HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

اخلاقیات

صراط مستقیم کی مثال
۱۔ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْکِلَابِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّہَ ضَرَبَ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا عَلَی کَنَفَیْ الصِّرَاطِ زُورَانِ لَہُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَۃٌ عَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ وَدَاعٍ یَدْعُو عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ وَدَاعٍ یَدْعُو فَوْقَہُ (وَاللَّہُ یَدْعُوا إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَیَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ) وَالْأَبْوَابُ الَّتِی عَلَی کَنَفَیْ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّہِ فَلَا یَقَعُ أَحَدٌ فِی حُدُودِ اللَّہِ حَتَّی یُکْشَفَ السِّتْرُ وَالَّذِی یَدْعُو مِنْ فَوْقِہِ وَاعِظُ رَبِّہِ۔ (ترمذی، رقم۲۸۵۹)
’’نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال بیان کی ہے کہ وہ ایسا راستہ ہے جس کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں، جن میں جابجا دروازے کھلے ہوئے ہیں اور اُن پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک بلانے والا اس راستے کے سرے پر بلا رہا ہے اور دوسرا اس کے اوپر سے بلا رہا ہے۔ (اللہ دارالسلام (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے)۔ یہ دروازے جو صراط مستقیم کی دونوں اطراف پر ہیں، یہ اللہ کی حدود ہیں، کوئی شخص بھی ان حدود میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ پردہ نہ اٹھایا جائے اور وہ جو اس راستے کے اوپر سے بلا رہا ہے وہ اس کے رب کا ایک واعظ ہے۔‘‘
عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا وَعَلَی جَنْبَتَیْ الصِّرَاطِ سُورَانِ فِیہِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَۃٌ وَعَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاۃٌ وَعَلَی بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ یَقُولُ أَیُّہَا النَّاسُ ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِیعًا وَلَا تَتَفَرَّجُوا وَدَاعٍ یَدْعُو مِنْ جَوْفِ الصِّرَاطِ فَإِذَا أَرَادَ یَفْتَحُ شَیْءًا مِنْ تِلْکَ الْأَبْوَابِ قَالَ وَیْحَکَ لَا تَفْتَحْہُ فَإِنَّکَ إِنْ تَفْتَحْہُ تَلِجْہُ وَالصِّرَاطُ الْإِسْلَامُ وَالسُّورَانِ حُدُودُ اللَّہِ تَعَالَی وَالْأَبْوَابُ الْمُفَتَّحَۃُ مَحَارِمُ اللَّہِ تَعَالَی وَذَلِکَ الدَّاعِی عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ کِتَابُ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَالدَّاعِی فَوْقَ الصِّرَاطِ وَاعِظُ اللَّہِ فِی قَلْبِ کُلِّ مُسْلِمٍ۔ (مسند احمد، رقم ۱۷۱۸۲)
’’نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال بیان کی ہے کہ اس (راستے) کے دونوں طرف دو دیواریں کھنچی ہوئی ہیں، ان میں جابجا کھلے ہوئے دروازے ہیں، جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ راستے کے سرے پر ایک پکارنے والا پکار رہا ہے کہ اے لوگو سب اس راستے پر آجاؤ اور اس سے نہ ہٹو اور ایک پکارنے والا اس کے اندر سے پکار رہا ہے، چنانچہ جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی کا پردہ اٹھانا چاہتا ہے تو وہ پکار کرکہتاہے : خبردار ، پردہ نہ اٹھانا۔ اٹھاؤ گے تو اندر چلے جاؤ گے۔ (آپ نے فرمایا:) یہ راستہ اسلام ہے ، دیواریں اللہ کے حدود ہیں، دروازے اُس کی قائم کردہ حرمتیں ہیں، راستے کے سرے پر پکارنے والا منادی قرآن مجید ہے اور راستے کے اوپر سے پکار نے والا منادی خدا کا وہ واعظ ہے جو ہر بندۂ مومن کے دل میں موجود ہے‘‘۔
توضیح:

ان احادیث میں صراط مستقیم، اس کے ارد گرد موجود دنیوی ترغیبات، اِن ترغیبات کا انسان کیسے شکار ہوتا ہے، قرآن مجید کی دعوت کیا ہے اور ضمیر انسان کی زندگی میں کیا کردار ادا کرتا ہے، اس سب کچھ کو بہت عمدہ اور بڑی واضح تمثیل میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کو بڑی متوازن صورت میں آزمایش بنایا ہے۔ اس میں اگر ایک طرف نافرمانی کی ترغیبات موجود ہیں تو اُس کے مقابل میں اس سے روکنے کے لیے تنبیہات بھی موجود ہیں، چنانچہ یہاں اگر کوئی شخص جرم کرتا ہے تو وہ صرف اپنے فیصلے اور اپنے ارادے ہی سے کرتا ہے۔ وہ کسی دوسرے کو اپنی بد عملی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا۔

اعمالِ صالحہ کا دارو مدار
عَلْقَمَۃَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّیْثِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِءٍ مَا نَوَی فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی دُنْیَا یُصِیبُہَا أَوْ إِلَی امْرَأَۃٍ یَنْکِحُہَا فَہِجْرَتُہُ إِلَی مَا ہَاجَرَ إِلَیْہِ (بخاری، رقم۱)، (مسلم، رقم ۴۹۲۷)
’’علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اعمال کا دارو مدار تو بس نیتوں پر ہے۔ ہر آدمی کے لیے وہی کچھ ہو گا جس کی اُس نے نیت کی ہو گی۔ چنانچہ جس کی ہجرت دنیا کی کسی چیز کے لیے ہوئی جسے وہ پانا چاہتا تھا یا کسی عورت کی خاطر ہوئی جس سے وہ نکاح کرنا چاہتا تھا تو اُس کی ہجرت (خدا اور اُس کے رسول کے لیے نہیں ،بلکہ) اسی چیز کے لیے شمار ہو گی جس کی خاطر اُس نے ہجرت کی ہو گی۔‘‘
عَنْ أَبِی ہُرَیْرہ....سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ یُقْضَی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْہِ رَجُلٌ اسْتُشْہِدَ فَأُتِیَ بِہِ فَعَرَّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَہَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِیہَا قَالَ قَاتَلْتُ فِیکَ حَتَّی اسْتُشْہِدْتُ قَالَ کَذَبْتَ وَلَکِنَّکَ قَاتَلْتَ لِأَنْ یُقَالَ جَرِیءٌ فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ أُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْہِہِ حَتَّی أُلْقِیَ فِی النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَہُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِیَ بِہِ فَعَرَّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَہَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِیہَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُہُ وَقَرَأْتُ فِیکَ الْقُرْآنَ قَالَ کَذَبْتَ وَلَکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِیُقَالَ ہُوَ قَارِءٌ فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ أُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْہِہِ حَتَّی أُلْقِیَ فِی النَّارِ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّہُ عَلَیْہِ وَأَعْطَاہُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّہِ فَأُتِیَ بِہِ فَعَرَّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَہَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِیہَا قَالَ مَا تَرَکْتُ مِنْ سَبِیلٍ تُحِبُّ أَنْ یُنْفَقَ فِیہَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِیہَا لَکَ قَالَ کَذَبْتَ وَلَکِنَّکَ فَعَلْتَ لِیُقَالَ ہُوَ جَوَادٌ فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ أُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْہِہِ ثُمَّ أُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ (مسلم،رقم۱۹۰۵، رقم مسلسل۴۹۲۳)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن سب سے پہلے اُس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا جو دنیا میں شہید ہوا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ ان سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اِن نعمتوں کو پا کر کیا اعمال کیے۔وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ میں تیری راہ میں لڑا، یہاں تک کہ میں شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو جھوٹ بولتا ہے تو میری راہ میں نہیں، بلکہ اِس لیے لڑا تھا کہ تو بہادر کہلائے اور وہ تو کہلا چکا۔ پھر اُسے جہنم میں پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
دوسرا وہ شخص ہو گا جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن پڑھا (اور پڑھایا) تھا۔ اُسے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ اُن سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اِن نعمتوں کو پا کر کیا اعمال کیے۔وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیری خوشنودی کے لیے قرآن پڑھا (اور پڑھایا)۔ پروردگار کہے گا: تو جھوٹ کہتا ہے، تو نے میری خوشنودی کے لیے نہیں، بلکہ اس لیے علم سیکھا اور سکھایا تھا تا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور اس لیے قرآن پڑھا (اور پڑھایا) تاکہ یہ کہا جائے کہ فلاں شخص قاری (قرآن کا معلم) ہے، اور یہ تجھے کہا جا چکا۔ پھر اُسے جہنم میں پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
تیسرا وہ شخص ہو گا جسے اللہ نے کشادگی عطا فرمائی اور ہر طرح کا مال دیا تھا۔ اُسے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ اُن سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے اِن نعمتوں کو پا کر کیا اعمال کیے۔ وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ میں نے تیری رضا کی خاطر ہر اُس موقع پر انفاق کیا ہے، جہاں انفاق کرنا تجھے پسند تھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو جھوٹ کہتا ہے تو نے میری رضا کے لیے نہیں، بلکہ اِس لیے مال خرچاتھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں اور وہ تجھے کہا جا چکا۔ پھر اُسے بھی جہنم میں پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ بھی اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔
توضیح:

کسی عمل کے بارے میں جو دعویٰ کیا جا رہا ہے کیا وہ عمل اپنی حقیقت میں بھی ویسا ہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اگر ’ہاں‘ میں ہو تو اس عمل کو ہم خالص عمل قرار دیتے ہیں اور اگر اس کا جواب ’نہ‘ میں ہو تو پھر اس عمل کو ناخالص عمل قرار دیا جاتا ہے۔ ان احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کسی ناخالص عمل کو ہرگز قبول نہیں کرے گا، بلکہ ایسے لوگوں کو ان کے یہ اعمال جہنم کا مستحق بنا دیں گے۔

مشرکانہ تصاویر پر وعید
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الَّذِینَ یَصْنَعُونَ ہَذِہِ الصُّوَرَ یُعَذَّبُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُقَالُ لَہُمْ أَحْیُوا مَا خَلَقْتُمْ۔ (بخاری، رقم۵۹۵۱)
’’نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: یہ (مشرکانہ) تصویریں جو لوگ بناتے ہیں، اُنھیں قیامت میں عذاب دیا جائے گا، اُن سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے ، اُسے اب زندہ کرو۔‘‘
توضیح:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت تمام دنیا میں اور خاص کر عرب میں بت پرستی بہت عام تھی۔ لوگ اپنے معبودوں کے بت تراشتے، ان کی تصاویر اور مجسمے بناتے اور انھیں اپنی عبادت گاہوں اور گھروں میں رکھتے تا کہ وہ ان کی پوجا کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل دعوت ہی توحید کی دعوت تھی۔ چنانچہ آپ نے ان مشرکانہ علامات اور مظاہر پر سخت تنقید کی اور مشرکین کو یہ وعید سنائی کہ جو لوگ یہ مشرکانہ تصویریں بناتے ہیں، اُنھیں قیامت میں سخت عذاب دیا جائے گا اور اُن سے یہ کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے، اُسے اب زندہ کرو اور اُن سے مدد حاصل کرو، جیسا کہ تم سمجھتے تھے کہ یہ زندہ ہستیاں ہیں جو تمھیں نفع و نقصان دے سکتی ہیں۔

 ___________________

B