HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

[’’سیر سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(۲)


اواخر ۱۱ھ میں حضرت ابوبکر نے خالد کو یمامہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا جہاں مسیلمہ بنو حنیفہ کے چالیس ہزارجنگ جو اشخاص کے ساتھ مقیم تھا۔مسیلمہ کا لشکر ایک لاکھ پر مشتمل تھا جبکہ اہل ایمان دس ہزار سے کچھ اوپر تھے۔ خالد نے مقدمہ پرشرحبیل بن حسنہ اور میمنہ و میسرہ پر زید اور ابوحذیفہ کو مقرر کیا۔رات کے وقت مقدمہ کا گزر چالیس سے زیادہ سواروں پر مشتمل ایک دستے پر ہوا جس کا تعلق مسیلمہ کے قبیلے بنوحنیفہ سے تھا اور یہ بنو تمیم و بنو عامر سے قصاص کا کوئی قضیہ نمٹا کر آرہا تھا۔ انھیں خالد کے پاس لایا گیاتوانھوں نے منصب نبوت کے بارے میں ان کی راے پوچھی۔ان کا جواب تھا،ایک نبی ہمارا ہے اورایک تمھارا۔ خالدنے ان سب کو قتل کرا دیا،محض ان کے سردار مجاعہ بن مرارہ کو زندہ رہنے دیا، کیونکہ وہ زبردست حربی صلاحیتیں رکھتاتھا۔ انھوں نے اپنی فوج کوایک بلند جگہ پر ٹھہرایاجہاں سے یمامہ دکھائی دیتا تھا۔مہاجرین کا علم سالم نے اور انصارکا ثابت بن قیس نے اٹھا رکھا تھا۔اسلامی فوج میں شامل بدو جنگ کے پہلے ہلے ہی میں پسپا ہو گئے۔ بنوحنیفہ خالد کے خیمے میں داخل ہو کران کی اہلیہ ام تمیم کو قتل کر نے لگے تھے کہ مجاعہ نے ان کو بچایا ۔مہاجرین و انصار نے جوصرف اڑھائی ہزار تھے ، جم کر حملہ کیا۔خالد ایک زوردار حملہ کر کے مسیلمہ کے پاس پہنچ چکے تھے، لیکن پھر پلٹ کر فوجیوں کی صفوں کے بیچ میں کھڑے ہو گئے اور اناابن الولید، انا ابن عامر وزید کہہ کر دعوت مبارزت دی۔کئی سورما ان کے ہاتھوں قتل ہوئے۔جنگ کا بازار گرم ہوا تو وہ پھر مسیلمہ کے قریب گئے اور اسے قبول حق کی دعوت دی، لیکن اس نے گردن ہلا کر انکار کیا۔جنگ کے دوران میں مسیلمہ کا قریبی ساتھی رجال بن عنفوہ زید بن خطاب کے ہاتھوں مارا گیا،مسلمانوں میں سے ثابت بن قیس، سالم اور ان کے آقا ابوحذیفہ نے شہادت پائی۔ مسیلمہ کی فوج شکست کھا کر ایک قلعہ نما باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔ اسلامی فوج نے باغ کامحاصرہ کر لیا، براء بن مالک کے کہنے پر انھیں ایک زرہ پر بٹھا کر نیزوں کی انیوں کے ذریعے بلند کر کے باغ کے اندر پھینکا گیا۔ انھوں نے اندر گھس کر دس سے زیادہ مرتدوں کو قتل کیا اور لڑتے بھڑتے دروازہ کھول دیا۔ باقی مسلمان بھی نعرۂ تکبیر بلند کر کے داخل ہوئے ۔سخت جنگ ہوئی ، مسیلمہ کے دس ہزار فوجی مارے گئے، جبکہ چھ سو اہل ایمان نے جام شہادت نوش کیا۔کثرت اموات کی وجہ سے اس باغ کا نام ہی حدیقۃ الموت پڑ گیا۔مسیلمہ کو وحشی بن حرب اور ابودجانہ انصاری نے جہنم واصل کیا۔اختتام جنگ پر خالد نے یمامہ کے قلعوں کے گرد و پیش سے مال غنیمت جمع کرنے کے لیے اپنے دستے بھیجے۔وہ ان قلعوں پر حملہ کرنا چاہتے تھے جن میں عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ کوئی نہ رہا تھا۔ اس موقع پر مجاعہ نے انھیں دھوکا دیا۔اس نے کہا، کئی جنگ جو مرد ان میں موجود ہیں،مجھے اجازت دیں کہ ان سے صلح کی بات کروں پھر عورتوں سے جا کر کہا،خود اور زرہیں پہن کر قلعوں کی منڈیروں پر آ جائیں۔ خالد نے صلح کر لی اور اہل یمامہ کو اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت دی۔ سب کے سب دوبارہ مسلمان ہو گئے۔

مثنیٰ بن حارثہ ایرانی سرحد کے قریب آبادایک عرب قبیلے کے لیڈر تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا۔حروب ردہ ختم ہونے کے بعد انھوں نے عراق کے اندر جا کر کارروائیاں کرنا شروع کیں ۔صحرا ئی علاقہ ہونے کی وجہ سے ایرانی فوج انھیں پکڑ نہ پاتی۔ حضرت ابوبکر نے انھیں قبیلے کا کمانڈر مقرر کرکے رضاکاروں کی فوج بھرتی کرنے کی اجازت دی اور خالد بن ولید کے ماتحت کر دیا جوجنگ یمامہ سے فارغ ہوچکے تھے۔محرم ۱۲ھ (مارچ ۶۳۳ء)میں حضرت ابوبکر نے ایک طرف خالد کو جنوبی عراق (Mesopotamia (lower کی طرف جانے کا حکم دیااور دوسری طرف عیاض بن غنم کو اس کے شمال کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے خالد کو ہدایت کی کہ پہلے ابلّہ (ابلق) جائیں پھر عراق میں اس کے زیریں حصے سے داخل ہوں۔ وہاں کے باشندگان کواﷲ کی بندگی کی دعوت دیں،یہ انھیں قبول نہ ہو تو جزیہ دیں اور اگراسلام و جزیہ دونوں میں سے کو ئی بات نہ مانیں تو ان سے قتال کریں۔ فوج میں کسی کو زبردستی بھرتی نہ کریں، ارتداد میں مبتلا ہونے والے مسلمانوں کو ان کے رجوع کے باوجود فوج میں شامل نہ کریں۔ حضرت ابوبکر نے یہ بھی فرمایا،میں خالد بن ولید کے ذریعے نصاریٰ کو شیطان کی اکساہٹوں پر عمل کرنے سے غافل کر دوں گا۔مشہور روایت کے مطابق خالد یمامہ سے مدینہ آنے کے بجاے سیدھا عراق گئے اور بصرہ والا راستہ اپنایا۔ انھوں نے اٹھارہ ہز ار جوانوں پر مشتمل اپنی فوج کو تین حصوں میں بانٹ دیا جنھوں نے مختلف راستوں پر سفر کیا،پہلے حصے کے سالار مثنیٰ، دوسرے کے عدی بن حاتم تھے، تیسرے کی قیادت خود خالد نے کی ۔ یہ سب ابلق(ابلہ)کے قریب حفیر کے مقام پر اکٹھے ہوئے۔ خالد نے یہاں کے ایرانی گورنر ہرمز کو خط لکھ کر اسلام لانے کی دعوت دی۔اس نے جنگ کو ترجیح دی اوربصرہ کے نواحی مقام کاظمہ میں اپنی فوج جمع کر لی۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے خالدبن ولید نے ہرمز کو دعوت مبارزت دی ۔ دو ضربوں کا تبادلہ ہواتھا کہ خالد نے اسے گرفت میں لے لیا۔اس کے فوجی دوڑتے آئے، لیکن اسے قتل ہونے سے نہ بچا سکے، قعقاع بن عمرو نے انھیں پرے کر دیا تھا۔ ایرانیوں کو شکست ہوئی ،ان کے تیس ہزار جوان مارے گئے ۔ مال غنیمت اس قدر تھا کہ ایک ہزار اونٹوں پر پورا آیا۔ جسر پہنچ کر خالد نے زِر بن کلیب کے ہاتھوں خمس مدینہ روانہ کیا۔حضرت ابوبکر نے ہرمز کا سازو سامان خالد کو دے دیا، صرف اس کی ٹوپی کی قیمت ایک لاکھ درہم لگی جبکہ گھوڑا بھی انتہائی بیش قیمت تھا۔

۱۲ ھ( ۶۳۳ء):ہرمز نے مرنے سے پہلے شاہ ایران اردشیر سے مدد طلب کی تواس نے ایک جرنیل قارن کی کمان میں تازہ دم فوج بھیجی ۔یہ اس وقت پہنچی جب ایرانی کاظمہ میں پٹ کر فرار ہو رہے تھے اور مثنیٰ ان کے تعاقب میں تھے۔قارن نے مذار کے مقام پر پڑاؤ ڈالا،اس نے بھگوڑوں کوعار دلائی اور انھیں پلٹ کر اسلامی فوج پر حملہ کرنے پر اکسایا۔مثنیٰ کو معلوم ہوا تو وہ بھی اپنی قلیل فوج کے ساتھ اس کے قریب مقیم ہو گئے اور خالد کو خط لکھ کرحالات سے مطلع کیا۔خالد اس اندیشے سے کہ قارن مثنیٰ کی مختصر فوج کو تباہ نہ کر دے، تیزی سے سفر کرتے ہوئے مذار پہنچے۔ کاظمہ سے بھاگے ہوئے جرنیل قباذ او ر انوشجان اپنی ذ لت کا بدلہ لینا چاہتے تھے،خالد نے بھی دشمن کو پہل کرنے کا موقع نہ دیا۔ قارن نے مبازت کے لیے للکارا ،اسے معقل بن اعشیٰ نے جہنم رسید کیا۔ قباذعدی بن حاتم طائی کے ہاتھوں مارا گیا اور عاصم نے انوشجان کوٹھکانے لگایا۔ایرانیوں نے پھر راہ فرار پکڑی اور بھاگتے بھاگتے مزید تیس ہزار سپاہیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بے شمار ایرانی کشتیوں پر سوار ہو کر بھاگ لیے ،باقیوں کو قید کر لیا گیا ،ان میں حسن بصری کے والد بھی تھے۔خالد نے مال غنیمت کا پانچواں حصہ سعید بن نعمان کودے کر حضرت ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا اور مقامی آبادی پر جزیہ عائد کر دیا۔

جنگ مذار میں شکست کے بعد ایرانی بادشاہ اردشیر نے دو بڑے جرنیلوں انذرزغر اور بہمن جاذویہ کی سرکردگی میں پھر ایک فوج روانہ کی جو دجلہ و فرات کے کنارے بسنے والے قبائل اور بکر بن وائل پرمشتمل تھی ۔صفر ۱۲ھ (اپریل ۶۳۳ء)میںیہ ولجہ کے مقام پر پہنچی تو خالد کو خبر ہوئی ، وہ فوراً فوج لے کر آئے اور ایرانیوں پر دھاوا بول دیا ۔ سخت لڑائی ہوئی،فیصلہ ہوتا نظر نہ آرہا تھاکہ جیش اسلامی کے دو تازہ دم دستے نمودار ہوئے جو خالد ولجہ پہنچنے سے پہلے پیچھے چھپا آئے تھے۔ان دستوں نے فارسی لشکر کے پچھلی طرف سے ہلہ بولا، جبکہ اگلی طرف خالد لڑرہے تھے۔اس جنگی اسٹریٹیجی کو double envelopment manoeuvre کہا جاتاہے ۔درمیان میں پھنسے ہوئے ایرانیوں کو راہ سجھائی نہ دے رہی تھی۔ستر ہزار مارے گئے،انذرزغر بھاگ نکلا لیکن اس بیابان میں اسے کہیں پانی نہ ملا اور پیاس سے مارا گیا۔ ایک روایت ہے کہ جنگ ولجہ میں خالد نے ایک ایرانی سورما کو قتل کیاجسے ہزار جوانوں کے برابر سمجھاجاتا تھاپھراس پر بیٹھ گئے اور اسی حالت میں وہیں کھانا منگوا کرکھایا۔

جنگ ولجہ میں ایرانی فوج میں شامل بکر بن وائل کے کچھ لوگ بھی مارے گئے تھے ۔ ان کے لواحقین نے اردشیرکو خط لکھا تو اس نے ا پنے جرنیل جابان (باہان یا واہان) کی قیادت میں مدد بھیجی۔ایرانی اور بکری فوجی الیس کے مقام پر جمع ہوئے۔کھانے کا وقت ہوا ،انھوں نے چٹائیاں بچھا کر کھانا شروع ہی کیاتھا کہ خالد اپنا لشکر لے کر پہنچ گئے۔ انھوں نے آواز دے کر ان بدوؤں کو بلایا جو ایرانیوں سے مل گئے تھے۔ایک ہی شخص ، بنوجذرہ کا مالک بن قیس نکلا تو خالد نے بے وفائی کرنے پر اس کی گردن اڑا دی۔اب ایرانیوں نے ہتھیار اٹھالیے اور شدید جنگ شروع ہو گئی۔ان کا سالار مالک بن قیس مارا گیا لیکن جابان (واہان) کے دلیری دلانے پر وہ ڈٹ گئے۔انھیں بہمن کی قیادت میں آنے والی کمک کا انتظار تھا،لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اسلامی فوج کو غلبہ حاصل ہو گیا۔خالدنے سپاہیوں کو ہدایت کی ،ایرانیوں کو قید کرنے کی کوشش کی جائے،قتال صرف ہتھیار نہ ڈالنے والوں ہی سے کیا جائے۔ چنانچہ بے شمار اسیروں کو ہانکا گیا اور لاتعدادجنگ جوؤں کی گردنیں کاٹ کر دریا میں پھینکی گئیں۔ یہ سلسلہ تین دن جاری رہایہاں تک کہ دریا میں صرف خون بہنے لگا۔ مقتولین کا شمار ستر ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک کیا گیا ۔ایرانیوں کا لگایا ہوا کھانا مسلمانوں نے تناول کیا۔جنگ الیس میں حصہ لینے والے تمام ایرانی منیشیا( امغیشیا) کے شہر سے آئے تھے۔ خالد بن ولید نے اسے تباہ کرنا بھی ضروری سمجھا،وہاں سے بے شمار مال غنیمت حاصل ہوا۔ ہر سوار کو پندرہ ہزار درہم زائد دیے گئے۔ خالد نے خمس اور قیدی مدینہ روانہ کیے، حضرت ابو بکر نے جنگ کے واقعات سن کر فرمایا،’’عورتیں اب خالدجیسا بیٹا جنم نہیں دے سکتیں۔‘‘ بیمار شاہ اردشیر شکست کے صدمے کی تاب نہ لا سکا اور چل بسا۔

ولجہ سے رخصت ہو کر خالد بن ولیدنے حیرہ کے خورنق اور سدیر محلات کے پاس پڑاؤ ڈالااور گرد و پیش کے قلعوں کا محاصرہ کرنے کے لیے اپنے دستے بھیجے۔حیرہ کے نصرانی حاکم عبد المسیح بن بقیلہ نے اپنے بیٹے عمرو کی ترغیب پر صلح کرنے کوترجیح دی ۔خالد نے عبدالمسیح کے پاس ایک چھوٹا سا بٹوادیکھا جس میں زہر تھا۔انھوں نے پوچھا ، یہ کیوں رکھا ہے؟ اس نے جواب دیا،اگر مجھے قوم کی طرف سے کسی ناپسندیدہ بات کا سامنا کرنا پڑا تو میں اسے کھا کر خود کشی کر لوں گا۔خالد نے بٹوا لے کر کہا،کوئی شخص وقت مقررہ سے پہلے نہیں مر سکتا۔ پھر ’بسم اﷲ خیر الاسماء، رب الارض والسماء الذی لا یضر مع اسمہ داء، الرحمٰن الرحیم‘، ’’اﷲ کے نام سے جو بہترین نام ہے،زمین و آسمان کا رب ہے جس کا نام لینے سے کوئی بیماری نقصان نہیں دیتی ،رحمان و رحیم ہے‘‘، پڑھ کر زہر منہ سے لگا لیا۔ پاس کھڑے ہوئے جرنیل ان کو روکنے کے لیے لپکے لیکن وہ زہر نگل چکے تھے۔ ان پر غشی طاری ہوئی ،پسینہ آیا، لیکن جلد ہی ہوش میں آ گئے۔ابن بقیلہ نے کہا،اے عرب کے لوگو!بخدا، تم جس چیز پر چاہو گے قبضہ کر لو گے۔اس صلح سے اسلامی فوج کوفوری طور پر چار لاکھ درہم حاصل ہوئے۔صلح کے بعد کرامہ(شیما) بنت عبدالمسیح ایک صحابی شویل (زکریا بن یحییٰ)کے حوالہ کی گئی۔زکریا بن یحییٰ نے کہا کہ جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حیرہ کے محلات کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تب اسیر جنگ کے طور پر بنت بقیلہ انھیں دینے کا وعدہ فرمایا تھا۔انھوں نے دو اصحاب محمد بن مسلمہ اور محمد بن بشیر کی گواہی بھی پیش کی تو خالد نے اسے ان کے حوالہ کر دیا۔ اس وقت وہ بوڑھی ہو چکی تھی،اس نے فدیہ دے کر اپنے آپ کو آزاد کرا لیا۔ حیرہ فتح کرنے کے بعد خالدنے آٹھ رکعات نوافل ایک ہی سلام سے ادا کیے۔

حیرہ کے بعد سواد عراق کے قصبوں بانقیا اور برسوما کے حاکم بصبہری بن صلوبانے ایک لاکھ درہم سالانہ پر صلح کی۔

خالد ایک سا ل تک ایران میں گھومتے پھرتے رہے ۔ انھوں نے مقامی امرا کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے متعددخطوط لکھے ۔اسی دوران میں شاہ اردشیراور اس کا بیٹا شیریں قتل ہوئے۔ تاہم، ایرانیوں کی بھاری فوج جیش خالد اور ایرانی دارالخلافہ مدائن کے بیچ حائل رہی۔

۱۲ھ (۶۳۳ء)ہی میں انبار فتح ہوا۔وہاں شیرزاد کی حکومت تھی جس نے شہر کے گرد خندق کھود رکھی تھی ۔دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو خالد نے سپاہیوں کو تیروں کی سیدھی بوچھاڑکرنے کاحکم دیا۔ایک ہزار سے زائد انباریوں کی آنکھیں پھوٹ گئیں،اس وجہ سے اس جنگ کو آنکھیں پھوٹنے والی جنگ (غزوۃ ذات العیون) کہا جاتا ہے۔ شیرزاد نے صلح کی پیش کش کی، لیکن خالد کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا ۔خالدنے کمزور اور مریل اونٹ ذبح کر کے خندق میں بھر دیے اور اسے عبورکر لیا۔تب شیرزاد نے محفوظ جگہ جانے کی درخواست کی اور شہر چھوڑ دیا۔ بوازیج اور کلواذی کے رہنے والوں نے بھی صلح کی۔خالدبن ولید نے زبرقان بن بدر کو انبار پر نائب مقرر کر کے عین التمر کا رخ کیا۔

عین التمر پر مہران بن بہرام کی حکومت تھی ،اردگرد آباد عرب قبائل تغلب و ایاد اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ خالد بن ولید کی آمد کی خبر ملی تو عرب لیڈر عقہ نے مہران سے کہا، میں عربوں کے جنگ کرنے کے طریقوں سے واقف ہوں،مجھے خالد سے نمٹنے دیں۔اس نے کچھ پس و پیش کے بعد اجازت دے دی۔ فوجوں کا آمنا سامنا ہوا،خالد نے عقہ کو دیکھا تو اپنے میمنہ و میسرہ کو پیش قدمی سے روک دیا اور خود آگے بڑھے۔ عقہ فوج کی صفیں درست کرا رہا تھا، انھوں نے اسے بازؤوں میں جکڑ لیا او رقید کر لائے۔اس کے بیشتر فوجی بھی خالد کی قید میں آ گئے۔یوں جنگ عین التمر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ مہران نے فوج کی ہزیمت کی خبرسنی تو قلعہ چھوڑ کر فرار ہوا۔اس کے جانے کے بعد بھگوڑوں نے قلعہ میں پناہ لے لی۔خالد نے قلعے کا محاصرہ کر لیا،جب یہ ان پر شاق ہوا تو صلح کی درخواست کی۔خالدکے فیصلے کے مطابق عقہ اور تمام اسیروں کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ چالیس لڑکے قفل بند کنیسہ میں انجیل کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ خالد نے انھیں چھڑا کر امرا میں بانٹ دیا۔ انھی میں محمد بن سیرین کے والد سیرین تھے جو انس بن مالک کے حصہ میں آئے۔ولید بن عقبہ خمس لے کر مدینہ پہنچے، لیکن سیدنا ابوبکرنے اسے عیاض بن غنم کو بھجوا دیا جودومۃ الجندل کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور خود بھی دشمن کے محاصرے میں تھے۔ ولید کی تجویز پرعیاض نے خالد سے مدد طلب کر لی۔

خالد بن ولید نے عین التمر پر عویمر بن کاہن(کاہل)کو نائب مقرر کر کے دومۃ الجندل کا رخ کیا ۔وہاں کے لوگوں نے ان کے آنے کی خبرسن کر بہرا، تنوخ ،کلب اور غسان قبائل سے مدد مانگ لی ۔فوج جمع ہو گئی تو اکیدر بن عبدالملک اور جودی بن ربیعہ میں قیادت کا اختلاف ہو گیا۔اہل دومہ نے اکیدر کے زیادہ ذی صلاحیت ہونے کے دعووں کو نہ مانا تو وہ ناراض ہوکر چلا گیا۔خالد کے حکم پر عاصم اکیدر کو پکڑ لائے تو انھوں نے اس کا سر قلم کرا دیا ۔پھر وہ دومۃ الجندل پہنچے، جودی وہاں کاسپہ سالار بن چکا تھا۔خالد نے شہر کے دو اطراف سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا،بدوؤں کی آدھی فوج عیاض کو دی جبکہ دوسری نصف کو اپنی فوج کے ساتھ ملا لیا۔جنگ شروع ہوئی تو جودی کو خالد نے پکڑا اور اقرع بن حابس ودیعہ کو گرفتار کرلائے۔ دومہ کی فوج نے بھاگ کر قلعہ میں پناہ لی ۔بنوتمیم نے قلعہ سے باہر رہ جانے والوں کو فرارہونے میں مدد دی جبکہ خالد نے اپنی زد میں آنے والے کسی دشمن کو نہ چھوڑا۔انھوں نے جودی اور اس کے تمام ساتھیوں کو ختم کر دینے کا حکم دیا، البتہ بنو کلب کے قیدیوں کو چھوڑ دیا، کیونکہ عاصم اور اقرع انھیں امان دے چکے تھے۔پھرخالد نے قلعے کا دروازہ اکھڑوا یا اور قلعہ میں داخل ہو کر جنگ کے قابل سب مردوں کو قتل کرا دیا۔انھوں نے باقی قیدیوں کو فروخت کر دیا اورخود جودی کی بیٹی کو خریدا جو بے حد خوب صورت تھی ۔خالد نے اقرع کو انبار بھیج دیا اور خود کچھ دیر دومۃ الجندل میں قیام کرنے کے بعد حیرہ لوٹ گئے۔

خالد بن ولید دومۃ الجندل میں مصروف عمل تھے کہ ایرانیوں نے الجزیرہ کے عربوں کے ساتھ مل کر انبار پر حملہ کرنے اور زبرقان بن بد ر کو وہاں سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔زبرقان نے حیرہ کے عامل قعقاع کو اطلاع کی۔اسی اثنا میں خالدواپس آ چکے تھے، انھوں نے فوج دے کر قعقاع کو روانہ کر دیا۔حُصید کے مقام پر ا ن کی ایرانی لشکر سے مڈبھیڑ ہوئی ،روزبہ اور زرمہر ان کے کمانڈر تھے۔سخت لڑائی کے بعد عجمیوں نے شکست کھائی۔قعقاع نے زرمہر کو اور عصمہ بن عبداﷲنے روزبہ کو قتل کیا۔شکست خوردگان نے خنافس میں پناہ لی۔ابولیلیٰ سعدی نے ان کا پیچھا کیا تو وہ مصیّخ(Muzayyah) پہنچ گئے۔عجمی اور بدو وہاں سانس نہ لینے پائے تھے کہ خالد بن ولید نے ان پر شب خون مارا۔سوتے ہوئے دشمنوں میں سے بہت کم بچنے پائے۔ثنیّ(Saniyy)اور زمیل (Zumail) بھی اسی طرح کے واقعات تھے(رمضان ۱۲ھ، نومبر ۶۳۳ء) جن میں خالدنے بنو تغلب کے خلاف رات کے اندھیرے میں اچانک کارروائی کی۔اس طرح surprise attackکر کے انھوں نے دشمن کو کوئی کاروائی کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔

دومۃ الجندل سے واپسی پر خالد نے عزم کیا کہ وہ ایرانی دارالخلافہ مدائن پر حملہ کریں، لیکن ایسا اس لیے نہ ہو سکا کہ انھیں خلیفۂ اول کی منظوری حاصل نہ تھی۔

۱۲ھ کا رمضان خالد نے شام ، عراق اور الجزیرہ کی سرحدوں پرواقع مقام فراض میں گزارا۔رومیوں کوان کی موجودگی کی اطلاع ملی تو غضب ناک ہو گئے۔ انھوں نے تغلب ، ایاد اور نمر قبائل سے مدد لی اور خالد کو دعوت حرب دی۔دریاے فرات دونوں فوجوں کے بیچ میں حائل تھا۔ اہل روم نے خالد کو دریا پار کرنے کی دعوت دی ، لیکن خالد نے انھی کوفرات عبور کرنے کو کہا۔۱۵ ذی قعد ۱۲ھ(۲۱ جنوری ۶۳۴ء) کو شدید جنگ ہوئی جس میں ایک لاکھ جانیں گئیں اورایرانیوں ، رومیوں اور عرب عیسائیوں کی متحدہ فوج کو شکست ہوئی۔ خالد نے فراض میں مزید دس دن قیام کیاپھر حیرہ جانے کا اعلان کیا ۔عاصم مقدمہ میں تھے اور شجرہ بن اعز ساقہ کی راہ نمائی کر رہے تھے۔خالد لشکر کے پچھلے حصے ، ساقہ میں رہے، لیکن پھر چند ساتھیوں کو لے کر ایسی راہ سے مکہ کاقصد کیا جس پر پہلے کسی نے سفر نہ کیا تھا ، مسجد حرام پہنچے ، حج ادا کیا اور لشکر کے حیرہ پہنچنے سے پہلے لوٹ کر واپس ساقہ میں شامل ہو گئے۔ ان کے ساتھ جانے والوں کے سوا کسی کو علم نہ ہوسکا کہ وہ حج پر گئے ہوئے ہیں۔ حضرت ابوبکر کو بھی اس وقت معلوم ہوا جب وہ واپس جا چکے تھے۔

عراق میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سیدنا ابوبکر نے بیک وقت چار فوجیں شام (Levant)بھیجنے کا فیصلہ کیا۔اس موقع پر شام کے سالار ابوعبیدہ بن جراح نے کمک مانگ لی۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر نے حضرت عمر، حضرت علی اور دیگر اہل راے سے مشورے کے بعد خالد بن ولید کو قیادت سونپنے کافیصلہ کیا۔ انھوں نے خط لکھ کر پہلے تو خالد کو خفیہ حج کرنے پر سرزنش کی پھر شام جانے کا حکم دیا ۔ خالد عراق سے ہلنا نہ چاہتے تھے، کیونکہ ساسانی دارالخلافہ مدائن فتح کرنا ان کا مطمح نظر تھا،وہ بہت جز بز ہوئے اور اسے عیسر بن ام شملہ (عمربن خطاب) کا مشورہ قرار دیا۔ عراق سے شام جانے کے دو راستے تھے،ایک دومۃ الجندل (آج کل کے سعودی عرب میں سکاکا) سے ،دوسرا عراقی شہر الرقہ سے ہو کر گزرتا تھا۔خالد نے دونوں راستے اختیار نہ کیے، کیونکہ دومہ کا راستہ لمبا تھا اور عراقی رستے میں عراقی فوج سے مڈبھیڑ کا خطرہ تھا۔اس لیے انھوں نے صحراے شام کے چھوٹے راستے سے ہو کر جانے کا فیصلہ کیا۔ ۱۳ھ کے اوائل(فروری۶۳۴ء) میں انھوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو عراق کا کمانڈر مقررکیا اور ساڑھے نو ہزار کی فوج لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اپنے گائیڈ رافع بن عمیرہ طائی کی راہ نمائی میں خالدنے سماوہ کے بیا بان اور قراقر کی وادی کو عبور کیا، ان جنگلوں،وادیوں،پہاڑوں اور راستوں کو طے کیا جہاں سے شاید ہی کوئی گزرا ہو۔ دودن کے سفر میں سپاہیوں کو پانی کا ایک قطرہ نہ ملا ، اس کے بعد کہیں ایک نخلستان کی صورت نظر آئی۔خالد نے اونٹوں کوجگالی سے روکنے کے لیے ان کے منہ باندھ دیے اور ایسے مواقع بھی آئے کہ انھیں ذبح کر کے ان کے پیٹ کا پانی پیا۔آخرکار عراق کی سرحد سے لے کر شام تک محیط ہونے والا یہ وسیع بیابان اپنے لشکرسمیت صرف پانچ دنوں میں:طبری (نودن: ابن کثیر) عبور کرلیا۔ سب سے پہلے انھوں نے سوا،تدمر(Palmyra)، اروکہ(ارک )اورسخنہ کے قلعے فتح کیے پھر بصری کا رخ کیا۔درۂ عقاب سے گزرتے ہوئے وہ دمشق کوپیچھے چھوڑ آئے تھے، مرج راہت پہنچے تو وہاں کے غسانی باشندے کوئی میلہ منا رہے تھے ۔ان کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے خالد سے شکست کھا کر یہاں پناہ لی تھی۔ خالد نے ایک مختصر حملہ کیا اور کچھ مال غنیمت اور کچھ قیدی حاصل کرکے یہ شہر خالی کر دیا۔ان کا مقصد اگلی مہمات کے لیے عقب کو محفوظ بنانا تھا۔ خالد کی آمد کی خبر سن کر ابوعبیدہ بن جراح نے شرحبیل بن حسنہ کو چار ہزار جوان دے کر بصری کا محاصرہ کرنے کے لیے بھیجا۔ بازنطینی اور عرب عیسائیوں کی ایک بڑی فوج نے شرحبیل کی فوج پر اچانک حملہ کیا، وہ شرحبیل کی قوت منتشر کرنے کو تھی کہ خالد کا گھڑ سوار دستہ آن پہنچا اور رومی فوج پر عقب سے حملہ کر دیا۔ اس نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لے لی،اسی اثنا میں ابوعبیدہ بھی فوج لے کر پہنچے اور خالد کی کمان میں آ گئے۔اسلامی فوج نے قلعے کا محاصرہ کر لیا ۔جمادی الاولی۱۳ھ( جولائی ۶۳۴ء)کے وسط میں قلعہ فتح ہوا، اس کے ساتھ ہی غسانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔بلال بن حارث مزنی مال غنیمت لے کر مدینہ گئے۔

خالد بصری میں تھے کہ انھیں اطلاع ملی کہ رومی فوج اجنادین (موجودہ اسرائیل کے مقام بیت شمش کے جنوب میں واقع شہر ) میں جمع ہو رہی ہے ۔ انھوں نے یرموک سے یزید بن ابوسفیان، وادئ عربہ سے عمرو بن عاص اور حوران سے ابوعبیدہ اور شرحبیل کو بلا لیا۔ ایک ہفتے کے اندر یہ سب کمانڈر جمع ہو گئے تو اسلامی فوج کی تعداد بیس ہزار ہو گئی، جبکہ رومیوں کی نفری ساٹھ ہزار تھی۔اسلامی فو ج حسب معمول تین حصوں میں منقسم تھی ،قلب کے کمانڈر معاذ بن جبل تھے، خالداور عمرو بن عاص ان کے ساتھ تھے۔میسرہ کی کمان سعید بن عامر اور میمنہ کی عبدالرحمان بن ابوبکرکے پاس تھی ۔یزید ساقہ میں تھے۔جنگ شروع ہونے سے پہلے خالد نے سپاہیوں سے خطاب کیااور انھیں ثابت قدم رہنے کی تلقین کی۔ جنگ کا پہلا دن:رومیوں نے پیادہ (infantary) فوج کے ذریعے حملہ کیاجس کی تیر اندازی سے کئی مسلمان شہید اور دوسرے زخمی ہو گئے۔ اس موقع پر خالد نے رومیوں کو دعوت مبارزت دی۔دوبدو لڑائی جاری تھی کہ انھوں نے عمومی حملے کا حکم دے دیا،لیکن غروب آفتاب تک کسی فوج کا پلہ بھاری نہ ہو سکا۔ دوسرا دن: تھیو ڈور نے خالدکو قتل کرنے کا پلان بنایا، لیکن اس کے خفیہ طور پر بھیجے ہوئے دستے کوضرار نے مار بھگایا۔اب اس نے خالد کو دعوت مبارزت دی۔دوبدو مقابلے میں وہ خالد پر جھپٹا اور چلا کردس رومی سپاہیوں کواپنی مدد کے لیے بلا لیا۔ قریب پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ وہ رومی لباس پہنے ہوئے مسلمان ہیں اور ضرار ان کی سربراہی کر رہے تھے۔ضرارنے رومی جیکٹ اتار پھینکی اور ایک وار کر کے تھیوڈور کا کام تمام کیا۔ کمانڈر کے مرنے سے رومی بازنطینی فوج گڑبڑا گئی ،اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی اسلامی فوج نے زوردار حملہ کر دیا۔بہت جانی نقصان اٹھانے کے باوجود وہ پسپا نہ ہوئے تو خالد نے کیمپ کی حفاظت پر مامور یزید بن ابوسفیان کے دستے کوبھی بلا لیا۔اس آخری ہلے نے رومیوں کو ڈھیر کر دیا۔ان میں سے کئی جان بچاکر غزہ، جافہ اور یروشلم کی طرف بھاگے ۔خالد نے اپنے گھڑ سواروں کو ان کا پیچھا کرنے کا حکم دیا،نتیجہ میں بھگوڑوں کی ایک کثیر تعداد بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔جنگ اجنادین psychological warfare کی بہترین مثال ہے۔اس میں خالد نے عرب کی مروجہ جنگی چالوں کوایک باقاعدہ اسٹریٹیجک نظام کی شکل دے دی۔

۲۹ جمادی الاولیٰ (۳۰ جولائی ۶۳۴ء)کو ا جنادین میں فتح حاصل کرنے کے بعد خالد بن ولید دمشق روانہ ہو گئے جہاں ابوعبیدہ بن جراح محاصرہ ڈالے ہوئے تھے۔یہ محاصرہ ۲۱ جمادی الثانی ۱۳ھ سے لے کر ۲۰ رجب۱۳ھ ( ۲۱ اگست تا ۱۹ستمبر۶۳۴ء)تک جاری رہا۔ ہرقل کا داماد تھامس یہاں کا کمانڈر تھا،اس نے امیشا میں مقیم ہرقل سے مدد مانگ لی۔ خالد نے ہرقل کی کمک کو روکنے کے لیے اپنی فوج ٹکڑیوں میں بانٹ کر دمشق کوآنے والے تمام راستوں پر متعین کر دی، ایک دستہ فحل بھی بھیجا ۔ درۂ عقاب پر ان کی فوج کی ہرقل کی فوج سے جنگ ہوئی۔تیس دن کے محاصرے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کی یک فطریت پر اعتقاد رکھنے والے ایک (mono physite) عیسائی پادری نے خالدکو بتایاکہ فصیل شہر کا ایک حصہ ایسا ہے جہاں رات کے وقت بہت کم پہرہ رہتا ہے، وہاں سے شہر پر قبضہ کرنا آسان ہے۔ جب خالد نے وہاں سے داخل ہوکرمشرقی دروازہ کھول دیا اور اسلامی فوج شہر میں داخل ہونے لگی تو تھامس نے باب الجابیہ پر متعین نائب کمانڈر (2nd in command) ابوعبیدہ بن جراح سے صلح کی بات چلا کر امان حاصل کر لی۔ اس طرح اس نے دمشق میں تمام بازنطینی فوج (garrison) بحفاظت نکال کرانطاکیہ (Antioch) روانہ کر دی جہاں ہرقل منتقل ہو چکا تھا۔اس کی چال سے خالدکو بہت قلق ہوا۔ تاہم، انھوں نے معائدۂ امن کا پاس کیا۔ وہ اس تاثر سے بچنا چاہتے تھے کہ اسلامی فوج امان دے کر پھر جاتی ہے اس لیے امان کی مقررہ مدت: تین دن گزرنے کے بعد اپنے گھڑ سوار دستے (cavalry) کو سادہ کپڑوں میں ملبوس کر کے رومی فوج (garrison) کا تیزرفتاری سے پیچھا کیا اور انطاکیہ پہنچنے سے پہلے ہی اسے جا لیا۔ جبل انصاریہ سے آگے مرج الدیباج نامی ایک سطح مرتفع تھی جہاں شدید بارش سے بچنے کے لیے رومی فوج ڈیرہ ڈالے ہوئی تھی۔ خالد کے جاسوس رومی فوج کی پوزیشن کی تمام تفصیل دے چکے تھے ۔ انھوں نے ضراربن ازور کی کمان میں ایک ہزارسپاہیوں کے دستے کو فوج کے جنوب سے اوررافع بن عمیر کی سربراہی میں ایک ہزار جنگ جوؤں کے دوسرے دستے کو مشرقی جانب سے حملہ کرنے کا حکم دیا۔رومی فوج کو حملہ ہونے کے بعد ہی خالد کی آمد کی خبر ہوئی۔ابھی وہ سنبھل نہ پائی تھی کہ عبدالرحمان بن ابوبکر کی سرکردگی میں ایک ہزار کے تیسرے دستے نے شمال کی طرف سے ہلہ بول دیا۔ آدھ گھنٹے کے وقفے سے خالد نے اپنا ایک ہزاری دستہ لے کر بازنطینیوں کے مغرب سے دھاوا بول دیا۔ چاروں طرف سے گھرنے کی وجہ سے رومی مقابلہ نہ کرپائے۔ تھامس اور ہربیس کو خالد نے دوبدو مقابلوں میں خود قتل کیا۔رومیوں کی تعداد مسلمان حملہ آوروں سے کئی گنا زیادہ تھی اس لیے ہزاروں رومی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے،بے شمار مسلمانوں کی قید میں آگئے۔مرج الدیباج کے معرکے میں خالد کا غنیم کو چہار اطراف سے گھیر کر مارناوہ فوجی طریقہ تھا جسے تیرہوں صدی عیسوی میں منگول فوج نے اپنا principal maneuver بنا لیا۔

۱۷ شعبان ۱۳ھ(۱۵ اکتوبر ۶۳۴ء):ابوعبیدہ بن جراح نے کمانڈر ان چیف بننے کے بعدفوج کا ایک دستہ بیروت کے شمال میں واقع مقام ابو القدس بھیجا جہاں کوئی سالانہ میلہ منعقد ہو رہا تھا ۔ وہاں موجود بھاری بازنطینی عیسائی فوج نے اس چھوٹے سے دستے کو گھیر لیا۔ابوعبیدہ نے فوراً خالد کو اس کی مدد کے لیے بھیجا۔انھوں نے نہ صرف پھنسے ہوئے مسلمان سپاہیوں کو بچایا، بلکہ بے شمار مال غنیمت بھی حاصل کیا۔

[باقی]

________________

B