HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

کفر کے شبہے میں قتل

عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ... قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَرِیَّۃٍ فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُہَیْنَۃَ فَأَدْرَکْتُ رَجُلًا فَقَالَ: لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ فَطَعَنْتُہُ فَوَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ مِنْ ذٰلِکَ فَذَکَرْتُہُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَقَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَقَتَلْتَہُ؟ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّمَا قَالَہَا خَوْفًا مِّنَ السِّلَاحِ قَالَ: أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتّٰی تَعْلَمَ أَقَالَہَا أَمْ لَا؟ فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا عَلَیَّ حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنِّیْ أَسْلَمْتُ یَوْمَءِذٍ قَالَ: فَقَالَ سَعْدٌ: وَأَنَا وَاللّٰہِ لَا أَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتّٰی یَقْتُلَہُ ذُو الْبُطَیْنِ یَعْنِیْ أُسَامَۃَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: أَلَمْ یَقُلِ اللّٰہُ (وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہِ)؟ فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ قَاتَلْنَا حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَأَنْتَ وَأَصْحَابُکَ تُرِیْدُوْنَ أَنْ تُقَاتِلُوْا حَتّٰی تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ.
حضرت اسامہ بن زید نے... بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک جنگی مہم پر بھیجا۔ ہم نے جہینہ کے حرقات پر صبح دم حملہ کیا۔ میں نے (اس میں) ایک آدمی کو پالیا تو اس نے لا الٰہ الاّاللہ کہہ دیا، پھر میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کردیا۔ یہ بات میرے دل میں اٹک گئی۔پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس نے لا الٰہ الاّ اللہ کہا اور تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ،اس نے یہ بات اسلحہ کے خوف کی وجہ سے کہی تھی۔آپ نے فرمایا: تم نے اس کا دل کیوں نہیں چیر لیا تاکہ تم جان لیتے کہ اس نے (اسلحہ کے ڈر سے) کہا ہے کہ نہیں؟ آپ یہ بات مجھ پر دہراتے رہے، یہاں تک کہ میں تمنا کرنے لگا کہ میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا۔راوی کہتے ہیں: حضرت سعد نے کہا:بخدا ، میں کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا، یہاں تک اسے ذو البطین، یعنی حضرت اسامہ نہ قتل کریں۔ایک آدمی نے کہا:کیااللہ نے یہ نہیں فرمایا:’’ان سے قتال کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔حضرت سعد نے کہا:ہم نے تو اسی لیے جنگ کی ہے کہ فتنہ باقی نہ رہے او ر تم اور تمھارے ساتھی اس لیے جنگ کرنا چاہتے ہیں کہ فتنہ پیدا ہو۔
عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ یُحَدِّثُ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْحُرَقَۃِ مِنْ جُہَیْنَۃَ فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ فَہَزَمْنَاہُمْ وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِّنَ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِّنْہُمْ فَلَمَّا غَشِیْنَاہُ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَکَفَّ عَنْہُ الْأَنْصَارِیُّ وَطَعَنْتُہُ بِرُمْحِیْ حَتّٰی قَتَلْتُہُ قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا بَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِیْ: یَا أُسَامَۃُ، أَقَتَلْتَہُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ؟ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا قَالَ: فَقَالَ: أَقَتَلْتَہُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ قَالَ: فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا عَلَیَّ حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنِّیْ لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذٰلِکَ الْیَوْمِ.
حضرت اسامہ بن زید حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جہینہ کے حرقہ کی طرف بھیجا۔ ہم نے اس قوم پرصبح دم حملہ کیا اور انھیں شکست دے دی۔ میری اور ایک انصاری کی ان کے ایک آدمی سے مڈبھیڑ ہوئی۔ جب ہم اس پر چھا گئے تو اس نے کہا:لا الٰہ الاّاللہ۔ انصاری نے ہاتھ روک لیا اور میں نے اپنا نیزہ اس میں گھونپ دیا، یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا۔ جب ہم واپس آئے تو یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی۔ آپ نے مجھ سے کہا:اے اسامہ، تم نے اس کے لا الٰہ الاّ اللہ کہنے کے بعداسے قتل کردیا؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یارسول اللہ، وہ تواپنی جان بچا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ آپ نے پھر فرمایا: تم نے اس کے لا الٰہ الاّ اللہ کہنے کے بعد اسے قتل کر دیا؟ کہتے ہیں کہ آپ یہ بات مجھ پر بار بار دہراتے رہے، یہاں تک کہ میں یہ تمنا کرنے لگا کہ میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔

لغوی مباحث

صَبَّحْنَا: اہل لغت اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:’ہجموا علیہم صباحا قبل ان یشعروا بہم‘ ’’انھوں نے ان پر صبح دم حملہ کیا، اس سے پہلے کہ انھیں اس کا شعور ہو‘‘(فتح الباری۱۲/ ۱۹۵)۔یعنی یہ فعل صبح دم یا رات کے آخری حصے میں حملہ کرنے کے معنی میں آتا ہے۔

الْحُرَقَاتُ مِنْ جُہَیْنَۃَ : جہینہ ایک قبیلے کا نام ہے ۔ ان کا علاقہ بطن نخل کے پیچھے بیان کیا گیا ہے۔اہل مغازی نے بیان کیا ہے کہ ان کی طرف غالب بن عبداللہ بن لیثی کی سرکردگی میں ایک سریہ۷ھ کے رمضان میں بھیجا گیا تھا۔ بخاری کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سالار اسامہ تھے، لیکن یہ بات روایات ہی سے معلوم ہوجاتی ہے کہ صحیح نہیں ہے۔قرآن مجید کی سورہ توبہ کے حکم کے تحت اگر یہ مہم بھیجی گئی تھی تو ۷ھ کی بات محل نظر ہے۔ بظاہر روایت میں واقعات کے بیان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہم سورہ توبہ کے حکم کی تعمیل کی نوعیت کی تھی، اس لیے کہ اقدامی مہمات اس کے بعد ہی بھیجی گئی ہیں۔

مسلم ہی میں ’الْحُرَقَات‘ کے بجاے ’الْحُرَقَہ‘ واحد بھی آیا ہے۔ اس جمع کی دو توجیہات کی گئی ہیں: ایک یہ کہ یہ مبالغے کے لیے ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس سے جہینہ قبیلے کی گوتیں مراد ہیں۔بیان کیا گیا ہے کہ کسی جنگ میں اس قبیلے نے مقتولین کو جلا دیا تھا، اس سے ان کا یہ نام پڑ گیا ہے۔

رَجُلًا: وہ آدمی جسے مار دیا گیا ہے، اس کا نام ان روایات میں مرقوم نہیں ہے۔ صاحب ’’عمدۃ القاری‘‘ نے (۱۷/ ۲۷۲میں) بیان کیا ہے کہ اس مقتول کا نام مرداس تھا۔

معنی

اس روایت کا بنیادی موضوع وہی ہے جوپچھلی روایت میں زیر بحث آچکا ہے۔ مراد یہ ہے کہ کسی مسلمان کی جان لینا جائز نہیں ہے۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ظاہری ایمان سے بھی جان کو یہ امان حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ عذر بھی قابل قبول نہیں ہے کہ اظہار ایمان کی وجہ کوئی خوف یا مفاد تھا۔ یہ بات بھی ان روایات میں بیان ہو گئی ہے کہ فیصلہ ظاہر پر ہو گا باطن کی تحقیق نہیں کی جائے گا۔یہ وہ نکات ہیں جو پچھلی روایت میں زیر بحث آچکے ہیں۔

اس روایت کے حوالے سے وضاحت طلب مسئلہ یہ ہے کہ اس قتل کوناحق قرار دینے کے باوجود قصاص یا دیت یا کفارے کا معاملہ کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کے مختلف جواب دیے گئے ہیں:

ایک جواب یہ ہے کہ حضرت اسامہ نے اس اصول پر اس آدمی کو قتل کیا کہ قوت دیکھنے کے بعد ایمان کا فائدہ نہیں ہے۔ اس کی دلیل میں سورۂ مومن کی یہ آیت بھی نقل کی گئی ہے: ’فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ إِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا‘، ’’جب انھوں نے ہماری قوت دیکھ لی تو ان کا ایمان ان کے لیے نافع نہ ہوا‘‘(۴۰: ۸۵)۔ سوال یہ ہے کہ یہ آخرت کے نفع کو بتا رہی ہے یا دنیا کے قانون کو؟اس آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کی نفی کے مضمون کی حامل ہے۔ اس کا کوئی تعلق انسانوں کی جانب سے کارروائی سے نہیں ہے۔

دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس مہم میں جو لوگ کارروائی کرنے کے لیے گئے تھے، ان کو اصولاً قتل کرنے کا حق حاصل تھا۔ چنانچہ اس اقدام میں اگر وہ کوئی رائے اختیار کرتے اور اس کے مطابق کسی کی جان لے لیتے ہیں تو یہ کارروائی قتل ناحق کی کارروائی نہیں ہے کہ اس پر دیت اور قصاص کا قانون لاگو ہو۔ یہ ایسے ہی ہے کہ طبیب کے علاج سے کوئی آدمی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو یہ طبیب قصاص ودیت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔

تیسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں اس طرح کے قتل کا معاملہ زیر بحث آیا ہے اور اس میں دیت و قصاص یا کفارے کا حکم بیان نہیں ہوا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقآی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوْا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.(النساء۴: ۹۴)
’’اے ایمان والو، جب تم خدا کی راہ میں نکلوتو معاملہ واضح کرلیا کرو ۔ وہ شخص جو تمھیں السلام علیکم کہے، اسے دنیا حاصل کرنے کی غرض سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو، کیونکہ اللہ کے پاس بہت ساری غنیمتیں ہیں۔ اس سے پہلے تم بھی انھی کی طرح تھے۔ پھر اللہ نے تم پر اپنا فضل کیا۔ تم پر واضح رہے کہ تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح واقف ہے ۔‘‘

بظاہر یہی بات قرین قیاس لگتی ہے کہ یہ تنبیہ کا بیان ہے اور قرآن کی ہدایت کے تحت ہے کہ ایمان کے اظہار کے بعد ہر آدمی مامون ہے، اس تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ایمان حقیقی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر جنگ کے مراحل میں غلطی ہو جائے تو اس پر کوئی قانونی کارروائی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ معمول کے حالات میں ہونے والا قتل کا معاملہ نہیں ہے۔

اس روایت سے کچھ اور مسائل بھی مستنبط کیے گئے ہیں۔ قتل مرتد کی بحث میں بھی یہ روایت پیش کی گئی ہے اور دارالسلام میں کسی غیر مسلم کے قتل کے حوالے سے بھی یہ روایت زیر بحث لائی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک روایت کا اصل مدعا وہی ہے جس کی ہم نے وضاحت کر دی ہے۔

متون

اس روایت کے متون میں واقعہ کے یہی اجزا بیان ہوئے ہیں جو زیر بحث روایت میں مذکور ہیں۔ البتہ ان متون سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بات پہلے پہنچ گئی تھی اور بعض متون سے یہ کہ ان صاحب نے خود اپنی خلش بیان کی تھی۔ دونوں باتیں بیک وقت درست بھی ہو سکتی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے ایک بات ہی ٹھیک ہو ۔ اس صورت میں سے صحیح کیا ہے؟ یہ طے کرنے کے لیے متون سے کوئی قرائن نہیں ملتے۔ اگر راویوں کے حوالے سے ترجیح قائم کی جائے تو زیادہ قوی روایت کو ترجیح دی جائے گی ،لیکن اس طرح کے معاملات میں یہ بھی کوئی حتمی قرینہ نہیں ہے۔مزید یہ کہ امام مسلم کے متون میں دونوں پہلو بیان ہوئے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہے کہ دونوں متون کے راوی قوی ہیں۔ اس سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قوی راوی بھی فہم واقعہ میں مختلف ہو جاتے ہیں۔

کتابیات

مسلم ، رقم ۹۶۔ بخاری، ۶۴۷۸۔ابو داؤد، رقم۲۶۴۳۔ احمد، رقم ۲۱۷۹۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ ،رقم ۱۵۰، ۲۸۹۳۲،۳۳۰۹۹،۳۶۶۳۱۔ السنن الکبریٰ، رقم۸۵۹۴،۸۵۹۵۔ ابن حبان، رقم ۴۷۵۱۔ سنن بیہقی، رقم۱۵۶۲۴۔ الجمع بین الصحیحین،رقم۲۸۰۶۔

______________

B