[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔}
عبدالرحمانؓ بن عوف عام فیل کے ۱۰ سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ جاہلیت میں عبدالکعبہ(یا عبدعمرو) کے نام سے جانے جاتے تھے۔ان کے دادا کا نام عبد عوف تھا، عبد الحارث بن زہرہ پرادا تھے اور ان کے والد کا نام کلاب بن مُرّہ تھا(مزی، ذہبی اور ابن عبدالبر نے عبد کو پردادا اور حارث کو ان کا والد بتایا ہے)۔ عبدالرحمانؓ کی والدہ کا نام شفا بنت عوف بن عبدالحارث تھا۔یہ ان کے والد کی چچا زاد تھیں۔عبدالرحمانؓ کے نانا عوف بن عبدالحارث ان کے والد عوف بن عبد عوف کے چچا تھے۔ (ایک روایت کے مطابق صفیہ بنت عبد مناف ان کی والدہ تھیں)۔چھٹی پشت کلاب پر عبدالرحمانؓ کا سلسلۂ نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ددھیال سے مل جاتا ہے،اس طرح وہ آپﷺ کے چچازادبھائی ہوئے ۔ ایک رشتے سے وہ آپ ﷺکے ہم زلف تھے۔ عبدالرحمانؓ کا قبیلہ زہرہ بن کلاب کی نسبت سے بنو زہرہ کہلاتا تھا۔ بنو زہرہ قریش کے خاندانوں میں زیادہ ممتاز نہ تھے ۔ مناصب حرم میں سے کوئی منصب ان کے پاس نہ تھا۔ عبدالرحمانؓ کے والد عوف تاجر تھے۔ ایک بار عبدالرحمانؓ،ان کے والد عوف ، عثمانؓ ، ان کے والد عفان اور فاکہ بن مغیرہ(خالدؓ بن ولید کے چچا) تجارت کی غرض سے یمن گئے ۔ راستے میں اہل بنو جذیمہ نے عوف اور فاکہ کو قتل کر دیا۔ عثمانؓ، عفان اورعبدالرحمانؓ بچ گئے ۔ عبدالرحمانؓ نے اپنے والد کے قاتل خالد بن ہشام کو وہیں ختم کر دیا۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نبوت سے سرفراز ہوئے تو عبدالرحمانؓ کی عمر ۳۰ برس کے لگ بھگ تھی۔ اپنی فطری پاکیزہ روی کی وجہ سے شراب جاہلیت ہی میں چھوڑچکے تھے۔ پہلے مرد مومن سیدنا ابوبکرؓ نے مشرف بہ اسلام ہونے کے دوہی دن بعدعبدالرحمانؓ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انھوں نے فوراً لبیک کہا۔ اسلا م کی طرف سبقت کرنے میں ان کا ۸واں نمبر تھا۔ ابھی نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دارارقم میں منتقل ہو کر تبلیغ دین کا کام شروع نہ کیا تھا۔آپﷺنے ان کا مشرکانہ نام تبدیل کر کے عبدالرحمانؓ تجویز فرمایا۔ان کے بھائیوں میں سے عبداﷲ ،اسود اور حمنن کے نام معلوم ہیں۔عبداﷲ اور اسود فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے۔
مشرکین مکہ نے دین حق کی طرف لپکنے والوں کو ایذائیں پہنچانا شروع کیں تو۵نبوی(۶۱۵ء )میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم فرمایا، تم حبشہ کی سرزمین کو نکل جاؤ ، وہاں ایسا بادشاہ ہے جس کی حکومت میں ظلم نہیں ہوتا۔ ماہ رجب میں ۱۵افرادپر مشتمل پہلا قافلہ تعمیل ارشاد میں حبشہ کو روانہ ہوا۔تب عبدالرحمانؓ کی دو بیویاں تھیں،وہ بھی اپنے بال بچوں کو مکہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔شوال۵ نبوی میں ان مہاجرین اسلام نے مکہ واپسی کا قصد کیا۔ انھیں خبر ملی تھی کہ تمام اہل مکہ ایمان لے آئے ہیں۔ مکہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کومعلوم ہو گیا کہ یہ اطلاع غلط تھی تو عبداﷲؓ بن مسعود کونبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے مکہ بھیجا گیا۔آپﷺ نے مکہ آنے سے منع فرما دیاکیونکہ قریش کی ایذا رسانیاں جاری تھیں چنانچہ یہ پھرحبشہ لوٹ گئے ۔اب کچھ اور مہاجرین بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔یہ لوگ حبشہ میں کئی سال مقیم رہے ،ان میں سے کچھ مسلمانوں کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد براہ راست دار ہجرت ہی آئے۔ عبدالرحمانؓ بن عوف ان لوگوں میں سے تھے جو مکہ لوٹے اور پھرمدینہ کو ہجرت کی۔گمان غالب ہے کہ وہ۱۳ نبوی میں مدینہ جانے والے تیسرے قافلے میں شامل تھے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین میں مواخات قائم فرمائی تو بنو خزرج کی شاخ بنو حارث سے تعلق رکھنے والے سعدؓ بن ربیع کو ان کا انصاری بھائی قرار دیا۔ سعدؓ نے کہا، بھائی! میں مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار آدمی ہوں۔میرے ۲ باغ اور۲ بیویاں ہیں۔جو باغ تمہیں اچھا لگتا ہے ، تمہارے لیے چھوڑ دیتا ہوں اور جوبیوی تم کو پسند آتی ہے ،میں اسے طلاق دے کر تمھیں سونپ دیتا ہوں۔ابن عوفؓ نے جواب دیا،اﷲ تمہارے اہل و عیال اور مال و دولت میں خوب برکت دے ۔مجھے بتا دو ،یہاں قریبی بازار کون سا ہے؟سعدؓ نے کہا،بازار قینقاع۔صبح سویرے عبدالرحمانؓ نے بازارکارخ کیا۔ کچھ سامان تجارت پاس تھا جسے فروخت کر کے انھوں نے معقول منافع کمایا اور شام کوگھی اور پنیر لے کر گھر لوٹے۔ اسی طرح تجارت کرتے کچھ دیر گزری تھی کہ ان کا شمار مدینہ کے متمول افراد میں ہونے لگا، اس قدر غلہ اور سامان تجارت ہو گیا کہ اسے ڈھونے کے لیے کئی سو اونٹوں کی ضرورت پڑتی۔ اپنی اس وقت کی خوش بختی کا بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا، میں کوئی پتھر بھی اٹھاتا تو توقع ہوتی کہ اس کے نیچے سے سونا چاندی ملے گا۔ مدینہ آنے کے بعد انھوں نے امیہ بن خلف سے تجارتی معاہدہ بھی کیا۔ ایک دن خدمت نبوی میں حاضر ہوئے تو ان کے کپڑوں پر زعفران کا داغ لگا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا،خیر تو ہے؟یا رسول اللہ میں نے شادی کر لی ہے ، انھوں نے بتایا۔آپﷺ نے پوچھا، بیوی کو مہر میں کیا دیا ہے؟ کھجور کی ایک گٹھلی کے ہم وزن سونا،عبدالرحمانؓ نے جواب دیا۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا،ولیمہ ضرور کرنا ،چاہے ایک بکری ہی ذبح کر لینا۔ ابن ابی لیلیٰ کی روایت ہے ،عبدالرحمانؓ بن عوف نے ۳۰ ہزار درہم مہر دے کر ایک انصاری عورت (غالباً سہلہؓ بنت عاصم) سے شادی کی۔
پھر وہ وقت آیا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ میں مہاجرین اہل ایمان کے لیے گھروں کا نقشہ ترتیب فرمایا۔ عبدالرحمانؓ کے قبیلہ بنو زہرہ کے لیے آپ ﷺنے مسجد نبوی کے پچھلی جانب جگہ مختص فرمائی ۔ عبدالرحمانؓکے حصہ میں کھجوروں کا ایک جھنڈ آیا۔ آپﷺ نے ان سے یہ وعدہ بھی فرمایا،اﷲ نے چاہا تو شام مسلمانوں کے ہاتھ آئے گا،تم سلیل نامی جگہ لے لینا۔
حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ بڑے دلیر اور جری تھے۔بدر ، احد اور خندق کی جنگوں اور تمام غزوات میں وہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔ بدر کے دن سائب بن ابو رفاعہ اور ایک روایت کے مطابق عمیر بن عثمان ان کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔ابو جہل کو انجام تک پہنچانے والے دو پرعزم انصاری لڑکوں معاذؓ بن عفرا اور معاذؓ بن عمرو کی راہنمائی بھی انھوں نے ہی کی ۔اسی یوم فرقان کوعبدالرحمانؓ کے پرانے حلیف امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے علی نے ہتھیار ڈال دیے تاکہ جنگی قیدی بن کر قتل ہونے سے بچ جائیں۔عبدالرحمانؓ انھیں حفاظت سے لے جا رہے تھے کہ بلالؓ نے دیکھ لیا۔ وہ پکارے ،او اﷲ کے انصار! یہ رئیس الکفار امیہ جا رہاہے۔وہ اپنے پرانے آقا سے صرف نظر کیسے کر سکتے تھے ،یہی امیہ تھا جو انھیں مکہ کی گرم ریت پر لٹا کر سینے پر پتھر رکھ دیا کرتا تھا۔ بلالؓ کی پکار پر لپکنے والے انصاری مسلمانوں نے امیہ اور اس کے بیٹے علی کو تلواروں کی زد میں لے لیا اور آناً فاناً دونوں کو جہنم واصل کر دیا۔امیہ کو بچانے کی کوشش میں ایک زخم عبدالرحمانؓ کے پاؤں پر بھی لگا ۔جنگ احد میں عبدالرحمانؓنے خوب ثابت قدمی دکھائی اور شدید زخمی ہوئے۔ان کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے اور جسم پر بیس سے زیادہ زخم آئے۔ پاؤں اور ٹانگوں پر اتنی چوٹیں لگیں کہ لنگ آ گیا۔اس روز انھوں نے کلاب بن طلحہ کوقتل کیا۔اسی غزوہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حارثؓ بن صمہ سے عبدالرحمانؓ کے بارے میں دریافت فرمایا۔انھوں نے بتایا،میں نے انھیں جبل احد کی پتھریلی زمین کی طرف جاتے دیکھاجب کہ مشرکوں کا ایک جتھا ان پر حملہ آور تھا۔آپﷺ نے فرمایا،سن رکھو!فرشتے اس کے ساتھ لڑرہے ہوں گے۔ حارثؓ لپک کر گئے تو دیکھا ،۷ مشرکوں کی لاشیں ان کے آگے پڑی ہیں۔ عبدالرحمانؓ نے بتایا،ارطاۃ بن عبد شرحبیل اور ان دو کافروں کو تو میں نے مارا ہے۔ باقی کیسے مرے ؟ مجھے پتا نہیں چل سکا۔ شعبان ۶ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبدالرحمانؓ بن عوف کو ۷۰۰ صحابہؓ کے لشکر کا قائد بناکر دومۃ الجندل بھیجا جہاں بنو کلب حکم ران تھے۔ آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے عبدالرحمانؓ کی پگڑی کھولی اور انھیں سیاہ رنگ کا عمامہ باندھا۔ عمامے کا شملہ (لڑ) آپﷺ نے عبدالرحمانؓ کے کندھوں کے درمیا ن لٹکا دیا۔ یہ ان کی امارت (command) کی نشانی تھی۔ آپﷺنے بلالؓسے ارشاد فرمایا، عبدالرحمانؓ کے ہاتھ میں علم دے دو اور یہ کہہ کر رخصت فر مایا ،’ ’ اللہ کا نام لے کر سفر کرو۔‘‘ یہ جیش دومۃ الجندل پہنچا اور وہاں کے اہلیان کو دین حق کی دعوت دی۔ کچھ پس و پیش کے بعد ان کا نصرانی سردار اصبغ ایمان لے آیاتو عبدالرحمانؓ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اطلاع بھیجی۔انھوں نے بنوکلب میں شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی توآپﷺ نے رئیس اصبغ کی بیٹی تماضر سے نکاح کرنے کی اجازت دی۔ عبدالرحمانؓ نے ولیمہ منعقد کیا اورمدینہ آ گئے۔یہ خاتون ابو سلمہ فقیہ کی والدہ ہوئیں ۔ ۶ھ ہی میں غزوۂ بنی مصطلق ہوا جس میں کافروں کا احمر نامی شہ سوار عبدالرحمانؓ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ صلح حدیبیہ کے بعدآپﷺنے عبدالرحمانؓ کو اشاعت اسلام کے لیے بنو جذیمہ بھیجا۔
غزوۂ تبوک (رجب ۹ھ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو عبدالرحمانؓ بن عوف کے پیچھے نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔اس وقع پرآپ ﷺے فرمایا،نبی کی وفات نہیں ہوتی جب تک وہ اپنی امت کے کسی نیک آدمی کے پیچھے نماز نہیں پڑھ لیتا۔اس واقعہ کو مغیرہ بن شعبہؓ نے وضاحت سے بیان کیا ہے ۔ان سے پوچھا گیا تھا ، کیا سیدنا ابوبکر ؓ کے علاوہ کسی صحابی کی اقتدا میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے؟ انھوں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا، ’’ ہم رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ (تبوک کے) سفرمیں شریک تھے۔( آپﷺ کو وضو کرانے کے لیے پانی کا انتظام رکھنا میری ذمہ داری تھی)۔ سحر کے وقت آپﷺنے میری اونٹنی کی گردن (یا پیٹھ) تھپکی تو مجھے معلو م ہو گیا،آپ ﷺ کو حا جت ہے ۔ میں آپﷺ کے پیچھے ہو لیا ،ہم لوگوں کے جائے قیام سے دور نکل آئے توآپﷺ اپنی سواری سے اتر کر میری نگاہوں سے دور چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد لوٹے تو پانی طلب فرمایا۔ میں اپنے کجاوے سے لٹکا ہوا مشکیزہ لے آیا اور آ پﷺؐ کو وضو کرایا۔ آپ ﷺنے شامی جبہ زیب تن کیا ہوا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں اس لیے جبے کے اندر سے ہاتھ نکال کر منہ اور بازو وں پر اچھی طرح پانی بہایاپھر پیشانی، عمامے اور موزوں پر مسح فرمایا۔ہم اونٹنیوں پر سوار ہو کر واپس آئے تو دیکھا کہ لوگوں نے عبدالرحمانؓ بن عوف کی امامت میں نماز شروع کر رکھی ہے۔ میں عبدالرحمانؓ کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع دینے کے لیے آگے بڑھا تو آپﷺ نے منع فرما دیا۔ہم نے اسی جماعت میں شامل ہو کر ایک رکعت پڑھی اور رہنے والی رکعت سلام پھرنے کے بعد ادا کی‘‘ ۔اہل ایمان پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے نماز شروع کر دینے پر بہت گھبرائے اور خوب تسبیحیں کرنے لگے۔ آپﷺ نے سلام پھیر کر انھیں تسلی دی،تم نے اچھا اور درست کیاکہ نماز وقت پر ادا کر لی۔
فتح مکہ کے بعد آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مضافات مکہ میں کئی سرایا بھیجے جن کا مقصد جنگ کے بجائے اسلام کی دعوت دینا تھا۔ ایک سریہ خالدؓ بن ولید کی قیادت میں زیریں تہامہ گیا ۔وہاں آباد بنو جذیمہ نے مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن پھر ہتھیارڈال کر صلح کر لی۔ خالدؓ بن ولیدنے پھر بھی ان کی مشکیں کس کر کچھ لوگوں کو قتل کرڈالا۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم ہواتو ہاتھ اٹھا کر فرمایا،اﷲ! میں تم سے خالدؓ کے عمل سے بری ہونے کی دعا کرتا ہوں۔آپ ﷺنے حضرت علیؓ کو بھیج کر بنو جذیمہ کو دیتیں بھی دلائیں۔ اس موقع پر عبدالرحمانؓ بن عوف نے خالدؓ کو ملامت کی کہ تم نے اپنے چچا فاکہ کے قتل کا بدلہ لے کر جاہلیت کا کام کیا ہے۔ خالدؓ نے بھی ان کو برا بھلا کہا توان کا جھگڑ ابڑھ گیا ۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو خبر ملی تو فرمایا،’’میر ے صحابہؓ میں سے کسی کو گالی نہ دو۔ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا انفاق کر دے تو بھی کسی صحابیؓجتنا یا اس سے آدھا مقام بھی حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔
اصحابؓ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کو امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ السابقون الاولون (سورۂ توبہ: ۱۰۰)میں شامل ہونے کے ساتھ وہ ان ۱۰ جلیل القدر صحابہ ،عشرۂ مبشرہ میں سے تھے جنھیں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی (ترمذی: ۳۷۵۷، مسند احمد:۱۶۲۹،۱۶۷۵)۔وہ اہل بدر میں سے تھے جن کے بارے میں ارشاد نبوی ہے، ’’اﷲ تعالیٰ نے اہل بدر کو جانچ لیا اور فرمایا،تم جو عمل چاہے کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے(بخاری:۳۰۰۷،مسلم۶۳۵۱)۔ابن عوفؓ بیعت رضوان میں بھی شامل تھے،اس میں شرکت کرنے والوں سے اللہ کاراضی ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے۔ (سورۂ فتح:۱۸) ان کی خوش بختی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی پوری حیات مبارکہ میں ان سے راضی رہے۔ انھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا حواری کہا جاتا تھا(مستدرک حاکم: ۵۳۵۱) ۔ہر پیغمبر کا مخلص ساتھی حواری کا نام پاتا ،پیغمبراسلامم نے زبیرؓ بن عوام کو بھی اپناحواری قرار دیا تھا(بخاری:۷۲۶۱،مسلم:۶۱۳۹)۔
شیخین ابو بکرؓ و عمرؓ کے عہد ہائے خلافت میں بھی ان کا رول اہم رہا۔نومنتخب ہونے کے بعد حضرت ابوبکرؓ جیش اسامہؓ کو رخصت کرنے نکلے تو پیدل تھے۔ ان کی سواری کی مہار عبدالرحمانؓ کے ہاتھ میں تھی۔ قتال ردہ کے بعد امن ہونے کی خوش خبری عبدالرحمانؓہی نے سنائی تھی۔ ۱۱ھ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ حج کو نہ جا سکے ۔ایک قول کے مطابق انھوں نے عبدالرحمانؓ کواپنی جگہ امیر حج مقرر کیا۔ خلیفۂ اولؓ نے انتقال سے پہلے عمرؓ کواپنا جانشین مقرر کیا تو عبدالرحمانؓ بن عوف سے خصوصی مشورہ کیا۔
عبدالرحمانؓ حضرت عمرؓ کی شوریٰ کے مستقل اور سرگرم رکن تھے۔ لوگ حضرت عمرؓ کو کچھ کہنا یا ان سے پوچھنا چاہتے تو حضرت عثمانؓ یا حضرت عبدالرحمانؓ سے رابطہ کرتے۔ ۱۳ھ، اپنی خلافت کے پہلے سال عمرؓنے عبدالرحمانؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔۱۴ھ میں عراق پر فوج کشی کا فیصلہ ہوا تو عبدالرحمانؓ میمنہ کے سربراہ بنائے گئے ۔اس موقع لوگوں نے حضرت عمرؓ کو لشکر کی قیادت کرنے کا مشورہ دیا تو عبدالرحمانؓ تھے جنھوں نے اس رائے کی سختی سے مخالفت کی۔ انھوں نے کہا، خدانخواستہ ،اگر آپ میدان جنگ میں کام آ گئے یا آپ کے لشکر کوشکست ہو گئی تو اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔تب عمرؓ کی جگہ سپہ سالارمقرر کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا تو بھی عبدالرحمانؓ ہی نے حل کیا۔ انھوں نے کہا،میں نے پا لیا!عمرؓ نے پوچھا، کون؟بولے، سعدؓ بن مالک (سعدؓ بن ابی وقاص)۔جنگ یرموک میں اس کے برعکس انھوں نے حضرت عمرؓ کو سپہ سالار بننے کی تجویز دی لیکن دوسرے صحابہؓ نہ مانے۔۱۵ھ میں بیت المقدس فتح ہوا۔اس وقت حضرت عمرؓ کی موجودگی میں جابیہ کے مقام پر ایک معاہدہ لکھا گیا۔ٍ عبدالرحمانؓ نے اس پر گواہ کی حیثیت سے دستخط ثبت کیے۔عہد فاروقیؓ کاایک اہم واقعہ ۱۸ھ میں شام و فلسطین کے علاقے عمواس میں پھوٹنے والی طاعون کی وبا تھی۔ٍٍتب عمرؓشام کے سفر پرروانہ ہو کر سرغ تک پہنچے تھے کہ وبا کی اطلاع مل گئی۔انھوں نے سفر موقوف کر کے وہیں سے مدینہ لوٹنے کا ارادہ کیا لیکن ابو عبیدہؓ بن جراح نے مخالفت کی اور کہا،کیا تقدیر الٰہی سے بھاگ کر جا رہے ہیں؟ بہت سے صحابہؓ سے مشورہ کیا گیا تاہم عبدالرحمانؓ کی رائے فیصلہ کن ہوئی۔انھوں نے کہا، اس بارے میں میرے پاس علم ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنایا، ’’جب کسی شہر میں کوئی وباپھیل جائے اور تم وہاں نہ ہو تو وہاں نہ جاؤ۔ اور اگر وبا اس جگہ پھوٹے جہاں تم ہو تووہاں سے نہ بھاگو۔ جنگ نہاوند (فتح الفتوح) میں عبدالرحمانؓ کا مشورہ تھا ،امیر المومنینؓ محاذ جنگ پر نہ جائیں پھر جب اس جنگ کا بے شمارمال غنیمت مدینہ آیا تو مسجد نبوی میں رکھا گیا اور عبدالرحمانؓ اور کچھ دوسرے صحابہؓ نے رات کو پہرا دیا۔سیدنا عمرؓ نے ان کی خوبیوں کی بنا پر انھیں العدل الرضی (عادل اور پسندیدہ )کے خطاب سے نوازا۔ایک موقع پر جب عمر فاروقؓ کی سختی اور ان کے درہ چلانے سے لوگ خوف زدہ ہو گئے تو اکابر صحابہؓ نے اس موضوع پر ان سے بات کرنے کے لیے عبدالرحمانؓ ہی کا انتخاب کیا۔
حضرت عمرؓازواج مطہراتؓ کوعام طور پر سفر سے منع کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری سال ۲۳ھ میں انھوں نے ان کو حج پر جانے کی دعوت دی۔وہ محمل نشین ہوئیں تو حضرت عثمانؓاونٹنی پر سوارہو کر ان کے آگے آگے چلے،وہ کسی کو ان کے پاس آنے نہ دیتے۔ حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف امہات المومنینؓ کی حفاظت کے لیے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ راستے میں جب پڑاؤ ڈلتا ،دونوں اصحابؓ انھیں اترائی میں اتارتے ، خود کنارے پر رہتے اور لوگوں کو ان کے پاس جانے سے روکتے۔
بدھ ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ھ کو حضرت عمرؓ نماز فجر پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو مغیرہؓبن شعبہ کے ایرانی غلام ابولؤلؤفیروز نے حملہ کر کے انھیں شدید زخمی کر دیا۔ تب انھوں نے حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کو مصلی پر کھڑا کیا۔ عبدالرحمانؓ نے سورۂ عصر اور سورۂ کوثر کی تلاوت کرکے مختصرنماز پڑھائی۔ بعض روایات کے مطابق حضرت عمرؓ اپنے بعد خلافت کی ذمہ داری عبدالرحمانؓ پر ڈالنا چاہتے تھے ۔ وہ راضی نہ ہوئے تو انھوں نے تیسرے خلیفہ کے انتخاب کے لیے عشرۂ مبشرہ میں سے ۶ اصحابؓ رسولﷺ کی ایک کمیٹی بنا دی اور ا بن عوفؓ کو اس میں شامل رکھا۔ انھوں نے اہل ایمان کو نصیحت کی ، اگرخلافت عبدالرحمانؓکے پاس آئی تو ان کی بات ماننا۔ کئی صحا بہ اؓ نھیں خلیفہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن انھوں نے معذرت کر لی اور حضرت عثمانؓ کے انتخاب میں کلیدی کردار ادا کیا۔سعدؓ بن ابی وقاص نے انھیں خلیفہ بننے کا مشورہ دیا تو انھوں نے کہا،عمرؓ کے بعد جو بھی اس ذمہ داری کو اٹھائے گا ، لوگ اسے ملامت ہی کریں گے۔ آخرکار عبدالرحمانؓ نے نئے خلیفہ کا چناؤ کرنے والی شوریٰ کے ارکان سے کہا، کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں تمہارا خلیفہ چنوں اور خود اس منصب سے الگ رہوں؟حضرت علیؓ نے کہا، (آپ جو انتخاب کریں گے)میں سب سے پہلے مانوں گا کیونکہ میں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو ارشادفرماتے سنا ہے، ’’عبدالرحمان! تم آسمان والوں میں امانت دار شمار ہوگے اور اہل زمین میں بھی تمہاری امانت مسلم ہے۔‘‘
اپنی خلافت کے پہلے سال۲۴ھ میں حضرت عثمانؓ نکسیر پھوٹنے کی وجہ سے حج پر نہ جا سکے تو عبدالرحمانؓ کو امیر حج بنایا۔عہد عثمانیؓ میں وہ مدینہ میں مقیم رہے اور حضرت عثمانؓ کی شوریٰ میں شامل ہو کر خلافت کے استحکام کی کوشش کرتے رہے۔ ۳۱ھ میں حضرت عثمانؓ کو ایک بار پھر نکسیر پھوٹی،ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اپنے غلام حمران بن ابان کو بلا کر وصیت لکھوائی کہ میرے بعد عبدالرحمانؓ خلیفہ ہوں گے۔ عبدالرحمانؓ کو معلوم ہوا تو دعا کی،اﷲ! مجھے عثمانؓ سے پہلے اٹھا لے۔ ۶ ماہ ہی گزرے تھے کہ وہ چل بسے۔
عبدالرحمانؓ بن عوف میں حب دنیا کا شائبہ نہ تھا حالانکہ عام تجربہ ہے ، زیادہ مال دار لوگ اﷲ سے دور اور انسانی ہم دردی سے عاری ہوتے ہیں۔ پیغمبر آخرالزماں کا پیارااور قریبی ساتھی ایسا ہوبھی نہ سکتا تھا، آپﷺ نے اپنے صحابہؓ کے دلوں میں دنیا کی محبت ذرا بھی رہنے نہ دی تھی۔ ابو امامہ باہلیؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،’’کل شب مجھے خواب دکھائی دیا، میں جنت میں داخل ہورہا ہوں۔ اپنے آگے ایک آہٹ سنائی دی توپوچھا، جبریل ؑ ! یہ کون ہیں؟ جواب ملا،بلال۔ؓ پھر میں چلتا گیا تو دیکھا کہ بیشتر اہل جنت غریب مہاجرین اور مسلمان لڑکے بالے ہیں۔ مجھے عورتیں اور مال دار مرد بہت کم نظر آئے۔ بتایا گیا کہ امیر لوگ دروازے پر رکے حساب دے رہے ہیں اور عورتوں کوزر و ریشم کے شغف نے مشغول کر رکھا تھا۔۔۔ میری امت ایک ایک شخص کر کے میرے سامنے پیش کی گئی۔مجھے خیال آیا،بہت دیر ہو گئی، عبدالرحمانؓ بن عوف نہیں آئے۔وہ ایاسؓ کے بعد پہنچے اور کہا،یا رسول اللہ!میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں۔۔۔ مجھے گمان ہونے لگا تھا، آپؐ کو کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔ پھر بتایا ، زیادہ مال دار ہونے کی وجہ سے میری چھان پھٹک ہو رہی تھی۔‘‘ایک دوسری روایت میں ہے، ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’میرے پاس جبریل ؑ آئے اور کہا،ابن عوفؓ سے کہہ دیں ،مہمان کی خاطر داری کرے،غریب مسکین کو کھانا کھلائے اور مانگنے والے حاجت مند کی مدد کرے۔ عطا کی ابتدا اس شخص سے کرے جس کے نان نفقہ کا وہ ذمہ دار ہے ۔ اگر اس نے ایسا کر لیاتو اس کے مال کا تزکیہ ہو جائے گا۔‘‘آپﷺ کی ایسی تمثیلوں اور نصیحتوں کا نتیجہ تھا کہ عبدالرحمانؓ بن عوف کی فطری سخاوت خوب پروان چڑھی۔انھوں نے اپنا مال اسلام اور اہل اسلام کے لیے وقف کیے رکھا۔
غزوۂ تبوک(۹ھ) کے موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عام انفاق کی اپیل کی تو عبدالرحمانؓ کے پاس کل ۸ ہزار دینار تھے۔انھوں نے نصف ،۴ ہزار راہ خدا میں دے دیے تو منافقین نے مذاق اڑا کر کہا ، عبدالرحمانؓ بڑا ریاکار ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے عبدالرحمانؓاور دوسرے مسلمانوں کے اخلاص کی خود شہادت دی اور ان سے ٹھٹھا کرنے والوں تیرہ باطنوں کے لیے کرب ناک عذاب کی وعید نازل کی ۔ عہدنبویؓ ہی میں ایک موقع پرعبدالرحمانؓ نے۴۰ ہزار دینار،دوسری بار پھر ۴۰ ہزار پھر دیے۔ انھوں نے مجاہدین اسلام کی سواری کے لیے ۵۰۰ گھوڑے اوران کی خوراک و رسد کے لیے ۵۰۰ اونٹوں کا غلہ بھی فراہم کیا۔ایک بار انھوں نے ایک ہی دن میں۳۰ غلام آزاد کیے۔عہد رسالت کے بعد کا واقعہ ہے، عبدالرحمانؓ بن عوف کا غلے اور بیش قیمت سامان سے لدا ہوا۷۰۰ اونٹوں پر مشتمل قافلہ آیاتو مدینہ میں غل مچ گیا۔سیدہ عائشہؓ اپنے گھر میں تشریف فرما تھیں،انھوں نے پوچھا ، یہ غوغا کیسا ہے؟تو بتایاگیا، عبدالرحمانؓ کا قافلہ ہر قسم کا ساز وسامان لے کر شام سے مدینہ میں وارد ہوا ہے۔تب انھوں نے بتایا،میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو(اپنا خواب بیان) فرماتے ہوئے سنا ہے، ’’میں نے دیکھا کہ عبدالرحمانؓ جنت میں گھسٹ کر جا رہا ہے۔‘‘ عبدالرحمانؓ کو معلوم ہوا تو کہا،میں کوشش کروں گا کہ چل کر جاؤں۔یہ کہہ کر اونٹ ، ان پر لدا ہوا غلہ، کجاوے اورپالان سب اﷲ کی راہ میں صدقہ کردیے۔ عبدالرحمانؓ کے بھتیجے طلحہ بن عبد اﷲ (طلحۃ الندی) فرماتے ہیں،مدینہ کے سبھی باشندوں کا بوجھ عبدالرحمانؓ نے اٹھایا ہوا تھا۔ ۳؍۱ کو وہ قرض دیتے، ۳؍۱ کا قرض چکاتے اور۳؍۱اہل مدینہ سے صلۂ رحمی کرتے۔ کسر نفسی اتنی تھی کہ اس کے باوجود اپنے آپ کو بخیل سمجھتے۔ ابو ہیاج کہتے ہیں،میں نے دیکھا کہ ایک لمبا آدمی کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دعا کر رہا تھا۔ اللہ! مجھے اپنے نفس کے بخل سے بچاؤ۔پوچھا تو معلوم ہوا ،یہ عبدالرحمانؓ بن عوف ہیں ۔
سیدنا عبدالرحمانؓ بن عوف عام انفاق کے ساتھ امہات المومنینؓ کی ضروریات کاخاص خیال رکھتے تھے۔ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ کی روایت ہے،رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہراتؓ سے فرمایا،’’میرے بعدیہ سچا اور نیک انسان، عبدالرحمانؓ تمہارے ساتھ شفقت سے پیش آئے گا۔اے اﷲ! عبدالرحمانؓ کوجنت کے چشمہ سلسبیل سے سیراب کر‘‘۔عبدالرحمانؓنے ۴ھ میں ہونے والے غزوۂ بنو نضیر سے مال غنیمت کے طور پر ملنے والے مال مویشی مدینہ کی بستی کیدمہ میں محفوظ رکھے ہوئے تھے۔ یہ سب ۴۰ ہزار دینار میں بیچ کر انھوں نے رقم ازواج مطہراتؓ میں بانٹ دی۔ اسی طرح انھوں نے اپنی کچھ اراضی حضرت عثمانؓ کے ہاتھ ۴۰ہزار دینار ہی میں بیچی اور حاصل ہونے والی قیمت اپنے قبیلے بنوزہرہ کے غربا ، دوسرے حاجت مندوں اور امہات المومنینؓ میں تقسیم کر دی۔ان کے بھانجے مسورؓ بن مخرمہ حضرت عائشہؓ کا حصہ لے کر ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے پوچھا ،یہ کس نے بھیجا ہے؟ عبدالرحمانؓ کا نام معلوم ہونے پر کہا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاتھا،میرے بعد اہل صبر ہی تم پر شفقت کریں گے ۔اﷲ ابن عوف کو بہشت کے چشمہ سلسبیل سے سیراب کرے۔
عبدالرحمانؓ بن عوف محض دنیاوی دولت ہی نہ رکھتے تھے۔وہ دین متین کے فلسفہ و حکمت اور اس کی فقہ و دانش کے علم سے بھی مالا مال تھے۔ عہدرسالت اور حضرت ابوبکرؓو عمرؓ کے عہد ہائے خلافت میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم سے سماع کردہ ارشادات کی روشنی میں فتوی دیا کرتے تھے۔عہد صدیقیؓ میں انھی کے رائے اور مشورہ سے میراث نبویﷺ کا معاملہ حل کیا گیا۔ حضرت عمرؓکے زمانۂ خلافت میں فقہ کا جو حصہ مرتب ہوا، عبدالرحمانؓ کی آرااس میں شامل تھیں۔ خلیفۂ دومؓ کا مجوسیوں سے جزیہ لینے کا کوئی اردہ نہ تھا۔ عبدالرحمانؓ بن عوف نے بتایاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا تو انھوں نے ان پر جزیہ عائد کیا۔اسی زمانہ میں یہ سوال بھی اٹھاکہ آتش پرستوں سے کیامعاملہ کیا جائے؟تب عبد الرحمانؓہی نے راہ نمائی کی۔ انھوں نے کہا ، رسول اکرمﷺ نے ان کے ساتھ اہل کتاب کی روش اختیار فرماکر انھیں ذمی قرار دیا تھا۔ایک بار حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہؓ بن عباسؓ سے پوچھا۔لڑکے!کیا تو نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یاکسی صحابیؓ سے اس مسئلہ کے بارے میں سنا ہے، کسی شخص کو نمازپڑھتے ہوئے شک ہو جائے (کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں )تو کیا کرے؟یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ عبدالرحمانؓ بن عوف آگئے ۔انھوں نے بتایا، میں نے اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادسن رکھا ہے۔ ’’نماز پڑھتے ہوئے اگر کسی کو رکعتوں کی تعداد میں شک ہو جائے ، ایک پڑھی ہے یادو تو ایک شمار کرے۔ دو یاتین کا شک ہو تو سمجھ لے،دو پڑھی ہیں اور اگر تین یا چار کا تردّد ہو تو تین کا یقین کر لے۔کم رکعتوں کا پایا جانا تو یقینی ہے اس لیے زیادہ کو وہم سمجھ لیا جائے۔ بھولنے والا نمازی نماز سے فارغ ہونے کے بعدسہو کے دو اضافی سجدے کرے‘‘ ۔ایک شخص نے حالت احرام میں ہرن کا شکار کر لیا اورحضرت عمرؓ سے فتویٰ لینے آیا۔انھوں نے پاس کھڑے عبدالرحمانؓ سے مشورہ کر کے ایک بکری ذبح کرنے کو کہا۔
حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کا ایک اور وصف خشیت الٰہی اور کسر نفسی تھی۔ایک افطاری پر کھانے کے لیے بیٹھے تو کہا،’’(جنگ احد میں)مصعبؓ بن عمیر شہید ہوئے جو مجھ سے بہتر تھے۔ان کو ایک ہی چادر کا کفن دیا گیا،سر ڈھانپا جاتاتو پاؤں ننگے ہو جاتے ،پاؤں ڈھانکتے تو سر باہر ہو جاتا۔(اسی غزوہ میں) حمزہؓنے شہادت پائی جو مجھ سے اچھے تھے۔اب ہمیں دنیا میں بہت کچھ مل گیا ہے کہ خدشہ ہوتا ہے ،ہماری نیکیوں کا صلہ یہیں چکا دیا گیا ہے۔پھر رونے لگے اور روتے روتے کھاناچھوڑ دیا‘‘۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت عبدالرحمانؓ میں کوئی رنجش ہوئی ۔اس دوران میں طلحہؓ بیمارپڑگئے تو عبدالرحمانؓ ان کی عیادت کے لیے پہنچ گئے۔طلحہؓ نے کہا،بھائی!بخداتو مجھ سے بہت بہتر ہے، اگر تو بیمار ہوتا تو میں بیمارپرسی کو نہ آتا۔
حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کی وفات ۳۲ھ(۶۵۲ء) میں ہوئی جب ان کی عمر ۷۵ برس تھی۔وہ ۶ ماہ سے بیمار تھے، اس دوران میں ایک بار ان پر غشی بھی طاری ہوئی۔ جنازے میں حضرت علیؓ بن ابی طالب،عمروؓ بن عاص، سعدؓ بن ابی وقاص ،ابو سعید خدریؓ اور دوسرے صحابہؓ نے شرکت کی۔ نماز جنازہ حضرت عثمانؓ (ایک روایت کے مطابق زبیرؓ بن عوام)نے پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔مدینے کا باغ حش،اس کی نواحی بستی کیدمہ جہاں بنو نضیر سے ملنے والا مال غنیمت پڑا تھا اور مکے کا آبائی مکان ازرقی عبدالرحمانؓ کی جائیداد تھا۔سلیل نام کی اراضی خود حضورﷺنے تجویز کی تھی۔انھوں نے اپنے ترکے میں ۱ ہزار اونٹ،۳ ہزار بکریاں اور سو گھوڑے چھوڑے،یہ سب نقیع کی چراگاہ میں چرتے تھے۔ ۲۰ اونٹ ان کی جرف کی زمینیں سیراب کرتے تھے۔ سونا اتنا تھا کہ اسے کلہاڑی سے کاٹا گیا اور کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے۔ عبدالرحمانؓ کی ۴ بیواؤں میں سے ہر ایک کو ۸۰ ہزار دینار ملے۔ان کے بیٹے ابراہیم کا بیان ہے ،ایک بیوہ تماضر بنت اصبغ کو ۱ لاکھ ملے۔۵۰ ہزار دیناران کی وصیت کے مطابق مسافروں کو دیے گئے۔ جنگ بدر میں حصہ لینے والے ہر صحابیؓ کے لیے انھوں نے ۴۰۰ دینار کی وصیت کی تھی۔ان کی تعداد ۱۰۰ تھی ،سب نے حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ او رحضرت علیؓ نے بھی یہ رقم وصول کی۔حضرت عبدالرحمانؓ نے امہات المومنینؓ کے لیے ایک باغ کی وصیت کی جو ۴ لاکھ درہم میں فروخت ہوا ۔ اپنے غلاموں میں سے بیشتر کو انھوں نے آزاد کر دیا تھا۔
روایت حدیث میں بھی عبدالرحمانؓ بن عوف کا ایک حصہ ہے۔ ان کی ۲ روایتیں متفق علیہ اورمفردات بخاری ۵ہیں۔ باقی کتب حدیث میں ۶۵ حدیثیں ان سے مروی ہوئی ہیں۔انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور عمرؓبن خطاب سے احادیث روایت کیں۔ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں :ان کے بیٹے ابراہیمؓ،حمید،ابوسلمہ ،عمر(ذہبی:عمرو)اور مصعب،ان کے بھانجے مسورؓ بن مخرمہؓ اور ان کے پوتے مسور بن ابراہیمؓ۔ دیگر راویوں کے نام یہ ہیں:انسؓ بن مالک ،جابرؓ بن عبداﷲؓ ،جبیرؓ بن مطعم اور ان کے بیٹے محمد،عبداﷲؓ بن عباسؓ، عبداﷲؓ بن عمرؓ،مالکؓ بن اوس،عبداﷲ بن عامرؓ بن ربیعہ،عبداﷲ بن عبداﷲ بن حارث، عبداﷲ بن قارظ،غیلان بن شرحبیل،قبیصہ بن ذؤیب،قیس بن ابی حازم، ردّاد لیثی،نوفل بن ایاس اوربجالہ بن عبدہ ۔
ہجرت کے بعد حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف مکہ آئے تو اپنے زمانۂ جاہلیت والے گھر میں رہنا پسند نہ کیا۔
یہ حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کی شخصیت کا اعجاز تھا کہ قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی بیٹیوں سے ان کی شادیاں ہوئیں۔زمانۂ جاہلیت میں عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ام کلثوم سے ان کا عقد ہوا ۔اس سے ان کا بیٹا سالم(بڑا) متولدا ہو ا جو اسلام کی آمد سے پہلے ہی فوت ہو گیا۔شیبہ بنت ربیعہ کی بیٹی سے بھی ان کی شادی ہوئی جس سے ان کی بیٹی ام قاسم پیدا ہوئی۔ عقبہ بن ابی معیط کی بیٹی ام کلثومؓ سے عبدالرحمانؓ کی تیسری شادی ہوئی۔اس ا م کلثومؓسے شادی کا مشورہ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود دیا تھا۔اس سے ان کے چار بیٹوں محمد، ابراہیم،حُمید، اسماعیل او ردو بیٹیوں حمیدہ اور امۃ الرحمان (بڑی) نے جنم لیا۔ اسی محمد سے وہ ابو محمد کنیت کرتے تھے۔ عقبہ اور عتبہ دونوں کی بیٹیوں کا نام ام کلثوم تھا۔ اس لیے ان کی اولاد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ابن عبدالبر نے عبدالرحمانؓ کی ازواج میں بنت شیبہ کا نام ذکر نہیں کیا۔ ایک نکاح انصار کے قبیلہ قضاعہ سے تعلق رکھنے والی خاتون سہلہ بنت عاصم سے ہوا،اس سے معن، عمر،زید اور امۃالرحمان (چھوٹی) پیدا ہوئے۔بنو شیبان کی بحریہ بنت ہانی سے بھی ان کا عقد ہوا۔ ان سے عروہ کی پیدائش ہوئی۔ عبدالرحمانؓ کا ایک بیاہ سہلہ بنت سہیل سے ہوا،ان سے سالم (چھوٹا) پیداہوا۔ایک بیٹا ابو بکر تھا جسے ان کی زوجہ ام حکیم بنت قارظ نے جنم دیا۔ قبیلۂ اوس کے ایک اور انصاری ابو الحیس کی بیٹی سے (نام مذکور نہیں) عبدالرحمانؓ کا نکاح ہوا ۔ اس سے عبداﷲ (بڑا)کی ولادت ہوئی۔دومۃ الجندل کے حکم ران قبیلہ بنو کلب کے سردار اصبغ کی بیٹی تماضر سے عبدالرحمانؓ کی شادی کسی قریشی کی کلبی عورت سے پہلی شادی تھی۔اس سے ابوسلمہ( عبداﷲ اصغر)کی پیدائش ہوئی۔ ایک اور بیوی اسما بنت سلامہ سے ان کا بیٹا عبدالرحمان جو انہی کے نام سے موسوم ہے متولد ہوا۔یمن کے قبیلہ بہر اسے قید ہو کر عبدالرحمانؓ کے حصہ میں آنے والی لونڈی ام حریث سے ان کے تین بچے مصعب ،آمنہ اور مریم پیدا ہوئے۔بہرا(بہز) ہی سے آنے والی باندی زینت بنت صباح سے ام یحیےٰ نے جنم لیا۔ ان کی ایک بیوی مجد بنت یزید سے سہیل کی ولادت ہوئی۔ جنگ مدائن میں جو ایرانی سعدؓ بن ابی وقاص کے ہاتھ قید ہو کر آئے ،ان میں ایرانی بادشاہ کسریٰ (خسرو) کی بیٹی غزال بھی تھی۔یہ عبدالرحمانؓ بن عوف کے حصہ میں آئی اور عثمان کو جنم دیا۔ایک بیٹی جویریہ بادیہ بنت غیلان سے پیدا ہوئی۔عبدالرحمانؓ کی کل اولاد کا شمار:۲۰ لڑکے اور ۸ لڑکیاں کیا گیا ہے ۔
جہاں بے شمار اصحابؓ رسولﷺ مہندی یا خضاب سے اپنے بالوں کورنگتے تھے،عبدالرحمانؓ بن عوف اپنا بڑھاپا ہر گزنہ چھپاتے ۔ان کا سر اور ڈاڑھی سفیدہی نظر آتے۔وہ دراز قد،خوب رو،سرخ و سپید رنگ اور صاف جلد والے تھے، آنکھیں بڑی،پلکیں گھنی اور ناک بلند تھی، ہتھیلیاں بڑی اور انگلیاں موٹی تھیں۔ ان کی گردن لمبی،شانے چوڑے اورکمر میں کچھ جھکاؤ تھا۔عبدالرحمانؓ کے کچلی والے دانت نمایاں نظر آتے تھے،کئی بار ان دانتوں سے ان کے ہونٹ زخمی ہوئے۔ انھیں بائیں ہاتھ سے کام کرنے کی عادتھی۔مال دار ہونے کے باوجود ان کا رہن سہن سادہ تھا،اپنے غلاموں کے بیچ کھڑے ہوتے تو پہچاننا مشکل ہوتا۔
حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کی جلد نازک تھی ،انھیں کھجلی رہتی ، چھالے نکل آتے یا جوئیں پڑ جاتیں اس لیے ریشمی لباس پہنتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے انھوں نے اس بات کی اجازت لے رکھی تھی ۔ میدان جنگ میں ریشمی لباس پہننے کی اجازت ہر مسلمان کو پہلے ہی تھی۔انسؓ بن مالک کی روایت ہے، ایک سفر میں عبدالرحمانؓ کو پھنسیاں نکل آئیں تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو ریشمی قمیص پہننے کی رخصت دے دی۔ایک دفعہ جوئیں پڑیں تو بھی یہی معاملہ ہوا۔یہ عہد فاروقیؓ کا واقعہ ہے کہ وہ اپنے معمول کے مطابق ریشمی قمیص پہن کر اپنے بیٹے ابوسلمہ کے ساتھ باہر نکلے تو حضرت عمرؓ نے اعتراض کیا۔ عبدالرحمانؓ نے کہا ،کیا آپ کو علم نہیں ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے لیے ریشم حلال قرار دیا تھا۔ عمرؓ نے فرمایا، آپﷺ نے ریشم پہننے کی اجازت اس لیے مرحمت فرمائی تھی کیونکہ تمھیں جوؤں کی شکایت تھی۔یہ تکلیف زائل ہوئی تواجازت بھی ختم ہو گئی۔ حضرت زبیرؓ بن عوام کو جوئیں پڑیں تو انھیں بھی ریشمی لباس کی اجازت ملی تھی۔
مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، الطبقات الکبری(ابن سعد)،المنتظم فی تواریخ الامم والملوک(ابن جوزی)، البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ(ابن حجر)،فتح الباری (ابن حجر)،صور من حیاۃ الصحابہ(عبدالرحمان رافت پاشا)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ: سعید انصاری)
___________________