HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۲۵-۲۸ (۹)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)


  وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ، فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْْمَانُکُمْ، مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ، بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ، فَانْکِحُوْہُنَّ بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّ، وَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، مُحْصَنٰتٍ غَیْْرَ مُسٰفِحٰتٍ، وَّلاَ مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ، فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ، ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ، وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَیْْرٌ لَّکُمْ، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ {۲۵}
یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ، وَیَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ، وَیَتُوْبَ عَلَیْْکُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ {۲۶}
 وَاللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْْکُمْ، وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْْلاً عَظِیْمًا{۲۷}
 یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ، وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا{۲۸}
اور تم میں سے جو آزاد مسلمان عورتوں کے ساتھ نکاح کی مقدرت نہ رکھتے ہوں، اُنھیں چاہیے کہ تمھاری اُن مسلمان لونڈیوں سے نکاح کر لیں جو تمھارے قبضے میں ہوں،۶۱ اور (یہ حقیقت پیش نظر رکھیں کہ) اللہ تمھارے ایمان سے خوب واقف ہے۔ ۶۲ تم سب ایک ہی جنس سے ہو۔۶۳   سو اُن کے مالکوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور دستور کے مطابق اُن کے مہر بھی اُن کو دو،۶۴ اِس شرط کے ساتھ کہ وہ پاک دامن رہی ہوں، بدکاری کرنے والی اور چوری چھپے آشنائی کرنے والی نہ ہوں۔ پھر جب وہ پاک دامن رکھی جائیں اور اِس کے بعد اگر کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو اُن پر اُس سزا کی آدھی سزا ہے جو آزاد عورتوں کے لیے مقرر کی گئی ہے۔۶۵  یہ اجازت تم میں سے اُن لوگوں کے لیے ہے جنھیں گناہ میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو۔۶۶  ورنہ صبر کرو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے اور(مطمئن رہو کہ احتیاط کے باوجودکوئی غلطی ہو جاتی ہے تو)اللہ بخشنے والا ہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔۲۵
اللہ کا ارادہ ہے کہ تم پر اپنی آیتیں واضح کر دے ۶۷  اور تمھیں اُن لوگوں کی راہوں پر چلائے جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور تم پر عنایت کی نظر کرے، اور اللہ علیم و حکیم ہے۔۶۸   ۲۶
اور اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم پر عنایت کی نظر کرے، لیکن وہ لوگ جو اپنی خواہشوں کی پیروی کر رہے ہیں، اُن کی خواہش (اِس کے برخلاف) یہ ہے کہ تم حق کے راستے سے بالکل ہی بھٹک کر رہ جائو۔۶۹   ۲۷
اللہ تم پر سے پابندیوں ۷۰کو ہلکا کرنا چاہتا ہے، (اِس لیے کہ تمھاری کمزوریوں کی رعایت کرے) اور (حقیقت یہ ہے کہ) انسان بڑا ہی کمزور پیدا کیا گیا ہے۔۷۱   ۲۸

۶۱؎   یہ بھی انھی اقدامات میں سے ہے جو غلامی کے ادارے کو بتدریج ختم کر دینے کے لیے کیے گئے۔ چنانچہ اجازت دی گئی کہ جن لونڈیوں کی تربیت ان کے مالکوں نے اچھے طریقے سے کی ہے، انھیں پاک دامن رکھا ہے اور وہ مسلمان بھی ہو گئی ہیں، ان کے ساتھ وہ لوگ نکاح کر لیں جنھیں خاندانی عورتوں کے ساتھ نکاح کا مقدور نہیں ہے تاکہ ان کی ضرورت بھی پوری ہو جائے اور یہ عورتیں بھی، جنھیں ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے پستی میں گرا دیا گیا ہے، خاندانی عورتوں کے برابر ہو کر زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں۔

۶۲؎   یعنی عزوشرف کی اصلی بنیاد ایمان پر ہے اور یہ محض خاندانی گھرانوں ہی کا حصہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک لونڈی اپنے ایمان کے لحاظ سے بڑے بڑے شریف زادوں اور شریف زادیوں پر فوقیت رکھتی ہو۔

۶۳؎   مطلب یہ ہے کہ تم سب آدم و حوا کی اولاد ہو۔ لونڈی اور غلام ہونا محض ایک عارضی حالت ہے۔ انسان ہونے کے اعتبار سے تم میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۶۴؎   اس لیے کہ سوسائٹی کے اندر ان کا معیار اونچا ہو اور انھیں بھی عام عورتوں کے برابر سمجھا جائے۔

۶۵؎   اس سے یہ حقیقت پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہو جاتی ہے کہ سورئہ نور میں زنا کے مجرموں کے لیے سو کوڑے کی جو سزا بیان ہوئی ہے، وہ اس جرم کی انتہائی سزا ہے اور صرف انھی مجرموں کو دی جائے گی جن سے جرم بالکل آخری درجے میں سرزد ہو جائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔ پاگل، بدھو، مجبور، سزا کے تحمل سے معذور اور جرم سے بچنے کے لیے ضروری ماحول، حالات اور حفاظت سے محروم سب لوگ اس سے یقینا مستثنیٰ ہیں اور عدالت انھیں کوئی کم تر سزا بھی دے سکتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ خاندان کی حفاظت سے محرومی اور ناقص اخلاقی تربیت کی وجہ سے لونڈیوں کو سو کوڑے کی یہ سزا نہیں دی جائے گی، یہاں تک کہ اس صورت میں بھی جب ان کے مالکوں اور شوہروں نے انھیںپاک دامن رکھنے کا پورا اہتمام کیا ہو، وہ اس سزا کی نسبت سے آدھی سزا کی مستحق ہوں گی۔ یعنی سو کے بجائے انھیں پچاس کوڑے مارے جائیں گے۔

۶۶؎   یہ اس لیے فرمایا ہے کہ اس طرح کے نکاح میں حقوق ملکیت اور حقوق نکاح میں تصادم کا اندیشہ تھا اور یہ چیز ازدواجی زندگی کو برباد کردے سکتی تھی۔

۶۷؎   اصل میں ’یرید اللّٰہ لیبین لکم‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’یرید‘ کے بعد ’ل‘ ہے اور اس کے بعد آیت ۲۷ میں ’ان‘۔یہ ـــــ فرق کیوں ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔قرآن مجید میں ان دونوں اسلوبوں کے تتبع سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ’اراد‘ کا لفظ دومعنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک تو قطعی فیصلے اور حتمی ارادہ کے معنی میں، دوسرے چاہنے کے معنی میں۔ جب پہلے معنی مراد ہوتے ہیں تو اس کے بعد ’ل‘ آتا ہے اور جب مجرد چاہنے کے معنی میں آتا ہے تو اس کے بعد ’ان‘ آتا ہے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۸۲)    

ہم نے ترجمہ انھی اسالیب کی رعایت سے کیا ہے۔

۶۸؎   یہ پوری بات ایک فیصلۂ الہٰی کی حیثیت سے بیان ہوئی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے نزدیک، یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے تمام عالم کے لیے اتمام ہدایت کا اہتمام اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں پہلے سے طے تھا، انبیا علیہم السلام نے اس کی خبر دی تھی اور یہ خدا کے علم و حکمت کا تقاضا بھی تھا، اس لیے کہ وہ علیم و حکیم لوگوں کو پیدا کرکے ان کی ہدایت کے اہتمام سے غافل نہیں ہو سکتا تھا۔

۶۹؎   اشارہ ہے اہل کتاب، بالخصوص یہود کی طرف جو دین حق اور اس کے پیرووں کے ساتھ اپنے عناد کی وجہ سے دن رات اسی تگ و دو میں لگے رہتے تھے۔

۷۰؎   یہ ان پابندیوں کی طرف اشارہ ہے جو علما کی فقہی موشگافیوں کے باعث لوگوں پر لگ چکی تھیں۔ قرآن نے دوسری جگہ انھیں اصرواغلال سے تعبیر فرمایا ہے۔

۷۱؎   یہ انسان کی فطرت کا بیان ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جو غیر فطری اور خود ساختہ بوجھ اس پر ڈال دیے گئے تھے، انھیں ایک دن اترنا ہی تھا۔ انسان کا خالق اس کی کمزوریوں سے واقف ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایسے بوجھوں تلے اس کو دبا رہنے دے جن کا تحمل اس کے لیے ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو جائے۔

[              باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B