HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

مرتد کو توبہ کا موقع دینے سے متعلق روایت

روایت کا مضمون

بیہقی ، رقم۱۶۶۱۰کے مطابق بیان کیا جاتا ہے کہ

روی أن رسول اللّٰہ استتاب نبہان أربع مرات وکان نبہان ارتد.
’’روایت ہے کہ نبہان نے ارتداد اختیار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے توبہ کرنے کے چار مواقع دیے۔‘‘

یہ روایت ابو یعلیٰ ، رقم۱۷۸۵اور عبدالرزاق، رقم۱۸۶۹۹میں بھی نقل ہوئی ہے۔اس کے علاوہ اس مسئلے کے بارے میں صحابۂ کرام کی آرا بیہقی، رقم ۱۶۶۶۶، ۱۶۶۶۷، ۱۶۶۶۸،۱۶۶۶۹میں نقل ہوئی ہیں، جبکہ عبدالرزاق، رقم ۱۸۶۹۷میں ابراہیم النخعی کی رائے روایت ہوئی ہے۔

روایت پرتبصرہ

مندرجہ بالا روایات میں سے کوئی بھی روایت ایسی نہیں ہے کہ جو قابل اعتماد اور متصل سند سے نقل ہوئی ہو۔

جہاں تک بیہقی، رقم۱۶۶۱۰اور عبدالرزاق، رقم۱۸۶۹۹کا معاملہ ہے تو ان کی سند میں نہ صرف یہ کہ ایک راوی مجہول ہے، بلکہ یہ سند بھی منقطع ہے، کیونکہ اسے عبداللہ بن عبید بن عمیر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، حالانکہ اس کی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

جہاں تک ابویعلیٰ، رقم۱۷۸۵کا معاملہ ہے تو اس کی سند میں اسماعیل بن ذکریاالخلقانی شامل ہے جسے العجلی نے ضعیف قرار دیاہے۔۱؂ ابن معین کے مطابق بھی وہ ایک ضعیف راوی ہے۔ ۲؂ اس روایت کی سند میں عبداللہ بن محمدبن عقیل بھی ہے جس کے بارے میں اہل علم کی رائے ہے کہ اس کا حافظہ قابل بھروسا نہیں ہے۳؂ اور بعض دوسرے اہل علم کے نزدیک وہ روایت کرنے میں غیر محتاط ہے۔۴؂ بیان کیاجاتا ہے کہ ابن سعد کے نزدیک وہ منکر روایتیں نقل کرتاہے۔یہ بھی بیان کیا جاتاہے کہ امام مالک اور یحییٰ بن سعید نے اس سے روایت قبول نہیں کی ہے۔ یعقوب کے مطابق وہ ثقہ آدمی ہے، مگر اس کی روایتیں کمزورہیں۔ ۵؂

نتیجۂ بحث

یہ روایت کسی قابل اعتماد سند سے نقل نہیں ہوئی، اس لیے ہم اعتماد کے ساتھ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کرسکتے۔ یہ ممکن ہے کہ بعض صحابہ مرتد کو سزادینے سے پہلے اس طرح متعدد بار توبہ کا اختیار دیتے ہوں اور راویوں نے ان کا یہ عمل غلطی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہو ۔۶؂

————

۱؂ تفصیل کے لیے دیکھیے:معرفۂ الثقات۔

۲؂ تہذیب الکمال ۳/ ۹۴۔

۳؂ المجروہین ۲/ ۳۔

۴؂ الکاشف ۱/ ۵۹۴۔

۵؂ تہذیب التہذیب۶/ ۱۳۔

۶؂ قرآن مجید کے مطابق رسول کے مخاطب مشرک لوگ اگر ایمان نہ لائیں تو انھیں اس دنیا میں باقی نہیں رکھا جاتا۔اسی طرح اگر وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوجائیں تو انھیں اسی سزا کا حق دارہونا چاہیے جو انھیں ایمان نہ لانے کی صورت میں ملتی ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مشرکین مکہ اگرارتداد اختیار کرتے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ اختیار حاصل تھا کہ انھیں قتل کردیتے۔محسوس یہی ہوتا ہے کہ روایت میں اصلاً انھی کے کسی واقعہ کا بیان ہے جو راویوں نے غلطی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا۔

______________

B