HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

جھوٹی قسم کھانے، خود کشی کرنے، مومن پر لعنت کرنے اور اسے کافر کہنے کا انجام

رُوِیَ۱ عَنِ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَلَفَ بِمِلَّۃِ غَیْرِ الْإِسْلَامِ کَاذِبًا مُتَعَمِدًا۲ فَہُوَکَمَا قَالَ، إِنْ قَالَ إِنِّیْ یَہُوْدِیٌّ فَہُوَ یَہُوْدِیٌّ وَإِنْ قَالَ إِنِّیْ نَصْرَانِیٌّ فَہُوَ نَصْرَانِیٌّ وَإِنْ قَالَ إِنِّی مَجُوْسِیٌّ فَہُوَ مَجُوْسِیٌّ۳ وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِشَیْءٍ فِی الدُّنْیَا۴ عُذِّبَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۵ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ وَمَنْ لَّعَنَ مُؤْمِنًا فَہُوَ۶ کَقَتْلِہَ وَمَنْ رَمٰی مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ فَہُوَکَقَتْلِہِ.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے اسلام کے علاوہ کسی ملت پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی تو وہ اپنے قول ہی کے مطابق شمار ہو گا۔ اگر اس نے کہا کہ میں (فلاں کام کروں تو مسلمان نہیں، بلکہ)یہودی ہوں گا تو وہ یہودی ہی شمار ہو گا اور اگر کہا کہ میں نصرانی ہوں گا تو وہ نصرانی ہی شمار ہو گا اور اگر کہا کہ میں مجوسی ہوں گا تو وہ مجوسی ہی شمار ہو گا۔ اور جس نے دنیا میں اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا تو وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ میں اسی چیز کے ذریعے سے عذاب دیا جائے گا، اور جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو یہ بات اسے قتل کر دینے ہی کی مثل ہے، اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی تو یہ بات بھی اسے قتل کر دینے ہی کی مثل ہے۔۱


ترجمے کے حواشی

۱۔ اس حدیث میں چار باتیں بیان ہوئی ہیں:

پہلی یہ کہ اگر کوئی آدمی جان بوجھ کر یہ جھوٹی قسم کھاتا ہے کہ اگر اس نے فلاں کام ماضی میں کیا ہو یا وہ مستقبل میں کرے تو وہ مسلمان نہیں، بلکہ یہودی، نصرانی یا مجوسی شمار ہو تو ایسا شخص اپنی جھوٹی قسم کی وجہ سے اپنے اس قسم کھانے کے زمانے میں عنداللہ اپنے قول ہی کے مطابق شمار ہو گا۔ قسم کھانا دراصل، خدا کو اپنے عہد یا اپنی بات پر گواہ ٹھہرانا ہے، خدا پر سچا ایمان رکھنے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو کسی جھوٹے عہد یا جھوٹی بات پر لوگوں کے سامنے اپنا گواہ بنائے۔ اگر کوئی مسلمان ایسا کرتا ہے تو گویا اس کے ہاں خدا خوفی نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔

دوسری یہ کہ جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے دنیا میں قتل کیا، اسے قیامت کے دن جہنم کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔

اس دنیا میں انسان کی حیثیت خدا کے مملوک بندے کی ہے۔لہٰذا، نہ وہ اپنے جسم اور اپنی جان کا حقیقی مالک ہے اور نہ اسے ان پر ہر طرح کا اختیار حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا یہ جسم اور جان بھی دوسری بہت سی چیزوں کی طرح اللہ کی دی ہوئی وہ امانتیں ہیں، جن کے بارے میں قیامت کے دن اس سے سوال ہو گا۔ جس طرح کسی بھی امانت میں خیانت ممنوع ہے، اسی طرح اللہ کی دی ہوئی ان امانتوں میں خیانت کرنا یا انھیں سرے سے ضائع کر دینا بھی ممنوع ہے۔ چنانچہ انسان کے لیے اپنی جان بھی ایک محترم شے ہے۔ وہ جس طرح کسی دوسرے شخص کو قتل نہیں کر سکتا اسی طرح اپنے آپ کو بھی قتل نہیں کر سکتا۔ اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو قتل کرے گا تو اسے اس کی یہ سزا ملے گی کہ وہ جہنم کی آگ میں اپنے آپ کو اسی طریقے سے بار بار قتل کرتا رہے گا، جس طرح اس نے دنیا میں خود کو قتل کیا ہو گا۔ نعوذ باللہ من ذلک۔

تیسری یہ کہ جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو اس کی سنگینی اسے قتل کر دینے کی مثل ہے۔ کسی پر لعنت کرنے کا مطلب اس کے لیے خدا کی رحمت سے دوری کی بددعا کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی بددعا ہے۔ اس حدیث میں اس کی شناعت واضح کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ کسی مومن کے لیے یہ بددعا اتنی ہی ناگوار ہے، جتنا کہ اسے قتل کر دینا، چنانچہ خدا اس شخص کے ساتھ جو مومن کو یہ بددعا دے گا، اس کی شناعت کے مطابق معاملہ کرے گا۔

چوتھی یہ کہ جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی تو یہ بات بھی اسے قتل کر دینے ہی کی مثل ہے۔

سچے صاحب ایمان کے لیے ایمان اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کو سلامت رکھنے کے لیے اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ایسے شخص کو اگر کوئی آدمی کافر قرار دے یا اسے کفر کے ساتھ منسوب کرے تو اس کے اس قول سے گو اس کے ایمان کی نفی نہیں ہو جاتی، لیکن اس کے لیے اپنے ساتھ کفر کی نسبت اتنی ہی ناگوار ہوتی ہے جتنا کہ کسی شخص کا اس کو قتل کر دینا۔ چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس تہمت کے مجرموں کے ساتھ ان کے جرم کی شناعت کے مطابق ہی معاملہ کرے گا۔


متن کے حواشی

۱۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ بخاری کی روایت، رقم ۵۷۵۴ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ مضمون یا اس کے بعض حصے حسب ذیل ۲۵مقامات پر نقل ہوئے ہیں۔

بخاری، رقم ۵۷۰۰، ۱۲۹۷،۶۲۷۶؛ مسلم، رقم ۱۱۰(۳)؛ ابوداؤد، رقم ۳۲۵۷؛ ترمذی، رقم ۱۵۴۳؛ نسائی، رقم ۳۷۷۰، ۳۷۷۱، ۳۸۱۳؛ ابن ماجہ، رقم ۲۰۹۸؛ احمد بن حنبل، رقم ۱۶۴۳۲، ۱۶۴۳۳، ۱۶۴۳۴، ۱۶۴۳۶، ۱۶۴۳۷، ۱۶۴۳۸، ۱۶۴۳۹؛ ابن حبان، رقم ۴۳۶۶، ۴۳۶۷؛ بیہقی، رقم ۱۵۶۵۴، ۱۹۶۱۹؛ ابو یعلیٰ، رقم ۱۵۳۵، ۶۰۰۶۔

بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۵۷۰۰ ہی میں ’وَلَیْسَ عَلَی بْنِ آدَمَ نَذْرٌ فِیْمَا لَا یَمْلِکُ‘ (انسان پر اس چیز میں نذر نہیں ہے جس کا وہ مالک ہی نہ ہو) کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۱۰ میں ’وَلَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ نَذْرٌ فِیْ شَیْءٍ لَّا یَمْلِکُہُ‘ (انسان پر اس چیز میں نذر نہیں ہے جس کا وہ مالک ہی نہ ہو) کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۱۰ ہی کی دوسری سند میں ’وَلَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ نَذْرٌ فِیْمَا لَا یَمْلِکُ‘ (انسان پر اس چیز میں نذر نہیں ہے جس کا وہ مالک ہی نہ ہو) کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً ابوداؤد، رقم ۳۲۵۷ میں ’وَلَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ نَذْرٌ فِیْمَا لَا یَمْلِکُہُ ‘(انسان پر اس چیز میں نذر نہیں ہے جس کا وہ مالک ہی نہ ہو) کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۱۶۴۳۲ میں ’وَلَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ مُسْلِمٍ نَذْرٌ فِیْمَا لَا یَمْلِکُ‘ (کسی مسلمان پر اس چیز میں نذر نہیں ہے جس کا وہ مالک ہی نہ ہو)کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً بیہقی، رقم ۱۹۶۱۹ میں ’وَلَیْسَ عَلَی الْمُؤْمِنِ نَذْرٌ فِیْمَا لَا یَمْلِکُ‘ (کسی مومن پر اس چیز میں نذر نہیں ہے جس کا وہ مالک ہی نہ ہو) کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۵۷۰۰ میں ’بِمِلَّۃِ‘ (ملت پر) کے بجائے ’عَلٰی مِلَّۃِ‘ (ملت پر) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۵۷۵۴ میں ’مَنْ لَّعَنَ مُؤْمِنًا فَہُوَ‘ (جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو یہ چیز) کے بجائے ’لَعْنُ الْمُؤْمِنِ‘ (مومن پر لعنت کرنا) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۶۲۷۶ میں ’بِمِلَۃِ غَیْرِ الْإِسْلَامِ‘ (اسلام کے علاوہ کسی ملت پر) کے بجائے ’بِغَیْرِ مِلَّۃِ الْإِسْلَامِ‘ (ملت اسلام کے علاوہ) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۱۰ میں ’مَنْ حَلَفَ‘ (جس نے قسم اٹھائی) کے بجائے ’مَنْ حَلَفَ عَلٰی یَمِیْنٍ‘ (جس نے کوئی قسم اٹھائی) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۱۰ کی دوسری سند میں ’وَمَنِ ادَّعٰی دَعْوٰی کَاذِبَۃً لِیَتَکَثَّرَ بِہَا لَمْ یَزِدْہُ اللّٰہُ إِلَّا قِلَّۃً وَمَنْ حَلَفَ عَلٰی یَمِیْنِ صَبْرٍ فَاجِرَۃٍ‘ (جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے جھوٹا دعویٰ کرے گا، اللہ اسے قلت ہی میں بڑھائے گا، اور جس نے حاکم کے سامنے مسلمان کا مال دبانے کے لیے جھوٹی قسم کھائی) کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۱۰کی تیسری سند میں ’غَیْرِ‘(علاوہ) کے بجائے ’سِوَی‘ (سوا) کے الفاظ اور ’وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِشَیْءٍ فِی الدُّنْیَا عُذِّبَ بِہِ‘ (جس نے دنیا میں اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا، وہ اسی چیز کے ذریعے سے عذاب دیا جائے گا) کے بجائے ’مَنْ ذَبَحَ نَفْسَہُ بِشَیْءٍ ذُبِحَ بِہِ‘ (جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے ذبح کر دیا، وہ اسی چیز کے ذریعے سے ذبح کیا جائے گا) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً ابوداؤد، رقم ۳۲۵۷ میں ’مَنْ حَلَفَ بِمِلَّۃِ غَیْرِ الْإِسْلَامِ‘ (جس نے اسلام کے علاوہ کسی ملت پر قسم کھائی) کے بجائے ’مَنْ حَلَفَ بِمِلَّۃِ غَیْرِ مِلَّۃِ الْإِسْلَامِ‘(جس نے ملتِ اسلام کے علاوہ کسی ملت پر قسم کھائی)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۳۷۷۱میں ’یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ (قیامت کے دن) کے بجائے ’فِی الْآخِرَۃِ‘ (آخرت میں) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۱۶۴۳۳ میں ’عُذِّبَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ‘ (وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا) کے بجائے ’عَذَّبَہُ اللّٰہُ بِہِ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ‘ (اللہ جہنم کی آگ میں اسی چیز کے ذریعے سے اسے عذاب دے گا) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاًاحمد بن حنبل، رقم۱۶۴۳۷ میں ’مَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِشَیْءٍ فِی الدُّنْیَا عُذِّبَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ (جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے دنیا میں قتل کیا، وہ قیامت کے دن اسی چیز کے ذریعے سے عذاب دیا جائے گا)کے بجائے ’وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِشَیْءٍ أَوْ ذَبَحَ ذَبَحَہُ اللّٰہُ بِہِ‘ (جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا یا ذبح کیا، اللہ اسی چیز کے ذریعے سے اسے ذبح کرے گا) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۱۶۴۳۸ میں ’مَنْ رَمٰی مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ‘ (جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی)کے بجائے ’مَنْ شَہِدَ عَلٰی مُسْلِمٍ أَوْ قَالَ مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ‘ (جس نے کسی مسلمان کے یا کہا مومن کے کفر کی گواہی دی) کے الفاظ اور ’فَہُوَکَمَا قَالَ‘ (تو وہ اسی طرح ہو گا جیسے اس نے کہا) کے بجائے ’فَہُوَکَمَا حَلَفَ‘ (تو وہی ہو گا جس کی اس نے قسم کھائی) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۱۶۴۳۹ میں ’عُذِّبَ بِہِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ‘ (وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا) کے بجائے ’عَذَّبَہُ اللّٰہُ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ‘ (اللہ جہنم کی آگ میں اسے عذاب دے گا) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

۲۔’مُتَعَمِّدًا‘ کے الفاظ بخاری، رقم ۱۲۹۷ سے لیے گئے ہیں۔

۳۔’إِنْ قَالَ إِنِّیْ یَہُوْدِیٌّ فَہُوَ یَہُوْدِیٌّ وَإِنْ قَالَ إِنِّیْ نَصْرَانِیٌّ فَہُوَ نَصْرَانِیٌّ وَإِنْ قَالَ إِنِّیْ مَجُوْسِیٌّ فَہُوَ مَجُوْسِیٌّ‘ کے الفاظ ابو یعلیٰ، رقم ۶۰۰۶ سے لیے گئے ہیں۔

۴۔’فِی الدُّنْیَا‘ کے الفاظ بخاری، رقم ۵۷۰۰ سے لیے گئے ہیں۔

۵۔’یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ کے الفاظ بھی بخاری، رقم ۵۷۰۰ سے لیے گئے ہیں۔

۶۔’وَمَنْ لَّعَنَ مُؤْمِنًا فَہُوَ‘ کے الفاظ بھی بخاری، رقم ۵۷۰۰سے لیے گئے ہیں۔

_______________

B