اور تاریخ وفات سے ان کی عمر متعین کرنے کی علمی طور پر گنجائش ہے۔ اس صورت میں سوال یہ سامنے آتا ہے کہ تاریخی کتابوں میں صرف سیدہ اسماء کی عمر اور سن وفات مذکور نہیں، بلکہ سیدہ عائشہ کی عمر اور سن وفات بھی ذکر کی گئی ہے۔ ان کے سن وفات کے متعلق ۵۶ھ، ۵۷ھ، ۵۸ھ اور ۵۹ھ کے مختلف اقوال موجود ہیں، تاہم عام طور پر مورخین نے ۵۸ھ کے قول کو قبول کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ وسیرت کی کتابو ں میں اس کی بھی تصریح ہے کہ وفات کے وقت ام المومنین کی عمر ۶۶ برس تھی۔ (الطبقات الکبریٰ، ۸/۷۸۔ تاریخ مدینۃ دمشق ۳/۲۰۳۔ المنتظم ۵/ ۳۰۳) ۶۶ میں سے ۵۸ برس نکال دیے جائیں تو ہجرت مدینہ کے وقت ان کی عمر ۸ سال بنتی ہے جو ام المومنین کے اس بیان کے عین مطابق ہے کہ ان کی رخصتی ہجرت مدینہ کے بعد نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔

کم سنی کی شادی کی اخلاقی حیثیت

جہاں تک اس اشکال کا تعلق ہے کہ نو سال کی کم سن بچی کے ساتھ نکاح کرنا اخلاقی طور پر ایک معیوب بات لگتی ہے تو یہ اشکال دراصل معاشرت اور تمدن کے تغیر اور تہذیب وثقافت کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگرچہ انسانی نفسیات میں حاسہ اخلاقی (Moral Sense) کا وجود اور بنیادی اخلاقی تصورات کا شعور تمام انسانوں کے مابین ایک مشترک چیز ہے، لیکن کسی مخصوص معاملے پر اخلاقی اصولوں کا انطباق کرتے ہوئے اسے اخلاقی یا غیر اخلاقی قرار دینے میں انسانوں کے زاویہ نظر اختلاف ہو سکتا ہے اور اس ضمن میں کسی بھی تہذیب یا معاشرت کے اپنے مخصوص تجربات، ماحول اور عرف ورواج کا بھی خاصا دخل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک معاشرت میں ایک چیز اخلاقی طور پر بالکل درست سمجھی جاتی ہو، جبکہ کوئی دوسرا معاشرہ بعینہ اسی چیز کو غیر اخلاقی تصور کرتا ہو۔ مثال کے طور پر ہندو معاشرے میں صدیوں تک ’ستی‘ کی رسم رائج رہی ہے اور اس کا باقاعدہ اخلاقی اور مذہبی جواز پیش کیا جاتا تھا، لیکن اسلامی تصورات کی رو سے اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح اسلام میں مختلف معاشرتی جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں پر ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے جیسی سزائیں نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ جدید مغربی تہذیب ان سزاؤں کو غیر انسانی اور وحشیانہ سزائیں قرار دیتی ہے۔ یہی معاملہ بہت سے ایسے امور کا ہے جنھیں مغربی تہذیب میں اخلاقی لحاظ سے بالکل درست سمجھا جاتا ہے، لیکن دنیا کے دوسرے معاشرے اور خاص طور پر مسلمان معاشرے اپنی مذہبی واخلاقی روایات کی روشنی میں انھیں جائز تسلیم نہیں کرتے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حاسہ اخلاقی اور بنیادی اخلاقی تصورات کے سارے انسانوں کے مابین مشترک ہونے کے باوجود ان کے عملی انطباق میں اختلاف ہو سکتا ہے اور عملاً ایسا اختلاف دنیا میں موجود ہے۔ ایسی صورت میں یہ طے کرنے کے لیے کہ کسی مخصوص معاملے میں کسی فرد یا گروہ کا کوئی عمل اخلاقیات کے دائرے کے اندر تھا یا اس سے متجاوز، اس بنیادی نکتے کو ملحوظ رکھنا بے حد اہم ہے کہ جس معاشرے اور ماحول میں اس عمل کو انجام دیا گیا، وہاں اس کی اخلاقی حیثیت کیا سمجھی جاتی تھی اور عمومی طور پر لوگ اس کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ کسی بھی شخص کو دانستہ بد اخلاقی کا مرتکب قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اپنے معاشرتی تصورات کی رو سے اسے ایک غیر اخلاقی عمل سمجھتا ہو اور اس کے باوجود اس نے اس کا ارتکاب کیا ہو۔ کسی دوسرے معاشرتی ماحول سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے تصورات اور عادات کے لحاظ سے اس پر اچنبھا بھی محسوس کر سکتے ہیں اور اسے غیر اخلاقی بھی قرار دے سکتے ہیں، لیکن یہ محض ان کے اپنے احساس کا بیان ہوگا جسے ایک آفاقی معیار کی حیثیت دینا بعض صورتوں میں خود بہت سے اخلاقی اصولوں کو مجروح کیے بغیر ممکن نہیں۔

کم سنی کی شادی کے متعلق جدید ذہن کا منفی تاثر بھی ہمارے نزدیک اسی نوعیت کی چیز ہے۔ متعدد وجوہ سے، جن میں جدید طبی تحقیقات اور ناگوار معاشرتی تجربات زیادہ اہم ہیں، جدید ذہن کم سنی میں لڑکی کی شادی سے ایک طرح کا توحش محسوس کرتا ہے جو ایک مخصوص تناظر میں بجا اور قابل فہم بھی ہے، تاہم عہد نبوی کی عرب معاشرت میں نو سال کی عمر میں لڑکی کی رخصتی کوئی عجیب اور خاص طور پر کوئی غیر اخلاقی معاملہ ہرگز نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہ بات اول تو اسی سے واضح ہے کہ ام المومنین کو رخصت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دینے کی پیش کش خود ام المومنین کے والد سیدنا ابوبکر نے کی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا تھا۔ اس پر کسی بھی طرف سے کوئی منفی رد عمل سامنے نہیں آیا، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ کے ایک ایک عمل پر نہ صرف مشرکین اور یہود ونصاریٰ بلکہ خود مسلمانوں کی صف میں شامل منافقین کے گروہ کی بھی خاص طور پر نظر تھی اور وہ آپ کی شخصیت کو اخلاقی طور پر مجروح کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کے نکاح کو اس درجے میں منفی پراپیگنڈے کا موضوع بنایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو سورۃ الاحزاب میں باقاعدہ اس مسئلے کی نوعیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح کی غرض وغایت اور حکمت واضح فرمانا پڑی۔ اس کے برعکس ام المومنین عائشہ کے ساتھ نکاح کے حوالے سے اس قسم کے کسی اعتراض کا کوئی ذکر حدیث وسیرت کی روایات میں نہیں ملتا۔

پھر عرب معاشرت کے عرف اور ماحول کے لحاظ سے نو سال کی عمر میں لڑکی کے قابل نکاح ہونے پر مزید روشنی اس بات سے پڑتی ہے کہ خود ام المومنین سے باقاعدہ یہ فقہی فتویٰ منقول ہے کہ جب لڑکی نو سال کی عمر کو پہنچ جائے تو وہ ’عورت‘ ہوتی ہے۔ (ترمذی، ۱۱۰۹۔ بیہقی، السنن الکبریٰ ، ۱۴۲۵) مزید برآں اسی زمانے میں صرف خاندان قریش میں کم سے کم دو مثالیں ایسی ملتی ہیں جن میں اس عمر میں لڑکیوں کی رخصتی کر دی گئی۔

پہلا واقعہ سیدنا علی کی دختر سیدہ ام کلثوم کا ہے جن کا نکاح صغر سنی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فرمائش پر ان کے ساتھ کیا گیا۔ نکاح کے وقت ان کی متعین عمر کا ذکر تو ہمیں کسی روایت میں نہیں ملا، تاہم یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ سیدنا عمر کی فرمائش پر سیدنا علی نے ابتداءً ان کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ ام کلثوم کی عمر ابھی بہت کم ہے، لیکن سیدنا عمر نے کہا کہ میں یہ نکاح محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لیے کرنا چاہتا ہوں جس پر سیدنا علی نے رضامندی ظاہر کر دی۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۳۱۷۲)

دوسرا واقعہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہند کا ہے جن کا نکاح عبد اللہ بن عامر بن کریز کے ساتھ کیا گیا اور نو سال کی عمر میں ان کی رخصتی کر دی گئی۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق ۷۰/۱۸۸)

مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ جن معاملات میں شریعت نے وجوب اور فرضیت کے درجے میں کسی بات کا حکم نہیں دیا، ان میں کسی بھی معاشرت اور ثقافت کی مخصوص حساسیتوں کو ملحوظ رکھنا یقیناًحکمت ومصلحت کا تقاضا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو ایک مطلق معیار مان کر دوسرے معاشروں اور خاص طور پر عہد نبوی کی مسلم معاشرت بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں اور اقدامات کو بھی اس پر پرکھنا شروع کر دیا جائے۔ چنانچہ جس طرح عہد نبوی کی بعض مثالوں کی بنیاد پر اس بات پر اصرار کرنا درست نہیں کہ ہر دور اور ہر معاشرے میں کم سنی کی شادیوں کو لازماً جائز رکھا جائے اور اس ضمن میں عملی حالات اور تجربات سے جو مفاسد سامنے آئے ہیں، انھیں بھی ملحوظ نہ رکھا جائے، اسی طرح یہ طرز فکر بھی درست نہیں کہ جدید معاشرتی تصورات کو معیار مان کر عہد نبوی وعہد صحابہ کی معاشرت کو ان پر پرکھنا شروع کر دیا جائے اور ہر اس بات کی نفی کا طریقہ اختیار کر لیا جائے جو ثقافت، تمدن اور طرز معاشرت کے فرق کی وجہ سے آج کے جدید ذہن کو اجنبی اور غیر مانوس محسوس ہوتی ہے۔

_______________

B