HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

مومن اور منکر میں فرق کے بارے میں ایک روایت

روایت کا مضمون

مسند ابویعلیٰ، رقم۲۳۴۹ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل ہوا ہے:

عُرَی الْإِسْلَامِ وَقَوَاعِدُ الدِّیْنِ ثَلَاثَۃٌ عَلَیْہِنَ أُسِّسَ الْإِسْلَامُ مَنْ تَرَکَ مِنْہُنَّ وَاحِدَۃً فَہُوَ بِہَا کَافِرٌ حَلَالُ الدَّمِ شَہَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَالصَّلاَۃُ الْمَکْتُوْبَۃُ وَصَوْمُ رَمَضَانَ ثُمَّ قَالَ بْنُ عَبَّاسٍ تَجِدُہُ کَثِیْرَ الْمَالِ لَا یُزَکِّیْ فَلَا یَزَالُ بِذَاکَ کَافِرًا یَحِلُّ دَمُہُ وَتَجِدُہُ کَثِیْرَ الْمَالِ لَمْ یَحُجَّ فَلَا یَزَالُ بِذَاکَ کَافِرًا وَلَا یَحِلُّ دَمُہُ.
اسلام کے گوشے اور دین کے ستون تین ہیں جن پر اسلام کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔ جس نے ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑا تو وہ اس کی وجہ سے منکر ہے اور اس کاخون جائز ہے۔(پہلا یہ کہ) اس بات کی شہادت کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، (دوسرا یہ کہ) فرض نمازوں کو ادا کرنا اور (تیسرا یہ کہ) رمضان کے روزے رکھنا۔ پھر ابن عباس نے فرمایا: اگر تم کسی کوبہت مال دار پاؤ، مگر وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے تو وہ اس کی وجہ سے منکر ہے اور اس کا خون جائز ہے۔اور اگر تم اسے بہت مال دار پاؤ، مگر اس نے حج نہ کیاہوتووہ اس وجہ سے منکر تو ہے، مگر اس کا خون جائز نہ ہوگا۔

یہ روایت واضح کرتی ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہر مسلمان پر چند احکام کی پابندی لازم ہے۔اگر وہ ان پر عمل نہیں کرتا تو وہ مسلمان کے بجائے منکر شمار ہوگا۔ جن احکام کی پابندی ہرمسلمان پر لازم ہے، روایت کی رو سے وہ درج ذیل ہیں:

۱۔ اس بات کی شہادت کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔

۲۔ نماز کا اہتمام۔

۳۔ رمضان کے روزوں کا اہتمام۔

مزید براں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہوا ہے کہ انھوں نے اس فہرست میں درج ذیل دو مزید احکام کا اضافہ کیاہے:

۱۔مال دار شخص کازکوٰۃ ادا کرنا۔

۲۔مال دار شخص کا حج ادا کرنا۔

روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کی وحدانیت ، نماز کے قیام یا روزہ رکھنے سے انکار کرے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فرمان کی رو سے وہ اگر مال دار ہونے کے باوجود زکوٰۃ دینے سے انکار کر دے تو اس کوقتل کرناجائز ہوگا۔

مومن اور منکر میں فرق اور منکر کی سزا کے بارے میں قرآن کا حکم

قانون رسالت یعنی رسولوں کی طرف سے اپنے مخاطبین پر اتمام حجت کے بعد ان پر غلبے کے حوالے سے خدا ئی قانون کا اطلاق کرتے ہوے قرآن مجید نے حکم دیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین میں سے تمام مشرک لازماً ہلاک کیے جائیں گے، الاّ یہ کہ وہ اسلام قبول کریں،نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ قرآن مجید میں یہ حکم اس طرح بیان ہواہے:

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍفَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. (التوبہ ۹: ۵)
’’سو جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو، ان کو پکڑو، ان کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک لگاؤ۔ پس اگر یہ توبہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تب ان کی جان چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔‘‘

قانون کی نظر میں کسی شخص کو مسلمان قرار دینے کے لیے قرآ ن نے دو ہی شرائط بیان فرمائی ہیں اور وہ نماز کا قیام اورزکوٰۃ کی ادائیگی ہیں۔ نماز اور زکوٰۃ کے علاوہ دین کے کسی تیسرے حکم کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے، خواہ وہ کتنی ہی اہمیت کا حامل کیوں نہ ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روایت کی نسبت

زیر بحث روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی گئی ہے اگرچہ اس روایت کا ایک راوی اس بارے میں واضح نہیں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس روایت کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی تھی یانہیں ۔اس روایت کی سند کو بیان کرتے ہوئے ابن عبدالبر اپنی کتاب ’’الاستذکار‘‘ میں لکھتے ہیں:

حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مَالِکٍ النُّکْرِیُّ عَنْ أَبِی الْجَوْزَاءِ عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ حَمَّادٌ وَلَا أَظُنُّہُ إِلاَّ رَفَعَہُ قَالَ....(۳/ ۲۱۸)
’’اس روایت کوحماد ابن زید نے عمر بن مالک النکری سے اور انھوں نے ابی الجوزاء سے اور انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا حماد کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس روایت کی نسبت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا...۔‘‘

اس سے واضح ہوتاہے کہ اس بات پر اطمینان نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس روایت کی نسبت درست ہے۔

روایت پر تبصرہ

مذکورہ بالا بحث سے واضح ہے کہ یہ روایت اپنے مضمون اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کے پہلو سے قابل اعتماد نہیں ہے۔ اس روایت کو سند کے پہلو سے دیکھیں تو اس کا ایک راوی(حماد ابن زید)اس معاملے میں واضح نہیں ہے کہ یہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے یا اس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ ظاہر ہے، یہ بات اس روایت کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔دوسری طرف اس روایت کا متن قرآ ن مجید کے واضح احکامات سے متصادم ہے۔ روایت کے مطابق جو شخص رمضان کے روزے نہیں رکھتا اور حج کا فریضہ ادا نہیں کرتا وہ بھی نماز اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے شخص ہی کی طرح منکر ہے۔ یہ بات قرآن مجید کے بیان کردہ قانون پر اضافہ ہے جو بہرحال جائز نہیں ہے۔ مزید براں اس روایت کا مضمون کئی ایسی مستند اور مقبول روایات سے بھی متصادم ہے جن کے مطابق اسلام کے ستون تین کے بجائے پانچ ہیں۔

نتیجۂ بحث

زیر بحث روایت کے مذکورہ بالا ضعف کو جان لینے کے بعد یہ باور کرنا خاصا مشکل ہے کہ یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست منسوب ہوئی ہے۔ محسوس یہی ہوتاہے کہ بعض راویوں کی طرف سے روایت کے فہم میں کہیں کوتاہی ہوئی ہے۔

________________

B