بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ{۵۹} قَالَ الْمََلَاُ مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ{۶۰} قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ{۶۱} اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنْصَحُ لَکُمْ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ{۶۲} اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَآئَ کُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ{۶۳} فَکَذَّبُوْہُ فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ{۶۴}
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ{۶۵} قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ سَفَاھَۃٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ{۶۶} قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاھَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ{۶۷} اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ{۶۸} اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَآئَ کُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً فَاذْکُرُوْٓا اٰلَآئَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ{۶۹} قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَاللّٰہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَمَاکَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ{۷۰} قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّن رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّغَضَبٌ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْٓ اَسْمَآئٍ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ{۷۱} فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَمَا کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ{۷۲}
وََاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوااللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ قَدْجَآئَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ اٰیَۃً فَذَرُوْھَا تَاْکُلْ فِیْٓ اَرْضِ اللّٰہِ وَ لَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓئٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ{۷۳} وَاذْکُرُوٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَکُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُھُوْلِھَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا فَاذْکُرُوْٓا اٰلَآئَ اللّٰہِ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ{۷۴} قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ{۷۵} قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓااِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ{۷۶} فَعَقَرُوْا النَّاقَۃَ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ وَقَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ{۷۷} فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ{۷۸} فَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَنَصََحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ{۷۹}
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَاسَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ{۸۰} اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَۃً مِّنْ دُوْنِ الِنّسَآئِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ{۸۱} وَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوھُمْ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ{۸۲} فَاَنْجَیْنٰہٗ وَاَھْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ{۸۳} وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ مَّطَرًا فَانْظُرْکَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ{۸۴}
وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ قَدْ جَآئَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ{۸۵} وَلَا تَقْعُدُوْا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِہٖ وَتَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَاذْکُرُوْٓا اِذْکُنْتُمْ قَلِیْلًا فَکَثَّرَکُمْ وَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ{۸۶} وَاِنْ کَانَ طَآئِفَۃٌ مِّنْکُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْٓ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَطَآئِفَۃٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ{۸۷} قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا قَالَ اَوَلَوْکُنَّا کٰرِھِیْنَ{۸۸} قَدِافْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنْھَا وَمَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْھَآ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ{۸۹} وَقَالَ الْمََلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ{۹۰} فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ{۹۱} الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا شُعَیْبًا کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْا شُعَیْبًا کَانُوْا ھُمُ الْخٰسِرِیْنَ{۹۲} فَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ{۹۳}
(تمھاری تاریخ بھی اِنھی حقائق کی گواہی دیتی ہے ۳۹۳؎)۔
ہم نے نوح کو اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ اُس نے اُنھیں دعوت دی کہ میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۳۹۴؎۔ میں تم پر ایک ہول ناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۳۹۵؎۔اُس کی قوم کے بڑوں نے جواب دیا: ہم تو تمھیں صریح گمراہی میں دیکھ رہے ہیں۳۹۶؎ ۔ اُس نے کہا: میری قوم کے لوگو، میں کسی گمراہی میں نہیں ہوں، بلکہ رب العٰلمین کا رسول ہوں، تمھیں اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچا رہا ہوں، تمھاری خیر خواہی کر رہا ہوں اور اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ کیا اِس بات پر تعجب کر رہے ہو کہ تمھارے پاس خود تمھارے اندر کے ایک شخص کے ذریعے سے تمھارے پروردگار کی یاددہانی آئی ہے، اِس لیے کہ تمھیں خبردار کرے اور اِس لیے کہ تم(اللہ سے)ڈرو اور اِس لیے کہ تم پر رحم کیا جائے۳۹۷؎؟ اُنھوں نے پھر بھی اُسے جھٹلا دیا تو ہم نے اُسے اور جو کشتی میں اُس کے ساتھ تھے، اُنھیں نجات دی اور اُن سب لوگوں کو غرق کر دیا جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا۳۹۸؎۔ یقینا وہ(دل و دماغ کے) اندھے تھے۔۵۹ـــــــــــ-۶۴
عاد کی طرف ہم نے(اِسی طرح) اُن کے بھائی ہود کو بھیجا۳۹۹؎ ۔ اُس نے دعوت دی کہ میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔پھر کیا ڈرتے نہیں ہو۴۰۰؎؟ اُس کی قوم کے بڑوں نے جو منکر ہو رہے تھے، (اُسے)جواب دیا: ہم تو یقینا تمھیں حماقت میں مبتلا دیکھتے ہیں اور ہمارا پختہ خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۴۰۱؎۔اُس نے کہا:میری قوم کے لوگو، میں کسی حماقت میں مبتلا نہیں ہوں، بلکہ رب العٰلمین کا رسول ہوں، تمھیں اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور پوری دیانت کے ساتھ تمھاری خیر خواہی کرنے والا ہوں۔کیا اِس بات پر تعجب کر رہے ہو کہ تمھارے پاس خود تمھارے اندر کے ایک شخص کے ذریعے سے تمھارے پروردگارکی یاد دہانی آئی ہے کہ تمھیں خبر دار کرے؟ یاد کرو، جب اُس نے نوح کی قوم کے بعد تمھیں بادشاہی دی اور خوب محکم اور تنو مند کیا۴۰۲؎۔ سو اللہ کی شانوں کو یاد کرو تاکہ فلاح پائو۴۰۳؎۔اُنھوں نے جواب دیا: کیاہمارے پاس اِس لیے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا کی عبادت کریں اور اُنھیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں۴۰۴؎؟یہی بات ہے تو جس عذاب کی دھمکی ہمیں سنا رہے ہو، اُسے لے آؤ، اگر تم سچے ہو۔اُس نے کہا: تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر گندگی آ پڑی اور (اُس کا) غضب ٹوٹ پڑا ۴۰۵؎۔کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمھارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں۴۰۶؎، جن کے لیے خدا نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے۴۰۷؎؟ اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ آخر کار ہم نے اُس کو اور اُنھیں جو اُس کے ساتھ تھے، اپنی رحمت سے بچا لیا او راُن لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔۶۵-۷۲
(اِسی طرح) ثمود۴۰۸؎ کی طرف (ہم نے) اُن کے بھائی صالح کو بھیجا۔اُس نے دعوت دی کہ میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح نشانی آگئی ہے۔ یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمھارے لیے نشانی کے طور پر، لہٰذا اِس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں چرتی پھرے او رکسی برے ارادے سے اِس کو ہاتھ نہ لگانا، ورنہ ایک دردناک عذاب تمھیں آپکڑے گا۴۰۹؎۔یاد کرو، جب قوم عاد کے بعد اللہ نے تمھیں بادشاہی ۴۱۰؎دی اور زمین میں تمکن عطا فرمایا، تم اُس کے میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور پہاڑوں کو گھروں کی صورت میں تراش لیتے ہو۴۱۱؎۔ سو اللہ کی شانوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ مچاتے پھرو۴۱۲؎۔اُس کی قوم کے بڑوں نے جو متکبر ہو چکے تھے، (اپنی قوم کے) اُن زیر دستوں۴۱۳؎ سے جو ایمان لے آئے تھے، کہا:کیا تم سمجھتے ہو کہ صالح اپنے رب کا بھیجا ہوا ہے۴۱۴؎؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہم تو اُس پیغام کو مانتے ہیں جس کے ساتھ اُسے بھیجا گیا ہے۴۱۵؎۔ (اِس پر )اُن متکبروں نے کہا:(لیکن) ہم اُس کے منکر ہیں جس پر تم ایمان لے آئے ہو۔۴۱۶؎ پھر انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں اور پورے تمرد کے ساتھ اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کی ۴۱۷؎اور صالح سے کہہ دیا کہ اگر تم خداکے بھیجے ہوئے ہو تو لے آئو وہ (عذاب) جس کی دھمکی دے رہے ہو۔آخر ایک سخت تھرتھراہٹ ۴۱۸؎نے اُنھیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میںاوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔اُس وقت ۴۱۹؎صالح یہ کہتا ہوا اُنھیں چھوڑ کر چل دیا کہ میری قوم کے لوگو، میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تمھیں پہنچا دیا اور تمھاری بہت خیرخواہی کر دی، مگر تم خیرخواہوں کو پسند نہیںکرتے۴۲۰؎۔۷۳-۷۹
(اِسی طرح) لوط کو بھیجا، جب اُس نے اپنی قوم سے کہا۴۲۱؎:کیا اِس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو۴۲۲؎؟ تم سے پہلے دنیا میں کسی (قوم) نے اِس کا ارتکاب نہیں کیا۴۲۳؎۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔(حقیقت یہ ہے کہ تم بڑے اوندھے )، بلکہ بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔۴۲۴؎مگر اُس کی قوم نے جواب دیا تو یہ دیا کہ اِنھیں اپنی بستی سے نکالو، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۴۲۵؎۔ سو ہم نے اُسے او راُس کے گھر والوں کو بچا لیا۴۲۶؎،اُس کی بیوی کے سوا، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں رہ گئی۔ ۴۲۷؎ اوراُس قوم پر (پتھروں کی) بارش برسا دی۴۲۸؎، پھر دیکھو کہ اُن مجرموں کا کیا انجام ہوا۔۸۰-۸۴
اور مدین۴۲۹؎ کی طرف اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا۔اُس نے دعوت دی کہ میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس ایک واضح حجت آ گئی ہے۴۳۰؎، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے رکھو،لوگوں کو اُن کی چیزیں گھٹا کر نہ دو۴۳۱؎ اور زمین کی اصلاح کے بعد اُس میں فساد برپا نہ کرو۴۳۲؎۔تمھارے حق میں یہی بہتر ہے، اگر تم ایمان لائے ہوئے ہو۔۴۳۳؎اور نہ ہر راستے پر بیٹھو کہ لوگوں کو ڈرانے، ایمان والوں کو خدا کی راہ سے روکنے اور اُس میں عیب ڈھونڈنے لگو۔۴۳۴؎ یاد کرو، جب تم تھوڑے تھے، پھر خدا نے تمھیں بڑھا دیا اور دیکھو کہ اُن لوگوں کا انجام کیا ہوا جو فساد کرنے والے تھے۴۳۵؎۔اگر تم میں سے ایک گروہ اُس چیز پر ایمان لے آیا ہے جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں اور ایک گروہ ایمان نہیں لایا تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے او روہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۴۳۶؎۔اُس کی قوم کے بڑوں نے، جو متکبر ہوچکے تھے، اُس سے کہاکہ اے شعیب، ہم تمھیں او ر(تمھارے) اُن لوگوں کو جو تمھارے ساتھ ایمان لائے ہیں، اپنی اِس بستی سے نکال باہر کریں گے یا تم کو ہماری ملت میں واپس آناہوگا۔ اُس نے جواب دیا: کیا اُس صورت میں بھی کہ ہم (اُس سے) بے زار ہوں؟اگر ہم تمھاری ملت میں لوٹ آئیں، اِس کے بعد کہ اللہ ہمیں اُس سے نجات دے چکا ہے تو (اِس کے معنی یہ ہیں کہ) ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے۴۳۷؎۔ (نہیں)، یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم اُس میں لوٹ آئیں، الّا یہ کہ اللہ ،ہمارا پروردگار ہی چاہے۔ ہمارے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۴۳۸؎۔ ہم نے اللہ پر بھروسا کیا ہے۔ پروردگار، ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے، تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ اُس کی قوم کے بڑوں نے، جو انکار کا فیصلہ کر چکے تھے، (لوگوں کو) تنبیہ کی کہ شعیب کی پیروی کرو گے تو بڑے خسارے میں پڑوگے۔۴۳۹؎ آخر ایک سخت تھرتھراہٹ ۴۴۰؎نے اُنھیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔ جنھوں نے شعیب کو جھٹلایا، وہ ایسے تھے کہ گویا اُس بستی میں کبھی بسے ہی نہیں تھے۔جنھوں نے شعیب کو جھٹلایا، بالآخر وہی نامراد ہوئے۴۴۱؎۔ اُس وقت شعیب یہ کہتا ہوا اُنھیں چھوڑ کر چل دیا کہ میری قوم کے لوگو، میں نے اپنے پروردگار کے پیغامات تمھیں پہنچا دیے اور تمھاری خیرخواہی کر دی۴۴۲؎۔ اب میں منکروں پر افسوس کیا کروں!!۸۵-۹۳
۳۹۳؎ سورہ کے مخاطب چونکہ قریش ہیں، اِس لیے آگے استدلال کے غرض سے اُنھی قوموں کی سرگذشتیں سنائی ہیں جن سے وہ واقف تھے اور اُن کی سرگذشتوں میں سے بھی صرف اتنا حصہ نمایاں کیا ہے جو انذار کے مقصد سے ضروری تھا۔ مدعا یہ ہے کہ عقل و فطرت کے دلائل سے نہیں مانو گے توہمارے پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد تم بھی اُسی انجام کو پہنچ جاؤ گے جس کو تم سے پہلے رسولوں کی قومیں پہنچی ہیں۔
۳۹۴؎ یہی دعوت پیچھے قریش کو دی گئی ہے۔ انبیا علیہم السلام کی تمام جدوجہد کا مقصود اِسی توحید کا قیام تھا۔ وہ اِسی لیے بھیجے گئے کہ خدا کے بندوں کو دوسروں کی بندگی سے چھڑا کر خالص خدا کے بندے بنا دیں۔ قرآن نے سب سے زیادہ تاکید اور وضاحت کے ساتھ اِسی کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ اِس صحیفۂ آسمانی کاآخری باب اپنے مضمون کے لحاظ سے جس سورہ پر ختم ہوا ہے، اُس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو یہی ہدایت فرمائی ہے کہ لوگوں کے سامنے برملا اعلان کردیا جائے کہ اللہ یکتا، یگانہ اور بے ہمتا ہے، سب کے لیے پناہ کی چٹان ہے، وہ نہ باپ ہے نہ بیٹا او رنہ زمین و آسمان میں کوئی اُس کی برابری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ یہ توحید تقاضا کرتی ہے کہ لوگ بالکلیہ اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دیں، اُس کی ذات و صفات اور اُس کے حقوق میں اُس کی یکتائی تسلیم کریں، اُسی سے مدد چاہیں، نعمت ملے تو اُسی کا شکر ادا کریں، مصیبت آئے تو اُسی سے فریاد کریں، بیم و رجا، ہر حال میں اُسی کو پکاریں اور کسی فرشتے ، جن، پیغمبر، ولی یا کسی بھی مخلوق کو کسی پہلو سے اُس کا شریک نہ ٹھیرائیں۔
۳۹۵؎ یہ اُس عذاب سے انذار ہے جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں لازمًا آتا ہے اور اُن کی قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت زمین پر خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک قیامت صغریٰ لوگوں کو اِسی دنیا میں برپا کر کے دکھا دی جاتی ہے تاکہ آخرت کا تصور بھی اُسی معیار پر ثابت کر دیا جائے جس معیار پر سائنسی حقائق معمل(Laboratory) کے تجربات سے ثابت کیے جاتے ہیں۔
۳۹۶؎ اِس لیے کہ تم اُس راستے سے منحرف ہو گئے ہو جس پر ہمارے باپ دادا ہمیشہ سے چلتے آئے ہیں۔ تم اُن کے دین کی تحقیر کر رہے ہو اور مزید یہ کہ ہمیں عذاب کی دھمکیاں بھی سنا رہے ہو۔ یہ صریح گمراہی ہے جس میں تم مبتلا ہو گئے ہو۔
۳۹۷؎ قرآن نے سوال اٹھایا ہے، لیکن جواب نہیں دیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس لیے کہ انداز کلام اظہار حسرت و افسوس کا ہے۔ اِس اسلوب بیان میں یہ بات مضمر ہے کہ اگر تم سوچتے، غرور و انانیت کو راہ نہ دیتے تو یہ چیز تمھارے لیے تعجب اور استکبار کے بجاے ممنونیت اور شکرگزاری کا باعث ہوتی کہ خدا نے تمھارے ہی اندر سے ایک شخص کو تمھیں نجات کی راہ دکھانے کے لیے اٹھایا۔ میں تمھارے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں، میرا ماضی و حاضر اور میرا اخلاق و کردار، سب تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میری زبان تمھاری زبان اور میرا دل تمھاری اپنی فطرت کا ترجمان ہے تو کیا یہ بہتر ہوتا کہ تم پر اتمام حجت کے لیے آسمان سے کوئی فرشتہ اترتا یا یہ بہتر ہے کہ تمھاری اپنی ہی زبان اور تمھارا اپنا ہی دردآشنا دل تم پر گواہی دے؟ اسلوب کلام میں یہ ساری داستان مضمر ہے اور یہ اضمار ہی اِس محل میں تقاضاے بلاغت ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۲۹۵)
۳۹۸؎ اِس سے واضح ہے کہ یہ عذاب اُسی علاقے میں اور اُنھی لوگوں پر آیا جن پر نوح علیہ السلام نے اتمام حجت کیا تھا۔ یہ دجلہ و فرات کے دوآبے کا علاقہ تھا۔چنانچہ آرمینیا کی سرحد پر کوہ اراراط کے نواح میں لوگ اب بھی نوح علیہ السلام کے بعض آثار کی نشان دہی کرتے ہیں۔قرآن میں اِس کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم میں رہے او رپوری دردمندی کے ساتھ اُسے متنبہ کرتے رہے۔ لیکن اِس طویل جدوجہد کے بعد بھی جب قوم نے اُن کی تکذیب کر دی اور اپنے رویے کی اصلاح پر آماد ہ نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ ایک کشتی بنائی جائے۔ یہ قوم کے لیے گویا الٹی میٹم تھا کہ کشتی کی تکمیل کے ساتھ ہی اُس کا پیمانۂ عمر بھی لبریز ہو جائے گا۔ چنانچہ کشتی بن گئی اور ماننے والے اُس میں سوار ہو گئے تو ایک عظیم طوفان ابل پڑا۔ زمین کو حکم دیا گیا کہ اپناسارا پانی اگل دے اور آسمان کو حکم دیا گیا کہ اپناسارا پانی برسا دے۔ پھر جو نشان مقرر کر دیا گیا تھا، پانی اُس پر جا کر ٹھیر گیااور پوری قوم اُس میں غرق ہو گئی، یہاں تک کہ نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان بھی اپنی ہٹ دھرمی کے باعث اُس کی نذر ہو گیا۔ یہ ایک عبرت انگیز منظر تھا۔ طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں۔ موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ پہاڑوں کی طرح موجیں اٹھ رہی تھیں۔ نوح کی کشتی اُن کے تھپیڑوں سے نبرد آزما تھی کہ اتنے میں باپ نے دیکھا کہ سامنے بیٹا حیران و ششدر کھڑا ہے۔ اُس کو دیکھ کر شفقت پدری نے جوش مارا، پکار اٹھے کہ جان پدر، اب بھی موقع ہے، اِن منکروں کو چھوڑ کر کشتی میں سوار ہو جاؤ۔لیکن اِس ہول ناک منظر کو دیکھ کر بھی اُس کی ضد میں کچھ فرق نہیں آیا۔ اُس نے کہا: میں کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا۔ نوح علیہ السلام نے کہا: یہ پانی نہیں، قہر الہٰی ہے۔ اِس سے خدا کے سوا آج کوئی بچانے والا نہیں ہو سکتا۔ یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک ایک موج اٹھی اور بیٹے کو بہا لے گئی۔
۳۹۹؎ عاد عرب کی قدیم ترین قوم ہے۔ یہ سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اِن کا مسکن احقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن اور یمامہ کے درمیان الربع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ عرب کے لٹریچر میں یہ اپنی قدامت کے لیے بھی ضرب المثل ہیں اور اپنی قوت و شوکت کے لیے بھی۔ حضرت ہود اِنھی کے ایک فرد تھے جنھیں رسول کی حیثیت سے اِن کی طرف مبعوث کیا گیا۔ قرآن نے امتنان و احسان کے لیے فرمایا ہے کہ عاد کی طرف ہم نے کسی اجنبی شخص کو نہیں، بلکہ اُنھی کے بھائی ہود کو بھیجا تاکہ اُن پر ہماری حجت ہر لحاظ سے پوری ہو جائے۔
۴۰۰؎ یعنی کیا ڈرتے نہیں ہو کہ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد بھی شرک پر اصرار کرو گے تو اِس کا انجام کیا ہو گا؟
۴۰۱؎ مطلب یہ ہے کہ ہماری یہ شان و شوکت اور ترقی و استحکام دیکھ رہے ہو اور اِس کے باوجود ہمیں عذاب کی وعیدیں سناتے ہو۔ اِس کے معنی اِس کے سوا کیا ہیں کہ خردباختہ ہو چکے ہو اور جھوٹی باتیں سنا کر ہمیں ہراساں کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔
۴۰۲؎ یعنی عقلی لحاظ سے محکم اور جسمانی لحاظ سے تنومند ۔ اِس کے لیے اصل میں ’زَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’خَلْق‘کے معنی یہاں ساخت کے ہیں جو باطنی اور ظاہری ، دونوں طرح کی ہو سکتی ہے۔ عرب کی روایتوں سے بھی اِس کی تصدیق ہوتی ہے کہ قوم عاد دونوں ہی اعتبارات سے بڑی نمایاں تھی۔
۴۰۳؎ یہ جملہ بتا رہا ہے کہ پیچھے جو بات کہی گئی ہے، وہ اپنے اندر امتنان اور تنبیہ، دونوں ہی کے پہلو رکھتی ہے۔
۴۰۴؎ اِس میں غصہ بھی ہے اور طنز بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اِس لیے پیغمبر بن کر کھڑے ہو گئے ہو کہ ہم اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر تمھارے پیرو بن جائیں؟
۴۰۵؎ یعنی فیصلہ ہو گیا کہ کفر و شرک کی اِسی گندگی میں پڑے رہو گے اور اِس کے نتیجے میں خدا کے غضب کے مستحق ٹھیرو گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو تو اب اِس میں دیر نہیں ہے، اِس کو آیا ہی سمجھو، اِس لیے کہ جس ناپاکی و گندگی سے خدا کا غضب بھڑکتا ہے، اُس کی بہت بڑی کھیپ تم نے اپنے اوپر لاد لی ہے۔ ’رِجْس‘ کا اتنا بڑا انبار جمع کر لینے کے بعد اب خدا کے صاعقۂ عذاب کو دور نہ سمجھو۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۲۹۹)
۴۰۶؎ لوگ جن ہستیوں کو معبود بناتے اور اُن سے حاجتیں طلب کرتے ہیں، وہ درحقیقت اُن کے رکھے ہوئے نام ہی ہوتے ہیں جن کے پیچھے کوئی مسمّٰی نہیں ہوتا۔ اپنی طرف سے نام دے کر ایسے ایسے بت تراش لیے جاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے پوری کائنات کا نظم وہی چلا رہے ہیں، جبکہ درحقیقت اُن میں نہ کوئی بارش کا رب ہوتا ہے، نہ ہوا کا، نہ دولت کا، نہ صحت اور تندرستی کا اور نہ کوئی مشکل کشا، گنج بخش، داتا اور غریب نواز ہوتا ہے کہ اُنھیں کچھ دے سکے یا اُن کے کسی کام آ سکے۔
۴۰۷؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ شرک کے حق میں کوئی عقلی یا نقلی یا فطری دلیل نہ کبھی پیش کی جا سکی ہے اور نہ پیش کی جا سکتی ہے۔
۴۰۸؎ یہ عاد کے بقایا میں سے ہیں۔اِسی بنا پر اِنھیںعاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ عرب کی قدیم اقوام میں سے یہ دوسری قوم ہے جس نے عاد کے بعد غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ اِن کا مسکن شمال مغربی عرب کا وہ علاقہ ہے جسے الحجر کہا جاتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ہو سکتا ہے کہ قوم عاد کی تباہی کے وقت جو لوگ عذاب سے محفوظ رہے ہوں، اُنھوں نے جنوب سے شمال مغرب کی طرف ہجرت کی ہو اور پھر حجر میں سکونت اختیار کر لی ہو۔ عاد و ثمود کے اوصاف قرآن میں بھی اور عرب کی روایات میں بھی تقریباً ایک ہی سے بیان ہوئے ہیں۔ بعض شاعر تو اِن دونوںقوموں کا ذکر اِس طرح کرتے ہیں ، گویا اِن کے درمیان کوئی فرق سرے سے ہے ہی نہیں۔ دونوں کے لیڈر ــــقیل اور قدار ــــ جن کے ہاتھوں اِن قوموں پر تباہی آئی،عربی ادب میں ضرب المثل ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بالکل ایک ہی سانچے میںڈھلے ہوئے تھے۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۳۰۰)
۴۰۹؎ یہ قوم کے مطالبۂ عذاب کا جواب ہے کہ خدا کے حکم پر میں نے اپنی اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی نامزد کر دی ہے۔ یہ خدا کی نذر ہے، چنانچہ اِس لحاظ سے اللہ کی اونٹنی ہے۔ تمھارے لیے یہ خدا کے عذاب کی نشانی ہے۔ اِس کو گزند پہنچاؤ گے تو سمجھ لو کہ امان کی دیوار گر گئی۔ اِس کے بعد قہر الٰہی کے سیلاب کو کوئی چیز تمھاری بستیوں میں داخل ہونے سے نہیں روک سکے گی۔
۴۱۰؎ اصل میں لفظ ’خُلَفَآئ‘ استعمال ہواہے۔ یہ جس طرح نائب اور جانشین کے معنی میں آتا ہے، اِسی طرح نیابت اور جانشینی کے مفہوم سے مجرد ہو کر محض صاحب اقتدار کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ سورۂ ص (۳۸) کی آیت ۲۶ میں اِس کی نظیر موجود ہے۔ ہم نے اِسی لحاظ سے اِس کا ترجمہ بادشاہی کیا ہے۔ لفظ کے اِس طرح اپنے معنی کے کسی پہلو سے مجرد ہو کر آنے کی مثالیں عربی زبان میں اور بھی ہیں۔
۴۱۱؎ اپنے اِس فن میں یہ لوگ جس کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اُس کے آثار آج بھی مدائن صالح میں موجود ہیں۔ یہ آثار ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں اور کم و بیش ویسے ہی ہیں، جیسے ہندوستان میں ایلورا، ایجنٹا اور بعض دوسرے مقامات میں پائے جاتے ہیں۔
۴۱۲؎ یعنی اِس ترقی و کمال اور عروج و اقتدار کو خدا کی شان کا ظہور سمجھ کر اُس کا شکر بجا لائو اور اُس کے مقابلے میں تمرد اور سرکشی کا رویہ اختیار نہ کرو۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مادی ترقی کوئی جرم نہیں ہے اور نہ فلک بوس عمارتیں بنانا کسی فساد کی نشانی ہے۔ اِس میں فساد اُس وقت پیدا ہوتا ہے، جب انسان اِن کمالات میں خدا کی شانیں دیکھنے کے بجاے خدا فراموشی کا رویہ اختیار کر لیتا اور خدا کے قائم کردہ حدود سے تجاوز کرکے سرکشی اور تمرد پر اتر آتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ’صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ‘ کی طرح یہی عمارتیں معرفت الٰہی کی نشانی بن جاتی ہیں۔
۴۱۳؎ انبیا علیہم السلام کی دعوت قبول کرنے میں بالعموم غریبوں، ضعیفوں اور دبے ہوئے لوگوں ہی نے سبقت کی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن میں دولت و اقتدار کا غرور نہیں ہوتا کہ قبول حق میں رکاوٹ بن جائے۔
۴۱۴؎ یہ سوال استنکار کی نوعیت کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا فی الواقع اُسے خدا کا رسول سمجھتے ہو؟ اِس کے معنی تو ہیں کہ بالکل ہی بے وقوف ہو گئے ہو۔
۴۱۵؎ یعنی صرف یہی نہیں، بلکہ اُس پیغام کو بھی پورے شرح صدر کے ساتھ مان چکے ہیں جو خدا نے اُس کے ذریعے سے بھیجا ہے اور اب عزم و جزم کے ساتھ اُس کی گواہی دے رہے ہیں۔ ہمارے لیے اِس پیغام کی قوت و حجت ہی کافی تھی۔ہم تمھاری طرح معجزوں اور کرشموں کے منتظر نہیں رہے کہ بدبختی کے اُس مقام تک پہنچ جاتے، جہاں تم کھڑے ہو۔
۴۱۶؎ یہ آخری جھنجھلاہٹ کا اظہار ہے کہ مانتے ہو تو مانتے رہو۔ تمھارے ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ ماننا تو درحقیقت ہمارا ماننا ہے اور ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اِس کا انکار ہی کریں گے۔ ہم اِس شخص کو ہرگز ماننے والے نہیں ہیں۔
۴۱۷؎ اصل میں لفظ ’عَتَوْا‘ آیا ہے اور اُس کے ساتھ ’عَنْ‘کا صلہ ہے۔ اُس سے یہ سرکشی اور سرتابی، دونوں کے مفہوم پرمتضمن ہو گیا ہے۔ اونٹنی کو مارنے کا جرم اگرچہ اُن کے ایک سرکش سردار نے کیا تھا، مگر قرآن نے اُسے پوری قوم کی طرف منسوب کیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ باقی متمردین بھی اِس پر راضی تھے۔ یہ اونٹنی اُن کی سرکشی کو جانچنے کا ایک پیمانہ تھی۔ اِس کے مارنے سے واضح ہو گیا کہ اُنھیں مزید مہلت دی گئی تو اُن کا اگلا ہدف خود حضرت صالح ہوں گے۔
۴۱۸؎ اِس لفظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ زلزلے کا عذاب تھا۔ قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد پر آنے والے عذاب کی طرح یہ بھی رعد و برق کا عذاب تھا جس میں شمال کی باد صرصر کئی دنوں تک مسلط رہی اور بادلوں کی ہول ناک کڑک اور بہرا کر دینے والی چیخوں نے ہر چیز کو ہلا کر رکھ دیا۔ امام حمید الدین فراہی نے سورئہ ذاریات کی تفسیر میں اِس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔
۴۱۹؎ یعنی عذاب سے ذرا پہلے جب قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترتیب بیان میں اِس بات کو عذاب کے ذکر کے بعد کیوں کر دیا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ ترتیب میں یہ تقدیم و تاخیر تقاضاے بلاغت سے ہوئی ہے۔ ارتکاب جرم اور اُس کے نتیجہ کے فوری ظہور کو نمایاں کرنے کے لیے یہاں عذاب کو قتل ناقہ کے ساتھ متصل کر دیا اور حضرت صالح کی ہجرت کے ذکر کوپیچھے کر دیا۔ گویا جوں ہی اُنھوں نے ناقہ کو گزند پہنچا کر خدا کو چیلنج کیا، عذاب آدھمکا۔ عذاب کی یہ سبقت و مبادرت اچھی طرح ظاہر نہ ہوسکتی، اگر اِس بیچ میں کوئی اور بات ذکر میں آجاتی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۰۵)
۴۲۰؎ کسی قوم کے بگاڑ کی یہی وہ آخری حد ہوتی ہے جس کے بعد اُس کی اصلاح کا امکان باقی نہیں رہتا۔ اُس وقت خیرخواہ ہدف ملامت اور بدخواہ اُس کے لیڈر اور ہیرو بن جاتے ہیں۔
۴۲۱؎ حضرت لوط سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اُن کی قوم اُس علاقے میں رہتی تھی جو شام کے جنوب میں عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے اور آج کل شرق اردن کہلاتا ہے۔ بائیبل میں اُن کے سب سے بڑے شہر کا نام سدوم بتایا گیا ہے۔ پیچھے جن پیغمبروں کا ذکر ہوا ہے، اُنھیں قرآن نے ’اَخَاھُمْ ھُوْدًا‘ اور ’اَخَاھُمْ صَالِحًا‘ کے الفاظ سے اُن قوموں کی طرف منسوب فرمایا ہے، مگر لوط علیہ السلام کو اِس طرح منسوب نہیں فرمایا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لمبی مدت سے اُن کے اندر رہ تو رہے تھے، لیکن اُن کے اندر سے نہیں تھے۔ اُن کا تعلق اُس قوم کے ساتھ وہی تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قوم فرعون کے ساتھ تھا۔ آگے اُن کی بیوی کا ذکر جس اسلوب میں ہوا ہے، اُس سے اشارہ نکلتا ہے کہ اُن کی شادی اُسی قوم کے اندر ہوئی تھی اور اِس لحاظ سے وہ اُنھی کے ایک فرد بن چکے تھے۔ قوم لوط کے الفاظ قرآن میں اِسی بنا پر آئے ہیں۔
۴۲۲؎ یہ استفہام اظہار نفرت و کراہت کے لیے ہے اور آیت میں ’الْفَاحِشَۃ‘ کا لفظ بتا رہا ہے کہ بدکاری کی یہ صورت اُس قوم میں اِس درجہ عام تھی کہ متکلم اور مخاطب، دونوں نام لیے بغیر محض حرف تعریف سے سمجھ سکتے تھے کہ اِس سے کیا مراد ہے۔
۴۲۳؎ پہلے جملے کی طرح یہ جملہ بھی اظہار نفرت و کراہت کے لیے ہے اور اسلوب تعجب کا ہے۔ آیت میں ’مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، یہ افراد میں سے کسی فرد کے معنی میں بھی آسکتے ہیں اور قوموں میں سے کسی قوم کے معنی میں بھی۔ یہاں قوم کے لیے ہیں اور استاذ امام کے الفاظ میں مدعا یہ ہے کہ تم سے پہلے کوئی شامت زدہ سوسائٹی ایسی نہیں گزری جس نے اِس غلاظت کو تمھاری طرح اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہو۔ قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس برائی نے اُن کے اندر ایک فیشن اور تہذیبی روایت کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ اِس کے مرتکبین اپنی محافل میں برملا اِس کا اظہار کرتے اور اِس پر کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ دوسرے پیغمبروں کی طرح توحید سے اپنی بات کی ابتدا کرنے کے بجاے لوط علیہ السلام نے سب سے پہلے اِسی پر تنبیہ فرمائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ ایک برائی تو وہ ہوتی ہے ، جو خواہ کتنی ہی سنگین ہو، لیکن وہ انسانی عوارض میں سے ہے اور انسانوں کے اندر پائی جاتی ہے یا پائی جا سکتی ہے، دوسری برائی وہ ہے جس کا گھنونا پن اِس قدر واضح ہے کہ کسی انسان کے اندر عادت کی حیثیت سے اور کسی سوسائٹی کے اندر فیشن کی حیثیت سے اُس کا پایا جانا بغیر اِس کے ممکن نہیں کہ اُس انسان یا اُس سوسائٹی کی فطرت بالکل مسخ ہو گئی ہو۔ جہاں اِس طرح کے لوگوں سے سابقہ ہو، وہاں اصل قابل توجہ چیز وہی برائی ہوتی ہے، دوسری باتیں خواہ کتنی ہی اہمیت رکھنے والی ہوں، سب ثانوی درجے میں آجاتی ہیں۔ آپ ایک شخص کے پاس اُس کی اصلاح کی غرض سے جائیں اور دیکھیں کہ وہ کھڑا ہوا غلیظ کھا رہا ہے تو آپ اُس کو ایمان و اسلام کی تلقین کریں گے یا سب سے پہلے اُس کی یہ عبرت انگیز حالت آپ کو متوجہ کرے گی؟ حضرت لوط علیہ السلام کو اِسی صورت حال سے سابقہ پیش آیا۔اُن کی قوم کے اندر شرک و کفر کی برائی بھی موجود تھی اور دوسری تمام برائیاں بھی، جو شرک و کفر کے لوازم میں سے ہیں، موجود تھیں، لیکن جن کی فطرت اتنی اوندھی ہو گئی ہو کہ مرد مردوں ہی کو شہوت رانی کا محل بنائے ہوئے ہوں ، اُن کو تو سب سے پہلے اِس غلاظت کی دلدل سے نکالنے کی ضرورت تھی، اُن سے کوئی دوسری بات کرنے کا مرحلہ تو بہرحال اِس کے بعد ہی آ سکتا تھا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۰۷)
۴۲۴؎ یہ تیسرا جملہ ہے جس سے لوط علیہ السلام نے اپنی نفرت و کراہت اور قوم کی دیوثیت پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے اِس مقصد کے لیے زن و مرد کے جوڑے پیدا کیے تھے۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر کس اوندھی فطرت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ پھر لڑکے تو لڑکے، تمھارے مرد تک اِسی لعنت میں گرفتار ہیں۔ یہ کیسا فساد طبیعت ہے جس نے تمھیں اِس مرض خبیث میں مبتلا کر دیا ہے؟ اِس قدر شدید نفرت و کراہت اور اظہار تعجب کی وجہ یہ ہے کہ زنا اپنے تمام مفاسد کے باوجود نفس انسانی کی بنیادی ترکیب میں کوئی خلل پیدا نہیں کرتا، لیکن یہ بیماری لاحق ہو جائے تو اِسی ترکیب میں خلل عظیم برپا کر دیتی ہے۔
۴۲۵؎ یہ کسی معاشرے کے بگاڑ کی آخری حد ہے جس تک پہنچ جانے کے بعد برائی تہذیب اور فیشن کا تقاضا اور نیکی باعث طعن بن جاتی ہے۔ لوگ یہ جاننے کے باوجود کہ پاکیزگی کیا ہے، اُسے اپنے اندر برداشت نہیں کرتے اور اُس کے علم برداروں کو اپنی بستیوں سے نکال پھینکنا چاہتے ہیں تاکہ جس طرح اُنھوں نے کپڑے اتار دیے ہیں، باقی سب بھی ننگے ہو جائیں اور کوئی یہ احساس دلانے والا نہ ہو کہ لباس بھی کوئی چیز ہوتی ہے جسے انسان کبھی پہنا کرتے تھے۔
۴۲۶؎ پیچھے ’اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ کچھ ایمان والے بھی تھے، مگر یہ آیت بتاتی ہے کہ یہ ایمان والے بھی اُن کے اہل و عیال ہی تھے۔ اُن سے باہر کا کوئی شخص اُن پر ایمان نہیں لایا۔
۴۲۷؎ یہ خدا کے بے لاگ انصاف کا اظہار ہے۔ لوط علیہ السلام کی بیوی غالباً اپنی قوم اور خاندان کی عصبیت کے باعث حق کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئی تو پیغمبر کی بیوی ہونا اُس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہو سکا۔ حضرت نوح کے بیٹے اور حضرت ابراہیم کے باپ کی طرح وہ بھی اُسی انجام کو پہنچ گئی جو اُس کی قوم کے لیے مقرر ہو چکا تھا۔
۴۲۸؎ پیغمبروں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کی قومیں بالعموم کنکر پتھر برسانے والی آندھی سے تباہ کی گئی ہیں۔ قرآن نے دوسری جگہ اِسے ’حَاصِب‘سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اُسی کا بیان ہے۔
۴۲۹؎ یہ بستی ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مدیان کے نام پر مدین یا مدیان کہلاتی تھی، جو اُن کی تیسری بیوی قطورا کے بطن سے تھے۔ اِس میں زیادہ تر اُنھی کی نسل آباد تھی۔ اِس کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا، مگر اِس کا کچھ سلسلہ جزیرہ نماے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی پھیلا ہوا تھا۔ اُس زمانے کی دو بڑی تجارتی شاہ راہیں اِسی علاقے سے گزرتی تھیں، اِس وجہ سے مدین کے لوگوں نے بھی تجارت میںبہت ترقی کر لی تھی۔
۴۳۰؎ یعنی خدا کے پیغمبر کی دعوت جو اپنے ساتھ خدا کی معیت کے ناقابل تردید شواہد لے کر آتی ہے۔ اِسے واضح حجت اِسی بنا پر کہا ہے۔
۴۳۱؎ یہ چونکہ تجارت پیشہ قوم تھی، اِس لیے اِس کے باطنی فساد کا ظہور ناپ تول میں خیانت کی صورت میں بھی ہوا ۔ یہ اِس بات کی علامت تھی کہ پوری قوم کے اندر عدل و قسط کا تصور مختل ہو چکا اور خدا کے قائم بالقسط ہونے کا عقیدہ باقی نہیں رہا۔
۴۳۲؎ یعنی خدا کے مقابلے میں سرکشی اور تمرد اختیار نہ کرو، جبکہ رسولوں کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد خدا کی زمین کو یہ رویہ اختیار کرنے والوں سے کئی مرتبہ پاک کرکے اُس کی اصلاح کی جا چکی ہے۔
۴۳۳؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ مدین کے لوگ نہ صرف یہ کہ حضرت ابراہیم کے خاندان سے نسبت رکھتے تھے، بلکہ نبیوں کی تعلیم کے حامل ہونے کے مدعی بھی تھے۔ یہ ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم تھی اور شعیب علیہ السلام کی بعثت کے وقت اِس کی حالت وہی تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔
۴۳۴؎ یہ اُن سرگرمیوں کی طرف اشارہ ہے جو اُس قوم کے اشرار شعیب علیہ السلام کے ساتھیوں کو ڈرانے دھمکانے اور ایمان کی راہ سے روکنے کے لیے اختیار کیے ہوئے تھے۔
۴۳۵؎ یعنی خدا کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرو اور پیغمبر کی دعوت کے جواب میں وہ رویہ اختیار نہ کرو جو تم سے پہلی قوموں نے اختیار کیا تھا۔ اُن کا انجام پیش نظر رکھو کہ جب وہ خدا اور اُس کے رسولوں کے مقابلے میں سرکشی پر اتر آئے تو کس طرح تباہ و برباد کر دیے گئے۔
۴۳۶؎ مطلب یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ ایمان لے آئے ہیں اور کچھ نہیں لائے تو کیا بعید ہے کہ جو ایمان نہیں لائے، اُن کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے اور وہ ایمان کی نعمت سے بہرہ یاب ہو جائیں۔ لہٰذاعذاب کے لیے جلدی نہ مچائو۔ تمھیں یہ مہلت اِسی توقع کے پیش نظر ملی ہوئی ہے۔ پیغمبر کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو ہر حال میں صادر ہونا ہے۔ ذرا صبر کرو، ابھی کچھ بلونے اور پھٹکنے کا کام باقی ہے۔ یہ ہو جائے گا تو خدا کا فیصلہ بھی اپنے وقت پر اور ٹھیک انصاف کے ساتھ صادر ہو جائے گا۔
۴۳۷؎ یعنی اِس وقت جو کچھ کہہ رہے اور جن حقائق پر اپنے ایمان کا اظہار کر رہے ہیں، وہ محض جھوٹ اور افترا ہے۔ ہم تمھاری ملت کی طرف لوٹتے ہیں تو اِس کے معنی یہی ہوں گے ۔ حالاں کہ جھوٹ اور افترا کا مجموعہ تمھاری یہ ملت ہے۔ حق و صداقت کو چھوڑ کر ہم اِس کی طرف کیسے لوٹ سکتے ہیں۔ ہم تو آخری درجے میں اِس سے بے زار ہیں۔ شعیب علیہ السلام نے یہ جواب اپنے ساتھیوں کی طرف سے بھی دیا ہے، اِس لیے فرمایا ہے کہ ’بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنْھَا‘ ورنہ انبیا علیہم السلام تو بعثت سے پہلے بھی ہدایت فطرت پر ہوتے ہیں۔
۴۳۸؎ یہ تفویض الی اللہ کے جملے ہیں۔ بندۂ مومن عزم و جزم کے ساتھ کسی فیصلے کا اظہار تو کر سکتا ہے ، مگر اِس حقیقت سے کبھی غافل نہیں ہو سکتا کہ خدا کی مشیت ہر چیز پر غالب ہے۔ اُس کا علم ماضی، حال اور مستقبل کے تمام معاملات پر حاوی ہے۔ صرف وہی جانتا ہے کہ کس کے لیے کیا مقدر ہے اور کس کا انجام کیا ہونا ہے۔ لہٰذا اُس کے نیک ارادوں کا پوراہونا بھی خدا کی مشیت پر موقوف ہے۔ وہ توفیق بخشے گا تو کامیابی حاصل ہو گی، ورنہ ہر شخص ناکام رہ جائے گا۔
۴۳۹؎ اِس میں تنبیہ و تہدید بھی ہے اور ہمدردی کی نمایش بھی۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے نیک و بد تمھیں سمجھا دیا ہے۔ اِس کے بعد بھی نہیں مانتے ہو تو قوم کے زعما اور لیڈروں کو چھوڑ کر اِس شخص کی پیروی کے نتائج عنقریب بھگت لو گے۔
۴۴۰؎ یہ مجرد عذاب کی تعبیر ہے۔ اِس کی تفصیل ہم پیچھے قوم صالح کی سرگذشت میں بیان کر چکے ہیں۔
۴۴۱؎ یہ عذاب کا نتیجہ بیان ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس کے دونوں فقروں میں اُن دونوں دھمکیوں کی طرف تلمیح ہے جو قوم شعیب علیہ السلام کے کفار نے حضرت شعیب علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں کو دی تھیں۔ اُنھوں نے دھمکی دی تھی کہ ہم تم کو اپنی بستی سے نکال کر چھوڑیں گے۔ اِس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خود اِس دیار سے اِس طرح مٹے: گویا کہ اِن تلوں میںکبھی تیل ہی نہ تھا۔ اُنھوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھیوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر تم اِس شخص کی پیروی سے دست کش نہ ہوئے تو بڑے خسارے میں پڑو گے۔ اِس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جنھوں نے شعیب کو جھٹلایا، وہی خسارے میں پڑے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۳۱۴)
۴۴۲؎ یہی مضمون اوپر قوم صالح کی سرگذشت میں بھی گزر چکا ہے۔ ہم نے وہاں اِس کی وضاحت کر دی ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ