HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

ہم کو نہیں

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو قیامت تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رکھنے کااہتمام کیا ہے۔ یہ تحفظ قدیم الہامی کتابوں کو حاصل نہیں تھا۔اس لیے ان میں معنوی تحریفات اور لفظی تبدیلیوں کا دروازہ کھلا رہا۔تاہم اس کے باوجود ان کتابوں کے بہت سے مقامات پر دین کی اصل تعلیمات بعینیہٖ موجود ہیں۔بعض اوقات توان کے الفاظ بھی وہی ہیں جو قرآن کریم میں آئے ہیں۔مثلاًسورہ اعراف میں بت پرستی پر تنقید کرتے ہوئے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اسے ملاحظہ کیجیے۔

’’کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جوکسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد پر قادر ہیں۔ اگر تم انھیں سیدھی راہ پر آنے کی دعوت دو تو وہ تمھارے پیچھے نہ آئیں، تم خواہ انھیں پکارو یا خاموش رہو، دونوں صورتوں میں تمھارے لیے یکساں ہی رہے۔تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جن لوگوں کو پکارتے ہووہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ کر دیکھو، یہ تمھاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمھارے خیالات صحیح ہیں۔ کیا یہ پاؤں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں؟کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں؟کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سنیں؟‘‘،(اعراف:۷ :۱۹۵۔۱۹۱)

یہی مضمون زبور میں جن الفاظ میں بیان ہوا ہے ، اب اسے ملاحظہ کیجیے ۔

’’ان کے بت چاندی اور سونا ہیں یعنی آدمی کی دستکاری۔ ان کے منہ ہیں پر وہ بولتے نہیں۔آنکھیں ہیں پر وہ دیکھتے نہیں۔ان کے کان ہیں پر وہ سنتے نہیں۔ ناک ہے پر وہ سونگھتے نہیں۔ ان کے ہاتھ ہیں پر وہ چھوتے نہیں اور ان کے گلے سے آواز نہیں نکلتی۔ انکے بنانے والے ان ہی کی مانند ہوجائیں گے۔ بلکہ سب جوان پر بھروسا رکھتے ہیں۔‘‘،(زبور :۱۱۵:۸۔۴)

زبور کی جس حمد کا حوالہ ہم نے دیا ہے، اس کا آغاز بھی بڑا بے مثل ہے۔اس کا پہلا بند اس طرح ہے:

’’ہمکو نہیں! اے خداوند! ہم کو نہیں

بلکہ تو اپنے ہی نام کو

اپنی شفقت اورسچائی کی خاطر جلال بخش ۔‘‘،(زبور :۱۱۵۔۱))

زبور کے یہ الفاظ ایک مخلص داعی حق کے دل سے نکلنے والے سچے ترین الفاظ ہیں۔اس کے جذبات کی ترجمانی کے لیے اس سے زیادہ موزوں الفاظ ملنا مشکل ہے۔ بندہ مومن کی اصل دلچسپی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتی ہے۔ اللہ کی بڑائی، اس کی عظمت، اس کی کبریائی، اس حمد، اس کی تعریف، اس کا شکر، اس کی تسبیح اور اس ہی کی تقدیس کرنا اس کی زندگی کا مشن ہوتا ہے۔ وہ خدا کے دشمنوں کے خلاف لڑتا ہے۔ اس کے دین کی مدد کو اپنی زندگی کا مقصد بناتا ہے۔ شرک و الحاد کے اندھیروں میں شمع توحید جلاتا ہے۔بت پرستی اور دنیا کے دور میں خدا پرستی کا علم اٹھاتا ہے۔شیطان اور اس کے لشکروں کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے ۔

اس راہ میں وہ ہر مشقت جھیلتا اور ہر تکلیف اٹھاتا ہے۔ ہر ملامت سنتا اور ہر ایذا سہتا ہے۔ ہر دشمن حق سے مقابلہ کرتا اور ہر میدان میں لڑتا ہے۔ لیکن اس ساری سعی و جہد کا مقصود صرف ایک ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جس رب سے اسے سب سے زیادہ محبت ہے، اس کی کبریائی کا پرچم ہر چوٹی پر گاڑدیا جائے۔ جس خدا نے انسان کو سب کچھ دیا ہے، انسان اس خدا کا شکر گزار بن جائے۔ جس خد اکے ہاتھ میں دنیا و آخرت کا ہر نفع و ضرر ہے، لوگ اسی خدا کی عبادت کریں اور اسی کے سامنے دست سوال دراز کریں۔

داعی حق کی دلچسپی کبھی اس بات سے نہیں ہوتی ہے کہ اس کی ستائش ہو اور لوگوں سے اسے کوئی صلہ ملے۔اس کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ لوگ اسے اچھا کہیں یا لعنت و ملامت کا ہدف بنائیں۔ اپنی ذات کی سر بلندی ، اپنے مفادات کا حصول، اپنے اسلاف کی عظمت اوراپنی قوم کے لیے کوئی تعصب، یہ اس کے مسائل نہیں ہوتے۔ اپنا فرقہ، اپنا مسلک، اپنے اکابرین، اپنی جماعت کی قسم کے الفاظ اس کی لغت میں نہیں ہوتے۔ مقلدین اور مریدوں سے اپنی عظمت کے ترانے پڑھوانا، اپنے نام کے ساتھ درجن بھر القاب لگوانا، اپنے پیروکاروں پر اپنی عظمت اور بزرگی کا سکہ بٹھانا، اپنی کرامات اپنے علم اور اپنی ذہانت و خطابت کا ڈھنڈورا پٹوانا کبھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتا۔

وہ عارف باللہ ہوتا ہے۔ جانتا ہے کہ وہ صرف خاک ہے ؛وہ صرف راکھ ہے۔اسے خدا کی عطاؤں میں سے اگر کچھ ملتا ہے وہ اسے گدائے بے نوا کو ایک شہنشاہ کی طرف سے ملنے والی بھیک سمجھتا ہے۔ اسے کوئی مادی کامیابی مل بھی جائے تو وہ اسے اپنے رب علیم و حکیم کی آزمائش سمجھتا ہے۔کوئی خدمت اس سے لے لی جائے تو اسے اپنی سعادت سمجھتا ہے۔

یہی داعی حق ہوتا ہے اور صرف یہی داعی حق ہوتا ہے۔ ان احساسات سے ہٹ کر جو لوگ خد اکے نام پر کھڑے ہوتے ہیں وہ خدا کی نظر میں کسی مسخرے سے بڑھ کر نہیں ہوتے ۔ یہ مسخرے جلد یا بدیر اپنے انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ رہے سچے داعی حق تو ان کی صدا ایک ہی ہوتی ہے۔

ہمکو نہیں! اے خداوند! ہم کو نہیں

بلکہ تو اپنے ہی نام کو

اپنی شفقت اورسچائی کی خاطر جلال بخش

_____________

B