[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
آثار قدیمہ کی کھدائی سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ اس شادی سے بلقیس کے یہاں جو لڑکا ہوا، علامہ عبداللہ یوسف علی نے اس کا نام Mengelek لکھا ہے اور کہا ہے کہ اس نے اپنی ماں سے مل کر حبشہ (Abyssinia) کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ عورت کے سیاسی کردار اور اس کی حکمرانی کے بارے میں یہ قطعی دلیل ہے۔
قرآن حکیم میں حضرت مریم کی پیدایش کا ذکر سورۂ آل عمران (۳) کی تین آیات (۳۵۔۳۷) میں کیا ہے۔ ارشاد ہے:
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ.(۳:۳۵)’’جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار، جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے، میں اس کو تیری نذر کرتی ہوں، اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھوں گی۔ تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما۔ تو خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
اس عمران کا پورا نام عمران بن ماثان اور ان کی بیوی کا نام حنّۃ بنت فاقوذ ہے۔ لاطینی میں یہ Anna اور انگریزی میں Anne ہے۔ وہ حضرت زکریا کی بیوی ایشاع بنت فاقوذ کی بہن تھیں۔ انگریزی میں انھیں Elisabeth کہا جاتا ہے۔ اس نذر میں لڑکے کے بارے میں حسن طلب ہے، کیونکہ بیت المقدس کی خدمت کے لیے لڑکوں ہی کو وقف کیا جاتا تھا اور لڑکی کو اس قابل نہ سمجھا جاتا تھا۔
جب عمران کی بیوی نے لڑکی کو جنم دیا تو انھوں نے کہا: ’’میرے پروردگار، میرے تو لڑکی ہوئی ہے‘‘۔ یہ الفاظ حسرت و غم کی وجہ سے اس کے منہ سے نکلے۔ انھیں اس بات کا ڈر تھا کہ اب منت کیسے پوری ہو گی۔ اللہ مریم کی والدہ کے حسرت و یاس بھرے الفاظ کے جواب میں فرماتا ہے کہ افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس نے جو بھی جنا ہے، اللہ اسے بہتر جانتا ہے۔ یہ بات اللہ نے مولود کی عظمت و شان بیان کرنے کے لیے کہی ہے، یعنی وہ اس مولود سے بہت بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ وہ اسے دنیا جہاں کے لیے نشانی بنانا چاہتا ہے۔
اگلا جملہ بھی اللہ کا قول ہے: ’لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی‘ (وہ لڑکا جو تیرے ذہن میں ہے، اس لڑکی کی طرح نہیں)۔ یعنی جس لڑکے کی تمنا اور طلب تو نے کی تھی، وہ اس لڑکی کے مانند نہیں جو تجھے عطا کی گئی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ اردو کے اکثر مترجمین نے اپنے ذہنی پس منظر کی وجہ سے اس جملے کا غلط ترجمہ کیا ہے۔ صرف مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا عبدالماجد دریا بادی نے صحیح ترجمہ کیا ہے۔ علم بیان میں مشبہ اور مشبہ بہ کے قاعدے کے مطابق یہ ترجمہ کہ ’’لڑکا لڑکی نہیں ہوتا‘‘، قطعی غلط ہے۔ امام زمخشری نے اس پر خوب صورت بحث کی ہے۔ آیت مبارکہ کا یہ ٹکڑااس بارے میں نص قطعی ہے کہ عورت اور مرد میں وجہ فضیلت حسن نہیں، بلکہ ذاتی کردار ہے۔
اللہ فرماتا ہے: مریم کے رب نے مریم کو قبول کیا اور خوب قبول کیا اور اچھے طریقے سے اس کی نشوونما کی اور زکریا کو ان کا کفیل بنایا۔ گویا مریم وہ پہلی خاتون ہیں جنھیں بیت المقدس کی خدمت کے لیے قبول کیا گیا اور انھوں نے رسم خانقاہیت کی خود ساختہ زنجیروں کو توڑا۔ حسن تربیت کے پیش نظر ایک نبی کو ان کا سرپرست بنایا۔ وہ عفت و عظمت اور اطاعت و فرماں برداری جیسی صفات سے متصف ہو کر پروان چڑھیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاِذْ قَالَتِ الْمَآٰءِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَطَھَّرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ.(آل عمران ۳: ۲۴)’’جب فرشتوں نے کہا: اے مریم، بے شک اللہ نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور ساری دنیاکی عورتوں پر تجھے فضیلت دی ہے۔‘‘
فرشتے براہ راست حضرت مریم سے ہم کلام ہوئے۔ کلام حضرت جبرائیل نے کیا۔ جمع کا صیغہ اس لیے استعمال ہوا کہ وہ جب بھی نزول کرتے ہیں، ان کے ہمراہ فرشتوں کی جماعت ہوتی ہے۔ فرشتوں نے نام لے کر حضرت مریم کو پکارا تا کہ وہ اجنبیت محسوس نہ کریں اور جو وحی ان کی طرف کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے آمادہ ہو جائیں۔
لفظ ’اِصْطِفَاء‘ کا تکرار تاکید اور مبالغہ پر دلالت کرتا ہے۔ پہلا ’اِصْطِفَاء‘ (انتخاب) آغاز عمر میں ان پر کی گئی نعمتوں کی شکل میں ہوا۔ لڑکی ہونے کے باوصف ان کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے اللہ نے قبول کیا۔ اللہ ان سے ہم کلام ہوا اور ان کو ہر قسم کے خلقی عیوب سے پاک کیا۔ دوسرا انتخاب اس وقت ہوا جب ان کے یہاں حضرت عیسیٰ بن باپ پیدا ہوئے۔ وہ اور ان کا بیٹا ساری دنیا کے لیے ایک آیت (معجزہ) ہے۔ اللہ نے اس عظیم امانت (حکمۃ اللہ) سپرد کرنے کے لیے تمام دنیا کی عورتوں میں سے مریم کا انتخاب کیا۔ یہ ایسا شرف ہے جس میں ان کا کوئی شریک نہیں۔ قرآن نے عصمت کی حفاظت کے دو نمونے پیش کیے ہیں۔ مردوں میں حضرت یوسف اور عورتوں میں حضرت مریم۔ سورۂ تحریم (۶۶: ۱۲) میں اللہ کا قول ہے ’’اور (مومنوں کے لیے مثال بیان کی) عمران کی بیٹی مریم کی جنھوں نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا۔‘‘ یعنی عفت و عصمت میں وہ مومن عورتوں کے لیے بھی ضرب المثل ہیں اور مومن مردوں کے لیے بھی۔ عرب ’المریم من النساء‘ (عورتوں میں مریم) اس عورت کو کہتے ہیں جو نہایت پاک باز ہو اور مردوں سے جرأت سے بات کر سکتی ہو۔
قرآن مجیدمیں ’اِصْطِفَاء‘ کی اصطلاح انبیا کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ چنانچہ صاحب ’’البحر المحیط‘‘ نے (۲/ ۴۷۶ میں) اس آیت کی تفسیر میں ایک قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد نبوت ہے، کیونکہ فرشتے ان کے سامنے ظاہر ہوئے اور ان کا نام لے کر اللہ کا پیغام پہنچایا۔ امام ابن حزم (حوالہ پیچھے دیا جا چکا ہے) فرماتے ہیں:
’’اسی طرح ہم دیکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ جبرئیل کو مریم کے پاس بھیجتا ہے اور ان کو مخاطب کر کے فرشتہ کہتا ہے: ’’میں صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں‘‘۔ یہ حقیقی وحی اور اللہ کی طرف سے ان کی طرف حقیقی پیغام کے ذریعے حقیقی نبوت نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اس آیت میں صاف طور پر نہیں کہا گیا کہ مریم کے یہاں جبرئیل اللہ کا پیغام لے کر آئے نیز جب زکریا جب مریم کے حجرے میں آتے تو ان کے پاس غیب سے اللہ کا لایا ہوا رزق پاتے ...........۔ علاوہ ازیں حضرت مریم کی نبوت پر ایک اور دلیل یہ بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ اللہ نے سورۂ کھٰیعص میں ان کا ذکر انبیا علیہم السلام کے زمرہ میں کیا ہے اور اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’نبیوں میں سے وہ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا آدم کی نسل سے اور ان سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا اور ابراہیم اور اسرائیل کی نسل سے اور ان میں سے جنھیں ہم نے ہدایت دی اور چن لیا۔‘‘(۱۹: ۵۸) آیت کے اس مفہوم میں مریم کی تخصیص کر کے ان کو انبیاء کی فہرست سے الگ کر دینا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔‘‘
امام موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت مریم کے لیے ’صدیقۃ‘ کا لفظ اس طرح مانع نبوت نہیں، جس طرح حضرت یوسف کے لیے ’صدیق‘ کا لفظ۔
اس کے علاوہ امام صاحب نے مسلم کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جو حضرت ابو عیسیٰ سے مروی ہے:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:کمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا مریم بنت عمران وآسیۃ امرأۃ فرعون.’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں میں سے بہت سے کامل ہوئے ہیں، مگر عورتوں میں سے صرف مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ۔‘‘
حدیث میں جس کمال کا ذکر ہے، اس سے مراد نبوت ہے۔ امام قرطبی نے اپنی تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں آل عمران (۳) کی آیت ۴۲ کے تحت اس راے کی تائید کی ہے۔ مردوں میں سے کامل چند انبیا ہوئے ہیں جن کو دوسرے انبیاء پر فضیلت حاصل ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ اسی طرح عورتوں میں وہی درجۂ کمال کو پہنچی ہیں جن کا ذکر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کیا ہے۔
قرآن حکیم نے حضرت عیسیٰ کی پیدایش کو جس انداز میں پیش کیا ہے، اس میں ایک طرف تو حضرت مریم کے مرتبہ و مقام کا پتا چلتا ہے اور دوسری طرف معلوم ہوتا ہے کہ وہ مضبوط شخصیت تھیں جنھوں نے جرأت کے ساتھ معاشرے کے طعنوں کا سامنا کیا۔ حضرت عیسیٰ کی پیدایش کا ذکر سورۂ آل عمران (۳: ۴۴)، سورۂ مریم (۱۹: ۲۶)، سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۰) اور سورۂ مومنون (۲۳: ۵۰) میں ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آل عمران، سورۂ مریم اور سورۂ انبیاء میں حضرت مریم اور حضرت زکریا کا قصہ ایک ساتھ بیان ہوا ہے، دونوں قصوں میں خارق عادت ہونے کی قدر مشترک ہے۔ حضرت زکریا نے جب حضرت مریم سے پوچھا کہ یہ رزق تمھارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: اللہ کے ہاں سے، یہ بات سن کر ان کے دل میں بچے کی تمنا پیدا ہوئی جس کے لیے انھوں نے اپنے رب کو پکارا، دوسری اہم بات یہ ہے کہ سورۂ آل عمران، سورۂ مریم اور سورۂ انبیاء میں حضرت مریم اور ا ن کے بیٹے کا ذکر دیگر انبیاء کے ساتھ ہوا ہے۔ آل عمران میں حضرت آدم، حضرت نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران کے انتخاب کے بعد حضرت مریم کی پیدایش کا ذکر ہے۔ سورۂ مریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ حضرت زکریا کے قصے کے بعد مریم کا قصہ کی اس کتاب میں ذکر کریں۔ خطاب کا انداز بالکل وہ ہے جو حضرت ابراہیم، موسیٰ، اسماعیل اور ادریس علیہم السلام کے لیے اختیار کیا گیا ہے اور آخر میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ ان نبیوں میں سے ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا۔ آدم کی نسل سے اور ان لوگوں کی نسل سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا۔ نیز ابراہیم اور اسرائیل کی نسل سے اور یہ سب ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں ہم نے راہ راست دکھائی اور منتخب کر لیا (مریم ۱۹: ۵۸)۔
سورۂ مریم میں اللہ کا قول ہے:
فَاَرْسَلْنَآ اِلَےْھَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّا.(۱۹: ۱۷)’’ہم نے ان کی طرف اپنی روح (جبرئیل امین) کو بھیجا تو وہ ان کے سامنے پورے مرد کی شکل بن گیا۔‘‘
ایسی شکل میں جبرئیل کا سامنے آنا ان کی عفت کی آزمایش تھی۔ فرشتے کو دیکھ کر مریم کہنے لگیں: ’’اگر تو متقی ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں‘‘۔ وہ جانتی تھیں کہ اللہ کی پناہ کا اثر اسی پر ہو سکتاہے جو صاحب تقویٰ ہو۔ وہ اللہ سے پناہ مانگتی ہیں اور اجنبی کے اندر تقویٰ کے جذبات ابھارتی ہیں۔ ایک نیک اور کنواری لڑکی جو حضرت زکریا کی زیرتربیت تھی، ایک صحت مند مرد کو دیکھ کر اس کے شرم و حیا کا کیا عالم ہو گا۔ ایک ایسا اجنبی جس کے بارے میں ابھی تک ان کو یقین نہ تھا کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا ہے۔ فرشتے نے ان کی حیرانی دور کرنے کے لیے کہا: ’’میں تمھارے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں‘‘۔ فرشتے کی بات سن کر مریم کہنے لگیں: ’’اے میرے رب، میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا؟ مجھے تو کسی بندہ بشر نے چھوا تک نہیں‘‘۔ حضرت مریم اس بات کا تصور بھی نہ کر سکتی تھیں کہ لڑکا مرد اور عورت کے ملاپ کے بغیر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اس لڑکی کے مانند، جس کی عزت خطرے میں ہو، ہمت اور جرأت سے کام لے کر یہ سوال کرتی ہے کہ نہ مجھے بشر نے چھوا ہے اور نہ میں بدکار ہوں۔ دو ہی طریقے ہیں جن سے بچہ پیدا ہوتا ہے: مس بشر (نکاح کا کنایہ) سے یا بدکاری سے۔ اس لیے انھوں نے دونوں سے انکار کیا۔ یہ اسلوب تفخیم کے بعد تخصیص کا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی عصمت پر کوئی داغ نہ آئے۔ اس پہلو کی طرف توجہ دلانے کے لیے دوسری نفی میں ’کان‘ استعمال ہوا ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ اس مقام پر ’بغاء‘ (بدکاری) کی نفی لازم تھی۔ وہ بتانا یہ چاہتی تھیں کہ ان موانع کے ہوتے ہوئے بچے کا وجود ناممکن ہے۔ انکار کا اعادہ ان سخت معاشرتی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا ہے جو بن بیاہی لڑکی کو بچے کی پیدایش کی صورت میں پیش آتے ہیں۔ اس لیے پہلی نفی کے بعد ’بغاء‘ (بدکاری) کا ذکر علیحدہ کیا گیا ہے۔ مریم کے اس سوال پر فرشتے نے کہا: ’’یونہی ہو گا تیرا پروردگار کہتا ہے کہ یہ میرے لیے آسان ہے تاکہ اس کو لوگوں کے لیے اپنی طرف سے نشانی اور رحمت بناؤں اور اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہے‘‘۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ کی پیدایش کے دو مقصد تھے: ایک یہ کہ ان کی معجزانہ ولادت لوگوں کے ذہن میں اللہ کے ارادے اور اس کی قدرت کو راسخ کرکے انھیں پھر سے اللہ کے راستے پر ڈال دے۔ دوسرے یہ کہ وہ توبہ کرنے والوں کے لیے رحمت اور تسکین کا باعث بنیں۔ یہاں حضرت جبرائیل اور حضرت مریم کے درمیان مکالمہ انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔
’’پھراس لڑکے کا حمل ٹھہر گیا اور مریم اس کو لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں‘‘ (۱۹: ۲۲)۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی راے میں دوردراز جگہ سے مراد ناصرہ ہے جو یروشلم کے شمال مشرق میں ہے۔ سورۂ انبیاء (۲۰: ۹) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۱۲) میں اللہ کا قول ہے کہ ہم نے ان کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ یہ نفخۂ الٰہی ہے جس نے تولیدی انڈے میں جان ڈال دی۔ نفخہ نے مادہ منویہ کا رول ادا کیا جو اپنی طبعی رفتار چل کر بچے کی شکل اختیار کرگیا۔
نفخہ کے نتیجے میں حضرت عیسیٰ کی پیدایش رحم مادر سے ہوئی، مدت حمل بھی طبعی تھی، یہاں تک کہ جب یہ مدت ختم ہوئی اور حضرت مریم نے درد زہ محسوس کیا تو کھجور کے تنے کے پاس آ گئیں اور اس پر ٹیک لگا لی تاکہ وضع حمل میں آسانی ہو اور اوٹ کے طور پر بھی استعمال ہو۔ اب ان کو ذہنی کرب کے ساتھ جسمانی کرب کا بھی سامنا تھا۔ ایک تن تنہا کنواری لڑکی جو پہلی بار اس تجربے سے گزر رہی تھی جس کے بارے میں وہ بے خبر تھی۔ وہاں کوئی مونس و غم خوار نہ تھا۔ اجنبیت اور قوم کے سوال و جواب کا ڈر سوسائٹی میں بدنامی کا خوف چنانچہ ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ’’کاش، میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور بھولی بسری ہو گئی ہوتی‘‘۔ یہ ان کے اندرونی احساسات کی صحیح تعبیر تھی۔ اس وقت ان کے نیچے کی جانب فرشتے نے ان کو آواز دی کہ غم نہ کر تیرے پروردگار نے تمھارے لیے نیچے ایک چشمہ پیدا کر دیا ہے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت مریم ایک ٹیلے پر تھیں جہاں کھجور کا درخت تھا۔ موسم سرد تھا، تنا خشک تھا۔ ارشاد ہوتا ہے:
’’اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ، تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے اللہ کے لیے روزے کی منت مانی ہوئی ہے، آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہیں کروں گی۔‘‘ (مریم ۱۹: ۲۵۔۲۶)
سب باتیں معمول سے ہٹ کر ہو رہی ہیں۔ چشمہ اور کھجوریں صرف کھانے پینے کے لحاظ سے وجہ تسکین نہ تھیں، بلکہ یہ دونوں معجزے یہ ثبوت دے رہے تھے کہ مریم پاک باز ہیں اور ان کا کردار شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اللہ تعالیٰ مریم کو تسلی دیتا ہے کہ جس طرح وہ اسباب کے بغیر پانی اور کھجور کو وجود میں لا سکتا ہے، بالکل اسی طرح وہ بغیر باپ کے بچہ بھی پیدا کر سکتا ہے اور وہ آپ کا دامن ان وسوسوں سے صاف کر سکتا ہے جو رسم و رواج کے اسیر لوگوں کے دل میں کھٹک رہے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس مقام پر بڑی خوب صورت بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی اس مومنہ اور قانتہ بندی کے لیے وہ شانیں دکھائیں جو پوری تاریخ انسانی میں صرف اسی کے لیے ظاہر ہوئیں۔ کوئی اور اس میں اس کا شریک و سہیم نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۴/ ۶۴۶)
یہ سب اس لیے کہ اللہ نے مریم اور ان کے بیٹے کو لیے ایک علامت (آیت) بنانا تھا۔
’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ کا محاورہ قرآن حکیم میں حضرت موسیٰ کی والدہ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کو ممتا کے جذبات کا کس قدر خیال ہے۔
اللہ قدم قدم پر مریم کی رہنمائی کرتا ہے اور فرماتا ہے اگر تم کسی آدمی کو دیکھو، یعنی اگر تمھیں سوسائٹی کا سامنا کرنا پڑے تو کہنا کہ میں نے اللہ کے لیے لوگوں سے بات نہ کرنے کی منت مانی ہوئی ہے، اس سے لوگوں کو پتا چل جائے گا کہ یہ سب معجزہ ہے اور مریم کادامن پاک ہے۔ حضرت مریم کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہ تھا کہ اس عمل میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ ایسا ثبوت درکار تھا جس سے سوسائٹی مطمئن ہو جائے کہ وہ بے گناہ ہیں۔ اس بات کے لیے حضرت عیسیٰ کا معجزانہ کلام ان کے اپنے کلام سے بڑھ کر تہمت کے رد کی قدرت رکھتا تھا۔ یہ ماں اور بیٹے، دونوں کا معجزہ تھا۔
’’پھر وہ اسے اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں، وہ کہنے لگے کہ مریم، یہ تو تو نے برا کام کیا، اے ہارون کی بہن، نہ تو تیرا باپ بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔‘‘
یہ حضرت مریم کا کڑا امتحان تھا۔ ذرا اس دہشت کا تصور کیجیے جو بچہ ان کی گود میں دیکھ کر ان کی قوم پر طاری ہوئی ہو گی۔ وہ کون لوگ تھے، حضرت ہارون کی نسل کے پیشہ ور کاہن۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کی پاک باز بیٹی جو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف تھی، اپنی گود میں بچہ اٹھائے ہوئے تھی۔ کہنے لگے: تو نے تو بری حرکت کی ہے، تیری نسبت تو ہارون نبی سے ہے۔ تیرے ماں باپ تو ایسے لوگ نہ تھے۔ تو نے اپنی نسل کو بدنام کر دیا ہے۔ تو مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کیا، یعنی میری طرف سے وہ جواب دے گا۔ وہ اور کر بھی کیا سکتی تھیں۔ اگر وہ کوئی توجیہ پیش کرتیں تو کیا وہ لوگ غیظ و غضب کے عالم میں اسے قبول کرتے؟ ایک کنواری لڑکی بچہ اٹھائے ان کے سامنے کھڑی ہے اور اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے، گویا وہ ان کا مذاق اڑا رہی ہے۔ یہ دیکھ کر انھوں نے کیا کیا پیچ و تاب نہ کھائے ہوں گے۔ روایت ہے کہ انھوں نے انھیں سنگ سار کرنے کا ارادہ کیا، مگر حضرت عیسیٰ اپنی ماں کی مدد کو آئے، ان کا دفاع کیا اور ان کی بے گناہی کو ثابت کیا۔ وہ بول اٹھے: ’’کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے‘‘ (۱۹: ۳۰)۔ ایک شیرخوار بچے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر قوم کو یقین ہو گیا کہ مریم کا دامن ہر قسم کی برائی سے پاک ہے اور اس بچے کی پیدایش یقیناًاللہ کی جانب سے ایک معجزہ ہے۔
ایک نبی اپنی ماں کی وفاداری کا دم بھرتا اور کہتا ہے:
’’مجھے اللہ نے اپنی ماں کا فرماں بردار بنایا ہے اور سرکش و بدبخت نہیں بنایا۔‘‘ (مریم ۱۹: ۳۲)
آیت کے اس ٹکڑے سے ایک طرف تو حضرت مریم کا مرتبہ و مقام واضح ہوتا ہے تو دوسری طرف ان کی براء ت کا اشارہ ملتا ہے، وگرنہ ایک نبی اپنی ماں کی وفاداری کا کیسے دم بھرتا؟
جس قدر تفصیل سے حضرت مریم کا ذکر قرآن میں ملتا ہے کسی اور خاتون کا نہیں ملتا، کیونکہ ان کو دنیا جہاں کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ ان کا ذکر سورۂ آل عمران، سورۂ مائدہ، سورۂ مریم، سورۂ انبیاء اور سورۂ مومنون میں ہے۔ ایک سورت کو ان کا نام دے کر اللہ نے ان کی عظمت کو دوبالا کر دیا ہے۔ یہ تھیں ایک خاتون حضرت مریم اور یہ تھا ان کا مرتبہ و مقام۔
حضرت آدم اور حوا جنت میں ایک ساتھ تھے۔ دونوں کو ابلیس نے بہکایا، دونوں اپنے ارادے اور اختیار سے اس کے بہکاوے میں آئے، دونوں کو ایک ساتھ جنت سے نکلنے کا حکم ہوا، دونوں ایک دوسرے کے زوج کی حیثیت سے زمین پر اترے، دونوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معافی مانگی۔ اللہ نے دونوں کی توبہ قبول کی۔
مرد عورت کا زوج ہے اور عورت مرد کی۔ دونوں نے مل جل کر جیون بتانا ہے۔ یہی اللہ کی مشیت ہے اور یہی فطرت کا تقاضا۔ اگر دونوں کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر مرد کے لیے علیحدہ معاشرہ تشکیل دیا جائے اور عورت کے لیے علیحدہ تو زندگی کا کارواں رک جائے گا اور تہذیب و تمدن کبھی بھی پنپ نہیں سکیں گے۔
قرآن نے جن جن چیدہ انبیاء کا ذکر کیا ہے، ان کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں پرورش و تربیت کے مرحلہ سے لے کر حق و باطل کی آویزش کے مرحلہ تک ان کے مشن کو آگے بڑھانے اور عدل و انصاف پر مبنی نظام کے قائم کرنے میں ان کے پہلو بہ پہلو شریک رہیں۔ انھوں نے دینی، معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں ان کا ساتھ دیا اور اس راہ میں اپنی عزت و ناموس کو داؤ پر لگا کر اپنی جان تک کی پروا نہ کی۔ تفصیل اوپر دی جا چکی ہے۔ قرآن حکیم میں حضرت سلیمان اور ملکۂ سبا کا قصہ دینی اور دنیوی نظام حکومت کی واضح مثال ہے۔ ملکۂ سبا نے اپنی طاقت و قوت اور جاہ و حشمت کے باوصف جنگ کا راستہ اختیار نہ کیا، بلکہ اپنی فطرت سلیم کی بنیاد پر حضرت سلیمان کے دربار میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔ قرآن نے ان کی دانش مندی اور فطرت سلیم کو وجیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت سلیمان نے ان سے شادی کر لی اور انھیں یمن کی حکمران کے طور پر بحال رکھا۔ روایات یہی کہتی ہیں۔
اس قسط میں سابقہ انبیاء کے ادوار میں خاتون کے معاشرتی اور سیاسی کردار پر مقدور بھر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگلی قسط میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد بابرکت میں خاتون کے اس کردار پر روشنی ڈالی جائے گی۔ اللہ اس کی توفیق بخشے آمین۔
________
زمانۂ جاہلیت میں لوگ اللہ کو خالق و رازق مانتے تھے، مگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ حکم اور قانون بھی اسی کا چلے گا۔ اللہ کی توحید کی بہت سی خصوصیات ہیں۔ خلق و رزق بھی اس کی خصوصیت ہے، تقدیر و تدبیر بھی اس کی خصوصیت ہے، حکم و قانون بھی اس کی خصوصیت ہے۔ عملی سیاست کی بنیاد حکم و قانون ہے اور اس خصوصیت کو ماننا ایک سیاسی عمل ہے۔ حق و باطل کے درمیان اصل معرکہ تو یہی تھا کہ حکم کس کا چلے گا۔ قرآن میں سورۂ انعام (۶: ۵۷) اور سورۂ یوسف (۱۲: ۴۰،۶۷) میں ارشاد ہے:
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ.’’حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔‘‘
دینی سرگرمیوں کو عموماً معاشرتی سرگرمیاں سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر یہ سرگرمیاں حکومت کی شکل اختیار کر جائیں یا ان کا تعلق تدبیرامور سے ہو تو انھیں سیاسی سرگرمیوں سے تعبیر کیا جائے گا۔ جن واقعات کا تعلق دین کی جستجو، اس کی حوصلہ افزائی کرنے، نئے دین میں داخل ہونے، اس کی طرف دعوت دینے، اس کی خاطر مشکلات کا سامنا کرنے، وطن سے ہجرت کرنے، بیعت کرنے اور اس دین کے دفاع کی خاطر جہاد کرنے سے ہو، ان سب کو سیاسی سرگرمیاں سمجھا جائے گا۔ ان سرگرمیوں میں مرد اور عورت کا اشتراک ایک فطرتی عمل ہے، کیونکہ مرد عورت کا زوج ہے اور عورت مرد کی زوج۔ اللہ کی مشیت اور فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ یہ مل جل کر زندگی گزاریں۔
اہل قبلہ میں سے جس نے سب سے پہلے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا، وہ ایک خاتون تھیں۔ وہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں اور جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے نماز ادا کی، وہ بھی خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ اللہ کے رسولؐ نے نزول وحی کے بعد جب ان کے پاس آکر خبر دی تو انھوں نے بلا تردد کہا:
’’اے چچا کے بیٹے، تجھے خوش خبری ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں خدیجہ کی جان ہے، مجھے امید ہے آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔‘‘ (السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۲/۷۳)
اس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ اس خاتون کا رابطہ اپنے معاشرے سے قائم تھا اور اپنے اردگرد کے واقعات کا پورا ادراک تھا۔ جس اللہ نے محمدؐ کو وحی کے لیے تیار کیا تھا، اسی اللہ نے وحی کے آنے کے بعد محمدؐ کا استقبال کرنے کے لیے خدیجہؓ کو تیار کیا تھا۔ اس موقع پر جو تاریخی الفاظ انھوں نے کہے، وہ ان کی عقل و دانش کی واضح دلیل ہیں۔ انھوں نے کہا:
’’اللہ کی قسم، اللہ کبھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور اپنے پرائے کا غم کھاتے ہیں۔‘‘ (فتوح الشام ۱/ ۲۸۷)
انھوں نے رسول کی تصدیق کے لیے واقعاتی شواہد کو سامنے رکھا اور مزید تائید کے لیے وقت کے بہترین اور معتبر ماخذ ورقہ بن نوفل کی طرف رجوع کیا۔ وہ اہل کتاب کے عالم تھے جنھوں نے تصدیق کی کہ آپ پر وہی وحی اتری ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی۔
بخاری نے’’ کتاب المناقب‘‘ اور مسلم نے ’’باب فضائل ام المومنین‘‘ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت خدیجہ غار حراء میں حیس (ایک قسم کا کھانا جو کھجور، گھی اور ستو سے تیار کیا جاتا ہے) لے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا: اے محمد، خدیجہ اپنے ساتھ حیس لے کر آ رہی ہے، اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ انھیں میرا سلام کہو اور ان کو جنت میں گھر کی بشارت دو۔ جب حضرت خدیجہ پہنچیں تو نبی کریم نے انھیں اس بات کی خبر دی تو انھوں نے فرمایا: اللہ خود سلامتی ہے اور وہ سلامتی کا سرچشمہ ہے، جبریل کو میرا سلام ہو۔ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ جس سال آپ پر وحی نازل ہوئی حضرت خدیجہ نبی کریم کے پاس غار حراء میں جایا کرتی تھیں۔
قبول اسلام کے بعد انھوں نے تن من دھن سب کچھ اسلام کی دعوت کے لیے قربان کر دیا۔ ان کے قوی ایمان نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ بڑھایا۔ آپ توحید کے پرچار سے سارے عرب کے شرک کا سامنا کر رہے تھے۔ لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں سنتے تھے تو دل غمگین ہوتا تھا۔ ایسے میں سیدہ خدیجہ ان کی ڈھارس بندھاتی تھیں۔ ایک انسان جب دوسرے انسان کا ہم خیال ہو جاتا ہے تو اس انسان کا یقین اور عقیدہ پختہ تر ہو جاتا ہے۔ جبھی تو رسول کریم نے حضرت خدیجہ کی وفات کے سال کو عام الحزن (غم کا سال) قرار دیا اور ان کو عمر بھر نہ بھول پائے۔
خواتین کا قبول اسلام
مسلمان خواتین کو قبول اسلام کے بعد جس عذاب سے گزرنا پڑا اور جس طرح وطن چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ان کے یہاں ایک راسخ عقیدہ تھا جس کو انھوں نے پورے شعور کے ساتھ سوچ سمجھ کر اپنے اپنے ارادے اور اختیار سے قبول کیا تھا۔ اس میں تقلید اور بیعت کا شائبہ تک نہ تھا ۔ اس دعویٰ کے ثبوت کے لیے ان خواتین کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو اپنے باپ دادا، شوہر وں اور عزیز و اقارب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔
حضرت ام حبیبہ اور حضرت فارعہ رضی اللہ عنہما اپنے باپ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے پہلے مسلمان ہوئیں۔ عورت کے دل میں باپ کا جو مرتبہ و مقام ہوتا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ باپ بھی کیا قریش کا سردار اور اسلام کے خلاف معرکوں میں ان کا کمانڈر۔ حضرت عباس کی بیوی ام الفضل لبابہ بنت حارث اپنے شوہر سے پہلے مسلمان ہوئیں۔ زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے شوہر عاص بن ربیع سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئیں اور ان کے شوہر نے اسلام لانے سے انکار کر دیا۔ حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا اپنے بھائی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے پہلے مسلمان ہوئیں۔ حضرت عمر ان کے گھر میں قرآن سننے کے بعد مسلمان ہوئے۔ اقبال نے اس خاتون کے بارے میں کہا ہے:
تو میدانی کہ سوز قرأت تو
دگرگوں کرد تقدیر عمر را
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا اپنے والدین سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ام کلثومؓ کے علاوہ قریش کی کوئی خاتون نہیں جس نے اپنے والدین کو چھوڑ کر ہجرت کی ہو۔ یہ تو مکہ مکرمہ کا حال تھا۔ مدینہ میں حضرت ام سلیم بنت ملحان انصاری رضی اللہ عنہا انصار میں سے سب سے پہلے مسلمان ہونے والوں میں تھیں۔ وہ اپنے شوہر مالک بن نضر کو بھی اسلام کی ترغیب دیتی رہیں جو شام کی طرف چلا گیا اور وہیں اس کی وفات ہوئی۔ ابو طلحہ انصاری نے شادی کا پیغام بھیجا تو ام سلیمؓ نے جواب دیا: کیا تو نہیں جانتا کہ جس معبود کی تو پرستش کرتا ہے، وہ ایک درخت ہے جسے ضلال حبشی نے تراش کر بنایا ہے؟ اے ابو طلحہ، کیا تجھے معلوم نہیں کہ جس معبود کی تم پرستش کرتے ہو، اگر اسے آگ میں ڈالا جائے تو وہ جل جائے گا؟ کیا تو جانتا ہے کہ تیرا معبود ایک پتھر ہے جو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ ابو طلحہ نے جواب دیا: ہاں، ام سلیمؓ نے کہا: درخت اور پتھر کو پوجتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آتی؟ اگر تم اسلام قبول کر لو تو یہی میرا حق مہر ہو گا، حالاں کہ ابو طلحہ سب انصار سے زیادہ نخلستانوں کا مالک تھا۔
امام ذہبی نے ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ (۵/ ۲۲۰) میں حضرت ثابت سنانی کا قول نقل کیا ہے:
’’میری نظر میں ایسی کوئی عورت نہیں جس کا حق مہر ام سلیم سے بہتر ہو۔‘‘
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آزاد شریف زادیوں نے اسلام اپنے ارادے اور اختیار سے قبول کیا، نہ کہ اپنے باپ یا شوہر کی تقلید میں۔ غلاموں اور لونڈیوں کا بھی یہی حال تھا۔ انھوں نے اپنے آقاؤں کی مرضی اور منشا کے خلاف اسلام قبول کیا اور ان کے ظلم کا تختۂ مشق بنے۔ یہ غلام اور لونڈیاں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اپنے آقاؤں کا حکم ماننے پر مجبور تھے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی مشکلات و مصائب کے پیش نظر وہ زندگی اور اس کے مقصد پر زیادہ غور و فکر کرتے تھے۔ ان کے دماغ آزاد لوگوں سے زیادہ آزاد تھے۔ ان کو اس بات کا ادراک تھا کہ انسانوں کی نجات کے لیے ایک آسمانی مسیحا کی ضرورت ہے۔ جب اس مسیحا کی آواز ان کے کانوں میں پڑی تو انھوں نے اپنے اقتصادی حالات کی پروا نہ کرتے ہوئے اس آواز پر لبیک کہا۔ صحیح بخاری (رقم ۳۶۴۴) میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا، جب ان کے ساتھ پانچ غلام، دو عورتیں اور ابوبکر تھے۔‘‘
ان پانچ غلاموں میں حضرت سمیہ (رضی اللہ عنہا) بھی تھیں۔ ان کو قریش کے سردار طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے، مگر وہ اسلام چھوڑنے کا نام نہ لیتی تھیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں مردوں اور عورتوں، دونوں سے ملتے تھے۔ دار ارقم کا راز مردوں اور عورتوں کے سینے میں ایک امانت تھا جس کی وہ دل و جان سے حفاظت کر تے تھے۔ روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کعبہ کے نزدیک قریش کو خطاب کیا تو انھوں نے انھیں بری طرح مارا پیٹا۔ انھیں گھر پہنچایا گیا۔ جب ان کو ہوش آیا تو انھوں نے اللہ کے رسول کے بارے میں پوچھا تو ان کی والدہ نے جواب دیا ہمیں آپ کے ساتھی کا کوئی علم نہیں۔ آپ نے کہا: ام جمیل بنت خطاب سے جا کر پوچھو، انھوں نے جا کر ام جمیل سے پوچھا کہ ابوبکر تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: میں نہ ابوبکر کو جانتی ہوں نہ محمد کو۔ ہاں، اگر تو چاہتی ہے تو میں تمھارے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوں۔ پس وہ اس کے ساتھ ہو لیں۔ انھوں نے حضرت ابوبکر کو دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں اور تقریباً قریب المرگ ہیں۔ ام جمیل نے پاس جا کر کہا: آپ کی فاسق و فاجر قوم نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ ان سے انتقام لے گا۔ حضرت ابوبکر نے ان سے اللہ کے رسول کا حال پوچھا تو وہ کہنے لگیں: آپ کی ماں سن رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: کوئی بات نہیں، تو ام جمیل نے جواب دیا: وہ ٹھیک ٹھاک ہیں۔ انھوں نے پوچھا: وہ کہاں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: دار ارقم میں۔ حضرت ابوبکر نے کہا: بخدا، جب تک میں اللہ کے رسول کے پاس نہیں جاؤں گا، نہ کھانا کھاؤں گا اور نہ پانی پیوں گا۔جب آپ کی حالت سنبھل گئی تو آپ ان دونوں کے سہارے اللہ کے رسول کے پاس گئے۔ آپ نے جھک کر حضرت ابوبکر کو بوسہ دیا۔
یہ روایت ابن کثیر نے ’البدایۃ والنہایہ‘‘ (۲/۳۰) میں نقل کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی مقامات پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ سے ملتے تھے، جبھی تو حضرت ابوبکر کو معلوم نہ تھا کہ آپ کس جگہ ہوں گے۔ ام جمیل فاطمہ بنت خطاب نے راز کی حفاظت کرتے ہوئے حضرت ابوبکر کی والدہ کو جگہ کے بارے میں بتانے سے گریز کیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی فہم و فراست سے حضرت ابوبکر کی مدد کرنے کا راستہ نکال لیا۔ اسی حادثہ کے دوران حضرت ابوبکر کی والدہ ام الخیر بنت صخر دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئیں۔ یہ دار ارقم کوہ صفا کے قریب تھا۔ فاطمہ بنت خطاب اور ان کا شوہر دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے۔ رملہ بنت عوف سہمیہ اور اسماء بنت عمیس بھی دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے مسلمان ہو چکی تھیں۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ خاتون اسلام کے اہم واقعات سے الگ رہی اور نہ ہی اس نے اپنی ذمہ داری نبھانے سے گریز کیا، خواہ وہ کتنی ہی بھاری ذمہ داری ہو۔ اس نے عقیدے کے راستے میں ایثار و قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔
ان تمام واقعات سے اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ عہد نبوت میں عورت کی عقل محدود تھی۔ نہ وہ بحث و مباحثہ کے قابل تھی اور نہ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکتی تھی۔ مقام افسوس ہے کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ جیسے پائے کے مفسر نے سورۂ روم کی آیت ۲۱ کی تفسیر میں اسی قسم کی راے کا اظہار کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’اللہ کے قول ’خَلَقَ لَکُمْ‘ (تمھارے لیے پیدا کیا) میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو جانوروں اور نباتات کی طرح دوسرے منافع کی طرح ہمارے لیے پیدا کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ کا قول ہے: ’خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ‘ (زمین میں جو کچھ ہے، اس نے تمھارے لیے پیدا کیا ہے)۔ یہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عورتوں کو نہ تو عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ مکلف ہیں۔ ہمارا قول ہے کہ اللہ نے ان کو ہمارے لیے نعمت کے طور پر پیدا کیا ہے اور ان کو مکلف اس لیے بنایا ہے کہ اس نعمت کا اتمام ہو، اس لیے نہیں کہ ان کو بھی اسی طرح مکلف کیا جائے، جیسے ہمیں مکلف کیا گیا ہے۔ اس کی تین صورتیں ہیں: نقل حکم اور معنی۔ نقل تو یہ ہے کہ وہ اور ان کے علاوہ دوسری نعمتیں۔ حکم کی یہ صورت ہے کہ عورتوں کو بہت سے احکام کا مکلف نہیں بنایا گیا۔ معنی کی یہ صورت ہے کہ عورت ضعیف ہے اور کم عقل ہے، بچے کے مانند، لیکن بچہ مکلف نہیں۔ مناسب تو یہی تھا کہ عورت بھی مکلف نہ ہوتی۔ لیکن ہم میں اس نعمت کی تکمیل تبھی ہو سکتی تھی جب ان کو مکلف بنایا جائے تاکہ وہ عذاب سے ڈر کر اپنے شوہر کی فرماں بردار رہیں اور حرام سے رکی رہیں، وگرنہ فساد پھیل جاتا۔‘‘ (التفسیر الکبیر ۱۳/ ۱۱۱)
اس کے برعکس تاریخی واقعات سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ پہلی مسلمان خاتون کو اس کا ادراک تھا کہ دین اور اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں اللہ نے عورتوں اور مردوں سے یکساں خطاب کیا ہے اور عورت اپنے اعمال کے بارے میں انفرادی طور پر جواب دہ ہے اور سزا و جزا کی حق دار ہے اور وہ مرد کی جواب دہی کے تابع تھیں۔ علامہ ابن حزم ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ (۳/۳۳۷) میں فرماتے ہیں:
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کی طرف اسی طرح مبعوث تھے، جس طرح عورتوں کی طرف۔ اللہ اور اس کے رسول کے مخاطب مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔ کسی حکم کو عورتوں کے علاوہ مردوں سے مخصوص کرنا اس وقت تک روا نہیں، جب تک قطعی نص نہ ہو اور اجماع نہ ہو۔‘‘
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت و تبلیغ کا حکم دیا گیا تو آپ نے اپنی پھوپھی صفیہ اور بیٹی فاطمہ کا نام لے کر دعوت دی۔ اس دعوت سے مردوں اور عورتوں کے درمیان ذاتی اور نسبی تعلق سے ماورا ایمان کا تعلق قائم کیا گیا۔
جن خواتین نے اسلام کی طرف سبقت کی، ان کی تعداد سیرت نگاروں کے مطابق ۲۱ بنتی ہے۔ ان میں قریش کے قبیلوں کی بھی خواتین تھیں اور اسماء بنت عمیس خثعمیہ، ام رومان، ام الفضل جیسی دوسرے قبیلوں سے بھی تعلق رکھتی تھیں۔ لونڈیوں کی تعداد آٹھ تھی۔ اس وقت کل مسلمانوں کی تعداد ۶۳ تھی۔ مسئلہ عورت اور مرد کا نہ تھا، مسئلہ ہمت اور حوصلے کا تھا۔ بعض خواتین نے جذبۂ ایمان اور ہمت و حوصلہ کی بنیاد پر مردوں سے پہلے اسلام قبول کیا۔
ابتدائی مرحلہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انفرادی طور پر چھپ چھپ کر دین کی دعوت دیتے تھے۔ مسلمان کسی بند گھر یا کسی خالی گھاٹی میں نماز ادا کرتے تھے۔ بلاذری رحمہ اللہ نے ’’انساب الاشراف‘‘ (۱/۱۱۶) میں روایت کی ہے کہ ’’جب عصر کا وقت آتا تو مسلمان ایک ایک اور دو دو ہو کر گھاٹیوں میں بکھر جاتے‘‘۔ اس مرحلہ میں خواتین کا کردار واضح تھا۔انھوں نے اس مرحلہ کے راز کو افشا نہیں کیا۔ تین چار برس گزرنے کے بعد مسلمانوں کی تعداد چالیس سے تجاوز نہ کر سکی، جبکہ اہل مکہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ خاتون کا کردار محض راز کو چھپانے تک محدود نہ تھا۔ ام شریک رضی اللہ عنہا چوری چھپے قریش کے گھروں میں جا کر عورتوں کو اسلام کی طرف راغب کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ مکہ والوں کو خبر ہو گئی، انھوں نے اسے پکڑ کر کہا: اگر تمھارے قبیلے کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم تجھے سامان عبرت بنا دیتے، لیکن ہم تجھے تیرے قبیلے کی طرف واپس بھیج دیں گے۔
اس مرحلہ میں مسلمان خواتین کو اپنے دین اور عقیدے کے بارے میں اپنی ذمہ داری کا پورا احساس تھا۔ ان کو اس بات کا وہم تک نہ تھا کہ یہ ذمہ داری محض مردوں کی ہے کیونکہ وہ ان کے مقابلے میں اس بات کی قدرت رکھتے ہیں۔ انھیں اپنی قدرت اور ہمت پر پورا بھروسا تھا۔
اللہ نے اپنے نبی کو بعثت کے تین برس بعد حکم دیا:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ واَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ.(۱۶:۹۴)’’پس جو حکم تم کو ملا ہے، وہ (لوگوں کو) سنا دو اور مشرکوں کا (ذرا) خیال نہ کرو۔‘‘
یہ اعلانیہ دعوت جواب دہی اور جزا و سزا کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں تھی، کیونکہ انسان ہونے کے اعتبار سے وہ دونوں مساوی تھے۔ جب ’وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ‘، ’’اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈراؤ‘‘ (الشعراء ۲۶: ۲۱۴)۔
[باقی]
_______________