HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

ہمسایے سے حسن سلوک

(سلم، رقم ۴۶)


عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ لَا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَاءِقَہُ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے ہمسایے اس کی اذیت رسانی سے محفوظ نہ ہوں۔‘‘
لغوی مباحث

لایدخل الجنۃ: وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ شارحین میں اختلاف ہے کہ یہاں مطلق نفی مراد ہے یا مشروط نفی۔ مطلق نفی کی صورت میں وہ اس جملے کو منافقین یا خدا کے حلال کو حرام قرار دینے کے مرتکب (یعنی جس سے کفر کا ارتکاب ہوا ہے) سے متعلق مانتے ہیں۔ مشروط نفی سے ان کی مراد یہ ہے کہ یہ پہلے مرحلے میں جنت میں جانے والوں میں سے نہیں ہو گا، بلکہ کچھ سزا پاکر اللہ کی مغفرت اور شفاعت کے نتیجے میں جنت میں جائے گا۔ ہمارے نزدیک اس جملے سے واضح ہے کہ ہمسایے کو تکلیف دینے والا جنت میں اس وقت تک نہیں جا سکے گا جب تک وہ اپنے اس کیے کی تلافی نہ کر لے، خواہ یہ تلافی دنیا میں کی گئی ہو اور خواہ یہ تلافی اپنی کچھ نیکیاں دے کر یا سزا بھگت کر کی گئی ہو۔

بوائق:’بائقۃ‘ کی جمع ہے اور اس کے معنی وہ امور ہیں جو انسان کے لیے مصیبت اور ہلاکت کا باعث ہوں۔یہاں جس حوالے سے یہ لفظ استعمال ہوا ہے، اس میں اس سے مراد ہاتھ، زبان اور عمل سے اذیت رسانی ہے۔

معنی

لغوی مباحث کے تحت ہم نے یہ بات بیان کر دی ہے کہ ہمارے نزدیک ’لایدخل الجنۃ‘ کے الفاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واضح کی ہے کہ ہمسایے کو تکلیف پہنچانے والا اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتاجب تک اس نے اپنی اس غلطی کی تلافی نہ کر دی ہو۔ یہ تلافی اگر دنیا ہی میں کر دی گئی ہے تو درست ورنہ آخرت میں اس کی کچھ نیکیاں مظلوم کو دے کر یا کچھ وقت جہنم کی سزا دے کر کی جائے گی۔ اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے استاد محترم جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے یہ نکتہ بھی واضح کیا تھا کہ انسان کی آزمایش درحقیقت اس کے اخلاقی وجود کی آزمایش ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی بعض اوقات آدمی کو اس بات سے بے پروا کر دیتی ہے کہ اس کا برتاؤ لوگوں کے ساتھ کیسا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کے لیے ضرر اور اذیت کا معاملہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ اس کے بارے میں باخبر رہنا چاہیے۔ اس کا نتیجہ جہنم کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

قرآن مجید نے تعلق کے ہر دائرے میں حسن سلوک کا حکم دیا ہے ۔ سورۂ نساء میں ہے:

وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئاً وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ، اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کاَنَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا(۴: ۳۶)
’’اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین، قرابت مند، یتیم، مسکین، قرابت دار پڑوسی، بیگانہ پڑوسی، ہم نشین، مسافر اور اپنے مملوک کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ بے شک، اللہ اترانے والوں اور بڑائی مارنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اس آیت میں والدین، قرابت مندوں اور ہر طرح کے تعلق میں حسن سلوک کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ ان رشتوں میں بدسلوکی کا محرک اپنی بڑائی کا احساس ہے۔ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اپنی بڑائی میں مبتلا لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کو ایک دوسرے اسلوب میں بیان کر دیا ہے۔

اس روایت کا ایک اہم لفظ ’جار‘ ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا گھر آپ کے گھر کے قریب ہو۔ قرآن مجید میں اس لفظ کے اطلاق کو وسیع کر دیا ہے۔ ایک تو قرآن مجید نے قرابت مند پڑوسی اور اجنبی پڑوسی کا ذکر کر کے یہ واضح کر دیا کہ حسن سلوک کا تقاضا صرف قرابت کے حوالے سے نہیں ہے۔ وہ آدمی جو آپ کے ساتھ قرب مکان ہی کے حوالے سے متعلق ہو گیا ہے، اس سے بھی حسن سلوک ہی مطلوب ہے۔ بات یہاں تک محدود نہیں رکھی، ہم نشیں کا حوالہ دے کر یہ حقیقت نمایاں کردی کہ ہر وہ شخص جو آپ کے ساتھ متعلق ہے، خواہ یہ تعلق عارضی نوعیت ہی کا کیوں نہ ہو، مسلمان کا کام یہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ اچھے برتاؤ کا معاملہ کرے۔

شارحین کے سامنے یہ سوال ہے کہ کبیرہ کے مرتکب کو جہنم کی سزا جمہور اہل علم کا نقطۂ نظر نہیں ہے۔ بظاہر اس روایت سے جمہور کے نقطۂ نظر کی تغلیط ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد محولہ بالا آیت کی روشنی میں پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ جہنم اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی کا مظہر ہے۔ جو آدمی ایسے عمل کرے جو اسے اللہ کی نظر میں نا پسندیدہ بنا دیں، اسے جہنم ہی کی وعید دی جائے گی۔ باقی رہی یہ بات کہ کیا یہ وہ جرم ہے جس کی معافی نہیں ہے تو اس کا جواب بھی ہمیں قرآن مجید سے مل جاتا ہے کہ شرک کے علاوہ ہر جرم میں معافی کا امکان ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمسایہ برا ہو تو کیا کرنا چاہیے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اتنا اقدام تو قابل قبول ہے کہ اس سے آپ زیادتی کا بدلہ لے لیں۔ لیکن یہ بہرحال کم تر درجہ ہے۔ مطلوب اور محمود یہی ہے کہ برائی کے باوجود اہل تعلق سے اچھا سلوک کیا جائے۔

متون

روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مواقع پر فرمائی تھی۔یہاں ہم ان میں سے تین روایات نقل کر رہے ہیں۔ بخاری میں یہ روایت سوال وجواب کے اسلوب میں نقل ہوئی ہے:

عن أبی شریح أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: واللّٰہ لا یؤمن، واللّٰہ لا یؤمن، واللّٰہ لا یؤمن. قیل: ومن؟ یا رسول اللّٰہ. قال: الذی لا یأمن جارہ بوائقہ.(رقم ۵۶۷۰)
’’حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخدا، وہ مومن نہیں، بخدا، وہ مومن نہیں، بخدا، وہ مومن نہیں۔ پوچھا گیا: کون یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: وہ جس کے ہمسایے اس کے مہلکات سے محفوظ نہ ہوں۔‘‘

اس روایت میں ایمان کی نفی کی گئی ہے اور مسلم کی روایت میں جنت سے محرومی بیان ہوئی ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے دونوں باتیں برابر ہیں۔ابن حبان کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اور باتیں بھی فرمائی تھیں:

عن أنس بن مالک أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: المؤمن من أمنہ الناس. المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ. المہاجر من ہاجر السوء. والذی نفسی بیدہ، لایدخل الجنۃ عبد لا یأمن جارہ بوائقہ.(رقم۵۱۰)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن وہ ہے جس سے لوگ محفوظ ہوں۔ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ مہاجر وہ ہے جس نے برائی چھوڑ دی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ جنت میں نہیں جائے گا جس کے مہلکات سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘‘

مستدرک کی روایت ہے:

عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:إن اللّٰہ قسم بینکم أخلاقکم کما قسم بینکم ارزاقکم. وإن اللّٰہ یعطی المال من یحب ومن لایحب. ولا یعطی الإیمان الا من یحب. فمن أعطاہ اللّٰہ الإیمان فقد أحبہ. والذی نفس محمد بیدہ، لا یسلم عبد حتی یسلم قلبہ. ولا یسلم عبد حتی یأمن جارہ بوائقہ.(رقم۷۳۰۱)
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمھارے درمیان اخلاق بھی اسی طرح تقسیم کیے ہیں جیسے رزق تقسیم کیا ہے۔ (فرق یہ ہے کہ) رزق اللہ اسے بھی دیتا ہے جسے پسند کرے اور جسے پسند نہ کرے۔ لیکن ایمان صرف اسے عطا کرتا ہے جسے پسند کرتا ہے۔چنانچہ جسے اللہ ایمان عطا کرتا ہے اس سے محبت کرتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے۔ کوئی بندہ مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل مسلمان نہ ہو۔ اور کوئی بندہ مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔‘‘

ترمذی کی روایت ہے:

عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل طیبا، وعمل فی سنۃ، وأمن الناس بوائقہ دخل الجنۃ. (رقم ۲۵۲۰)
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے پاکیزہ کھایا، اور سنت کے مطابق عمل کیا اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوئے، وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘

مختلف کتب روایت میں بنیادی طور پر یہی متن ہیں جن میں یہ مضمون بیان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ باقی فرق لفظی ہیں۔ ان متون کو نقل کر دینے کے بعد ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

کتابیات

بخاری، رقم۵۶۷۰۔ مسلم، رقم۴۶۔ ترمذی، رقم۲۵۲۰۔ احمد، رقم۳۶۷۲، ۷۸۶۵، ۸۴۱۳، ۸۸۴۲، ۱۲۵۸۳، ۱۳۰۷۱، ۱۶۴۱۹، ۲۷۲۰۶۔ ابن حبان، رقم۵۱۰۔ حاکم، رقم ۲۱، ۲۵، ۷۲۹۹، ۷۳۰۰، ۷۳۰۱۔ عبدالرزاق، رقم۱۹۷۴۷۔ ابویعلیٰ، رقم۳۹۰۹، ۴۱۸۷، ۴۲۵۲، ۶۲۱۸، ۶۴۹۰۔ مسند الشامیین، رقم۲۴۳۰۔ ابن ابی شیبہ، رقم۲۵۴۲۲۔ معجم کبیر، رقم۱۴۳، ۴۸۷، ۱۰۲۴، ۸۲۵۰، ۱۰۴۴۲، ۱۰۵۵۳۔

 _______________

B