HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: المائدہ ۵: ۱۰۱- ۱۰۵ (۲۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ، وَاِنْ تَسْئَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ، عَفَا اللّٰہُ عَنْھَا، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ{۱۰۱} قَدْ سَاَلَھَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ، ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِھَا کٰفِرِیْنَ{۱۰۲} مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّلَا سَآئِبَۃٍ وَّلَا وَصِیْلَۃٍ وَّلَاحَامٍ، وَّلٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَاَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ{۱۰۳} وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ: تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ، قَالُوْا: حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا، اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ{۱۰۴} یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ، اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا، فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ{۱۰۵}
۴۔ ایمان والو، ۲۱۵؎ ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تم پر گراں ہوں، اور ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے، تم اُنھیں پوچھو گے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی۔ (اِس وقت تو) یہ چیزیں اللہ نے معاف کر دی ہیں اور اللہ بخشنے والا ہے، وہ بڑا بردبار ہے۔ تم سے پہلے ایک قوم۲۱۶؎  نے اِسی طرح کی باتیں ۲۱۷؎  پوچھیں، پھر اُنھی کے منکر ہو کر رہ گئے تھے۔ (تمھارے سوال کا جواب یہ ہے کہ) اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے، نہ سائبہ، نہ وصیلہ، نہ حام، ۲۱۸؎  مگر یہ منکرین اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اِن میں زیادہ وہ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ اتارا ہے، اُس کی طرف آئو اور (اللہ کے) رسول کی طرف آئو تو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اُس صورت میں بھی جب کہ اُن کے باپ دادا کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ راہ ہدایت پر رہے ہوں؟ ایمان والو، تم اپنی فکر کرو، تم راہ ہدایت پر ہو تو کسی دوسرے کی گمراہی تمھارا کچھ نہیں بگاڑے گی۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔۲۱۹؎  ۱۰۱-۱۰۵

۲۱۵؎ یہ چوتھے سوال کا جواب ہے جس کی ابتدا ایک برسر موقع تنبیہ سے ہوئی ہے۔ فرمایا ہے کہ لوگ غیرضروری سوالوں سے اجتناب کریں۔ اِس تنبیہ کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوئی کہ اِس طرح کے سوالات حکم کے حدود و قیود بڑھا دیتے ہیں، پھر لوگ اُنھیں نباہ نہیں پاتے اور اِس کے نتیجے میں اللہ کے غضب کو دعوت دے بیٹھتے ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ جو حکم جس طرح دیا گیا ہے، اُس پر اُسی طرح عمل کیا جائے، ہر مجمل کی تفصیل اور ہر مطلق کی تعیین و تقیید سے اپنے لیے مشکلات نہ پیدا کی جائیں۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ خدا کی آخری شریعت قیامت تک کے لیے ہے، اِس میں فقہ و اجتہاد کی وسعتیں محدود نہیں ہو سکتیں۔ غیرضروری سوالوں سے اندیشہ ہے کہ یہ محدود ہو جائیں گی اور آنے والی نسلوں کے لیے مشکلات کا باعث ہوں گی۔

۲۱۶؎ یہ حوالہ بطور مثال ہے اور قوم سے مراد یہود ہیں۔ اُن کا ذکر نکرہ کے ساتھ کیا ہے جس سے فی الجملہ نفرت اور اعراض کا اظہار ہوتا ہے۔ اُن کے سوالوں کی ایک مثال گائے کا قصہ ہے جو سورۂ بقرہ(۲) کی آیات ۶۷-۷۱ میں بیان ہوا ہے۔

۲۱۷؎ اصل میں ’قَدْ سَاَلَھَا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ضمیر بیان نوعیت کے لیے ہے۔ قرآن کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں ضمیریں اِس طرح بھی آتی ہیں۔

۲۱۸؎ اِس جملے میں فعل ’جَعَلَ‘ استعمال ہوا ہے۔ ہم نے اِس کا ترجمہ ’مقرر کرنے‘ کے الفاظ سے کیا ہے۔ اِس سے مراد یہاں مشروع کرنا ہے، یعنی ’بحیرۃ‘، ’سائبۃ‘، ’وصیلۃ‘ اور ’حام‘ کے نام سے بعض جانوروں کے لیے جو ممنوعات مشرکین نے قائم کر رکھے ہیں، اُنھیں اللہ نے مشروع نہیں فرمایا ہے۔

بحیرۃ‘ اُس اونٹنی کو کہتے تھے جس سے پانچ بچے پیدا ہو چکے ہوتے اور اُن میں آخری نر ہوتا۔ اِس اونٹنی کے کان چیر کر اُسے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔

سائبۃ‘ اُس اونٹنی کو کہتے تھے جسے کسی منت کے پورا ہو جانے کے بعد آزاد چھوڑ دیتے تھے۔

وصیلۃ‘ بعض لوگ نذر مانتے تھے کہ بکری اگر نر جنے گی تو اُسے بتوں کے حضور پیش کریں گے اور اگر مادہ جنے گی تو اپنے پاس رکھیں گے۔ پھر اگر وہ نر و مادہ، دونوں ایک ساتھ جنتی تو اُس کو وصیلہ کہتے اور ایسے نر کو بتوں کی نذر نہیں کرتے تھے۔

حام‘ اُس سانڈ کو کہتے تھے جس کی صلب سے کئی پشتیں پیدا ہو چکی ہوتیں، اُسے بھی آزاد چھوڑ دیتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’یہ سب عرب جاہلیت کی نذریں اور منتیں تھیں۔ اِس قسم کے جانور آزاد چھوٹے پھرتے، جس گھاٹ سے چاہتے، پانی پیتے اور جس کی چراگاہ میں چاہتے، پھرتے۔ نہ اُن کو کوئی روک سکتا نہ چھیڑ سکتا۔ اُن کو مذہبی تقدس کا ایسا درجہ حاصل تھا کہ ہر شخص اُن کے چھیڑنے کے وبال سے لرزہ براندام رہتا۔ قرآن نے واضح فرما دیا کہ اُن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ شرعی حیثیت صرف ہدی اور قلائد کی ہے۔ یہ چیزیں صرف اوہام کی ایجاد ہیں جن کو شریعت کی طرف منسوب کرنا اللہ اور اُس کی شریعت پر صریح اتہام ہے۔ جو لوگ عقل سے عاری ہیں اُنھوں نے اِن احمقانہ چیزوں کو اللہ سے نسبت دے رکھی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۶۰۲)

۲۱۹؎ اوپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی تھی کہ رسول کی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری صرف حق پہنچا دینے کی ہے۔ یہ اُسی طرح اب مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ تمھاری ذمہ داری بھی اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ نہیں سنبھلتے تو اِس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے، بلکہ اِن کے مزاج کا فساد ہے جو حقائق کی تکذیب کا باعث بن رہا ہے۔ تم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی تو اِن کے بارے میں پھر تم سے کوئی پرسش نہیں ہونی ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B