HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانعام ۶: ۶۸- ۷۳ (۶)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ، وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ{۶۸} وَمَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ، وَّلٰکِنْ ذِکْرٰی لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ{۶۹} وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَعِبًا وَّلَھْوًا وَّغَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَذَکِّرْ بِہٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا کَسَبَتْ، لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ، وَاِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْھَا، اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا کَسَبُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ{۷۰} 
قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَلَا یَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓی اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ھَدٰنَا اللّٰہُ کَالَّذِی اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ لَہٓٗ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٓٗ اِلَی الْھُدَی ائْتِنَا، قُلْ: اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی، وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ{۷۱} وَاَنْ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّقُوْہُ، وَھُوَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ{۷۲} وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ، وَیَوْمَ یَقُوْلُ: کُنْ فَیَکُوْنُ، قَوْلُہُ الْحَقُّ، وَلَہُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ، عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ، وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ{۷۳}
(اِنھیں اب اِن کے حال پر چھوڑو) اور جب دیکھو ۷۸؎ کہ ہماری آیتوں پر نکتہ چینیاں ۷۹؎ کر رہے ہیں تو اِن سے کنارہ کش ہو جایا کرو، یہاں تک کہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان بھلا دے تو غلطی کا احساس ہو جانے کے بعد اِن ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو۔۸۰؎ اِن کے حساب کی کوئی ذمہ داری اُن لوگوں پر نہیں ہے جو خدا سے ڈرنے والے ہیں۔ البتہ، یاددہانی اُن کافرض ہے تا کہ یہ بھی ڈرنے والے بن جائیں۔۸۱؎  جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور جنھیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے،۸۲؎  اُنھیں چھوڑو اور اِس قرآن کے ذریعے سے یاددہانی کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ہلاکت کے حوالے نہ کر دیا جائے۔۸۳؎  اور وہ بھی اِس حال میں کہ اللہ کے آگے نہ اُس کا کوئی حامی و مددگار ہو اور نہ سفارش کرنے والا، اور اگر ہر معاوضہ بھی دے تو اُس سے قبول نہ کیا جائے۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ہلاکت کے حوالے کیے جائیں گے۔ جس کفر کا ارتکاب اِنھوں نے کیا ہے، اُس کی پاداش میں اِن کے لیے کھولتا ہوا پانی اور ایک دردناک عذاب ہے۔۸۴؎  ۶۸-۷۰
اِن سے پوچھو: کیا ہم اللہ کے سوا اُنھیں پکاریں جو ہمیں نہ نفع دے سکتے ہیں، نہ نقصان؟۸۵؎  اور اِس کے بعد بھی کہ اللہ نے ہمیں ہدایت بخش دی ہے، کیا ہم الٹے پائوں پھر جائیں؟۸۶؎  اُس شخص کی طرح جسے شیطانوں۸۷؎ نے بیابان۸۸؎ میں حیران و سرگشتہ چھوڑ دیا ہو، دراں حالیکہ اُس کے ساتھی اُسے راہ ہدایت کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آجائو۔۸۹؎ کہہ دو: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے آپ کو رب کائنات کے حوالے کر دیں ۹۰؎  اور (حکم دیا گیا ہے) کہ نماز کا اہتمام کرو اور اُس سے ڈرتے رہو۔۹۱؎  وہی ہے جس کے حضور میں تم سب اکٹھے کیے جائو گے۹۲؎ اور وہی ہے جس نے زمین و آسمان کو برحق پیدا کیا ہے۔۹۳؎  جس دن کہے گا کہ (حشر برپا) ہو جائے تو ہو جائے گا۔ اُس کی بات شدنی ہے۔ جس دن صور پھونکا جائے گا، اُس دن اُسی کی بادشاہی ہوگی۔ وہ غائب و حاضر، ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور وہ حکیم و خبیر ہے۔۹۴؎  ۷۱-۷۳

۷۸؎ یہ خطاب اگرچہ واحد کے صیغے سے ہے، لیکن آگے کی آیتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِس کے مخاطب تمام مسلمان ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہدایت کی گئی ہے کہ دعوت و تبلیغ کے مقصد سے بھی اُن لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھے رہیں جو خدا کے دین اور اُس کے پیغمبر کا مذاق اڑانے میں لگے ہوئے ہوں۔

۷۹؎ اصل میں لفظ ’یَخُوْضُوْنَ‘ آیا ہے۔ یہ اُس سخن گستری کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا مقصد کسی بات کو ہنسی، دل لگی اور مذاق میں اڑا دینا ہو۔ 

۸۰؎ اِس ہدایت کے دو پہلو ہیں اور دونوں نہایت اہم ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ایک تو یہ کہ یہ رویہ اُس حکمت دعوت کے خلاف ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تبلیغ کے لیے پسند فرمائی ہے۔ جس وقت کسی گروہ پر کسی چیز کی مخالفت، اُس کی تضحیک اور اُس کی تردید کا بخار چڑھا ہوا ہو اور بخار کی شدت سے مریض کی کیفیت ہذیانی ہو رہی ہو، عین اُسی حالت میں اُس کے سامنے اُس چیز کو پیش کرنا گویا اُس کے بخار اور ہذیان، دونوں کو مزید بڑھا دینا ہے۔ اگر کوئی معالج مریض کی بیماری ہی میں اضافہ چاہتا ہو تو وہ تو آزاد ہے جو چاہے کرے، لیکن کوئی مہربان طبیب جو مریض کی صحت کا خواہاں ہے، وہ کبھی ایسی غلطی نہیں کرے گا۔ اِسی رعایت احوال کے پیش نظر یہاں مسلمانوں کو ہدایت ہوئی کہ جب تم دیکھو کہ یہ اسلام کے مخالفین قرآن کا مذاق اڑانے پر تلے ہوئے، طنزو تضحیک کے ترکش سنبھالے ہوئے اور مخالفت کے لیے آستین چڑھائے ہوئے ہیں تو اُس وقت طرح دے جائو اور کسی ایسے وقت کا انتظار کرو، جب یہ بحرانی کیفیت ذرا دور ہو جائے تو اُس وقت اُن کو سنانے اور سمجھانے کی کوشش کرو۔
دوسرا یہ کہ یہ اُس غیرت حق کے منافی ہے جو اہل ایمان کے اندر ہوتی ہے یا ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شخص یا گروہ علانیہ خدا اور رسول کے خلاف بکواس کرتا ہے تو اُس سے لڑنا بھی ایک داعی کے لیے غلط، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اور خاموش رہنا بھی غلط، اِس لیے کہ اِس سے وہ حمیت حق مجروح ہوتی ہے جو علامت ایمان ہے اور جس کا ضعف بالآخر درجہ بدرجہ آدمی کو اُس نفاق میں مبتلا کر دیتا ہے جس میں مبتلا ہوجانے کے بعد اللہ، رسول، قرآن اور شریعت ہر چیز کی توہین و تذلیل وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا ہے، لیکن اُس کو ایسا سانپ سونگھ جاتا ہے کہ زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۷۷)

۸۱؎ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم تبلیغ و دعوت کو کس درجے میں اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ چنانچہ اُنھیں اطمینان دلایا ہے کہ مواخذہ اِس بات پر تو ضرور ہو گا کہ جنھیں تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا، اُنھوں نے لوگوں کو تبلیغ و تذکیر کی یا نہیں، لیکن اِس بات پر ہرگز کوئی مواخذہ نہ ہو گا کہ لوگوں نے ہدایت قبول کیوں نہیں کی۔ لہٰذا محض اِس وجہ سے مذاق اڑانے والوں کی مجلس میں بیٹھے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اُنھیں ہر حال میں بات سمجھا کر ہی اٹھنا ہے۔ یاددہانی کرنا یقیناً فرض ہے، مگر اپنے آپ کو لوگوں کی ہدایت و ضلالت کا ذمہ دار سمجھ کر اُن کے درپے ہونا کسی پر فرض نہیں ہے۔

۸۲؎ یہ اُن کی شرارت کا اصل سبب بتایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اُن کا اصلی مغالطہ یہی ہے کہ جب ہماری زندگی کامیاب ہے تو ہمارا رویہ بھی لازماً صحیح ہے۔ وہ اِسی دنیا کی زندگی کو کل کی زندگی سمجھے بیٹھے ہیں اور یہ زندگی چونکہ جزاو سزا کے اصول پر نہیں چل رہی ہے، بلکہ امتحان و آزمایش کے اصول پر چل رہی ہے، یہاں حق کے ساتھ خدا نے باطل کو بھی ڈھیل دے رکھی ہے، اِس وجہ سے وہ اپنی خواہشوں کی پیروی میں باطل ہی کو اپنا دین بنا بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی زندگی اور یہی رویہ صحیح ہے اور قرآن اُن کو جس انجام سے خبردار کر رہا ہے، وہ محض ایک موہوم ڈراوا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۸۰)

۸۳؎ اصل میں ’اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’اَنْ‘ سے پہلے ’مخافۃ‘ یا اِس کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ اِن میں عربیت کے قاعدے سے حذف ہو گیا ہے۔

۸۴؎ اصل الفاظ ہیں: ’لَہُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ‘۔ یعنی پہلی ضیافت ماء حمیم سے ہوگی، پھر عذاب الیم کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ سورۂ واقعہ (۵۶) کی آیت ۹۳ میں قرآن نے اِس کی تصریح کر دی ہے۔

۸۵؎ جن چیزوں کے نفع و نقصان کی نفی کی گئی ہے، اُن کے لیے اصل میں لفظ ’مَا‘ آیا ہے۔ یہ اُن کی تحقیر پر دلالت کرتا ہے۔

۸۶؎ یعنی اِس سے پہلے اگر کسی گمراہی میں مبتلا رہے تو اُس کے لیے کچھ عذر ہو سکتا تھا، لیکن اب اگر اُسی حماقت کا ارتکاب کریں تو خدا کے حضور میں کیا عذر پیش کریں گے؟

۸۷؎ یعنی شیاطین جن و انس۔ حیران وسرگشتہ چھوڑ دینے کی نسبت اِن کی طرف اِس لیے کی گئی ہے کہ ایمان و اخلاق کی گم گشتگی کو یہی اُس درجے تک پہنچاتے ہیں جس کا ذکر تمثیل میں ہوا ہے۔

۸۸؎ اصل میں لفظ ’الْاَرْض‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی زمین کے ہیں، لیکن قرینہ موجود ہو تو اِ س سے زمین کا کوئی خاص حصہ بھی مراد لے سکتے ہیں۔ یہاں گم گشتگی کی تمثیل بیان ہو رہی ہے، اِس لیے صحرا اور بیابان مراد ہے، جہاں راہ بھٹکنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

۸۹؎ یہ اُنھی لوگوں کی تمثیل ہے جن کا رویہ زیربحث ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِس تمثیل کا اسلوب اگرچہ بظاہر ایک عمومی تمثیل کا ہے، لیکن غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ فی الحقیقت یہ اُن مخالفین اسلام کی تمثیل ہے جو یہاں زیربحث ہیں۔ اِس تمثیل میں اُن کے سامنے یہ بات رکھی گئی ہے کہ تم صحرا میں بھٹکتے ہوئے مسافر کی مانند ہو، شیاطین اور گمراہ لیڈروں نے تمھاری مت مار دی ہے اور تمھارے کچھ راہ یاب ساتھی (اشارہ اہل ایمان کی طرف ہے) تمھیں اصل راہ کی طرف بلا رہے ہیں، لیکن تم اُن کی پکار نہیں سن رہے ہو۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۸۲)

۹۰؎ اِس لیے کہ جب وہ عالم کا پروردگار ہے تو وہی حق دار ہے کہ اپنے آپ کو اُس کے حوالے کیا جائے۔

۹۱؎ پیچھے فرمایا ہے: ’وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘۔ یہ ٹکڑا بھی اُسی کے تحت ہے، لیکن اسلوب غائب کے بجاے حاضر کا ہو گیا ہے۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ کلام میں براہ راست خطاب کا زور پیدا ہو جائے۔

۹۲؎ نماز اور تقویٰ کے بعد یہ توحید اور آخرت کا ذکر بھی ہے اور اُن کی دلیل بھی۔ مطلب یہ ہے کہ نماز کا اہتمام اور حدود الٰہی کا احترام اِس لیے ضروری ہے کہ ایک دن خدا کے آگے حاضر ہونا ہے۔

۹۳؎ یہ پچھلے جملے کی دلیل ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’آسمان و زمین میں خالق کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کے جو آثار و دلائل موجود ہیں، وہ اِس حقیقت پر شاہد ہیں کہ یہ کارخانہ کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہے جو اُس نے محض اپنا جی بہلانے کے لیے بنایا ہو، بلکہ یہ ایک قدیر، علیم، حکیم اور رحمن و رحیم ذات کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ اگر یہ یونہی چلتی رہے، اِس کے اندر جو ظلم ہے، اُس کے انصاف کے لیے کوئی دن نہ آئے، جو عدل ہے، اُس کی داد کا کوئی وقت نہ آئے، اِس کے اندر جو برے، شریر اور نابکار ہیں، اُن کو کوئی سزا نہ ملے، جو نیک، حق شناس اور عدل شعار ہیں، اُن کو اُن کی نیکیوں کی جزا نہ ملے تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ سارا کارخانہ بالکل عبث، بے غایت اور باطل ہے جس کے بنانے والے کے نزدیک خیر اور شر، ظلم اور عدل، حق اور باطل میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ یہ بات انسان کی عقل و فطرت کسی طرح بھی قبول نہیں کر سکتی، اِس لیے کہ جس خالق کی خلقت کے ہر گوشے میں اُس کی حکمت، قدرت، رحمت اور ربوبیت کے آثار موجود ہیں اور اتنی کثرت کے ساتھ موجود ہیں کہ انسان کسی طرح اُن کا احاطہ نہیں کر سکتا، اُس کی نسبت وہ کس طرح یہ باور کر لے کہ اُس کو ہماری نیکی بدی اور ہمارے عدل و ظلم سے کوئی بحث نہیں ہے۔ اگر بحث ہے اور ضرور بحث ہے، اِس لیے کہ یہ بحث نہ ہو تو یہ دنیا بالکل کھیل، بلکہ نہایت ظالمانہ کھیل بن کے رہ جاتی ہے تو اِس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ اِس دنیا کے لیے ایک یوم انصاف آئے جس میں خدا کی کامل رحمت اور اُس کی کامل حکمت ظاہر ہو اور ہر نیکی اپنا صلہ پائے اور ہر بدی اپنی سزا۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۸۳)

۹۴؎ اِس لیے ضروری ہے کہ اُس کا ہر فیصلہ عدل و حکمت پر مبنی ہو۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی مغالطے میں پڑ جائے یا کسی باطل کو حق اور حق کو باطل بنا دے۔ اُس کے عدل و حکمت اور علم و خبر میں کوئی نقص نہیں ہے کہ اِس طرح کی کوئی چیز اُس سے صادر ہو جائے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B