HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

طلحہ بن عبید اﷲ رضی اﷲ عنہ

[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(۱)


سیدنا طلحہؓ کے والد کا نام عبید اﷲ تھا ۔ عثمان ان کے دادا اور عمرو بن کعب پڑدادا تھے، چھٹے جد تیم بن مرہ کے نام پر ان کا قبیلہ بنو تیم کہلاتاہے۔ ساتویں پشت مرہ بن کعب پر طلحہ کا شجرہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نسب سے جا ملتا ہے ۔مرہ آپ کے بھی ساتویں جد تھے۔یمن کے علا بن حضرمی کی بہن صعبہ بنت عبداﷲ حضرمی (بنت حضرمی)طلحہؓ کی والدہ اور عاتکہ بنت وہب نانی تھیں۔ طلحہؓ کے پڑناناوہب بن عبد ایام جاہلیت میں رفادہ کے انچارج تھے۔ قریش کے تمام افراد حسب استطاعت مالی تعاون کر کے ایک بڑا فنڈ جمع کرتے جسے حاجیوں کی مہمان نوازی کے لیے اونٹ کا گوشت اور غلہ خریدنے میں صرف کیا جاتا اور نبیذ میں ڈالنے کے لیے کشمش لی جاتی۔ اسے رفادہ کہا جاتا،بنو ہاشم رفادہ و سقایہ (حاجیوں کو پانی پلانا) کے مسقل ذمہ دار تھے۔ طلحہؓ کی کنیت ابو محمد تھی۔

زمانۂ جاہلیت میں طلحہؓ بن عبیداﷲ تجارت کی غرض سے بُصری گئے ،وہ وہاں کے بازار میں پھر رہے تھے کہ معلوم ہوا، ایک عیسائی راہب اپنی خانقاہ میں آوازیں لگا رہاہے ،ان لوگوں سے جو گزشتہ ایام حج میں مکہ میں تھے پوچھو ،کیا ان میں کوئی حرم کاباشندہ ہے؟طلحہؓ نے کہا،ہاں!میں ہوں۔ راہب نے پوچھا،کیا احمدکا ظہور ہو گیا ہے؟انھوں نے پوچھا ،کون احمد؟اس نے کہا، عبداﷲ بن عبدالمطلب کے بیٹے جواﷲ کے آخری نبی ہیں اور اسی مہینے میں آنے والے ہیں۔ وہ حرم مکہ میں پیدا ہوں گے اور کھجوروں اور سیا ہ پتھروں والی زمین شور(یثرب) کی طرف ہجرت کر جائیں گے۔تمھیں ان کے پاس فوراً پہنچنا چاہیے ۔ راہب کی نصیحت طلحہؓ کے دل میں گھر کر گئی ، وہ فوراً مکہ پہنچے اور لوگوں سے پوچھا ، کیا کوئی نیا واقعہ ہوا ہے؟انھیں بتایا گیا ، محمد بن عبداﷲ نے نبی ہونے کا دعوی کیا ہے اور ابوبکرؓ بن ابوقحافہ نے ان کی اتباع کر لی ہے۔وہ ابوبکرؓ کے پاس آئے تو انھوں نے مشو رہ دیا ،تم بھی چل کر ان کی پیروی اختیار کر لو کیونکہ وہ حق کی دعوت دیتے ہیں۔ جب طلحہؓ نے راہب کی پیشین گوئی سنائی تو ابوبکرؓ انھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے گئے ۔ آپ نے قرآن سنایا اور اسلام کا حق ہونا بتایا توطلحہؓ نے اسلام قبول کر لیا۔طلحہؓ نے راہب کی پیش گفتاری سنائی توآنحضرت نے مسرت کا اظہار فرمایا۔نوفل بن خویلد نے جوایام جاہلیت میں شیر قریش کہلاتا تھا اور جنگ بدر میں حضرت علی کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا، نے اسلام لانے کی پاداش میں ابوبکرؓ اور طلحہ کو پکڑ کر ایک ہی رسی سے باندھ دیا۔ابوبکرؓ و طلحہؓ بنو تیم سے تعلق رکھتے تھے جب کہ نوفل بنو عدی سے تھاپھربھی بنو تیم نے اپنے اہل قبیلہ کی مدد نہ کی ۔اس کی وجہ نوفل کے دبدبے کے ساتھ ان کی اپنی اسلام دشمنی بھی تھی۔ ایک رسی میں باندھے جانے کی وجہ سے ابوبکرؓ و طلحہؓ قرینین(دوہم نشین) کہلانے لگے۔ عثمانؓ بن عفان، زبیرؓ بن عوام،عبدالرحمانؓ بن عوف اور سعدؓ بن ابی وقاص بھی ان سابقین میں شامل ہیں جو انھی دنوں حضرت ابوبکرؓ کی دعوت پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

طلحہؓ بن عبیداﷲ ان دس صحابہؓ (عشرۂ مبشرہ)میں سے ایک جنھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپ نے ارشاد فرمایا،’’ابوبکرؓ جنت میں جائیں گے،عمرؓ جنت میں ہوں گے،عثمانؓ جنتی ہیں،علیؓ جنت میں جائیں گے،طلحہؓ اہل جنت میں سے ہیں،زبیرؓ جنتی ہیں،عبدالرحمانؓ بن عوف جنت میں جائیں گے،سعدؓ جنت میں ہوں گے،سعیدجنتی ہیں اور ابو عبیدہؓ بن جراح کا حسن انجام جنتیوں کے ساتھ ہو گا۔‘‘عشرۂ مبشرہؓ میں سے چارسعدؓ، طلحہؓ، زبیرؓ اور علیؓ ہم عمر تھے۔ ایک باررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرا کے پہاڑ پر تھے کہ وہ ہلنے لگا ۔ آپ نے فرمایا، حرا ساکن ہو جا ،تم پرایک نبی ، صدیق اور شہید کے علاو ہ کوئی نہیں۔تب ابوبکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ،طلحہؓ،زبیرؓ اور سعد آپ کے ساتھ تھے۔ جابرؓ بن عبداﷲ روایت کرتے ہیں،میں نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کوفرماتے سنا،جو شخص زمین پرچلتے پھرتے شہید کو دیکھناپسند کرتاہے ،طلحہؓ بن عبیداﷲ کو دیکھ لے۔

آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سفر ہجرت میں خرّ ار سے مدینہ کی طرف جا رہے تھے کہ آپ کی ملاقات طلحہؓ بن عبیداﷲ سے ہوئی جو تجارتی قافلہ لے کر شام سے آرہے تھے۔طلحہؓ نے آپ اور ابوبکر کو شامی کپڑوں کا تحفہ دیا اور بتایا، مدینہ کے مسلمان شدت سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔وہ مکہ پہنچے تو سفر مدینہ میںآنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم اور ابوبکرؓکی راہ نمائی کرنے والا مشرک گائیڈ عبداﷲ بن ارقط بھی وہاں پہنچ چکا تھا۔اس نے عبداﷲؓ بن ابوبکرکو مدینہ کے حالات بتائے تو انھوں نے بھی روانگی کا ارادہ کر لیا ۔ طلحہؓنے اپنے کام نمٹا لیے اور ہجرت کا عزم کیاتو عبداﷲؓ،سیدہ عائشہؓ کی والدہ ام رومانؓاور ابوبکرؓ کے باقی اہل خانہ انھی کے ساتھ مدینہ آئے۔ مدینہ پہنچ کر طلحہؓ نے اسعدؓ بن زرارہ (دوسری روایت:خبیبؓ بن اساف)کے ہاں قیام کیا۔ تب نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کعبؓ بن مالک یاابوایوب انصاری کو طلحہ کا انصاری بھائی قرار دیا۔ آپ نے گھر بنانے کے لیے طلحہ کو جگہ بھی عنایت فرمائی۔

۲ھ میں ابوسفیان کی قیادت میں قریش کاایک قافلہ تجارت کی غرض سے شام گیا ،اسے مدینہ سے گزر کر مکہ واپس جانا تھا۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اس قافلے سے تعرض کر کے قریش کو احساس دلانا چاہتے تھے کہ جزیرۂ عرب کی نئی اسلامی قوت کو تسلیم کیے بغیر وہ اپنا سفر مامون نہیں رکھ سکتے ۔آپ کاارادہ تھا کہ صحابہؓکی ایک جماعت لے کر مدینہ سے نکلیں تاہم ،اپنے پروگرام سے ۱۰ روز قبل آپ نے طلحہؓ بن عبیداﷲ اور سعیدؓ بن زید کوقافلے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ دونوں مدینہ سے نکل کر (مدینہ سے شام کے راستے پر واقع مقام) حورا پہنچے اور قافلے کے گزرنے تک وہیں مقیم رہے ۔اسی اثنا میںآپ کو کاروان کی آمد کی خبرمل گئی اور آپ۸ رمضان ۲ھ کو صحابہؓ کی ایک مختصر فوج لے کر مدینہ سے نکل پڑے۔ قریش کے قافلے نے تعاقب سے بچنے کے لیے مسلسل دن رات تیز سفر شروع کر دیا اور ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے مکہ واپس پہنچ گیا۔ادھر طلحہؓ او ر سعید جنھیں آپ کی روانگی کا علم نہ تھا، آپ کو اطلاع کرنے کے لیے مدینہ لوٹے۔ جس روز وہ شہر میں پہنچے ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ۳۱۳ جان نثارصحابہ کے ساتھ بدر کے میدان میں مشرکین کے اس لشکر سے برسرپیکار تھے جو ابوسفیان کی دعوت پر مکہ سے آیا تھا اور جس میں قریش نے اپنے جگر کے ٹکڑے(بزبان نبویؐ:افلاذ کبدہا) شامل کر دیے تھے۔ دونوں اصحاب مدینہ سے پھر نکلے ، تربان کے مقام پر ان کی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی،آپ بدر سے وپس آرہے تھے۔ طلحہؓ اور سعیدؓاپنی اس مہم کی وجہ سے جنگ بدرمیں شامل نہ ہو سکے جو رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے انھیں سونپی گئی تھی اس لیے آپ نے انھیں مال غنیمت میں سے اسی طرح پورا حصہ عطا فرمایا جیسے اس جنگ میں شریک اصحاب کو ملا تھا۔ اگر اس ضمن کی دوسری روایت درست ہوتی کہ طلحہؓاپنے طور پر سفر تجارت کے لیے شام کو گئے ہوئے تھے تو غالب گمان ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم غنیمت میں سے ان کاحصہ نہ نکالتے۔

جنگ احد کی ابتدا میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ محض ۷ انصاری اور ۲ مہاجر(قریشی) صحابہ(دوسری روایت ۱۱ صحابہ) رہ گئے۔تب مشرکین آپ پرحملہ آور ہوئے تو آپ نے فرمایا، جوان سے ہمارادفاع کرے گااسے جنت ملے گی۔ایک انصاری آگے بڑھ کر لڑا اور شہید ہو گیا۔ کفار اور بڑھے تو آپ نے یہی ارشاد فرمایا پھر ایک انصاری بڑھا اور شہادت پائی۔اس طرح ساتوں انصاریوں نے جام شہادت نوش کیا۔۲ قریشی صحابہؓ کی وضاحت صحیحین کی اس روایت سے ہوتی ہے،’’ ایک وقت ایسا آیا کہ طلحہؓ اور سعدؓ بن ابی وقاص کے علاوہ آپ کے پاس کوئی نہ رہا۔‘‘ اس وقت طلحہؓ نے موت تک آپ کا ساتھ دینے کی بیعت کی۔ابن عباس فرماتے ہیں ،ابوبکرؓ،عمرؓ، زبیرؓ ، سعدؓ، سہلؓ اور ابودجانہؓ نے بھی ایسی بیعت کی۔اس جنگ میں عتبہ بن ابی وقاص نے پتھر مار کر نبی اکرم کے سامنے کانچلا دانت(lower right incisor)شہید کر دیا ،آپ کا ہونٹ بھی پھٹ گیا۔دوسری روایت کے مطابق آپ کے سامنے کے ۲ دانت(incisors) شہید ہوئے۔ عبداﷲ زہری نے پیشانی پر ضرب لگائی اور ابن قمۂ حارثی نے آپ کے ناک اوررخسارکو شدید زخمی کر دیا۔ آپ اس گڑھے میں گر گئے جو ایک بدبخت مشرک ابو عامر نے میدان جنگ میں حریف مسلمانوں کے لیے کھود رکھے تھے۔علیؓ نے آپؐ کاہاتھ تھاما اور طلحہؓ نے کھینچ کر باہر نکالا۔مالک بن زہیر نے آپ کو تیر کا نشانہ بنایا تو طلحہؓ نے اپنا ہاتھ آگے کر کے آپ کے چہرۂ مبارک کو بچایا۔ تیر طلحہؓ کی چھنگلیا اور انگشت شہادت پر لگا اور دونوں مفلوج ہو گئیں۔ طلحہؓ کے سر پر دو چوٹیں بھی آئیں جن سے خون پھوٹ پڑا۔ یہ چوٹیں ایک مشرک نے لگائی تھیں، ایک ان کی طرف بڑھتے ہوئے اور دوسری واپس مڑتے وقت، اس طرح اس زخم نے صلیب کی شکل اختیار کر لی۔ قبول اسلام کے بعد ضرارؓ بن خطاب کہا کرتے تھے ، وہ ضربیں میں نے لگائی تھیں۔آپ کی شہادت کی افواہ پھیلی تو صحابہ بکھر گئے ، کچھ واپس مدینہ چلے گئے ، کچھ پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ آپ بلند آواز سے پکاررہے تھے ، اﷲ کے بندو! میری طرف آؤ،اﷲ کے بندو! میری طرف آؤ۔انسؓ بن نضر، عمرؓ اور طلحہؓ کے پاس آئے تو دونوں پریشان بیٹھے تھے ، انسؓ نے کہا، حضور کے بعد کیا جینا؟یہ کہہ کر وہ اٹھے اور مشرکوں سے بھڑ کر شہید ہوگئے۔سب سے پہلے کعبؓ بن مالک پر افواہ کا جھوٹ کھلا۔وہ پکارے ،اہل اسلام! خوش خبری ہو، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم زندہ موجود ہیں۔ طلحہ آپ کی طرف لپکنے والوں میں آگے آگے تھے، ابوبکرؓ اور تیس مزید صحابہ بھی آپ کی طرف بھاگے۔ابوبکرؓ فرماتے ہیں ،میرے پہنچنے سے پہلے ایک شخص آپ کا دفاع کر رہا تھا ،وہ طلحہؓ تھے۔صحابہؓ جمع ہوئے تو آپ نے درے کا رخ کیا،طلحہ آپ کو سہارا دیے ہوئے تھے۔آپ وہا ں جا کر بیٹھ گئے اور فرمایا،اپنے ساتھی طلحہ کو سنبھالو،اس وقت ان کا خون بہہ رہا تھا۔ طلحہؓ کی بیٹیاں عائشہؓ اور ام اسحاقؓ بیان کرتی ہیں، احد کے دن ہمارے والد کو ۲۴اوردوسری روایت میں ۷۵ زخم لگے۔ ان کے سرپر ایک چوکور گھاؤ آیا اور رگ نسا (sciatic nerve) کٹ گئی ، باقی زخموں کا شمار نہ تھا۔ جنگ احد ہی کا واقعہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک چٹان پر چڑھنے کا ارادہ فرمایا لیکن دو زرہیں پہن رکھنے کی وجہ سے نہ چڑھ سکے تب طلحہؓ بن عبیداﷲ جھکے اور آپ ان کی پیٹھ پر سوار ہو کر چڑھے۔ آپ نے خوش ہو کر فرمایا، ’’طلحہؓ پر جنت واجب ہو چکی۔‘‘ابوبکرؓ فرماتے تھے ،کل یوم احد طلحہؓ ہی کا تھا یعنی وہی اس جنگ کے ہیرو تھے۔

جنگ خندق میں سیدہ عائشہؓ بنو حارثہ کے قلعے میں تھیں۔ وہ جنگ میں شریک مسلمانوں کو دیکھتی ہوئی، پھرتی پھرتی ایک باغ میں پہنچیں جہاں بڑی تعداد میں مسلمان جمع تھے۔ ایک شخص نے سر سے گردن تک بڑا خود پہنا ہواتھا، صرف اس کی آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔وہاں حضرت عمرؓ بھی تھے جو عائشہ کو ڈانٹنے لگے، آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ہو سکتا ہے ، بھٹک کر دور چلی جاتیں یاکوئی مصیبت پیش آجاتی ؟ ان کی ملامت طویل ہو گئی تو خود والے شخص نے خود اتار کر کہا، عمرؓ ! آپ نے بات زیادہ بڑھا دی ہے ،کوئی بھٹک کر یا بھاگ کر اﷲ کے علاوہ کہاں جا سکتا ہے؟ یہ طلحہؓ بن عبیداﷲ تھے۔فتح مکہ سے قبل ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنوعبس کے ۹ افراد کو شام کی طرف سے آنے والے قریش کے ایک قافلے کی نگرانی کے لیے بھیجا ۔آپ نے ان کے لیے دعا کی اور فرمایا،مجھے دسواں آدمی ڈھونڈ دو جسے میں علم سونپوں۔پھر آپ نے طلحہؓ بن عبیداﷲ کو شامل فرمایا اوردستے کا شعار ’یا عشرۃ‘ (اے دس افراد!) تجویز کیا۔

طلحہؓ بن عبیداﷲ بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔ان کے خادم سلمہؓ بن اکوع جوان کی خدمت کے ساتھ ان کے گھوڑے کی دیکھ بھال کرتے ،اسے پانی پلاتے اورکھریرا کرتے، مکہ میں اپنا گھر بار چھوڑ کر طلحہؓ کے ساتھ مدینہ ہجرت کر آئے تھے اور کئی معرکوں میں داد شجاعت دی ،غزوۂ حدیبیہ میں بھی ان کے ساتھ تھے۔انھوں نے صلح کے واقعات تفصیل سے روایت کیے ہیں۔طلحہؓ فتح مکہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ رہے۔ انھوں نے غزوۂ حنین میں بھی بہادری کے جو ہر دکھائے۔جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہؓ نے حجۃ الوداع کے لیے احرام باندھے تو آپ اور طلحہؓ کے علاوہ کسی کے پاس قربانی کا جانور نہ تھا۔علیؓ یمن سے آئے تو ان کے پاس بھی ہدی کا جانور تھا۔ ان تینوں نے حج قران کیا ،باقی اصحاب کو آپ نے حج تمتع کی اجازت دے دی چنانچہ ان سب نے طواف کر کے بال کٹوائے اور احرام کھول دیے ۔

شق،نطات اور کتیبہ یہودیوں کے تین قلعوں کے نام تھے جو جنگ خیبر میں فتح حاصل ہونے کے بعد مسلمانوں کو ملے۔ مال غنیمت کی تقسیم ہوئی تو طلحہؓ بن عبیداﷲ کو شق میں حصہ ملا۔

۹ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو غزوۂ تبوک کے لیے تیاری کرنے کا حکم دیا۔اس موقع پر منافقوں نے مخلص اہل ایمان کوجنگ میں شرکت سے روکنے اور انھیں بدد ل کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کیں۔ایسی ہی ایک سرگرمی میں وہ ایک یہودی سویلم کے گھر میں جمع تھے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے طلحہؓ بن عبیداﷲ کو کچھ صحابہؓ کے ساتھ سویلم کا گھر جلانے کے لیے بھیجا ۔ایک منافق ضحاک بن خلیفہ نے گھر کے عقب سے چھلانگ لگائی تو اس کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔طلحہ کو دیکھ کر باقی منافقین بھی وہاں سے کھسک گئے۔ جب غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے تین مخلص اصحاب رسول ،کعبؓ بن مالک،مرارہؓ بن ربیع اور ہلالؓ بن امیہ کی توبہ قبول ہوئی اوران کے حق میں قبولیت کی آیات نازل ہوئیں توکعب مسجد نبوی میں آئے جہاںآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہؓ تشریف فرما تھے۔طلحہؓ بن عبیداﷲ نے انھیں دیکھا تو دوڑتے ہوئے ان کی طرف بڑھے،ان سے مصافحہ کیااور مبارک باددی ۔کعبؓ کہتے ہیں، ان کے علاوہ مہاجرین میں سے کوئی میری طرف نہ آیا ۔میں طلحہ کایہ سلوک کبھی نہیں بھول سکتا۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد حضرت ابوبکر ؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے۔ابن کثیر کا کہنا ہے ،حضرت علی نے اسی روز (یا دوسرے روز) ان کی بیعت کر لی ۔باقی اہل تاریخ کا خیال ہے، علیؓ،زبیرؓ اور طلحہؓ نے بیعت کرنے میں تاخیر کی۔عہد صدیقیؓ شروع ہوا تھا کہ ارتداد کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا،ادھر کچھ قبائل نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا۔ حضرت ابوبکرؓجیش اسامہ کو روانہ کر چکے تو مدینہ میں فوج کم پڑ گئی ۔اس وقت خدشہ ہوا ،کہیں پاس پڑوس کے بدو مدینہ پر ٹوٹ نہ پڑیں اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے مدینہ آنے والے پہاڑی راستوں پرفوجی دستے مقرر کیے جو دن رات پہرہ دیتے۔ ایک دستے کے سردار طلحہؓ بن عبیداﷲتھے،باقی دستوں پرعلیؓ، زبیرؓ بن عوام ،سعدؓبن ابی وقاص،عبدالرحمانؓ بن عوف اور عبداﷲؓ بن مسعود مقرر تھے۔ مدعیۂ نبوت سجاح کے ساتھیوں زبرقان اور اقرع نے توبہ کر لی تو حضرت ابوبکرؓکے پاس آئے اور کہا،بحرین کا خراج ہمیں لکھ دیجیے، ہم ضمانت دیتے ہیں،ہماری قوم کا کوئی شخص مرتد نہ ہوگا ۔وہ مان گئے اور پروانہ لکھ کر دے دیا۔طلحہؓ بن عبیداﷲ اس بات چیت میں شامل تھے۔ انھیں معاہدے کی دستاویز پر کچھ گواہوں کے دستخط ثبت کرانے تھے ، حضرت عمرؓ ان میں سے ایک تھے۔طلحہؓ ان کے پاس گئے تو انھوں نے دستخط کرنے کے بجائے کاغذ ہی پھاڑ دیا ۔طلحہ کوغصہ آ گیا،وہ ابوبکرؓ کے پاس گئے اور پوچھا ، خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟انھوں نے جواب دیا ،عمرؓ،مگر اطاعت میری ہوگی۔۱۲ھ میں طلحہؓ نے خالدؓ بن ولید کے ساتھ شام کے معرکوں میں حصہ لیا۔

خلیفۂ اول نے اپنے مرض الموت میں عمر کوجانشین مقرر کیا تو طلحہؓ بن عبیداﷲ ان کے پاس آئے اور کہا،آپ نے حضرت عمرکو خلیفہ بنا دیا ہے حالانکہ آپ کو معلوم ہے، آپ کے ہوتے ہوئے لوگوں کو ان کی طرف سے کیسی سختی کا سامنا کرنا پڑا،وہ تنہا حاکم بن گئے تو معاملہ کیاہو گا۔ آپ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو وہ رعیت کے بارے میں سوال کرے گا۔ابو بکرؓ نقاہت کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے لیکن اتنی اہم بات ان کے سامنے آئی تو فوراً بٹھانے کو کہا پھر فرمایا،تم مجھے اﷲ کا خوف دلا رہے ہو ؟میں اپنے رب سے ملوں گا اور وہ مجھ سے یہ سوال کرے گا تو میں کہوں گا ،اﷲ ! میں نے تیرے بندوں میں سے بہترین شخص کو ان کا خلیفہ مقرر کیا ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ کی تدفین کے وقت عمرؓ،عثمانؓ، طلحہؓ اور عبدالرحمانؓ بن ابو بکر قبر میں اترے، عبداﷲؓ بن ابوبکرؓ نے اترنا چاہا تو عمرؓ نے منع کر دیا۔

سیدنا عمرؓ نے منصب خلافت سنبھالنے کے بعد اتنا وظیفہ لینا قبول کیا جو ابوبکرؓ لیتے رہے تھے،اتنی تھوڑی رقم میں ان کی ضروریات پوری نہ ہوتیں۔ کبار مہاجرین میں سے عثمانؓ، علیؓ ، طلحہؓ اور زبیرؓ نے سیدہ حفصہؓ کی وساطت سے ان سے وظیفہ بڑھانے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا،میں اپنے صاحبین( اور پیش رووں) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابوبکرؓکے طریقے(انتہائی کم پر اکتفا ) پرچلا تو ہی ان کا ساتھ حاصل کر سکوں گا اور اگر میں نے ان کی راہ چھوڑ دی تو ان سے کبھی نہ مل پاؤں گا۔ طلحہؓ بن عبیداﷲ نے سیاہ اندھیری رات میں حضرت عمرؓ کوایک عورت کے گھر جاتے دیکھا۔صبح کوکھوج لگانے نکلے تو معلوم ہوا، ایک نابینا ، اپاہج بڑھیاوہاں رہتی ہے۔ پوچھا ، یہ شخص (عمرؓ)تمہارے پاس کیوں آتا ہے؟اس نے بتایا،اتنا عرصہ ہو گیا ،یہ میرے پاس آ رہا ہے۔ میری ضرورت کی چیزیں لے آتا ہے اور میری تکالیف کا ازالہ کردیتا ہے۔طلحہ فرماتے ہیں ، میں نے اپنے آپ کو ملامت کی،تیری ماں تجھے جیتا نہ دیکھے، تو عمرؓ کی غلطیاں تلاش کرتا ہے؟

یکم محرم ۱۴ھ کوخلیفۂ ثانی عمرفاروقؓنے قادسیہ بھیجنے کے لیے لشکر ترتیب دیا تو طلحہؓ بن عبیداﷲ کو مقدمہ کی سربراہی سونپی،وہی اسے اعوص تک لے کر گئے۔ میمنہ پر عبدالرحمانؓ بن عوف اور میسرہ پر زبیرؓ بن عوام تھے۔ عمرؓ چشمۂ صرار پہنچے توعثمانؓ، علیؓ،طلحہؓ اور دوسرے اہل رائے کوبلا کر مشورہ کیا کہ آیا اس مہم کی قیادت انھیں خود کرنی چاہیے ؟کئی صحابہؓ نے اس کے حق میں رائے دی ،طلحہؓ بھی ان میں شامل تھے تاہم عبدالرحمانؓبن عوف نے امیر المومنینؓ کی قیادت کی زبردست مخالفت کی،انھی کی رائے سے سعدؓ بن ابی وقاص کو امیر جیش بنایا گیا۔ سعدؓ نے امارت حاصل ہونے کے بعد لشکر کی تشکیل نو کی تو طلحہؓ مقدمہ پر نہ رہے چنانچہ جنگ قادسیہ کے حالات میں ان کا ذکر نہیں ملتاالبتہ طبری نے روایت کی ہے کہ سیدنا عمرؓ نے اختتام جنگ پر انھیں خمس میں سے جاگیر دی۔

۲۱ھ میں حضرت عمرفاروق کوخبر ملی کہ ایرانی اپنے بڑے بڑے شہر اہواز،اصطخراور مدائن چھن جانے سے رنجیدہ ہیں اورانھوں نے فیرزان کی قیادت میں نہاوند میں ڈیڑھ لاکھ فوج اکٹھی کر لی ہے۔حضرت عمر نے صحابہؓ سے مشورہ کیا ، کیا میں فوج لے کرچلوں اور وہاں موجود اسلامی قوت کو کمک فراہم کروں؟ عثمانؓ، علیؓ،طلحہؓ،زبیرؓ اور عبدالرحمانؓ نے مشورہ دیا،ہماری رائے میں آپ کا خود جانا مناسب نہ ہو گا ، ہاں جیش اسلامی کو آپ کی رہنمائی حاصل رہنی چاہیے۔ طلحہؓ نے مزید کہا، امیر المومنین!آپ جوحکم دیں ،ہم مانیں گے۔ آخر کار نعمانؓ بن مقرن کوجنگ نہاوند میں کمانڈر بنانے کا فیصلہ ہوا۔

(ساڑھے تین کروڑ جریب) پر مشتمل عراق کا سرسبز میدانی علاقہ(جسے سواد عراق کہا جاتا ہے ) مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو مال غنیمت کی طرح اسے بھی فوجیوں میں تقسیم کرنے کی تجویز آئی۔حضرت عمرؓنے یہ کہہ کر انکار کر دیا،اگر یہ زمین فاتحین میں بانٹ دی گئی تو مسلمانوں کی اگلی نسلوں کے لیے کیا بچے گا؟ عبدالرحمانؓ بن عوف کی رائے تھی،اراضی بھی مال فے ہے اور اس پر غانمین کا حق ہے۔ فوجی سمجھتے رہے ،عمرؓ ان کا حق مار رہے ہیں۔ یہ مسئلہ شوریٰ میں پیش ہوا توعثمانؓ،طلحہؓ اور علیؓنے عمرؓ کی رائے کو ترجیح دی۔

قاتلانہ حملہ کے بعدحضرت عمرؓ نے فرمایا،میں خلافت کا ان اشخاص سے زیادہ کسی کو حق دار نہیں سمجھتاجن سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وفات کے وقت راضی تھے۔میرے مرنے کے بعد اہل ایمان ان میں سے جس کو خلیفہ بنا لیں وہی خلیفہ ہو گا۔ انھوں نے عشرۂ مبشرہ میں سے عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، عبدالرحمانؓ بن عوف اور سعدؓ بن ابی وقاص کے نام لیے۔ طلحہؓاس وقت مدینہ میں موجود نہ تھے ،عمرؓ نے باقی اصحابؓ سے کہا،تم لوگوں کے سردار اور ان کے قائدین ہو، خلافت تم میں سے کسی ایک ہی کے پاس آئے گی۔ اگر درست روش اختیار کی توامید ہے کہ لوگ تمہاری مخالفت نہ کریں گے مگرمجھے تمہارے باہمی اختلافات کا اندیشہ ہے ، ایسا ہوا تو عام اہل ایمان بھی جھگڑنے لگ جائیں گے۔طلحہؓ مشاورت میں تمہارے شریک ہونے چاہییں، اگر میری موت کے تین روز بعد تک وہ مدینہ نہ لوٹے تو تم خود ہی فیصلہ کر لینا۔ پھر پوچھا، مجھے کون طلحہؓ کی ضمانت دے گا؟سعدؓ نے جواب دیا ،ان کا ذمہ دار میں ہوں۔ عمرؓ نے کہا،امید ہے ،ان کی طرف سے کوئی اختلاف نہ ہو گا۔بخاری میں ہے، ’’میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین اولین سے اچھا برتاؤ کرے، ان کا حق پہچانے اوران کی عزت و حرمت کی حفاظت کرے۔میں اسے انصار سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرتا ہوں جو دار ہجرت میں پہلے سے مقیم اور ایمان میں پختہ ہیں ،ان کے نیکوں کو مقبولیت دے اور گناہ گاروں سے درگزر کرے۔مسورؓ بن مخرمہ کے گھر شوریٰ کا اجلاس شروع ہوا تو طلحہ لوٹ آئے، اس طرح ۶ ارکان مکمل ہو گئے ۔ ’’اس موقع پر عبدالرحمانؓ بن عوف نے مشورہ دیا،خلافت کے انتخاب کو ۳ اشخاص (یعنی ارکان شوریٰ کے نصف) پر موقوف کر دو۔چنانچہ زبیر،ؓ علیؓ کے حق میں،سعدعبدالرحمانؓ کے حق میں اور طلحہؓعثمانؓ کے حق میں دست بردار ہوگئے ۔‘‘طبری (اور مداینی ) کا یہ بیان درست معلوم نہیں ہوتا کہ طلحہؓ اس روز واپس آئے جب حضرت عثمانؓ کی بیعت ہو رہی تھی۔انھیں بیعت کے لیے کہا گیا توپوچھا ،کیاتمام قریشی ان پر راضی ہو گئے ہیں۔جواب ملا،ہاں۔پھروہ حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اور ان سے یہی سوال کیا۔انھوں نے بھی اثبات میں جواب دیا تو بیعت کر لی۔

ایک بار حضرت عثمانؓنے اہل مدینہ سے پوچھا، تم میں سے کون فے میں ملنے والی اپنی اراضی عراق سے یہاں منتقل کرنا چاتا ہے؟ لوگوں نے کہا،یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنی زمینیں ادھرلے آئیں؟انھوں نے کہا ، انھیں ان جائیدادوں کے بدلے میں فروخت کر دو جو حجاز میں ہیں۔اس تجویز سے سب خوش ہوئے ، تب اراضی ادل بدل کرنے کے کئی سودے ہوئے۔ خودحضرت عثمانؓ نے اپنی عراق کی اراضی طلحہؓ کو دے کرتبادلے میں بیر اریس خریدا۔کوفہ کی زرخیز نہری اراضی نشاستج طلحہ کو ایسے ہی سودے میں حاصل ہوئی۔اس بارے میں تین مختلف روایتیں ہیں،ایک روایت کے مطابق انھوں نے جنگ خیبرمیں ملنے والے اپنے حصے مدینہ کے ایک باشندے کے آگے فروخت کرکے اس کی ملکیت حاصل کی۔ موسیٰ بن طلحہؓ کی روایت کے مطابق یہ ایران کے شاہی خسروی خاندان کی چھوڑی ہوئی(evacuated)جاگیر تھی جو سیدنا عثمانؓ نے انھیں عطیے کے طو رپر دی۔تیسرا راوی کہتا ہے ،طلحہؓ نے اسے حضرموت میں موجود اپنے مال مویشیوں کے عوض میں خلیفۂ سومؓسے خریدا۔

آخرِ عہد عثمانیؓ میں مختلف علاقوں کے بلوائیوں نے مل کر مدینہ پر یورش کر دی۔پہلے انھوں نے گورنروں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا پھرامیرالمومنینؓسے استعفا مانگنے لگے۔ان میں شامل مصری علی کو ،بصری طلحہ کو اور کوفی زبیر کو اگلا خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ ہر گروپ نے اپنی اپنی پسندیدہ شخصیت سے الگ الگ ملاقات کی۔ تینوں اصحابؓ نے اپنے بیٹے حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لیے بھیج رکھے تھے،ان میں سے کسی نے بھی باغیوں کا ساتھ دینے کی ہامی نہ بھری بلکہ الٹا ان کو لعنت ملامت کی۔ چند دنوں کے بعد شورشیوں نے خلیفۂ سومؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا ،جمعہ کا دن آیا تو وہ دوران خطبہ میں نمازیوں پر سنگ باری کرنے لگے۔ حضرت عثمانؓ کو بھی پتھر لگا اور وہ بے ہوش کر منبر سے گر پڑے۔ انھیں گھر پہنچا دیا گیا ،علیؓ،طلحہؓ اور زبیرؓ ان کی عیادت کو گئے۔ انھی ایام میں ایک بار سیدنا عثمان مسجد نبوی میں آئے اور پوچھا،کیا یہاں علیؓ ہیں، زبیرؓہیں؟ طلحہؓ اور سعدؓ ہیں؟ان کی موجودگی کا علم ہوا تو فرمایا،میں تمھیں اس اﷲ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں،جب مسجد نبوی نمازیوں کے لیے چھوٹی پڑ گئی تو رسول اکرم نے فرمایا،جو اپنے مال سے فلاں قبیلے کا باڑا خریدے گاتو اﷲ اسے جنت میں اس سے بہتر گھر دے گا۔ میں نے اسے ۲۵ہزار درہم میں خریدلیا تو آپ نے فرمایا، اسے ہماری مسجد میں شامل کر دو، اس کا اجر پاؤگے۔ جب آنحضورمدینہ آئے، بیر رومہ کے سوا کوئی کنواں ایسا نہ تھا جس کا پانی میٹھا ہو۔ مسافر بھی بلا قیمت اس سے سیراب نہ ہو سکتا تھا ۔آپ نے فرمایا، کون اس کنویں کو خرید کر اس میں مسلمانوں کا حصہ اپنے حصے کے برابر ٹھہرائے گا؟ اسے جنت میں اس سے کہیں بہتر بدلہ ملے گا۔میں نے اسے خاص اپنے مال سے خریدا اور اہل ایمان کے لیے وقف کر دیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ نے غزوۂ تبوک کے دن بڑے بڑے سرداروں کی طرف دیکھ کر فرمایا،’’جو اس لشکر (جیش عسرت) کے لیے اسلحہ اور سامان مہیا کرے گا،اﷲ اس کی مغفرت کرے گا۔‘‘ میں ہی تھا جس نے اسے کیل کانٹے سے لیس کیا۔ لوگوں نے ان باتوں کی تائید کی تو انہوں نے کہا، اے اﷲ! گواہ رہ، اے اﷲ! گواہ رہ،اے اﷲ! گواہ رہ، پھر چلے گئے۔ اسی دوران میں ایک باروہ اس دریچے پر آئے جو مسجد نبوی کے مقام جبرئیل ؑ کے پاس ہے اور حاضرین سے پوچھا ،کیا تم میں طلحہؓ بن عبیداﷲ ہیں؟ تین بار پکارنے پر طلحہؓ سامنے آئے تووہ ناراض ہوئے اور کہا، میرا خیال نہ تھا کہ تم ان لوگوں میں شامل ہو چکے ہو جنھیں بلانے کے لیے تین بار پکارنا پڑتا ہے۔ میں اﷲ کا نام لے کر تم سے پوچھتا ہوں، کیاتمھیں یاد ہے ، میں فلاں روز ، فلاں جگہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ۔صحابہؓ میں سے میں اور تم، محض دو افراد ہی موجود تھے ۔ آنحضرت نے تمھیں مخاطب کر کے فرمایا تھا ،’’طلحہ!ہر نبی کا اس کے امتیوں میں سے ایک خاص ساتھی ہوتا ہے جو جنت میں بھی اس کے ساتھ رہے گا۔ عثمانؓ جنت میں میرے رفیق ہوں گے۔‘‘ طلحہؓ نے تائید کی تو عثمانؓ گھر کو پلٹ گئے۔ترمذی نے طلحہؓ کی یہ روایت واقعہ کی تفصیل بتائے بغیر ذکر کی ہے۔

[باقی]

_______________

B