HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ عنہ (۲)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(گذشتہ سے پیوستہ )

(۲)

عائشہ بنت حضرت سعد کی روایت ہے،آپؐ نے اپنا دست مبارک حضرت سعد کی پیشانی پر رکھا، ان کے چہرے ،سینے اور پیٹ پرہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی، اﷲ! حضرت سعد کو شفا دے اور اس کی ہجرت کو کامل کردے ۔اﷲ!اس کے جسم اور قلب کو تن درست کر ، اس کی بیماری دور کر اور اس کی دعا قبول کر لے ۔ حضرت سعد کہتے ہیں، میں آپؐ کے ہاتھ کی ٹھنڈک اپنے کلیجے پر اب بھی محسوس کرتا ہوں۔ (بخاری: ۵۶۵۹،مسند احمد:۱۴۷۴) آپؐ نے انہیں عجوہ کھجور کھلانے اور بنوثقیف کے طبیب حارث بن کلدہ کو دکھانے کی ہدایت بھی فرمائی۔ حضرت سعدکو معلوم تھا ، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پسند نہیں فرماتے کہ آدمی اس جگہ جا مرے جہاں سے ہجرت کر چکا ہے(مسلم:۴۲۲۰) اس لیے اضطراب سے کہا،یا رسول اﷲ !کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے مکہ میں رہ جاؤں گا؟ آپؐ نے تسلی دی، تو پیچھے نہیں رہے گا۔عجب نہیں ،تیری عمر دراز ہو اورتجھ سے کئی لوگوں (مسلمانوں)کو فائدہ ہو اور کچھ آدمیوں کو (کافروں) کو تم سے ضرر پہنچے ۔(بخاری: ۳۹۳۶، ۴۴۰۹) آپؐ نے یہ ہدایت بھی فرمائی، اگر حضرت سعد کا یہیں انتقال ہو گیا تو انہیں مدینہ کے راستے میں دفن کرنا۔

حضرت سعد کی روایت ہے، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،’’میں مدینہ کے دو سنگلاخ پہاڑوں(عیر اور احد) کے درمیان واقع سرزمین کو حرم(قابل احترام) قرار دیتا ہوں۔اس کے جھاڑوں کو کاٹا جائے نہ یہاں کا جانور شکار کیا جائے۔‘‘(مسلم :۳۲۹۶)ایک دفعہ حضرت سعد عقیق میں واقع اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے کہ ایک غلام کو دیکھا کہ وہ درخت کاٹ رہا ہے اورپتے جھاڑ رہا ہے۔ انہوں نے کٹا ہوا درخت اور پتے اس سے چھین لیے۔ اس کے اہل خانہ ان کے پاس آئے اور چھینے ہوئے درخت مانگے تو حضرت سعد نے انکار کر دیا اور کہا،اﷲ کی پناہ!میں وہ شے لوٹا دوں جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ازراہ کرم مجھے عطا کر دی ہے۔(مسلم:۳۲۹۹)

شاہ ایران کسریٰ کی ہلاکت کی خبر سب سے پہلے حضرت سعد کو ہوئی۔وہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتانے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا،حضرت سعد کے چہرے پر کوئی خبر لکھی ہے ۔(بیہقی:دلائل النبوۃ)

خلفائے راشدین کے زمانہ میں حضرت سعد کی بڑی قدر ومنزلت تھی۔حضرت ابوبکر نے مدینہ کی طرف آنے و الے راستوں پر پہرے دار دستے مقررکیے۔ ایک کے کمانڈر حضرت سعد بن ابی وقاص تھے،باقی دستوں پر علی، زبیر، طلحہ، عبد الرحمان بن عوف اور عبداﷲ بن مسعود مقرر تھے۔ مرتدین کی سرکوبی کرنے والی فوجیں مدینہ واپس آئیں تو انہی کمانڈروں نے ان کا استقبال کیا۔حضرت سعد نے صفوان کی آمد کی بشارت سنائی۔

حیرہ ربیع الاول ۱۲ھ میں خالد بن ولید کے ہاتھوں فتح ہوا ،وہاں کے باشندگان معاہدے سے پھرے تومثنی نے انہیں دوبارہ زیر کیا، تیسری دفعہ منحرف ہوئے تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے فتح حاصل کر کے ان پر۴لاکھ سالانہ جزیہ عائد کیا۔

یکم محرم ۱۴ ھ کو حضرت عمر نے حضرت علی کو مدینہ میں اپناقائم مقام مقرر کیا اور خود فوج لے کر عراق کا قصد کیا۔ صرار کے مقام پر پہنچ کر انہوں نے صحابہ سے مشورہ کیا۔اکثریت نے سفر جاری رکھنے کا مشورہ دیا تاہم عبدالرحمان بن عوف کی رائے تھی، کسی دوسرے جرنیل کو کمان سونپ کر مدینہ لوٹ جائیں۔اب عمر نے لشکر کی امارت کے لیے صلاح لی ،ان کی مشاورت جاری تھی کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کا خط موصول ہوا جس میں حربی اور قائدانہ صلاحیتیں رکھنے والے ایک ہزار شہ سواروں کے انتخاب کی اطلاع دی گئی تھی۔حضرت سعداس وقت بنوہوازن کے صدقات کی وصولی پر مامور تھے اور عمر نے انہیں اس انتخاب کی ذمہ داری بھی سونپ رکھی تھی۔ اس موقع پر عبدالرحمان بن عوف پکار اٹھے ،میں نے امیرجیش ڈھونڈ لیا۔ انہوں نے حضرت سعد بن مالک (ابی وقاص) کا نام تجویز کیا۔وہاں موجود تمام حاضرین کوبھی یہ انتخاب انتہائی موزوں لگا۔ ۱۴ھ(۶۳۵ء) کی ابتدا تھی جب حضرت سعد ۳ ہزاراہل یمن اور ۱ ہزار دوسرے مسلمانوں کا لشکر لے کرچلے،عمر انہیں رخصت کرنے کچھ آگے اعوص تک گئے ۔انہوں نے نصیحت کی، سعد!تمہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ماموں اور ان کا صحابی ہوناکسی دھوکے میں نہ ڈالنے پائے اس لیے کہ اﷲ برائی کو برائی سے ختم نہیں کرتا بلکہ برائی کو نیکی ہی کے زور سے مٹاتا ہے۔تم اس اسوہ کو مطمح نظر بنائے رکھنا جس پر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم آغاز نبوت سے وفات تک قائم رہے۔آنے والے مصائب میں صبر کا دامن تھامے رکھنا۔اﷲ سے ڈرتے رہنا، خشیت الٰہی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا سے نفرت کرو اور آخرت سے محبت کرو۔عمرنے عراق میں پہلے سے موجود جرنیلوں جریر بن عبداﷲ اور مثنیٰ بن حارثہ کی فوجوں کو حضرت سعد کے ماتحت کام کرنے کا حکم دیا۔قبل ازیں جریر مثنیٰ کی ماتحتی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔حضرت سعد ثعلبیہ اور خزیمہ کے بیچ واقع صحرائے زرود تک پہنچے تھے کہ مثنیٰ جنگ جسر میں لگے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔اب وہ پورے عراق کے گورنر اور کمانڈر تھے، شراف پہنچ کر انہوں نے امیر المومنین کی ہدایت پر مقامی امرا اور فوجی دستوں کے کمانڈروں کا تقرر کیا۔مثنی کے بھائی معنّی بن حارثہ وہیں آئے اورمثنّی کی ہدایات ان تک پہنچائیں۔ مثنیٰ کی بیوہ سلمیٰ ان کے ساتھ تھیں، حضرت سعد نے ان سے شادی کر لی اور معنّی لوٹ گئے۔

قادسیہ قدیم ایران کا دروازہ تھا،وہاں پہنچنے سے پہلے حضرت سعد کو عذیب کا معرکہ پیش آیا،انہوں نے شیرزاد کو شکست سے دوچار کیا تو کافی مال غنیمت ہاتھ آیا۔ایران کے شاہ یزدگرد نے رستم کو جیش اسلامی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا ۔اس نے ساباط میں رک کر ۸۰ ہزار(یا ۱لاکھ ۲۰ ہزار) کی فوج منظم کی۔ مدائن سے قادسیہ پہنچنے میں رستم نے ۴ ماہ لگا دیے ،جنگ سے اس کے گریزاں ہونے کی وجہ یہ تھی کہ نجومیوں نے اس کی شکست کی خبر دی تھی اس لیے وہ چاہتا تھا کہ مسلمان انتظار سے اکتا کر واپس چلے جائیں۔ اس عرصہ کے دوران میں حضرت سعدکسکر اور انبار کے مابین واقع نجف ،فراض اوردیگر قبائل پر حملے کر کے غلہ، مویشی اور مال غنیمت لاتے رہے،ان کی فوج کی تعداد ۳۰ ہزار سے متجاوز ہو چکی تھی۔جنگ سے پیشتر حضرت سعدنے ا میر المومنین کے حکم پر ایک دعوتی وفد یزدگرد کے پاس بھیجا۔ نعمان بن مقرّن،قیس بن زرارہ،اشعث بن قیس، فرات بن حیان،عاصم بن عمر،عمرو بن معدی کرب،مغیرہ بن شعبہ، معنیٰ بن حارثہ اورعدی بن سہیل اس میں شامل تھے۔یزدگرد حقارت سے پیش آیا ، نعمان بن مقرّننے کہا،ہم دنیا سے شرک و بت پرستی مٹانے آئے ہیں ، جو اسلام قبول نہیں کرتا ،جزیہ ادا کر کے ہماری حفاظت میں آ جائے ورنہ تلوار ہمار ے اور اس کے درمیان فیصلہ کرے گی ۔ قیس بن زرارہ نے یہی بات دہرائی تو یزدگرد آپے سے باہر ہو گیا اوردھمکی دی، رستم جلد تمہیں قادسیہ کی خندق میں دفن کر دے گا۔ اس نے مٹی سے بھری ٹوکری منگوائی اور قائد وفد عاصم کے کندھے پر رکھ کر دربار سے باہر نکال دیا۔حضرت سعد بن ابی وقاص نے اس مٹی کو بھی ایک نیک فال سمجھا ، گویاسرزمین ایران ان کے قبضے میں آ گئی ہے۔ جنگ سے پیشتر رستم نے حضرت سعد کو بات چیت کی دعوت دی تو انہوں نے ربعی بن عامر کو بھیجا۔ رستم دیبا و قالین کے فرش بچھائے، سونے کے تخت پر بیٹھا تھا۔ربعی نے گھوڑا ایک گاؤ تکیے سے باندھا اور تیر سے قالین چاک کرتے ہوئے تخت پر آن بیٹھے ۔ درباریوں نے منع کیا تو انہوں نے خنجر سے قالین کاٹا اور ننگی زمین پر بیٹھ گئے۔ رستم سے کچھ نوک جھونک کے بعد انہو ں نے وہی شرائط دہرائیں جو پہلے یزدگرد کو پیش کی جا چکی تھیں۔رستم کے ساتھی بھڑکے لیکن اس نے ربعی کو اچھی طرح رخصت کیا اور اگلے دن پھرحضرت سعد کو صلح کی گفتگو کا پیغام بھیجا ، اب حذیفہ بن محصن گھوڑے پر سوار تخت کے پاس جا پہنچے۔ انہوں نے بھی اسلام،جزیہ یاقتال کی بات کی تو رستم نے انہیں الوداع کہا ۔ تیسرے روزرستم ہی کی دعوت پرمغیرہ بن شعبہ سفیر بن کر آئے،انہیں اس نے لالچ دیا اور دھمکایا، دین حق کی دعوت سن کراس نے پوچھا ،اگر ہم اسلام قبول کر لیں تو کیاتم اپنے ملک واپس چلے جاؤ گے؟ انہوں نے کہا، ہاں پھر ہم محض تجارت کی خاطر یا کسی ضرورت کے لیے آئیں گے۔ اس نے اپنے ساتھی جرنیلوں سے مشورہ کیا تو نیا دین قبول کرنے پر کوئی آمادہ نہ ہوا۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت چلی آ رہی تھی کہ اس طرح کی سفارت کاری تین روز سے زیادہ نہ کی جائے لہٰذا جنگ کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

معرکہ شروع ہونے سے پہلے رستم نے پچھوایا، ہم نہر عتیق عبور کریں یا آپ ادھر آئیں گے؟ حضرت سعد نے ایرانی فوج کو اپنی طرف آنے کی دعوت دی۔ رات کے اندھیرے میں ایرانیوں نے عتیق کو مٹی، نرکل اور اپنے فالتوسامان سے پاٹ دیا اور اسی پر سے فوج،ہاتھی اور دوسرا سامان گزرا۔اب دونوں فوجیں ایک فیصلہ کن معرکے کے لیے آمنے سامنے تھیں۔ قادسیہ کا معرکہ شروع ہوا تھا کہ حضرت سعد عرق النسا (sciatica) میں مبتلا ہو گئے اور ان کی سرینوں پر زخم نکل آئے ۔ گھوڑے پر سوار ہوناان کے لیے ممکن نہ تھا اس لیے انہوں نے خالد بن غرفطہ کو اپنا نائب مقرر کیا ۔ خود سینے کے نیچے تکیہ رکھ کر بیٹھ گئے اور چھت پر سے فوج کی نگرانی کرنے لگے۔ ظہر کی نماز کے بعدحضرت سعدنے جہاد کے مضمون پر مشتمل سورہْ انفال کی آیات کی تلاوت کرائی اوراسلامی فوج سے خطاب کیا ۔انہوں نے تین دفعہ نعرۂ تکبیر بلند کیا تو فوج مستعد (alert)ہو گئی،چوتھی تکبیر پر وہ دشمن کی فوج سے بھڑ گئی۔حضرت سعد نے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا، دشمن پر ہر حملہ کرتے ہوئے لاحول ولا قوۃ الا باﷲ(کسی کو قدرت و طاقت نہیں مگر اﷲ ہی کے سہارے)کہیں۔ پہلادن یوم ارماثتھا۔غالب بن عبداﷲنے دو بدو مقابلے میں ہرمز کوقید کیا۔عاصم بن عمرواپنے مد مقابل کا پیچھا کرتے ہوئے ایرانی فوج کی صفوں میں گھس گئے۔عمرو بن معدی کرب نے دعوت مبارزت دینے والے ایرانی کو جہنم رسید کیا۔ایرنی ہاتھیوں نے زوردارحملہ کیا تو بنو بجیلہ کے گھوڑے بدک گئے،حضرت سعد نے بنو اسد کو ان کا دفاع کرنے کا حکم دیااور منادی کرادی ، تیروں کی بوچھاڑ کر کے ہاتھیوں کی یلغار کو روکا جائے اور ان کے ہودوں کے تسمے کاٹ کر سواروں کو گرا دیا جائے چنانچہ شام تک ایسا کوئی ہاتھی نہ رہا تھا جس پر ہودج یافیل نشین ہو۔اب دوسرادن ہوا جسے یوم اغواثکہا جاتا ہے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص نے زخمی فوجیوں کو عورتوں کے سپرد کیا تاکہ وہ ان کی دوا دارو کر سکیں۔ شہدا کو عذیب اور عین شمس کے درمیان وادئ مشرّق میں دفن کر دیا گیا۔اسی اثنا میں حضرت عمرکی ہدایت پر شام سے ابوعبیدہ بن جراح کی بھیجی ہوئی کمک کا مقدمہ آن پہنچا، ۱ ہزار گھڑ سواروں کی قیادت قعقاع کر رہے تھے۔جنگ شروع ہوئی تو قعقاعہی نے مبارزت طلب کی ۔پہلے ذو الحاجب پھر فیرزان ان کے ہاتھوں انجام کو پہنچے۔ حارث بن ظبیان نے بندوان کو مارا۔قعقاع للکارے ،مسلمانو! دشمن کو تلواروں پر لے لو تو فوجیں گتھم گتھا ہو گئیں۔آج بے شمار ایرانی قتل ہوئے کیونکہ وہ ہاتھیوں پر سوار نہ تھے۔کئی مسلمانوں نے شہادت پائی۔ بنوتمیم کے ایک مسلمان نے رستم کو مارنے کی کوشش کی لیکن خود شہید ہو گیا۔ جنگ نصف شب تک جاری رہی پھر بھی فیصلہ نہ ہو سکا۔جنگ قادسیہ کا تیسرا دن یوم عماس اس حال میں طلوع ہوا کہ ۲ ہزار مسلمان شہید یا زخمی پڑے ہوئے تھے ۔علی الصبح ان کی تدفین اور علاج معالجہ کی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔دوسری طرف ۱۰ ہزار ایرانیوں کی لاشوں سے میدان پٹا پڑا تھا۔دن چڑھا تو شام سے آنے والی فوج اپنے امیر ہاشم بن عتبہ کی قیادت میں پہنچ گئی۔جنگ کا بازار گرم ہو اتو اس میں شامل قیس بن مکشوح نے خوب داد شجاعت دی ۔عمرو بن معدی کرب بھی دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ ایرانیوں نے رات بھر محنت کر کے ہاتھیوں کی عماریاں درست کر لی تھیں اور تسموں کی حفاظت کے لیے پیادہ اور گھڑ سوار مقرر کر رکھے تھے۔حضرت سعد بن ابی وقاص نے ہاتھیوں کو پھر سے رو بکار دیکھا تو چھت سے قعقاع اور عاصمکو پیغام بھیجا ،ایرانی فوج کے بڑے سفید ہاتھی کا کام تمام کرو۔ دونوں نے ہاتھی کی آنکھ میں نیزے دے مارے تو اس نے اپنے سائس کو پٹک دیا۔اب قعقاع نے ایک زور کا وار کرکے اسے گرادیا اور اس کے سواروں کو جہنم رسید کیا۔حضرت سعد نے حمال اور ربیل کوبھی حکم دیا کہ اپنے مدمقابل خارش زدہ ہاتھی کو سنبھالو۔انہوں نے اس کی آنکھیں پھوڑدیں اورہونٹ کاٹ ڈالاجب کہ ہاتھی کے مہاوت نے خنجر پھینک کر ربیل کو زخمی کردیا۔ بینائی سے محروم ہاتھی گرتا پڑتااپنی ہی فوج کی صفیں روندتا ہوا نہر عتیق میں جا گرا۔ اس کے پیچھے باقی ہاتھی بھی اپنے ہودہ نشینوں کو لے کر مدائن کی طرف دوڑے ۔سورج مائل بہ غروب تھا کہ زوروں کی دست بدست جنگ شروع ہوئی جو رات بھر جاری رہی۔حضرت سعد بن ابی وقاص نے طلیحہ اور عمرو کو میدان جنگ کے زیریں حصہ کی نگرانی کے لیے بھیجا کہ کہیں دشمن ادھر سے حملہ نہ کر دے۔انہوں نے وہاں پہنچ کر ازخود ہی دشمن پر عقبی حملہ کردیا۔حضرت سعد نے یہ حکم نہ دیا تھا تاہم اب انہوں نے اس کاروائی کو جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔قعقاعنے پہل کی ،ان کے پیچھے بنو اسد، بنو نخع، بنوبجیلہ اور کندہ کے دستے کود پڑے۔تلواروں اور زرہوں کے ٹکرانے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ بے شمار جانی نقصان ہوا،صبح ہوئی تو کسی فریق کا پلڑا بھاری نہ تھا۔ یہ چوتھی رات تھی جسے لیلۃ الہریر کا نام دیا گیا۔دوپہر تک معرکہ آرائی جاری تھی جب فیرزان اور ہرمزان پسپا ہوئے ۔اب ایرانی لشکر کے قلب تک رسائی ممکن ہوگئی تھی ۔اسی اثنا میں شدید آندھی اٹھی جس سے ایرانی فوج کے خیمے اکھڑ گئے۔رستم کا تخت گر پڑا ،اس کاسائبان اڑکر عتیق میں جا گرا۔ وہ گھبراکر خچر پر سوار ہوا اور بھاگ نکلا۔قعاع اور ان کے ساتھیوں نے اس کاپیچھا کیا ، ہلال بن علفّہ نے اس پر وار کیا تو وہ نہر عتیق میں کود گیا۔ انہوں نے اس کی ٹانگیں پکڑ لیں اور پیشانی پر تلوار مار کر جہنم رسید کیا۔ضرار بن خطاب نے ایرانی پرچم ’’درفش کاویان‘‘ اپنے قبضے میں لے لیا ۔ بعد میں یہ ۳۰ ہزار دینار میں بکا۔ایرانی جرنیل جالینوس نے اپنی فوج کو نہر عبور کرنے کا حکم دیاتو مسلمانوں نے بھاگتے ہوئے ایرانیوں پر تیر اندازی شروع کر دی،صرف اس روز ۱۰ ہزارایرانی کھیت رہے ۔ ۶ ہزار اہل ایمان نے جام شہادت نوش کیا،انہیں دادئ مشرّق کے ساتھ خندق میں سپرد خاک کیا گیا۔ پہلے ۳ دنوں کے شہدا کی تعداد اڑھائی ہزار تھی۔ حضرت سعد نے ہلال کو بلا کر رستم کا سارا سامان د ے دیا،اس کی مالیت ۷۰ ہزار دینار پڑی۔انہوں نے قعقاع ،شرحبیل اور زہرہ بن حویہ کو مفرور ایرانیوں کا تعاقب کرنے کا حکم دیا۔زہرہ نے جالینوس کا کام تمام کیا،انہیں اس قدر مال غنیمت ملا کہ حضرت سعد کو تامل ہوااس لیے حضرت عمرسے مشورہ کیا۔ انہوں نے جالینوس کی تمام دولت زہرہ بن حویہ تمیمی کو دینے کے ساتھ ان کو عام سپاہیوں سے ۵۰۰ درہم زیادہ دینے کا حکم دیا۔ہر گھڑ سوار کے حصے میں ۶ہزاردرہم آئے، پیادہ کو۲ ہزار ملے۔مسور بن مخرمہ کو سونے کا ا یک آفتابہ ملا جس پر یاقوت جڑے ہوئے تھے۔وہ اسے حضرت سعد کے پاس لے گئے تو انہوں نے یہ مسور کو انہی کے حصے کے طورپر دے دیا۔جب بیچا گیا تو اس کی قیمت ایک لاکھ دینار پڑی ۔

حضرت سعد بن ابی وقاص اپنی بیماری کے دوران میں گھر میں مقیم رہے لیکن دروازہ کھلا رکھا ۔ان کی نئی بیوی سلمی بنت حفص (خصفہ) کودشمن کی طرف سے حملے کا اندیشہ ہی رہا ۔ایک دن کچھ گھوڑے بھاگتے ہوئے نکلے تو وہ گھبرا گئیں اور اپنے مرحوم شوہر مثنی کو یادکرنے لگیں،اس پر حضرت سعد نے انہیں پیٹ دیا۔انہوں نے ترت ان کو گھر میں بزدل بن کر بیٹھنے کا طعنہ دے دیا ۔یہ سراسر زیادتی تھی کیونکہ وہ اہلیہ ہونے کے ناتے ان کی بیماری سے بخوبی آگاہ تھیں۔کچھ عام مسلمانوں نے بھی حضرت سعد پرطعنہ زنی کی حتیٰ کہ ان کی مذمت میں اشعار بھی کہہ ڈالے۔

حضرت سعد کے گھر میں ایک قیدی ابو محجن ثقفی تھا جو زمانۂ جاہلیت میں کثرت سے شراب نوشی کرتا تھا۔ایک باروہ شراب کی مدح میں اشعار گنگنا رہا تھا کہ حضرت سعد نے سن لیے اور اسے قید میں ڈال دیا۔ وہ ایک شہ سوار تھا ، اس نے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی تو اس کا دل بھی جنگ میں حصہ لینے کے لیے مچلنے لگا۔جنگ کے دوسرے روزاس نے حضرت سعد کی اہلیہ سلمی(یا ام ولدزبرا) سے کہا، اس کی بیڑیاں کھول کر حضرت سعد کی گھوڑی بلقا اسے دے دی جائے تو وہ اختتام دن پر و پس لوٹ آئے گا۔اس نے اس طر ح منت کی کہ حضرت سعد کی اہلیہ کا دل پسیج گیااور انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔ابو محجن نے اس زورشور سے جنگ میں حصہ لیا کہ چھت سے مشاہدہ کرنے والے حضرت سعد حیران رہ گئے۔وہ بلقا اور ابو محجن کو پہچاننے کی کوشش کرتے رہے لیکن پہچان نہ پائے۔شام کو چھت سے اترے تو اپنی گھوڑی کو پسینے میں ڈوبا پایا۔ صحیح قصے کا پتا چلا توحضرت سعد خوش ہوئے اور ابومحجن کو آزاد کر دیا۔

جنگ قادسیہ کے بعد ایرانی فرار ہو کر ایران کے مختلف اطراف میں بکھر گئے۔مسلمان دو ماہ وہیں مقیم رہے،انہوں نے اپنی تکان اتاری اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے عرق النسا (sciatica)سے افاقہ پایا۔ پیشتر اس کے کہ ایرانی کسی جوابی کاروائی کی تدبیر کرتے، عمر فاروق نے سعدکو حکم دیا کہ بچوں اور عورتوں کو قصبۂ عتیق میں چھوڑ کر مدائن کوکوچ کریں۔مدائن اپنی شان و شوکت میں قدیم ایرانی دارالخلافہ بابل پر بہت فوقیت رکھتا تھا،دجلہ اسے اس کے جڑواں شہر بہرہ شیر (بہر سیریا نہر شیر) سے جدا کرتا تھا۔مدائن کا قدیم یونانی نام طیسفون تھا اوربہرہ شیر سلوقیہ کہلاتا تھا ۔یزد گرد کے اجداد نے ان شہروں پر قبضہ کر کے ان کے نام بدل ڈالے تھے۔بغداد ان دونوں کے شمال میں ۲۰ میل کی مسافت پر تھا۔ ۱۵ ھ میں حضرت سعد نے زہرہ بن حویّہ کو مقدمہ کے طور پر آگے بھیجا، زہرہ حیرہ سے ہوتے ہوئے مدائن کو چلے۔بُرس(بیر نمرود) کے مقام پرانہوں نے ایک ایرانی دستے کوشکست دی،وہ بابل کی راہ پرتھے کہ حضرت سعد بھی ان سے آ ملے۔ فیرزان کی فوج کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص کچھ دن بابل میں ٹھہرے ۔مدائن کی طرف جاتے ہوئے کوثی(جہاں نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو قید کیا تھا) کے مقام پرانہوں نے شہریارکی فوج کو شکست دی۔ ادھرزہرہ اور ہاشم بن عتبہ کی سابقہ ملکۂ ایران بوران بنت کسریٰ کے دستے سے مڈبھیڑ ہوئی۔ اس دستے کے سپاہی روزانہ حلف اٹھاتے تھے ،جب تک زندگی ہے ملک ایران پر زوال نہ آنے دیں گے۔کسریٰ کا پالتو شیرمقرّط بھی ان کے ساتھ تھا ، ہاشم نے لپک کر وار کیا اور تلوار سے شیر کا کام تمام کر دیا ۔سپاہیوں نے بھاگ کر بہرہ شیر(بہر سیر) میں پناہ لی۔زہرہ ساباط پہنچے تو وہاں کے شہریوں نے جزیہ کی ادائی مان کر صلح کر لی۔حضرت سعد کے دستوں نے دجلہ و فرات کے مابین کاروائیاں کر کے ۱ لاکھ دہقانوں کو قید ی بنا لیا تھااور ان کے گرد خندقیں کھود دی تھیں۔ ان کے سردار شیر زاد نے جزیہ و خراج دینے کی پیش کش کر کے امن کی درخواست کی تو حضرت سعد نے مان لیا، عمر نے ان کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اب عرب کی سرحد وں سے لے کر دارالخلافہ مدائن تک تمام ایران خلافت اسلامی کے زیر نگیں ہو چکا تھا اس لیے انہیں عقب سے حملے کا اندیشہ نہ رہا۔ ذی الحجہ ۱۵ھ میں اہل بہرہ شیر (بہر سیر یا نہر شیر)نے مقابلے کا اردہ کیا تو حضرت سعد نے بات چیت کے لیے سلمان فارسی کو بھیجالیکن وہ مصر رہے اور منجنیقیں اورجنگی آلات نصب کر لیے۔ حضرت سعد کے حکم پر اسلامی فوج نے بھی ۲۰ منجنیقیں تیار کر لیں۔دو بدو مقابلے میں ایرانیوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی تو وہ قلعہ بند ہوگئے، بہرہ شیر دجلہ پر بنے ہوئے ایک پل کے ذریعے مدائن سے متصل تھا،دہاں سے غذائی اور فوجی امداد کی آمد کا سلسلہ برابر جاری تھا۔اس لیے محاصرہ طول پکڑتا گیا،۵ ماہ کے اس طویل عرصے میں ایرانی جتھے وقتاً فوقتاًشہر سے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کرتے لیکن مار کھاکر لوٹتے۔ مسلما نوں کی ثابت قدمی دیکھ کر ایرانیوں کا صبر جواب دے گیا۔انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ان کو مغلوب نہ کر سکیں گے۔تب شاہ یزدگرد نے حضرت سعد کو پیغام بھیجا کہ دجلہ کو عرب و عجم کے مابین حد فاصل بنا لیا جائے،دریا کے ادھر والا علاقہ مسلمان لے لیں اوراس طرف کا ایرانیوں کے لیے چھوڑ دیں ۔اس صورت حال میں کہ مدائن سامنے تھا اور ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ چکے تھے، صلح کرنا مناسب نہ تھا، حضرت سعدنے انکار کا جواب دے کر فوراً بہرہ شیر(بہر سیر) کا محاصرہ تنگ کر کے اس پر سنگ باری کا حکم دے دیا۔ادھر سے نیزہ چلا نہ تیرتو فصیل پھلانگ کر شہرکا دروازہ کھولا گیا(صفر ۱۶ ھ)۔شہر میں ایک آدمی کے سوا کوئی نہ تھا،ایرانیوں نے جاتے جاتے دجلہ کا معبر جلا دیا اور کشتیوں کو دریا کے اس پار منتقل کر دیا تھا۔ اب پر شور موجیں مارتا ہوا دریائے دجلہ اسلامی فوج کی پیش قدمی کو روکے ہوئے تھا۔اس کے دوسری طرف کسریٰ کا سفید محل (قصر ابیض ) چمک رہا تھا،اسے نوشیرواں نے ۵۵۰ء میں تعمیر کیا تھا۔ یزدگرد نے مدائن والا کنارہ مضبوط بنا کر مسلمان فوج کی آمد مستقل طور پرروکنے کی تدبیریں سوچیں لیکن کوئی راہ نہ پا کر فرار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔

اس پارعزم و ہمت سے محروم ایک قوم تھی جس کا قائد اسے چھوڑکر جا رہا تھااورا سے کامیابی کی کوئی توقع نہ تھی ۔ ادھر ایمان و یقین سے پر، فتح کے لیے بے تاب مسلمانوں کے قائد حضرت سعد بن ابی وقاص دجلہ کنارے کھڑے اسے عبور کرنے کی فکر میں تھے۔انہیں یہی ترکیب سوجھی کہ کچھ لوگ دریا پار کر کے دوسرے کنارے تک جائیں اور وہاں کھڑے ہوئے ایرانیوں کو ہٹا ئیں تاکہ باقی لشکر دریاعبور کرسکے ۔عاصم بن عمرو نے ان کی تجویز پر لبیک کہنے میں سبقت کی ، ۶۰۰ رضا کاران کے ہم آواز تھے۔حضرت سعد نے عاصم کو ان کا قائد مقرر کیا،انہوں نے اپنے ساتھ آ گے لے جانے کے لیے ۶۰گھڑ سوارچنے اورگھوڑے دریا میں ڈال دیے۔ دوسرے کنارے پر کھڑے ایر انی پکار اٹھے ، یہ دیوانے ہیں یا جن؟ انہوں نے بھی اپنے گھوڑے پانی میں اتارے اور آنے والے مسلمانوں کو روکنے کے لیے تیر اندازی شروع کر دی۔ ادھرعاصم نے اپنے دستے کو تیر برسانے کا حکم دیااور کہا ،گھوڑوں کی آنکھوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ایسا ہوا تو گھوڑے اپنے سواروں کو دجلہ میں گراتے ہوئے واپس دوڑے۔سابقین کا یہ دستہ دوسرے کنارے پہنچا تو وہاں کھڑے ایرانیوں کو پرے دھکیل دیا۔اب ۶۰۰ میں سے باقی سوار بھی پانی میں کود پڑے۔عاصمکا’’خطروں میں کودنے والادستہ(کتیبۃ الاہوال) ‘‘دجلہ کے وسط میں پہنچا تو قعقاع بن عمرو کی کمان میں شامل شہ سواروں نے بھی موجیں مارتے دریا میں چھلانگیں لگا دیں،اسے ’’خاموش دستے (کتیبۃ الخرساء)‘‘کا نام دیا گیا۔عاصم کے سپاہیوں نے ایرانیوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا،جب قعقعاع اور ان کے ساتھی پار اترے توکناردریا خالی تھا۔اب حضرت سعد نے تمام سواروں کو دریا میں کودنے کا حکم دیا ،انہوں نے سپاہیوں کو تلقین کی،نستعین باﷲ و نتوکل علیہ ،حسبنا اﷲ و نعم الوکیل(ہم اﷲ سے مدد مانگتے ہیں اور اسی پر بھروسا کرتے ہیں۔اﷲ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ خوب کارساز ہے) کی دعا مانگتے جائیں۔ دجلہ اسلامی لشکر سے پر ہو گیا ،سطح آب پر پانی نہیں بلکہ گھوڑوں اور گھڑ سواروں کے سر نظر آرہے تھے۔ مسلمانوں نے اطمینان وسکون سے باتیں کرتے ہوئے دریاپار کیا۔آخر میں پار سے کشتیاں لا کر پیادوں اور ساز و سامان کو منتقل کیا گیا ۔اس سارے معرکے میں صرف ایک مسلمان غرقدہ بارقی گھوڑے سے پھسل کر دریا میں گرا ۔اسے قعقاع نے واپس گھوڑے پر بٹھا دیا۔اشیا میں سے صرف لکڑی کا ایک پیالہ کھویا گیا جومالک بن عامر کا تھا۔اسے دجلہ کی موج نے اگلے کنارے پر پھینک دیا۔

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

اگر ۱۴ویں صدی عیسوی میں تیمور لنگ نے اسی طرح دجلہ عبور نہ کیا ہوتا تو شاید مستشرقین کو یہ واقعہ ماننے میں بھی تامل ہوتا۔ اسلامی فوج کے پہنچنے سے پہلے شاہ ایران اپنے خزانے سمیٹ کر،اہل و عیال اور غلاموں باندیوں کے قافلے کے ساتھ حلوان کو روانہ ہوچکا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے سلمان فارسی سے کہا ،قصر ابیض کے باشندگان کو فارسی میں آوازدیں۔تین دن تک انہیں پکارا گیالیکن کوئی جواب نہ ملا،تیسرے دن حضرت سعد ساسانیوں کے اس محل میں داخل ہو گئے جہاں ۳۰ کھرب دینار کا خزانہ،تحائف اور آرائش و زیبائش کا سامان تھا۔انہوں نے ۸ رکعت نماز فتح ادا کی اور شاہی ایوان کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔صفر ۱۶ھ میں انہوں نے یہاں جمعہ پڑھایاجو سرزمین عراق میں ادا کیا جانے والا پہلا جمعہ تھا۔ انہوں نے وہاں قیام کی نیت کر لی تھی۔ یزدگرد کو پکڑنے کے لیے حضرت سعد نے ایک رسالہ روانہ کیا ،بادشاہ تو ان کے ہاتھ نہ آیا البتہ وہ قافلے کے کچھ افراد اور شاہی خزانہ لے آئے،خسروی تا ج اور خلعتیں بھی ان کے ہاتھ لگیں۔ حضرت سعد نے عمرو بن عمرو بن مقرن کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ قصر ابیض او ر مدائن کے محلات سے مال غنیمت اکٹھا کریں۔ اس طرح کے مواقع پر فاتح لشکر کے سپاہی لوٹ مار کرتے ہیں اور اپنی جیبیں خوب بھرتے ہیں، دنیا کو حیرت ہو گی کہ ایسا ایک واقعہ بھی پیش نہ آیا۔حضرت سعد بن ابی وقاص کو کہنا پڑا ،اگر اﷲ تعالیٰ نے اہل بدر کی فوقیت کا فیصلہ نہ فرمایا ہوتا تو میں کہتا ،یہ فوجی بدریوں جیسی فضیلت رکھتے ہیں۔جنگ ردہ میں مرتدین کی سربراہی اور پھر ارتداد سے توبہ کرنے والے طلیحہ،عمروبن معدی کرب اور قیس بن مکشوح اس معرکے میں بھی شریک تھے۔حضرت سعد کے حکم سے سلمان فارسینے مال غنیمت کے ۵ حصے کر کے خمس الگ کیا۔سپاہیوں میں تقسیم سلیمان باہلی نے کی۔ ۶۰ ہزار گھڑ سواروں نے اس جہاد میں حصہ لیا تھا ، ہر ایک کے حصے میں۱۲ ہزار دینار آئے۔حضرت سعد نے مدائن کے خالی گھر بھی فوجیوں میں بانٹ دیے ، ان میں سے کچھ نے اپنے با ل بچے حیرہ اور دوسرے شہروں سے لا کر ان گھروں میں بسادیے۔ بشیر بن خصاصیہ خمس اور خسروی غنائم کو لے کر مدینہ پہنچے۔ حضرت سعد نے اہل لشکرکی اجازت سے وہ بیش قیمت ریشمی شاہی قالین بھی اس میں شامل کر دیاتھاجس پر سونے،موتیوں اور جواہرات سے ایران کا نقشہ بنا ہواتھا۔ سیدنا عمر نے شاہی لباس سامنے رکھ کر حاضرین کی طرف دیکھا۔ جسامت اور قامت کے اعتبار سے ان کو سراقہ بن مالک ہی اس کے لیے موزوں لگے۔ سراقہ نے کسریٰ کا کرتہ، پاجامہ پہنا، قبا اوڑھی ،ہاتھوں میں کنگن پہنے اور سر پر شاہی تاج رکھ لیا ۔ انہوں نے ایران کے آخری تاج دار کے موزے پہنے ،کمر بند باندھا اور اس کی تلوار حمائل کرلی۔عمر نے کہا،وا ہ وا!بنو مدلج کادیہاتی خسروانہ لباس زیب تن کیے ہوئے ہے۔یوںآنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی جو آپؐ نے ہجرت مدینہ کے وقت فرمائی تھی۔پھرامیر المومنین نے اہل مدینہ میں خمس تقسیم کیا اور قالین کے بارے میں صحابہ سے رائے لی۔ علی نے کہا، اگر آپ نے قالین کو اسی شکل میں برقرار رکھا تو کل کلاں کوئی شخص استحقاق کے بغیر ہی اس کا مالک بن بیٹھے گا۔ انہوں نے فی الفور اس قیمتی قالین کے پرزے پرزے کر کے لوگوں میں بانٹ دیے۔ علی کے حصے میں آیا ہوامعمولی ٹکڑا ۲۰ ہزار دینار میں بکا۔

ادھر ایوان کسریٰ میں اذان و اقامت کی آوازیں بلند ہوتیں،حضرت سعد امامت کراتے اور لوگوں کو وعظ کہتے۔انہوں نے ایرانیوں سے مزید جنگ کرنے کی کوئی پلاننگ نہ کی کیوں کہ خلیفۂ ثانی کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہ ملا نہ تھا البتہ اپنے جاسوسوں کے ذریعے ایران کی بھگوڑی قوت مقتدرہ کی کھوج میں رہتے ۔ انہیں معلوم ہوا، حلوان جاتے ہوئے ایران کے اطراف و اکناف سے بے شمارفوجی اور جنگ یزدگرد کے ساتھ آ ملے ہیں اوراس نے مہران کو کمانڈر مقرر کر کے اس نئی فوج کو مدائن سے ۶۵ کلو میٹر دور جلولا کے قلعہ نما شہر میں بھیج دیا ہے۔ قادسیہ میں مسلمانوں کے ہاتھ ہلاک ہونے والے ایرانی جرنیل رستم کا بھائی خرزادبن فرخ زاد بھی وہاں جنگی تیاریوں میں مشغول ہے۔ اس نے جلولا کے گرد خندق کھدا کر اس کے گرد لوہے کی خاردار تار نصب کرا دی ہے اورشہر کو آنے والے تمام راستوں پرکانٹے (گوکھرویابھگھڑے کے خار)بچھوا دیے ہیں۔ہر طرح کے ہتھیار اور کیل کانٹے سے لیس ایک نیا لشکر تیار ہواچاہتا ہے۔ ایرانی اس فوجی اجتماع سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے عمر فاروق سے ہدایات مانگیں توان کا حکم آیا،اپنے بھتیجے ہاشم بن عتبہ کو ۱۲ ہزار کی فوج دے کرجلولا روانہ کر دو۔ہاشم نے جلولا کا محاصرہ کر لیا جو اڑھائی ماہ جاری رہا، اس دوران میں کسریٰ اورحضرت سعد اپنی اپنی فوج کو کمک بھیجتے رہے۔ایک روز ایسی شدید آندھی اٹھی کہ اندھیرا چھا گیا۔اسی دوران میں کچھ ایرانی گھڑ سوار خندق میں گر پڑے ،انہیں نکالنے کے لیے راستہ بنایا گیا تو مسلمانوں نے یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے زور دار حملہ کر دیا۔ ہاشم نے جوشیلے وعظ سے فوج کوگرمایااور قعقاع نے زبردست یلغار کر کے خندق کا راستہ کھول دیا۔ایک لاکھ ایرانی مارے گئے باقیوں نے راہ فرار پکڑی۔یہ فتح جسے فتح الفتوح کہا جاتا ہے ،ذی قعد ۱۶ ھ میں ہوئی،اس میں ۳۰ کروڑ کامال غنیمت حاصل ہوا۔حضرت سعد نے زیاد بن ابو سفیان کے ہاتھ خمس مدینہ روانہ کیا۔ حلوان بھی قعقاع نے فتح کیا۔ہاشم جلولا میں اورقعقاع حلوان میں ٹھہر ے جب کہ حضرت سعد کوفہ روانہ ہو گئے۔ انہیں فرات کے کنارے پر واقع شہرہیت میں فوجوں کے اجتماع کا پتا چلا تو خلیفۂ ثانی کی اجازت سے عمربن مالک کی کمان میں ایک لشکر وہاں بھیجا ۔ ہیت والوں نے ہتھیار ڈالے تو حضرت سعد نے ضرار بن خطاب کی سربراہی میں ایک لشکر ایران و عراق کے سرحدی شہر ماسبذان روانہ کیا جہاں ایرانیوں کو شکست ہوئی۔ حضرت سعد نے امیر المومنینسے ملک ایران میں مزید پیش قدمی کی اجازت بھی مانگی توجواب آیا، مسلمانوں نے ایران و عراق میں پیہم صعوبتیں برداشت کی ہیں، چند روز اپنے لشکر کو آرام کرنے کا موقع دو۔حضرت عمرنے ایران و عراق کی مفتوحہ زمینوں کی بیع وشرا روک دی تاکہ مسلم فاتحین میں کوئی فتنہ پیدا نہ ہو جائے چنانچہ یہ کسانوں کے پاس رہیں اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے انہیں ذمی قرار دیا۔ شاہی زمینوں اور جنگ میں حصہ لینے والے امراکی زمینوں کو خلافت اسلامی کی ملکیت قرار دیا گیا۔

محرم ۱۷ ھ میں حضرت سعد بن ابی وقاص مدائن سے کوفہ منتقل ہوئے۔ سبب یہ ہوا کہ صحابہ کو مدائن کی آب و ہوا موافق نہ آئی۔ مکھیوں، مچھروں اور گرد و غبار سے ان کے رنگ سیاہ اور بدن کم زورپڑ گئے۔یہ اطلاع حذیفہ بن یمان اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضرت عمر کو دی ،انہوں نے خود بھی مدینہ پہنچنے والے وفود سے مل کر اس کا اندازہ لگایا تو حضرت سعد کو خط لکھا،عربوں کووہی آب و ہوا بھائے گی جو ان کے اونٹوں کے لیے سازگار ہو یعنی دریاسے دورخشک زمین جہاں پانی کا چشمہ ہو۔ حضرت سعد نے حذیفہ اور سلمان بن زیاد کو موزوں جگہ کی تلاش کے لیے بھیجا۔ انہوں کوفہ کی سرخ ریت والی پتھریلی زمین پسند آئی۔ابن جریر کے مطابق ابن بُقیلہ نے ان کی راہ نمائی کی اور کہا،میں آپ کو ایسی جگہ کی نشان دہی کرتا ہوں جو کھٹملوں کے لیے بلند ہے اور بیابان کے نشیب میں ہے۔ تب وہاں ریت کی تین خانقاہیں اور کچھ جھونپڑیاں تھیں۔حذیفہ اور سلمان نے اس جگہ نماز ادا کی اور نئے شہر کے لیے برکت و ثبات کی دعا مانگی۔ سب سے پہلے بلند ترین جگہ کی نشان دہی کر کے مسجد تعمیر کی گئی۔خسروی محلات سے حاصل شدہ سنگ مر مر کے ستونوں سے مسجد کی دو سو ہاتھ بلند چھت کھڑی کی گئی اور ایک خندق کے ذریعے اس کی حدود مقرر کی گئیں۔ پھر حضرت سعد نے دور تک مار کرنے والا ایک ماہر تیر انداز بلایا جس نے مسجد کی چہار اطراف میں تیر پھینکے۔تیر گرنے کے مقامات تک کی جگہ بازارکے لیے چھوڑی گئی اور اس سے پرے عوام الناس نے گھر بنا لیے۔حضرت سعد نے۷ سے لے کر ۴۰ گز تک کی گلی چھوڑنا لازم قرار دیا۔پہلی تعمیرات بانس سے ہوئیں جو امسال ہی جل کر راکھ ہوئیں تو حضرت عمر نے اس شرط پرکچی اینٹوں کے گھر بنانے کی اجازت دی کہ کمرے تین سے زیادہ اور چھت بہت بلند نہ ہو۔ ایرانی معمارروزبہ نے ایران کے شاہی محلات میں استعمال ہونے والی اینٹوں سے ’’ قصر حضرت سعد ‘‘( قصر کوفہ) تعمیر کیا۔پڑوس میں مسجد اور بیت المال تھے، ادھر فوجیوں کی کالونی بن گئی۔اب حضرت سعد نے امیر المومنین کو مطلع کیا ، میں نے حیرہ و فرات کے بیچ کوفہ میں قیام کر لیا ہے ۔ مسلمان کوفہ و مدائن میں سے جس شہر میں چاہیں، رہ سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ گزرا تو فوجیوں کی صحتیں بحال ہوگئیں۔حضرت سعد دفتر میں بیٹھتے تو بازار میں لوگوں کے غوغا سے گھبرا کر دروازہ بند کرا دیتے۔ حضرت عمر کو خبر ہوئی تو محمد بن مسلمہ کوکوفہ بھیجا اور کہا ، وہاں پہنچتے ہی لکڑیاں جمع کرنا اورمحل کا دروازہ جلا دینا،حضرت سعد کو یہ حکم بھی سنانا، دروازہ بند کرے نہ لوگوں کو روکنے کے لیے دربان بٹھائے ۔

۱۷ھ میں رومیوں نے ابوعبیدہ بن جراح کو حمص میں محصور کر دیا تو عمر نیحضرت سعدکو حکم دیا، قعقاع کی قیادت میں انہیں کمک بھیجیں۔وہ خود بھی مدینہ سے فوج لے کر ان کی مدد کے لیے نکلے، جابیہ تک پہنچے تھے کہ خبر ملی، ابوعبیدہ نے حصار توڑ کر فتح حاصل کر لی ہے ۔۱۷ھ ہی میں حضرت عمر نے حضرت سعد کو خط لکھا،شام و عراق کی فتح مکمل ہونے کے بعد ایک لشکر الجزیرہ روانہ کر دینا۔اسی سال انہوں نے امیر المومنین کے حکم پرنعمان بن مقرن کی قیادت میں ایک لشکر اہواز بھیجا جس میں جریر بن عبداﷲبجلی،جریر بن عبداﷲحمیری اور سوید بن مقرن بھی شامل تھے۔یہ ہرمزان کے خلاف لڑنے والی اسلامی فوج میں شامل ہوا۔

کوفہ کے بعد۱۸ھ میں بصرہ کی تعمیر ہوئی، اس کے لیے ابلّہ کے قریب دجلہ و فرات کے ڈیلٹا کا انتخاب کیا گیا،یہیں سے یہ دونوں دریا خلیج فارس میں گرتے ہیں ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضرت عمر کے حکم پر۱۶ھ میں عتبہ بن غزوان کو بصرہ کی بنا رکھنے کی ذمہ داری سونپی۔ ابن جریر اوربلاذری کا خیال ہے، عمر نے عتبہکو ۱۴ھ میں کوفہ آباد ہونے سے پہلے بصرہ بسانے کے لیے بھیجا۔

۲۰ھ(۶۴۰ء) میں کوفہ کے کچھ لوگوں نے امیر المومنین سے حضرت سعد بن ابی وقاص کی برائیاں کیں حتی کہ ان کو لکھ بھیجا، وہ نماز بھی اچھی طرح نہیں پڑھاتے۔ جراح بن سنان اسدی اس مہم میں پیش پیش تھا۔ عمرنے کہا،تمہارے خلاف یہی دلیل کافی ہے کہ تم حضرت سعد کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے ہو جب وہ اﷲ کے دشمنوں سے جہاد کرنے میں مشغول ہے(تب جنگ نہاوند کی تیاری تھی)،اس کے باوجود میں تمہاری شکایات کا کھوج لگاؤں گا۔انہوں نے محمد بن مسلمہ کو کوفہ بھیجاجو تمام قبائل و مساجد میں گھومے۔ سب نے حضرت سعد کے بارے میں کلمۂ خیر کہا۔جراح کے محلہ کے لوگ خاموش رہے ،برا بھلا کچھ نہ کہا۔ بنو عبس کے اسامہ بن قتادہ(ابو سعدہ) نے کہا، حضرت سعد جنگ میں حصہ نہیں لیتے ،رعایاسے ایک جیسا سلوک نہیں کرتے اور مال غنیمت انصاف سے نہیں بانٹتے۔ حضرت سعد نے کہا، اﷲ! اگر اس نے جھوٹ کہا ہے تو اس کی بینائی زائل کر،اس کا کنبہ بڑا کر اور اسے فتنوں میں مبتلا کر دے۔یہ دعا بعد ازاں اسی طرح پوری ہوئی۔اب سعد،محمد، جراح اور اس کے ساتھی مدینہ پہنچے۔ حضرت عمر نے پوچھا ،ابو اسحاق! (حضرت سعد کی کنیت)یہ لوگ بتا رہے ہیں ،تم نمازاچھی طرح نہیں پڑھاتے؟حضرت سعد نے جواب دیا ، واﷲ! میں انہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم والی نماز پڑھاتا ہوں،اس میں کوئی کمی نہیں کرتا۔(مثال کے طور پر)عشا کی نماز پڑھاؤں تو پہلی دو رکعتیں ٹھہر ٹھہر کر پڑھاتا ہوں اورآخری دو رکعتوں میں جلدی کرتا ہوں۔ عمر نے کہا،ابو اسحاق! تمہارے بارے میں میرا یہی گمان تھا۔ (بخاری:۷۵۵،مسلم :۹۴۸ ) یہ ثابت ہونے کے باوجود کہ حضرت سعد سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ،عمر نے انہیں معزول کرنا مناسب سمجھا۔ انہوں نے پوچھا،کسے قائم مقام مقرر کر آئے ہو؟ حضرت سعد نے بتایا، عبداﷲ بن عبداﷲ بن عتبان کو۔ انہی کوقائم مقام گورنر بنانے کے بعد عمر نے جھوٹی شکایت کرنے پرشکایت کنندگان کو تہدید کی ۔ مدینہ پہنچنے سے پہلے حضرت سعد امیرالمومنین کو نہاوند میں ڈیڑھ لاکھ ایرانی فوجوں کے اجتماع کی خبر دے چکے تھے۔ عبداﷲ نے گورنر بننے کے بعدایر انیوں پر حملے کی اجازت مانگی تو اس مہم کی کمان نعمان بن مقرن کو مل گئی۔ حضرت سعد ساڑھے تین سال کوفہ کے گورنر رہے،ان کے بعد عمار بن یاسر اور پھر مغیرہ بن شعبہ نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ ۲۳ھ میں عمر نے حضرت سعد کو بحال کرنا چاہا لیکن وہ نہ مانے اور کہا،میں ان لوگوں کا والی کیسے بن سکتا ہوں جن کا خیال ہے کہ میں نماز بھی درست نہیں پڑھاتا۔اسی سال عمر کی شہادت کا سانحہ پیش آ گیا۔ انہوں نے وصیت کی،اگر حضرت سعد کوفہ کے گورنر بن جائیں تو خوب ورنہ اس عہدے پر فائز شخص ان سے مدد ضرور لے ۔ میں نے انہیں کسی کوتاہی یا خیانت کے باعث معزول نہ کیا تھا۔

حضرت عمرکی وصیت تھی،نیا خلیفہ عشرۂ مبشرہ میں شامل ان چھ اصحا ب رسول میں سے منتخب کیا جائے، عثمانبن عفان، علیبن ابو طالب، زبیر بن عوام ، طلحہ بن عبیداﷲ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمان بن عوف۔حضرت سعد بن ابی وقاص کا نام لیتے ہوئے انہوں نے کہا،اگرآپ لوگوں نے حضرت سعد کو چنا تو(یہ انتخاب درست ہو گا کیونکہ ) وہ اس منصب کے پوری طرح اہل ہیں،میں نے ان کو کسی قصور یا خیانت کی وجہ سے معزول نہ کیا تھا۔ امیرالمومنین کی شہادت کے بعد ان کی مقرر کردہ شوریٰ کا اجلاس ابوطلحہ انصاری کے پہرے میں شروع ہوا ۔عبدالرحمان بن عوف نے ۳ ارکان کو ۳ ارکان کے حق میں دست بردار ہونے کا مشورہ دیا تو حضرت سعد عبدالرحمانکے حق میں دست بردار ہوگئے ۔ اب عبدالرحمان نے علی و عثمان میں سے ایک کا انتخاب کرنے کو کہا تو حضرت سعد نے عثمان کے حق میں رائے دی۔ عمرنے ہدایت کی تھی ،خلیفہ کے انتخاب سے پہلے اصحاب شوریٰ کے علاوہ کسی کواجلاس میں نہ آنے دیا جائے۔جب عمرو بن عاص اور مغیرہ بن شعبہ آکر دروازے کے پاس بیٹھے تو حضرت سعد نے انہیں ڈانٹ دیا۔ خلیفۂ ثالث کے انتخاب میں کچھ وقت لگا تو حضرت سعد نے عبدالرحمان سے کہا ،جلد فیصلہ کردو، قبل اس کہ لوگ کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں۔

عبیداللہ بن عمرنے غصے میں آکر اپنے والد کی شہادت کی سازش میں ملوث افراد ہرمزان اور جفینہ کو قتل کردیا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے ان کی تلوار قبضے میں لے لی اور انہیں پکڑ کر اپنے گھر میں قید کر دیا۔ جب حضرت عثمان کی بیعت ہو چکی تو ان کے سامنے پیش کر دیا،انہوں نے اہل رائے کے مشورے سے چھوڑنا مناسب سمجھا۔

۲۴ھ (۶۴۵ء )میں خلیفۂ سوم حضرت عثمان نے مغیرہ بن شعبہ کو ہٹاکر حضرت سعد کودوسری بار کوفہ کاگورنرمقرر کیا۔ان کی تعیناتی کا محرک حضرت عمر کے وہ مدحیہ کلمات بنے جو انہوں نے شہادت سے قبل حضرت سعد کے بارے ارشاد فرمائے۔ وہ ڈیڑھ سال تک اس عہدے پر فائز رہنے پائے تھے کہ۲۵ھ میں خلیفۂ سوم نے انہیں معزول کر کے ولید بن عقبہ کو گورنر بنا دیا۔ان کی معزولی کا سبب یہ ہوا کہ انہوں نے بیت المال سے کچھ قرض لیا جو وہ مقررہ وقت پر ادا نہ کر سکے۔عبداﷲ بن مسعود خزانچی تھے ،انہوں نے تقاضا کیا تو دونوں صحابیوں میں سخت کلامی ہوئی پھر آس پاس کے لوگ بھی اس جھگڑے میں شامل ہوگئے۔ حضرت عثمانکو علم ہوا تو انہوں نے حضرت سعد کو ہٹا دیا جب کہ ابن مسعود کو ان کے عہدے پر برقرار رکھا۔حضرت سعد کی امارت کے دوران میں ان کے بیٹے عمیر زخمی ہو کر شدید بیمار ہوئے تو بھی انہیں مدینہ آنا پڑا ، سیدنا عثمان نے تب ان کے اختیارات معاویہ کو سونپے۔

حضرت عثمان پر اقربا نوازی کا الزام لگا تو انہوں نے علی،طلحہ،سعد،زبیر اور معاویہ کو بلا کر اپنی پالیسی کی وضاحت کی۔انہوں نے کہا ،میرے پیش رو ابوبکر و عمر سختی سے کام لیتے تھے جب کہ میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عمل کو سامنے رکھ کر اپنے اہل قرابت کو دیتا ہوں کیونکہ وہ تنگ دست ہیں۔اس کے باوجود ان اصحاب رسول ؐ کے اعتراض پر عثمان نے مروان کو دیے جانے والے ۱۵ ہزاردرہم اور عبداﷲ بن خالد بن اسید کو عطا کردہ ۱۰ ہزار واپس لیے۔ عہد عثمانی کے آخری دنوں میں بلوائیوں نے مدینہ پر یورش کی۔اس موقع پر حضرت عثمان نے حضرت علی سے درخواست کی کہ ان سرکشوں سے بات چیت کریں۔ وہ ۳۰ اکابر صحابہ کی جماعت لے کر نکلے اور عمار بن یاسر کوبھی ساتھ چلنے کو کہا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔تب عثمان نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی ذمہ داری لگائی کہ انہیں جانے پرآمادہ کریں لیکن عمار تب بھی نہ مانے۔مسجد نبویؐمیں حضرت عثمان پر سنگ باری کی گئی تو حضرت سعد ،حسین،زید اورابو ہریرہ نے باغیوں سے قتال کرنا چاہا مگر حضرت عثمان نے منع کر دیا۔ بلوائیوں کے فساد پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت سعد نے کہا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،جلد ہی ایسا فتنہ برپا ہو گا جس میں بیٹھا ہواکھڑے ہوئے سے،کھڑا ہوا چلتے ہوئے سے اور چلتا ہوا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا۔ حدیث کے راوی بُسر بن سعیدنے پوچھا ، اگرکوئی میرے گھر میں داخل ہو کر مجھے قتل کرنے کے درپے ہو جائے تو؟ حضرت سعد نے کہا ،آدم کے اچھے بیٹے (ہابیل) کی مانند ہو جانا۔ (ترمذی :۲۱۹۴،مسند احمد:۱۶۰۹)فتنہ کی سنگینی کا احساس ہونے کے باوجودحضرت سعد کا خیال تھا کہ باغی عثمان کو شہیدکرنے کی جرات نہ کریں گے۔ٍ محاصرے کے دوران میں سیدنا عثمان نے کئی بار علی،سعد، طلحہ اورزبیر کو گواہ بنا کر اسلام کے لیے کی گئی اپنی نیکیاں گنوائیں تو ان سب نے ان کی تائید کی۔ شہید مظلوم سیدنا عثمان کی شہادت کے ۵ دن بعد تک مدینہ میں بدبخت غافقی بن حرب کے احکام چلتے رہے۔ اس دوران میں مصر کے باغی حضرت علی کو بیعت لینے پر آمادہ کرتے رہے،کوفی زبیر بن عوام کوتلاش کرتے رہے اور بصری طلحہ کو خلیفہ بنانے پر کوشاں رہے۔ ایک گرو ہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس بھی گیا لیکن انہوں نے یہ ذمہ داری سنبھالنے سے انکار کر دیا پھر وہ مدینہ سے باہر چلے گئے۔

________________

B