HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

حاجی کے لیے لگڑ بگڑ کا شکار

عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: سالت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الضبع.
فقال: ہو صید ، ویُجعل فیہ کبش اذا صادہ المحرم.۱
’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’ضبع ‘کے بارے میں پوچھا۔
آپ نے فرمایا: یہ صید کے حکم میں ہو گا، اور جب محرم اسے شکار کربیٹھے تو اس کے کفارہ میں ایک مینڈھا دیا جائے گا۔ ‘‘۱؂
ترجمے کے حواشی

۱۔یہ روایت اپنے تفصیلی واقعے کے ساتھ نقل نہیں ہوئی۔اس لیے یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ کسی سادہ سوال کا جواب ہے یا یہ سوال کسی کے شکار کرلینے کے بعد آپ سے پوچھا گیا ہے۔یعنی اگر یہ سادہ سوال ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ’ضبع‘ ہر صورت میں صید کے کفارہ کے حکم میں آئے گااور اگر یہ سوال کسی کے شکار کرلینے کے بعدکیا گیا ہے تو پھر یہ حکم ہونے والے واقعہ کی صورت حال کے لیے ہو گا، اوراس صورت میں یہ حکم ایک مطلق حکم نہیں رہے گا۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ کسی حاجی نے ضبع کو احرام کی حالت میں اس وقت مار ڈالا تھا ، جب وہ کسی اذیت کا باعث نہیں بن رہا تھا، بلکہ اس نے اسے محض درندہ سمجھ کر ماردیاہوگا۔ایسے جانوروں کو اسی وقت مارا جاسکتا ہے جب وہ محرم کے لیے نقصان اور اذیت کا باعث بنیں۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ’ الضبع‘ کے معنی اصلاً لگڑ بگڑ کے ہیں۔ عام طور سے اس کا ترجمہ بجو کیا گیا ہے۔ لیکن میری تحقیق میں یہ بات آئی ہے کہ اس سے اصلاً مراد لگڑ بگڑ ہے۔

متن کے حواشی

یہ روایت اصلاً ابو داؤد، رقم ۳۸۰۱ سے لی گئی ہے، اس کے علاوہ یہ درج ذیل مقامات پرآئی ہے: ابن ماجہ، رقم ۳۰۸۵،صحیح ابن حبان ،رقم ۹۳۶۴، مسند ابی یعلیٰ،رقم ۲۱۵۹، سنن بیہقی، رقم ۹۶۵۴، ۹۶۵۵، ۹۶۵۶، ۹۶۵۷، ۹۶۵۸، ۱۹۱۷۰، مصنف عبد الرزاق، رقم ۸۲۲۶، الدارمی، رقم ۱۹۴۱، صحیح ابن خزیمہ ،رقم ۲۶۴۶، ۲۶۴۸۔

ابن حبان نے اسے رقم ۳۹۶۴ کے تحت یوں روایت کیا ہے:’ سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الضبع فقال: ہی صید و فیہا کبش‘( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لگڑ بگڑ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ شکار کے حکم کے تحت ہے اور اس میں کفارہ ایک مینڈھا ہے۔)بیہقی، رقم ۹۶۵۸ کے الفاظ یوں ہیں :’ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الضبع صید و جعل فیہا کبشا‘( آپ نے کہا: لگڑبگڑ شکار کے تحت ہے اور آپ نے اس کا کفارہ ایک مینڈھے کو قرار دیا)۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۰۸۵،صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۶۴۶میں روایت کے الفاظ یوں ہیں:’ جعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الضبع یصیبہ المحرم کبشا وجعلہ من الصید‘(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لگڑ بگڑ جسے محرم نے مارڈالا ہو ،کا کفارہ ایک مینڈھا مقرر کیا اور لگڑ بگڑ کے مارنے کو شکار کے حکم کے تحت رکھا )۔

سنن بیہقی، رقم ۹۶۵۵ میں کھانے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ الفاظ یوں ہیں:’ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الضبع صید ، فکلہا‘ ( آپ نے فرمایا: لگڑ بگڑ شکار ہے تو اسے کھاؤ)۔

سنن بیہقی، رقم ۹۶۵۷ میں یہ یوں بیان ہوئی ہے:’انزل رسول اللّٰہ ضبعا صیدا و قضی فیہا کبشا‘(نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لگڑ بگڑکو شکار قرار دیا اور اس کے کفارہ میں یہ فیصلہ دیا کہ ایک مینڈھا کفارہ دیا جائے)۔

سنن بیہقی، رقم ۱۹۱۷۰ میں بڑی عمرکے مینڈھے کا ذکر ہے:’ قال الضبع صید وجزاؤہا کبش مسن و تؤکل‘(آپ نے فرمایا: لگڑ بگڑ شکار ہے، اور اس کا بدل (حالتِ احرام میں مارنے پر) ایک بڑی عمر کامینڈھا ہے، اور اسے کھایا جاسکتاہے)۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۸۲۲۶میں بڑی عمر کے بجائے نجدی مینڈھے کا ذکر ہے:’و قضا فیہا کبشا نجدیا‘( آپ نے لگڑ بگڑ کے کفارہ میں ایک نجدی مینڈھے کافیصلہ دیا)۔

 ______________

B