HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

مردہ مچھلی کا گوشت

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ [اِلٰی سَیْفِ الْبَحْرِ۱ ]، نَتَلَقّٰی عِیْرًا لِقُرَیْشٍ، وَأَمَّرَ عَلَیْنَا أَبَا عُبَیْدَۃَ، وَزَوَّدْنَا جِرَابًا مِّنْ تَمْرٍ لَمْ یَجِدْ لَنَا غَیْرَہُ. [وَنَحْنُ ثَلَاثُمِاءَۃٍ،۲ ] [ وَأَنَا فِیْہِمْ،۳ ] [ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلٰی رِقَابِنَا.۴ ]
قَالَ: فَخَرَجْنَا، حَتّٰی إِذَا کُنَّا فِیْ بَعْضِ الطَّرِیْقِ فَنِیَ الزَّادُ، فَأَمَرَ أَبُوْ عُبَیْدَۃَ بِأَزْوَادِ ذٰلِکَ الْجَیْشِ، فَجُمِعَ ذٰلِکَ کُلُّہُ فَکَانَ مِزْوَدَیْ تَمْرٍ۵ ]. [فَکَانَ یُقَوِّتُنَا کُلَّ یَوْمٍ قَلِیْلاً قَلِیْلاً، حَتّٰی فَنِیَ وَلَمْ یُصِبْنَا إِلَّا تَمْرَۃٌ تَمْرَۃٌ،۶ ] قُلْتُ: کَیْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُوْنَ بِہَا؟ قَالَ: نَمَصُّہَا کَمَا یَمَصُّ الصَّبِیُّ ثُمَّ نَشْرَبُ عَلَیْہَا الْمَاءَ فَیَکْفِیْنَا یَوْمَنَا إِلَی اللَّیْلِ۷ .[وَجَدْنَا فَقْدَہُ فَجَعَلَ یَجِیْءُ الرَّجُلُ بِالشَّیْءِ۸ ].
قَالَ: وَانْطَلَقْنَا [حَتَّی انْتَہَیْنَا اِلَی الْبَحْرِ۸ ] [فَأَقَمْنَا بِالسَّاحِلِ نِصْفَ شَہْرٍ فَأَصَابَنَا جُوْعٌ شَدِیْدٌ حَتّٰی أَکَلْنَا الْخَبَطَ۹ ] وَکُنَّا نَضْرِبُ بِعِصِیِّنَا الْخَبَطَ [وَنَسَفُّہُ۱۰ ] ثُمَّ نَبُلُّہُ بِالْمَاءِ فَنَأْکُلُہُ [فَسُمِّیَ جَیْشُ الْخَبَطِ۱۱ ] فَرُفِعَ لَنَا عَلٰی سَاحِلِ الْبَحْرِ کَہَیْءَۃِ الْکَثِیْبِ الضَّخْمِ فَأَتَیْنَاہُ فَاِذَا ہِیَ دَابَّۃٌ تُدْعَی الْعَنْبَرُ. [لَمْ یُرَ مِثْلُہُ۱۲ ] قَالَ: قَالَ اَبُوْ عُبَیْدَۃَ: مَیْتَۃٌ، ثُمَّ قَالَ: لَا، بَلْ نَحْنُ رُسُلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَدِ اضْطُرِرْتُمْ فَکُلُوْا. [فَأَنَاخَ عَلَیْہِ الْعَسْکَرُ۱۳]
قَالَ: فَأَقَمْنَا عَلَیْہِ شَہْرًا۱۴ وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِاءَۃٍ حَتّٰی سَمِنَّا قَالَ وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا نَغْتَرِفُ مِنْ وَقْبِ عَیْنِہِ بِالْقِلَالِ الدُّہْنَ وَنَقْتَطِعُ مِنْہُ الْقِدَرَ کَالثَّوْرِ أَوْ کَقَدْرِ الثَّوْرِ فَلَقَدْ أَخَذَ مِنَّا أَبُوْ عُبَیْدَۃَ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ رَجُلاً فَأَقْعَدَہُمْ فِیْ وَقْبِ عَیْنِہِ وَأَخَذَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِہِ فَأَقَامَہَا ثُمَّ رَحَلَ أَعْظَمَ بَعِیْرٍ مَعَنَا فَمَرَّ مِنْ تَحْتِہَا وَتَزَوَّدْنَا مِنْ لَحْمِہِ وَشَاءِقَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِیْنَۃَ أَتَیْنَا رَسْوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْنَا ذٰلِکَ لَہُ. فَقَالَ: ہُوَ رِزْقٌ أَخْرَجَہُ اللّٰہُ لَکُمْ فَہَلْ مَعَکُمْ مِنْ لَحْمِہِ شَیْءٌ فَتُطْعِمُوْنَا قَالَ فَأَرْسَلْنَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ فَأَکَلَہُ.(مسلم، رقم ۱۹۳۵)
حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سیف البحر کی طرف، قریش کے ایک قافلے کی جاسوسی۱ کے لیے روانہ فرمایا اور ابو عبیدہ بن الجراح کو ہمارا سالار مقرر کیا۔ کھجوروں کی ایک بوری بطور زاد راہ کے ساتھ دی، اس لیے کہ ہمیں دینے کے لیے اور کچھ میسر نہیں تھا جبکہ ہماری تعداد تین سو تھی۔ میں بھی اس قافلہ میں تھا۔ہم نے اپنا اپنا سامان اپنے سروں پر اٹھایا ہوا تھا۔
انھوں نے کہا: ہم چل پڑے اور راستے ہی میں زاد راہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد ابو عبیدہ نے کہا کہ لشکر کے لوگ اپنا ذاتی زاد سفر جمع کرادیں۔زاد راہ سارا اکٹھا کیا گیا تو وہ دوبوریوں کے برابر تھا۔ چنانچہ ابو عبیدہ ہمیں روز تھوڑا تھوڑا زادراہ دیتے تھے، یہاں تک کہ یہ سامان بھی ختم ہو گیا اور ہمیں روزانہ بس ایک ایک کھجور کھانے کو ملتی۔ (ایک سامع نے کہا:) میں نے (حضرتِ جابر سے) کہا:آپ اتنی کم غذا پر کیسے گزار اکرتے تھے؟ انھوں نے کہا: ہم اس کھجور کو ایسے ہی چوستے جیسے کوئی بچہ چوستا ہے۔ پھر اس پر پانی پی لیتے تویہ ایک دن کے لیے رات تک ہمارے لیے کفایت کرتی تھی۔
پھر انھوں نے کہا کہ ہم چلتے رہے، یہاں تک کہ سمندر کے کنارے جا پہنچے، ہم نے وہاں ساحل پر نصف ماہ تک قیا م کیا، چنانچہ ہمیں شدید بھوک کا سامنا رہا، یہاں تک کہ ہم نے درختوں کے پتے جھاڑ جھاڑ کر کھائے۔ وہ اس طرح کہ ہم لاٹھیوں سے پتوں کو مارتے پھران کی مٹی جھاڑ کر انھیں پانی میں بھگو کر کھا لیتے۔ اس عمل کی وجہ سے اس لشکر کانام بعد میں جیش الخبط (یعنی پتے کھانے والا لشکر پڑ گیا)۔ پھر ہمارے لیے ساحل سمندر پرایک بڑے سے ڈھیر کی صورت میں کوئی چیز ظاہر کی گئی۔ تو ہم اس کے پا س آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی سمندری جانور ہے جسے عنبر ۲ کہتے ہیں، ایسی مچھلی پہلے نہ دیکھی تھی۔ (راوی نے) کہا کہ ابوعبیدہ نے پہلے تو یہ رائے قائم کی کہ یہ مردار ہے (اس لیے اسے مت کھاؤ)۔ پھر اس رائے تک پہنچے کہ نہیں، بلکہ صورت حال یہ ہے کہ (ہم مجبور ہیں اور ) اللہ کے رسول کے بھیجے ہوئے ہیں، اور راہ خدا میں نکلے ہیں، اس لیے (ہمیں فرمایا)چونکہ تم حالت مجبوری میں ہو، اس لیے تم یہ کھاسکتے ہو۔۳ سو اس مچھلی کے گوشت پر (انحصار کرتے ہوئے) لشکر کو وہیں پڑاؤ کرایا۔
انھوں نے بتایا: پھر ہم اس مچھلی کے سہارے ایک ماہ تک وہاں قیام پذیر رہے۔ ہماری تعداد تین سو تھی۔ (ہم اسے کھاتے رہے )حتی کہ ہماری صحتیں اچھی ہو گئیں۔پھر انھوں نے کہا کہ تم ہمیں دیکھتے کہ ہم اس کی آنکھ کے سوراخ میں سے ایک لکڑی کے ذریعے سے چکنائی سی (بطور گھی کے) نکال لیتے اور ایک بیل کے بقدر اس سے گوشت اتار لیتے تھے۔ ابو عبیدہ نے ہم میں سے تیرہ لوگوں کو لیا اور انھیں اس کی آنکھ کی کھوہ میں بٹھایا۔ اسی طرح اس کی پسلی کا کانٹا سا لیا اور اسے زمین میں نصب کیا تو ہم میں سے سب سے اونچے اونٹ سوار کو اونٹ پر سوار کرایا۔ تو وہ اس کانٹے کے نیچے سے آرام سے گزر گیا۔۴
ہم نے (واپسی پر) اس کے کچھ خشک پارچہ جات کو زاد راہ کے طور پر ہمراہ رکھ لیا۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور ان سے اس (آبی جانور عنبر) کا ذکر کیا۔ (آپ نے سارا ماجرا سن کر )فرمایا: یہ رزق تھا ، جو اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لیے نکالا۔ کیا تم لوگوں کے پاس ابھی اس کا کچھ گوشت ہے، (اگر ہے تو )ہمیں بھی دو۔ صحابی کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کو یہ گوشت بھیجا اور آپ نے تناول فرمایا۔ ۵
ترجمے کے حواشی

۱۔ ہم نے یہاں ترجمہ میں جاسوسی کا لفظ استعمال کیا ہے، جبکہ متن میں ’نَتَلَقّٰی‘ ہے جس کے معنی مڈبھیڑ یا ملنے کے ہوں گے، دراصل بہت سی روایتوں میں ’نَرْصُدُ‘ کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ٹوہ میں رہنے کے ہیں۔ مثلاً دیکھیے بخاری، رقم ۴۱۰۳۔

۲۔عنبر ایک بڑی مچھلی ہے، جسے انگریزی میں Amberwhale کہتے ہیں۔ غالباً اس نام کا ابتدائی حصہ ’amber‘ بھی عربی زبان کے لفظ ’عنبر‘ ہی سے انگریزی میں آیا ہے۔عنبر ایک مواد سا ہے جو اس مچھلی سے نکلتا ہے۔

۳۔ابو عبیدہ اور ان کے ہمراہ دیگر صحابہ رضوان اللہ اجمعین ’میتۃ‘ کے اس استثنا سے واقف نہ تھے ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے ۔ لہٰذا انھوں اضطرار کے اصول پر اس ’میتۃ‘ کو کھانے کا اجتہاد کیا۔آپ نے ’میتۃ‘ میں سے مردار مچھلی کو مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔آپ نے یہ استثنا ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’أُحِلَّتْ لَنَا مَیْتَتَانِ: الْحُوْتُ وَالْجَرَادُ‘ (ہمارے لیے دو ’میتۃ‘ [مردار] حلال ہیں: ایک مچھلی دوسرے ٹڈی (ابن ماجہ، رقم۳۲۱۸)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب جب ’میتۃ‘ بولتے ہیں تو اس لفظ کے عموم میں مچھلی شامل نہیں ہوتی۔ یہ زبانوں کا عام اصول ہے کہ حقیقت میں ایک جیسا ہونے کے باوجود دو چیزوں کے لیے الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلاً جب ہم اردو میں یہ کہتے ہیں کہ ’میں گوشت کھا کرآیا ہوں تو باوجود گوشت ہونے کے مرغی اور مچھلی اس میں شامل نہیں ہوتے۔مچھلی اور ٹڈی کے ’میتۃ‘ ہونے کے باوجود حلت کی وجہ ہم احادیث کی پچھلی توضیحات میں عرض کرچکے ہیں کہ ان دونوں میں سرخ خون نہیں ہوتا،جسے دم مسفوح کا نام دے کر حرام کیا گیا ہے۔

۴۔اس پیرا گراف میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ محض اس مچھلی کے حجم اور کمیت کو بیان کرنے کے لیے اور جاننے کے لیے کیا گیا ۔

۵۔یعنی انھوں نے اس ’میتۃ‘ کو کھانے کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کی تصدیق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہو گئی۔ البتہ چونکہ آپ اسے مجبوری کی وجہ سے نہیں، بلکہ ’میتۃ‘ کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے حلال سمجھتے تھے، اس لیے آپ نے مدینہ میں ہوتے ہوئے اور کسی مجبوری کے بغیر بھی اس مچھلی کا گوشت کھایا۔

متن کے حواشی

۱۔ یہ اضافہ صحیح مسلم، رقم ۱۹۳۵کے تحت دوسری روایت سے کیا گیا ہے۔

۲۔ یہ اضافہ سنن الکبریٰ، رقم ۴۸۹۳ سے کیا گیا ہے۔

۳۔ یہ اضافہ موطا امام مالک، رقم ۱۶۶۲ سے کیا گیا ہے۔

۴۔ یہ اضافہ سنن الکبریٰ، رقم ۴۸۹۳ سے کیا گیا ہے۔

۵۔ یہ اضافہ موطا امام مالک، رقم ۱۶۶۲ سے کیا گیا ہے۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زاد سفر راستے ہی میں ختم ہو گیا تھا اور کچھ سے معلوم ہوتا ہے کہ ساحل سمندر پر نصف ماہ قیام کے دوران میں ختم ہوا۔جیسا کہ صحیح مسلم، رقم ۱۹۳۵ کے تحت آنے والی ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں: ’فَأَقَمْنَا بِالسَّاحِلِ نِصْفَ شَہْرٍ فَأَصَابَنَا جُوْعٌ شَدِیْدٌ...‘ (پھر ہم ساحل پر نصف ماہ تک مقیم رہے توہمیں شدید بھوک نے آ لیا...)

کچھ روایتوں سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ پہلے دن ہی سے زاد سفر تھوڑا ہونے کے سبب سے ایک ایک کھجور ملتی تھی مثلاً دیکھیے: مسلم، رقم ۱۹۳۵۔

بَعَثَنَارَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَمَّ وَأَمَّرَ عَلَیْنَا أَبَا عُبَیْدَۃَ نَتَلَقّٰی عِیْرًا لِقُرَیْشٍ وَزَوَّدْنَا جِرَابًا مِّنْ تَمْرٍ لَمْ یَجِدْ لَنَا غَیْرَہُ فَکَانَ أَبُوْ عُبَیْدَۃَ یُعْطِیْنَا تَمْرَۃً تَمْرَۃً...
’’ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں بھیجا، اور ہمارے اوپر ابو عبیدہ کو سالار مقرر کیاکہ ہم قریش کے قافلے پر نگاہ رکھیں، ہمیں اس کے لیے ایک بوری کھجور کی بطور زاد راہ کے دی، اس سے زیادہ ہمیں دینے کے لیے ان کے پاس نہیں تھا۔چنانچہ ابو عبیدہ ہمیں ایک ایک کھجور دیتے تھے۔‘‘

۶۔ یہ اضافہ صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۶۲ سے کیا گیا ہے۔

روزانہ ایک ایک کھجور ملنے کے اس تذکرہ کے بعد جو سوال جواب نقل ہوئے ہیں کہ ایک آدمی کی ایک کھجور پر کیسے گزر ہوتی تھی؟ اس کے ضمن میں ایک جواب یہ بھی ہے: ’لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَہَا حِیْنَ فَقَدْنَاہَا‘ (ترمذی ،رقم ۲۱۷۵) ’’ہم نے جب کھجور کو ختم ہوتے ہوئے دیکھا تو یہ خیال کیا کہ کہیں بالکل ہی ختم نہ ہو جائے‘‘۔ یعنی کفایت کرنے کا تو سوال ہی نہیں تھا، ہماری پریشانی یہ تھی کہ کہیں سب کچھ ہی ختم نہ ہو جائے اور حوصلہ برقرار رکھنے کے لیے منہ میں رکھنے کے لیے کچھ بھی باقی نہ رہے ۔مسنداحمد ۱۵۷۳۰ میں یہ جواب زیادہ واضح الفاظ میں رقم ہوا ہے: ’قَالَ لَا تَقُلْ ذٰلِکَ یَا بُنَیَّ، فَبَعْدَ أَنْ فَقَدْنَاہَا، فَاخْتَلَلْنَا اِلَیْہَا‘، ’’میرے بچے ایسا مت کہو، اس لیے کہ جب زاد راہ ختم ہونے کو ہوا تو ہم بس ایسا کرنے پر مجبور تھے۔‘‘

۷۔یہ اضافہ صحیح مسلم، رقم ۱۹۳۵ اورمسند احمد، رقم ۱۴۳۷۷ سے کیا گیا ہے۔

۸۔یہ اضافہ موطا امام مالک، رقم ۱۶۶۲ سے کیا گیا ہے۔

۹۔یہ اضافہ بھی مسلم کی روایت ۱۹۳۵ کے تحت ایک روایت سے کیا گیا ہے۔ مسلم کی اسی رقم کے تحت ایک روایت میں یہ ہے کہ پتے کھانے کا عمل ساحل پر قیام کے دوران میں ہوا اور دوسری میں ہے کہ راستے میں ہوا۔

۱۰۔یہ اضافہ النسائی، رقم ۴۳۵۴سے کیا گیا ہے ۔

۱۱۔یہ اضافہ صحیح بخاری، رقم ۴۱۰۳سے کیا گیا ہے۔

۱۲۔یہ اضافہ بخاری، رقم ۵۱۷۴سے کیا گیا ہے۔

۱۳۔یہ اضافہ سنن بیہقی الکبریٰ، رقم ۱۸۷۴۳سے کیا گیا ہے۔

۱۴۔ایک اور روایت (ابی یعلیٰ، رقم ۱۷۸۶) میں ۲۵ دن کا ذکر ہے، اس عرصہ کی تائیدابوداؤد کی روایت ۳۸۴۰ سے بھی ہوتی ہے جس کے الفا ظ ہیں: ’فَأَقَمْنَا عَلَیْہِ شَہْرًا‘، (ہم نے اس پر ایک ماہ کا وقت گزارا)۔ بعض روایتوں میں دنوں کی تعداد کم آئی ہے، جیسے بخاری، رقم ۲۸۲۱، ترمذی،رقم ۲۴۷۵، النسائی، رقم ۴۳۵۱، ابن ماجہ، رقم ۴۱۵۹، السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۶۳ میں ہے کہ اٹھارہ دن۔ اس کے الفاظ یوں ہیں: ’فَأَکَلْنَا مِنْہُ ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ یَوْمًا‘ (تو اس سے ہم اٹھارہ دن تک کھاتے رہے)۔ بخاری، رقم ۴۱۰۳، ۴۱۰۴، ۵۱۷۴، مسند احمد، رقم ۱۴۳۵۴، ۱۴۳۵۵، ابن حبان، رقم ۵۲۵۹، السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۶۴، البیہقی الکبریٰ، رقم۱۸۷۳۸، ۱۸۷۴۰، ابی یعلیٰ، رقم۱۹۵۵، مسند ابی الجعد، رقم ۱۲۴۲ سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے، اس میں ’نِصْفَ شَہْرٍ‘ آدھا مہینا کے الفاظ آئے ہیں۔

بخاری کی ایک روایت میں ایک صاحب کے اونٹوں کے ذبح کرنے کا ذکر بھی ہے ۔ وہ روزانہ تین اونٹ ذبح کرتے تھے۔ کئی دن تک ایسا کرنے کے بعد ان کو روک دیا گیا:

قَالَ جَابِرٌ وَکَانَ رَجُلٌ مِّنَ ا لْقَوْمِ نَحَرَ ثَلاَثَ جَزَاءِرَ ثُمَّ نَحَرَ ثَلاَثَ جَزَاءِرَ ثُمَّ نَحَرَ ثَلاَثَ جَزَاءِرَ ثُمَّ إِنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ نَہَاہُ وَکَانَ عَمْرٌو یَقُوْلُ أَخْبَرَنَا أَبُوْ صَالِحٍ أَنَّ قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ قَالَ لِأَبِیْہِ کُنْتُ فِی الْجَیْشِ فَجَاعُوْا قَالَ انْحَرْ قَالَ نَحَرْتُ قَالَ ثُمَّ جَاعُوْا قُلْتُ انْحَرْ قَالَ نَحَرْتُ قَالَ ثُمَّ جَاعُوْا قَالَ انْحَرْ قَالَ نَحَرْتُ ثُمَّ جَاعُوْا قَالَ انْحَرْ قَالَ نُہِیْتُ. (بخاری، رقم ۴۱۰۳)
’’حضرت جابر کہتے ہیں کہ لشکریوں میں سے ایک آدمی نے تین اونٹ ذبح کیے، پھر دوسرے دن تین ذبح کیے ، پھر تیسرے دن بھی کیے، مگر(چوتھے دن) ابوعبیدہ نے اسے روک دیا۔( اسی طرح کی بات وہ ہے )جو عمرو نے بیان کی کہ ہمیں ابو صالح نے خبر دی کہ قیس بن سعد نے اپنے ابا کو بتایا کہ میں بھی لشکر کے ساتھ تھا تو جب لوگوں کو بھوک نے ستایا تو انھوں نے (اسی آدمی سے) کہا (جو مذکورہ تین تین اونٹ ذبح کرتا تھا کہ) تم اونٹ ذبح کرو۔ تو اس آدمی نے کہا: میں نے کر دیے۔ پھر بھوک نے ستایا تو انھوں نے پھر کہا کہ ذبح کرو۔ اس آدمی نے کہا: میں نے ذبح کر دیے۔ پھر بھوک کا وہی معاملہ ہوا۔ تو انھوں نے پھر کہا کہ ذبح کرو۔ تو اس آدمی نے کہا: جی کر دیے پھر بھوک کا معاملہ ہوا۔ تو انھوں نے پھر کہا کہ ذبح کرو۔ تو اس نے عرض کی کہ میں روک دیا گیا ہوں۔‘‘

اگرچہ روایت کا یہ ٹکڑا مچھلی کے بعد ذکر کیا گیا ہے، مگر بخاری کی اس روایت سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ کب کی بات ہے،مچھلی ملنے سے پہلے یا بعدکی۔اگر مچھلی کے بعد مانیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر واپسی پر اسی مچھلی کے زاد راہ بنانے کا قصہ کیاہوا۔ اسی طرح یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ اونٹ کہاں سے آئے؟ اس لیے کہ قصہ کے آغاز ہی میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے اپنا زاد راہ اپنے سروں پر اٹھایا ہوا تھا۔ بہرحال یہ اس قصے کا اہم حصہ ہے کہ اس لشکر کے پاس کچھ اونٹ بھی تھے۔مسند احمد، رقم ۱۴۳۵۴ میں بھی یہ اسی محل یعنی مچھلی کے واقعہ کے بعد بیان ہوا ہے۔ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے عنبر کے ملنے سے پہلے مانا جائے۔

 _______________

B