HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الاعراف ۷: ۱۰۳- ۱۴۷ (۸)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ م بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہٖ فَظَلَمُوْبِھَا فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ{۱۰۳} وَقَالَ مُوْسٰی یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ{۱۰۴} حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّاالْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ{۱۰۵} قَالَ اِنْ کُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَۃٍ فَاْتِ بِھَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ{۱۰۶} فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ھِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ{۱۰۷} وَّنَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ھِیَ بَیْضَآئُ لِلنّٰظِرِیْنَ{۱۰۸} قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ{۱۰۹} یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ{۱۱۰} قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَاَرْسِلْ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَ{۱۱۱}  یَاْتُوْکَ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ{۱۱۲} وَجَآئَ السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ{۱۱۳} قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ{۱۱۴}
قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ{۱۱۵} قَالَ اَلْقُوْا فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ وَجَآئُ وْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ{۱۱۶} وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَلْقِ عَصَاکَ فَاِذَا ھِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِکُوْنَ{۱۱۷} فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۱۸} فَغُلِبُوْا ھُنَالِکَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ{۱۱۹} وَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ{۱۲۰} قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ{۱۲۱} رَبِّ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ{۱۲۲}
قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْھَآ اَھْلَھَا فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ{۱۲۳} لَاُ قَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمْ اَجْمَعِیْنَ{۱۲۴} قَالُوْٓا اِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ{۱۲۵} وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآئَ تْنَا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ{۱۲۶} 
وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰیوَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَیَذَرَکَ وَاٰلِھَتَکَ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآئَ ھُمْ وَنَسْتَحْیٖ نِسَآئَ ھُمْ وَاِنَّا فَوْقَھُمْ قٰھِرُوْنَ{۱۲۷} قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَاصْبِرُوْا اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ{۱۲۸} قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْ م بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ{۱۲۹} 
وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ{۱۳۰} فَاِذَا جَآئَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ اَلَآ اِنَّمَا طٰٓئِرُ ھُمْ عِنْدَاللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ{۱۳۱} وَقَالُوْا مَھْمَا تَاْتِنَابِہٖ مِنْ اٰیَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِھَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ{۱۳۲} فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ{۱۳۳} وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِنْدَکَ لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ{۱۳۴} فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْھُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓی اَجَلٍ ھُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ھُمْ یَنْکُثُوْنَ{۱۳۵} فَانْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ{۱۳۶} وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ بِمَاصَبَرُوْا وَدَمَّرْنَا مَاکَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَاکَانُوْا یَعْرِشُوْنَ{۱۳۷}
وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّھُمْ قَالُوْا یٰمُوْسَی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ{۱۳۸} اِنَّ ھٰٓؤُلَآئِ مُتَبَّرٌ مَّا ھُمْ فِیْہِ وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۳۹} قَالَ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْکُمْ اِلٰھًا وَّھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ{۱۴۰} وَاِذْ اَنْجَیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فَرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابِ یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآئَ کُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآئَ کُمْ وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآئٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ{۱۴۱}
وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّاَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ{۱۴۲} وَلَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَکَلَّمَہٗ رَبُّہٗ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرٰنِیْ وَلٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰنِیْ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ{۱۴۳} قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَبِکَلَامِیْ فَخُذْمَآ اٰتَیْتُکَ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ{۱۴۴} وَکَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ مَّوْعِظَۃً وَّ تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْئٍ فَخُذْھَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْابِاَحْسَنِھَا سَاُورِیْکُمْ دَارَالْفٰسِقِیْنَ{۱۴۵} سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِھَا وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ{۱۴۶} وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَلِقَآئِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۴۷} 
اِن(قوموں)کے بعد (جن کا ذکر اوپر ہوا ہے) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ۴۵۴؎ فرعون۴۵۵؎ اور اُس کے سرداروں کے پاس (رسول بنا کر) بھیجا، مگر اُنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اِن (نشانیوں) کا انکار کر دیا۴۵۶؎۔پھر دیکھو کہ اِن مفسدوں کا انجام کیا ہوا!۴۵۷؎موسیٰ نے کہا: اے فرعون، میں جہانوں کے پروردگار کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں۔ مجھے یہی چاہیے اور میں اِسی کا حریص ہوں۴۵۸؎ کہ خدا کی طرف سے حق کے سوا کوئی بات نہ کہوں۔ تمھارے پروردگار کی طرف سے میں تمھارے پاس (اپنے اِس منصب کی) صریح نشانی ۴۵۹؎لے کر آیا ہوں، سو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دو۴۶۰؎۔ اُس نے جواب دیا: اگر کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اُسے پیش کرو، اگر تم سچے ہو۔ اِس پر موسیٰ نے اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی تو یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا۴۶۱؎اور اُس نے اپنا ہاتھ (آستین سے) کھینچا تو دیکھنے والوں کے لیے وہ دفعتاً چمکتا ہوا نکلا۴۶۲؎۔ فرعون کے سرداروں نے (یہ دیکھا تو ) کہا: یہ شخص تو بڑا ماہر جادوگر ہے، تمھیں تمھارے ملک سے نکال دینا چاہتا ہے،۴۶۳؎ سو بتاؤ، کیا راے دیتے ہو؟ پھر سب نے (فرعون) کو مشورہ دیا کہ ابھی اِس کو اور اِس کے بھائی کو ٹال دیجیے۴۶۴؎ اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیجیے جو سب ماہر جادوگروں کو اکٹھا کرکے آپ کے پاس لے آئیں۔ (چنانچہ ایسا ہی کیا گیا) اور جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔ اُنھوں نے کہا: اگر ہم جیت گئے تو بڑا صلہ تو ہمیں یقینا ملے گا۴۶۵؎ ؟ فرعون نے جواب دیا: ہاں، ضرور اور تم ہمارے مقربین میں شامل ہوگے۔۱۰۳-۱۱۴
(اِس پر) جادوگروں نے کہا: اے موسیٰ، تم پھینکو گے یا (اگر تم چاہو تو) ہم پھینکتے ہیں۴۶۶؎؟ اُس نے کہا: تم ہی پھینکو۔۴۶۷؎ چنانچہ اُنھوں نے پھینکا تو لوگوں کی آنکھیں باندھ دیں ۴۶۸؎اور اُن پر دہشت طاری کر دی اور بڑا زبردست جادو بنا لائے۔ ہم نے موسیٰ کو اشارہ کیا کہ اپنا عصا پھینکو۔ اُس کا پھینکنا تھا کہ وہ اُن کے اُس طلسم کو نگلتا چلا گیا جو وہ بنا لائے تھے۔ سو حق ظاہر ہوا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے، سب باطل ہو گیا۴۶۹؎۔ فرعون اور اُس کے ساتھی (اُس روز ) وہاں مغلوب ہوئے اور ذلیل ہو کر رہ گئے اور جادوگر (خدا کی اِس نشانی کو دیکھ کر) سجدے میں گر پڑے۴۷۰؎۔ اُنھوں نے (بے اختیار) کہا: ہم جہانوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے۴۷۱؎۔۱۱۵-۱۲۲
فرعون نے کہا: تم میری اجازت کے بغیر ایمان لے آئے ہو؟ یہ ایک سازش ہے جو تم نے اِس شہر میں اِس لیے کی ہے کہ اِس کے باشندوں کو وہاں سے نکال دو۴۷۲؎۔ سو (اِس کا نتیجہ)تمھیں ابھی معلوم ہوا جاتا ہے۔ میں تمھارے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹوں گا، پھر تم سب کو سولی پر چڑھا دوں گا۔ اُنھوں نے جواب دیا: (پھر کیا ہے)، ہم اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹیں گے! تم صرف اِس غصے میں ہمارے درپے آزار ہو رہے ہو کہ ہمارے پروردگار کی نشانیاں جب ہمارے پاس آگئیں تو ہم اُن پر ایمان لے آئے۔پروردگار، (اب) تو ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہمیں اِس حال میں دنیا سے اٹھا کہ ہم مسلمان ہوں۴۷۳؎۔ ۱۲۳-۱۲۶
فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا: کیا تم موسیٰ اور اُس کی قوم کو اِسی طرح چھوڑے رکھو گے کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور تمھیں اور تمھارے (ٹھیرائے ہوئے) معبودوں کو ٹھکرائیں۴۷۴؎؟ فرعون نے جواب دیا: ہم اُن کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دیں گے۔ ہم اُن پر پوری طرح حاوی ہیں۴۷۵؎۔ (اِس پر) موسیٰ نے اپنی قوم کو نصیحت کی: تم اللہ سے مدد چاہو۴۷۶؎ اور ثابت قدم رہو۔ زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، اُس کا وارث بنا دیتا ہے اور (یاد رکھو کہ) آخر میں کامیابی اُنھی کی ہے جو (اُس سے) ڈرنے والے ہوں۴۷۷؎۔ اُنھوں نے کہا: ہم تمھارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے اور تمھارے آنے کے بعد بھی ستائے جا رہے ہیں۴۷۸؎۔ موسیٰ نے جواب دیا: امید ہے کہ تمھارا پروردگار تمھارے دشمن کو ہلاک کرے اور تمھیں زمین میں اقتدار عطا فرمائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۴۷۹؎۔۱۲۷-۱۲۹
ہم نے فرعون کے لوگوں کو قحط میں اور پیداوارکی کمی (کے عذاب) میں مبتلا رکھا تاکہ وہ متنبہ ہوں۴۸۰؎، لیکن (ہوا یہ کہ) جب اُن کے اچھے دن آتے تو کہتے کہ ہم اِسی کے مستحق ہیں اور جب برے دن آتے تو اُس کو موسیٰ اور اُس کے ساتھیوں کی نحوست بتاتے تھے۔ سنو، اِن لوگوں کی نحوست تو اللہ ہی کے پاس ہے، مگر اِن میں سے اکثر نہیں جانتے۴۸۱؎۔ اُنھوں نے یہی کہا کہ ہمیں مسحور کر دینے کے لیے تم خواہ کوئی نشانی لے آؤ، ہم تمھاری بات ماننے والے نہیں ہیں۔ سو ہم نے اُن پر طوفان بھیجا، ٹڈیاں، جوئیںاور مینڈک چھوڑ دیے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں تھیں، (بنی اسرائیل کے صحیفوں میں) جن کی تفصیل کر دی گئی ہے۴۸۲؎۔ مگر وہ تکبر کرتے رہے اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ مجرم لوگ تھے۔ جب کوئی آفت اُن پر ٹوٹ پڑتی۴۸۳؎ تو کہتے:اے موسیٰ، اپنے پروردگار سے تم اُس عہد کی بنا پر جو اُس نے تم سے کر رکھا ہے،۴۸۴؎ ہمارے لیے دعا کرو۔اگر یہ آفت تو نے (اِس وقت) ہم سے ہٹا دی تو ہم تمھاری بات ضرور مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تمھارے ساتھ جانے دیں گے۔ پھر جب کچھ مدت کے لیے، جس تک اُنھیں پہنچنا ہی تھا۴۸۵؎، وہ آفت ہم اُن سے ہٹا دیتے تو اُسی وقت عہد کو توڑ دیتے تھے۴۸۶؎۔ سو ہم نے اُن سے انتقام لیا ۴۸۷؎اور اُنھیں سمندر میں غرق کر دیا، اِس لیے کہ اُنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور اُن سے بے پروا بنے رہے اور اُن کو جو دبا کر رکھے گئے تھے، ہم نے اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں۴۸۸؎۔ بنی اسرائیل پر تیرے پروردگار کا وعدئہ خیر اِس طرح پورا ہوا،۴۸۹؎ کیونکہ وہ ثابت قدم رہے اور ہم نے فرعون اور اُس کی قوم کا سب کچھ برباد کر دیا جو وہ (اپنے شہروں میں) بناتے اور جو کچھ (دیہات کے باغوں اور کھیتوں میں ٹٹیوں پر) چڑھاتے تھے۴۹۰؎۔۱۳۰-۱۳۷
(دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر کے پار اتار دیا۴۹۱؎۔پھر اُن کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو (اِس قدر احمق تھی کہ) اپنے کچھ بتوں کی پرستش میںلگی ہوئی تھی۔۴۹۲؎ بنی اسرائیل نے (یہ دیکھا تو) کہا: اے موسیٰ، جس طرح اِن کے معبود ہیں، اِسی طرح کا ایک معبود ہمارے لیے بھی بنا دو۴۹۳؎۔ موسیٰ نے کہا: تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو۔ یہ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ برباد ہونے والا ہے اور جو کچھ کر رہے ہیں، وہ سراسر باطل ہے۔ اُس نے کہا: کیا میںتمھارے لیے خدا کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں، دراں حالیکہ وہی ہے جس نے تم کو دنیا والوں پر فضیلت بخشی ہے؟ یاد کرو، جب ہم نے فرعون کے لوگوں سے تمھیں نجات عطا فرمائی جو تمھیں سخت عذاب میں ڈالے ہوئے تھے۔ وہ تمھارے بیٹوں کو بڑی بے دردی سے قتل کرتے اور تمھاری عورتیں جیتی رکھتے تھے اور اِس میں تمھارے پروردگار کی طرف سے (تمھارے لیے) بڑی عنایت تھی۔۴۹۴؎ ۱۳۸-۱۴۱
(بنی اسرائیل وہاں سے آگے بڑھے تو) ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ ٹھیرایا اور دس مزید راتوں سے اُس کو پورا کیا تو (اِس کے نتیجے میں) اُس کے پروردگار کی ٹھیرائی ہوئی مدت، چالیس راتیں پوری ہو گئی۔ ۴۹۵؎(اِس وعدے کے لیے جاتے ہوئے) موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرو گے اور (لوگوں کی) اصلاح کرتے رہو گے اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہیں چلو گے۔۴۹۶؎ جب موسیٰ ہمارے ٹھیرائے ہوئے وقت پر پہنچ گیا اور اُس کے پروردگار نے اُس سے کلام کیا تو اُس نے التجا کی کہ پروردگار ، مجھے موقع دے کہ میں تجھے دیکھوں۴۹۷؎۔ فرمایا: تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکو گے۔ البتہ، اِس پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ جائے تو آگے تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ پھر جب اُس کے پروردگار نے پہاڑ (کے ایک حصے) پر تجلی کی تو اُس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ پھر جب ہوش آیا تو بولے: تو پاک ہے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور (گواہی دیتا ہوں کہ)سب سے پہلے ماننے والا میں ہوں۴۹۸؎۔ فرمایا:اے موسیٰ، میں نے اپنے پیغام اور کلام سے تمھیں لوگوں پر سرفرازی بخشی ہے۔ اِس لیے جو کچھ میں نے تمھیں دیا ہے، اُسے لو اور شکر گزار بن کر رہو۴۹۹؎۔ (چنانچہ) اُس کے لیے ہر قسم کی نصیحت اور (دین و شریعت سے متعلق) ہر چیز کی تفصیل ہم نے تختیوں پر لکھ دی ۵۰۰؎۔ پھر (ہدایت کی کہ)اُنھیں مضبوطی سے پکڑو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ اُن کے (اندر لکھے ہوئے) احسن طریقے کی پیروی کریں۵۰۱؎۔ (اپنی قوم کو لے کر ذرا آگے بڑھو)، میں عنقریب تمھیں نافرمانوں کے گھر دکھاؤں گا۔۵۰۲؎ (تم دیکھو گے کہ) میں عنقریب اُن لوگوں کو اپنی نشانیوں سے پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور (ایسے ہیں کہ) اگر ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لیں، پھر بھی اُن پرایمان نہ لائیں۔ اگر ہدایت کی راہ دیکھیں تو اُسے اختیار نہ کریں اور اگر گمراہی کی راہ دیکھیں تو اُس پر چل پڑیں۔ یہ اِس لیے کہ اُنھوں نے (اِس سے پہلے) ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور اُن سے بے پروا بنے رہے۵۰۳؎۔ہماری نشانیوں کو جن لوگوں نے بھی جھٹلایا اور آخرت کی ملاقات کا انکار کیا ہے، اُن کے اعمال ضائع ہو گئے۔ اب کیا بدلے میں اُس کے سوا کچھ پائیں گے جو کرتے رہے ہیں۵۰۴؎؟۱۴۲-۱۴۷

۴۵۴؎ اصل میں لفظ ’اٰیٰت‘ آیاہے۔ اِس سے مراد وہ عقلی اور فطری دلائل بھی ہیں جو حضرت موسیٰ اور ہارون نے فرعون اور اُس کے سرداروں کے سامنے پیش کیے اور وہ حسی معجزات بھی جو اُنھوں نے فرعون اور اُس کی قوم کو دکھائے۔ قرآن کے دوسرے مقامات میں اُن کی تفصیل کی گئی ہے۔

۴۵۵؎ لفظ فرعون ’رع‘کی طرف منسوب ہے۔ قدیم اہل مصر سورج کو اپنا رب اعلیٰ یا مہادیو قرار دیتے اور اُسے ’رع‘کہتے تھے۔ چنانچہ لفظ فرعون کے معنی ہیں: سورج دیوتا کی اولاد۔ مصر کے بادشاہ اُس زمانے میں اپنے آپ کو ’رع‘کے جسمانی مظہر اور اُس کے ارضی نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے اور لوگوں کو یقین دلاتے تھے کہ اُن کے رب اعلیٰ یا مہادیو وہی ہیں۔ دور حاضر کے محققین کا عام میلان ہے کہ یہ فرعون منفتہ یا منفتاح تھا۔

۴۵۶؎ اصل الفاظ ہیں:’فَظَلَمُوْا بِھَا‘۔ اِن میں ’ب‘کا صلہ دلیل ہے کہ ’ظلموا‘یہاں ’کفروا‘ یا ’جحدوا‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔

۴۵۷؎ سورہ کے مخاطبین کو یہ اِس سرگذشت کے سنانے کی اصل غایت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ خدا اور اُس کے رسولوں کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی جائے تو قرآن اِسے بھی فساد سے تعبیر کرتا ہے۔ فرعون اور اُس کے سرداروں کے لیے ’مُفْسِدِیْنَ ‘کا لفظ یہاں اِسی مفہوم میں ہے۔

۴۵۸؎ اصل میں ’حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لَّا ٓاَقُوْلَ‘کے الفاظ ہیں۔ اہل اور سزاوار کے معنی’حقیق بہ‘یا’ھو حقیق ان یفعل کذا‘کے الفاظ آتے ہیں۔ یہاں اِس کے ساتھ ’عَلٰی‘ ہے۔ اِس سے یہ حریص کے معنی پر متضمن ہو گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ظاہر ہے کہ جو خدا کا رسول اور سفیر ہو، وہی سب سے زیادہ اہل اِس بات کا ہو سکتا ہے کہ خدا کی صحیح صحیح ترجمانی کرے، اُس پر کوئی من گھڑت بات نہ لگائے، اِس لیے کہ اُس کا علم ظن و قیاس پر نہیں، بلکہ براہ راست خدا کی وحی اور خطاب پر مبنی ہوتا ہے اور اپنے منصب کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے وہ اِس بات کا نہایت حریص بھی ہوتا ہے کہ اُس کی زبان سے کوئی کلمہ حق کے خلاف نہ نکلے، اِس لیے کہ جس پرسش کا خوف اُسے ہوتا یا ہو سکتا ہے، کسی دوسرے کو نہ ہوتا ہے، نہ ہو سکتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۴۰)

۴۵۹؎ اِس سے مراد عصا اور ید بیضا کا وہ معجزہ ہے جس کا ذکر آگے ہوا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے باجبروت بادشاہ کے پاس بھیجنے کے لیے ضروری تھا کہ اُنھیں ایسے غیر معمولی معجزات دیے جائیں اور وہ شروع ہی میں اُن کا مظاہرہ بھی کر دیں تاکہ فرعون اور اُس کے اعیان و اکابر اُن کی بات سننے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔

۴۶۰؎ دوسرے مقامات میں تصریح ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے صرف یہ مطالبہ ہی نہیں کیا، اِس کے ساتھ انبیا علیہم السلام کے عام طریقے کے مطابق فرعون اور اُس کے اعیان و اکابر کو توحید اور معاد پر ایمان اور خشیت و تذکر کی دعوت دی اور اپنے غیر معمولی معجزات سے اُن پر اتمام حجت بھی کر دیا جس کے نتیجے میں وہ عذاب الہٰی میں گرفتار ہوئے۔ بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے جانے کا یہ مطالبہ بھی ،معاذ اللہ کسی قوم پرست لیڈر کی طرف سے اپنی قوم کو غلامی سے چھڑانے کا مطالبہ نہیں تھا، بلکہ خدا کی اُس اسکیم کو بروے کار لانے کے لیے کیا گیا تھا جس کے تحت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو عالمی سطح پر ابلاغ دعوت اور اتمام حجت کے لیے منتخب کیا گیا۔ اِس اسکیم کے مطابق یہ ضروری تھا کہ اُنھیں ایک خاص علاقے میں آباد کرکے وہاں دعوت حق کا مرکز قائم کیا جائے۔ بائیبل کی کتاب خروج کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے یہ پوری اسکیم فرعون اور اُس کے درباریوں کے سامنے واضح نہیں فرمائی، بلکہ صرف اتنا کہا کہ وہ قربانی کی عبادت کے لیے تین دن کی راہ بیابان میں جانا چاہتے ہیں، اِس لیے کہ جس چیز کی قربانی کرنا پیش نظر ہے، اُس کی قربانی اگر مصر میں کی گئی تو وہاں کے لوگ اُنھیں سنگ سار کر دیں گے۔

۴۶۱؎ یعنی ایسا کھلا اژدہا کہ جس میں ذرا کسی شبہے کی گنجایش نہ ہو۔ آیت میں’ثُعْبَان‘کے ساتھ ’مُبِیْن‘ کی صفت اِسی مفہوم کے لیے لائی گئی ہے۔

۴۶۲؎ اصل الفاظ ہیں:’بَیْضَآئُ لِلنّٰظِرِیْنَ‘۔’نظر‘کا لفظ عربی زبان میں اصلاً غور و تامل کے ساتھ دیکھنے کے لیے آتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ہاتھ میں جو چمک ظاہر ہوئی، وہ محض فریب نظر کی نوعیت کی نہیں تھی، بلکہ غور و تامل سے دیکھا جائے تو صاف واضح ہو جاتا تھا کہ اُس کی تابانی بالکل اصلی اور حقیقی ہے۔

۴۶۳؎ یعنی کچھ ایسا ویسا جادوگر نہیں ہے، بلکہ بڑا ماہر جادوگر ہے اور بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے جانے کا مطالبہ اِس لیے کر رہا ہے کہ اُنھیں منظم کرکے اپنی فوج بنائے اور تم پر حملہ کرکے تمھیں اِس ملک سے نکال دے اور یہاں اپنی حکومت قائم کر لے۔ موسیٰ علیہ السلام کی غیر معمولی شخصیت اور بنی اسرائیل کی کثیر تعداد کے پیش نظر یہ بات بالکل قرین قیاس تھی۔ چنانچہ ہو سکتا ہے کہ فرعون کے درباریوں نے فی الواقع یہی سمجھا ہو اور اِس کا بھی امکان ہے کہ اُنھوں نے اپنے لوگوں کو آں جناب کی دعوت سے برگشتہ کرنے کے لیے یہ اشغلا اُسی طریقے پر چھوڑا ہو، جس طرح کہ ہر دور کے ارباب اقتدار کا شیوہ رہا ہے۔

۴۶۴؎ اصل میں ’اَرْجِہْ وَاَخَاہُ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’اَرْجِہْ‘ درحقیقت ’ارجئہ‘ ہے۔ لفظ کو ہلکا کرنے کے لیے اِس طرح کے تصرفات عربی زبان میں عام ہو جاتے ہیں۔

۴۶۵؎ قرآن نے یہ جملہ ساحروں کی اخلاقی پستی اور دناء ت کو واضح کرنے کے لیے نقل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پیشہ وروں کے عام طریقے کے مطابق اُنھوں نے اِس خوش آمدانہ انداز میں انعام کی توقع کا اظہار کیا۔

۴۶۶؎ یہ بات اُنھوں نے پیشہ ورانہ اخلاق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہی، لیکن جملے کا اسلوب ایسا ہے کہ اُن کی یہ خواہش بھی اُس سے ظاہر ہو رہی ہے کہ حضرت موسیٰ چاہیں تو وہ پہل کرنے کے لیے تیار ہیں۔

۴۶۷؎ موسیٰ علیہ السلام کو پورا اعتماد تھا کہ اُن کا پروردگار اُن کے ساتھ ہے، اِس لیے اُنھوں نے پہلے اُنھی کو موقع دیا کہ وہ اپنا ہنر دکھائیں۔ جادوگر جب اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو جوے کے تیروں کی طرح کوئی چیز دیکھنے والوں کے سامنے پھینکتے اور اُس پر اپنا جادو دکھاتے ہیں۔ آیت میں ’اِلْقَائ‘ یعنی پھینکنے کا لفظ اِسی مناسبت سے آیا ہے۔

۴۶۸؎ یہ قرآن نے جادو کی حقیقت واضح کر دی ہے کہ اُس سے کسی چیز کی حقیقت وماہیت نہیں بدلتی۔ وہ محض نگاہ اور قوت متخیلہ کو متاثر کرتا ہے جس سے انسان وہی کچھ دیکھنے لگتا ہے جو جادوگر دکھانا چاہتا ہے۔

۴۶۹؎ یعنی عصا کا سانپ جدھر جدھر گیا، اُس نے سانپوں کی طرح لہراتی ہوئی ہر رسی اور لاٹھی کو اُسی طرح رسی اور لاٹھی بنا دیا جس طرح وہ حقیقت میں تھی اور سارا طلسم نابود ہو گیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ بالکل ویسی ہی بات ہے کہ مہ نخشب کے مقابلے میں خورشید جہاں تاب نکل آئے۔ ظاہر ہے کہ ہزاروں مصنوعی چاند، سورج ہوں، جب بھی حقیقی سورج کے نکلتے ہی اُن کی چمک دمک ملمع کی طرح غائب ہو جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت موسیٰ کے معجزے کے ظاہر ہوتے ہی ساحروں کا سارا طلسم غائب ہو گیا۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۳۴۷)   

۴۷۰؎ اصل الفاظ ہیں:’وَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ‘۔ ’اُلْقِیَ‘ مجہول کا صیغہ ہے۔ یہ جادوگروں کے جذبۂ تعظیم و اکرام کی تعبیر کے لیے آیا ہے۔ سحر و ساحری اور اِس طرح کے دوسرے علوم و فنون کو اُن کے ماہرین ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اِن میں اور معجزے میں فرق کے لیے یہ نہایت واضح معیار ہے کہ اِن علوم و فنون کے ماہرین بھی اُس کے سامنے اعتراف عجز پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

۴۷۱؎ یہ صاف فرعون کی خدائی سے انکار تھا۔ سورۂ طہٰ (۲۰) کی آیت ۷۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابلے پر آنے سے پہلے ہی جادوگر کسی حد تک سمجھ چکے تھے کہ معاملہ اُن کے کسی ہم پیشہ سے نہیں ہے۔آیت میں ’مَآ اَکْرَھْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ‘ کے الفاظ اِسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے اندر دبی ہوئی روشنی اِسی کی منتظر تھی کہ کوئی آگ دکھائے اور وہ بھڑک اٹھے۔ استاذ امام کے الفاظ میں سعادت کا کوئی شمہ بھی انسان کے اندر موجود ہو تو بتوفیق الہٰی وہ اپنا اثر دکھا ہی جاتا ہے۔

۴۷۲؎ جادوگروں کے اعتراف حق سے مجمع پر جو اثر پڑا اور فرعون اور اُس کے درباری جس طرح رسوا ہو کر رہ گئے، اُس کی خفت مٹانے اور بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے لیے اُس نے کائیاں سیاسیوں کی طرح فوراً اُن پر سازش کا الزام رکھ کر سزا سنا دی کہ یہ سب تمھاری اور موسیٰ کی ملی بھگت ہے۔ تم سب مل کر ہمارے خلاف بغاوت کرنا چاہتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تم نے میری اجازت کا انتظار بھی نہیں کیا اور موسیٰ پر ایمان کا اعلان کر دیا ہے۔ اب میں تمھیں وہی سزا دوں گا جو سلطنت کے باغیوں کو دی جاتی ہے۔

۴۷۳؎ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سچا ایمان آن کی آن میں انسان کو کس بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ وہی جادوگر ہیں جن کی دناء ت اور پست ہمتی کا ابھی چند منٹ پہلے یہ حال تھا کہ اپنے کرتب دکھانے کے لیے فرعون کے سامنے حاضر ہوتے ہیں تو بھانڈوں، نقالوں اور مسخروں کی طرح اپنے فن کے مظاہرے پر بھرپور انعام کی التجا پیش کرتے ہیں یا اب یہ حال ہے کہ ایمان کی روشنی دل میں داخل ہوتے ہی اُن کے باطن کا ہرگوشہ اِس طرح جگمگا اٹھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے، تاریکی کی کوئی پرچھائیں اُن کے دلوں پر کبھی پڑی ہی نہیں تھی اور یہ گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان نہیں بلکہ یہ عزیمت و استقامت کے پہاڑ اور پاکیزگی و قدوسیت کے ملائک صفت پیکر ہیں۔ غور کیجیے، فرعون نے کتنی بڑی دھمکی اُن کو دی، لیکن اُنھوں نے اِس کے جواب میں فرمایا تو یہ فرمایا کہ کچھ غم نہیں، اگر تم نے ہمارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر سولی دے دی تو ہم کہیں اور نہیں جائیں گے، اپنے رب ہی کے پاس جائیں گے اور جب تیرا سارا غضب ہمارے اوپر اِس جرم میں ہے کہ ہم اپنے رب کی آیات پر، جبکہ وہ ہمارے پاس آئیں، ایمان لائے تو جو کچھ تو کر سکتا ہے، وہ کر گزر، اگر اِس جرم کی یہ سزا ہے تو ہم اِس سزا کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۳۴۸)

۴۷۴؎ اِس سے مراد خود فرعون کے بت ہیں جو سورج دیوتا کے اوتار کی حیثیت سے خود اُس کے حکم سے پورے ملک میں پوجے جا رہے تھے۔ عربی زبان میں اضافت اِس طرح کے مفہوم کے لیے بھی آجاتی ہے۔

۴۷۵؎ بنی اسرائیل کی نسل کشی کے لیے یہی اسکیم حضرت موسیٰ کی پیدایش سے پہلے رعمیسس دوم کے زمانے میں بھی جاری رہی تھی۔ اپنے ہی منتخب کیے ہوئے میدان میں شکست کھا کر جب درباریوں نے موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کے خلاف سخت اقدام کا مطالبہ کیا تو فرعون نے ظلم و ستم کی وہی اسکیم دوبارہ جاری کر نے کا اعلان کر دیا۔ نیز یہ اطمینان بھی دلادیا کہ اس کے نتیجے میں کسی بغاوت کا اندیشہ نہیں ہے، ہمارا اقتدار اُن کے اوپر پوری طرح مستحکم ہے۔

۴۷۶؎ یعنی نماز میں اُس کے سامنے سربہ سجود ہو کر اُس سے مدد کی درخواست کرو۔ اللہ سے مدد چاہنے کا یہی طریقہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔فتنوں اور آزمایشوں میں استقامت بڑا کٹھن کام ہے۔ یہ کام اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اِسی حقیقت کو یوں واضح فرمایا ہے کہ ’وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘*(اور تمھیں صبر نہیں حاصل ہو سکتا، مگر اللہ ہی کی مدد سے)۔اللہ کی یہ مددحاصل کرنے کا واسطہ نماز ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ اِس نماز سے مراد صرف عام نماز نہیں ہے، بلکہ وہ خاص نماز بھی ہے جس کی تاکید آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مکی زندگی کے ابتدائی پر محن دور میں کی گئی تھی۔ اِسی چیز کی تاکید حضرت موسیٰ اور ہارون کو بھی کی گئی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۵۱)

۴۷۷؎ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول تھے، لہٰذا یہ اُس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اُس کے ساتھیوں کو اُن کے دشمنوں پر لازماً غلبہ عطا فرماتے ہیں۔

۴۷۸؎ بنی اسرائیل کا یہ جواب اُن کی روایتی بے یقینی اور ضعیف الاعتقادی کا اظہار ہے۔

۴۷۹؎ یہ برسرموقع تنبیہ ہے کہ خدا کے پیغمبر کا ساتھ دو گے تو بادشاہی ضرور مل جائے گی، مگر برقرار اُسی صورت میں رہے گی، جب اُس کا حق ادا کیا جائے گا۔ پچھلے رسولوں کی امتوں کی طرح بدمست ہو کر زمین میں فساد برپا کرو گے تو اُنھی کی طرح یہ تم سے بھی چھین لی جائے گی۔

۴۸۰؎ رسولوں کے باب میں یہ سنت الہٰی پیچھے بیان ہوئی ہے کہ اُن کی دعوت جب انذار عام کے مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو اِس طرح کی آزمایشیں لوگوں کو جھنجھوڑنے اوربیدار کرنے کے لیے آسمان سے نازل کی جاتی ہیں۔

۴۸۱؎ مطلب یہ ہے کہ اپنی نحوست دوسروں کے طالع میں ڈھونڈتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ خدا کا فیصلہ ہے جو اُن کی بداعمالیوں کے نتیجے میں اُن کے خلاف صادر ہو گیا ہے۔

۴۸۲؎ اصل الفاظ ہیں:’اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ‘۔یہ حال واقع ہوئے ہیں اور قرینہ دلیل ہے کہ ’مُفَصَّلٰت‘ کا ظرف یہاں محذوف ہے، یعنی اُن کی تفصیل بنی اسرائیل کے صحیفوں میں کر دی گئی ہے۔ چنانچہ بائیبل کی کتاب خروج میں طوفان کی تفصیل اِس طرح آئی ہے:

’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا تاکہ سب ملک مصر میں انسان اور حیوان اور کھیت کی سبزی پر جو ملک مصر میں ہے، اولے گریں۔ اور موسیٰ نے اپنی لاٹھی آسمان کی طرف اٹھائی اور خداوند نے رعد اور اولے بھیجے اور (بجلیوں کی) آگ زمین تک آنے لگی اور خداوند نے ملک مصر پر اولے برسائے۔ پس اولے گرے اور اولوں کے ساتھ آگ ملی ہوئی تھی اور وہ اولے ایسے بھاری تھے کہ جب سے مصری قوم آباد ہوئی، ایسے اولے ملک میں کبھی نہیں پڑے تھے اور اولوں نے سارے ملک مصر میں اُن کو جو میدان میں تھے، کیا انسان کیا حیوان، سب کو مارااور کھیتوں کی ساری سبزی کو بھی اولے مار گئے اور میدان کے سب درختوں کو توڑ ڈالا۔‘‘ (۹: ۲۲-۲۵)

ٹڈی دل کے حملے کی تفصیل اِس طرح بیان ہوئی ہے:

’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ ملک مصر پر اپنا ہاتھ بڑھاتاکہ ٹڈیاں ملک مصر پر آئیں اور ہر قسم کی سبزی کو جو اِس ملک میں اولوں سے بچ رہی ہے، چٹ کر جائیں۔ پس موسیٰ نے ملک مصر پر اپنی لاٹھی بڑھائی اورخداوند نے اُس سارے دن اور ساری رات پروا آندھی چلائی اور صبح ہوتے ہوتے پروا آندھی ٹڈیاں لے آئی اور ٹڈیاں سارے ملک مصر پر چھا گئیں اور وہیں مصر کی حدود میں بسیرا کیا اور اُن کا دَل ایسا بھاری تھا کہ نہ تو اُن سے پہلے ایسی ٹڈیاں کبھی آئیں اور نہ اُن کے بعد پھر آئیں گی۔ کیونکہ اُنھوں نے تمام روے زمین کو ڈھانک لیا، ایسا کہ ملک میں اندھیرا ہو گیا اور اُنھوں نے اُس ملک کی ایک ایک سبزی کو اور درختوں کے میووں کو جو اولوں سے بچ گئے تھے، چٹ کر لیا اور ملک مصر میں نہ تو کسی درخت کی، نہ کھیت کی کسی سبزی کی ہریالی باقی رہی۔‘‘ (۱۰: ۱۲-۱۵)

جوؤں کا حملہ جس طرح ہوا، اُس کی تفصیل یہ ہے:

’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہا: ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی بڑھا کر زمین کی گرد کو مارتا کہ وہ تمام ملک مصر میں جوئیں بن جائے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی لے کر اپنا ہاتھ بڑھایا اور زمین کی گرد کو مارا اور انسان اور حیوان پر جوئیں ہو گئیں اور تمام ملک مصر میں زمین کی ساری گرد جوئیں بن گئی۔‘‘ (۸: ۱۶-۱۷)

مینڈکوں کے عذاب کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے:

’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ فرعون کے پاس جا اور اُس سے کہہ، خداوند یوں فرماتا ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ میری عبادت کریں۔ اور اگر تو اُن کو جانے نہ دے گا تو دیکھ میں تیرے ملک کو مینڈکوں سے ماروں گا اور دریا بے شمار مینڈکوں سے بھر جائے گا اور وہ آ کر تیرے گھر میں اور تیری آرام گاہ میں اور تیرے پلنگ پر اور تیرے ملازموں کے گھروں میں اور تیری رعیت پر اور تیرے تنوروں اور آٹا گوندھنے کے لگنوں میں گھستے پھریں گے اور تجھ پر اور تیری رعیت اور تیرے نوکروں پر چڑھ جائیں گے۔ اور خداوند نے موسیٰ کو فرمایا کہ ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی لے کر اپنا ہاتھ دریاؤں اور نہروں اور جھیلوں پر بڑھا اور مینڈکوں کو ملک مصر پر چڑھا لا۔ چنانچہ جتنا پانی مصر میں تھا، اُس پر ہارون نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مینڈک چڑھ آئے اورملک مصر کو ڈھانک لیا۔‘‘ (۸: ۱-۶)

خون کا عذاب جس صورت میں ظاہر ہوا، اُس کی تفصیل یہ ہے:

’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی لے اور مصر میں جتنا پانی ہے، یعنی دریاؤں اور نہروں اور جھیلوں اور تالابوں پر اپنا ہاتھ بڑھا تاکہ وہ خون بن جائیں اور سارے ملک مصر میں پتھر اور لکڑی کے برتنوں میں بھی خون ہی خون ہو گا۔ اور موسیٰ اور ہارون نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا۔ اُس نے لاٹھی اٹھا کر اُسے فرعون اور اُس کے خادموں کے سامنے دریا کے پانی پر مارا اور دریا کا پانی سب خون ہو گیا اور دریا کی مچھلیاں مر گئیں اور دریا سے تعفن اٹھنے لگا اور مصری دریا کا پانی پی نہ سکے اور تمام ملک مصر میں خون ہی خون ہو گیا۔‘‘(۷: ۱۹-۲۱)

۴۸۳؎ اصل الفاظ ہیں:’لَمَّا وَقَعَ عَلَیْہِمُ الرِّجْزُ‘۔ اِن میں ’لَمَّا‘’کُلَّمَا‘کے معنی میں ہے۔ تصویر حال مقصود ہو تو یہ اِس معنی میں بھی آتا ہے۔ آگے آیت ۱۸۹ میں اِس کی نظیر موجود ہے۔

۴۸۴؎ مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی حیثیت سے تمھاری بات سننے اور اُس کی حرمت قائم رکھنے کا جو عہد کر رکھا ہے۔

۴۸۵؎ یعنی جو بہرحال ختم ہو جانا تھی اور اُن کے جھوٹ اور فریب کا پردہ جس کے بعد لازماً چاک ہو جانا تھا۔

۴۸۶؎ اِس کا ذکر بائیبل میں بھی ہوا ہے۔ کتاب خروج میں ہے:

’’تب فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بلوا کر کہا کہ خداوند سے شفاعت کرو کہ مینڈکوں کو مجھ سے اور میری رعیت سے دفع کرے اور میں اِن لوگوں کو جانے دوں گا تاکہ وہ خداوند کے لیے قربانی کریں۔‘‘(۸: ۸)
’’فرعون نے کہا: میں تم کو جانے دوں گا تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے لیے بیابان میں قربانی کرو، لیکن تم دور مت جانا اور میرے لیے شفاعت کرنا ۔۔۔پرفرعون نے اِس بار بھی اپنا دل سخت کر لیا اور اُن لوگوں کو جانے نہ دیا۔‘‘(۸: ۲۸-۳۲)    

۴۸۷؎ یعنی اُن جرائم کا انتقام لیا جن پر وہ اتمام حجت کے باوجود جمے رہے۔

۴۸۸؎ اِس سے فلسطین کی سرزمین مراد ہے جسے بنی اسرائیل کے لیے توحید کے مرکز کی حیثیت سے منتخب کیا گیا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت سے مادی اور روحانی ، دونوں قسم کی برکتیں اُن کے لیے رکھ دی تھیں۔ آیت میں ’مَشَارِق‘ اور ’مَغَارِب‘ کے الفاظ اِس سرزمین کی وسعت اطراف کو بیان کرنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ اِس بات کی واضح نظیر ہے کہ عربی زبان میں جمع اِس مفہوم کے لیے بھی آتی ہے۔

۴۸۹؎ اُس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو پیچھے آیات۱۲۸-۱۲۹ میں مذکور ہے۔

۴۹۰؎ یعنی انگور جس کی پیداوار میں مصر کو اُس زمانے میں امتیاز حاصل تھا۔ یہ جزوغالب کے ذکر سے کسی چیز کی تعبیر کا اسلوب ہے، ورنہ مدعایہی ہے کہ اُن کے تمام شہر اور باغ ملیا میٹ کر دیے گئے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اتمام حجت کے بعد صرف فرعون اور اُس کے لشکر ہی غرقاب نہیں ہوئے، بلکہ پورے ملک پر تباہی آئی جس سے محل اور ایوان بھی منہدم ہوئے اور ہر قسم کے باغات بھی اجڑ گئے۔

۴۹۱؎ فرعون کا انجام بیان کرنے کے بعد یہاں سے اب بنی اسرائیل کی تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جو خدائی دینونت کے عالمی ظہور کی سرگذشت ہے۔

۴۹۲؎ اصل الفاظ ہیں:’یَعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّھُمْ‘۔یہ اسلوب بیان اپنے اندر تحقیر کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ ہم نے ترجمے میں اِسی کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ اِس جملے میں ’عکف‘’عَلٰی‘ کے ساتھ آیا ہے۔ اِس سے کسی چیز پر جمے ہونے اور اپنے آپ کو اُس سے وابستہ کر لینے کا مفہوم اِس میں پیدا ہو گیا ہے۔ یہ غالباً موجودہ شہر طور اور ابو زینمہ کے قریب کسی مقام کا ذکر ہے جس سے بنی اسرائیل جزیرہ نماے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف جاتے ہوئے گزرے۔ مصریوں کا ایک بہت بڑا بت خانہ اور قدیم زمانے سے سامی قوموں کی چاند دیوی کا معبد اِسی علاقے میں تھا۔

۴۹۳؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اُن سے بھی زیادہ احمق ثابت ہوئے اور خدا کے جلال و جمال کی اتنی شانیں دیکھ لینے کے بعد بھی اُس ذہنی پستی سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوئے جس میں مصر کی غلامی نے اُنھیں ڈال رکھا تھا۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام مصر کے دوران میں وہ اُن کے دیوتاؤں کی پرستش بھی کرنے لگے تھے۔ چنانچہ وہاں سے نکلنے کے فوراً بعد ہی جو بت کدہ سامنے آیا، اُس کو دیکھ کر اُن کی پیشانیاں اپنے پرانے معبودوں کے آستانے پر سجدے کے لیے بے تاب ہو گئیں۔

۴۹۴؎ اِس میں بلاغت کا یہ نکتہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ لڑکوں کو ذبح کرنے کا ذکر بیٹوں کے لفظ سے ہوا ہے اور لڑکیوں کو زندہ رکھنے کا ذکر کرتے ہوئے تمھاری عورتوں کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ پہلی تعبیر، اگر غور کیجیے تو شفقت پدری کا جذبہ ابھارتی ہے اور دوسری غیرت کو حرکت میں لانے کا باعث بنتی ہے۔ جملے کا اسلوب بھی قابل توجہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی بات کے ساتھ ملا کر گویا اللہ تعالیٰ نے اپنی بات اُن کی زبان پر جاری کر دی ہے۔

۴۹۵؎ یہ اُس وعدے کا ذکر ہے جو دریا پار کر لینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی شریعت دینے کے لیے فرمایا۔ چالیس راتوں کی یہ مدت اُس ذہنی اور قلبی تیاری کے لیے تھی جو کتاب الہٰی کا حامل بننے کے لیے ضروری تھی۔ پہلے یہ وعدہ تیس دنوں کا تھا، لیکن سورۂ طہٰ (۲۰) کی آیت ۸۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام شوق ملاقات میں وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گئے۔ چنانچہ اُن کی اِس جلد بازی کے باعث اللہ تعالیٰ نے اُن کی تربیت کے لیے یہ مدت تیس دنوں سے بڑھا کر چالیس دن کر دی ۔

۴۹۶؎ موسیٰ علیہ السلام نے جانے سے پہلے اپنی قوم کی نگرانی کے لیے جو اہتمام فرمایا، یہ اُس کا بیان ہے۔ اِسے خاص طور پر نمایاں کیا ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ بنی اسرائیل نے گوسالہ پرستی کی جو لعنت اختیار کی ، وہ اِس سارے اہتمام کے علی الرغم اختیار کی۔

۴۹۷؎ یہ شوق ایک فطری شوق ہے، اِس وجہ سے آں جناب کو اللہ تعالیٰ نے اِس پر کوئی ملامت نہیں فرمائی، بلکہ صرف سمجھا دیا ہے۔

۴۹۸؎ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو سمجھانے کے لیے یہ طریقہ کیوں اختیار فرمایا؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ مشاہدہ حضرت موسیٰ کی اطمینان دہانی کے لیے کرایا گیا کہ خدا کی تجلی ذات کی تاب تو کوہ و جبل بھی نہیں لا سکتے جو جامد اور ٹھوس ہونے کے اعتبار سے سب سے بڑھ کر ہیں تو تم انسان ضعیف البنیان ہو کر کس طرح لاسکو گے۔ انسان کی قوت برداشت محدود ہے۔ اُس کی نگاہیں روشنی کو دیکھتی ہیں، لیکن یہ روشنی ایک حد خاص سے متجاوز ہو جائے تو آنکھیں خیرہ ہو کر رہ جاتی ہیں، بلکہ بعض اوقات بینائی ہی سلب ہو جاتی ہے۔ اُس کے کان آواز کو سنتے ہیں ، لیکن اُن کے سننے کی تاب بھی بس ایک مقررہ حد ہی تک ہے، بجلی کا کڑکا ہی ذرا حد سے متجاوز ہو جائے تو سرے سے کان کے پردے ہی بے کار ہو جائیں۔ آفتاب اُس کی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، مگر اُس کی روشنی اور حرارت اُسی وقت تک اُس کے لیے حیات بخش ہے، جب تک وہ نہایت ہی طویل فاصلے سے، نہ جانے کتنے فضائی پردوں کی اوٹ سے اور کتنی چھلنیوں سے گزار کر اپنی روشنی اور حرارت اُس کو پہنچا رہا ہے۔ اگر کسی دن ذرا کرئہ ارض سے قریب آ کر اُس پر ایک نظر ڈال دے تو سارے جان دار جل بھن کر خاک اور راکھ ہو جائیں۔ تو جب اِس کائنات کی مخلوق کے مقابل میں انسان کی قوت برداشت اتنی ناتواں ہے تو وہ خدا کی ذات بحت کی تاب کس طرح لا سکتی ہے جو نور مطلق اور تمام چون و چگون سے ماورا اور بالاتر ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۶۰)

۴۹۹؎ یہ انداز کلام بھی قابل توجہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اِس میں نہایت لطیف طریقے سے توجہ دلائی گئی ہے کہ جو کچھ عطا کیا جا رہا ہے، وہی کم نہیں ہے، اُس پر قناعت کرو، مجھے دیکھنے کی خواہش نہ کرو۔

۵۰۰؎ اصل میں ’مِنْ کُلِّ شَیْئٍ‘اور’لِکُلِّ شَیْئٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِس طرح کے سیاق و سباق میں یہ پیش نظر موضوع ہی سے متعلق ہو کر آتے ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اِسے واضح کر دیا ہے۔ تختیوں پر اللہ تعالیٰ نے خود لکھایا یا اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت موسیٰ علیہ السلام نے لکھا، بائیبل کے بیان سے دونوں ہی باتیں نکلتی ہیں۔ اِن میں سے جس کو بھی مانیے، قرآن کے الفاظ اُس کے محتمل ہیں:

’’اور موسیٰ نے لوگوں کے پاس جا کر خداوند کی سب باتیں اور احکام اُن کو بتا دیے اور سب لوگوں نے ہم آواز ہو کر جواب دیا کہ جتنی باتیں خداوند نے فرمائی ہیں، ہم اُن سب کو مانیں گے اور موسیٰ نے خدا کی سب باتیں لکھ لیں۔‘‘ (خروج ۲۴: ۳-۴)
’’اور موسیٰ شہادت کی دونوں لوحیں ہاتھ میں لیے ہوئے الٹا پھرا اور پہاڑ سے نیچے اترا اور وہ لوحیں اِدھر سے اور اُدھر سے، دونوں طرف سے لکھی ہوئی تھیں۔ اور وہ لوحیں خدا ہی کی بنائی ہوئی تھیں اور جو لکھا ہوا تھا، وہ بھی خدا ہی کا لکھا اور اُن پر کندہ کیا ہوا تھا۔‘‘ (خروج۳۲: ۱۵-۱۶)

یہ امر ، البتہ ملحوظ رہے کہ قرآن کے الفاظ سے اِس بات کی تائید نہیں ہوتی کہ تختیوں پر صرف احکام عشرہ لکھے ہوئے تھے، بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ دین و شریعت کی جو باتیں اُس مرحلے میں بتانی پیش نظر تھیں،وہ سب اُن میں درج کر دی گئی تھیں۔

۵۰۱؎ اصل میں ’یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِھَا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں تفضیل مطلق ہے اور لوگ جو طریقے اُس زمانے میں اختیار کیے ہوئے تھے، اُن کے مقابل میں آئی ہے۔ عربی زبان میں تفضیل کے صیغے اِس پہلو سے بھی آجاتے ہیں۔ استاذ امام کے الفاظ میں مدعا یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے کہو کہ بت پرست قوموں کی خرافات پر نہ ریجھیں، بلکہ اُس پاکیزہ اور اعلیٰ و احسن طریقے کو اپنائیں جو اِن الواح میں اُن کو بتایا گیا ہے۔

۵۰۲؎ اُن قوموں کی طرف اشارہ ہے جن کے علاقوں سے بنی اسرائیل فلسطین کی طرف اپنے سفر کے دوران میں گزرنے والے تھے۔

۵۰۳؎ آگے جو کچھ پیش آنے والا تھا، اُس کی مثال سے ہدایت و ضلالت کا قانون سمجھا دیا ہے کہ تمھارے جلو میں یہ قومیں خدائی دینونت کے ظہور کی عظیم نشانیاں دیکھیں گی، لیکن اِس کے باوجود انکار کر دیں گی، اِس لیے کہ اِن میں زیادہ متکبرین ہیں اور اِس سے پہلے بھی ہماری نشانیوں کو جھٹلا چکے ہیں۔ ہمارا قانون یہ ہے کہ جو لوگ تکبر کے ساتھ ہماری نشانیوں کو جھٹلا دیتے ہیں، اُنھیں ہم ہدایت سے محروم کر دیتے ہیں۔

۵۰۴؎ مطلب یہ ہے کہ وہی پائیں گے جو کچھ کرتے رہے ہیں۔

_______

* النحل۱۶: ۱۲۷۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B