HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

یمن، ربیعہ اور مضر کے خصائص

(مسلم ،رقم ۵۱۔۵۲)

عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ قَالَ: أَشَارَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ نَحْوَ الْیَمَنِ. فَقَالَ: أَلَا إِنَّ الْاِیْمَانَ ہٰہُنَا. وَإِنَّ الْقَسْوَۃَ وَغِلَظَ الْقُلُوْبِِ فِی الْفَدَّادِیْنَ عِنْدَ أُصُوْلِ أَذْنَابِ الْاِبِلِ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنَا الشَّیْطَانِ فِی رَبِیْعَۃَ وَمُضَرَ.
’’حضرت ابو مسعود (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اشارہ کیا۔ پھر فرمایا: سنو، ایمان وہاں ہے۔ دلوں کی قساوت اور سختی ان چرواہوں میں ہے جو اونٹوں کی دموں کے پاس چلاتے رہتے ہیں، جیسے کہ شیطان کے دو سینگ ربیعہ اور مضر میں طلوع ہوتے ہیں۔‘‘
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جَآءَ أَہْلُ الْیَمَنِ. ہُمْ أَرَقُّ أَفْءِدَۃً. الِْایْمَانُ یَمَانٍ وَالْفِقْہُ یَمَانٍ وَالْحِکْمَۃُ یَمَانِیَۃٌ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل یمن آئے ہیں، یہ دل کے نرم ہیں۔ ایمان یمنی ہے۔ فقہ یمنی ہے۔ حکمت یمنی ہے۔‘‘
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَتاَکُمْ أَہْلُ الْیَمَنِ. ہُمْ أَضْعَفُ قُلُوْبًا وَأَرَقُّ أَفْءِدَۃً. اَلْفِقْہُ یَمَانٍ. وَالْحِکْمَۃُ یَمَانِیَۃٌ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے پاس اہل یمن آئے ہیں۔ ان کی طبع نازک اور یہ دل کے نرم ہیں۔ فقہ یمنی ہے۔ حکمت یمنی ہے۔‘‘
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَأْسُ الْکُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَالْفَخْرُ وَالْخُیَلَاءُ فِی أَہْلِ الْخَیْلِ وَالْاِبِلِ الْفَدَّادِیْنَ أَہْلِ الْوَبَرِ. وَالسَّکِیْنَۃُ فِی أَہْلِ الْغَنَمِ.
َٖ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کفر کی جڑ مشرق کی جانب ہے ۔ تکبر اور غرور ہانکا لگانے والے اور خیموں میں رہنے والے اونٹوں اور گھوڑوں والوں میں ہے۔ سکینت بکریوں والوں میں ہے۔‘‘
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلْاِیْمَانُ یَمَانٍ. وَالْکُفْرُ قِبَلَ الْمَشْرِقِ. وَالسَّکِیْنَۃُ فِی أَہْلِ الْغَنَمِ. وَالْفَخْرُ وَالرِّیَاءُ فِی الْفَدَّادِیْنَ أَہْلِ الْخَیْلِ وَالْوَبَرِ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یمنی ہے۔ کفر مشرق کی جانب ہے۔ سکینت بکریوں والوں میں ہے۔ تکبر اور دکھاوا ہانکا لگانے والے خیموں میں رہنے والے اونٹوں والوں میں ہے۔‘‘
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: اَلْفَخْرُ وَالْخُیَلَاءُ فِی الْفَدَّادِیْنَ أَہْلِ الْوَبَرِ. وَالسَّکِیْنَۃُ فِی أَہْلِ الْغَنَمِ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کہتے ہوئے سنا ہے: غرور وتکبر اونٹوں کے پیچھے چلانے والے، خیموں میں رہنے والوں میں ہے اور سکینت بکریوں والوں میں ہے۔‘‘
عَنِ الزُّہْرِیِّ بِہٰذَا الْاِسْنَادِ مِثْلَہُ وَزَادَ الْاِیْمَانُ یَمَانٍ وَالْحِکْمَۃُ یَمَانِیَۃٌ.
’’زہری اسی سند سے یہی روایت اس اضافے کے ساتھ کرتے ہیں: ایمان یمنی ہے۔ حکمت یمنی ہے۔‘‘
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: جَآءَ أَہْلُ الْیَمَنِ ہُمْ أَرَقُّ أَفْءِدَۃً وَأَضْعَفُ قُلُوْباً. اَلْاِیْمَانُ یَمَانٍ وَالْحِکْمَۃُ یَمَانِیَۃٌ. اَلسَّکِیْنَۃُ فِی أَہْلِ الْغَنَمِ وَالْفَخْرُ وَالْخُیَلَاءُ فِی الْفَدَّادِیْنَ أَہْلِ الْوَبَرِ قِبَلَ مَطْلَعِ الشَّمْسِ.
’’حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: اہل یمن آئے ہیں۔ یہ دل کے نرم اور ان کی طبع نازک ہے۔ ایمان یمنی ہے۔ حکمت یمنی ہے۔ سکینت بکریوں والوں میں ہے۔ تکبر اور غرور خیموں میں رہنے والے، اونٹوں کے پیچھے چلانے والوں میں ہے، جو سورج کے طلوع ہونے کی سمت میں رہتے ہیں۔‘‘
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَاکُمْ أَہْلُ الْیَمَنِ. ہُمْ أَلْیَنُ قُلُوْبًا وَأَرَقُّ أَفْءِدَۃً. الْاِیْمَانُ یَمَانٍ وَالْحِکْمَۃُ یَمَانِیَۃٌ. رَأْسُ الْکُفْرِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ.
’’حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے پاس اہل یمن آئے ہیں۔ یہ دل کے نرم اور طبع کے نازک ہیں۔ ایمان یمنی ہے۔ حکمت یمنی ہے۔ کفر کا مرکز مشرق کی جانب ہے۔‘‘
لغوی مباحث

الْقَسْوَۃَ وَغِلَظَ الْقُلُوْبِ‘: ’قسوۃ‘ اور ’غلظ‘ کم وبیش ہم معنی ہیں۔ ’قسوۃ‘، ’لین‘(نرمی)کا ضد ہے۔ عربی میں اشیا کی سختی کو بیان کرنے کے لیے ’قسوۃ‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ’غلظ‘ ، ’رقۃ‘ (باریک) کا ضد ہے۔ یہ اشیا کے موٹے اور گاڑھے ہونے کے پہلوکو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ معنوی پہلو سے ’قسوۃ‘ اور ’غلظ‘ کے الفاظ دل کی نصیحت پذیری اور شفقت ورافت سے محرومی کو بیان کرنے کے لیے آتے ہیں۔

الْفَدَّادِیْنَ‘:’فداد‘ کی جمع ہے۔ ’فداد‘ کا لفظ کئی معنی میں آتا ہے۔ متکبر، بہت چلانے والا، بہت روندنے والا، اور سینکڑوں ہزاروں اونٹوں کا مالک۔ اس روایت میں یہ دوسرے معنی میں آیا ہے۔ اگرچہ متکبر اور اونٹوں کے مالک سے بھی روایات کا ترجمہ ہو جاتا ہے، لیکن ایک روایت کے متن میں ’عند أصول أذناب الإبل‘کی تصریح سے واضح ہو جاتا ہے کہ متکلم کا منشا کیا ہے۔ مزید برآں یہ معنی لینے میں کوئی تکلف بھی نہیں ہے۔

أفئدۃ‘ اور’ القلب‘:’أفئدۃ‘،’فؤاد‘ کی جمع ہے۔ ’فؤاد‘ اور ’قلب‘ بھی ہم معنی ہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت میں دونوں لفظ بالکل مترادف کی حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں۔ سورۂ قصص (۲۸)کی آیت ۱۰ میں ہے: ’وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰی فٰرِغًا، اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْلَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِہَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘، (اور موسیٰ کی ماں کا دل بالکل بے چین ہو گیا۔ قریب تھا کہ وہ اس راز کو ظاہر کر دیتی، اگر ہم اس کے دل کو نہ سنبھالتے کہ وہ اہل ایمان میں سے بنی رہے)۔ آیت میں پہلے ’فؤاد‘ آیا ہے اور بعد میں ’قلب‘ آیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے ترجمے میں دونوں کے لیے دل ہی کا لفظ اختیار کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اردو کے لفظ ’جی‘ اور ’دل‘ کی طرح یہ مترادف بھی ہیں اور ان کے محل استعمال میں فرق بھی ہے۔ بعض شارحین کے نزدیک ’فؤاد‘ جذبات کے پہلو کو اور ’قلب‘عقل کے پہلو کو لیے ہوئے ہوتا ہے۔ بعض کے نزدیک ’قلب‘ عموم پر ہے اور ’فؤاد‘، ’قلب‘ کی گہرائی کے لیے آتا ہے۔

اَلْفِقْہُ‘ اور ’الْحِکْمَۃُ‘:’فقہ‘ کا لفظ سمجھ اور ’حکمۃ‘ کا لفظ دانائی کے معنی میں آتا ہے۔ بعد میں شریعت کے فروع واطلاق کے علم کو فقہ کہا جانے لگا۔ لغوی اعتبار سے ’فقہ‘ انسان کی فہم کی صلاحیت کا نام ہے اور حکمت اس صلاحیت کے حاصلات کا نام ہے۔ یہ حاصلات ہر معاشرے میں تجربات کے نتائج، اقدار اور اخلاقی اصولوں کی صورت میں موجود رہتے ہیں۔جنھیں صحیح محل میں برتنے کو حکمت کہا جاتا ہے۔

أَہْلِ الْوَبَرِ‘:’وبر‘ اونٹ کے بالوں کے لیے آتا ہے۔ ’اہل الوبر‘ کی تعبیر خیموں میں رہنے والے خانہ بدوش قبائل کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔

الْفَخْرُ وَالْخُیَلَاءُ‘:’فخر‘ کا لفظ دنیا کی نعمتوں دولت، حسن، اقتدار اور علم وغیرہ کے حاصل ہونے پر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور ان پر اترانے کے لیے آتا ہے۔ ’خیلاء‘ کا لفظ تکبر کے معنی میں آتا ہے۔ اس میں اپنی بڑائی کے خیال کے ساتھ دوسروں کی تذلیل اور تحقیر کا جذبہ بھی شامل ہوتا ہے۔

اَلسَّکِیْنَۃُ‘: سکینت کا لفظ وقار اور سکون کے معنی میں آتا ہے۔ یہ تھڑدلے پن اور بے صبری کی نفی پر دلالت کرتا ہے۔

الضعف‘:’ضعف‘ کا اردو مترادف کمزوری ہے۔ اردو میں دل کے لیے کمزوری کا لفظ مثبت معنی نہیں رکھتا، لیکن عربی میں یہ لفظ دل کی نرمی کو تعبیر کرنے کے لیے آیا ہے، جو ایک مثبت چیز ہے۔

الرقۃ‘:’رقۃ‘ کے معنی کسی چیز کے پتلے یا باریک ہونے کے ہیں۔ حدیث میں یہ لفظ بھی نرمی ہی کے معنی میں آیا ہے۔

حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنَا الشَّیْطَانِ‘:’’جہاں شیطان کے دو سینگ طلوع ہوتے ہیں۔‘‘ مشرق کے لیے یہ تعبیر سورج پرستوں کی مناسبت سے استعمال کی گئی ہے، اس لیے کہ وہ اس موقع پر سورج کی پرستش کرتے تھے۔

ربیعۃ و مضر‘:یہ مشرق میں رہنے والے دو قبائل کے نام ہیں۔ معد بن نزار بن عدنان کے دو بیٹوں کے نام ہیں۔ یہ نجد کا علاقہ ہے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ کی دعوت کی شدید مخالفت کی تھی۔

معنی

اس روایت میں اہل یمن کے بعض محاسن بیان کیے گئے ہیں۔ اسی طرح اہل مشرق یعنی مضر اور ربیعہ کے خانہ بدوش قبائل کی مذمت کی گئی ہے۔ اس روایت کے مختلف متون کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے پس منظر میں دعوت کی مخالفت اور موافقت کے رویے ہیں۔ اس سے آپ کی ہر گز مراد یہ نہیں ہے کہ تمام اہل یمن بغیر کسی استثنا کے اہل خیر ہیں اور مشرق کے مذکورہ قبائل بغیر کسی استثنا کے اہل شر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان قبائل نے شدید مخالفت ظاہر کی تھی اور اہل یمن کے افراد نے بآسانی حق قبول کر لیا تھا۔ یمن کا علاقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں آپ کی سلطنت کا حصہ بن گیا تھا اور آپ نے خود اس علاقے کے لیے عامل کا تقرر کیا تھا۔ اس کے برعکس نجدکے مذکورہ قبائل آخری زمانے تک اسلام کی مخالفت کرتے رہے اور اس سارے عرصے میں انھوں نے اسلام اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر طرح کی کارروائیاں کیں۔ آپ کے ان ارشادات کو پڑھتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ نہ یہ مذمت ازلی وابدی ہے اور نہ یہ مدحت۔ ان قوموں کی آنے والی نسلیں اپنے قول وعمل کی ذمہ دار ہیں اور ان کے زمانۂ نبوت کے افراد اپنے قول و عمل کے ذمہ دار۔

ان متون میں اونٹوں اور بکریوں کے پالنے کے اثرات کا ذکر بھی ہوا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسانی نفسیات اپنے ماحول سے اثر قبول کرتی ہے۔ پیشہ، حلقۂ احباب، مصروفیات کی نوعیت اور خاندان وغیرہ انسان کی پسند ناپسند اور فیصلے اور معاملہ کرنے کے انداز کی صورت گری کرتے ہیں۔ اونٹ کی خصلت میں شدت اور سختی نمایاں ہے، اس کی گلہ بانی کرنے والوں کو سختی کرنا پڑتی ہے۔ یہی چیز ان کی عادت ثانیہ بھی بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس بکری نرمی کی خصلت رکھتی ہے، اس کی گلہ بانی نرمی اور محبت کا تقاضا کرتی ہے۔ یہی چیز ان کے پالنے والوں کی عادت میں نمایاں ہو جاتی ہے۔ اہل یمن کا عمومی پیشہ بکریوں کی گلہ بانی تھا، اس لیے ان کی طرف سے نرمی کا مظاہرہ ہوا اور ربیعہ اور مضر کا پیشہ اونٹوں کی گلہ بانی تھا، ان کی طرف سے شدت اور سختی کا رویہ سامنے آیا۔ ایک گروہ کی خصلت ان کے لیے ایمان قبول کرنے میں معاون ثابت ہوئی اور دوسرے کی خصلت ایمان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ ان روایات کا سبق یہ ہے کہ انسان اپنے ماحول کے اثرات پر متنبہ رہے اور اسے حق کے معاملے میں رکاوٹ نہ بننے دے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آدمی اپنے ماحول کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ظاہر ہے، اس کا جواب نفی میں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ان لوگوں کی مذمت کے کوئی معنی نہیں ہیں جو اپنے حالات کے تحت کچھ رویے اختیار کر رہے ہوتے ہیں۔ انسان کی قوت ارادی اور شعور ان عوامل پر غالب آنے کی صلاحیت سے کبھی محروم نہیں ہوتا۔ چنانچہ حق کو رد کرنے کا جرم ہمیشہ جرم ہی رہتا ہے۔

متون

اس روایت کے متعدد متون خود امام مسلم رحمہ اللہ نے نقل کر دیے ہیں۔ان سے اس روایت کے بیش تر اختلافات سامنے آجاتے ہیں۔ دوسری کتب حدیث میں اس روایت کے یہی متون منقول ہیں۔ ان میں ایسا کوئی اختلاف منقول نہیں ہے جو قابل لحاظ ہو۔

کتابیات

بخاری، رقم۳۱۲۶، ۳۳۰۷، ۳۳۰۸، ۴۱۲۶، ۴۹۹۷۔ مسلم، رقم۵۱،۵۲ ۔ ترمذی، رقم۲۲۴۳۔ احمد، رقم۷۴۹۶، ۷۶۳۹، ۸۸۳۳، ۹۲۷۵، ۹۴۰۱، ۹۴۹۵، ۹۸۹۷، ۱۰۲۸۸، ۱۰۵۸۷، ۱۰۹۹۱، ۱۴۹۵۸، ۱۷۱۰۷، ۲۲۳۹۷۔ ابن حبان، رقم۵۷۷۴، ۷۲۹۷۔ عبدالرزاق، رقم۱۹۸۸۵۔ ابویعلیٰ، رقم۶۵۱۰۔ مسند الشامیین، رقم۱۰۸۳، ۳۰۳۱۔

_______________

B