HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۱۲۷-۱۳۴ (۱۹)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآئِ، قُلِ: اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْہِنَّ وَمَا یُتْلٰی عَلَیْْکُمْ فِی الْکِتٰبِ فِیْ یَتٰمَی النِّسَآئِ الّٰتِیْ لاَ تُؤْتُوْنَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ، وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ، وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ، وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ، وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِہٖ عَلِیْمًا{۱۲۷} وَاِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِہَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا، فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْْنَہُمَا صُلْحًا، وَالصُّلْحُ خَیْْرٌ، وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ، وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا{۱۲۸} 
وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْْنَ النِّسَآئِ، وَلَوْ حَرَصْتُمْ، فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ، وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا{۱۲۹} وَاِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلاًّ مِّنْ سَعَتِہٖ، وَکَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیْمًا{۱۳۰} 
وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَلَقَدْ وَصَّیْْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَاِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ، وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَکَانَ اللّٰہُ غَنِیًّا حَمِیْدًا{۱۳۱} وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً{۱۳۲} اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ اَیُّہَا النَّاسُ، وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ، وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ قَدِیْرًا{۱۳۳} مَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ، وَکَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا{۱۳۴} 
وہ تم ۱۹۸ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ ۱۹۹ اُن سے کہہ دو کہ اللہ تمھیں اُن کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جن عورتوں کے حقوق تم ادا نہیں کرنا چاہتے، ۲۰۰ مگر اُن سے نکاح کرنا چاہتے ہو، اُن کے یتیموں سے متعلق جو ہدایات اِس کتاب میں دی جارہی ہیں،۲۰۱  اُن کے بارے میں اور (دوسرے) بے سہارا بچوں کے بارے میں بھی فتویٰ دیتا ہے( کہ عورتوں کے حقوق ہر حال میں ادا کرو) اور یتیموں کے ساتھ (ہر حال میں) انصاف پر قائم رہو ۲۰۲  اور (یاد رکھو کہ) اِس کے علاوہ بھی جو بھلائی تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں رہے گی۔ ہاں، اگر کسی عورت کواپنے شوہر سے بے زاری۲۰۳  یا بے پروائی کا اندیشہ ہو تو اِس میں حرج نہیں کہ دونوں آپس میں کوئی سمجھوتا کر لیں۔ (اِس لیے کہ) سمجھوتا بہتر ہے۔ ۲۰۴ اور (یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ) حرص لوگوں کی سرشت میں ہے۔۲۰۵ لیکن حسنِ سلوک سے پیش آئو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو جو کچھ تم کرو گے، اللہ اُسے جانتا ہے۔ ۱۲۷-۱۲۸
بیویوں کے درمیان پورا انصاف تو اگر تم چاہو بھی تو نہیں کر سکتے، اِس لیے اتنا کافی ہے کہ ایک کی طرف اِس طرح نہ جھک جائو کہ دوسری اَدھر میں لٹکتی رہ جائے۔ ہاں، اگر اپنے آپ کو درست کرتے رہو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۲۰۶ اور اگر میاں بیوی، دونوں الگ ہی ہو جائیں گے تو اللہ اُن میں سے ہر ایک کواپنی وسعت سے بے نیاز کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت رکھنے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔۲۰۷ ۱۲۹-۱۳۰
(یہ خدا کے احکام ہیں۔ نہیں مانو گے تو اپنا ہی بُرا کرو گے، اِس لیے کہ) زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے۔ تم سے پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی، اُنھیں بھی ہم نے یہی ہدایت کی تھی اور تمھیں بھی یہی ہدایت کر رہے ہیں کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور (یاد رکھو کہ) نہیں مانو گے تو (اللہ کا کچھ نہیں بگاڑو گے)، اِس لیے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے اور اللہ بے نیاز ہے، ستودہ صفات ہے۔۲۰۸ (ایک مرتبہ پھر سنو کہ) زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے اور بھروسے کے لیے اللہ کافی ہے۔ (اِس لیے وہی سزاوار ہے کہ زندگی کے معاملات اُس کے حوالے کیے جائیں۔ تمھاری نافرمانی کی صورت میں) وہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور دوسروں کو (تمھاری جگہ) لے آئے۔ اللہ اِس چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (اپنے مفادات کی خاطر تم اللہ کی شریعت سے فرار اختیار کرتے ہو۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو دنیا کا صلہ چاہتا ہے تو (دنیا کا صلہ بھی اللہ کے پاس ہے۔ اور جو دنیا اور آخرت، دونوں کا صلہ چاہتا ہے) تو اللہ کے پاس دنیا کا صلہ بھی ہے اور آخرت کا صلہ بھی، اور اللہ سمیع و بصیر ہے۔۲۰۹ ۱۳۱-۱۳۴

۱۹۸؎  یہاں سے آگے اب خاتمۂ سورہ کی آیات ہیں۔ اِن میں سلسلۂ بیان اِس طرح ہے کہ ابتدا اور انتہا میں بعض سوالوں کا جواب ہے جو اِس سورہ کے احکام سے متعلق لوگوں نے اِس کی تلاوت کے دوران میں کیے اور درمیان میں مسلمانوں، منافقین اور اہل کتاب کے اُن رویوں پر تنبیہ ہے جو اِس سورہ کے مباحث سے متعلق اُن کی طرف سے ظاہر ہوئے۔ مثلاً، بعض مسلمانوں کا یہ رویہ کہ وہ منافقین کے ساتھ دوستی اور تعلقات کو ترجیح دیتے اور اُن کے مقابلے میں حق کی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اِسی طرح یہود کا یہ رویہ کہ وہ اُسی کتاب پر ایمان لائیں گے جسے وہ آسمان سے اترتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

۱۹۹؎  یہ استفتا کس نوعیت کا تھا؟ اِس کی وضاحت آگے اِس کے جواب سے ہو جاتی ہے۔ قرآن کا عام اسلوب ہے کہ اُس میں سوالات اِسی طرح اجمال کے ساتھ نقل ہوتے ہیں۔ غور کیجیے تو یہی طریقہ قرین بلاغت ہے، اِس لیے کہ سوال اگر جواب سے واضح ہے تو اُس کا نقل کرنا محض طول کلام کا باعث ہوگا۔

۲۰۰؎  اصل الفاظ ہیں: ’لاَ تُؤْتُوْنَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ‘۔ یعنی اُن کو تم وہ نہیں دیتے جو اُن کے لیے لکھا گیا ہے۔ یہ مہر اور عدل کی اُس شرط کی طرف اشارہ ہے جو اِس سورہ کی آیات ۳-۴ میں یتیموں کی ماؤں کے ساتھ نکاح میں بھی ضروری قرار دی گئی ہے۔

۲۰۱؎  اصل میں ’وَمَا یُتْلٰی عَلَیْْکُمْ فِی الْکِتٰبِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کا عطف ہمارے نزدیک ’فِیْھِنَّ‘ کی ضمیر مجرور پر ہے اور ’الکتٰب‘ سے مراد اِس جملے میں قرآن مجید ہے۔

۲۰۲؎  یہ وہ فتویٰ ہے جو لوگوں کے استفتا کے جواب میں ارشاد ہوا ہے۔ اِس کے لیے اصل میں ’وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کا معطوف علیہ اِس جملے میں محذوف ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہاں کلام میں کوئی ایسا لفظ موجود نہیں ہے جو ’وَاَنْ تَقُوْمُوْا‘ کا معطوف علیہ بن سکے۔ اِس وجہ سے لازماً یہاں محذوف ماننا پڑے گا اور یہ محذوف سیاق کلام کی روشنی میں معین کیا جائے گا۔ چنانچہ یہاں ’وَاَنْ تَقُوْمُوْا‘ سے پہلے یہ مضمون محذوف ہوگا کہ اِن عورتوں کو اِن کے مہر دو، اِن کے ساتھ عدل کا معاملہ کرو، پھر اِس کے اوپر ’وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ‘ کا عطف موزوں ہوگا۔ یعنی اور یتیموں کے لیے عدل کی حفاظت کرنے والے بنو۔ گویا فتوے میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ مہر اور عدل کی شرط جس طرح عام عورتوں کے معاملے میں ہے اُسی طرح یتیموں کی مائوں کے بارے میں بھی ہے اور آیت ’وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا‘ میں عورتوں کے ساتھ عدل کا اور آیت ’وَاٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِہِنََّّ‘ میں اداے مہر کا جو حکم ہے تو وہ یتیموں کی ماؤں سے متعلق ہی ہے، جن سے تم نکاح تو کرنا چاہتے ہو، لیکن مہر اور عدل کی ککھیڑ میں پڑنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ اِس طرح گویا قرآن نے آیات ۳-۴ کے اجمال کو کھول دیا اور اِس فتوے کے ذریعے سے اُن میں دیے ہوئے احکام کو مزید مؤکد کر دیا۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۳۹۷)      

۲۰۳؎  اصل میں ’نُشُوْز‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اگر مرد کی طرف سے ہو تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بیوی کو بیوی سمجھ کر اُس سے معاملہ کرنے سے انکار کر رہا ہے۔

۲۰۴؎  یہ عورت کو نصیحت فرمائی ہے کہ اگر اُسے اندیشہ ہو کہ بیویوں میں برابری کے حقوق پر اصرار کے نتیجے میں مرد اُس سے بے پروائی برتے گا یا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرے گا تو اِس میں حرج نہیں کہ دونوں مل کر آپس میں کوئی سمجھوتا کر لیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یعنی عورت اپنے حق مہر، عدل اور نان نفقے کے معاملے میں ایسی رعایتیں شوہر کو دے دے کہ قطع تعلق کا اندیشہ رفع ہو جائے۔ فرمایا کہ صلح اور سمجھوتے ہی میں بہتری ہے، اس لیے کہ میاں اور بیوی کا رشتہ ایک مرتبہ قائم ہو جانے کے بعد فریقین کی فلاح اِسی میں ہے کہ یہ قائم ہی رہے، اگرچہ اس کے لیے کتنا ہی ایثار کرنا پڑے۔ فرمایا کہ حرص طبائع کی عام بیماری ہے جو باہمی تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے اور اِس کا علاج یہی ہے کہ یاتو دونوں فریق ایثار پر آمادہ ہوں اور اگر ایک فریق کا مرض لاعلاج ہے تو دوسرا قربانی پر آمادہ ہو۔ غرض رشتۂ نکاح کو برقرار رکھنے کے لیے اگر عورت کو قربانی بھی دینی پڑے تو بہتری اُس کے برقرار رہنے ہی میں ہے۔ اس کے بعد ’وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا‘ کے الفاظ سے مرد کو اُبھارا ہے کہ ایثاروقربانی اور احسان و تقویٰ کا میدان اصلاً اُسی کے شایان شان ہے، وہ اپنی فتوت اور مردانگی کی لاج رکھے اور عورت سے لینے والا بننے کی بجائے اُس کو دینے والا بنے۔ اللہ ہر ایک کے ہر عمل سے باخبر ہے اور ہر نیکی کا وہ بھرپور صلہ دے گا۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۳۹۹)

۲۰۵؎  اصل الفاظ ہیں: ’وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ‘۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔’شُح‘ کے معنی بخل کے بھی ہیں اور حرص کے بھی۔ بخل تو یہ ہے کہ آدمی اداے حقوق میں تنگ دلی برتے۔ یہ چیز ہر حال میں مذموم ہے۔ لیکن حرص اچھی چیز کی بھی ہو سکتی ہے، بری چیز کی بھی، حد کے اندر بھی ہو سکتی ہے اور حد سے باہر بھی، اِس وجہ سے اِس کا اچھا اور بُرا ہونا ایک امراضافی ہے۔ اپنے اچھے پہلو کے اعتبار سے یہ انسانی فطرت کے اندر اپنا ایک مقام رکھتی ہے، لیکن اکثر طبائع پر اِس کا ایسا غلبہ ہو جاتا ہے کہ یہ ایک بیماری بن کے رہ جاتی ہے۔ ’اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُحَّ‘ میں اِس کے اِسی پہلو کی تعبیر ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۳۹۸)

۲۰۶؎  اِس سے واضح ہے کہ بیویوں کے درمیان جس عدل کا تقاضا قرآن نے کیا ہے، اُس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ظاہر کے برتائو اور دل کے لگائو میں کسی پہلو سے کوئی فرق باقی نہ رہے۔ اِس طرح کا عدل کسی کی طاقت میں نہیں ہے اور کوئی شخص یہ کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا۔ دل کے میلان پر آدمی کو اختیار نہیں ہوتا، لہٰذا قرآن کا تقاضا صرف یہ ہے کہ شوہر ایک بیوی کی طرف اِس طرح نہ جھک جائے کہ دوسری بالکل معلق ہو کر رہ جائے گویا کہ اُس کا کوئی شوہر نہیں ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ برتاؤ اور حقوق میں اپنی طرف سے توازن قائم رکھنے کی کوشش کرو، اگر کوئی حق تلفی یا کوتاہی ہو جائے تو فوراً تلافی کر کے اپنے رویے کی اصلاح کر لو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ تمھاری اِس کوشش کے باوجود اگر کوئی فروگزاشت ہو جاتی ہے تو اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

۲۰۷؎  مدعا یہ ہے کہ گھر بچانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کو یہی مطلوب ہے، لیکن اگر حالات مجبور کر دیتے ہیں اور علیحدگی ہو ہی جاتی ہے تو اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔ وہی رزق دینے والا ہے اور مصیبتوں اور تکلیفوں میں اپنے بندوں کا ہاتھ بھی وہی پکڑتا ہے۔ میاں اور بیوی، دونوں کو وہ اپنی عنایت سے مستغنی کر دے گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ اِس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے میاں اور بیوی دونوں سے ایثار اور کوشش تو مطلوب ہے لیکن یہ غیرت اور خودداری کی حفاظت کے ساتھ مطلوب ہے۔ میاں اور بیوی میں سے کسی کے لیے جس طرح اکڑنا جائز نہیں ہے، اِسی طرح ایک حد خاص سے زیادہ دبنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگرچہ الفاظ میں عمومیت ہے، لیکن سیاق کلام دلیل ہے کہ اِس میں عورتوں کی خاص طور پر حوصلہ افزائی ہے کہ وہ حتی الامکان نباہنے کی کوشش تو کریں اور مصالحت کے لیے ایثار بھی کریں لیکن یہ حوصلہ رکھیں کہ اگر کوشش کے باوجود نباہ کی صورت پیدا نہ ہوئی تو رزاق اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اپنے خزانۂ جُود سے اُن کو مستغنی کر دے گا۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۴۰۰)

۲۰۸؎  یعنی خدا تمھارے لیے کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو اِس لیے نہیں کہ اُس کو اِس کی احتیاج ہے، بلکہ اِس لیے کہ وہ حمید ہے اور اُس کی یہ صفت تقاضا کرتی ہے کہ بے نیاز ہونے کے باوجود تمام مخلوقات کو اپنے جودوکرم سے نوازتا رہے۔

۲۰۹؎  اس آیت میں حذف کا اسلوب ہے جسے ہم نے ترجمے میں کھول دیا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔عربی میں کلام کے دو متقابل اجزا میں سے بعض اجزا کو اِس طرح حذف کر دیتے ہیں کہ مذکور جزو، محذوف کی طرف خود اشارہ کر دیتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس آیت کے محذوفات کھول دیے جائیں تو تالیف کلام یہ ہوگی ’مَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا، وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ‘۔ پہلے میں سے ’فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا‘ کو حذف کر دیا اور دوسرے میں سے ’وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ‘ کو۔ اِس حذف کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا کہ مذکور ٹکڑے محذوف ٹکڑوں کی نشان دہی خود کر رہے ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۰۱)

[              باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B