HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

حب علی

قَالَ عَلِیٌّ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) وَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ إِنَّہُ لَعَھْدُ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیَّ أنْ لَّا یُحِبَّنِیْ اِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا یُبْغِضَنِیْ إِلَّا مُنَافِقٌ.
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس نے بیج کو پھاڑا اور روح کو تخلیق کیا کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے ساتھ عہد تھا کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور منافق ہی میری دشمنی کرے گا۔
لغوی مباحث

النَّسَمَۃَ‘: کا لفظ فرد انسان کے لیے بھی آتا ہے، روح کے لیے بھی آتا ہے اور نفس کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔یہاں روح یا نفس ہی کے معنی میں آیا ہے۔

اَلْعَہْدُ‘: عہد کا لفظ میثاق کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں محل خبر کا ہے۔ غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک یقینی نتیجے کی خبر دی تھی کہ تم سے دشمنی ایمان کی قیمت پر ہو گی اور تم سے محبت ایمان کی وجہ سے ہو گی۔

معنی

مضمون کے اعتبار سے دیکھیں تو اس روایت اور پچھلی روایت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس اصول پر انصار کی محبت کے دین وایمان سے تعلق کی وہاں وضاحت ہو جاتی ہے، اسی اصول پر یہاں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دینی خدمات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کا رشتہ، دونوں اپنی اپنی جگہ پر اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلی چیز تمام صحابہ میں مشترک ہے۔ وہ دین کو قبول کرنے کے بعد جس طرح دین کے ساتھ وابستگی کے معیارات پر پورے اترے، یہ انھی کا حصہ ہے۔ باقی امت ان کے اس مقام ومرتبے کی قدر شناس اور ان کی دینی خدمات اور دین کے فروغ وابلاغ میں بنیادی کردار رکھنے کی وجہ سے ان کی تہ دل سے احسان مند ہے۔ یہ اور صحابہ کی عظمت کے بعض دوسرے پہلو ہیں جو امت کے دل میں ان کے لیے عقیدت اور محبت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ یہ جذبات اس اعتبار سے دین اور ایمان ہی کا اظہار ہیں کہ یہ خود ہماری دین سے وابستگی کا فطری مظہر ہیں۔ اگر کوئی شخص دین سے وابستگی رکھتا ہو، لیکن اس کو اہل دین سے کوئی عقیدت نہ ہو، یہ بات ناقابل فہم ہے۔ ایسا صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ اس انسان نے ایک مشین کی صورت اختیار کر لی ہے اور وہ انسان ہونے کی بنیادی خصوصیت ہی سے عاری ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری حیثیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کی ہے۔ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے، وہ آپ کے قرابت مندوں سے بھی محبت اور عقیدت رکھتا ہے۔ چنانچہ پوری امت حضور کی ازواج اور آپ کے دامادوں حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے بھی پوری محبت اور عقیدت رکھتی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ اہل خاندان حضور سے محبت رکھتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت رکھتے تھے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی اسلام کے لیے غیر معمولی خدمات ہیں۔ جس نے ان حقائق کا ادراک کیا اور ان کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھی، یہ اس کے صدق ایمان اور اسلام کے ساتھ سچی وابستگی کا ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس کا رویہ اس کے مخالف ہے، بجا طور پر اس کی دین سے وابستگی محل نظر ٹھہرتی ہے۔

یہاں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں: ایک سوال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں جو سیاسی معاملات پیش آئے اور اس میں لوگوں نے ان سے اختلاف کیا، ان کی کیا حیثیت ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر امتیازی طور پر کیوں ہوا ہے؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہاں وہ دشمنی اور بغض زیر بحث ہے جس کا محرک دین کی دشمنی ہے۔ ظاہر ہے، جو شخص دین کا دشمن ہے، وہ اہل دین کا بھی دشمن ہے۔ اسی طرح جو شخص دین سے وابستہ ہے اور اس کی حمیت وحمایت پر کمر بستہ ہے، وہ اہل دین کے ساتھ بھی عقیدت اور محبت رکھتا ہے۔ باقی رہے صحابہ کے دیگر امور میں فیصلے اور اقدامات تو ان میں صحابہ کا باہم مختلف ہونا یہاں زیر بحث نہیں ہے۔ اسی طرح امت کے اکابر علما ان واقعات کے حوالے سے اپنے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرتے رہے ہیں، وہ بھی اپنا ایک محل رکھتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اس روایت میں موجود وعید کا ہدف نہیں ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خصوصی ذکر اور اس میں عہد کا لفظ اس روایت کو بعد کے مناقشات کے تناظر سے متعلق کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اسی قبیل سے ہے جس میں آپ نے مختلف مواقع پر مختلف صحابہ کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چونکہ بعد میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس وجہ سے یہ روایت اپنے اصل محل کے بجاے خصوصی سیاق وسباق سے متعلق دکھائی دینے لگتی ہے ۔ ہمارے نزدیک ، اس طرح کے بیانات کی وجہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کااظہار محبت ہے اور ہمارے لیے ان کی قدروقیمت یہ ہے کہ جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم محبت رکھتے تھے، ان کے ساتھ ہم بھی عقیدت رکھتے ہیں۔

صحابہ سے محبت وعقیدت ہر طرح کے غلو وتشدد سے پاک ہونی چاہیے۔ صحابہ کی دینی خدمات کا اعتراف، ان کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جان نثاریوں کا تذکرہ اور انھیں اپنے لیے دین دارانہ کردار میں لائق تقلید نمونہ سمجھنا مطلوب بھی اور محمود بھی ہے، لیکن ان کے ساتھ الوہی تصورات وابستہ کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ خاص طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اس حوالے سے بہت کچھ زیر بحث رہتی ہے۔ حضرت علی کے ساتھ عقیدت میں غلو نے بعض ایسی شکلیں اختیار کر لی ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہیں۔

متون

امام مسلم رحمہ اللہ نے اس روایت کا ایک ہی متن نقل کیا ہے۔ اس متن میں پہلے قسم ہے، اس کے بعد عہد کا بیان ہے اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور بغض کے دینی نتیجے کا تذکرہ ہے۔ عہد کا لفظ کم وبیش تمام متون میں مشترک ہے۔ قسم کا ذکر بعض متون میں ہے اور بعض متون میں نہیں ہے۔ مسلم کے متن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق بات متکلم کی ضمیروں کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ بعض متون میں یہی بات مخاطب کے صیغوں میں بیان ہوئی ہے۔

کتابیات

مسلم، رقم۷۸؛ ابن حبان، رقم۶۹۲۴؛ نسائی، رقم۵۰۱۸؛ ابن ماجہ، رقم۱۱۴؛ السنن الکبریٰ، رقم ۸۱۵۳، ۸۴۸۵، ۸۴۸۷، ۱۱۷۴۹، ۱۱۷۵۳؛ احمد، رقم۷۳۱، ۱۰۶۲؛ مسند ابو یعلیٰ، رقم۲۹۱؛ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۲۰۶۴؛ فضائل صحابہ، رقم۹۴۸۔

_______________

B