ہمارے پیارے نبی کے نواسے، حضرت علی اور سیدہ فاطمہ کے بڑے بیٹے حضرت حسن ۱۵ رمضان ۳ھ (یکم اپریل ۶۲۵ء)کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔
حضرت علی فرماتے ہیں،جب حسن پیدا ہوئے تو میں نے ان کا نام حرب رکھا۔ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم (اپنے نواسے کو دیکھنے کے لیے ہمارے گھر) تشریف لائے اورکہا، مجھے اپنا بیٹاتو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھاہے ؟ ہم نے بتایا، حرب۔ آپ نے فرمایا، نہیں! اس کا نام حسن ہونا چاہیے ۔ پیدائش کے ساتویں دن آپ نے حسن کا عقیقہ ادا فرمایا، دو منیڈھوں کی قربانی دی‘ سر منڈایا اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کی۔ عباس بن عبدالمطلب کی اہلیہ ام الفضل نے اپنے بیٹے قثم کے ساتھ حسن کو بھی دودھ پلایا تھایوں قثم حسن کے چچا ہونے کے ساتھ ان کے رضاعی بھائی بھی بن گئے۔ حسن کی کنیت ابو محمدتھی ،یہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تجویز فرمائی تھی اگرچہ اس نام کا ان کوئی فرزند نہ تھا ۔مجتبیٰ اور سبط ان کے القاب ہیں۔ حسن سر اور جسم کے اوپری حصے میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے کافی مشابہت رکھتے تھے ۔
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم حسن سے بہت محبت کرتے تھے جو کم وبیش آٹھ سال تک آپ کی آغوش میں رہے۔ اکثر ان کو گلے لگا تے ‘ چومتے اور ان کے ساتھ کھیل کود کرتے ۔ شداد بن ہاد روایت کرتے ہیں،ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ظہر یا عصر کی نماز پڑھانے تشریف لائے ۔آپ نے حسن یا حسین کو اٹھا رکھا تھا۔ انھیں بٹھاکر آپ نے نماز پڑھانی شروع کی۔نمازکے دوران میں آپ سجدے میں گئے تو اسے خوب لمبا کر دیا۔راوی کہتے ہیں ،میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ وہ بچہ آپ کی کمر پر بیٹھا ہے اور آپ سجدے میں ہیں۔میں نے سر نیچے کر لیا۔نماز کے بعدصحابہ نے کہا،یا رسول اﷲ ! ہم نے سمجھا ، کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے یا آپ پر وحی نازل ہورہی ہے۔ فرمایا، یہ دونوں باتیں نہیں ہوئیں بلکہ میرے بیٹے نے مجھے سواری بنا لیا تو میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ اس کی خواہش پوری ہونے سے پہلے جلدی مچا ؤں۔ ابو بریدہ کہتے ہیں،ایک بار رسول اﷲ صلی علیہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد کر رہے تھے کہ حسن و حسین سرخ قمیضیں پہنے ہوئے ، چلتے ہوئے ،گرتے ہوئے مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔آپ منبر سے اتر آئے ، انھیں اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیاپھر فرمایا ‘ اللہ کا ارشادسچ ہے’’ بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمایش ہیں ‘‘ (سورۂ انفال :۲۸، سورۂ تعابن:۱۵)میں نے ان بچوں کو چلتے اور گرتے دیکھا تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا،اپنا وعظ روکا اور انھیں اٹھا لیا ۔ آپ کا ارشاد ہے ،’’حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘ فرمایا، ’’حسن و حسین دنیا میں موجود جنت کے پھول ہیں۔‘‘
عربی میں چھوٹے بچے کے لیے’ لُکَع‘ کالفظ آتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں ۔ ایک دن میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بنو قینقاع کے بازار گیا ،ہم نے یہ راستہ خاموشی سے طے کیا۔آپ واپس آئے تو حضرت فاطمہ کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر پکارنے لگے ،کیا یہاں لُکَع ہے؟کیا یہاں لُکَع ہے؟مراد حسن تھے۔ جواب نہ ملا توہم سمجھے ، ان کی والدہ نے ان کو اس لیے روک رکھا ہے کہ نہلا کر لونگ کا ہار پہنائیں۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ دوڑتے ہوئے باہرآئے ،نانا نواسہ دونو ں نے باہم معانقہ کیا۔تب آپ نے دعا فرمائی ،’’ اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے اور اس کے پسندیدہ لوگوں سے محبت کر۔‘‘ آپ نے فرمایا ، ’’جو جنت کے جوانوں کے سرخیل کو دیکھنا چاہتا ہے، حسن (دوسری روایت: حسین)کو دیکھ لے‘ ‘۔عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں،ایک دفعہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت حسن کو کاندھے پر اٹھا رکھا تھا۔ایک صحابی نے کہا، لڑکے! تو بڑی اچھی سواری پر سوار ہواہے۔ آپ نے جواب فرمایا، ہاں سوار بھی بہت خوب ہے ۔ حضرت ابوہریرہ بتاتے ہیں،رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حسن بن علی کو چوما۔اقرع بن حابس تمیمی پاس بیٹھے تھے ،انھوں نے کہا،میرے دس بیٹے ہیں ، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما۔آپ نے انھیں (تعجب سے )دیکھا اور فرمایا،جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جائے گا‘‘۔
خلیفۂ اول ابوبکر عصر کی نماز پڑھا کر نکلے تو دیکھا کہ حسن بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔انھوں نے ان کو اٹھا کر کندھے پر بٹھا لیا اور کہا،اس کی شکل نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملتی ہے، علی سے نہیں۔علی مسکرا دیے۔
عبداﷲ بن جعفر بتاتے ہیں،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی سفر سے واپس آتے تو گھر کے بچوں کو لے جا کر آپ کا استقبال کیا جاتا۔ایک بار آپ سفر سے لوٹے تو مجھے لے جا کر آپ کے آگے بٹھا دیا گیا ،سید ہ فاطمہ کے بیٹوں حسن وحسین میں سے ایک کو پیچھے بٹھایا گیا۔ہم تینوں ایک ہی سواری پر سوار ہو کر مدینہ میں داخل ہوئے۔ ایسا ہی واقعہ ہے جوسلمہ بن اکوع نے روایت کیا،ایک بار میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سفید خچر کو نکیل سے پکڑ کر حجرۂ نبوی تک لایا۔اس پر آپ سوار تھے ، حسن و حسین میں سے ایک آگے اور ایک پیچھے بیٹھا تھا۔
کھجورکی نئی فصل آتی تو ہر شخص رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کھجور لاتا اس طرح مسجد نبوی میں ڈھیر لگ جاتا ۔ننھے حسن و حسین ان کھجوروں سے کھیلتے ۔ان میں سے ایک نے کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔آپ نے دیکھا تو کھجور نکال کر فرمایا،’’کیا تو جانتا نہیں کہ آل محمد صدقہ نہیں کھاتی‘‘۔
آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم حسن و حسین کے لیے اﷲ کی پناہ میں آنے کی دعا کرتے تھے۔آپ فرماتے ،تمہارے باپ،ابراہیم علیہ السلام یہ کلمات پڑھ کر اپنے بیٹوں اسماعیل و اسحاق علیہما السلام کو اﷲ کی پناہ میں لاتے تھے، اعوذ بکلمات اﷲ التامۃ من کل شیطان و ہامۃو من کل عین لامۃ،میں اﷲ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر شیطان ،ہر زہریلے کیڑے اور ہر نظر بد سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔
اسامہ بن زید بتاتے ہیں ،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے اور حسن کواٹھاتے، ایک ران پر مجھے اوردوسری پر حسن کو بٹھاتے پھر اپنے ساتھ چپکا لیتے اور دعا فرماتے ،’’ اے اﷲ!ان دونوں پر رحم کر ،میں بھی ان پر رحم کرتا ہوں۔‘‘
ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور حسن کو پہلو میں بٹھا لیا ،پھر آپ نے باری باری ہر فرد کو مخاطب کر کے فرمایا،’’ میرا یہ بیٹا سردار ہو گا۔ امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کرائے گا‘‘۔
۱۰ھ میں نجران کے عیسائیوں کا وفد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مباہلہ کرنے کو کہا۔آپ علی،فاطمہ حسن اورحسین کو لے کرنکلے۔عیسائیوں نے ان نفوس قدسیہ کو دیکھا اور کہا،یہ ایسے چہرے ہیں کہ اگر اﷲ کے نام پر قسم کھا لیں کہ وہ پہاڑوں کو سرکا دے تو وہ ضرورسرکا دے گا۔ آخر کار وہ مباہلہ کرنے کے بجائے آپ سے صلح کر کے چلے گئے۔
کم سنی کے باوجود حسن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنے ہوئے خطبات و ارشادات گھر آ کر اپنی والدہ سیدہ فاطمہ کے سامنے دہراتے۔ایک مرتبہ حضرت علی ان کی باتیں سننے بیٹھ گئے تو ان کی زبان میں قدرے لکنت آ گئی۔ عہد صدیقی میں امہات المومنین نے حضرت عثمان کو حضرت ابوبکر کے پاس بھیجاکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو مال فے چھوڑا ہے اس کا آٹھواں حصہ انھیں دیا جائے۔ سیدہ عائشہ نے انھیں منع کیا اور کہا،کیا تم نہیں جانتیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے،’’ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ،ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے‘‘۔اس سے آپ کی مراد اپنی ذات (اور امہات المومنین) تھی البتہ آپ کی اولاد(بقدر ضرورت)یہ مال کھا سکتی ہے۔یہ مال صدقہ حضرت علی کے قبضہ میں آیا تو انھوں نے عبا س کونہ لینے دیا۔ان کے بعد حسن،حسین پھر علی بن حسین(زین العابدین) اورحسن بن حسن (حسن مثنی)کی تحویل میں آیا ۔یہ دونوں اس کا انتظام کرتے رہے ۔آخرکار زید بن حسن کے پاس اس طرح آیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا صدقہ ہے۔
۱۵ھ میں خلیفۂ ثانی حضرت عمر نے اسلامی مملکت کے شہریوں کے لیے وظائف مقرر کرنے کے لیے دیوان ترتیب دیا۔انھوں نے حضرت حسن، حضرت حسین ،ابوذرغفار ی ا ور سلمان فارسی کا حصہ بدری صحابہ جتنا یعنی ۵ ہزار درہم سالانہ رکھاحالانکہ حسن و حسین بدر کے موقع پر پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ یہ رقم ۵اھ سے لے کر ۴۰ھ تک انھیں ملتی رہی۔اس دیوان میں پہلا نام عباس ،دوسرا علی اورتیسرا حسن کا تھا۔
عہد عثمانی میں حسن جوان ہو چکے تھے۔اس عہدکے ساتویں سال ۳۰ھ میں سعید بن عاص نے طبرستان پر فوج کشی کی ۔ان کے لشکر میں حسن،حسین،عبداﷲ بن عباس،عبداﷲبن عمر،عبداﷲ بن عمرو،حذیفہ بن یمان اور عبداﷲ بن زبیر جیسے جلیل القدر اصحاب رسول شامل تھے۔
ولیدبن عقبہ کو حضرت عثمان کے پاس لایا گیا کہ اس نے صبح کی دو رکعتیں پڑھانے کے بعد(نشے کی حالت میں) لوگوں سے پوچھا ،کیا اور پڑھاؤں؟ایک شخص حمران نے ا س کے خلاف شہادت دی کہ اس نے شراب پی رکھی تھی،دوسرے کی گواہی تھی کہ اس نے اسے قے کرتے دیکھا ہے۔الزام ثابت ہو گیا تو عثمان نے علی سے کہا ،اسے کوڑے لگاؤ،انھوں نے حسن کو کہہ دیا۔حسن کاجواب تھا،امورخلافت میں سے مشکل (اور گرم) کام اسی کو دیں جس نے آسان (اور ٹھنڈے)کام اپنے ذمے لے رکھے ہیں۔یہ ان کا حضرت عثمان سے اظہار ناراضی تھا۔ تب عثمان نے عبداﷲ بن جعفر کو کہا اور انھوں نے کوڑے لگائے،علی نے چالیس تک گنتی پوری کی۔
۳۵ھ میں حضرت عثمان کے خلاف شورش ہوئی تو حضرت علی نے اپنے لخت جگر حسن کو ان کی حفاظت کے لیے مامور کیا۔عثمان نے اہل مدینہ کو لوٹا دیا تو بھی حسن ،ابن عباس،محمد بن طلحہ اور عبداﷲ بن زبیران کے گھر کے باہر موجود رہے۔خود حضرت عثمان کے اصرار پر ابن عباس امیر حج بن کر مکہ چلے گئے تو باقی جوانوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ بلوا ئی گھر کے دروازے تک نہ جا سکیں۔اس مدافعت میں حسن زخمی بھی ہوئے ،ان کا بدن خون سے رنگین ہو گیا۔سیدنا عثمان نے قسم دے کر حسن کو جانے کو کہا لیکن وہ نہ ٹلے۔باغی اس دروازے سے داخل نہ ہو سکے جہاں حسن کا پہرہ تھا تاہم، وہ دوسری دیوار پھاند کر گھر کے اندر جانے میں کامیاب ہو گئے۔ خلیفۂ مظلوم کی شہادت کے بعد علی جائے وقوعہ پرپہنچے تو اپنے صاحب زادوں حسن کے منہ پر اورحسین کے سینے پرتھپڑ مار کر کہا،عثمان کیسے شہید ہو گئے جب کہ تم ان کی حفاظت کے لیے دروازے پرمقر ر تھے۔ انھوں نے پہرے پر متعین زبیر اور طلحہ کے بیٹوں کو بھی سرزنش کی ۔ حضرت عثمان کی میت تین دن تک بے گور وکفن رہی،آخر کار مغرب کے بعد چراغ گل کر کے انھیں تدفین کے لیے لے جایا گیا۔حکیم بن حزام،حویط بن عبدالعزی، ابوجہم بن حذیفہ،نِیاربن مُکرَم، جبیر بن مطعم،زید بن ثابت، کعب بن مالک،طلحہ،زبیر، علی اور حسن نے جنازے میں شرکت کی۔
جنگ جمل سے پہلے حسن نے پوری کوشش کی کہ ان کے والدجنگ میں حصہ نہ لیں ۔علی ربذہ آ رہے تھے کہ راستے میں حسن ملے اور کہا،آپ نے میرا کہا نہیں مانا۔کل کو ناحق مارے جائیں گے اور کوئی مدد نہ کرے گا۔علی نے کہا، تو ہمیشہ لڑکیوں کی طرح منمناتا رہتا ہے۔تمہارا کون سا کہا میں نے نہیں مانا؟حسن نے جواب دیا،حضرت عثمان کا محاصرہ ہونے سے پہلے میں نے کہا تھا کہ آپ مدینہ میں نہ رہیں تاکہ آپ کے ہوتے ہوئے شہادت کا سانحہ نہ ہو۔ان کی شہادت کے بعد میں نے بیعت لینے سے منع کیا تھا یہاں تک کہ ہر علاقے کا وفد نہ آ جائے۔پھر جب عائشہ، طلحہ اورزبیرجنگ پر آمادہ ہوئے تو میں نے کہا، آپ جنگ میں حصہ لینے کے بجائے گھر میں بیٹھے رہیں تاکہ آپ کے ہاتھوں کوئی فساد نہ ہو۔آپ نے ان میں سے کوئی بات نہیں مانی۔ حضرت علی نے ان تینوں باتوں کا مفصل جواب دیا۔انھوں نے کہا،اگر زمانۂ محاصرہ میں مدینے سے نکل جاتا توعثمان کی طرح ہمارا بھی گھیراؤ کر لیا جاتا۔دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ خلافت کا فیصلہ مدینہ والوں ہی نے کرنا تھا،ہم نے اس حق کو ضائع نہیں ہونے دیا۔تیسری بات ،میں جنگ سے بچ کیسے سکتا تھا جب وہ میرے ہی درپے تھے۔ مدینۂ منورہ میں یہ اطلاع پہنچی کہ سیدہ عائشہ کی فوج جس میں طلحہ و زبیر بھی شامل ہیں مکے سے عراق روانہ ہو گئی ہے توعلی نے بھی کوچ کیا۔ ذی قار پہنچ کر انھوں نے عمار ا ور حسن کوفوج کے لیے نفری اکٹھے کرنے کے لیے کوفہ بھیج دیا۔و ہ کوفہ کی جامع مسجد میں گئے، پہلے عمار نے لوگوں سے خطاب کیا اور حسن ان کے پاس کھڑے رہے ۔ پھر حسن کھڑے ہوئے اور کہا،لوگو! اپنے امیر(علی )کی بات مانو اوراپنے بھائیوں کی فوج میں شامل ہو جاؤ۔ہند بن عمرو نے ان کی دعوت پر لبیک کہا،حجر بن عدی نے تائید کی۔حسن نے اگلے دن جانے کا اعلان کیا تو نو ہزار(یا ساڑھے نوہزار) افراد ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ بصرہ میں جب فوجیں صف آرا ہوئیں تو حسن میمنہ کے قائد تھے۔ ایک موقع پر انھوں نے زور دار حملہ کر کے فوج مخالف کو پرے دھکیل دیا۔
۳۷ھ میں جنگ صفین ہوئی تو حضرت حسن نے اس میں بھی شرکت کی۔حضر ت علی قلب میں تھے ، ان کے بیٹے حسین اور محمد ان کے ساتھ تھے جب کہ حسن سالار میمنہ تھے۔جب علی پر دباؤ بڑھا تو وہ میسرہ کی طرف آئے ،ان کے بیٹوں نے بھی ان کے ساتھ حرکت کی۔التوائے جنگ کے لیے عہد نامہ لکھا گیا تو حضرت حسن نے گواہ کے طور پردست خط کیے۔ اس جنگ کے بعدعلی نے حسن کو اپنی املاک کا متولی بھی مقرر کیا۔
رمضان کا مہینہ آتا تو علی ایک رات حسن کے ہاں سے کھانا کھاتے ،دوسری شام حسین سے اور تیسری رات ابوجعفر کے گھر سے تناول کرتے ۔وہ تین سے زیادہ لقمے نہ لیتے۔
۴۰ھ میں ابن ملجم نے حضرت علی پر تلوار سے قاتلانہ حملہ کیا۔زخمی ہونے کے بعد وہ تین دن تک زندہ رہے ۔ان سے حضرت حسن کی جانشینی کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا، میں روکتا ہوں نہ حکم دیتا ہوں۔انھوں نے حسن سے کہا، دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر گیا تو ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا،اس کا مثلہ ہر گز نہ کرنا۔ حسن، حسین اور ابوجعفر نے انھیں غسل دیا۔حسن نے سات تکبیریں پڑھیں،جنازہ بھی انھوں نے پڑھایا۔علی کی شہادت کے بعد حسن نے لوگوں سے خطاب بھی کیا۔انھوں نے کہا،تم لوگوں نے علی کو اس رات قتل کیا جس میں قرآن نازل ہوا،اسی رات عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے گئے اور اسی میں یوشع بن نون کا قتل ہوا۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم علی کو کسی سریے میں بھیجتے تو جبرئیل ان کے دائیں اور میکائیل بائیں طرف ہوتے۔ ابوملجم کو حسن کے پاس لایا گیا، اس نے بتایا،میں نے حطیم کے پاس کھڑے ہو کر اﷲسے وعدہ کیا ہے، علی اور معاویہ کو قتل کروں گا۔مجھے چھوڑ دیں تاکہ اپنی قسم پوری کر لوں۔حسن نے کہا،نہیں ،تو اب جہنم کوجائے گاپھر آگے بڑھ کر اسے قتل کر دیا۔
۴۰ھ میں حضرت علی نے شام جانے کا ارادہ کیاتو ان کی فوج میں شامل چالیس ہزار مسلمانوں نے موت تک ان کا ساتھ دینے کی بیعت کی۔ اسی دوران میں علی شہید ہوگئے تو انھوں نے حسن کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔یہ سب حضرت علی سے بھی بڑھ کر حسن سے محبت اور ان کی اطاعت کرنا چاہتے تھے ۔سعد بن عبادہ کے بیٹے قیس بن سعدسب سے پہلے بیعت کرنے والوں میں تھے۔انھوں نے کہا میں قرآن مجید اور آنحضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے اور مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنے والوں سے جنگ کرنے کی بیعت کرتاہوں ۔حضرت حسن نے فرمایا، قرآن مجید اور آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی بیعت ہی کافی ہے چنانچہ یہی الفاظ ادا کرکے آپ کی بیعت ہوئی ۔حسن عراق اوراس سے آگے خراسان کے علاقوں میں چار ماہ تک خلیفہ رہے۔حجاز اور یمن کا ان کی عمل داری میں بتایا جانا درست معلو م نہیں ہوتا۔ کچھ روایات میں ان کی مدت خلافت آٹھ ماہ بتائی گئی ہے ،۲۰ رمضان ۴۰ھ میں حسن کی بیعت ہوئی اور۱۵ جمادی الاولی میں وہ دست بردار ہو گئے ۔اس طرح کل مدت سات ما ہ اور چھبیس دن بنتی ہے ۔
پھر حضرت حسن اور حضرت معاویہ نے ایک دوسرے کے خلاف فوج کشی کی ۔ دونوں لشکروں کی انبار کے قریب مسکن کے مقام پر مڈبھیڑ ہوئی ۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بعد میں بغداد کی بنا رکھی گئی۔حسن کو احساس ہو گیا کہ دونوں لشکرایک دوسرے کا قلع قمع کیے بغیر ایک دوسرے پر غالب نہ آ سکیں گے۔ چنانچہ انھوں نے حضرت معاویہ سے صلح کرنے کا ارادہ کرلیا اور اس غرض کے لیے عمرو بن سلمہ ارجی کو ان کے پاس بھیجا۔جواب میں معاویہ نے عبد الرحمان بن سمرہ اور عبداﷲ بن عامر کو بھیجا۔ پھر معاویہ اور حسن اکٹھے کوفہ آئے۔معاویہ نے نخیلہ اور حسن نے قصر میں قیام کیا۔حسن نے کہا،خلافت آپ کو مل جائے گی لیکن ایک شرط ہے کہ مدینہ ،حجاز اور عراق کے لوگوں سے ان کے والد علی کے زمانے میں ہونے والے قضیوں کے بارے میں نہ پوچھا جائے اور انھیں بلا استثنا امان دی جائے ۔معاویہ نے یہ بات مان لی تاہم، دس اشخاص ایسے تھے جنھیں وہ امان نہیں دینا چاہتے تھے۔انھی میں سے ایک قیس بن سعدتھے جن کے بارے میں معاویہ نے قسم کھا رکھی تھی کہ وہ جب بھی ان کے قابو آئیں گے ،ان کی زبان اور ہاتھ کاٹ ڈالیں گے۔یہ جان کر حسن نے معاویہ کی بیعت کرنے سے انکار دیاتب معاویہ نے ایک کورا کاغذ بھیجا اور کہا،اس پر جو شرط بھی لکھیں گے مجھے منظو ر ہو گی۔دیگر شرائط یہ تحریر کی گئیں،صوبۂ اہواز (دارابجرد)کا خراج کاملاً حسن کو دیا جائے گا۔ حضرت حسین کو سالانہ دو لاکھ درہم الگ دیے جائیں گے۔ صلات و عطیات میں بنو ہاشم کو بنو امیہ پر ترجیح دی جائے گی۔ عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا، حسن کی قوت ختم ہو چکی ہے اس لیے ان کی شرائط نہ مانی جائیں لیکن انھوں نے یہ مشورہ تسلیم نہ کیا۔کوفہ میں حضرت معاویہ کی بیعت ہو چکی لیکن عمرو بن عاص نے اصرار کیا کہ مجمع عام میں حسن سے دست برداری کا اعلان کرایا جائے۔ معاویہ نے حسن کو لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے کہاتو انھوں نے فرمایا، ’’اس اﷲ کا شکر ہے جس نے ہمارے آبا کے ذریعے تمہیں ہدایت دی اور ان کی اولاد کے وسیلہ سے تمہیں خون ریزی سے بچا لیا۔سن لو! دانش مند وہ ہے جو پرہیز گار ہے۔گناہ سب سے بڑی بے بسی ہے۔جس معاملے میں میرا اور معاویہ کا اختلاف ہوا ، اگر میں اس میں حق پر تھا تو میں نے اسے اﷲ کی رضا جوئی، امت محمد کی اصلاح کی خاطر اور اہل ایمان کو قتل و غارت سے بچانے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔‘‘ اس طرح آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات سچ ثابت ہو گئی کہ حضرت حسن مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کروائیں گے ۔عام خطاب کے علاوہ ایک تقریر وہ بھی ہے جو حسن نے مدائن کے قصر میں کی۔انھوں نے کہا، تم نے میرے ہاتھ پر ان الفاظ کے ساتھ بیعت کی تھی ،میں جس سے صلح کروں گا ،صلح کرو گے اور جس سے جنگ کروں گا تم بھی اس سے جنگ کرو گے۔میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے ، تم بھی ان کی اطاعت کرو۔
حسن کے ساتھیوں نے صلح کو پسند نہ کیا ۔ان کی فوج کے مقدمہ میں شامل لوگوں کا کہنا ہے، صلح کی خبر سن کر ہمیں اتنا ملال ہوا گویا ہماری کمریں ٹوٹ گئی ہیں۔ کچھ نے کہا، یہ اہل ایمان کے لیے عار ہے ۔سیدناحسن نے جواب دیا، عار جہنم سے بہتر ہے۔صلح کے بعد وہ کوفہ آئے تو ایک سردار ابو عامر نے انھوںیوں سلام کیا،السلام علیک !اے مومنوں کو رسوا کرنے والے۔انھوں نے جواب دیا، میں نے اہل ایمان کو رسوا نہیں کیابلکہ اس بات کو پسند نہیں کیا کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے انھیں قتل کراؤں۔حسن اس کے بعد مدینہ چلے گئے، وہاں کے لوگوں نے بھی انھیں شرم دلائی۔انھوں جواب دیا، شرمندہ ہونا جہنم میں گرنے سے بہتر ہے ۔انھوں نے باقی عمر مدینہ ہی میں گزاری، زیادہ وقت عبادت میں صرف کرتے ۔فجر کی نمازپڑھ کر طلوع آفتاب تک مصلے پررہتے پھر لوگوں سے ملتے جلتے اور چاشت کی نماز ادا کر کے امہات المومنین کی خدمت میں حاضرہوتے ۔
سیدناحسن نے معاویہ سے صلح کا ایک سبب یہ بھی بتایاکہ اہل کوفہ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔یہی ہیں جنھوں نے بیعت کرنے کے بعد حسن پر حملہ کیا،انھیں زخمی کر دیا اور ان کے نیچے کی چادر بھی کھینچ لی۔ساباط کے مقام پر سنان بن جراح اسدی نے کدال کے ذریعے حملہ کیا اور حسن کی ران زخمی کر ڈالی۔انھوں نے اسے بازووں میں جکڑ کر نیچے گرا دیا۔پھر عبداﷲ بن ظبیان نے اچھل کر حملہ کیا تو حسن نے اس کی ناک کاٹ ڈالی اور سر پھاڑ دیا جس سے وہ موقع ہی پر ہلاک ہو گیا۔حسن کو چارپائی پر ڈال کر مدائن لے جایا گیا جہاں حضرت علی کے مقرر کردہ گورنر، مختار ثقفی کے چچا سعد نے طبیب بلوا کر ان کاعلاج کرایا۔
قیس بن سعد نے مسلمانوں کو امیرکے بغیر لڑائی پر اکسایا۔لیکن عام مسلمان ان کے پیچھے نہ چلے اور قیس بن سعد مایوس ہو کر الگ ہو گئے ۔بعد میں اسی سال ان کی حضرت معاویہ سے مصالحت ہو گئی ۔
صلح ہونے کے بعد وہ شرائط جو حسن نے معاویہ کے مہر بند خط میں تحریر کی تھیں ،پوری نہ کی گئیں۔حضرت علی پر سب و شتم اسی طرح جاری رہا۔دارابجرد کاخراج بھی حسن کو نہ ملا۔ دوسری روایات کے مطابق اہواز سے ہر سال جمع ہونے والے دس لاکھ درہم حسن کودس سال تک ملتے رہے۔اس کے علاوہ صلح کے وقت بیت المال میں موجود ستر لاکھ درہم بھی ان کے حوالہ کیے گئے۔
حضرت معاویہ نے حضرت حسن کی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت لینے کا ارادہ کیا تھا لیکن ان کی وفات کے بعد اسے ظاہر کیا۔
ابوعمرو بن علا کہتے ہیں ،میں نے حجاج اور حسن سے بڑھ کر کوئی فصیح نہیں دیکھا۔حسن کی فصاحت حجاج سے بھی زیادہ تھی۔اس کا اندازہ ان خطبات اور تقریروں سے کیا جا سکتا ہے جو انھوں نے مختلف اہم مواقع پر ارشاد کیں۔ یعقوبی نے حسن کے کئی حکیمانہ اقوال نقل کیے ہیں۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے براہ راست سماع کردہ متعدداحادیث حسن سے روایت کی گئی ہیں، انھوں نے اپنے والدسیدنا علی،بھائی حسین اور ماموں ہندبن ابوہالہ سے بھی حدیث روایت کی ہے۔ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں،ان کے بیٹے حسن،ام المومنین عائشہ ان کے بھتیجے علی بن حسین،ان کے بیٹے عبداﷲ اور باقر،عکرمہ،ابن سیرین،جبیر بن نفیر، ابوحورا،ابومجلز،ہبیرہ بن یریم اور سفیان بن لیل ۔سیرت فاروقی کاایک قابل ذکر حصہ حسن سے مروی ہے۔حسن فتوے بھی دیتے تھے ،ان میں سے چند نقل کیے گئے ہیں۔
حضرت حسن سے روایت کردہ چند احادیث:حسن روایت کرتے ہیں،مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہ کلمات سکھائے جو میں وتر میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سجدہ میں جانے سے پہلے پڑھتا ہوں۔ ’’اللّٰہم اہدنی فیمن ہدیت و عافنی فیمن عافیت وتولنی فیمن تولیت وبارک لی فیما اعطیت و قنی شر ما قضیت فانک تقضی ولا یقضی علیک و انہ لا یذل من والیت تبارکت ربنا و تعالیت ۔ اے اﷲ! مجھے ہدایت دے ،ان لوگوں میں شامل کرتے ہوئے جنھیں تو نے ہدایت دے رکھی ہے۔مجھے عافیت بخش، ان لوگوں کے زمرہ میں شامل کرتے ہوئے جنھیں تو نے عافیت دے رکھی ہے۔مجھے دوست بنا لے ،ان لوگوں سے ملاتے ہوئے جنہیں تونے دوست بنا لیا ہے۔اپنے دیے ہوئے رزق میں میرے لیے برکت ڈال دے۔اس شر سے مجھے بچا جس کا تو نے فیصلہ کر لیا ہے ،کیونکہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے اور تیرے علی الرغم کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔جس کی تو مدد کرتا ہے ،رسوا نہیں ہوتا۔میرے رب!تو بہت برکت والا اور بہت بلند ہے ۔‘‘حسن سے پوچھا گیا،آپ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کوئی بات یاد ہے ؟تو انھوں نے بتایا،میں نے صدقے کی ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی تھی تو آپ نے اسے لعاب سمیت میرے منہ سے نکال لیا تھا۔
حضرت حسن کو کئی بار زہر دیا گیا لیکن بچ جاتے ۔ آخری بار زہر دیا گیا تو طبیب نے کہا ،اس زہر نے آپ کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالا ہے ۔ حضرت حسین ان سے ملنے آئے تو کہا،مجھے تین بار زہر دیا گیا ہے لیکن اس دفعہ تو اس نے میرا جگر چھلنی کر ڈالا ہے۔انھوں نے پوچھا ،بھائی جان! آپ کو کس نے زہر دیا ہے؟ کہا، تمہارا پوچھنے کا کیا مقصد ہے؟ کیا تو اس سے لڑنا چاہتا ہے؟ میں نے ان لوگوں کا معاملہ اﷲ کے سپرد کر دیا ہے ۔کہا جاتا ہے ،انھیں ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث نے معاویہ کے کہنے پر زہر دیا۔اہل تاریخ نے اس روایت کو قبول نہیں کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ معاویہ کو زہرخورانی کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔حسن کو خلافت سے دست بردار ہوئے دس سال بیت چکے تھے ، اس دوران میں ان کی طرف سے ایسی کوئی بات نہ ہوئی تھی جس سے معاویہ کو خطرہ محسوس ہوتا ۔البتہ یہ امکان ہے کہ جعدہ نے سوتاپے کی بنا پر زہر دیا ہو۔ایک اور روایت ہے کہ حسن کی وفات زہر کے بجائے علالت سے ہوئی۔
جب حسن کی وفات کا وقت آیا توانھوں نے کہا، مجھے کھلے صحن میں لے جاؤ، میں آسمان کا نظارہ کرنا چاہتا ہوں۔ انھیں صحن میں لا یا گیا تو آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا ،اے اللہ! میں تیرے پاس رہنے کو ترجیح دوں گا ۔ اسی حال میں ان کی جان نکلی ۔سن وفات ۴۹ ھ(دوسری روایت:ربیع الاول۵۰ھ)ہے ۔ان کی عمر چھیالیس یا سینتالیس برس ہوئی۔سیدناحسن نے حضرت حسین کو وصیت کی کہ مجھے حضورصلی اﷲعلیہ و سلم کے ساتھ دفن کیا جائے ۔اپنے مرض الموت میں حسن نے سیدہ عائشہ سے اس کی اجازت بھی لے لی تھی لیکن مروان نے ایسا نہ کرنے دیا۔حسین بہت برافروختہ ہوئے لیکن ابوہریرہ نے انھیں تلقین کی کہ اس بات پر جھگڑا نہ کیا جائے۔ آخر کار جنت البقیع میں ان کی تدفین ہوئی، نماز جنازہ گورنر مدینہ سعید بن عاص نے پڑھائی۔ حضرت حسین نے یہ کہہ کرانھیں آگے کیا ، اگرایسا کرنا سنت نہ ہوتا تو میں آپ کو کبھی نہ کہتا۔وہ بنوامیہ کے اکیلے فرد تھے جنھوں نے جنازہ میں شرکت کی۔نماز کے بعد خالد بن ولید بھی تدفین میں شامل ہوئے۔ مسعودی کے زمانہ میں حضرت حسن کے مقبرہ پر کوئی تعمیر تھی جس کے پتھر کی تحریر ’ ’التنبیہ والاشراف ‘‘میں درج کی گئی ہے۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے ،دروازۂ بقیع کے دائیں طرف ایک مضبوط خوب صورت گنبد ہے۔اس گنبد سے آگے عباس بن عبدالمطلب کی قبر ہے اور اس کے بعد حضرت حسن کی۔۱۳۴۴ء میں یہ عمارتیں گرا دی گئیں۔
حضرت حسن کی ازواج میں سے ام بشیر بنت ابومسعود انصاری اور خولہ کے نام معلو م ہیں ۔جعدہ بنت اشعث کا نام زہر خورانی کے ضمن میں آیا ہے۔بنو فزارہ اور بنو اسد سے تعلق رکھنے والی دو اور بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے اگرچہ ان کے نام نہیں بتائے گئے۔ان کے بیٹوں کے نام یہ ہیں:حسن،زید،عمر،قاسم،ابوبکر،عبدالرحمان،طلحہ اور عبیداﷲ۔
حضرت حسن بالوں کو وسمہ لگاتے تھے۔ حسن بہت حلیم الطبع اور انتہائی پرہیزگار تھے۔وہ کسی کی نا حق جان نہ لینا چاہتے تھے،اسی وجہ سے خلافت سے کنارہ کشی کر لی ۔فرماتے ہیں،جب سے میں سن شعور کو پہنچا ہوں اور اپنے نفع و نقصان کا علم ہوا ہے، یہ بات جان چکا ہوں کہ مجھے امت محمد کا اقتدار و انصرام خون بہائے بغیر نہیں مل سکتااورمیں یہ ہرگز نہیں چاہتا۔حضرت حسن غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتے تھے ۔ ایک آدمی ان کے پاس بیٹھا دعا مانگ رہا تھا۔ اے اللہ مجھے دس ہزار دینار دے دے ۔وہ گھر گئے اور اتنی رقم اسے بھجوادی ۔انھوں نے تین مرتبہ کل مال کانصف اﷲ کی راہ میں دے دیا۔ایسا بھی ہوا کہ کل دو جوڑے جوتے پاس تھے،ایک رکھااور دوسرا خیرات کر دیا۔ایک دفعہ وہ معتکف تھے کہ ایک سوالی آیا،انھوں نے حالت اعتکاف سے نکل کراس کی ضرورت پوری کی اور واپس چلے گئے۔ایک بار دوران طواف میں کسی نے اپنی ضرورت کے لیے لے جانا چاہاتو وہ طواف چھوڑ کر اس کے ساتھ چل دیے اور باقی طواف واپس آ کر پورا کیا۔ اللہ ان سے راضی ہو اور ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے،آمین۔
مطالعۂ مزید:الجامع المسند الصحیح(بخاری ، شرکۃ دار الارقم)، المسند الصحیح المختصر من السنن( مسلم، شرکۃ دار الارقم) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبد البر)،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،الاصابہ فی تمییز الصحابہ(ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ جات: غلام رسول مہر،مرتضی حسین فاضل)
______________