HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانعام ۶: ۹۱- ۹۴ (۸)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ، اِذْ قَالُوْا: مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْئٍ۔ قُلْ: مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآئَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّھُدًی لِّلنَّاسِ، تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ، تُبْدُوْنَھَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا، وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَآؤُکُمْ۔ قُلِ: اللّٰہُ، ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ{۹۱} وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ، وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَا، وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ، وَھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ{۹۲}
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْئٌ، وَّمَنْ قَالَ: سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ، وَلَوْتَرٰٓی اِذِالظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ، اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ، اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ ،وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ{۹۳} وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ، وَّتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰکُمْ وَرَآئَ ظُھُوْرِکُمْ، وَمَا نَرٰی مَعَکُمْ شُفَعَآئَ کُمُ الَّذِِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّھُمْ فِیْکُمْ شُرَکٰٓؤُا، لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَکُمْ، وَضَلَّ عَنْکُمْ مَّاکُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ{۹۴}
(حقیقت یہ ہے کہ) اِن لوگوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں پہچانی، جب اِنھوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا۱۲۱؎۔ (اِن سے) پوچھو، پھر اُس کتاب کو کس نے نازل کیا تھا جس کو موسیٰ لے کرآئے تھے، جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، جس کو ورق ورق کرکے اُنھیں دکھاتے اور زیادہ کو چھپا لیتے ہو۱۲۲؎ اور (جس کے ذریعے سے) تمھیں وہ علم دیا گیا جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمھارے باپ دادا؟ کہہ دو، اللہ ہی نے، پھر اِنھیں اِن کی کج بحثیوں میں چھوڑ دو، کھیلتے رہیں۔ یہ۱۲۳؎(اُسی کتاب کی طرح) ایک کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے، بڑی خیر و برکت والی ہے،۱۲۴؎ جو کچھ اِس سے پہلے آ چکا ہے، اُس کی تصدیق کرتی ہے،۱۲۵؎ (اِس لیے کہ تم اِس کے ذریعے سے لوگوں کو خوش خبری دو) اور اِس لیے کہ اُنھیں متنبہ کردو جو ام القریٰ اور اُس کے گردوپیش کے رہنے والے ہیں۱۲۶؎۔(تم مطمئن رہو)، جو آخرت کو مانتے ہیں، وہی اِسے مانیں گے اور وہی اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۱۲۷؎۔۹۱-۹۲
اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹی تہمت باندھے۱۲۸؎ یا کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے، دراں حالیکہ اُس پر کوئی وحی نہ آئی ہو اور اُس سے جو دعویٰ کرے کہ میں بھی اُس جیسا کلام نازل کر سکتا ہوں، جیسا خدا نے نازل کیا ہے۱۲۹؎؟ اور کبھی تم دیکھتے، ۱۳۰؎جب یہ ظالم موت کی بے ہوشی میں ہوں گے اور فرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے مطالبہ کر رہے ہوں گے کہ لائو، اپنی جانیں حوالے کر دو، آج (تمھارے) اِس (جرم) کی پاداش میں تمھیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۱۳۱؎ کہ تم اللہ پر ناحق تہمت باندھتے تھے اور اُس کی آیتوں سے متکبرانہ اعراض کرتے تھے۱۳۲؎۔ لو، بالآخر ویسے ہی اکیلے اکیلے ہمارے پاس آگئے ہو،۱۳۳؎ جیسے پہلی مرتبہ ہم نے تمھیں پیدا کیا تھا، جو کچھ (دنیا میں) تمھیں دیا تھا، وہ سب پیچھے چھوڑ آئے ہو اور تمھارے ساتھ ہم تمھارے اُن سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھ رہے جن کے بارے میں تم سمجھتے تھے کہ تمھارے معاملے میں ہمارے شریک ہیں۔ تمھارے سب رشتے ٹوٹ گئے ۱۳۴؎اور جو کچھ گمان تم کیے بیٹھے تھے، وہ سب جاتے رہے ہیں۱۳۵؎۔۹۳-۹۴

۱۲۱؎ آگے کے مضمون سے واضح ہے کہ یہ قول یہود کا ہے جو اُس زمانے میں قریش کو شہ دے رہے اور طرح طرح کے اعتراضات القا کر رہے تھے۔ اُن کے ذہن میں بات تو یہ رہی ہو گی کہ تورات کے بعد کسی نئی کتاب اور نئی شریعت کی ضرورت باقی نہیں رہی، اِس لیے اللہ اب کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کرے گا، لیکن اُنھوں نے بات اِس طرح کہی جس سے عربوں کی قومی حمیت بھی نہ بھڑکے اور اُن کا مقصد بھی حاصل ہو جائے۔ قرآن نے پہلے اُن کے اِس قول کے ظاہر کو سامنے رکھ کر تبصرہ کیا کہ جو لوگ خدا کو اپنی مخلوقات سے اِس قدر بے تعلق سمجھیں کہ اُن کے اندر طلب ہدایت کا نہایت قوی داعیہ پیدا کرکے اُس نے اِس داعیے کا کوئی جواب نہیں دیا، اُن کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ صدیوں تک دین و شریعت کا حامل رہنے کے باوجود اُنھوں نے خدا کی قدر نہیں پہچانی اور اُس علیم و حکیم ہستی کے بارے میں نہایت غلط اندازہ قائم کیا ہے۔

۱۲۲؎ یہود نے تورات کی جو ناقدری کی یہ اُس کا اظہار بھی ہے اور اُن کی بات کے باطنی پہلو کا جواب بھی کہ خدا کی کتاب کے ساتھ جو سلوک اُنھوں نے کیا ہے، اُس کے بعد تو ناگزیر ضرورت تھی کہ ایک نئی کتاب اور نئی شریعت نازل کی جائے تاکہ لوگ تاریکی سے نکل کر روشنی میں آئیں اور گمراہی سے نجات حاصل کر لیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہود نے تورات اُس شکل میں جمع نہیں کی تھی جس شکل میں مسلمانوں نے قرآن کو مابین الدفتین جمع کیا، بلکہ اُنھوں نے اُس کو مختلف اجزا میں تقسیم کر لیا تھا اور ہر جزو کو الگ الگ قلم بند کیا تھا۔ اِ س طرح اُن کو اُس کی اُن تعلیمات اور پیشین گوئیوں کے چھپانے کا آسانی سے موقع مل جاتا تھا جن کو وہ اپنی خواہشات اور مصالح کے خلاف پاتے۔ جب ایک کتاب کے اجزا الگ الگ کراسوں کی شکل میں ہوں اور اُس پر اجارہ داری بھی مخصوص ایک گروہ کی ہو تو وہ بڑی آسانی سے یہ کر سکتا ہے کہ اُس کے جس جزو کو چاہے، اپنے مخصوص حلقے سے باہر کے لوگوں کے علم میں نہ آنے دے۔ قرآن نے یہود پر کتاب الٰہی کے اخفا کا جو جرم عائد کیا ہے، اُس کی ایک نہایت سنگین شکل یہ بھی تھی اور قرآن کے انداز بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس طرح کتاب الٰہی کازیادہ حصہ یہود نے چھپا لیا تھا، صرف اُس کا تھوڑا حصہ وہ ظاہر کرتے تھے، اِس لیے کہ ’تُبْدُوْنَھَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا‘ کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ جو حصہ چھپایا جاتا تھا، وہ زیادہ تھا۔ اِس کے معنی لازماً یہ بھی ہوئے کہ جو حصہ ظاہر کیا جاتا تھا، وہ تھوڑا تھا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۰۸)

۱۲۳؎ پہلے محض اشارہ فرمایا تھا۔ یہاں سے آگے اب قرآن کی مستقل حیثیت واضح کی جا رہی ہے کہ اِس کتاب کے نزول کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔

۱۲۴؎ یہ اُس عالمگیر خیر و برکت کی طرف اشارہ ہے جس کا ظہور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ پر قرآن کے نزول سے ہوا اور جس کی بشارت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اُس وقت دے دی گئی تھی، جب وہ خدا کے حکم پر اپنے بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ بائیبل کی کتاب پیدایش میں ہے :

’’خداوند فرماتا ہے: چونکہ تو نے یہ کام کیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتاہے، دریغ نہ رکھا، اِس لیے میں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا ۔۔۔ اور تیری نسل کے وسیلے سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تو نے میری بات مانی۔‘‘(۲۲: ۱۶-۱۸)

۱۲۵؎ یعنی اُن پیشین گوئیوں کی مصداق ہے جو اِس کے متعلق پچھلے صحیفوں میں موجود ہیں اور اِس لیے نازل کی گئی ہے کہ اُس پورے سلسلۂ نبوت کی صداقت پر ایک برہان قاطع بن جائے جو تورات کے نزول سے لے کر اب تک جاری رہا ہے۔

۱۲۶؎ اِس کا عطف اُس مفہوم پر ہے جو پہلے جملے سے نکلتا ہے۔ وضاحت قرینہ کی بنا پر اُسے حذف کر دیا ہے۔ قرآن کی یہ ضرورت قریش کے تعلق سے بیان ہوئی ہے، جن پر اتمام حجت کے لیے اُسے نازل کیا گیا اور جس کے نتیجے میں پورے عالم کے لیے اُس عظیم خیر وبرکت کا ظہور ہوا جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔

۱۲۷؎ یہ اشارہ صالحین اہل کتاب کی طرف ہے۔ قرآن نے جگہ جگہ اُن کی تعریف کی ہے اور ہر جگہ یہی شناخت بتائی ہے کہ وہ نماز کا اہتمام کرتے اور اُس میں شب و روز آیات الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں۔

۱۲۸؎ یعنی شرک کرے۔ اِسے جھوٹی تہمت سے اِس لیے تعبیر کیا ہے کہ مشرکین اپنے جی سے معبود گھڑتے اور اُن کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنھیں خدا نے اپنا شریک قرار دیا ہے۔ یہ قریش کا سب سے بڑا جرم تھا۔ چنانچہ اہل کتاب کے مفسدین کا ذکر کرنے کے بعد قرآن نے اُن کی طرف توجہ فرمائی ہے تو سب سے پہلے اُن کے اِسی جرم کا ذکر کیا ہے۔

۱۲۹؎ یہ اُن ہفوات کا حوالہ ہے جو قریش کے لیڈر بکتے رہتے تھے تاکہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس دعوے کا کوئی اثر قبول نہ کریں کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ آپ کی اپنی کوئی بات نہیں، بلکہ خدا کا کلام ہے جو خدا کی طرف سے اُس کے ایک فرشتے کے ذریعے سے نازل کیا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی صداقت ظاہر ہوتی ہے تو جن لوگوں کے پندار پر اُس کی زد پڑتی ہے اور وہ اپنے آپ کو اُس کے مقابل میں بے بس محسوس کرتے ہیں تو اِسی طرح کی دھونس سے وہ اپنا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اُن کے دام فریب میںپھنسے ہوئے عوام اُن کی صلاحیتوں سے مایوس ہو کر اُس صداقت کو اختیار نہ کر لیں۔ لیکن اِس قسم کی نمائشی اور ادعائی شہ زوری اصل حقیقت کے مقابل میں کیا کام دے سکتی ہے اور کتنے دن کام دے سکتی ہے۔ بالآخر اِن زبان کے سورمائوں کو میدان چھوڑ کے بھاگنا پڑتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۱۱)

۱۳۰؎ یہ شرط ہے اور آگے اِسی کا بیان ہے۔ اِس کا جواب اِس لیے حذف کر دیا ہے کہ جس ہولناکی کو چشم تصور کے سامنے لانا پیش نظر ہے، وہ الفاظ کی گرفت میں نہیں آ سکتی تھی۔

۱۳۱؎ ذلت کا عذاب اِس لیے کہ اِن متمردین نے خدا اور اُس کے رسول کے مقابلے میں سرکشی اور تکبر کا رویہ اختیار کیا۔

۱۳۲؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ‘۔ ’عَنْ‘ کا صلہ دلیل ہے کہ ’تَسْتَکْبِرُوْنَ‘ کا لفظ یہاں اعراض کے مفہوم پر بھی مشتمل ہے۔

۱۳۳؎ پیچھے غائب کا اسلوب تھا۔ اُس کے بجاے حاضر کا یہ اسلوب، اگر غور کیجیے تو اُن کے انجام کی ہولناکی کو اِس طرح نگاہوں کے سامنے لے آیا ہے گویا قیامت آگئی اور اُن سے خطاب کیا جا رہا ہے۔

۱۳۴؎ اصل میں ’تَقَطَّعَ بَیْنَکُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں فاعل ہمارے نزدیک حذف ہے، یعنی ’تقطع بینکم الحبل‘۔

۱۳۵؎ یعنی ہمارے شریک ٹھیرا کر اور قیامت میں اُنھیں اپنا شفیع سمجھ کر جو گمان کیے بیٹھے تھے، وہ سب ہوا ہو گئے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B