[’’سیر سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
وسطی شام فتح ہو چکا تو ابوعبیدہ نے بازنطینیوں پر فیصلہ کن وار کرنے کی ٹھا نی۔وہ فوج لے کر فحل (Pella)کی طرف روانہ ہو گئے جہاں بازنطینی فوج کا ایک بڑا حصہ(garrison)مقیم تھا ، جنگ اجنادین سے بچ کر آنے والے فوجی بھی وہاں منتقل ہو چکے تھے۔ خالد بن ولید مقدمہ الجیش کی قیادت کر رہے تھے۔۲۸ ذی قعد ۱۳ھ (۲۳جنوری ۶۳۵ء) کو وادئ اردن میں دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں جیش اسلامی نے تھیوڈور(Theodore the Sacellarius) کی سربراہی میں لڑنے والی رومی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔جنگ فحل کے بعد مسلم فوج دو حصوں میں بٹ گئی ،ایک حصہ عمرو بن عاص اور شرحبیل بن حسنہ کی راہ نمائی میں جنوب کی جانب فلسطین کی مہم پر چلا گیا، جبکہ ابوعبیدہ اور خالد دوسرے حصے کو لے کر شمالی شام کی طرف کوچ کر گئے۔یہ امیشا کے راستے میں مرج روم پہنچے تھے کہ خالد کو خبر ملی کہ ہرقل نے تھیوڈرس (Theodras)کی سپہ سالاری میں ایک تازہ دم فوج دمشق کو مسلم قبضے سے چھڑانے کے لیے بھیجی ہے۔انھوں نے ابوعبیدہ سے اجازت لی اور اپنا دستہ لے کر دمشق روانہ ہو گئے۔ابوعبیدہ بن جراح نے مرج روم رک کر رومی لشکر کو شکست دی، جبکہ خالد نے اس کے اگلے حصے میں جانے والے تھیوڈرس کو جا لیا۔دمشق کی دوسری جنگ سے فارغ ہونے کے بعد خالد امیشا پہنچے اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔دو ما ہ کے محاصرے کے بعد ۲۶ محرم ۱۵ھ (مارچ ۶۳۶ء ) میں انھیں فتح حاصل ہوئی۔
امیشا کو زیر کرنے کے بعد ابوعبیدہ نے تمام شمالی شام فتح کرنے کا پلان بنایا، جبکہ ہرقل جس نے اپنی قوتیں اناطولیہ میں جمع کر لی تھیں مسلم افواج کو بیک وقت پانچ محاذوں پر الجھانے کامنصوبہ بنایا۔ جواب میں ابوعبیدہ نے خالد کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے ساری فوج شام سے نکال کر جابیہ میں جمع کر لی۔ ہرقل کے لیے اپنے پلان پر عمل کرنا ممکن نہ رہا تو خالدنے فوج کو یرموک( Hieromyax) منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔یہ دریاے یرموک کے ساتھ، گولان کی پہاڑیوں کے جنوب مشرق میں چالیس میل کے فاصلے پر ایک سطح مرتفع ہے جوموجودہ اسرائیل ، اردن اور شام کی درمیانی سرحد پر واقع ہے ۔ دریاے یرموک دریاے اردن کی ایک شاخ ہے،آج کل یہ شام اور اردن کی سرحد بنا رہا ہے۔ اس کے مغربی کنارے پر واقوصہ(یا وقاد) نام کی ساڑھے چھ سو فٹ گہری کھائی ہے۔ اسلامی فوج طلال جموع(Hill of Samein) پر اکٹھی ہوئی اوررومی فوج نے دیر ایوب اور دریاے یرموک کے بیچ وادئ واقوصہ میں پڑاؤ ڈالا جو تین اطراف سے اونچی پہاڑیوں میں گھری ہوئی تھی۔ باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا جس پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ عمرو بن عاص چلائے، مسلمانو! خوش خبری ہو ،محصور فوج شاذ ونادر بچتی ہے۔ اسلامی فوج میں ایک سو بدریوں سمیت ایک ہزار صحابہ شامل تھے ،ابو عبیدہ بن جراح ، عمرو بن عاص ، یزیدبن ابوسفیان اور شرحبیل جیسے جرنیلوں کے علاوہ عشرۂ مبشرہ میں سے زبیربن عوام موجود تھے۔صفر، ربیع الاول اور ربیع الثانی ،تین ماہ گزر گئے، رومی باہر آ سکے نہ مسلمان قلت تعداد کی وجہ سے میدان میں گھس سکے۔
ربیع الثانی۱۳ھ(جون ۶۳۴ء) میں خالدبن ولید یرموک پہنچے، اسی وقت باہان (واہان) اپنی فوج کے لیے کمک لایا۔ دین نصرانی کی نصرت پر ابھارنے کے لیے راہبوں اور قسیسوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ آئی۔رومیوں کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار ہو چکی تھی، جبکہ اہل ایمان کی نفری چالیس ہزار سے بھی کم تھی۔ خالد نے اپنی فوج کو بے ترتیب پایا تو ایک خطبہ دے کر فوج کی صف بندی اور تنظیم کی اہمیت واضح کی ۔ انھوں نے فرمایا، جنگ کا یہ دن اﷲ کے عظیم ایام میں سے ایک ہے۔اس میں فخر اور سرکشی روا نہیں۔جہاد خالصۃً اﷲ ہی کی رضا جوئی کے لیے کریں۔ اگرآج رومیوں نے ہمیں شکست دے دی تو ہم کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ہمیں فوج کی قیادت کو اس طرح ایک کر لینا چاہیے کہ باری باری ہر جرنیل کو سالاری کا موقع مل جائے۔ اس فیصلے کے بعد اس دن کی کمان انھوں نے سنبھالی پھر چھتیس یا چالیس کمانڈروں کی سربراہی میں ہزار ہزار جوانوں پر مشتمل دستے ترتیب دیے ۔ قلب کی کمان ابوعبیدہ بن جراح کو ،میمنہ کی عمرو بن عاص کو، میسرہ کی یزید بن ابوسفیان کو ،مقدمہ کی قباث بن اشیم کو اور ساقہ کی عبداﷲ بن مسعودکو سونپی۔ابو الدردا اس دن قاضی تھے، ابوسفیان سپاہیوں کو جوش دلا رہے اور مقداد بن اسود قرآنی آیات کی تلاوت کر رہے تھے ۔ ابن اسحاق کی روایت میں کمانڈروں کے نام اس طرح ہیں۔لشکر کے چار حصوں کے سربراہ:ابوعبیدہ،عمرو بن عاص،شرحبیل بن حسنہ اور یزید بن ابوسفیان۔ قائد میمنہ معاذ بن جبل،کمان دار میسرہ نفاثہ بن اسامہ،پیادوں کے سالار : ہاشم بن عتبہ اور گھڑ سواروں کے قائد خالد بن ولید۔ رومی لشکر تمام میدان جنگ کا احاطہ کیے ہوئے تھا ، سپاہی نعرے بلند کر رہے تھے اور راہب انجیل پڑھ کرہلا شیری دے رہے تھے،خالد بن ولید نے ابوعبیدہ سے کہا،یہ لشکر زوردار حملہ کرے گاجس سے میمنہ ومیسرہ کے اکھڑ جانے کا خدشہ ہے ۔میں گھڑ سوار دستے کو دوحصوں میں بانٹ کر ان کی پشت پر رکھنا چاہتا ہوں تاکہ انھیں سہارا مل جائے، ایک حصے کی کمان خالد نے رکھی، دوسرے پر قیس بن ہبیرہ آ گئے۔خالد نے ابوعبیدہ کو قلب چھوڑ کر ساقہ میں جانے کی ہدایت کی تاکہ کسی کوپیٹھ پھیر کر بھاگنے کی جرأت نہ ہوپھر میدان جنگ سے باہر بیٹھی عورتوں سے جا کرکہا، تمھیں جو سپاہی جنگ چھوڑ کر فرار ہوتا نظر آئے،اپنی تلواروں سے اس کا کام تمام کر دینا۔ ابوعبیدہ کی جگہ سعید بن زید آ گئے۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں،ابوعبیدہ ، معاذ بن جبل، عمرو بن عاص،ابوسفیان اور ابو ہریرہ نے باری باری وعظ کیا اور سپاہیوں کو جنگ میں ثابت قدم رہنے کی تلقین کی۔
رجب ۱۵ء(اگست ۶۳۶ء) میں ہونے والی جنگ یرموک چھ دن جاری رہی۔لیفٹیننٹ جنرل آغا ابراہیم اکرم نے اس کی مرحلہ وار تفصیل بیان کی ہے۔
جنگ کا پہلا دن ۸ رجب ۱۵ھ(۱۵اگست ۶۳۶ء) جنگ شروع ہونے سے پہلے باہان (واہان) نے خالد کو بلاکر کہا، ہمیں معلوم ہوا ہے،تنگ دستی اور بھوک نے تمھیں اپنے ملک سے نکلنے پر مجبور کیا ہے ۔ میں ہر شخص کو دس دینار،کپڑا اور اناج دیتا ہوں ،لے کر لوٹ جاؤ اگلے سال یہ سب دوبارہ بھیج دوں گا۔ خالد نے جواب دیا، تم نے ٹھیک کہا ،ہم بھوک کی وجہ سے نکلے ہیں، لیکن ہم خون آشام قوم ہیں اورہمیں پتا چلا ہے کہ رومیوں سے زیادہ لذیذ خون کسی کا نہیں ہوتا۔پھر انھوں نے عکرمہ اور قعقاع کو جنگ شروع کرنے کا حکم دیا۔ رجز پڑھے گئے، دعوت مبارزت دی گئی ، انفرادی حملے کیے گئے اور جنگ کا بازار گرم ہو گیا۔ دوران جنگ میں رومی جرنیل جارج (George) نے صف سے باہر آ کر خالد بن ولید کو بلایا اور پوچھا ، سچ سچ بتاؤ !کیا اﷲ نے تمھارے نبی پر آسمان سے تلوار اتاری ہے جو اس نے تمھیں دی ہے تاکہ جس پر سونتو ،شکست کھا جائے۔انھوں نے جواب دیا ، نہیں۔ اس نے پوچھا ،پھر تمھیں سیف اﷲ کیوں کہا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا ، جب مجھے اسلام کی ہدایت ملی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے نصرت کی دعا دی اور فرمایا،تم اﷲ کی تلواروں میں سے ایک ہو جو اس نے مشرکین پر سونت دی ہے۔جارج نے پوچھا ، تم کس بات کی دعوت دیتے ہو؟انھوں نے بتایا،اس بات کی گواہی دینے کو کہتے ہیں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اﷲ کے بندے اور رسول ہیں ۔اس نے پوچھا ، جو تمھاری بات نہ مانے ؟ جواب ملا ، جزیہ دے، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ سوال کیا،جزیہ نہ دے تو؟ہم اس سے جنگ کریں گے۔جارج نے پوچھا ،جو تمھاری دعوت قبول کر کے آج اس دین میں شامل ہو جائے؟ خالدنے کہا ،سب پر ایک جیسے فرائض عائد ہوں گے اور ہر ایک کو مساوی اجر ملے گا۔ جارج نے کہا ، تم نے سچ کہا،مجھے بھی اسلام کی تعلیم دو۔ خالد نے اسے غسل کر اکے دو رکعت نماز پڑھائی۔ رومیوں کے حملے جاری تھے،جارج نے خالد کے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ لیا ، دن بھر تلوارزنی کی اور شام سے پہلے جام شہادت نوش کیا۔اس دن وہ صرف دورکعت ہی ادا کر پائے، لیکن بلند ترین مقام پاگئے۔پہلے دن کی مبارزت میں رومیوں کے کئی کمانڈر مارے گئے۔ایک تہائی رومی فوج نے جنگ میں حصہ لیااور کوئی خاص کارکردگی نہ دکھائی۔ باہان(واہان) کامقصد مسلمانوں کی قوت کااندازہ کرناتھا۔
دوسرا دن ۹ رجب ۱۵ھ(۱۶ اگست ۶۳۶ء)، پہلا مرحلہ باہان نے فیصلہ کیاجب مسلمان فجر کی نماز پڑھنے لگیں تو اسی وقت حملہ کر دیا جائے، کیونکہ تب وہ جنگ کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اس کی اسٹریٹیجی یہ تھی کہ مسلم فوج کے قلب کوہلکی جھڑپ میں الجھا کر میمنہ و میسرہ پر زور دار حملہ کیا جائے تاکہ وہ میدان جنگ سے بھاگ جائیں یا قلب میں گھسنے پر مجبور ہو جائیں۔علی الصبح رومی غلاموں پر مشتمل میسرہ نے جس کی سربراہی ان کا جرنیل دیرجان (یا قناطیر Nicolle) کر رہا تھا مسلم میمنہ پر اچانک حملہ کر دیا۔اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے خالد مضبوط فرنٹ لائن پہلے ہی ترتیب دے چکے تھے۔ازد ،مذحج اور حضرموت اور زبیدکے قبائل پر مشتمل میمنہ کی کمان عمرو بن عاص کے پاس تھی۔ انھوں نے ایک بار تو رومیوں کی یلغار روک لی، لیکن پھر قلب کی طرف پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے۔اس دباؤ کو زبید قبیلہ کے افرادنے کم کیا،وہ پیچھے ہٹے پھر نعرہ بلند کر کے پلٹے اورزور دار حملہ کرکے رومیوں کو ہٹادیا۔اس دوران میں عورتیں لکڑیاں اور پتھر لے کر پیچھے مڑنے والوں کودھمکا رہی تھیں۔دوسرا مرحلہ خالد نے میمنہ کی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد اسے رومی لشکر کے میسرہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ خود اپنا دستہ لے کروہ دوسری جانب سے میسرہ پر چڑھ دوڑے۔ رومیوں نے گھبرا کر مسلم فوج کی پوزیشنیں چھوڑ دیں اورعمرو بن عاص ان پر واپس آ گئے۔ اس کے برعکس مسلم میسرہ دبا ؤ میں رہاحتیٰ کہ یزید بن ابوسفیان کوقلب کی طرف پسپا ہونا پڑا۔اس مرحلے پر باہان کی پلاننگ کامیاب ہوتی نظر آ رہی تھی، لیکن ہند کی قیادت میں عورتوں نے خیموں کی لکڑیاں اکھاڑ لیں اور مردوں کو مارنے کو دوڑیں جس سے وہ اپنی جگہ پر تھم گئے۔تیسرامرحلہ خالد نے ضرار بن ازور کے دستے کو رومی فوج کے قلب پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔رومی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹے ، غروب آفتاب تک دونوں فوجیں پہلی پوزیشنوں تک آ چکی تھیں۔اس حملے میں بے شمار مسلمان شہید ہوئے،رومیوں نے سپاہیوں کے ساتھ اپنے جرنیل دیرجان کو کھو دیا۔اس کے مرنے سے باہان کی پلاننگ فیل ہوئی اور رومی فوج کا مورال گر گیا۔
تیسرا دن ۱۰رجب ۱۵ھ(۱۷ اگست۶۳۶ء)، پہلا مرحلہ بازنطینی فوج کے مسلم میمنہ اور ملحقہ قلب پر حملے سے دن کاآغاز ہوا۔اسلامی فوج کچھ پیچھے ہٹی، لیکن پھر سنبھلی اور جوابی حملے کے لیے تیار ہو گئی۔ دوسرا مرحلہ خالد نے اپنا دستہ لیا اور رومی فوج کے میسرہ کے اندرونی جانب پریلغار کی ، ساتھ ہی اپنی فوج کے میمنہ کو اس کے بیرونی طرف سے حملہ کرنے کا حکم دیا۔ گھمسان کی جنگ میں طرفین کا جانی نقصان ہوا اور رومی فوج پیش قدمی کرنے میں ناکام رہی ۔
چوتھا دن،۱۱رجب۱۵ھ(۱۸اگست ۶۳۶ء)، پہلا مرحلہ: باہان نے گزشتہ دن کی اسٹریٹیجی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔رومی میسرہ میں شامل غلاموں کی بٹالین نے قناطیر کی سربراہی میں اسلامی میمنہ پر دوبارہ حملہ کیا ، عیسائی عربوں نے جبلہ کی کمان میں ان کی مدد کی۔نتیجۃً میمنہ پیچھے ہٹا ،اسی اثنا میں خالداپنے دستے کے ساتھ داخل ہوئے اورمیسرہ اور قلب کے کمانڈروں ابو عبیدہ اور یزید کے ساتھ مل کر ایسا زوردار حملہ کیا کہ رومی فوج کے لیے آگے بڑھنا ممکن نہ رہا۔ دوسرا مرحلہ:خالد نے اپنے دستے کو دو حصوں میں بانٹ کر رومی میسرہ کے دونوں پہلوؤں پر حملہ (flanking manoeuvre) کیا۔اسی وقت مسلم قلب نے رومی فوج کے فرنٹ کو اور میمنہ نے ان کے میسرہ کو نشانہ بنایا۔اس چومکھی حملے میں رومی قلب اور میسرہ دونوں پسپاہوگئے، لیکن دوسری جانب رومی گھڑ سوار وں نے یزید اور ابوعبیدہ کے زیرکمان قلب اور میسرہ پرتیر اندازی کر کے ان کی پیش قدمی روک دی۔ کئی مسلم سپاہیوں کی آنکھیں تیر لگنے سے ضائع ہوئیں ، کہا جاتا ہے ،اسی دن ابوسفیان کی دوسری آنکھ پھوٹی،پہلی طائف کے محاصرے میں ضائع ہو چکی تھی۔ عکرمہ کے دستے نے فوج کو سنبھالادیا اور رومی فوج پر جوابی حملہ کیا۔اسی اثنا میں پیچھے ہٹنے والے دستے بھی سنبھلنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس کوشش میں عکرمہ کے بے شمار جوان شہید اور زخمی ہوئے،وہ خود بھی اسی دن شہادت سے سرفراز ہوئے ۔
پانچواں دن،۱۲ رجب ۱۵ھ(۱۹ اگست۶۳۶ء): شدید جانی نقصان اٹھانے کے بعد باہان نے کچھ دن کے لیے عارضی جنگ بندی کرنے کی استدعا کی تاکہ مذاکرات کیے جا سکیں۔اس درخواست میں خالد نے اپنی فتح دیکھی اس لیے اسے مسترد کرتے ہوئے جارحانہ جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے تمام لڑاکا دستوں کو یکجا کیا تو آٹھ ہزار کی نفری بنی،اسے انھوں نے جارحانہ کارروائی کے لیے کافی سمجھا۔پورا دن اسی پلاننگ میں گزر گیا، خالد نے رومی فوج کے فرار کے راستوں کو مسدود کرنے کے لیے الگ نفری مقرر کی۔میدان جنگ میں تین گہری کھائیوں کے علاوہ مغرب کی سمت میں وادئ رقاد (یا راقوصہ) ، جنوب میں وادئ یرموک اور مشرق میں وادئ الان (Allan)تھی۔ان اطراف میں بازنطینی فوج کا جانا ممکن نہ تھا اس لیے انھوں نے صرف شمال کی سمت بلاک کی۔اس کے علاوہ پانسو سپاہیوں پر مشتمل ضرار بن ازور کے دستے کو بھیج کروادئ رقاد پر واقع واحد پل پر بھی قبضہ کر لیا۔ چھٹا دن، ۱۳رجب ۱۵ھ (۲۰ اگست ۶۳۶ء) پہلا مرحلہ:خالد کا پلان تھا کہ رومی فوج کے فرنٹ اورمیسرہ پر بیک وقت زوردار حملہ کر کے اسے وادئ رقاد کی گہری کھائیوں کی طرف دھکیل دیا جائے۔انھوں نے محض ایک سو گھڑ سواروں کو یک جا کر کے دفعۃً ایسا دھاوا بولا کہ ایک لاکھ رومی تتر بتر ہو گئے ۔ان میں سے چھ ہزار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اورباقیوں کو کوئی جائے پناہ نہ مل رہی تھی ۔دوسرا مرحلہ:خالد کے حملے کودیکھ کر باہان نے اپنی فوج کے گھڑ سواردستوں (cavalry) کو یک جا ہونے کا حکم دیا، لیکن مسلم گھڑ سواروں کے شدید حملے کے دوران میں ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔ نتیجۃً انھیں اکھڑ کر شمال کی سمت میں پسپا ہونا پڑا۔اس طرح رومی پیادہ فوج کو کوئی سپورٹ نہ رہی۔تیسرا مرحلہ: خالدنے رومی قلب پر حملہ کر کے اسے مکمل طور پر منتشر کر دیا۔چوتھا اور آخری مرحلہ:رومی بازنطینی فوج کی شکست یقینی ہو گئی تو خالد نے اس کی راہ فرار مسدود کرنے کے لیے اپنا دستہ بھی شمال کی طرف منتقل کر دیا۔ رومی مغرب کی سمت میں وادئ رقاد کی طرف پسپا ہوئے، ان کی کوشش تھی کہ عین الضخر(David Nicolleکا خیال ہے کہ یہاں پل تھا، لیکن لیفٹیننٹ جنرل اکرم کہتے ہیں کہ یہ ایک قلعہ کا نام ہے )کے تنگ پل کو عبور کر کے نکل جائیں، لیکن وہاں ضرار بن ازور پانچ سو جوانوں کے ساتھ رات سے قابض تھے۔ اسلامی فوج کے دباؤ میں رومی فوج ایسی کسی گئی کہ اس کے لیے ہتھیار چلانا بھی ممکن نہ رہا۔لاتعداد سپاہی گہری کھائی میں گر کر مارے گئے ،جنھوں نے پانی کے راستے فرار ہونے کی کوشش کی ،وہ بھی نہ بچ پائے۔ پھر بھی کئی رومیوں نے مصر ، امیشا اور دمشق کو راہ فرار پکڑی۔ جبلہ بن ایہم بھی بھاگنے میں کامیاب ہو گیا ، تھیوڈور (Theodore Trithurios) مارا گیا۔بہت کم رومی قید میں آئے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد خالد نے رومی بھگوڑوں کا دمشق تک پیچھا کیا۔باہان (واہان)وہیں مارا گیا۔ دمشق کے مقامی باشندوں نے خالدکو خوش آمدید کہا۔اس جنگ کے نتیجے میں ہرقل کو شام چھوڑنا پڑا،وہ سمندر کے راستے قسطنطنیہ روانہ ہوگیا ۔
جنگ یرموک کے دو واقعات مشہور ہیں ،اس لیے ان کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔کچھ جری جوان معرکے میں شریک زبیربن عوام کے پاس آئے اور کہا، آپ دشمن پر حملہ کریں تو ہم بھی ساتھ دیں گے۔ زبیرنے کہا،اگر میں نے حملہ کیا اور تم نے ساتھ نہ دیا تو جھوٹے پڑ جاؤ گے۔سب نے کہا، ایسا نہیں ہو گا۔ زبیر نے ایسے زور کی یلغار کی کہ سب کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔جب وہ پلٹے تو رومیوں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور ان کے کندھوں پر تلوار کے دو وار کیے جن سے دو نئے گھاؤ آ گئے، جنگ بدر کے زخم کا نشان ان کے بیچ تھا۔ یہ مشہور واقعہ جنگ یرموک ہی میں پیش آیاکہ چند زخمیوں میں سے ایک کو پینے کے لیے پانی دیا گیا تو اس نے اپنے ساتھی کو دینے کا اشارہ کیا ۔پانی اس کے پاس آیا تو اس نے اگلے کی طرف بڑھا دیا۔اس طرح کرتے کرتے سب نے شہادت پائی۔
طبری اور ابن کثیر نے سیف بن عمر کی روایت کو اختیار کیا ہے جس کے مطابق معرکۂ یرموک ۱۳ھ میں فتح دمشق سے پہلے پیش آیا۔اس روایت کے مطابق خلیفۂ او ل سیدنا ابوبکرؓ کی وفات ہوئی تو جنگ یرموک زوروں سے جاری تھی ، طرفین بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر حملے کر رہے تھے کہ مدینہ سے محمیہ بن زنیم خالد کے پاس پہنچے اور انھیں حضرت ابوبکر صدیق کی وفات اور عمر بن خطاب کے انتخاب کی خبر دی۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ابوعبیدہ بن جراح کو کمانڈر ان چیف مقرر کیا گیا ہے۔خالد نے فوری طور پر اس خبر کو عام کرنا مناسب نہ سمجھا کہ کہیں جنگ کا پانسا الٹ نہ جائے۔ ابن عساکر کی نقل کردہ روایات کے مطابق جنھیں موجودہ مؤرخین نے ترجیح دی ہے،یرموک کی جنگ فتح دمشق کے بعد ۱۵ھ میں ہوئی۔اس مضمون میں جنگ کی بیان کردہ تفصیلات انھی روایات کے مطابق ہیں۔ ان کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق حضرت ابوبکر کی وفات اور خالدکی معزولی کی خبر اس وقت ابوعبیدہ بن جراح کو دی گئی جب وہ دمشق کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ انھوں نے فوراً اس کا اعلان نہ کیا ۔خالدنے سبکدوشی کا حکم سن کر کہا، ابوبکر نے وفات پائی اور عمر خلیفہ بن گئے ہیں تو کیا؟ہمارا کام تو سمع و طاعت کرنا ہے۔ ابوعبیدہ نے خالدکو گھڑ سوار فوج (cavalry) کے سربراہ اور اپنے فوجی مشیر کی حیثیت سے برقرار رکھا۔
جمادی الاولیٰ۱۳ھ(جولائی ۶۳۴ء) کی جنگ اجنادین ، رجب ۱۳ ھ(ستمبر ۶۳۴ء) کی جنگ فحل اوررجب ۱۵ھ (اگست ۶۳۶ء) کی جنگ یرموک کے بعد شام میں بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ان تینوں جنگوں میں سے یرموک کی جنگ کو جو خالد بن ولید کی بڑی فتوحات میں سے ایک تھی فوجی تاریخ کی زبردست فیصلہ کن جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد عیسائی دنیا میں اسلام نے تیزی سے پیش قدمی کی ۔ جنگ یرموک ایک ایسی جنگ کی بہترین مثال ہے جس میں ایک کم تر فوج نے ایک برتر فوج کو برتر جنرل شپ کے ذریعے شکست دی۔خالد بن ولید، سیف اﷲ کو میدان جنگ کے اونچ نیچ کا خوب علم تھا ، وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس کارزارمیں اپنی قلیل فوج سے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے۔انھوں نے اپنی بہترین اسٹریٹیجی کے ذریعے اپنے دستوں کو اپنی مرضی کے مطابق آگے پیچھے کیا ، کم زور مقامات پر اپنی قوت مرکوز کر کے کئی گنا زیادہ فوج رکھنے والے دشمن کو حرکت(movement) سے بے بس کر دیا اور اس کی فرار کی راہیں مسدود کر کے اسے برے انجام سے دوچار کیا۔رومی و بازنطینی جرنیل اس صلاحیت سے عاری تھے۔چھ روزہ جنگ میں ان کی گھڑ سوار فوج (cavalry) نے کوئی کارکردگی دکھائی نہ چوتھے دن حاصل ہونے والی برتری سے ان کے کمانڈروں نے کوئی فائدہ اٹھایا۔خالد کی یہ عظیم فتح مستشرقین کی سمجھ میں نہ آسکی اسی لیے بجاے اس کے کہ خالد کی کارکردگی کو سراہتے ،انھوں نے ان کی شان دار کامیابی کی دورازکار توجیہات تراشنا شروع کر دیں۔ Gibban نے لکھا ہے کہ جنگ ختم ہونے سے پہلے ریت کا ایک زبردست طوفان اٹھا جس کی آڑ میں خالدنے رومیوں کو شکست سے دوچار کیا۔یہ ایسا طوفان تھا جوGibbanکے ذہن ہی میں اٹھا، کیونکہ تاریخ کی کسی کتاب میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔
یرموک میں فتح حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں نے شام میں اپنی چھوڑی ہوئی پوزیشنیں واپس حاصل کیں اور جنوبی شام میں واقع بازنطینیوں کے آخری ٹھکانے یروشلم(بیت المقدس) کا رخ کیا ۔ جنگ یرموک سے بچ کر آنے والے رومی بھی وہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔اسلامی فوج نے شہر کا محاصر ہ کر لیا جو چار ماہ تک جاری رہاپھر اہل شہر اس شرط پر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوئے کہ امیر المومنین عمر بن خطاب خود آ کرکنجیاں وصول کریں۔ فتح بیت المقدس کے بعد جیش اسلامی پھر منقسم ہو گیا۔یزید بن ابوسفیان قیصریہ چلے گئے اور بیروت فتح کیا۔عمرو اور شرحبیل نے فلسطین کے بقیہ علاقے زیر کیے جبکہ ابوعبیدہ بن جراح اور خالد بن ولید نے شمالی شام کی فتح مکمل کی۔ ابو عبیدہ نے خالد کو سب سے پہلے قنسرین (Chalcis)روانہ کیا۔وہاں کا قلعہ یونانی جرنیل میناس کی حفاظت میں تھا جسے رتبے میں بادشاہ کے بعد دوسرے نمبر پر سمجھا جاتا تھا۔میناس نے محاصرے کا انتظار کرنے کے بجاے اصل فوج کے پہنچنے سے پہلے ہی آگے بڑھ کر مقدمہ میں شامل خالد اور دوسرے کمانڈروں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ جمادی الاول ۱۶ھ (جون ۶۳۷ء )کوقنسرین کے مشرق میں تین میل کے فاصلے پرواقع حاضر کے مقام پر اس نے جیش خالد پر حملہ کر دیا۔میدان جنگ میں میناس اگلی صفوں میں تھا اس لیے ابتدا ہی میں مارا گیا۔اس کے سپاہیوں نے بدلہ لینے کے لیے زور دار حملہ کیا،لیکن خالد نے اپنے گھڑ سواروں کو چاروں طرف پھیلا کر بازنطینی فوج کو گھیرے میں لے لیا۔نتیجۃً ان کاایک سپاہی بھی زندہ نہ بچ سکا۔ حاضر کے لوگوں نے خالد کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، لیکن قنسرین میں موجود فوجی قلعہ بند ہو گئے۔ خالدنے انھیں پیغام لکھ بھیجا،اگر تم بادلوں میں بھی ہوئے تو اﷲ ہمیں تمھارے برابراوپر لے جائے گا یا تمھیں جنگ کے لیے نیچے لے آئے گا۔ اب اہل قنسرین نے ترت ہتھیار ڈال دیے۔ سیدنا عمر جنگ حاضر کی تفصیل سن کر خالد کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔خالد واقعی ایک کمانڈر ہیں۔ اﷲ ابوبکرپر رحم کرے ،وہ مجھ سے زیادہ انسانوں کی پہچان رکھتے تھے ۔
رمضان ۱۶ھ (اکتوبر ۶۳۷ء):قنسرین کے بعد ابوعبیدہ اور خالداپنی سترہ ہزار کی فوج لے کر حلب (Aleppo) پہنچے جہاں کا قلعہ رومی جرنیل یواخم (Joachim) کے قبضے میں تھا۔وہ مقابلے کے لیے اپنی فوج لے کر کھلے میدان میں آیا، لیکن جلد ہی شکست کھا کر قلعہ بند ہونے پر مجبور ہو گیا ۔پھر محاصرہ توڑنے کے لیے کئی بار اندر سے حملہ کیا اور کامیاب نہ ہوا۔ ہرقل سے بھی کوئی مدد نہ ملی تووہ صلح کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا اور اور اس کے چار ہزار سپاہیوں کو امان مل گئی۔
خالد اور ابوعبیدہ کا اگلا ہدف انطاکیہ تھا، لیکن پہلے انھوں نے کئی چھوٹے چھوٹے قلعے زیر کیے جو انطاکیہ کے دفاع کا کام دیتے تھے۔قلعۂ اعزازان میں سے ایک تھا جسے مالک بن اشتر نے فتح کیا۔ ان اقدامات کے بعد خالد اور ابوعبیدہ نے انطاکیہ کی طرف مارچ کیا۔انطاکیہ سے بارہ میل باہر دریاے عاصی ( Oronates) پر بنائے ہوئے نو محرابوں والے سنگلاخ پل کے قریب مسلم فوج اور بازنطینی فوج میں جنگ لڑی گئی ۔اس جنگ کو آہنی پل والی جنگ اس لیے کہا جاتا تھا، کیونکہ دریاے عاصی کے پل کے دونوں دروازے لوہے سے بنائے گئے تھے۔یہاں بھی خالد بن ولید نے اہم رول ادا کیا ۔دس ہزار جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود رومیوں کو شکست کاسامنا کرنا پڑا۔ ان کے بچے کھچے فوجی انطاکیہ کے قلعے میں پناہ گزین ہو گئے۔ پھرشوال ۱۶ھ(۳۰ اکتوبر ۶۳۷ء) کو ہتھیار ڈال کر امان پائی اور استنبول کی راہ لی۔اب ابوعبیدہ نے جنوب کا رخ کیا اور لزکیہ ،جبلہ اور طرطوس کے علاقے فتح کیے، جبکہ خالد شمال کی سمت میں گئے اوردریاے کزل (دریاے سرخ ، River Kizilimak )تک اناطولیہ (ترکی) کی سرزمین فتح کی۔الجزیرہ۱۷ھ(۶۳۸ء )میں عیاض بن غنم کے ہاتھوں فتح ہوا۔ اس کے بعد ابوعبیدہ نے خالد اور عیاض کو اس کے شمال کی طرف بھیجا۔انھوں نے عدیسا،امیدا(دیارباقر)، ملطیا، آرمینیااور ارارات کے علاقوں کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا۔ انھی ایام میں قحط پڑ گیا ،فوج کی پیش قدمی رک گئی او ر خالد کا فوجی کیرئر اختتام کو پہنچا۔
امیشاکے قیام کے دوران میں خالد پر شراب کے محلول سے بنے ہوئے صابن سے نہانے کا الزام لگا۔ ۱۷ھ (۶۳۸ء) میں فتح مرعش کے بعد ا نھوں نے مشہور شاعر اعشیٰ کواپنی شان میں قصیدہ پڑھنے پر سرکاری خزانے سے دس ہزار درہم انعام دیا۔سیدناعمر نے فوراًابوعبیدہ کو خط لکھا کہ خالد کو منبر کے سامنے کھڑا کر کے ان کی ٹوپی اور پگڑی اتار لی جائیں۔اگر انھوں نے رقم سرکاری خزانے سے دی تو خیانت کی اور اگراپنی جیب سے دی تواصراف کیا۔ابوعبیدہ خالد کا احترام کرتے تھے۔انھوں نے یہ کام بلال کو کرنے کے لیے کہا۔خالد نے قنسرین جا کر اپنے دستے کو خداحافظ کہا اور مدینہ روانہ ہو گئے۔سیدناعمر نے ان کی برطرفی کی وجہ ان الفاظ میں بیان کی ،میں نے خالدکو اس لیے معزول کیاتاکہ لوگ جان لیں کہ فتح خالد کی وجہ سے نہیں، بلکہ اﷲکی جانب سے ہوتی ہے۔ اس طرح۱۷ھ (۶۳۸ء)میں خالد بن ولید فوج سے مکمل ریٹائر کر دیے گئے۔حضرت علی نے ایک بار حضرت عمر سے پوچھا ،آپ نے خالد کو معزول کیوں کیا تھا؟سیدنا عمر نے جواب دیا،انھوں نے بڑے بڑے لوگوں اور شعرا پر مال صرف کرناشروع کر دیا تھا۔سیدناعلی نے کہا، آپ انھیں مالی معاملات سے الگ کر دیتے اور فوج کی سربراہی پر رہنے دیتے۔سیدناعمر نے کہا،وہ اس پر راضی نہ ہوتے ۔
فوج سے ہٹائے جانے کے بعد خالدبن ولید چار سال سے بھی کم عرصہ زندہ رہے۔انھوں نے ۲۱ھ(۶۴۲ء) میں حمص(Homs،پرانا نام امیشا، Emesa) میں وفات پائی جب ان کی عمر پچاس (کچھ روایات کے مطابق ساٹھ ) سال تھی۔ افسوس کہ ان کی شہادت کی آرزوپوری نہ ہو سکی ا ورزندگی کے آخری دن انھیں بستر پر گزارنے پڑے۔ خالد کوغسل دینے والے شخص نے دیکھا کہ ان کے جسم پر تلواروں کی ضربوں،نیزوں کے گھاؤ اور تیر لگنے کے نشانوں کے بیچ ذرا سی بھی صحت مند جلد نہ تھی یعنی جسم کے ہر حصے پر جہاد فی سبیل اﷲنے نشان چھوڑ رکھا تھا۔خالد کو باب حمص میں دفن کیا گیا۔ان کے مقبرے کے ساتھ مسجد خالد بن ولید تعمیر کی گئی ہے۔ بنومغیرہ کی خواتین نے خالد کے گھر میں جمع ہو کر گریہ کیا تو سیدناعمر نے ان کو منع نہ کیا۔ابن سعد کی اس روایت کو کہ خالد مدینہ میں فوت ہوئے اور حضرت عمر نے ان کے جنازے میں شرکت کی، ترجیح نہیں دی گئی۔ وفات کے وقت خالد کے پاس ایک گھوڑا ،کچھ اسلحہ اور ایک غلام تھا۔ گھوڑے اور اسلحے کو ان کی وصیت کے مطابق جہاد فی سبیل اﷲ کے لیے وقف کر دیا گیا۔
خالد بن ولید سے مروی احادیث کی تعداد زیادہ نہیں،ان میں سے ایک بخاری و مسلم میں ہے۔خالد سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں ، ان کے خالہ زاد عبداﷲ بن عباس ،جابر،قیس بن ابو حازم ، مقدام بن معدی کرب، علقمہ بن قیس،جبیر بن نفیراور شقیق بن سلمہ۔
ایک بار خالد اپنی خالہ ام المومنین میمونہ کے ہاں گئے تودیکھا کہ بھنی ہوئی گوہ پڑی ہے جو انھیں ان کی بہن حفیدہ بنت حارث نے نجدسے بھیجی تھی۔خالہ نے اسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے رکھا تو آپ نے ہاتھ ہٹا لیا۔خالد نے پوچھا، یا رسول اﷲ! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن یہ کیونکہ ہماری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتی(یا کھائی نہیں جاتی) اس لیے مجھے اس سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ اس پرمیں نے گوہ کو پکڑ لیا اور کھا لیا،آپ دیکھتے رہے اور منع نہ فرمایا۔
خالدبن ولید کا قد لمبا ،شانے چوڑے اور ڈاڑھی گھنی تھی۔وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے،انھیں کتابت وحی کا شرف بھی حاصل ہے۔
خالدنے ایک بار خطبہ دیتے ہوئے شکوہ کیا، امیر المومنین عمر نے مجھے شام بھیجا پھر کسی اور کومجھ پر ترجیح دی اور مجھے ہندوستان بھیجنا چاہا۔ایک شخص نے کہا،صبر کیجیے ! کیونکہ فتنے ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔خالد نے کہا، جب تک عمر بن خطاب زندہ ہیں ،فتنے نمودار نہ ہوں گے ،ہاں ان کے بعد ایسا ہو سکتا ہے۔
خالد نے سو سے زیادہ جنگوں میں فتح حاصل کی،ان کے مفتوحہ علاقوں میں دجلہ وفرات کی عراقی سرزمین (Mesopotamia)، بازنطینی شام اور ساسانی ایران شامل ہیں۔اتنی عظیم کامیابیاں ۱۰ھ سے۱۴ھ تک (۶۳۲ء تا ۶۳۶ء) چار سال کے قلیل عرصے میں حاصل کی گئیں۔وفات سے پہلے کہا، میں نے شہادت کی آرزو میں اتنی جنگوں میں شرکت کی کہ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں تلوار یا خنجر سے لگے زخم کا نشان نہ ہو پھر میں بسترپر بوڑھے اونٹ کی طرح جان دے رہا ہوں۔ان کی اہلیہ نے جواب دیا،آپ کورسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے سیف اﷲ کا خطاب ملا ہے۔یقیناً اﷲ کی تلوار ٹوٹنے کے لیے نہیں ہوتی،ا س کی منزل محض فتح ہوتی ہے۔
خالد کے دس بھائی (بعض روایات کے مطابق تیرہ یا سات)تھے ۔ان میں سے چند کے نام یہ ہیں، ہاشم، ولید، عمارہ، عبدالشمس۔ ان کے والدولید بن مغیرہ نے مرتے وقت وصیت کی ،میرے خون کا بدلہ بنوخزاعہ سے لینا ہے، اسے رائیگاں نہ ہونے دینا۔ میرا سود بنو ثقیف سے لینا ہے ،اسے ہر گز نہ چھوڑنا۔ ابوازہیر دوسی سے میرا مہر لینا بنتا ہے ،چھوٹنے نہ پائے۔اس نے اپنی بیٹی مجھ سے بیاہی تھی اوراس کا مہر لے کررخصت نہ کیا تھا۔چنانچہ ان کی وفات کے بعد ان کا قبیلہ بنو مخزوم بنوخزاعہ پر چڑھ دوڑا،انھیں خون بہا کا کچھ حصہ ہی مل سکاپھر دونوں قبیلوں کی صلح ہو گئی۔ کچھ عرصہ گزرا تھا کہ ہشام بن ولید نے ذوالمجاز کے بازار میں ابوازیہر کو قتل کر دیا۔خالد بن ولید نے جب جنگ طائف میں نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی تو اہل طائف سے اپنے باپ کے سود کا مطالبہ کیا۔اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ’ےٰٓاَیُّہَا الَّذِےْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبآوا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِےْنَ‘۔ ’’اے ایمان لانے والو!اﷲ سے ڈرو اور جو سود بچتا ہے اسے چھوڑ دواگر تم صاحب ایمان ہو۔‘‘ (بقرہ:۲۷۸) تو خالد سود سے دست بردار ہو گئے۔خالدبن ولید کی بہنوں کے نام فاختہ، فاطمہ اور نجیہ ہیں۔ سلیمان،عبدالرحمان اورمہاجر ان کے بیٹے تھے۔ سلیمان جن کے نام پر خالدکنیت کرتے تھے، مصر کی فتح کے دوران میں شہید ہوئے۔مہاجر جنگ صفین میں حضرت علی کی جانب سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ عبدالرحمان عہد عثمانی میں امیشا (حمص)کے گورنر رہے۔ جنگ صفین میں انھوں نے معاویہ کا ساتھ دیا۔ ان کی وفات زہر دیے جانے سے ہوئی۔ اکلوتے پوتے خالد بن عبدالرحمان کی وفات سے خالد کی نسل ختم ہو گئی۔
ایک روایت ہے کہ آخری وقت میں حضرت عمرسے جا نشین مقرر کرنے کی درخواست کی گئی تو انھوں نے ابوعبیدہ بن جراح کو خلیفہ بنانے کی آرزو کا اظہار کرنے کے علاوہ یہ خواہش بھی ظاہرکی کہ اگر خالدبن ولید زندہ ہوتے تو انھی کو اپنا نائب مقرر کر دیتاپھر اپنے رب کے حضور حاضر ہو کر کہتا،میں نے تمھارے بندے اور خلیل کو فرماتے سنا ہے ’’خالد اﷲ کی ایک تلوار ہیں جو اس نے مشرکین پر سونت دی ہے۔‘‘
مطالعۂ مزید: الطبقات الکبری(ابن سعد)،سیر اعلام النبلاء(ذہبی)،البدایہ والنہایہ(ابن کثیر )،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ: ظہور احمد اظہر)، The Sword of Allah (Lt.Gen.A.I.Akram)،Wikipedia
_______________