HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

عہد رسالت میں خواتین کا سیاسی کردار (۳)

[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

(گزشتہ سے پیوستہ)

غزوۂ خندق

خندق کھودنے میں چھ دن صرف ہوئے۔ محاصرہ مہینا بھر جاری رہا۔ ۲۵ روز تک اللہ کے رسول نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا۔ مسلمان مسلسل دو ماہ تک مورچوں میں بیٹھے رہے۔ اس اثناء میں خانگی اور معاشرتی، سب کام خواتین سرانجام دیتی رہیں۔ مجاہدین کے کھانے پینے کا بندوبست، اسے مورچوں تک پہنچانا اور عہد شکن یہودیوں سے اپنی عزت و ناموس کی حفاظت، سب انہی کے ذمے تھی۔ محدثین اور سیرت نگاروں نے اس عرصے کے بہت سے ایمان افروز واقعات نقل کیے ہیں۔ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب آطام (پتھروں کا مکان) حسان میں بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک یہودی اس قلعہ نما مکان کے گرد چکر لگا رہا ہے تو انھوں نے حضرت حسان سے کہا کہ جاؤ اس یہودی کو قتل کر دو۔ وہ کہنے لگے: بخدا، آپ تو جانتی ہیں کہ یہ کام میرے بس کا نہیں۔ حضرت صفیہ نے اپنے کمر کے گرد کپڑا باندھا، ایک چوبی ستون ہاتھ میں پکڑا، قلعہ سے نیچے اتر کر ستون سے ضرب لگا کر یہودی کو مار دیا۔ اس کے بعد وہ حسان سے کہنے لگیں: جاؤ، اس کا مال لوٹ لاؤ۔ مرد ہے مجھے شرم مانع ہے، وہ کہنے لگے: مجھے اس کی ضرورت نہیں، انھوں نے خود اس کا سامان چھینا اور اس کا سر کاٹ کر قلعے سے نیچے لڑھکا دیا تو اس کے ساتھی یہ سمجھتے ہوئے بھاگ گئے کہ قلعے میں مرد موجود ہیں۔

اللہ کے رسول نے حضرت سعد بن معاذ کو مسجد نبوی میں اس خیمہ میں رکھا جو بنو اسلم کی رشیدہ نامی خاتون چلا رہی تھی۔ رشیدہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور اس نے اپنے آپ کو نادار مسلمانوں کی خدمت کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔ گویا اس کا کردار میدان جنگ تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ ضرورت مند مسلمانوں کی خدمت کے لیے کوشاں تھی۔

بنو نضیر کے محاصرے کے تقریباً پچیسویں روز حضرت سعد بن معاذ کی وفات ہوئی تو ان کی والدہ کبیثہ بنت رافع بن معاویہ الخزرجی نے درج ذیل الفاظ میں ان کا مرثیہ کہا:

ویل أم سعد سعدًا   صرامۃ وحدا
سؤدداو مجدا   وفارسًا معدًا
سدبہ مسدّا   یقدھا ما قدًا
سعد کی ماں کا سعد پر افسوس جس نے متانت اور وقار اور شاہ سواری میں اپنا مقام بنایا اور ان صفات پر پورا اترا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سب سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے: ’’ہر نوحہ گر عورت مبالغے سے کام لیتی ہے، سوائے ام سعد کے، اس نے جو کہا درست کہا، جھوٹ نہیں بولا۔‘‘

غزوۂ حدیبیہ

۶ ھ میں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ۱۴۰۰ صحابۂ کرام رضی اللہ علیہم تھے اور آپؐ کی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آپ کو خبر ملی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے تو آپ نے درخت کے نیچے موت اور عدم فرار پر بیعت لی، جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ بیعت رضوان کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ معاہدہ لکھا گیا تو آپؐ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو احرام کھولنے کا اور سر منڈانے کا حکم دیا۔ آپؐ نے یہ حکم تین بار دہرایا، مگر صحابۂ رضی اللہ عنہم تیار نہ ہوئے، کیونکہ معاہدے کی دفعات پر ان کے تحفظات تھے۔ آپؐ اندر داخل ہوئے اور حضرت ام سلمہ کو اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا، انھوں نے مشورہ دیا کہ آپ باہر نکل کر کسی سے بات کیے بغیر اپنا احرام کھول دیں، قربانی کر کے سر منڈوا لیں۔ آپؐ نے ان کے مشورے پر عمل کیا تو سب صحابہ نے آپ کی تقلید کی۔ یہ مشورہ حضرت ام سلمہ کی ذہانت پر دلالت کرتا ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ مسلمانوں کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ واپس جانے اور معاہدے پر عمل درآمد کرنے کا عزم کر لیا ہے، اور جانتی تھیں کہ اس عزم کے بعد کسی صحابی کو آپ کی مخالفت کی جرأت نہ ہو گی۔ اس طرح اس خاتون کے مشورے نے مسلمانوں کو ہلاکت سے بچا لیا۔

غزوۂ خیبر

حدیبیہ سے لوٹنے کے بعد ۷ھ میں مسلمانوں کا لشکر خیبر کی طرف روانہ ہوا۔ ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ (۸/ ۳۹۵) میں حضرت ام سنان اسلمیہ سے روایت کی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول، میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گی، مشکیزے سیوں گی، مریضوں اور زخمیوں کا دوادارو کروں گی، کجاووں کی نگہداشت کروں گی۔ آپ نے فرمایا: بسم اللہ چلو، میں نے تیری قوم کی اور دوسری قوموں کی خواتین کو بھی اجازت دی ہے، چاہو تو اپنی قوم کے ساتھ نکلو چاہو تو ہمارے ساتھ۔ میں نے کہا: میں آپ کے ساتھ جاؤں گی، آپ نے فرمایا: ام سلمہ کے ساتھ ہو جاؤ۔ سیرت نگاروں نے بیس سے زیادہ خواتین کے نام گنوائے ہیں جنھوں نے غزوۂ خیبر میں شرکت کی۔

ابن اسحاق نے بنو غفار کی ایک خاتون کے بارے میں روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اس غزوہ میں شرکت کی اجازت دی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نوعمر تھی، نبی پاک نے اپنے کجاوے کی کاٹھی (Saddle) کے پیچھے مجھے بٹھا لیا۔ مجھے اچانک حیض آگیا۔ یہ میرا پہلا حیض تھا تو حیا کی وجہ سے میں سکڑ کر بیٹھ گئی۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خون دیکھا تو فرمایا: تجھے کیا ہوا ہے، شاید تجھے حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، آپؐ نے فرمایا: اپنے آپ کو درست کر لو۔ پانی کا برتن لو، اس میں نمک ڈالو اور کاٹھی پر جو خون گرا ہے، اسے دھو ڈالو، پھر واپس آکر سواری پر سوار ہو جاؤ۔

عمرۃ القضیۃ

مسلمان غزوۂ حدیبیہ میں عمرہ نہیں کر سکے تھے۔ چنانچہ ۷ ھ میں وہ شان و شوکت کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لیے نکلے۔ سیاسی طور پر اس عمرے کی خاصی اہمیت تھی، اس لیے اسے عمرۃ القصاص بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ کے رسول نے حکم دیا: جو بھی حدیبیہ کے عمرے میں شریک تھے، خواہ مرد ہوں یا خواتین، سب اس عمرے کے لیے نکلیں۔ چنانچہ وہ سب خواتین اس عمرے کے لیے نکلیں جن کا ذکر غزوۂ حدیبیہ میں ہو چکا ہے۔ اس عمرے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی شریک تھیں حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ قضائے عمرہ کے لیے نکلے تو ان کے پیچھے حضرت حمزہ کی بیٹی یہ پکارتے ہوئے نکلی: اے میرے چچازاد، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور حضرت فاطمہ سے کہا: اپنی چچا زاد کو پکڑ لو۔

فتح مکہ

۸ھ میں جب لوگوں کو تیاری کا حکم دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے جو تیاری میں مصروف تھیں۔ آپ نے پوچھا کہ اللہ کے رسول نے تمھیں تیاری کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، آپ نے فرمایا: کہاں کی تیاری ہے؟ انھوں نے کہا: معلوم نہیں، بعد میں آپ نے ان کو بتایا کہ ہم مکہ کی طرف جا رہے ہیں۔ سیرت نگاروں نے ایسی ۸ خواتین کے نام گنوائے ہیں جنھوں نے فتح مکہ، غزوۂ حنین اور غزوۂ طائف میں شرکت کی۔ ان کے علاوہ انھوں نے چھ ایسی خواتین کے نام گنوائے ہیں جنھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ بعض خواتین نے بعض مشرکین کو پناہ دی اور ان کی پناہ کو قبول کیا گیا۔ ام ہانی نے اپنے سسرال والوں کو پناہ دی۔ ام حکیم بنت حارث نے اپنے شوہر عکرمہ کو پناہ دی۔ ام سلمہ نے ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب اور اپنے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو پناہ دی اور ا ن کی سفارش پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کیا۔

غزوۂ حنین

فتح مکہ کے بعد بنو ہوازن نے ایک بہت بڑا لشکر اکٹھا کیا اور لشکر کے پیچھے سب سپاہیوں کے بال بچے موجود تھے۔ مسلمان خواتین نے حسب معمول اس غزوے میں شرکت کی۔ بعض خواتین ہتھیار بند تھیں، حضرت ام عمارہ کے ہاتھ میں تلوار تھی اور حضرت ام سلیم کے پاس خنجر جو انھوں نے اپنی کمر میں باندھ رکھا تھا۔ حضرت ابو طلحہ نے دیکھا تو اللہ کے رسول سے کہا: ام سلیم کے پاس خنجر ہے، آپؐ نے پوچھا: ام سلیم، یہ کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اگر کسی مشرک نے میرے قریب آنے کی کوشش کی تو اس سے اس کا پیٹ چاک کروں گی۔ خواتین کی ہیرو حضرت ام عمارہ بھاگنے والے انصار کو چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں، بھاگ کیوں رہے ہو؟ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے ہوازن کے ایک آدمی جو ہاتھ میں جھنڈا پکڑے، خاکستری رنگ لمبے تڑنگے اونٹ پر سوار ہو کر مسلمانوں کے پیچھے تیز تیز چلا جا رہا تھا۔ کا راستہ روکا۔ میں نے اونٹ کی کونچ کاٹ دی۔ وہ پیٹھ کے بل نیچے گرا تو میں نے اس پر سخت حملہ کر کے اسے ٹھکانے لگا دیا اور اس کی تلوار چھین لی، اونٹ الٹا پڑا بلبلا رہا تھا۔ خواتین کی اس ہیرو نے بیعت عقبہ ثانیہ، غزوۂ احد، غزوۂ حدیبیہ، غزوۂ خیبر، عمرۃ القضیۃ، فتح مکہ، غزوۂ حنین اور جنگ یمامہ میں شرکت کر کے اپنی بہادری کا لوہا منوایا۔

ان کے علاوہ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب، حضرت ام ایمن، حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت ام حارث اور حضرت ام سلیط نے غزوۂ حنین میں شرکت کی۔ جب مسلمان بھاگ رہے تھے، یہ سب مشرکین کے خلاف لڑ رہی تھیں۔ جب مشرکین کو شکست ہوئی تو ایک عورت نے اونچی آواز سے کہا: اللہ کے گھوڑے لات کے گھوڑوں پر غالب آ گئے اور اللہ کے گھوڑے ثابت قدمی کے زیادہ حق دار ہیں۔

غزوۂ طائف

شوال ۸ھ میں ہوا۔ امہات المومنین ام سلمہ اور زینب رضی اللہ عنہما آپ کے ساتھ تھیں۔ یہ طائف کا محاصرہ اٹھارہ روز تک جاری رہا۔ دیگر خواتین کے ساتھ عثمان بن سفوان کی بیوی خولہ بنت حکیم بھی طائف کے محاصرے میں شریک تھی۔ اس نے اللہ کے رسول سے کہا کہ اگر طائف فتح ہو گیا تو آپ مجھے ہادیہ بنت غیلان کے زیورات عطا کریں گے۔ آپ نے فرمایا: اگر ہمیں بنو ثقیف پر حملہ کرنے کی اجازت نہ ملی پھر بھی تم یہ مطالبہ کرو گی؟ خولہ نے یہ بات حضرت عمر کوبتائی۔ انھوں نے نبی پاک سے پوچھا: یہ خولہ کیا بات کہہ رہی ہے؟ کیا آپ کو اس کی اجازت نہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، حضرت عمر نے کہا کہ کیا میں لوگوں میں کوچ کا اعلان کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ خولہ نے ثقیف کے بارے میں اجازت نہ ملنے کا مطلب سمجھ لیا تھا اور ان کے بتانے پر حضرت عمر نے کوچ کا اعلان کیا۔

غزوۂ تبوک

۹ھ میں ہوا۔ سخت گرمی تھی۔ قحط کا زمانہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال دار صحابہ کو نیکی کی ترغیب دی۔ خواتین جہاد بالمال کے لیے آگے بڑھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو کپڑا بچھا ہوا تھا، بخاری اور مسلم کی روایت کے مطابق، خواتین اپنے کنگن، بازو بند، پازیب، بالیاں اور انگوٹھیاں اس میں ڈالتی جاتی تھیں اور ان کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق جہاد کا اجر ملا۔ آپ کا قول ہے: ’من جہز غازیًا فی سبیل اللّٰہ فقد غزا‘* (جس نے اللہ کی راہ میں غازی کو تیار کیا، وہ ایسے ہے جیسے اس نے خود غزوہ میں شرکت کی)۔ قرآن کریم میں جہاد بالمال کا جہاد بالنفس سے پہلے ذکر ہے۔

بخاری اور ابواب جہاد

امام بخاری رحمہ اللہ نے جہاد پر درج ذیل باب باندھے ہیں، ان پر ایک نظر ڈالنے سے جہاد میں خواتین کے کردار کا واضح ثبوت ملتا ہے:

۱۔ مردوں اور عورتوں کے لیے جہاد اور شہادت کے بارے میں دعا۔

۲۔ عورتوں کا جہاد۔

۳۔ عورتوں کا سمندر میں جہاد۔

۴۔ مردوں کا دوسری بیویوں کو چھوڑ کر ایک کو غزوہ میں لے جانا۔

۵۔ مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں کا قتال۔

۶۔غزوہ میں عورتوں کا مجاہدین کے پاس مشکیزے اٹھا کر لے جانا۔

۷۔ غزوہ میں عورتوں کا زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا۔

۸۔ عورتوں کا زخمیوں کو اٹھا کر لے جانا۔

۹۔ غزوہ میں ام سلیط کا کردار۔

۱۰۔ اس کی فضیلت جو اللہ کے راستے میں گر کر مرجائے۔ اس کا شمار شہدا میں ہو گا۔ ام حرام بنت سلمان کا تذکرہ۔

۱۱۔ عورت کا جہاد کے لیے سمندری سفر۔

۱۲۔ اہل روم سے جہاد کے بارے میں پیشین گوئی۔ ام حرام کی روایت سمندری جہاد میں امت کے لیے جنت کی بشارت۔ ام حرام کا سوال کہ کیا میں ان میں شامل ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ہاں۔

خلاصۂ بحث

جہاد میں خواتین کی شرکت سارے معاشرے کی حرکت کے ساتھ وابستہ تھی اور وہ انسانی ڈھانچے کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ تھی۔ خواتین کی شرکت واجب نہ تھی، یہ عورت کو اختیار تھا کہ وہ اپنی قدرت کے مطابق اس میں شریک ہو۔ اس کے لیے کسی خاص عمر اور خاص خاندانی حالات کی تخصیص نہ تھی، چھوٹی بڑی عمر کی، حاملہ اور غیر حاملہ ہر عورت اپنی استطاعت کے مطابق شریک ہو سکتی تھی۔

جہاد عام طور پر فرض کفایہ ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان محفوظ رہ کر اپنی دینی اور دنیوی مصلحتوں کو سرانجام دے سکیں۔ ہر مرد اور عورت اپنی ترجیحات اور قدرت کو دیکھ کر فیصلہ کرے گا کہ یہ اس کے لیے فرض کفایہ ہے یا نہیں۔ عورت کو وہ کردار ادا کرنا پڑے گا جو معاشرہ اس پر عائد کرتا ہے۔ انھوں نے مجاہدین کے کھانے کی تیاری، معرکے کے دوران پانی اور ستو پلانے، ان کو تیر اور ہتھیار فراہم کرنے، ان کے پچھواڑے کی حفاظت کرنے، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے، شہدا کے لاشوں کو اٹھانے اور دفن کرنے اور بوقت ضرورت شمشیر زنی اور تیر اندازی کے ہر کام میں حصہ لیا۔

عصر حاضر میں عورت پر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ ان کو معاشرے کے بلند مقاصد سے الگ کر دیا گیا ہے۔ نتیجۃً وہ لایعنی اور فضول کاموں میں مصروف ہو گئی ہیں۔ ہم نے مشہور کر دیا ہے کہ عورتیں دنیوی منافع کی طرف راغب ہوتی ہیں، جبکہ تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی عورت مال غنیمت پر جھپٹی ہو۔

عورت جہاد میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے جہاد میں شریک ہوئی اور ان سے شہادت، حتیٰ کہ سمندری جہاد میں شہادت کے لیے درخواست کرتی ہے۔

جامعہ ازہر کے شیخ شلتوت خواتین کے جہاد کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’یہ وہ وسیع میدان ہے جس کے لیے اسلام نے مرد اور عورت کی شراکت کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام نے عورت کو اس کی انسانی صلاحیتوں کے بارے میں باخبر کیا ہے اور اس کی سوچ اور ضمیر کے روشن پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور اس نے بھی اپنا فرض خوب نبھایا ہے۔ اس نے دنیا کی کسی چیز کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا اس کی نظر صرف جنت پر ٹھہرتی ہے اور صرف یہی اس کی امیدوں کی آماج گاہ ہے۔‘‘


عہد نبوت میں فتنۂ ارتداد اور خواتین کا کردار

 (۴)


جس دین کے دفاع کے لیے خواتین نے سختیاں جھیلیں، گھر بار چھوڑا اور غزوات میں شرکت کی، فتنۂ ارتداد اس دین کے لیے ایک حقیقی خطرہ تھا۔ ایک طرف تو خاتون نے اس فتنہ کی حمایت میں نہ صرف مرتدین کے لشکر کی قیادت کی، بلکہ نبوت کا دعویٰ بھی داغ دیا، جبکہ دوسری طرف خاتون نے جھوٹے نبی اسود عنسی کے خلاف بڑا فعال کردار ادا کیا۔

عہد نبوت کے آخر میں اسود عنسی اور طلیحہ اسدی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور آپ کی زندگی میں اسود عنسی کے جھوٹے دعویٰ کا خاتمہ ہوا۔

اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال کو لکھ بھیجا: ہمارے خلاف سرکشی کرنے والو، جس زمین پر تم نے قبضہ جمایا ہے، وہ ہمیں واپس کر دو اور جو مال تم نے جمع کیا ہے، اسے ہمارے لیے چھوڑ دو، کیونکہ ہم اس کے زیادہ حق دار ہیں، پھر وہ نجران کی طرف نکلا اور دس راتوں کے بعد اس پر قبضہ کر لیا۔ پھر اس نے صنعاء کا رخ کیا تو یمن میں کسریٰ کے عامل شہر بن باذام نے اس کا مقابلہ کیا۔ اسود نے اس کے لشکر کو شکست دے کر صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ (جب نبی کریم نے کسریٰ کے قتل ہونے کی خبر شہر بن باذام کو دی تھی تو وہ متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا تھا)۔ اسود نے اس کی بیوی سے شادی کر لی۔ اس کا نام آذار تھا۔

امام طبری نے اپنی کتاب ’’تاریخ الامم والملوک‘‘ (۳۰/ ۲۳۱) میں روایت کی ہے کہ جشیش دیلمی آذار کے پاس گیا اور اس سے کہا: اے چچا زاد، تو جانتی ہے کہ اس آدمی نے تیری قوم کو ذلیل و خوار کیا ہے، خواتین کو رسوا کیا ہے، کیا تو اس کے خلاف ہماری مدد کر سکتی ہے؟ اس نے کہا: کس قسم کی مدد؟ اس نے کہا: اسے نکالنے کی، آذار نے جواب دیا: یا اسے قتل کرنے کی؟ اس نے کہا: ہاں، اسے قتل کرنے کی۔ آذار نے حامی بھر لی۔

البدایۃ والنہایہ (۶/ ۳۱۲) میں ہے کہ وہ عورت نیکوکار تھی اور اللہ اور اس کے رسول پر پختہ ایمان رکھتی تھی۔ اس نے کہا: بخدا، میرے نزدیک اس شخص سے بڑھ کر کوئی مکروہ نہیں۔ وہ نہ اللہ کے حق کا پاس کرتا ہے، نہ حرام سے رکتا ہے۔ جب تم اسے ٹھکانے لگانے کا عزم کر لو تو مجھے بتانا، میں تمھیں طریقہ بتاؤں گی۔ اس عورت نے اپنی قوم کی بے عزتی اور اپنے شوہر کے قتل کا بالکل ذکر نہیں کیا، ذکر کیا تو اللہ کے حقوق اور اس کی ممنوعہ چیزوں کا۔ آذار نے جشیش کو بتایا: کہ وہ بڑا محتاط ہے۔ میرے گھر کے سوا ہر وقت پہرے دار اسے گھیرے ہوئے ہوتے ہیں۔ فلاں فلاں راستے میں پہرے دار نہیں ہوتے تم اسی راستے سے گھر میں نقب لگانا، تمھیں وہاں چراغ بھی ملے گا اور ہتھیار بھی۔

جب جشیش آذار کو اپنے ارادے سے باخبر کرنے کے بعد گھر سے نکل رہا تھا تو اچانک اس کی ملاقات اسود سے ہو گئی، وہ پوچھنے لگا: یہاں کیوں آئے تھے؟ اور ساتھ ساتھ اس کے سر پر ضربیں بھی لگانے لگا، یہاں تک کہ وہ نیچے گر گیا، اندر سے آذار کے چیخنے کی آواز آئی۔ میرا چچا زاد ہے، مجھ سے ملنے آیا تھا، تو نے میرے حق میں کوتاہی کی ہے۔ تو اسود نے کہا: خاموش ہو جاؤ، میں نے تیری خاطر اسے معاف کر دیا۔ جشیش نے سارا واقعہ اپنے ساتھیوں کو کہہ سنایا۔ اتنے میں آذار کا قاصد یہ پیغام لے کر پہنچ گیا کہ اپنے ارادے سے پیچھے نہ ہٹنا، میں نے اسے مطمئن کر دیا ہے۔

جشیش نے اپنی جگہ فیروز دیلمی کو بھیجا، کیونکہ اسے تو اسود پہچان گیا تھا۔ فیروز نے آذار کے ساتھ مل کر لکڑی کے ستون میں نقب لگائی اور اندر داخل ہو گئے اور جہاں نقب لگائی، وہاں اندر سے دروازہ بند کر دیا۔ اسود زور زور سے خراٹے لے رہا تھا۔ فیروز تلوار گھر بھول گیا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ تلوار لینے گیا تو اسے اور آذار، دونوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے آگے بڑھ کر اسود کے سر کو دبوچا اور اسے قتل کر دیا۔ وہ بیل کی طرح ڈکارنے لگا۔ آواز سن کر پہرے دار دروازے پر آئے تو آذار نے اپنے آپ پر قابو پا کر کہا: کوئی بات نہیں، نبی پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ اس خاتون نے فیروز کے ساتھ مل کر وہ کام کیا جو پورا لشکر نہ کر پایا تھا۔ اگر وہ خاتون صاحب فہم و فراست نہ ہوتی تو اسود کے قتل کا خواب پورا نہ ہوتا۔ وہ جرأت مند مومن خاتون تھی جسے اللہ کی تائید حاصل تھی۔

اسود کے قتل کے بعد صنعاء دشمن کے تسلط سے آزاد ہو گیا۔ اللہ نے اسلام اور مسلمانوں کی لاج رکھ لی۔ یمن میں دین اسلام راسخ ہو گیا۔ صحابۂ کرام لوٹ آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خبر ملی تو آپ نے فرمایا: بے شک، اللہ نے اسود عنسی کو قتل کر دیا ہے تمھارے بھائی بہنوں میں سے ایک کے ذریعے سے اور ان لوگوں کے ذریعے سے جو صدق دل سے اسلام لائے۔ اس طرح آپ نے فیروز اور آذار کی تعریف فرمائی۔

حضرت عائشہ کا سیاسی کردار

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف بیان کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دور عثمان کے فتنے کے بارے میں دوسری امہات المومنین اور صحابی خواتین کے موقف پر نظر ڈالی جائے۔ اس سلسلہ میں امام طبری نے (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۳۴۹ میں) سب سے پہلی روایت سیف بن عمر سے بیان کی ہے کہ جب بصرہ، کوفہ اور مصر کی جماعتیں اکٹھی ہو گئیں اور مدینہ سے ابھی تین دن کے فاصلے پر تھیں تو انھوں نے دو آدمیوں کو خیر خبر لانے کے لیے آگے آگے بھیجا۔ انھوں نے ازواج مطہرات، علی، طلحہ اور دوسرے صحابہ سے ملاقات کا ارادہ کیا اور کہا کہ ہم تو اہل بیت کی اقتدا کرتے ہیں بعض عاملوں کے بارے میں خلیفہ سے شکایت کرنے آئے ہیں اور ان سے ملنے کی اجازت طلب کرتے ہیں، ان سب نے ملنے سے انکار کر دیا اور کہا: ’’یہ مشتبہ معاملہ ہے، اس کا برا نتیجہ نکلنے والا ہے‘‘۔ یہ سب امہات المومنین کا مشترکہ موقف تھا۔

حضرت ام حبیبہ کا موقف

سب سے اہم ہے، کیونکہ وہ ان واقعات میں خواتین کے سیاسی کردار پر دلالت کرتا ہے۔ تاریخ طبری (۴: ۳۸۵) میں ہے کہ جب حضرت عثمان کا محاصرہ کر کے ان کا پانی بند کر دیا گیا تو انھوں نے (اپنے پڑوسی) عمرو بن حزم انصاری کے بیٹے کو حضرت علی کی طرف بھیجا کہ ان لوگوں نے ہمارا پانی بند کر دیا ہے۔ ہو سکے تو کچھ پانی بھجوا دو۔ انھوں نے بھجوا دیا۔ یہ پیغام انھوں نے سیدہ عائشہ اور دوسری امہات المومنین کی طرف بھی بھجوایا۔ سب سے پہلے حضرت علی اور ام حبیبہ نے حضرت عثمان کی مدد کی۔ ام حبیبہ نے تو اپنی جان تک کی پروا نہ کی۔ حضرت ام حبیبہ خچر پر سوار ہو کر آئیں،کجاوے میں پانی کا برتن تھا۔ باغیوں نے خچر کے منہ پر ضرب لگائی۔ انھوں نے کہا کہ اس آدمی کے پاس بنو امیہ کی وصیتیں ہیں، مجھے ڈر ہے کہ یتیموں اور بیواؤں کا مال ضائع نہ ہو جائے۔ میں اس بارے میں پوچھنے جا رہی ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ جھوٹ بولتی ہیں۔ انھوں نے ہاتھ بڑھا کر خچر کی رسی کاٹ دی۔ خچر بدکا اور کجاوہ ایک طرف جھک گیا۔ لوگ کجاوے سے چپک گئے اور اسے پکڑ لیا۔ قریب تھا کہ ام المومنین قتل ہو جاتیں، لیکن لوگ ان کو گھر کی طرف لے گئے۔

ابن شبّہ نے ’’تاریخ مدینہ‘‘ (۲/ ۲۶۲) میں روایت کی ہے کہ جب سپاہیوں نے حضرت عثمان کی میت کو دفن کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو ام حبیبہ نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا: اگر تم میرے اور اس شخص کی تدفین کے درمیان حائل ہوئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ستر کھول دوں گی، تو وہ لوگ آپ کے راستے سے ہٹ گئے۔

حضرت صفیہ کا موقف

ابن اثیر نے ’’اسد الغابہ‘‘ (۴/ ۴۷۳) میں کنانہ بن عدی سے روایت کی ہے کہ جب ام المومنین حضرت صفیہ حضرت عثمان کی مدافعت کے لیے نکلیں تو میں نے ان کے خچر کی مہار پکڑی ہوئی تھی۔ اشتر نخعی آپ کے سامنے آیا اور خچر کے منہ پر ضرب لگائی، یہاں تک کہ آپ ایک طرف جھک گئیں اور فرمانے لگیں: مجھے چھوڑ دو، مجھے رسوا نہ کرو۔ امام ذہبی ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ (۲/ ۲۲۷) میں کہتے ہیں کہ حضرت صفیہ نے اپنے گھر سے لے کر حضرت عثمان کے گھر تک لکڑی کا تختہ ڈال دیا جس کے ذریعے سے وہ کھانا اور پانی حضرت عثمان تک پہنچاتی تھیں۔

جو کچھ ام المومنین ام حبیبہ کے ساتھ ہوا تھا، اس سے لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ حضرت عائشہ مدینے سے نکلیں تو مروان بن حکم نے کہا: ام المومنین، آپ کا یہاں قیام اس شخص کے حق میں بہتر ہو گا۔ آپ نے جواب دیا کہ تم چاہتے ہو کہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو ام حبیبہ کے ساتھ ہوا ہے اور میری حفاظت کرنے والا کوئی نہ ہو۔ بخدا مجھے کوئی عار نہیں دلائے گا۔ خدا جانے ان لوگوں کا رویہ کہاں تک پہنچ جائے۔ امہات المومنین نے فتنے سے گریز کرتے ہوئے حج کی تیاری شروع کر دی۔ وہ اس بات کی کوشش کر رہی تھیں کہ کسی نہ کسی طرح حضرت عثمان کو ان فتنہ پردازوں سے نجات دلا دیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ نے محمد بن ابی بکر کو اپنے ساتھ حج پر لے جانے کی کوشش کی، مگر اس نے انکار کر دیا۔ کاتب وحی حنظلہ کو یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ محمد بن ابی بکر حضرت عائشہ کے ساتھ جانے سے انکار کر رہا ہے اور باغیوں کا ساتھ دینے پر اصرار کر رہا ہے۔ وہ کہنے لگے: اے محمد، تمھیں ام المومنین دعوت دے رہی ہیں تو ان کا کہا نہیں مان رہا اور عرب کے بھیڑیے تمھیں ایک ناروا بات کی دعوت دے رہے ہیں اور تو ان کا کہا مان رہا ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: بخدا، اگر میں ان لوگوں کو روکنے کی طاقت رکھتی تو ان کو ضرور روکتی۔

حضرت اسماءؓ بنت عمیس نے اپنے دونوں لڑکوں محمد بن ابی بکر اور محمد بن جعفر کو بلا کر کہا: اللہ سے ڈرو آج ایسا کام نہ کرو جو کل تمھارے لیے حسرت کا باعث بنے۔ وہ دونوں غصے سے بڑبڑاتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے کہ عثمان نے جو ہمارے ساتھ کیا ہے، ہم اسے بھلا نہیں سکتے۔ وہ کہنے لگیں: کیا کیا ہے عثمان نے تمھارے ساتھ؟ اللہ کی اطاعت ہی کو تم پر واجب کیا ہے۔

ام سلیم نے جب حضرت عثمان کے قتل کی خبر سنی تو فرمایا:

أما أنہ لم یحلبوا بعدہ إلا دمًا.’’یہ لوگ عثمان کے بعد دودھ کی جگہ صرف خون دوہیں گے۔‘‘

اشتر کی بیوی حضرت علی کے پاس آکر کہنے لگیں: امیر المومنین، میں نے اللہ کے دشمن سے ایک بات سنی ہے جو میں سینے میں نہیں رکھ سکتی۔ وہ کہتا ہے کہ کل ہم نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر تھا اور ہم نے ایک ایسے شخص کو حاکم بنایا ہے جو اللہ کی مخلوق میں سب سے بدتر ہے۔

عام مسلمان خواتین کا بھی یہی موقف تھا۔ یہ موقف اعتدال پر مبنی ہے اور اس میں تعصب کا شائبہ تک نہیں، لیکن سب سے نمایاں موقف جس پر تاریخ نے روشنی ڈالی ہے، ام المومنین سیدہ عائشہ کا موقف تھا۔

حضرت عائشہ کے نزدیک حضرت عثمان کا مرتبہ و مقام

حضرت عثمان کے فضائل و مناقب کے بارے میں حضرت عائشہؓ کی مرویات سے پتا چلتا ہے کہ ان کے یہاں خلیفۂ سوم کا مرتبہ و مقام کیا تھا۔

صحیح مسلم (کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل عثمان) میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی رانیں یا پنڈلیاں ننگی تھیں ..... جب حضرت عثمان اندر داخل ہوئے تو آپؐ اپنے کپڑے درست کر کے بیٹھ گئے میں نے پوچھا کہ آپ نے ابوبکرؓ اور عمرؓ کے آنے پر ایسا نہیں کیا؟ تو آپ نے فرمایا ’’کیا میں اس سے شرم نہ کھاؤں جس سے فرشتے بھی شرم کھاتے ہیں۔‘‘

کنز العمال، رقم ۳۲۸۴۱ اور ابن کثیر نے البدایۃ والنہایہ (۷/۲۱۲) میں حضرت عائشہؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘

کنز العمال، رقم۳۲۷۹۱ اور شوکانی نے ’’درالسحابۃ فی مناقب القرابۃ و الصحابہ‘‘ (۱۸۲) میں حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول نے کہا: ’’بے شک، اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی عثمانؓ سے کر دوں۔‘‘

امام احمد نے ’’مسند‘‘ مسندعائشہ میں روایت کی ہے کہ فاطمہ بنت عبدالرحمن کی ماں نے حضرت عائشہ کے پاس ان کے چچا کو بھیجا کہ ان کو میرا سلام کہنا اور عثمان کے بارے میں پوچھنا، کیونکہ لوگ ان کو گالیاں دیتے ہیں تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا: جو ان پر لعنت بھیجتا ہے، اس پر خدا کی لعنت ہو۔ بخدا، عثمان اللہ کے رسول کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول کی پیٹھ میری طرف تھی اور وہ کہہ رہے تھے، اے عثیم (پیار سے عثمان کو عثیم کہا)، لکھو۔ حضرت عائشہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ مقام اس کو عطا کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو عزیز ہو۔

امام ترمذی اور ابن ماجہ نے لقمان بن بشیر کے واسطہ سے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عثمان، اللہ تمھیں خلافت کی قمیص پہنائے گا، اگر لوگ چاہیں کہ آپ اسے اتار دیں تو مت اتارنا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ منافقوں کی خواہش پر اسے اس وقت تک نہ اتارنا، جب تک تمھاری ملاقات مجھ سے نہ ہو جائے۔ ابن ماجہ (۱/ ۴۱ میں) نے روایت کی ہے کہ حضرت عثمان نے قتل ہونے سے پہلے کہا: ’’اللہ کے رسول نے مجھ سے عہد لیا ہے اور میں ان کی طرف جا رہا ہوں۔‘‘

جس عائشہ سے یہ احادیث مروی ہیں، وہ حضرت عثمان کے خلاف معاندانہ موقف کیسے اختیار کر سکتی ہیں؟

حضرت عثمان کے قتل پر حضرت عائشہ کا ردعمل

جب لوگ مدینے سے بھاگ کر مکہ میں حضرت عائشہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے حالات معلوم کیے۔ بتانے والوں نے بتایا کہ حضرت عثما نقتل ہو گئے ہیں اور کوئی امیر بننے کے لیے تیار نہیں، تو انھوں نے فرمایا: وہ چالاک ہیں، کیونکہ اصلاح کے نام پر تمھارے درمیان جو لعنت ملامت ہو رہی تھی، اس کا انجام یہی ہونا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ کہے بغیر وہ مکہ لوٹ گئیں۔ مسجد حرام کے دروازے کے پاس اتر کر حجر اسود کا قصد کیا اور اس میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔ لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے تو انھوں نے فرمایا: اے لوگو، مختلف شہروں اور دریاؤں کے بلوائی اور اہل مدینہ کے غلام اکٹھے ہوئے۔ انھوں نے آج کے مقتول اور کل کے عقل مند پر نکتہ چینی شروع کر دی۔ انھوں نے نوعمر لڑکوں کو استعمال کیا۔ اس سے پہلے بھی وہ انھیں استعمال کر چکے تھے۔ قابل حفاظت مقامات نے ان کو حفاظت مہیا کی۔ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں، ان سے کیا اصلاح ہو سکتی تھی۔ عثمان ان کی بات مان کر اصلاح کی غرض سے بعض باتوں سے رکے رہے۔ جب بلوائیوں کے پاس کوئی حجت اور کوئی عذر نہ رہا تو وہ بے چین ہو کر سرکشی پر اتر آئے۔ ان کے قول و فعل میں مطابقت نہ رہی۔ انھوں نے حرام خون بہایا۔ حرم نبوی اور حرمت والے مہینے کی بے حرمتی کی اور حرام طریقے سے مال لوٹا۔ بخدا، عثمان کی ایک انگلی سطح زمین پر پھیلے ہوئے ان جیسے لوگوں سے بہتر ہے۔ پس ان کے خلاف جمع ہو کر ان سے نجات حاصل کرو تاکہ دوسرے لوگوں کو ان سے عبرت حاصل ہو اور ان کے بعد آنے والے منتشر ہو جائیں۔ بخدا، اگر انھوں نے کسی قصور کی وجہ سے اس پر زیادتی کی ہے تو وہ اس قصور سے اس طرح صاف ہو گئے ہیں، جس طرح سونا کھوٹ سے صاف ہوتا ہے اور کپڑا میل کچیل سے، کیونکہ انھوں نے انھیں ایسے نچوڑا ہے، جیسے کپڑا پانی میں نچوڑا جاتا ہے۔ (تاریخ الامم و الموک۴/ ۴۴۸۔۴۴۹)۔

طبری کی اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ وہ معاملات پر کس قدر دقت نظر سے غور کرتی تھیں۔ قتل کی خبر سننے کے بعد فوری طور پر ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے: ’’وہ چالاک لوگ ہیں‘‘ یعنی اگر یہ سوچا سمجھا منصوبہ نہ ہوتا تو یہ حادثہ رونما نہ ہوتا۔ اور یہ کہ بعض صحابہ بلوائیوں سے خبریں سن کر ان پر یقین کرتے تھے اور حضرت عثمان پر بھری مجلسوں میں جو نکتہ چینی کرتے تھے، اس کا انجام تو یہی ہونا تھا۔ یہ الفاظ ان کی سمجھ بوجھ اور دانائی پر دلالت کرتے ہیں۔ جس طریقے سے بلوائی ابن سبا کی انگیخت پر علی الاعلان خلیفۂ رسول پر لعنت ملامت کرتے تھے، اس کی مثال آج تک تاریخ اسلام میں نہیں ملتی۔

قتل عثمان پر حضرت عائشہ کا ردعمل وہی تھا جو سب صحابہ کا تھا۔ قاتلین عثمان کے بارے میں سب کے جذبات ایک جیسے تھے۔ روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ سمجھتی تھیں کہ حضرت عثمان نے بلوائیوں کی اصلاح میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، یہاں تک کہ ان کے پاس کوئی حجت اور کوئی عذر باقی نہ رہا۔ حضرت عثمان ان کے نزدیک بے گناہ تھے اور ان کی ایک انگلی روئے زمین پر ان جیسے بسنے والوں سے بہتر تھی۔

اس لیے انھوں نے حضرت عثمان کی شہادت کا انتقام لینے کے معاملہ سے لمحہ بھر بھی توقف نہ کیا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان محققین کی راے درست نہیں جو سمجھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ، طلحہؓ، اور زبیرؓ اور دوسرے صحابہ حضرت عثمان کے بارے میں باتیں بناتے تھے، وہ ان کا دفاع نہ کر سکے اور وہ قتل ہو گئے تو ان کو اپنی کوتاہی پر ندامت ہوئی۔

مخالف روایات اور ان کا تجزیہ

’’تاریخ طبری‘‘ میں بعض ایسی روایات ہیں جو حضرت عثمان اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے درمیان تلخ تعلقات پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ روایات عام طور پر ایسی روایات ہیں جو امام طبری نے واقعات کو بیان کرنے کے بعد روایت کی ہیں۔ امام صاحب کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مستند راویوں کی روایات کو غیر مستند راویوں کی روایات سے پہلے نقل کرتے ہیں۔

پہلی روایت ’’تاریخ طبری‘‘ میں یوں بیان ہوئی ہے:

’’ مجھے علی بن احمد بن الحسن العجلی نے لکھا کہ حسین بن نصر عطار نے کہا کہ مجھے سیف بن عمر نے حدیث سنائی کہ سیدہ عائشہ جب مکہ سے لوٹتے ہوئے مقام سرف تک پہنچیں تو ان کو عبد بن ام کلاب ملا۔ حضرت عائشہ نے اس سے پوچھا: حالات کیا ہیں؟ اس نے کہا: انھوں نے عثمان کو قتل کر دیا اور آٹھ روز تک ٹھہرے رہے، انھوں نے پوچھا: اس کے بعد انھوں نے کیا کیا؟ اس نے کہا: اہل مدینہ نے مدینہ پر قبضہ کر لیا اور معاملات بہتر طریقے سے چل پڑے۔ انھوں نے مل کر حضرت علی کو خلیفہ بنا لیا۔ حضرت عائشہ کہنے لگیں: مجھے واپس لے چلو۔ مجھے واپس لے چلو۔ بخدا، آسمان زمین پر الٹ پڑے اگر خلافت تمھارے ساتھی کو ملی ہے۔ بس وہ یہ کہتی ہوئیں مکہ لوٹ گئیں۔ بخدا، عثمان مظلوم قتل ہوا۔ بخدا، میں اس کے خون کے بدلے کا مطالبہ کروں گی۔ ابن ام کلاب نے ان سے کہا: وہ کیوں؟ بخدا، آپ نے سب سے پہلے ان کے خلاف ترغیب دلائی۔ آپ کہا کرتی تھیں اس بے وقوف بوڑھے کو قتل کر دو، اس نے کفر کیا ہے۔ انھوں نے کہا: انھوں نے اسے توبہ کی ترغیب دی، پھر قتل کیا۔ میں نے بھی کہا اور انھوں نے بھی کہا، لیکن میرا بعد والا قول پہلے قول سے بہتر ہے۔ تو ابن ام کلاب نے ان سے کہا:


فمنک البداء ومنک الغیر   ومنک الریاح ومنک المطر
وأنت أمرت بقتل الامام   وقلت لنا إنہ قد کفر
فھبنا أطعناک فی قتلہ   وقاتلہ عندنا من أمر
’’آپ ہی نے آغاز کیا اور خون بہا بھی آپ مانگ رہی ہیں۔ ہوائیں بھی آپ کی جانب سے آئی ہیں اور بارش بھی۔ آپ نے امام کو قتل کرنے کا حکم دیا اور آپ ہی نے ہم سے کہا کہ تحقیق اس نے کفر کیا ہے۔فرض کرو کہ اس کے قتل کے لیے ہم نے آپ کا کہا مانا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا قاتل وہی ہے جس نے حکم دیا ہے۔‘‘
پھر حضرت عائشہ مکہ لوٹ گئیں۔ مسجد کے دروازے پر آپ نے نزول کیا۔ حجر اسود کی طرف گئیں۔ اپنا چہرہ اس میں چھپا لیا۔ لوگ آپ کے پاس اکٹھے ہو گئے۔ آپ نے فرمایا عثمان مظلوم قتل ہوئے ہیں بخدا میں ان کے خون کے بدلہ کا مطالبہ کروں گی۔‘‘

یہ روایت ’’تاریخ الامم و الملوک‘‘ (۴/ ۴۵۹) اور الامامۃ والسیاسہ ( جو ابن قتیبہ کی طرف منسوب ہے، ۱/ ۵۱) میں بیان ہوئی ہے۔

روایت کی سند کا تجزیہ

طبری نے یہ روایت دو واسطوں سے روایت کی ہے۔ نصر بن مزاحم عطار کے سوا کسی راوی کے حال کا پتا نہیں چلتا۔ نصر بن مزاحم عطار اسماء الرجال کی کتابوں میں مجروح ہے۔ محدثین نے اسے رافضی، شیعہ، منکر اور متروک کہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ’’لسان المیزان‘‘ (۶/ ۲۰۴) میں لکھا ہے کہ ابو خیثمہ کا قول ہے کہ وہ جھوٹا ہے، دارقطنی کا قول ہے: وہ ضعیف ہے۔ عجلی کا قول ہے: وہ غلو کرنے والا رافضی اور غیر ثقہ ہے۔ خلیلی کا قول ہے: حفاظ نے اسے بہت ہی ضعیف قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ذہبی کی ’’میزان الاعتدال‘‘ (۷/۲۴) اور ’’المغنی فی الفعفاء‘‘ (۲/ ۶۹۶) کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس واسطے میں سیف بن عمر بھی مذکور ہے جس کی روایت کو طبری نے اس روایت سے پہلے بیان کیا ہے اور اس بحث کے آغاز میں وہ پیش کی جا چکی ہے۔ ان دونوں روایات میں اس بارے میں تضاد ہے کہ حضرت عائشہ نے لوگوں کو فساد پر ابھارا۔ پھر حضرت علی کی خلافت کے بارے میں بھی تضاد پایا جا تا ہے۔

دوسرے واسطے میں عمر بن سعد ہے جو اس لشکر کا سردار تھا جس نے امام حسین کو قتل کیا۔ محدثین نے اس پر حدیث وضع کرنے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ وہ متروک ہے۔ اس کے بارے میں ذہبی کی ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ (۴/ ۳۴۹)، بخاری کی ’’التاریخ الکبیر‘‘ (۶/ ۱۵۸) اور ابن حجر کی ’’تہذیب التہذیب‘‘ (۳/ ۸۳) کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک اور راوی اسد بن عبداللہ، ابن حجر (تقریب التہذیب (۸۸۱)) کی راے میں حدیث میں نرم ہے اور بخاری کی راے میں اس کی حدیث کی متابعت نہیں ہوتی۔ اس کی وفات ۲۰ھ میں ہوئی، وہ ۵۳ھ میں ہونے والے واقعہ کی روایت کیسے کر سکتا ہے؟ چنانچہ یہ روایت سند کے اعتبار سے غیر مقبول ہے۔

متن روایت کا تجزیہ

پہلی روایت (جسے سیف بن عمر نے اپنے شیوخ سے روایت کیا ہے) اور روایت زیربحث کا موضوع ایک ہی ہے، مگر حضرت عائشہ پر فتنہ انگیزی کی تہمت اور حضرت علی کی خلافت پر راے کے بارے میں دونوں روایات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پہلی روایت میں وضاحت ہے کہ فسادیوں کا مدینہ پر غلبہ ہو گیا تھا، جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ معاملات ان کے درمیان بہتر طریقے سے طے ہو گئے۔

پھر جس طریقے سے ام المومنین سے گفتگو کی گئی ہے، وہ ان کے مرتبہ و مقام کے پیش نظر موزوں نہیں۔ راوی کا لب و لہجہ گستاخانہ ہے جس سے یہ روایت مشکوک ہو جاتی ہے۔ اشعار کا اسلوب بھی اس زمانے کے اسلوب سے لگا نہیں کھاتا جس میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب حضرت عائشہ کی ذات پر اتنی بڑی تہمت لگائی جاتی ہے تو وہ اس کی نفی نہیں کرتیں، بلکہ کہتی ہیں کہ میرا آخری قول پہلے سے بہتر ہے۔ گویا وہ اس تہمت کو قبول کر رہی ہیں جس کے ہوتے ہوئے کسی کا ایمان بھی سلامت نہیں رہتا۔ یہ بات سیدہ عائشہ کی فہم و فراست اور فقہی احکام میں ان کی مہارت کے منافی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے ’’البدایۃ والنہایہ‘‘ (۷/ ۱۹۵) میں صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ نے ان تہمتوں سے انکار کیا ہے۔ حضرت عائشہ نے جب یہ کہا: ’’تم نے اسے ایسے چھوڑا جیسے میل کچیل سے صاف کپڑا، پھر تم نے اسے قتل کر دیا تو مسروق نے کہا: یہ آپ کا کیا دھرا ہے۔ آپ نے لوگوں کو لکھ کر خروج کی دعوت دی تو آپ نے کہا: اس ذات کی قسم مومن جس پر ایمان لاتے ہیں اور کافر جس کا انکار کرتے ہیں، میں نے آج تک ان کو کچھ بھی نہیں لکھا۔ بلوائی جھوٹی تحریریں گھڑ کر ان کو صحابہ اور امہات المومنین کی طرف منسوب کر دیتے تھے۔ یہ تحریریں فسطاط کے مقام پر جامع عمرو بن العاص میں برملا پڑھی جاتی تھیں جس میں حضرت عثمان کے بارے میں شکوے ہوتے تھے۔ یہ ان کا بہت بڑا ہتھیار تھا، جس کو وہ اپنی سازش کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

چنانچہ یہ روایت سند اور متن، دونوں اعتبار سے ساقط ہے۔

طبری کی دوسری روایت

طبری نے محمد بن عمر الواقدی کے واسطے سے روایت کی کہ ابن عباس نے کہا کہ مجھے حضرت عثمان نے کہا کہ حج کا امیر بن کر جاؤ اور ایک تحریر حاجیوں کے لیے دی کہ ان سے کہو کہ میرا حق ان سے لیں جنھوں نے میرا محاصرہ کیا ہوا ہے۔

چنانچہ ابن عباس گئے اور صُلصُل کے مقام پر ان کی ملاقات حضرت عائشہ سے ہوئی، وہ کہنے لگیں: اے ابن عباس، میں تجھے اللہ کا واسطہ دیتی ہوں (بے شک، تجھے چرب زبان عطا ہوئی ہے) کہ اس آدمی کا ساتھ چھوڑ دو اور اس کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں شک ڈالو، بے شک ان کی فراست نکھر چکی ہے اور واضح ہو چکی ہے او ران کے لیے مینار نصب ہو چکا ہے۔ لوگ مختلف شہروں سے ایسے کام کے لیے جمع ہوئے ہیں جس کا ہونا قرار پا چکا ہے۔ میرا خیال ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ بیت المال کے نگران ہیں اور خزانوں کی چابیاں ان کے پاس ہیں، اگر وہ والی بن جائیں تو وہ اپنے چچا زاد ابوبکر کے طریقے پر چلیں گے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اماں جان، اگر اس آدمی (عثمان) پر کوئی حادثہ گزرا تو لوگ ڈر کر ہمارے ساتھی (حضرت علی) کی پناہ لیں گے۔ حضرت عائشہ نے کہا: تجھ سے دوری ہو، میں نہ تو تم پر غلبہ پانا چاہتی ہوں، نہ تم سے جھگڑنا چاہتی ہوں (تاریخ الامم و الملوک ۴/ ۴۰۷) ۔

سند کا تجزیہ

واقدی اس روایت میں منفرد ہے اور اس کی منفرد روایت قابل حجت نہیں۔ دوسرے راوی ابن ابی سرہ پر تہمت ہے کہ وہ حدیثیں وضع کرتا تھا۔

متن کا تجزیہ

ابن عباس خلیفۂ وقت کی طرف سے حج کے امیر تھے۔ کیا تصور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہ جیسی دانا خاتون ان سے اس قسم کا مطالبہ کر سکتی تھیں۔ ایک طرف تو وہ ابن عباس سے مطالبہ کرتی ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں شک ڈالو اور دوسری طرف یقین سے کہہ رہی ہیں کہ لوگوں پر واضح ہو چکا ہے کہ اس معاملہ کا انجام کیا ہو گا۔ مینار نصب ہو چکا ہے۔ جب سب کچھ طے ہو گیا تھا تو پھر شک ڈالنا بے سود تھا؟

حضرت عائشہ طلحہ کو خلیفہ بنانا چاہتی تھیں، یہ بات قطعی غلط ہے۔ صحیح روایات اس بات کی نفی کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ اور طلحہ حضرت علی کے سوا کسی اور کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ ابن سیرین سے روایت ہے کہ حضرت علی نے طلحہ کو خلافت پیش کی، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ تاریخ کی کتابوں میں حضرت عائشہ کے بارے میں جو روایات سیف بن عمر سے مروی ہیں، ان میں اس قسم کا کوئی تعارض نہیں اور نہ ان روایات میں تعارض ہے جو صحاح ستہ میں مروی ہیں۔ اس کے علاوہ جو الفاظ روایت میں حضرت عائشہ سے منسوب ہیں، وہ ان کے شایان شان نہیں۔

طبری کی ان روایات کے علاوہ دوسری غیر مستند روایات وہ ہیں جو تاریخ یعقوبی، تاریخ مسعودی اور بلاذری کی ’’انساب الاشراف‘‘ جیسی غیر معتبر کتاب میں بیان ہوئی ہیں یا جن کا تذکرہ الأغانی اور ’’العقرا الفرید‘‘ جیسی اول کتابوں میں ملتا ہے۔

تاریخ یعقوبی کی روایت

تاریخ یعقوبی (۲/ ۱۸۵) میں حضرت عثمان اور حضرت عائشہ کے درمیان اختلاف کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عثمان نے حضرت عائشہ کا وظیفہ جو حضرت عمر نے مقرر کیا تھا، کم کر دیا۔ ایک روز حضرت عثمان خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت عائشہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص نکال کر بلند آواز سے کہا: اے مسلمانو، یہ رہی رسول اللہ کی قمیص جو ابھی بوسیدہ نہیں ہوئی، جبکہ عثمان نے ان کی سنت کو بوسیدہ کر دیا ہے۔ اس پر حضرت عثمان نے کہا کہ اللہ مجھے ان عورتوں کے مکر سے بچا۔ بے شک، ان کا مکر بہت بڑا ہے۔

یعقوبی نے یہ روایت بغیر کسی سند کے بیان کی ہے۔ اس روایت کا مقابلہ طبری (۳/ ۶۱۴) کی روایت سے کریں تو بات صاف ہو جائے گی۔ ’’تاریخ طبری‘‘ میں ہے کہ حضرت عمر نے تمام امہات المومنین کے لیے سوائے ملک یمین (لونڈیوں) کے دس دس ہزار مقرر کیے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے کہا کہ اللہ کے رسول تقسیم میں ہمیں لونڈیوں پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔ ہمارے درمیان مساوات کرو۔ چنانچہ حضرت عمر نے ایسا ہی کیا اور حضرت عائشہ کے لیے رسول کی محبت کی خاطر دو ہزار بڑھا دیے، مگر آپ نے یہ زیادہ رقم قبول نہ کی۔ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عائشہ نے وظیفے میں کمی کے باعث حضرت عثمان پر سنت کی مخالفت کی تہمت لگائی ہو گی، پھر کون سی سنت؟ عہد رسالت میں تو اتنا مال بھی نہ تھا کہ حضورؐ اپنی بیویوں کے لیے وظیفہ مقرر کرتے اور اگر مال ہوتا تو پھر بھی آپ عدل کرتے۔ حضرت عثمان پر وظیفہ کم کرنے کی تہمت سخاوت کی اس صفت کے منافی ہے جس میں وہ مشہور تھے۔

امام بخاری نے اپنی تاریخ میں حسن بصری سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت عثمان کا وہ زمانہ پایا ہے جب لوگ ان کی عیب جوئی کرتے تھے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے جب کسی دن حضرت عثمان نے مسلمانوں میں صدقات و خیرات، گھی اور شہد نہ بانٹے ہوں۔ ان سے کہا جاتا، اپنا رزق لے لو اور وہ بڑھ کر لیتے تھے۔ ایسے شخص سے توقع کی جا سکتی ہے کہ انھوں نے ام المومنین کا وظیفہ کم کر دیا ہو گا۔

’’انساب الاشراف‘‘ کی دو روایات

بیت المال میں کچھ زیور تھا جو حضرت عثمان نے اپنی کسی بیوی کو پہنا دیا۔ حضرت عمار بن یاسر نے اختلاف کیا۔ حضرت عثمان نے ان کو مارا اور گالیاں دیں، اس پر حضرت عائشہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال، ایک جوتا اور ایک قمیص نکالی اور کہا: تم نے کس قدر سرعت کے ساتھ اپنے نبیؐ کی سنت کو ترک کر دیا ہے۔ یہ رہا ان کا بال، ان کا جوتا اور ان کا کپڑا جو ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے۔ اس پر حضرت عثمان کو سخت غصہ آیا۔ ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ مسجد میں اضطراب سا پیدا ہو گیا اور لوگ زور زور سے بولنے لگے (۵/ ۴۹)۔ حضرت عثمان اور حضرت عمار بن یاسر کے درمیان اختلاف کا سبب مختلف روایات میں مختلف ہے۔ امام طبری، مسعودی اور بلاذری کی اس روایت کے سوا دور دور تک اس روایت میں حضرت عائشہ کا نام نہیں ملتا۔ طبری کی روایت کے سوا یہ سب روایات موضوع ہیں، کیونکہ جب حضرت عثمان کے خلاف مختلف مقامات سے خطوط آنے لگے تو آپ نے جن لوگوں کو تحقیق کے لیے بھیجا، ان میں حضرت عمار بن یاسر بھی شامل تھے اور مصر میں فسادیوں نے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔

بلاذری نے ’’انساب الاشراف‘‘ میں ایک اور روایت نقل کی ہے کہ حضرت عثمان کا حضرت عائشہ سے اختلاف اس بات پر تھا کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو کوفہ کے بیت المال سے ہٹا کر اپنے ماں جائے بھائی ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو مقرر کر دیا تھا (۵/ ۳۶)۔ یہ عجیب و غریب روایت ہے۔ جب حضرت عثمان کو خلافت ملی تو اسی ابن مسعود نے کہا تھا: ’’جب حضرت عمر کی وفات ہوئی، ہم نے اپنے میں سے بہتر شخص کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ہم نے کوئی کوتاہی نہیں کی‘‘۔ ایسے شخص سے متعلق حضرت عثمان کا دویبۃ سوء (رینگنے والا حقیر اور برا جانور) کہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب حضرت عبداللہ بن مسعود سے ان کا قرآن لے کر جلا دیا گیا تو انھوں نے برا منایا اور کہا کہ وہ زید بن ثابت سے پہلے مسلمان ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اپنے اپنے مصحف پکڑ لو۔ حضرت عثمان نے ان کو دوسرے صحابہ کی پیروی کی دعوت دی تو انھوں نے فوراً کہا مانا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ان کو عہدے سے ہٹایا گیا تو انھوں نے کہا نہ مانا ہو گا۔

اس روایت میں بھی پہلی روایت کی طرح خواہ مخواہ حضرت عائشہ کا نام گھسیٹ دیا گیا ہے۔

’’کتاب الاغانی‘‘ کی روایت

’’کتاب الاغانی‘‘ (۴/ ۱۸۰) میں روایت ہے کہ جب اہل کوفہ نے حضرت عثمان سے ولید بن عقبہ کے بارے میں شکایت کی تو ولید نے ان کو ڈرایا دھمکایا تو انھوں نے سیدہ عائشہ کے گھر میں پناہ لی۔ صبح کے وقت حضرت عثمان نے ان کے حجرہ سے ان کی آواز سنی۔ وہ ان کے بارے میں درشت الفاظ استعمال کر رہی تھیں۔ تو حضرت عثمان نے کہا: کیا اہل عراق کے خارجیوں اور فاسقوں کو عائشہ کے گھر کے علاوہ اور کوئی گھر نہیں ملا؟ حضرت عائشہ نے ان کی بات سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جوتا اٹھا کے کہا: تم نے اس جوتے والے اللہ کے رسول کی سنت کو ترک کر دیا ہے۔ لوگوں کو پتا چلا تو وہ پے در پے مسجد کی طرف آنے لگے اور ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا۔ ’’کتاب الاغانی‘‘ کے مصنف ابوالفرج اصفہانی پر شیعہ ہونے کی تہمت ہے۔

یہ چاروں روایات ایک ہی منظر پیش کرتی ہیں، جس میں حضرت عائشہ کبھی قمیص بلند کرتی ہیں، کبھی جوتا اور کبھی بال۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک ہاتھ کام کر رہا ہے جو ان کو اس فتنے میں ملوث کرنا چاہتا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ حضرت عائشہ جیسی عالم فاضل زیرک و دانا خاتون مسلمانوں کے خلیفے کی اس طرح توہین کریں اور ان کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کریں۔

خلاصۂ بحث

مستند اور صحیح روایات کے مقابلے میں ان ضعیف اور موضوع روایات کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کو اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے ایک نئی تاریخ کی تخلیق کر کے مسلمانوں کے دین میں خلفشار پیدا کر دیا ہے۔ اگر ان روایات کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو صحابہ کی عدالت خطرے میں پڑ جاتی ہے جس کی گواہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔

آخر میں ہم وہی کہتے ہیں جو امام نووی (صحیح مسلم، شرح النووی ۵/ ۲۴۲) نے کہا ہے کہ ’’حضرت عثمان مظلوم قتل ہوئے ہیں، فاسقوں نے انھیں قتل کیا۔ کیوں قتل کیا؟ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوا جو قتل کا متقاضی ہو۔ ان کے قتل میں کوئی صحابی شریک نہیں۔ ان کو تو صرف وحشی اور فسادی کمینے اور گھٹیا لوگوں نے قتل کیا جو جتھے بنا کر مصر سے آئے تھے۔ موجود صحابہ ان کا دفاع نہ کر سکے تو انھوں نے ان کا محاصرہ کر کے قتل کر دیا۔‘‘

اس بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ کا موقف حضرت عثمان کی زندگی اور ان کے قتل کے دوران بڑا واضح اور صاف تھا۔

قتل عثمانؓ کے بعد کے حالات

حضرت عثمانؓ کے قتل کے بعد مدینہ میں افراتفری کا عالم تھا۔ مدینہ پر بلوائیوں کا قبضہ تھا اور انھی کا حکم چلتا تھا۔ مسلمان کئی روز تک امام کے بغیر رہے۔ نماز کی امامت سرکشوں کا قائد عبدالرحمن غافقی کرتا تھا۔ ایسے حالات میں مسلمان نہ خلیفہ کا انتخاب کر سکتے تھے، نہ بیعت کا مطالبہ۔ بلوائی خلیفہ کی تلاش کر رہے تھے۔ عام مسلمان خلیفہ کے ناحق قتل پر غصے میں تھے اور وہ اس معاملہ میں بلوائیوں کی دخل اندازی کو بھی ظلم سمجھتے تھے۔ خلیفہ کا انتخاب اہل راے کا حق تھا۔ روایات اس بارے میں متفق ہیں کہ حضرت علی، طلحہ اور زبیر تینوں نے خلیفہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کام کے لیے جو بھی ان کے پاس آیا، انھوں نے اسے ڈانٹ دیا۔ انکار کے بعد بلوائیوں نے دو دن کی مہلت دی اور کہا کہ تیسرے دن ان تینوں کو قتل کر دیں گے (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۴۳۴)۔ بلوائی خلیفہ کا انتخاب کر کے لوگوں کے غیظ و غضب سے بچنا چاہتے تھے۔ یہ حالات تھے کہ لوگوں نے حضرت علیؓ کے پاس آکر ان کو خلیفہ بننے کی دعوت دی تاکہ مدینہ مزید فتنہ و فساد سے بچ جائے۔ لوگوں کے اصرار پر حضرت علیؓ راضی ہوئے۔ لوگوں نے ان سے کہا: ہم آپ کو اللہ کا واسطہ دیتے ہیں، کیا آپ کو وہ نظر نہیں آرہا جو ہم دیکھ رہے ہیں؟ کیا آپ فتنہ نہیں دیکھ رہے؟ کیا آپ اسلام کی بھلائی نہیں چاہتے؟ کیا آپ کو اللہ کا خوف نہیں؟ لوگ یہ باتیں مسلسل کہتے رہے، یہاں تک کہ آپ نے ان کی بات مان لی۔ جس طرح حضرت علیؓ کو خلافت پر مجبور کیا گیا، بعد میں اسی طرح حضرت طلحہ اور زبیر کو اشتر نخعی اور حُکیم بن حبلہ نے تلوار گردن پر رکھ کر بیعت کے لیے مجبور کیا۔ اس لیے نہیں کہ وہ بیعت کرنا نہیں چاہتے تھے، بلکہ اس لیے کہ اوباش شرفا پر حکم چلا رہے تھے۔ طبری (۴/ ۴۳۴) کی صحیح روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حالات نارمل ہوئے تو حضرت علیؓ نے حضرت طلحہؓ سے کہا: ہاتھ آگے بڑھائو میں تمھاری بیعت کرتا ہوں۔ حضرت طلحہ نے کہا کہ آپ زیادہ حق دار ہیں، اپنا ہاتھ بڑھائیں۔ حضرت علی نے ہاتھ بڑھایا اور حضرت طلحہ نے بیعت کی۔ باقی مسلمانوں کو بھی بیعت پر مجبور کیا گیا تو انھوں نے ان الفاظ کے ساتھ بیعت کی کہ ہم اس لیے بیعت کر رہے ہیں کہ اللہ کی کتاب کو قریب و بعید اور ذلیل و عزیز پر نافذ کیا جائے گا۔ گویا وہ حضرت عثمان کے قاتلوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ ان پر اللہ کی حدود قائم کی جائیں گی۔

اقامت حدود کے بارے میں حضرت علی، طلحہ اور زبیر کے درمیان مکالمہ

حضرت علی، طلحہ، زبیر اور چند صحابہ کا اجتماع ہوا، تو دوسروں نے حضرت علی سے کہا کہ ہم نے حد نافذ کرنے کی شرط پر بیعت کی ہے۔ حضرت علی نے کہا: بھائیو، جو تم جانتے ہو، میں اس سے ناواقف نہیں، لیکن میں ان لوگوں سے کیسے نمٹوں جو ہم پر حکم چلا رہے ہیں اور ان کے ساتھ تمھارے غلاموں اور بدوؤں نے بھی اودھم مچایا ہوا ہے؟ کیا میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو، اس پر قدرت رکھتا ہوں، انھوں نے کہا: بخدا، ہماری بھی وہی راے ہے جو تمھاری راے ہے۔

لوگ فوراً حد نافذ کرنا چاہتے تھے۔ حضرت علی نے نکل کر لوگوں سے کہا: بدوؤں کو اپنے یہاں سے نکال دو اور بدوؤں سے کہا: اپنی اپنی چراگاہوں کی طرف لوٹ جائو۔ بلوائیوں نے سمجھا کہ ان کے اکٹھ میں تفرقہ ڈالا جا رہا ہے۔ چنانچہ انھوں نے بدوؤں کو بھڑکایا علی کے خلاف بلوہ ہو گیا اور وہ اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما بھی اندر داخل ہوئے تو حضرت علی نے کہا کہ قاتل کو قتل کر کے بدلہ لے لو انھوں نے کہا کہ قاتل خلط ملط ہو گیا ہے۔ حضرت علی نے کہا کہ آج کے بعد وہ اور زیادہ خلط ملط ہو جائے گا۔

حضرت علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ اور دیگر صحابہ اس بات پر متفق تھے کہ جن لوگوں نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالا ہے اور خلیفہ کو ناحق قتل کیا ہے، ان پر حد نافذ ہونی چاہیے تاکہ دین اسلام کو کوئی ضرر نہ پہنچے، لیکن کسی میں فتنہ پردازوں سے لڑنے کی طاقت نہیں تھی ، کیونکہ وہ غلاموں اور بلوائیوں کے ساتھ مل کر مدینہ پر غالب آ چکے تھے۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر حضرت علیؓ حد کو قائم کرنے کا واضح پروگرام صحابہ کے سامنے پیش کر دیتے تو ان کو پتا چل جاتا کہ وہ اس بارے میں سنجیدگی سے کوشش کر رہے ہیں، مگر حضرت علیؓ ان سے یہی کہتے رہے: دیکھو اور انتظار کرو اور معاملات لشٹم پشٹم اسی طرح چلنے دیتے۔ اس دوران حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ نے ایسا خیال پیش کیا کہ اگر اس پر عمل درآمد کیا جاتا تو ممکن تھا کہ حضرت علی کی پوزیشن بلوائیوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہو جاتی۔ ان دونوں نے کہا کہ ہم بصرہ اور کوفہ جاتے ہیں اور اچانک آپ کے پاس اپنے سرداروں کے ساتھ حاضر ہو جائیں گے۔ جواب میں حضرت علیؓ نے کہا کہ ہیں اس بارے میں سوچوں گا (تاریخ الامم و الملوک ۴/ ۴۳۸)۔ 

صحابہ دیکھ رہے تھے کہ حضرت عثمان کو قتل ہوئے چند ماہ گزر گئے ہیں، مگر حضرت علی حد نافذ نہیں کر پائے۔ ان کو گمان گزرا کہ حضرت علیؓ کو ان کی راے کی کوئی پروا نہیں۔ ایک طرف تو حضرت علی، حضرت عثمان کے مقرر کردہ عاملوں کو جلدی جلدی ہٹا رہے تھے تو دوسری طرف بلوائیوں کے بارے میں تساہل کر رہے تھے۔ انھوں نے حضرت علی کو گھیرے میں لیا ہوا تھا اور ان کے لشکر میں بھی گھس گئے تھے۔ فتنہ پرداز حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کے مطالبین کے درمیان تعلقات کو اور بگاڑ رہے تھے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کی حدود کے تعطل پر صبر نہ کر سکے۔ چنانچہ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ نے حضرت علیؓ سے یہ کہتے ہوئے مدینہ چھوڑنے کی اجازت طلب کی کہ یا تو ہم غلبہ پا لیں گے یا آپ ہمیں چھوڑ دیں۔ اس پر حضرت علی نے کہا: جب تک میں معاملات سنبھال سکا سنبھالے رہوں گا اور اگر میرے پاس کو ئی چارہ نہ رہا تو آخری دوا لوہے سے داغنا ہے۔

حضرت علی سمجھتے تھے کہ ان دونوں کا مدینہ سے خروج ممکن ہے کسی حل کا باعث ہو، اس لیے آپ نے انھیں نہ روکا، کیونکہ ان کی خواہش بھی یہ تھی کہ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے۔

حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے حضرت عائشہؓ کا خروج

حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ مکہ پہنچنے کے بعد حضرت عائشہؓ سے ملے۔ انھوں نے پوچھا: تمھارے پیچھے کیا حالات ہیں؟ انھوں نے کہا: ہم بلوائیوں اور بدوؤں کے ڈر سے بوریا بستر باندھ کر مدینہ چھوڑ آئے ہیں۔ وہاں لوگ پریشان ہیں، ان کو حق یا باطل کا کچھ پتا نہیں چلتا اور نہ وہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: باہم مشورہ کرو اور ان بلوائیوں کے خلاف کھڑے ہو جائو۔

سب لوگوں نے سوچ بچار کے بعد بصرہ کی طرف خروج کا فیصلہ کیا۔ حضرت عائشہ نے کھڑے ہو کر خطاب کیا: ’’اے لوگو، بہت ہی بڑا حادثہ اور بہت ہی ناپسندیدہ کام ہو گیا ہے۔ بصرہ میں اپنے بھائیوں کی طرف جا کر اس کا مداوا کرو۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ عثمانؓ اور مسلمانوں کا انتقام لے لے۔‘‘ حضرت عائشہ نے یہی بات عبداللہ بن حضری سے بہت پہلے کہی تھی۔ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ تو حضرت عثمانؓ کے قتل سے چار ماہ بعد مکہ پہنچے تھے۔ یہ راے حضرت عائشہ کی اپنی مستقل راے تھی۔ اس روایت سے یعقوبی، ابن ابی حدید اور صاحب ’’الامامۃ والسیاسہ‘‘ کی راے کی تردید ہو جاتی ہے، جس کے مطابق حضرت طلحہ نے حضرت عائشہ کو اس راے پر مجبور کیا تھا۔ نہ وہ کسی کی راے سے مغلوب ہوتی تھیں اور نہ اپنی راے کسی پر مسلط کرتی تھیں ۔ طبری کی سیف بن عمر سے روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ حضرت عائشہؓ اور دوسرے صحابہ اصلاح کی غرض سے نکلے تھے۔ اہل بصرہ کی بہت بڑی تعداد بھی اس راے کی تائید کرتی تھی (تاریخ الامم و الملوک ۴/ ۴۰۴، ۵/۴)۔ حضرت طلحہ اور زبیر کے الفاظ میں بصرہ کے وہ لوگ چیدہ چیدہ بہترین لوگ تھے اور حضرت عائشہ ان کو صالح کے لقب سے یاد کرتی تھیں۔ یہ خیال کہ حضرت عائشہ کا ساتھ احمقوں، فسادیوں اور اوباش لوگوں نے دیا، قطعی غلط ہے۔ حضرت علی نے خود حضرت عائشہ کا ساتھ دینے والے کعب بن سوء کو بہت بڑا عالم اور عبدالرحمن بن عتاب کو یعسوب القوم (قوم کا سردار) کہا۔ وہ جب بھی کسی نیک کی لاش کے پاس سے گزرتے تو کہتے: ’’نہیں نہیں جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے مقابلے میں فسادی نکلے، وہ غلط کہتا ہے۔ دیکھو، اس عابد اور مجتہد کی طرف (سیف بن عمر کی کتاب ’’الجمل و سیر علی و عائشہ‘‘ (۳۵۷-۳۵۸))۔ یہ خروج فتنہ و فساد کی غرض سے نہیں تھا، جس میں حضرت عائشہ گمراہ لوگوں پر حکم چلا رہی تھیں۔ یہ خروج سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا جس میں بہت سے صحابۂ کرام شریک تھے۔

امہات المومنین اور حضرت عثمان کے انتقام کا مطالبہ

اس سال امہات المومنین فتنہ سے فرار اختیار کر کے حج کے لیے نکلی تھیں، جب مکہ میں حضرت عثمان کے قتل کی خبر پہنچی تو انھوں نے مکے میں قیام کر لیا تھا۔ وہ مکے سے نکل کر واپس آ رہی تھیں۔ سب لوگ مل کر انتظار کر رہے تھے کہ فتنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ جب حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کر لی گئی تو چند صحابہ فسادیوں سے ڈر کر مکہ آگئے۔ وہاں بہت سے صحابہ، مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عثمان کے یمن میں عامل، یعلیٰ بن امیہ، طلحہ، زبیر، سعید بن عاص، ولید بن عقبہ اور دوسرے اموی سردار اور امہات المومنین رضی اللہ عنہم مکہ میں اکٹھے ہو گئے۔

باقی امہات المومنین مدینہ جانے کے لیے حضرت عائشہ سے متفق تھیں خروج کے بارے میں ان کا کوئی اختلاف نہ تھا، لیکن جب حضرت عائشہ کا دوسرے صحابہ کے ساتھ بصرہ جانے پر اتفاق ہو گیا تو وہ کہنے لگیں: ہم صرف مدینہ جائیں گے۔ حضرت حفصہؓ تو بصرہ جانے کے لیے بھی تیار تھیں، لیکن ان کے بھائی عبداللہ بن عمر نے قسم دے کر ان کو روکا، وہ عدم خروج پر مطمئن نہیں تھیں اور نہ ہی ان کے بھائی نے کسی شرعی سبب کی وجہ سے ان کو روکا تھا، لیکن ان کا تعلق صحابہ کی اس جماعت سے تھا جو اس مسئلہ میں شبہ کا شکار تھے اور طرفین میں سے کسی کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ کہتے تھے: میں تو مدینہ کا رہنے والا ہوں۔ اگر سب اہل مدینہ اٹھ کھڑے ہوں گے، میں بھی اٹھ کھڑا ہوں گا۔ اگر وہ بیٹھ جائیں گے تو میں بھی بیٹھ جائوں گا (تاریخ الامم و الملوک ۴/۴۴۶)۔ اسی وجہ سے انھوں نے اہل شام کے خلاف جنگ میں حضرت علی کا ساتھ نہ دیا۔ وہ گوشہ نشین رہے، اسی لیے انھوں نے اپنی بہن کو گوشہ نشینی کا مشورہ دیا۔ حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ کو پیغام بھیجا کہ میرا بھائی خروج میں حائل ہو گیا ہے اور اپنی معذرت پیش کی۔

حضرت عائشہ کی عمر اس وقت ۴۳ برس تھی اور وہ امہات المومنین میں سب سے کم عمر تھیں۔ مسلمانوں کے درمیان اصلاح کے لیے خروج فرض کفایہ ہے، یعنی اس فرض کو وہی ادا کرے گا جس میں اہلیت ہو۔ حضرت عائشہ، مقام و مرتبہ، عمر، علم اور قدرت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہل تھیں۔ وہ ایک سیاسی شخصیت کی مالک تھیں اور عام معاملات میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتی تھیں۔ انھوں نے حضرت ابوبکرؓ کے گھر پرورش پائی تھی، جوعرب کی جنگوں اور انساب کے عالم تھے۔ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں زندگی گزاری تھی، جو اسلامی ریاست کی سیاست کا سرچشمہ تھا۔ پھر مسلمانوں کے پہلے خلیفہ کی بیٹی تھیں۔ وہ دین کے بارے میں خواتین کے مرتبہ و مقام اور ان کی ذمہ داریوں کو کما حقہ سمجھتی تھیں۔ امام زہری کا قول ہے: اگر سب لوگوں کا علم اور امہات المومنین کا علم ایک ساتھ جمع ہو جائے تو بھی عائشہ کا علم ان کے علم سے وسیع تر ہے۔ تابعی عطاء کا قول ہے: عائشہؓ سب لوگوں سے بڑھ کر فقیہ تھیں اور ان کی راے سب لوگوں سے بہتر تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر کا قول ہے: میں حضرت عائشہ کے ساتھ رہا ہوں، میں نے کسی آدمی، کسی آیت کے نزول کے بارے میں، فرض یا سنت کے بارے میں، کسی شعر کے بارے میں، ایام عرب اور انساب عرب کے بارے میں، قضا اور طب کے بارے میں ان سے بڑھ کر عالم نہیں دیکھا۔ احنف بن قیس بنو تمیم کا سردار تھا اور اس کا شمار فصحاء عرب میں ہوتا تھا، وہ کہتا ہے کہ میں نے ابوبکر، عمر، عثمان اور علی کے خطبے سنے ہیں، میں نے کسی کے منہ سے عائشہ سے بہتر درست اور خوب صورت الفاظ نہیں سنے۔

باقی امہات المومنین میں اس معیار کی اہلیت نہیں تھی کہ لوگ ان سے تعاون پر آمادہ ہوتے۔ باقی امہات المومنین مدینہ کی طرف خروج پر رضامند تھیں۔ جب حضرت عائشہؓ نے بصرہ کی طرف خروج کیا تو انھوں نے انھیں خوشی خوشی رخصت کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی، نہ وہ روئیں اور نہ اصلاح کے لیے خروج سے انھیں جنگ و جدل اور خون ریزی کا شبہ ہوا۔

[باقی]

_________________

B