[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال:خدا جبکہ بہت مہربان ہے تو اس نے ان لوگوں کو پیدا ہی کیوں کیا جنھیں اس کے علم کے مطابق اپنی آزاد مرضی سے گناہ کر کے دوزخ میں جانا تھا؟(محمد عبدالعزیز)
جواب:اگر خدا اس شخص کو پیدا نہ کرے جو اس کے علم کے مطابق دوزخ میں جانے والا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس پر اپنے علم کو جبراً نافذ کر رہا ہے۔ خدا نے یہ جبر نہیں کیا؟ بلکہ ہر آدمی کو صحیح فطرت پر، یعنی نیکی کو پسند کرنے والا بنا کر پیدا کیا، جنت کو اس کے لیے انتہائی پسندیدہ چیز بنایا، دنیا کے اس امتحان میں کامیاب ہونے کی پوری صلاحیت اس کے اندر رکھ دی اور اب اسے اختیار و ارادہ کی آزادی دے دی کہ خواہ وہ نیک کام کرے اور جنت میں جائے یا بد کام کرے اور دوزخ میں جائے۔ بتائیے، اس میں کیا غلطی ہے؟ ہاں، اگر انسان اپنی فطرت ہی میں برا انسان بنایا گیا ہوتا اور خدا نے اس کے اندر دنیا کے اس امتحان میں کامیاب ہونے کی صلاحیت ہی نہ رکھی ہوتی تو پھر یقیناًخدا کا ایسے شخص کو دنیا کے امتحان میں ڈالنا ظلم تھا۔
اس کی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ جس لڑکے کے بارے میں والدین کا خیال ہو کہ اسے اگر پڑھنے کے لیے کالج میں بھیجا گیا تو محض اپنی کام چوری کی وجہ سے یہ امتحان میں ناکام ہو گا، کیا والدین کا اسے جبراً کالج نہ بھیجنا اور امتحان دینے کا موقع ہی نہ دینا درست ہو گا؟ میرا خیال ہے کہ اگر لڑکے کو اختیار و ارادہ کی آزادی دینی ہے اور محنت کر کے امتحان میں کامیاب ہونے کی صلاحیت اس کے پاس ہے، کامیابی اس کو انتہائی عزیز ہے تو پھر اس پر کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے، خواہ آپ کے اندازے جو کچھ بھی ہوں۔
البتہ اگر لڑکا کند ذہن ہے، اس کے پاس علم حاصل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور وہ کوئی علم و فن سیکھ ہی نہیں سکتا تو پھر اس کے بارے میں اپنے اس خیال پر عمل کرنا بالکل درست ہو گا کہ اسے کالج میں بھیجا ہی نہ جائے۔
درج ذیل سوالات کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
سوال:پہلا یہ کہ کیا کوئی نوجوان اپنی ہم عمر رشتہ دار لڑکیوں سے گفتگو اور گپ شپ کی حد تک تعلق رکھ سکتا ہے اور کیا وہ انھیں دیکھ بھی سکتا ہے؟
دوسرا یہ کہ کسی لڑکی سے محبت کرنا، اس کے بارے میں سوچنا، شاعری کرنا اور خیال ہی خیال میں اسے چاہتے رہنا ،کیا جائز ہے؟
تیسرا یہ کہ وہ نوجوان کم عمر رشتہ دار لڑکی جس کے بارے میں آدمی کا ذہن عشق و محبت کے جذبات سے خالی ہو، کیا اس سے گفتگو وغیرہ کرنا جائز ہے؟(عبدالعزیز)
جواب:آپ کے ان سوالوں کے جواب میں یہ گزارش ہے کہ دین کا مقصدتزکیہ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان پاکیزہ بنے۔ اس میں شرم و حیا بھی موجود ہو، خدا خوفی بھی ہو اور پاکیزہ نفسی بھی ہو۔
چنانچہ اصل بات یہ ہے کہ غیرمحرم افراد کا میل جول کسی معقول وجہ ہی سے اور کسی مقصد ہی کے لیے ہونا چاہیے، خواہ مخواہ اور محض گپ شپ کی خاطر یہ درست نہیں ہے۔ مرد اور عورت اپنی ساخت ہی کے اعتبار سے اس طرح کے بنائے گئے ہیں کہ انھیں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی رغبت پیدا ہو، لہٰذا خواہ مخواہ میل ملاقات کے مواقع پیدا کرنا اور گفتگو کرنا، کسی صورت میں بھی درست نہیں، لیکن اگر کسی واقعی ضرورت یا مجبوری کے تحت غیر محرم افراد کو باہم ملنا جلنا پڑے تو اس کی اجازت ہے، لیکن اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ غض بصر اور حفظ فروج کے ان آداب کو ملحوظ رکھا جائے جو اسلام نے بتائے ہیں۔
غامدی صاحب نے اپنی کتاب’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون معاشرت‘‘ میں ان آداب کو تفصیل سے بیان کیاہے۔ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
’’اسلام نے اختلاط مرد و زن کے درج ذیل آداب سکھائے ہیں:
۱۔ ایک دوسرے کے گھروں میں جانے کی ضرورت پیش آ جائے تو بے دھڑک اور بے پوچھے اندر داخل ہونا جائز نہیں ہے ۔ پہلے اجازت مانگنی چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اجازت عین گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور اندر جھانکتے ہوئے نہیں مانگنی چاہیے ، اس لیے کہ اجازت مانگنے کا حکم تو دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ گھر والوں پر نگاہ نہ پڑے ۔
۲۔ عورتیں اور مرد ایک دوسرے سے اپنی نظریں بچا کر رکھیں ۔ نگاہوں میں حیا ہو اور مردو عورت ایک دوسرے کے حسن و جمال سے آنکھیں سینکنے ، خط و خال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں۔ نہ وہ باہم نگاہ بھر کر دیکھیں اور نہ اپنی نگاہوں کو ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے بالکل آزاد چھوڑ دیں۔ اس طرح کا پہرا اگر نگاہوں پر نہ بٹھایا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں یہ آنکھوں کا زنا ہے اور یہی وہ نگاہ ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ اسے فوراً پھیر لینا چاہیے۔
جریربن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور سے پوچھا : اس طرح کی نگاہ اچانک پڑ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا : فوراً نگاہ پھیر لو یا نیچی کر لو۔
۳۔ باہمی میل جول کے موقعوں پر شرم گاہوں کی حفاظت کی جائے۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ تعبیر ناجائز شہوت رانی سے پرہیز کے لیے اختیار کی گئی ہے، لیکن اس سے متعلق سورۂ نور کی آیات میں قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد عورتوں اور مردوں کا اپنے صنفی اعضا کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھنا ہے ۔ مدعا یہ ہے کہ مردو زن ایک جگہ موجود ہوں تو چھپانے کی جگہوں کو اور بھی زیادہ اہتمام کے ساتھ چھپانا چاہیے ۔ اس میں ظاہر ہے کہ بڑا دخل اس چیز کو ہے کہ لباس باقرینہ ہو۔ عورتیں او رمرد ،دونوں ایسا لباس پہنیں جو زینت کے ساتھ صنفی اعضا کو بھی پوری طرح چھپانے والا ہو ۔ پھر ملاقات کے موقع پر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی شخص برہنہ نہ ہونے پائے۔ شرم گاہوں کی حفاظت سے یہاں قرآن کا مقصود یہی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی معاشرت میں غض بصر کے ساتھ یہ چیز بھی پوری طرح ملحوظ رکھی جائے ۔
۴۔ عورتوں کے لیے ، بالخصوص ضروری ہے کہ وہ زیب و زینت کی کوئی چیز اپنے قریبی اعزہ اور متعلقین کے سوا کسی شخص کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں ۔ یہاں تک کہ مردوں کی موجودگی میں اپنے پاؤں زمین پر مار کر چلنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر نہ ہو جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پرعورتوں کے تیز خوشبو لگا کر باہر نکلنے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔‘‘(میزان۴۶۴۔۴۶۵)
تفصیل کے لیے آپ غامدی صاحب کی کتاب’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون معاشرت ‘‘ میں اس سے متعلقبحث ’’مرد و زن کا اختلاط‘‘ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اب ہم دوبارہ آپ کے سوالوں کی طرف آتے ہیں۔
آپ کے سوالات کسی واقعی ضرورت یا مجبوری سے متعلق نہیں ہیں، بلکہ میرا خیال ہے کہ آپ یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ (cousins) لڑکے لڑکی کے لیے اسلام میں کتنی آزادی ہے اور کتنی نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ بغیر کسی حقیقی مقصد اور حقیقی ضرورت کے کوئی آزادی نہیں ہے، مثلاً وہ کلاس فیلو ہیں اور انھیں ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے تو خالص اسی مدد کی نیت سے اور اسی کی حد تک وہ آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں، گو اسلام پسند یہی کرے گا کہ اس کا کوئی اور بہتر حل نکالا جائے۔
جہاں تک دیکھنے کا تعلق ہے تو اس کی بھی کوئی ضرورت ہونی چاہیے ورنہ محض اس وجہ سے دیکھنا کہ وہ ایک لڑکی ہے، یہ جائز نہیں ہے۔
انسان کو جس سے محبت ہو جائے، اس کے بارے میں وہ اضطراراً سوچتا رہتا ہے، اگر وہ شاعر ہے تو شاعری بھی کرے گا، یہ چیزیں ناجائز نہیں ہیں، جب تک کہ ان میں برائی اور گناہ کی سوچ شامل نہ ہو۔ ویسے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس مصیبت سے نکالے، کیونکہ یہ اس کے کردار کے لیے برے اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔عشق سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اسی یا کسی بھی لڑکی سے شادی کر لے اور اس کے بعد خدا پر توکل کرتے ہوئے حقیقت شناسی کا راستہ اختیار کرے۔
آپ کے آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ جس لڑکی کے بارے میں آدمی کا ذہن عشق و محبت کے جذبات سے خالی ہو ، اس کے بارے میں بھی صحیح رویہ یہی ہے کہ آدمی ضرورت کی حد تک ہی اس سے گفتگو کرے اور اس کے لیے اپنے اچھے سے اچھے جذبات کا بھی کسی بہتر ذریعے ہی سے اظہار کرے۔
سوال: عقیقہ فرض ہے یا سنت ہے؟ اور کیا بچے کی پیدایش کے بعد کچھ متعین دنوں کے اندر اندر ہی عقیقہ کرنا ضروری ہے؟(اے ایم طارق)
جواب:عقیقے کی قربانی نفلی قربانی ہے۔ غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق یہ ان سنن میں سے نہیں ہے جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور شریعت اس امت میں جاری کیا ہے۔
البتہ بچوں کی پیدائش پر نبیﷺ نے خود بھی قربانی کی ہے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دی ہے،چنانچہ یہ آپ کا اسوہ ہے۔
اکثر علما کی راے کے مطابق عقیقے کا دن نومولود کا ساتواں دن ہے، لیکن یہ بات بھی لازم نہیں ہے۔
سوال: کافر اور غیر مسلم میں کیا فرق ہے؟(عبدالعزیز)
جواب:کافر سے مراد وہ شخص ہے جو جان بوجھ کر حق کا انکار کرتا ہے، یعنی جس کے سامنے اسلام پیش کیا گیا یا اس نے خود اسے پڑھا اور قرآن وغیرہ کا مطالعہ کیا اور اسے اس بات کی سمجھ آ گئی کہ یہ حق ہے اور اسے قبول کرنا اس کے لیے ضروری ہے، لیکن اس نے جان بوجھ کر اس حق کو جھٹلا دیا اور اسے نہیں مانا تو یہ شخص خدا کے نزدیک کافر شمار ہو گا، لیکن ہم چونکہ اس کے دل میں جھانک کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ اس نے جان بوجھ کر جھٹلایا ہے یا وہ معذور تھا، اس لیے ہم اسے کافر نہیں کہہ سکتے۔ جبکہ غیر مسلم سے وہ شخص مراد ہے جو مسلمان نہیں ہے۔ اس نے جان بوجھ کر کسی حق کا انکار کیا ہے یا نہیں،یہ ہم نہیں جانتے ۔چنانچہ قیامت کے دن خدا اس کا فیصلہ کر ے گا۔
سوال: بعض اسلامی بینکوں کی متعارف کرد ہ اجارہ اسکیم کے تحت لیز پر کار لینا صحیح ہے یا نہیں؟ (عفان صادق)
جواب: غامدی صاحب کے نزدیک سود پر قرض لینا ممنوع نہیں ہے، ان کے نزدیک سود دینا حرام نہیں ہے، البتہ سود لینا صریحا حرام ہے۔بنک کی عام اسکیم کے تحت کار کے لیے قرض لے لیں یا اجارہ اسکیم کے تحت لیز پر کار لے لیں، غامدی صاحب کے نزدیک دونوں کی اجازت ہے۔
اجارہ اسکیم کے حوالے سے اصولی بات یہ ہے کہ یہ اسکیم سود سے پاک ہے، بشرطیکہ بنک واقعۃً کرایے اور ملکیت کو الگ الگ واضح کرکے اسے اختیار کرے۔
تاہم یہ معلوم کرنا کہ فلاں بنک کی اجارہ اسکیم سود سے بالکل پاک ہے یا نہیں؟ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ بنک کی اس اسکیم کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے۔
سوال: نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ نماز میں رفع یدین کرنا ضروری ہے یا اس کی صرف اجازت ہے، یعنی جو کرنا چاہے ،وہ کر سکتا ہے؟(تنزیل نیازی)
جواب:نماز پڑھنے کا وہی طریقہ ہے جو مسلمانوں کی مساجد میں رائج ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
جہاں تک رفع یدین کا تعلق ہے جس پر مسلک اہل حدیث کے افراد بہت زور دیتے ہیں تو بے شک وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن وہ نماز کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ آدمی اسے اختیار کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے آپ غامدی صاحب کی تصنیف ’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون عبادات‘‘ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
سوال: کیا اسلام میں فیملی پلاننگ کی اجازت ہے؟ اور کیا فیملی پلاننگ کے محکمے میں ملازمت کرنا جائز ہے؟(تنزیل نیازی)
جواب:اسلام کو فیملی پلاننگ پر کوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ کسی غلط عقیدے یا کسی غلط تصور کی بنا پر ایسا کیا جائے۔کسی بھی معقول مقصد کے لیے فیملی پلاننگ کی جا سکتی ہے۔ استقرار حمل سے پہلے پہلے فیملی پلاننگ کے لیے جو طریقہ آپ کو اپنانا ہو، وہ اپنا سکتے ہیں۔فیملی پلاننگ کے ادارے میں ملازمت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، الاّ یہ کہ اس ادارے میں فیملی پلاننگ کے طریقے، اصول اور اس کے مقاصد دینی تعلیم سے متصادم ہوں، اگر ایسا ہو تو پھر ملازمت کرنا درست نہیں ہو گا۔
سوال:کیا مسجدوں میں نماز، نمازیوں کی اپنی زبان میں پڑھائی جا سکتی ہے؟(دانش جمال)
جواب:نہیں، یہ درست نہیں ہے، کیونکہ نماز میں سورۂ فاتحہ اور قرآن مجید کے کچھ حصے کی تلاوت کا حکم ہے۔ یہ دونوں عربی زبان میں ہیں، لہٰذا یہ چیزیں تو عربی ہی میں پڑھنی ہوں گی، کیونکہ ترجمۂ قرآن، قرآن نہیں ہوتا۔
البتہ وہ اذکار اور دعائیں جو امام اور مقتدی اپنے اپنے طور پر پڑھتے ہیں، وہ استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کی راے کے مطابق اپنی زبان میں پڑھی جا سکتی ہیں۔
سوال:ایک عالم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ اپنے وجود کے ساتھ موجود نہیں، بلکہ اس کا علم ہر جگہ کا احاطہ کیے ہوئے ہے، کیا یہ بات درست ہے؟(وجاہت علی خان)
جواب: ارشاد باری ہے:
وَللّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا.(النسا۴: ۱۲۶)
’’اور اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘
خدا کا یہ احاطہ کرنا کسی بڑے مادی وجودکے چھوٹے مادی وجود کا احاطہ کرنے کی مثل نہیں ہے، بلکہ اس کا یہ احاطہ کرنا اس کے علم و قدرت کے اعتبار سے ہے اور یہی بات اس کی شان کے مطابق ہے۔
اسی طرح خدا کا موجود ہونا بھی اشیا کے موجود ہونے کی طرح نہیں ہوتا، چنانچہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جیسے کوئی مادی وجود کسی ایک جگہ پر موجود ہوتا ہے، اسی طرح خدا (کسی ایک جگہ پر نہیں،بلکہ وہ) ہر جگہ موجود ہے۔
نہیں، یہ بات صحیح نہیں ہے، خدا اپنے علم اور اپنی قدرت ہی کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔اور اس کی حقیقت کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔
سوال:کیا یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سورۂ فلق اور سورۂ ناس کو قرآن مجید کا حصہ نہیں سمجھتے تھے؟(وجاہت علی خان)
جواب: ایک روایت میں یہ بات ہمیں اسی طرح ملتی ہے، لیکن امت نے متفقہ طور پر اس روایت کو قرآن مجید کے حوالے سے کوئی اہمیت نہیں دی۔ اگر اس بات کو اہمیت دی گئی ہوتی تو ہم اس امت میں ایسا قرآن مجید پاتے جس میں یہ دونوں سورتیں موجود نہ ہوتیں، لیکن الحمد للہ اس طرح کا کوئی قرآن اس امت میں رائج نہیں ہے۔
سوال:ہمارے ہاں بعض مذہبی گروہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں انتہائی مبالغہ کرتے ہیں، آپ براہ مہربانی اس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بیان فرمائیں۔ (شیخ طیب معاویہ)
جواب: ارشاد باری ہے:
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لاَ تَغْلُوْا فِی دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ.(المائدہ ۵: ۷۷)
’’کہہ دو، اے اہل کتاب ،اپنے دین میں بے جا غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی بدعات کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے گمراہ ہوئے اور جنھوں نے بہتوں کو گمراہ کیا اور جو راہ راست سے بھٹک گئے۔‘‘
نیز ارشاد باری ہے :
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنَّ الَّذِینَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ.(ص۳۸: ۲۶)
’’اے داؤد ،ہم نے زمین میں تجھے اقتدار دیا ہے، پس تو لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ کرنا اور اپنی خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمھیں اللہ کی راہ سے ہٹا دے، بے شک جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس وجہ سے کہ انھوں نے روز حساب کو بھلائے رکھا۔‘‘
ان دونوں آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین جیسی حق بات میں بھی اگر آدمی غلو کو اختیار کرے تو وہ راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ دین میں غلو کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان دین میں اللہ کے بتائے ہوئے اعتدال اور توازن کو بگاڑ دے، مثلاً خدا نے کسی چیز کو جو مقام دیا ہو، انسان اس چیز کو اس سے بڑے مقام پر کھڑا کر دے، جیسا کہ عیسائیوں نے اللہ کے بندے اور اس کے رسول عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنا دیا یا یہودنے اپنے علما کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا یا عیسائیوں نے رہبانیت کو دین کی اعلیٰ صورت قرار دے دیا، وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں انسان انتہائی خلاف حق بات کہتا اور سخت گمراہ ہو جاتا ہے۔ اس غلو کی وجہ یقیناًیہی ہوتی کہ انسان حق کے بجاے اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے۔ چنانچہ وہ حق سے بہت دور نکل جاتا ہے۔
سورۂ ص میں بیان کردہ یہ بات بھی بالکل صحیح ہے کہ انسان خواہش نفس کی پیروی تبھی کرتا ہے جب وہ اپنے روز حساب کو بھلا دیتا ہے، کیونکہ اس کے بعد پھر حق اس کا مسئلہ نہیں رہتا۔
یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں بعض گروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں انتہائی مبالغے سے کام لیتے ہیں، ان کا یہ رویہ سراسر غلط ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں اللہ کا قائم کردہ توازن اور اعتدال بالکل بگڑ جاتا ہے۔
کسی بھی حقیقت کو مبالغے سے بیان کرنا، لوگوں میں بہت سی غلط فہمیوں کا باعث بنتا اور ان کے دین کو یکسر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ کوئی معمولی جرم ہے،بلکہ یہ بڑا سنگین جرم ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ اس کی پرسش بھی بہت سخت ہو گی، جیسا کہ سورۂ مائدہ کی درج ذیل آیات سے واضح ہے:
’’وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِی وَاُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِی وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ. مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلاَّ مَآ اَمَرْتَنِی بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ. اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمْ.(۵: ۱۱۶۔۱۱۹)
’’اور یاد کرو، جبکہ اللہ پوچھے گا: اے عیسیٰ ابن مریم، کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بناؤ۔ وہ جواب دے گا: تو پاک ہے، میرے لیے کیسے روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہے تو تو اسے جانتا ہے۔ تو جانتا ہے جو کچھ میرے جی میں ہے، پر میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے۔ غیب کی باتوں کو جاننے والا تو بس تو ہی ہے۔میں نے تو ان سے وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی۔ اور میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران رہا اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے ہی۔ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے۔اللہ فرمائے گا آج کے دن سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بڑے صریح اور واشگاف الفاظ میں ایک جلیل القدر پیغمبر سے یہ سوال کیا ہے کہ اس کی قوم نے اس کے اور اس کی ماں کے بارے میں جو غلو اختیار کیا تھا، کیا خود اس نے انھیں اس کا حکم دیا تھا۔ معلوم ہوا کہ غلو کے اس جرم میں اگر (نعوذ باللہ) اللہ کا پیغمبر بھی شامل ہوتا تو وہ بھی خدا کے سخت عتاب سے ہرگز نہ بچ سکتا۔
چنانچہ یہ بڑی سنگین بات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان کے بارے میں وہ بات کہے جو خود اللہ اور اس کے رسول نے نہیں کہی، لہٰذا جو لوگ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے دین میں اس طرح کا غلو اختیار کریں گے وہ اللہ کی پرسش سے ہرگز نہ بچ سکیں گے۔
البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی کی تعریف کا وہ شوخ انداز یا وہ ادبی اسلوب دین میں ممنوع نہیں ہے جس سے کوئی دینی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
__________________