HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانعام ۶: ۹۵- ۱۰۸ (۹)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ{۹۵} فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ{۹۶} وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَھْتَدُوْا بِھَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ  لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ{۹۷} وَھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَ کُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَھُوْنَ{۹۸} وَھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیْئٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِھَا قِنْوَانٌ دَانِیَۃٌ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِھًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِہٍ اُنْظُرُوْٓا اِلٰی ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَیَنْعِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ{۹۹}
وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَآئَ الْجِنَّ وَخَلَقَھُمْ وَخَرَقُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَبَنٰتٍ م بِغَیْرِ عِلْمٍ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ{۱۰۰} بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ{۱۰۱} ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ فَاعْبُدُوْہُ وَھَُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ{۱۰۲} لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ{۱۰۳}
قَدْ جَآئَ کُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْھَا وَمَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ{۱۰۴} وَکَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَلِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَیِّنَہٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ{۱۰۵}
 اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ{۱۰۶} وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکُوْا وَمَاجَعَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا وَمَآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍ{۱۰۷}
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَھُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ مَّرْجِعُھُمْ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۰۸}
دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے۔۱۳۶؎ وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مردہ کو زندہ سے نکال لانے والا ہے۔۱۳۷؎ یہ ہے اللہ تو کہاں پھرے جاتے ہو؟۱۳۸؎ وہی صبح نکالنے والا ہے۔ ۱۳۹؎رات کو سکون کی چیز اُسی نے بنایا ہے۱۴۰؎ اور سورج اور چاند ایک حساب سے رکھے ہیں۔۱۴۱؎ یہ اُسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں۔۱۴۲؎ وہی ہے جس نے تمھارے لیے تارے بنائے تاکہ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں اُن سے رہنمائی حاصل کرو۔ ہم نے اپنی نشانیاں اُن لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر دی ہیں جو جاننا چاہیں۔۱۴۳؎ وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا ہے،۱۴۴؎ پھرہر ایک کے لیے ایک جاے قرار ہے۱۴۵؎ اور اُس کے سپرد خاک کیے جانے کی جگہ بھی۔۱۴۶؎ ہم نے اپنی نشانیاں اُن لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر دی ہیں جو سمجھنا چاہیں۔۱۴۷؎ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اُس سے ہر چیز کے انکھوے ہم نے نکالے،۱۴۸؎ پھر اُس سے سرسبز شاخیں اٹھائیں جن سے ہم تہ بر تہ چڑھے ہوئے دانے پیدا کر دیتے ہیں۔۱۴۹؎ اور کھجور کے شگوفوںسے لٹکتے ہوئے گچھے (بھی اِسی سے پیدا ہوتے ہیں۱۵۰؎) اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار بھی (ہم نے اِسی سے پیدا کیے ہیں)، جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔۱۵۱؎(اِن میں سے) ہر ایک کے پھل کو دیکھو، جب وہ پھلتا ہے اور اُس کے پکنے کو دیکھو، (جب وہ پکتا ہے۱۵۲؎)۔ اِن کے اندر اُن لوگوں کے لیے بڑی غیر معمولی نشانیاں ہیں جو ماننا چاہتے ہیں۔۱۵۳؎۹۵-۹۹
لیکن(اِن کی سفاہت کا یہ عالم ہے کہ) اِنھوں نے جنوں میں سے خدا کے شریک ٹھیرا دیے ہیں،۱۵۴؎ دراں حالیکہ اُسی نے اُنھیں پیدا کیا ہے۱۵۵؎ اور بغیر کسی علم کے اُس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کر لی ہیں۔۱۵۶؎ وہ پاک اور بالاتر ہے اُن سب چیزوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔۱۵۷؎وہ تو زمین و آسمان کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ اُس کے اولاد کہاں سے آئی، جبکہ اُس کی کوئی بیوی ہی نہیں ہے۔۱۵۸؎ اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔۱۵۹؎ وہی اللہ تمھارا پروردگار ہے، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، ہر چیز کا خالق ہے، لہٰذا اُسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز پر نگران ہے۔ اُس کو نگاہیں نہیں پا سکتیں، لیکن وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔۱۶۰؎ وہ نہایت باریک بین اور بڑا با خبر ہے۔۱۶۱؎۱۰۰-۱۰۳
تمھارے پروردگار کی طرف سے بصیرت کی آیتیں تمھارے پاس آ چکی ہیں۔ چنانچہ اب جو بصیرت حاصل کرے گا، اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنا رہے گا، اُس کا وبال بھی وہی اٹھائے گا اور (جہاں تک میرا تعلق ہے تو) میں تم پر کوئی نگران نہیں ہوں۔۱۶۲؎ ہم اپنی آیتیں اِسی طرح مختلف اسلوبوں سے پیش کرتے ہیں، (اِس لیے کہ اُن پر حجت قائم ہو۱۶۳؎) اور اِس لیے کہ وہ بول اٹھیں۱۶۴؎ کہ تم نے اچھی طرح پڑھ کر سنا دیا اور اِس لیے کہ ہم اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں، اِسے ہر لحاظ سے واضح کر دیں۔۱۰۴-۱۰۵
تم اُس چیز کی پیروی کرتے رہو، (اے پیغمبر)، جو تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر وحی کی جا رہی ہے۔ (حقیقت یہی ہے کہ ) اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور (یہ نہیں مانتے تو) اِن مشرکوں کو جانے دو۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ کبھی شرک نہ کر پاتے۔ ہم نے اِن پر تمھیں نگران مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم اِن کے ضامن ہو۔۱۶۵؎ ۱۰۶-۱۰۷
(یہ جس سفاہت میں مبتلا ہیں، اُس کے باوجود) تم لوگ اُنھیں گالی نہ دو جنھیں اللہ کے سوا یہ پکارتے ہیں، مبادا تجاوز کرکے یہ بن سمجھے اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔۱۶۶؎ (اِس لیے کہ) ہر گروہ کے عمل کو ہم نے اِسی طرح اُس کے لیے خوش نما بنا رکھا ہے۔۱۶۷؎ پھر (ایک دن) اُنھیں اپنے پروردگار کی طرف پلٹنا ہے۔ اُس وقت وہ اُنھیں بتا دے گا جو وہ کرتے رہے ہیں۔۱۶۸؎۱۰۸

۱۳۶؎ یعنی ایک چھوٹے سے دانے اور چھوٹی سی گٹھلی کو دیکھو، اُسے زمین کی تہوں میں پھاڑ کر اُس سے درختوں اور پودوں کی کونپلیں کون نکالتا ہے۔ یہ خدا ہی کی قدرت ہے کہ اُس نے ایک ایک بیج اور ایک ایک گٹھلی میں یہ صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں۔ پھر وہی ہے جو اپنی کائنات کی ہر چیز کو اُن کی صلاحیتیں بروے کار لانے کے لیے امر فرماتا ہے۔ اِن سب چیزوں میں کیا اُس کے سوا کسی اور کا تصرف دیکھتے ہو؟ ہرگز نہیں، تم بھی جانتے ہو کہ تنہا اللہ ہے جو دانے اور گٹھلی سے لے کر پوری کائنات پر بلاشرکت غیرے حکومت کر رہا ہے۔ اِس میں کسی دوسرے کو اگر ادنیٰ اختیار بھی ہوتا تو اِن میں سے کوئی چیز نہ وجود پذیر ہو سکتی تھی اور نہ بروے کار آ سکتی تھی۔

۱۳۷؎ مردہ سے زندہ کو نکالنے کے لیے فعل استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مقصود تصویر حال ہے، لیکن زندہ سے مردہ کو نکالنے کے لیے فاعل کا صیغہ استعمال فرمایا ہے جس میں عزم اور فیصلے کا مفہوم بھی شامل ہو گیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ کوئی چاہے یا نہ چاہے ، خدا زندگی کو موت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اُس کا یہ قانون ایسا اٹل ہے کہ زندگی حاصل ہو جانے کے بعد کسی جان دار کو زندگی سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں ہوتی، مگر خدا کا فیصلہ نافذ ہو کے رہتا ہے اور وہ اپنی یہ محبوب ترین چیز بھی اُس کے حوالے کر دینے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ موت اور زندگی کا یہ قانون جس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔آم کی بے جان گٹھلی اور گیہوں کے بے جان دانے سے ہرا بھرا درخت اور لہلہاتا ہوا پودا پیدا ہو جاتا ہے اور پھر اِسی سبزوشاداب درخت اور لہلہاتے ہوئے پودے پر زردی، خشکی اور مردنی طاری ہونی شروع ہوتی ہے، یہاں تک کہ ایک دن وہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہی مشاہدہ ہم انسانوں اور حیوانوں میں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ قوموں اور ملتوں کے اندر بھی موت اور زندگی ، عروج اور زوال کی یہی داستان برابر دہرائی جا رہی ہے۔ ایک قوم پردۂ عدم سے نکلتی ہے ، ساری دنیا پر چھا جاتی ہے اور پھر وہی قوم، ایک دن آتا ہے کہ پردئہ عدم میں جا چھپتی ہے۔ موت اور زندگی کے اِس قانون سے کسی کے لیے مفر نہیں۔ اگر خدا کے سوا کسی اور کا بھی اِس کائنات میں مالکانہ و خودمختارانہ تصرف ہے تو کسی ایک گوشے ہی میں وہ اِس قانون کو باطل کیوں نہیں کر دیتا اور اگر خدا سرے سے ہے ہی نہیں، بلکہ یہ سب کچھ مجرد مادے یا کسی اندھی بہری طاقت کا بروز ہے تو اِس کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ بروز قائم و دائم رہے، نہ اِس میںکبھی انقطاع ہو، نہ اِس کے رخ میں کوئی تبدیلی واقع ہو، نہ اِس پر کوئی تغیر طاری ہو۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۱۷)

۱۳۸؎ یعنی خدا کی یہ شانیں دیکھتے ہو اور اِس کے باوجود اُس کے شر کا بنانے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہو؟

۱۳۹؎ یعنی جو زمین کے اندر دفن ہونے والے دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر درخت اور سبزہ پیدا کرتا ہے، اُس کی شانیں آسمان میں بھی دیکھو ، وہی پردئہ شب کو چاک کرکے اُس کے اندر سے صبح کو نمودار کرنے والا بھی ہے۔

۱۴۰؎ اِس سے یہ اشارہ خود بخود نکلا کہ رات انسان کے لیے راحت و سکون کا بستر اِسی لیے بچھاتی ہے کہ اُس کے بعد صبح ہونی ہے جس میں اُسے معاش اور معیشت کی سرگرمیوں میں مصروف ہو جانا ہے۔

۱۴۱؎ یعنی اُن کے لیے ایک ضابطہ اور نظام الاوقات مقرر کیا ہے جس سے وہ آسمان میں ہوتے ہوئے زمین والوں کے لیے موسم پیدا کرتے اور دن ، مہینے اور سال معین کرتے ہیں۔

۱۴۲؎ یہ جملہ اِس طریقے سے آیا ہے گویا عقل سلیم کے ساتھ اِس کائنات پر غور کرنے والے ہر دل کی صدا ہے جو بے اختیار زبان پر آ گئی ہے۔

۱۴۳؎ اصل الفاظ ہیں: ’لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ‘۔ اِن میں فعل ارادۂ فعل کے لیے ہے۔ مدعا یہ ہے کہ نشانیاں مانگتے ہو تو دیکھ لو، علم کے سچے طالبوں کے لیے یہ نشانیاں کیا کم ہیں جو ہم نے کھول کر بیان کر دی ہیں۔

۱۴۴؎ یعنی آدم سے پیدا کیاہے۔ یہ اب خارجی عالم کی نشانیوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد انسان کو خود اُس کی خلقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ صورت ، شکل، زبان اور لہجے کے اختلافات کے باوجود تمھارا وجود اپنے جبلی تقاضوں اور فطری داعیات سے شہادت دیتا ہے کہ تم سب ایک ہی آدم کی اولاد ہو اور تمھارا خالق بھی ایک ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا ہے۔ آیت میں اِس کے لیے لفظ ’اَنْشَاَ‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی صرف پیدا کرنے کے نہیں ہیں، بلکہ یہ بھی ہیں کہ تمھیں نشوونما بخشی، پروان چڑھایا اور اِس طرح فروغ دیا ہے کہ اُس کی قدرت و حکمت کا ایک معجزہ بن گئے ہو۔

۱۴۵؎ یعنی رہنے بسنے کی جگہ ہے جس میں وہ اتنے دن لازماً گزارتا ہے جو اُس کے لیے مقدر ہوتے ہیں اور جو رزق لکھا ہوتا ہے ، اُس سے متمتع ہو کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ چیز خود بتاتی ہے کہ جس نے پیدا کیا ہے، یہ مستقر بھی اُسی کا دیا ہوا ہے، اِس میں کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں ہے۔

۱۴۶؎ اصل میں لفظ ’مُسْتَوْدَعٌ‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی ہیں: وہ جگہ جہاں کوئی چیز امانت و ودیعت کے طور پر حفاظت سے رکھی جائے۔ مطلب یہ ہے کہ موت کے بعد کہاں رکھے جائو گے، اِس کی جگہ بھی اُسی پروردگار نے متعین کر رکھی ہے تاکہ جب چاہے اپنی یہ امانت زمین کی تحویل سے واپس مانگ لے۔

۱۴۷؎ پہلے فرمایا تھا :جو جاننا چاہیں۔ جاننے کی خواہش انسان کو حقائق کی طرف متوجہ کرتی ہے اور سمجھنے کی خواہش اُس کے اندر محسوسات سے آگے بڑھ کر دیکھنے کا حوصلہ پیدا کر دیتی ہے۔

۱۴۸؎ غائب سے متکلم کی طرف یہ التفات نہایت دل نواز ہے۔ گویا کمال رافت و رحمت سے انسان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے کہ ادھر دیکھو، یہ ہمیں ہیں کہ آسمان کے پانی سے تمھارے لیے کیا کچھ پیدا کر دیتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِس میں رافت، عنایت اور ربوبیت کا اظہار بھی ہے اور اِس حقیقت کی طرف اشارہ بھی کہ آسمان و زمین اور ابروہوا ، سب پر ہماری ہی حکومت ہے۔ اگر آسمان پر کسی اور کی حکومت ہوتی، زمین پر کسی اور کی تو یہ تو افق کہاں سے ظہور میں آتا کہ آسمان سے پانی برستا اور زمین اپنے خزانے اگل دیتی۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۲۴)

۱۴۹؎ یعنی پہلے سرسبز خوشے اور بالیاں نکالتے ہیں، پھر اپنی قدرت و حکمت سے اُن پر تہ بر تہ دانے جما دیتے ہیں۔

۱۵۰؎ غلے کے بعد پھلوں کا ذکر فرمایا ہے اور اُن میں سب سے پہلے کھجور کو لیا ہے جو اہل عرب کا عام پھل تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔کھجور کا ذکر اِس طرح فرمایا ہے کہ اُس کے درخت، اُس درخت کے اندر گابھے کا پیدا ہونا اور پھر اُس سے لٹکتے ہوئے بوجھل خوشوں کا ظہور میں آنا، ہر چیز کی طرف توجہ دلا دی ہے تاکہ اُس کاری گری پر انسان کی نظر پڑے جو اُس کے ابتداے ظہورسے لے کر اُس کی تکمیل اور پختگی تک قدرت اُس پر صرف کرتی ہے۔ اِسی کاری گری اور صنعت پر غور کرنے سے انسان کو صانع کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اُس کی قدرت و حکمت اور اُس کی رحمت و ربوبیت کا کچھ اندازہ کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قدرت کا منشا اِن قدرتوں اور حکمتوں کے اظہار سے یہی ہے کہ انسان کو خدا کی معرفت حاصل ہو، ورنہ جہاں تک کھجور کی ضرورت مجرد غذا کے لیے ہے، اُس کی فراہمی کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ ایک چھوٹی سی گٹھلی سے درجہ بدرجہ ایک تناور درخت بنے، پھر ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر اُس کے اندر گابھے اور خوشے پیدا ہوں، پھر اُن کے اندر ننھی ننھی کیریاں بیٹھیں، پھر وہ درجہ بدرجہ پھل بنیں، پھر پک کر اوربوجھل ہو کر اُن کے خوشے زمین کی طرف لٹک آئیں اور انسان کو زبان حال سے دعوت شوق دیں۔ یہ سارا اہتمام ، دل گواہی دیتا ہے کہ اِسی لیے ہے کہ انسان پر خدا کی قدرت ، اُس کی ربوبیت اور اُس کی حکمت کے اسرار ظاہر ہوں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۲۵)

۱۵۱؎ یہ اہل عرب کے معروف پھل تھے، اِس لیے صرف اِنھی کا ذکر کیا ہے اور اِن میں بھی خاص طور پر اُس گونا گونی اور بوقلمونی کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے خدا کی ربوبیت ، رحمت، فیاضی اور قدرت و حکمت کی شان نمایاں ہوتی ہے۔

۱۵۲؎ اصل الفاظ ہیں: ’اُنْظُرُوْٓا اِلٰی ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَیَنْعِہٖ‘۔ ’یَنْعِہٖ‘ کے بعد ’اذا اینع‘ کے الفاظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گئے ہیں۔ ’اِلٰی ثَمَرِہٖٓ‘ میں ضمیر کا مرجع اوپر کی سب چیزیں ہیں، لیکن یہ واحد اِس لیے لائی گئی ہے کہ ہر چیز کو الگ الگ لے کر اُس پر غور کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’فرمایا کہ اِن میں سے ایک ایک چیز کو لے کر اُس کے پھلنے سے لے کر اُس کے پکنے کے مراحل تک ہر مرحلے کو دیکھو اور اُس پر غور کرو تو خالق کی قدرت ، حکمت، ربوبیت، صناعی، کاری گری، باریک بینی، فیض بخشی اور اُس کے حسن و جمال کی اتنی نشانیاں اور اتنی شہادتیں تمھارے سامنے آئیں گی کہ تم اُن کو شمار نہیں کر سکو گے۔ تم ایک نشانی اور ایک معجزہ مانگتے ہو، آنکھیں ہوں تو ہر شاخ معجزہ، ہر پھول معجزہ، ہر پھل معجزہ۔ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کے اندر قدرت کے اعجاز کے ہزاروں شاہ کار جلوہ نما نہ ہوں۔ ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں کہ یہ دنیا اپنے بقا کے لیے اِن تمام عجائب کی نمایش کی محتاج نہ تھی۔ یہ بالکل سادہ اور بے رنگ حالت میں بھی وجود میں آ سکتی اور باقی رہ سکتی تھی، لیکن خالق کائنات نے یہ پسند فرمایا کہ ایک ایک پھول اور ایک ایک پتی سے اُس کی عظیم قدرت و حکمت اور اُس کی بے نہایت رحمت و ربوبیت ظاہر ہو تاکہ انسان اُس کی معرفت حاصل کرے۔ لیکن یہ انسان کی عجیب بدقسمتی ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنی ذہانت کے مظاہرے کا اتنا شوقین ہے کہ اگر ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے مدفون کھنڈروں سے کوئی ٹوٹا ہوا مٹی کا مرتبان بھی اُس کو ہاتھ آجائے تو اُس پر کھنچی ہوئی آڑی ترچھی لکیروں سے وہ اُس عہد کے آرٹ، اُس عہد کے کلچر، اُس عہد کی تہذیب، اُس دور کے مذہب، اُس دور کی سیاست، غرض ہر چیز پر ایک مزعومہ فلسفہ اور ایک فرضی تاریخ تیار کر دے گا، دوسری طرف اُس کی بلادت اور بدذوقی کا یہ عالم ہے کہ خالق کائنات نے ایک ایک پتی پر اپنی حکمت کے جو دفاتر رقم فرمائے ہیں، نہ اُن کا کوئی حرف اُس کی سمجھ میں آتا ہے نہ اُن سے اُسے کوئی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۲۷)

۱۵۳؎ یعنی ضدی اور ہٹ دھرم نہیں ہیں۔ بات سمجھ میں آجائے تو ماننے کے لیے تیار ہیں۔ علم اور تفقہ کے ساتھ یہ تیسری چیز بھی ضروری ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی سامنے پڑی ہوئی چیزوں کو بھی دیکھنے سے انکار کر دیتا ہے۔ فرمایا کہ اِس طرح کے لوگوں کے لیے اِس بات کی غیر معمولی نشانیاں ہیں کہ اِس کائنات کی خدائی اگر مختلف دیوتاؤں اور خدائوں میں بٹی ہوئی ہوتی تو رائی کا ایک دانہ بھی اپنی صلاحیتیں اجاگر نہیں کر سکتا تھا؛ موت و حیات کا کارخانہ جس تواتر کے ساتھ اور ایک قانون اور قاعدے کے مطابق چل رہا ہے، ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتا تھا؛ رات اور دن میں یہ توافق اور سازگاری ہرگز پیدا نہیں ہو سکتی تھی کہ ایک انسان کے لیے راحت کا بستر بچھائے اور ایک اُس کے لیے معاش اور معیشت کی سرگرمیوں کا میدان گرم کر دے؛ آسمان کے تارے زمین والوں کے لیے شمع برداری کی خدمت انجام نہیں دے سکتے تھے؛ انسان اُن تنوعات کے ساتھ جو ہر قوم اور قبیلے سے نمایاں ہیں، ایک ہی سمت میں تہذیب کا سفر جاری نہیں رکھ سکتے تھے؛ زندگی ، رزق اور اسباب وو سائل میں ایک دوسرے کے لیے ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی تھی؛ کائنات کے اجزاے مختلفہ اِس قدر تدبیر و حکمت کے ساتھ انسان کی زندگی کے بقا کا ذریعہ نہیں بن سکتے تھے۔ یہ حقائق گواہی دیتے ہیں کہ سورج، چاند، ابروہوا، نوروظلمت، سردی گرمی، بہار و خزاں، زمین و آسمان، غرض یہ کہ کائنات کی ہر چیز پر ایک ہی قادر و قیوم کی حکمرانی ہے۔ اِس کائنات کو بنانے اور اِس کو چلانے میں کوئی بھی اُس کا شریک نہیں ہے۔ الا لہ الخلق والامر، تبارک اللّٰہ رب العٰلمین۔

۱۵۴؎ یعنی اِس کے باوجود کہ خدا کی یہ شانیں شب و روز دیکھتے ہیں، لیکن اِن احمقوں کی خردباختگی، سفاہت اور بوالفضولی دیکھو کہ جنوں اور بھوتوں کو اُس کا شریک ٹھیراتے ہیں اور اِس طرح گویا اپنے توہمات کو خدا بنا کر اُن کی پرستش کر رہے ہیں۔

۱۵۵؎ یہ کلام کے بیچ میں ایک جملۂ معترضہ ہے جس سے بلاتاخیر اِس لغویت کی تردید فرما دی ہے کہ خدا کی ایک مخلوق اُس کی شریک بھی ہو سکتی ہے۔

۱۵۶؎ اہل عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیوں کا درجہ دیتے اور اُن کی مورتیں بنا کر دیویوں کی حیثیت سے اُن کی پوجا کرتے تھے۔ یہی معاملہ مسیحیوں نے سیدنا مسیح کے ساتھ کیا اور اُنھیں خدا کا بیٹا بنا دیا۔ یہ سب بغیر کسی عقلی یا نقلی دلیل کے کیا گیا۔ نہ خدا نے کبھی اِس کی شہادت دی اور نہ عقل و فطرت کے اندر کوئی چیز کبھی اِس کے حق میں پیش کی جا سکی۔

۱۵۷؎ اصل میں لفظ ’سُبْحٰنَہٗ‘ آیا ہے۔ یہ تنزیہہ کا کلمہ ہے، لیکن اِس کے اندر توحید کی نہایت واضح دلیل بھی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔عقل و فطرت کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ کسی چیز کی طرف کوئی ایسی صفت منسوب نہ کی جائے جو اُس کی ثابت، مسلم اور بدیہی صفات کے ضد یا منافی ہو۔ اگر ایسا کیا جائے تو اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی ہی مانی ہوئی ایک حقیقت اپنے ہی دوسرے مفروضے سے باطل ہو جاتی ہے۔ اگر ایک شخص بادشاہ ہے تو اُس کی طرف غلامی کی صفات منسوب نہیں ہو سکتیں۔ فرشتہ ہے تو اُس کو شیطان کی صفات سے ملوث نہیں کیا جا سکتا۔ اِسی طرح جو ذات خالق، مالک، قدیر، علیم اور کریم و رحیم ہے، اُس کو اُن صفات سے متصف کرنا جو مخلوق کی صفات ہیں، اُس کی اُن تمام صفات کی نفی کے ہم معنی ہے جن کا ماننا ازروے عقل و فطرت واجب ہے اور جن کی نفی سے انسان اُن تمام تاریکیوں میں پھر گھر جاتا ہے جن سے اِن صفات کے علم کی روشنی ہی نے اُس کو نکالا تھا۔ اگر خدا کو خدا ماننے کے بعد بھی جنات اور فرشتوں کو اُس کا شریک قرار دے دیا گیا اور اُس کو بیٹوں اور بیٹیوں کا باپ بنا دیا گیا تو پھر وہ خدا کہاں رہا؟ پھر تو اُس کے کفووہم سر بھی پیدا ہوگئے، اُس کی ذات برادری کے شریک بھی نکل آئے اور اُس کے مدمقابل اور حریف بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۳۰)

۱۵۸؎ یعنی جب اُس کی بیوی نہیں مانتے تو اولاد کہاں سے پیدا کر لیتے ہو؟ تمھیں بھی تسلیم ہے کہ وہی سب کا خالق ہے، پھر تعجب ہے کہ اُس کے پیدا کیے ہوئے فرشتوں، جنات اور انسانوں کو اُس کی ذات اور اُس کی خدائی میں شریک ٹھیراتے ہو۔

۱۵۹؎ یعنی جب اُس نے پیدا کیا ہے اور وہ اپنی مخلوقات کی ایک ایک چیز سے واقف بھی ہے تو اُس کو چھوڑ کر کسی اور کے آستانے پر جانے اور سر جھکانے کی کیا ضرورت ہے؟

۱۶۰؎ مطلب یہ ہے کہ تم اُسے نہیں دیکھ سکتے تو کیا ہوا۔ اِس کا نتیجہ کیا یہی ہونا چاہیے کہ اُس کی ذات کے مظاہر اور اوتار بنا کر اُنھیں پوجنا شروع کر دو اور اِس حماقت کی توجیہ یہ پیش کرو کہ خوگر پیکر محسوس ہے انسان کی نظر؟ ہرگز نہیں، اُس کی نگاہیں تو ہر جگہ اور ہر وقت دیکھتی ہیں، لہٰذا تمھارے ایمان، اعتماد اور بندگی و اطاعت کے لیے یہی کافی ہے اور یہی کافی ہونا چاہیے۔

۱۶۱؎ لہٰذا تم سے باخبر رہنے کے لیے اُسے اُن مزعومہ وسائل وو سائط کی کوئی ضرورت نہیں ہے جن پر تم بھروسا کیے بیٹھے ہو۔

۱۶۲؎ یہ الفاظ براہ راست لسان نبوت پر ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یوں ارشاد نہیں ہو اکہ اِن لوگوں سے کہہ دو، بلکہ کہنے کی بات پیغمبر نے خود براہ راست فرما دی۔ وحی کی یہ قسم روح نبوت کے غایت قرب و اتصال کی دلیل ہوتی ہے۔ گویا منبع فیض کا فیضان خود زبان رسالت سے چھلک پڑتا ہے۔ ’گفتۂ او گفتۂ اللہ بود‘ شاید اِسی حقیقت کی تعبیر ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۳۳)

۱۶۳؎ یہ ’وَلِیَقُوْلُوْا‘ کا معطوف علیہ ہے جو عربیت کے اسلوب پر اصل میں محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

۱۶۴؎ یعنی زبان سے بے شک اقرار نہ کریں، مگر اپنے دل میں پکار اُٹھیں کہ تو نے اِس طرح پڑھ کر سنایا ہے کہ گویا کتاب کو گھس ڈالا ہے اور اِس طرح احقاق حق کا حق ادا کر دیا ہے۔

۱۶۵؎ مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا کہ اِنھیں جبراً شرک سے روک دے تو یہ کبھی شرک نہ کر پاتے، لیکن اُس کی مشیت یہی ہے کہ لوگوں کو اختیار دے کر اُن کا امتحان کرے کہ کون توحید کی صراط مستقیم پر چلتا ہے اور کون شرک کی راہ اختیار کرتا ہے۔ تم نہ اِن پر داروغہ مقرر کیے گئے ہو اور نہ اِن کے ضامن ہو کہ نہیں مانیں گے تو جواب دہ ٹھیرائے جائو گے، اِس لیے اپنی ذمہ داری ادا کرو اور اِنھیں اِن کے حال پر چھوڑ دو، یہ اپنے کرتوتوں کا خمیازہ خود بھگت لیں گے۔

۱۶۶؎ یہ ایک برمحل ہدایت ہے اور اِس لیے کی گئی ہے کہ شرک پر جو تنقید اوپر ہوئی ہے، اُس کے زیراثر مسلمان کہیں حدود سے تجاوز نہ کر بیٹھیں۔ عقل و انصاف یہی چاہتے ہیں کہ بات ہمیشہ اصول وعقائد اور افکار و نظریات کی تنقید و توضیح تک محدود رہے۔ پھر دعوت کے نقطۂ نظر سے بھی صحیح طریقہ یہی ہے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ مخاطبین چونکہ خدا کی صفات اور اُس کے حقوق کا صحیح علم نہیں رکھتے، اِس لیے وہ بھی حدود سے تجاوز کریں اور جھوٹے خدائوں کی حمیت میں سچے خدا کو گالیاں دینے لگیں۔

۱۶۷؎ یہ مزید تنبیہ ہے۔ مدعا یہ ہے کہ رسوم ، روایات اور معتقدات کی محبت خود اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی فطرت میں ودیعت فرمائی ہے۔ چنانچہ عقائد و اعمال کی تطہیر ضرور کی جائے، مگر اِس کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جو اِن چیزوں کے لیے لوگوں کے جذبۂ حمیت کو بھڑکانے کا باعث بن جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’یہاں ’تزئین‘ کے فعل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف جو منسوب فرمایا ہے، یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر قوم کے اندر اپنی مالوفات سے دل بستگی اور اپنی روایات ملی و اجتماعی کے لیے یہ عصبیت ایک حد تک فطری چیز ہے۔یہ نہ ہو تو قومی و ملی وحدت وجود ہی میں نہیں آ سکتی۔ خاندانوں، قوموں، وطنوں کی شیرازہ بندی اِسی چیز سے ہوئی ہے۔ یہ معدوم ہو جائیں تو افراد ہوا میں اڑتے ہوئے پتوں کے مانند ہو جائیں۔ اِس وجہ سے اِس چیز کا ایک مقام ہے جو تقاضاے فطرت ہے اور اِس کی رعایت ملحوظ ہونی چاہیے۔ اِس سے تعرض اُسی حد تک ہونا چاہیے جس حد تک یہ حق کے خلاف ہے اور اُس انداز میںہونا چاہیے جس سے خود اِس کا واجبی حق مجروح نہ ہو۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۳۶)

۱۶۸؎ یعنی مطمئن رہو، تمھارا کام اِس سے زیادہ کچھ نہیں کہ حق واضح کر دیا جائے۔ یہ اپنی حماقتوں پر اصرار کریں گے تو خود مجرم ٹھیریں گے اور جواب دہی کے لیے ایک دن خدا کے حضور میں پیش ہو جائیں گے۔ وہاں جو کچھ بھگتنا ہے، اِنھیں بھگتنا ہے۔ اُس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہ ہو گی۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B