HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

زبیر بن عوّام رضی ﷲ عنہ

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حضرت زبیر کا شجرۂ نسب یوں ہے،زبیر بن عوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی بن کلاب بن مرہ،پانچویں جد قصی پر ان کاشجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سلسلۂ نسب سے جاملتا ہے۔ٍآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب حضرت زبیر کی والدہ تھیں اسے لیے ان کو ابن صفیہ بھی کہا جاتا ہے۔زبیر رضی اللہ عنہ کے والد ان کے بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔باپ کی وفات کے بعد چچا نوفل بن خویلد نے حضرت زبیر کی پرورش کی۔ حضرت صفیہ ان کوخوب پیٹتیں تو نوفل منع کرتے ۔وہ جواب دیتیں ،میں اس لیے مارتی ہوں تاکہ یہ سمجھ دار ہو جائے۔ ابو عبداﷲ،زبیر کی مشہور کنیت ہے تاہم ان کی والدہ انھیں ابوطاہر کے نام سے پکارتیں جو ان کے بھائی زبیر بن عبدالمطلب کی کنیت تھی ۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکرصدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا،تب ان کی عمرابن کثیر کے مطابق عمر ۱۵ سال تھی اور ابن حجرکے مطابق ۱۲ سال تھی۔ان کا شمار پہلے ۸ مسلمانوں میں ہوتا ہے۔

قبولیت اسلام کے بعد حضرت زبیر کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتے تاکہ وہ کفر کی طرف لوٹ آئیں،وہ کہتے میں کفر ہر گز نہ کروں گا۔ قریش کی مار پیٹ اور ایذا ؤں کا سلسلہ بڑھ گیا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل ایمان سے فرمایا:بہتر ہو اگر تم حبشہ کی سرزمین چلے جاؤجہاں ایسا بادشاہ حکم ران ہے جس کی بادشاہی میں ظلم نہیں۔ چنانچہ آپ کے حکم پررجب ۵ نبوی(۶۱۵ء) میں ۱۱مرد اور ۴ عورتیں حبشہ کو ہجرت کرگئے۔زبیربن عوام اس پہلے قافلے میں شامل تھے جو نصف دینار کرایہ پر کشتی لے کر بحیرۂ عرب کے راستے حبشہ گیا۔جعفربن ابوطالب ۸۰ افراد کے ہم راہ دوسری ہجرت میں حبشہ گئے۔اس وقت پہلی بار ہجرت کرنے والے مہاجرین نے مکہ واپسی کا قصد کیا تھااوران میں سے کچھ مکہ پہنچ بھی گئے تاہم حضرت زبیر مہاجرین کے دوسرے قافلے کے ساتھ حبشہ واپس لوٹ گئے ۔ حبشہ میں کچھ وقت گزرا تھا کہ شاہی خاندان کے ایک فرد نے نجاشی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔تب مسلمانوں کو فکر لاحق ہوئی ،اگر نجاشی کی حکومت نہ رہی تو یہ زمین بھی ان کے لیے تنگ ہو جائے گی۔انھوں نے نجاشی کی کام یابی کے لیے دعائیں کرنا شروع کیں۔ حضرت زبیر مہاجرین میں سب سے کم سن تھے ۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے کہنے پر چھاتی سے ہوابھری مشک باندھی اور دریا عبور کر کے میدان جنگ جا پہنچے۔ یہاں نجاشی کی فوج باغیوں سے برسرپیکار تھی۔اﷲ کے حکم سے نجاشی کو فتح حاصل ہوئی توحضرت زبیراپنی چادر لہراتے ہوئے خوشی خوشی واپس لوٹے۔اس واقعہ کے بعد نجاشی کی نظر میں مسلمانوں کا مقام بڑھ گیا۔زبیر بن عوام ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ لوٹ آئے۔

جب مسلمانوں کو اﷲ کی طرف سے قتال کی اجازت مل گئی’’اذن للذین یقٰتلون بانہم ظلموا‘‘۔اجازت دے دی گئی ہے ان لوگوں کو جن سے جنگ کی جارہی ہے اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا۔( سورۂ حج :۳۹) اور انصار کے ایک قبیلے نے بیعت نصرت کر لی تورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کرنے کا اذن عام دے دیا۔ سب سے پہلے ابوسلمہ مخزومی پہنچے۔پھر بیسیوں مسلمانوں نے مدینہ کا رخ کیا،ان میں عبداﷲ بن حجش،طلحہ بن عبیداﷲ،عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان شامل تھے۔ زبیر بن عوام نے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے مدینہ ہجرت کی ۔وہ اور ابوسبرہ، قبیلۂ بنو جحجبی میں منذر بن محمد کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔جب نبئ اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکرنے سفر ہجرت کیا تو حضرت زبیرایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے۔آپ مدینہ کے راستے میں تھے جب حضرت زبیرشام سے لوٹے۔انھوں نے ان دونوں کوپہننے کے لیے سفید کپڑوں کا تحفہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تو یہی کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے (فتح الباری)

زبیربن عوام کی اسما بنت ابوبکرسے شادی مکہ ہی میں ہوگئی تھی ۔ ایام زچگی مکمل تھے کہ انھیں مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔وہ دوسرے مہاجرین کے ساتھ قبا پہنچیں توعبداللہ بن زبیر کی ولادت ہوئی۔اسما ،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئیں اورنو مولود کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔آپ نے ایک کھجور منگوائی ، اسے چباکر اچھی طرح نرم کیا اورپھربچے کے منہ میں ڈال دیا۔یہ مہاجرین کی مدینہ آمد کے بعدپیدا ہونے والا پہلا بچہ تھا۔آپ نے اسے دعا دی اور عبداﷲ نام رکھا۔ عبداﷲ ۸ سال کے ہوئے توحضرت زبیرنے ان کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بیعت کے لیے بھیجا۔ آ پ انھیں دیکھ کر مسکرائے اور بیعت لے لی۔ (بخاری: ۳۹۱۰،مسلم : ۵۵۸۱)

جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار میں مواخات قائم فرمائی تو زبیر بن عوام کواس رشتہ میں سلمہ بن سلامہ (یا کعب بن مالک)سے منسلک فرمایا۔ مکہ میں آپ عبداللہ بن مسعود کو ان کا بھائی قرار دے چکے تھے۔ ۲ ھ میں نماز عید اور صدقۂ فطر مشروع ہوئے۔رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پہلی نماز عید پڑھانے عیدگاہ کی طرف چلے تو کچھ صحابہ، آپ کے آگے نیزہ لے کر چل رہے تھے ۔یہ وہی نیزہ تھا جو شاہ حبشہ نجاشی نے زبیر بن عوام کو تحفے میں دیا تھا۔

مدینہ قیام پذیر ہونے کے بعد حضرت ز بیر کے پاس ایک اونٹنی اور ایک گھوڑے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ان کی اہلیہ اسما ہی گھوڑے کو چارہ ڈالتیں اورگھر کے لیے پانی ڈھوتیں،اونٹنی کی خوراک کے لیے وہ کھجوروں کی گٹھلیاں پیستیں۔ روٹی ان سے اچھی نہ پکتی تھی اس لیے انصار کی لڑکیاں روٹیاں پکا دیتیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو بنونضیرٍ کے علاقہ میں ایک قطعۂ زمین (یا کھجوروں کا باغ)عطا کیاجو ان کے گھر سے ۶ میل دور تھا۔اسماپیدل یہ فاصلہ طے کر تیں اور سر پر کھجوروں کی گٹھلیاں لاد کر لاتیں۔ایک دفعہ رسول اﷲ صلی علیہ وسلم کچھ انصاری صحابہ کے ساتھ گزر رہے تھے کہ اسما کو جاتے ہوئے دیکھ لیا۔آپ نے انھیں اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھنے کو کہا لیکن اسما شرم کے مارے خاموش رہیں تو آپ چلے گئے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر نے اپنی بیٹی کے لیے ایک خادم بھیج دیا جو جانوروں کو سنبھالنے لگا۔ (بخاری: ۵۲۲۴،مسلم:۵۶۵۶)

۶ھ ہی میں بدر کے میدان میں کفر و اسلام کا فیصلہ کن معرکہ ہوا۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے جان نثار صحابہ کے ساتھ بدر کے کنووں کے قریب اترے۔ رات کے وقت آپ نے میدان جنگ کا جائزہ لینے کے لیے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھیجا۔وہ قریش کے دو غلاموں اسلم اور عریض کو پکڑ لائے جو پانی بھر رہے تھے۔ان سے قریش کے لشکر کی تعداد،اس کی جنگی پوزیشنوں اور ذخیرۂ خوراک کے بارے میں اطلاعات ملیں۔ جنگ شروع ہوئی تو دو شہ سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ زبیر بن عوام یعسوب نامی گھوڑے پر سوار میمنہ پر تھے جب کہ مقدار بن اسود بعزجہ یا سبحہ گھوڑے کی پشت پر میسرہ کی پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے۔ (بہیقی)انھوں نے زرد رنگ کا عمامہ لپیٹا ہوا تھا، روایت ہے کہ فرشتوں نے بھی ایسے عمامے باندھ رکھے تھے۔اسی لیے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ فرشتوں نے حضرت زبیر کا حلیہ اپنا لیا ہے۔ مسند احمد کی روایت کے مطابق اس دن مقداد کے علاوہ کسی کے پاس گھوڑا نہ تھا۔(مسند احمد:۱۰۲۳) حضرت زبیر نے اس معرکے میں بڑی جرات اور دلیری کا ثبوت دیا۔ خود روایت کرتے ہیں ،غزوۂ بدر میں میری بھینٹ عبیدہ بن سعید سے ہوئی جو سر سے پاؤں تک اسلحہ بند تھا، صرف اس کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔اس نے اپنی کنیت سے للکارا، میں ابو ذات الکرش ہوں تو میں نے ایک ہی وار کر کے اس کی آنکھ میں نیزہ گاڑ دیا۔ وہ جہنم رسید ہواتو میں نے اس کے جسم پر پاؤں رکھ کر نیزہ نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹیڑھا ہو گیا۔ حضرت زبیر سے یہ نیزہ نبئ اکرم ملے لیا۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر نے حاصل کیا، ان کے بعد یہ حضرت عمر ، حضرت عثمان اورپھر حضرت علی کے پاس رہا ۔وہ شہید ہوئے تو عبداللہ بن زبیر نے اپنے پاس رکھ لیا اور آخری وقت تک ان کے پاس رہا۔ (بخاری: ۳۹۹۸)

۳ ھ میں جنگ احد ہوئی۔جنگ شروع ہونے سے پہلے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی تلوار لہرائی اور فرمایا،کون اس تلوار کا حق ادا کرے گا؟کئی دلیر اٹھے،ان میں عمر بن خطاب اور زبیر بھی تھے لیکن آپ نے یہ ابودجانہ(سماک بن خرشہ ) کو سونپ دی۔انھوں نے کھڑے ہو کر سوال کیاتھا، یا رسول اللہﷺ!تلوار کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا، اس سے دشمن پر اتنی ضربیں لگاؤ کہ ٹیڑھی ہو جائے۔ تلوار ملنے کے بعد ابو دجانہ نے سرخ عمامہ لپیٹا اور اکڑ کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور کئی مشرکوں کی کھوپڑیاں پاش پاش کر دیں (مسلم :۶۳۰۳) حضرت زبیرکہتے ہیں، مجھے رنج ہوا تھاکہ میں نے آنجناب ﷺسے تلوار مانگی اور آپ نے حضرت ابودجانہ کو دے دی۔میں جنگ میں ابودجانہ کے پیچھے پیچھے رہا تاکہ ان کی کار کردگی کا جائزہ لے سکوں۔ جب انھوں نے بڑے بڑے سور ماؤں کومار گرایاتو مجھے سمجھ آیا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ اسی روز مشرکین کا علم بردار طلحہ عبدری(قبیلۂ عبدالدار سے منسوب) مبارزت کے لیے للکاراتو اکیلے زبیر بن عوام ہی نکلے ۔ طلحہ اونٹ پرسوار تھا، حضرت زبیرنے اسے نیچے گرایا اور تلوار سے اس کی گردن اڑا دی۔غزوۂ احد میں حضرت زبیر پیادہ فوج کے سالار تھے۔ مسلمانوں کو ابتدا میں ہزیمت اٹھانا پڑی اوروہ تتر بتر ہو گئے۔ایسے میں چند جان نثار صحابہ نے آپ کا ساتھ نہ چھوڑا،حضرت زبیر ا ن میں سے ایک تھے ،دوسرے اصحاب ابوبکرؓ، عمرؓ،علیؓ،طلحہؓ اور حارث بن صمہ تھے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کو اسی دن شہید کیا گیا۔ حضرت زبیر کی والدہ صفیہ ان کی سگی بہن تھیں۔وہ دوڑی دوڑی ان کے لاشہ کے پاس گئیں تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو حکم دیا،جاؤان کو منع کرو۔انھوں نے کہا، میرے بھائی کا راہ خدا میں مثلہ کیا گیا ہے،میں صبر سے کام لوں گی۔تب آپ نے انھیں میت کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔حضرت صفیہ نے سیدناحمزہ کو کفن دینے کے لیے دو کپڑے بھی دیے ۔ شہدائے احد کی تدفین کے وقت سب میتیں حضرت حمزہ کے جسد کے ساتھ رکھی گئی تھیں۔ ایک انصاری کی میت ان کے ساتھ پڑی ہوئی تھی جسے کفنانے کے لیے کوئی کپڑا نہ ملا۔تب سیدنا حمزہ کی چادروں میں سے ایک اسے لپٹا دی گئی۔ ابتدائی شکست کے بعد مسلمان پلٹ کر آئے اور انھوں نے دوبارہ حملہ کیا تو مشرکین نے راہ فرارپکڑی ۔اس موقع پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا ،کہیں یہ پلٹ نہ آجائیں۔آپ پکارے ، کون ان کفار کا پیچھا کرے گا؟ ۷۰ رضاکار سامنے نکلے،ان میں سیدنا ابوبکر اور زبیربن عوام بھی تھے۔ حضرت عائشہ نے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر سے کہا،قرآن مجید کی آیت ،’’الذین استجابواﷲ والرسول من بعد ما اصابہم القرح ط للذین احسنوا منہم و اتقوا اجر عظیم۔ وہ مومن جنھوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اﷲاور رسول کی پکار پر لبیک کہا،ان میں سے جو نیکوکار اور پرہیز گار ہیں ،ان کے لیے بڑا اجر ہے۔‘‘(اٰل عمران:۱۷۲)میں جن مومنوں کا ذکر ہے ،تمہارے والد سیدنازبیر اور نانا حضرت ابوبکر ان میں شامل تھے۔ (بخاری:۴۰۷۷، مسلم: ۶۲۰۱)یوم احد کو ایک ہی مشرک ابو عزہ جمحی مسلمانوں کی قید میں آیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت زبیر نے اس کا سر قلم کیا۔

۵ ھ میں جنگ خندق ہوئی۔اس موقع پر کافروں کی طرف سے نوفل بن عبداﷲ مخزومی نے دعوت مبارزت دی۔تب بھی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سیدنا زبیر ہی نکلے۔انھوں نے ایک ہی وار کر کے اس کے دو ٹکڑے کر دیے،اسی وقت ان کی تلوار میں دندانہ پڑا۔وہ یہ شعر پڑھتے ہوئے لوٹے۔

انی امرؤ احمی و احتمی عن النبی المصطفی

میں وہ دلیر ہوں جو نبئ مصطفی کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی حفاظت میں رہتا ہے

نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد وہاں کے قبائل سے معاہدے کیے کہ وہ بیرونی جارحیت کی صورت میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے لیکن غزوۂ خندق کے وقت بنوقریظہ کے یہودی معاہدہ توڑ کر مکہ کے مشرکین سے مل گئے۔ جابربن عبداﷲ فرماتے ہیں ،تب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کے حالات کا کھوج لگانے کے لیے طلیعہ ( قراول یا جاسوس) کا انتخاب کیا۔آپ نے اس کام کے لیے کسی کو خود آگے آنے کو کہا تو صرف سیدنا زبیرنکلے۔ آپ دوسری تیسری دفعہ پکارے تو بھی حضرت زبیر ہی سامنے آئے۔تب آپ نے فرمایا،ہر نبی کا ایک حواری( مخلص ساتھی) ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں۔ (بخاری: ۳۷۱۹،۷۲۶۱،مسلم:۶۱۹۳) عبداﷲ بن زبیر کی روایت کے الفاظ یوں ہیں، نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا ،کون مجھے اس قوم (بنوقریظہ) کے حالات پتا کر کے دے گا؟توحضرت زبیر نے کہا میں۔ عبداﷲجواس وقت کم سن تھے کہتے ہیں،میں قلعۂ حسان میں موجود امہات المومنینؓ اور دوسری عورتوں کے ساتھ تھا۔میں نے دو تین بار اپنے والد کو دیکھا کہ وہ مسلح حالت میں گھوڑے پر سوار ہو کر بنو قریظہ کی طرف آ جا رہے ہیں ۔حضرت زبیرواپس آئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے (خوش ہو کر)دعا دی، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ (بخاری: ۲۸۴۶، ۳۷۲۰، مسلم :۶۱۹۵)یہ ذکر کہ آپ نے انھیں ان الفاظ میں دعا دی، حضرت علی کے اس قول سے متصادم ہے، ’’میں نے نہیں دیکھا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص کے بعد کسی کو فدیہ کی دعا دی ہو۔میں نے آپ کو فرما تے سنا تھا،’’(سعد!)تیر اندازی جاری رکھو،میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔‘‘(بخاری :۲۹۰۵)ابن حجر کہتے ہیں، ہوسکتا ہے ، حضرت زبیر کاواقعہ حضرت علی کے علم ہی میں نہ ہو یا انھوں نے خاص طور پر جنگ احد (شوال ۳ ھ) کی بات کی ہو جو جنگ خندق (شوال ۵ ھ ) سے پہلے ہو چکی تھی۔

۷ ھ میں غزوۂ خیبرہوا۔اس میں پہلا دوبدو مقابلہ ایک یہودی مرحب اور محمدبن سلمہ میں ہوا۔مرحب کے جہنم واصل ہونے کے بعد اس کا بھائی یاسر نکلا تو اسے زبیر بن عوام نے انجام تک پہنچایا۔ زبیرکی والدہ صفیہ نے خدشہ ظاہر کیا،میرا بیٹا شہید ہو جائے گا تونبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارا بیٹا ہی اپنے دشمن کی جان لے گا۔خیبر کے بعد مسلمان یہودیوں کی ایک اوربستی وادئ قُری پہنچے۔ یہاں بھی حضرت زبیر نے مبارزت کرنے والے یہودی کو جہنم رسید کیا۔

۸ ھ میں فتح مکہ سے پہلے حاطب بن ابی بلتعہ نے ایک عورت (سارہ)کو خط دے کر مکہ بھیجا تاکہ قریش کو اسلامی لشکر کی تیاریوں کی اطلاع دے کر ان کی ہم دردیاں حاصل کر سکیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے خبر مل گئی۔آپ نے سیدنا علی، سیدنا زبیر اور مقداد(یا ابو مرثد )کو خط حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت عمر حاطب کی گردن اڑانا چاہتے تھے لیکن آپ نے بدری ہونے کی وجہ سے ان کا عذر قبول فرما لیا۔ (بخاری:۳۹۸۳،مسلم:۶۳۵۱)

فتح مکہ کے روز نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصار کا علم سعد بن عبادہ (بعد میں قیس بن سعد)کو اور مہاجرین کا زبیر بن عوام کے ہاتھ میں دیا۔آپ اس دستے کے ساتھ چل رہے تھے جس میں حضرت زبیر تھے۔ مکہ پہنچنے پر آپ نے انھیں حکم دیا کہ جھنڈے کو (مکہ کے پہاڑ )حجون میں گاڑ دیا جائے۔(بخاری:۴۲۸۰)پھر آپ نے سیدنا زبیر کو ایک دستے کا سربراہ بنا کرہراول کے طور پربھیجا،یہ شہر کے بائیں طرف واقع کدی کے مقام سے داخل ہوا۔ حضرت زبیر نے سرخ پگڑی باندھی ہوئی تھی ، نیزہ ان کے کندھے پر تھا۔ دوسرے دستوں کی کمان خالد بن ولید اور ابوعبیدہ بن جراح کے پاس تھی۔(مسلم:۴۵۹۸، السیرۃ النبویہ) حضرت زبیر کی اہلیہ اسما کاجب بھی حجون سے گزر ہوتا تو کہتیں،اﷲ ہمارے رسولﷺ پر درود وسلام بھیجے۔ (حجۃ الوداع کے موقع پر )ہم ان کے ساتھ اس مقام پر اترے تھے۔ تب ہمارے پاس بہت کم ساز وسامان تھا، میں ، میری بہن عائشہ ،زبیر اور فلاں فلاں نے عمرہ ادا کیا تھا۔ (بخاری:۱۷۹۶،مسلم :۲۹۹۴)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعدزبیربن عوام خلافت حضرت علی کو دینے کے حق میں تھے۔جب حضرت ابو بکر وسیدنا عمر اور دوسرے کبار صحابہ سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع تھے زبیر علی اور طلحہ کے ساتھ سیدہ فاطمہ کے گھر میں موجود تھے۔ تاہم جب اہل ایمان کا حضرت ابوبکرپر اتفاق ہو گیا تووہ بھی بیعت میں شامل ہو گئے۔ جب ارتداد کا طوفان اٹھا اور کچھ لوگوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکرنے مدینہ آنے والے راستوں پر پہرہ دار دستے مقرر کیے ۔ ان دستوں کے سرداروں میں زبیر بن عوام بھی تھے۔دوسرے سردارعلی،طلحہ،سعدبن ابی وقاص،عبدالرحمان بن عوف اور عبدا للہ بن مسعود تھے۔

۱۳ ھ میں حضرت عمر کے عہد خلافت کی ابتدا میں، شام کے علاقہ یرموک میں اسلامی اوررومی فوجوں میں سخت جنگ ہوئی جس میں ۷۰ ہزار رومی مارے گئے۔ زبیربن عوّام، ابوعبیدہ بن جراح کی قیادت میں شریک جنگ تھے۔ابن کثیر کہتے ہیں ،اس جنگ میں سب سے زیادہ صاحب فضیلت حضرت زبیرہی تھے۔کچھ اصحابہ رسولﷺنے زبیر سے کہا، چلو ہم مل کر کافروں پر حملہ کرتے ہیں۔انھوں نے کہا،اگر میں نے حملہ کیا اور تم نے ساتھ نہ دیا تو جھوٹے پڑ جاؤ گے۔سب نے کہا، ایسا نہیں ہو گا۔ حضرت زبیر نے ایسے زور کی یلغار کی کہ سب کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔جب وہ پلٹے تو رومیوں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور ان کے کندھوں پر تلوار کے دو وار کیے جن سے دو نئے گھاؤ آ گئے، جنگ بدر کے زخم کا نشان ان کے بیچ تھا۔ (بخاری:۳۹۷۵ )۱۸ھ میں حضرت عمر نے عمرو بن عاص کو مصر میں پیش قدمی کرنے کی اجازت دی۔فرما اور بلبیس کے شہر فتح کرنے کے بعد وہ بابلیوں پہنچے تو مدینہ سے ۸ ہزار سپاہیوں کی کمک آئی۔ زبیر بن عوام ، عبادہ بن صامت ،مقداد بن اسود اور مسلمہ بن مخلد جیسے صحابہ اس میں شامل تھے ۔ سیدنا عمرنے سیدنازبیر کو قائد جیش مقرر کرتے ہوئے سوال کیا تھا، کیا تم مصر کی گورنری لینا چاہتے ہو؟انھوں نے جواب دیا ،میں عمرو بن عاص کا ساتھ دوں گا۔چنانچہ مصر پہنچتے انھوں نے ہی عین شمس (Heliopolis) کے معرکے میں حصہ لیاپھر قلعۂ بابلیون کے محاصرہ میں شامل ہو گئے۔ حضرت زبیر ہی تھے جنھوں نے ربیع الاول ۲۰ھ میں قلعہ کی بیرونی خندق پھلانگ کر دیوار سے سیڑھی لگائی اور کچھ سپاہیوں کو لے کر اندر اتر گئے ۔ انھوں نے دروازہ کھولا تو ۷ ماہ سے جاری محاصرہ ختم ہوا اور قلعے پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ حضرت عمرو نے اہل مصر سے معاہدۂ امن کیا تو سیدنا زبیر نے گواہ کے طور پر دست خط کیے۔۲۱ھ میں جنگ نہاوند ہوئی۔ایرانی اپنے بڑے بڑے شہر اہواز،اصطخراور مدائن چھن جانے سے رنجیدہ تھے۔انھوں نے فیرزان کی قیادت میں دیڑھ لاکھ فوج اکٹھی کر لی تو حضرت عمر نے مقابلے کے لیے خود ایران جانے کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر عثمان، طلحہ،علی ،زبیر اور عبدالرحمان بن عوف نے مشورہ دیاکہ امیر المومنین کا خود قیادت کرنا مناسب نہ ہو گا چنانچہ نعمان بن مقرن کو اس مہم پر روانہ کیا گیا۔

جب خلیفۂ دوم حضرت عمر پر قاتلانہ حملہ ہو اور جان بر ہونے کی امید نہ رہی تو انھوں نے اصحاب عشرۂ مبشرہ میں سے ۶ افراد کی مجلس تشکیل دے کر ان میں سے ایک کو اپنا جانشین بنانے کی وصیت کی۔زبیربن عوام ان میں شامل تھے لیکن جب عبدالرحمان بن عوف نے انتخاب کو تین افراد پرموقوف کرنے کی تجویز پیش کی تو وہ حضرت علی کے حق میں دست بردار ہوگئے۔(بخاری:۳۷۰۰) ۳۱ھ میں حضرت عثمان کو دوسری بار نکسیر پھوٹی اور وہ حج پر نہ جا سکے۔ ایک قریشی صحابی ان کے پاس آئے اورمشورہ دیا کہ اپنا جانشین مقرر کر دیں۔ انھوں نے باقی مسلمانوں سے مشورہ کر کے ایک نام بھی تجویز کیا جس پر حضرت عثمان نے خاموش رضامندی ظاہر کی۔ایک روایت کے مطابق وہ تجویز کردہ زبیر بن عوام اور دوسری کے مطابق عبدالرحمان بن عوف تھے۔(بخاری:۳۷۱۷) بلوائیوں نے حضرت عثمان کو گھر میں محصور کر مدینہ میں شورش برپا کی توحضرت زبیر سورۂ انفال کی آیت:۲۵(واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین الذین ظلموا منکم خاصۃ ۔ اس فتنہ سے بچ کر رہو جوتم میں سے محض ظلم کرنے والوں تک محدود نہ رہے گا) تلاوت کرتے اور کہتے،میں یہ آیت ایک عرصہ تلاوت کرتا اور سوچتا رہا ،میں اس کا مصداق نہیں ہوں لیکن اب ہم پر اس کا اطلاق ہونے لگا ہے۔ اہل کوفہ زبیر کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے ،وہ ان کی حمایت حاصل کرنے آئے تو انھوں نے ڈانٹ کر واپس بھیج دیا۔ حضرت عثمان کا آخری جمعہ وہ تھا جب باغیوں نے مسجد نبوی میں سنگ باری کی، نمازی زخمی ہوگئے اور سیدناعثمان بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ حضرت زبیر نے اس موقع پرحضرت علی اور حضرت طلحہ کے ساتھ گھر جا کر ان کی عیادت کی۔انھوں نے اپنے بیٹے عبداﷲپر حضرت عثمان کے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری ڈال رکھی تھی۔ حضرت عثمان نے اپنی وصیت سیدنازبیرہی کو لکھوائی۔ حضرت زبیر ان چند صحابہ میں سے تھے جنھوں نے حضرت عثمان کے جنازے اور تدفین میں شرکت کی۔

خلیفۂ مظلوم کی شہادت کے بعدمدینہ ۵ دن(دوسری روایت:۲دن) تک ملعون غافقی بن حرب کی امارت میں رہا۔ حضرت علی خلافت قبول کرنے سے ہچکچاتے رہے۔انھیں سیدنا زبیر اورسیدنا طلحہ نے اس پر آمادہ کیا۔انھوں نے دلیل دی،امت امیر کے بغیر متحد نہیں رہ سکتی ۔چنانچہ سب سے پہلے حضرت طلحہ نے اپنے شل ہاتھ کے ساتھ ان کی بیعت کی پھر سیدنازبیر آگے بڑھے۔ کوفی منصب امارت پر بٹھانے کے لیے زبیر کو ڈھونڈتے رہے لیکن وہ ان کے ہاتھ نہ آئے۔خلیفہ بننے کے بعدزبیربن عوام،طلحہ اور کچھ اور صحابہ پھر حضرت علی کے پاس آئے اورحدود قائم کرنے اور حضرت عثمان کا قصاص لینے کا مطالبہ کیا۔ حضرت زبیر نے کوفہ کی اور طلحہ نے بصرہ کی گورنری کا تقاضا کیا۔ان کا کہنا تھا،وہ وہاں سے فوج اکٹھی کر لائیں گے جو مدینہ کو خوارج اور قاتلین سیدنا عثمان سے خالی کرائے گی ۔ ان کا مشورہ مقبول نہ ہوا تو وہ مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے گئے ۔پھر بصرہ پہنچے اور فوج کشی کی تیاریاں کرنے لگے،صرف حضرت زبیر نے ایک ہزار گھڑ سوار اکٹھے کر لیے۔ان کی کل فوج ۳۰ ہزار تھی۔ حضرت علی کو علم ہوا تووہ ۲۰ ہزار کا لشکر لے کر بصرہ روانہ ہوئے،ساتھ ہی قعقاع کو پیغام دے کر بھیجاکہ جنگ کا ارادہ چھوڑ کر صلح پر آمادہ ہوجائیں۔زبیر، طلحہ اور سیدہ عائشہ نے مثبت جواب دیا تاہم جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں، قاتلین عثمان نے منہ اندھیرے جنگ کی ابتدا کر دی۔

جنگ جمل میں زبیرؓ بن عوام نے حضرت عائشہؓ کا ساتھ دیا بلکہ زبیرؓ ہی نے عائشہؓ کو خروج پر آمادہ کیا۔وہ مسلمانوں کے باہمی تعلقات میں اصلاح چاہتے تھے ۔ان کے خیال میں ایسا تبھی ہو سکتا تھا اگر حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے قصاص لے لیا جاتا۔۳۶ھ کی ابتدا میں زبیرؓ سیدہ عائشہؓ اور طلحہؓ کے ساتھ بصرہ گئے تو حضرت علیؓ نے عمارؓ بن یاسرؓ اورحسنؓ کو کوفہ بھیجا۔عمارؓ نے عوام سے خطاب کیا اور کہا،سیدہ عائشہؓ (حمایت حاصل کرنے کے لیے )بصرہ پہنچی ہیں۔بخدا! وہ (ہمارے اور)تمہارے نبی ؐکی اہلیہ ہیں ،دنیا میں تھیں اور آخرت میں بھی ہوں گی۔لیکن اﷲ نے تم لوگوں کو آزمالیا ہے کہ تم اس کی بات مانتے ہو یا عائشہؓ کے پیچھے چلتے ہو۔ (بخاری:۷۱۰۰)ابن کثیر کہتے ہیں ،سیدہ عائشہؓ کی طرح زبیرؓ بن عوام کوبھی جنگ جمل میں حصہ لینے پر افسوس ہونے لگاتھا۔ان کے جنگ سے رجوع کرنے کی خبر حضرت علیؓ تک پہنچی تو انہوں نے کہا، اگر ابن صفیہؓ کو اپنا حق پر ہونا یقینی ہوتا تو ہر گز رجوع نہ کرتے۔دوسری روایت اس طرح ہے،جنگ جمل کے دوران میں حضرت علیؓ خچر پر سوار ہو کر آئے اورپکارے ،زبیرؓکو بلاؤ۔وہ آئے تو کہا،تمہیں وہ دن یادہے جب انصار کمے سقیفہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تم سے پوچھاتھا،زبیرؓ! تم علیؓ سے محبت کرتے ہو؟تم نے کہا،ہاں ،بھلا میں اپنے ماموں زاد، چچا زاد اور ہم مذہب سے محبت نہ کروں گا۔پھر آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا تو میں نے بھی ایسا ہی جواب دیا۔تب آپؐ نے ارشاد فرمایاتھا ،زبیرؓ! تم علیؓ سے قتال کرو گے حالانکہ تم ظالم ہو گے۔زبیرؓ نے کہا ،ہاں میں یہ بات بھول چکا تھا ۔پھر وہ اپنے گھوڑے( ذو الخمار) پر سوارپلٹے اور فوج کی صفیں چیرتے ہوئے میدان جنگ چھوڑ گئے ۔(مستدرک حاکم: ۵۵۷۳) انہوں نے حضرت عائشہؓ کوبھی اپنے رجوع سے مطلع کردیا۔حضرت علیؓفرمایا کرتے تھے ،مجھے امید ہے ،میں طلحہؓ اور زبیرؓ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن کے بارے میں اﷲ کاارشاد ہوا ،’’ونزعنا ما فی صدورہم من غل اخواناً علی سرر متقٰبلین ۔ان کے سینوں میں جو تھوڑی بہت کپٹ ہو گی ہم نکال دیں گے،یہ حال ہو گا کہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ (سورۂ حجر :۴۸)

۱۰جمادی اولیٰ ۳۶ ھ(۶۵۶ھ)، جمعرات کے دن زبیربن عوام نے مدینہ واپس جانے کا قصد کیا۔احنف نے کہا،اس شخص کو دیکھو!لوگوں کو اکٹھا کر کے آمنے سامنے کھڑا کیا اور اب گھر کو چل پڑاہے۔کون اس کی خبر لے گا؟ عمرو بن جرموزتمیمی ،فضالہ بن حابس اور نفیع(یا نفیل بن حابس) نے ان کا پیچھا شروع کیا ۔وہ بصرہ سے ۵ میل دور وادئ سباع کے مقام پر پہنچے تھے کہ عمرو نے انہیں اس وقت قتل کر دیا جب وہ سوئے ہوئے تھے(یا نمازپڑھ رہے تھے)۔ایک اور روایت کے مطابق وہ بیدار تھے۔ انھوں نے ڈٹ کر عمرو کا مقابلہ کیا تواس نے اپنے ساتھیوں فضالہ اور نفیع کو بلالیا جنہوں نے زبیرؓ کی جان لی۔ دوران جنگ میں طلحہؓ بھی ایک تیر کا شکار ہو کر شہید ہوئے۔ زبیرکی عمر ۶۷ برس تھی،انھیں ان کے مقتل ہی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔عمرو زبیرؓکا سر اور ان کی تلوار لے کر حضرت علیؓ کے پاس آیا۔ اس کا خیال تھا ، مجھے شاباشی ملے گی لیکن علیؓ نے اسے جہنم کی وعید سنائی۔ انھوں نے زبیرؓکی تلوار پہچان کر کہا، اس تلوار نے بہت دیر تک رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی پریشانیاں دور کیے رکھیں۔ زبیرؓ نے اپنے پیچھے بھاری ترکہ چھوڑاجس کی مالیت ۵۹ کروڑ ۸۰ لاکھ درہم بتائی جاتی ہے ۔ یہ مال فے ،غنائم اور تجارت سے حاصل کیا گیا تھا۔ ابن اثیر کہتے ہیں ، زبیرؓ کے پاس ۱یک ہزار غلام تھے جو ان کو خراج دیتے۔ اس میں سے وہ ایک پائی بھی نہ رکھتے اورکل رقم صدقہ کر دیتے۔۲۲لاکھ درہم لوگوں کے واجبات (دین) ادا کرنے کے بعد مال کا ایک تہائی اس وصیت کے مطابق صرف کیا گیاجو وہ عبداﷲؓ کو لکھوا چکے تھے۔ باقی مال وارثوں میں تقسیم کیا گیا تو ۴ بیواؤں میں سے ہر ایک کو ۱۲ لاکھ درہم ملے ۔عبد اﷲؓ بن زبیرؓ کے مطابق ان کے والد کے ترکہ میں نقد رقم نہ تھی بلکہ ان کے باغ اور مدینہ، کوفہ،بصرہ اور مصر میں موجود ان کے مکانات کو بیچ کر رقم حاصل کی گئی۔عبداﷲؓ ۴ سال تک ہر حج کے موقع پر زبیرؓ کے قرض خواہوں کا پتا کرتے رہے اورپھر اپنے بھائی بہنوں میں وراثت تقسیم کی۔

________________

B