[علامہ شبلی نعمانی کی تحقیق پر مبنی]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات عام طور پر ۱۲ ربیع الاول بیان کی جاتی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق وفات کی یہ تاریخ درست نہیں ہے۔ تاریخ وفات کی تعیین کے لیے اصلاً احادیث سے رجوع کیا جاتا ہے، مگر اس ضمن میں ’’سیرت النبی‘‘ کے مصنف مولانا شبلی نعمانی کا کہنا ہے کہ تلاش بسیار کے باوجود مجھے کتب احادیث سے تاریخ وفات کی ایک روایت بھی نہیں مل سکی۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ صحابۂ کرام کے دور میں اور اس کے بعد ۶۰۰ ہجری تک مسلمانوں میں یوم پیدایش یا وفات منانے کا رواج نہیں تھا۔ یہ رسم ۶۴۰ھ میں عراق کے شہر موصل کے حکمران مظفر الدین کوکری بن اربل اور اس کے ساتھی مولوی عمر بن دحیہ الخطاب نے شروع کی۔مورخین نے بالعموم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدایش کے حوالے سے توکافی بحث کی ہے، مگر تاریخ وفات کے حوالے سے مولانا شبلی نعمانی کے علاوہ کسی نے قابل ذکر گفتگو نہیں کی۔
ہماری تحقیق کے مطابق حدیث، سیرت اور تاریخ کی کتابوں کے بعض مندرجات کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح تاریخ وفات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ موطا میں امام مالک نے عبداللہ بن عمر کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں جمعہ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔ اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، اس سال عرفہ (۹ ذوالحج) جمعہ کے دن ہوا تھا۔
۲۔ ابن کثیر نے سورۂ مائدہ کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی نے ’الیوم اکملت لکم دینکم‘کے بارے میں حضرت عمر سے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو یوم عید کے طور پر مناتے۔ جواب میں حضرت عمر نے فرمایا کہ اس دن ہماری دوہری عید تھی یعنی یوم عرفہ بھی تھا اور جمعہ کا دن بھی تھا۔ یہ بات ابن عباس کے حوالے سے بھی بیان ہوئی ہے کہ کسی یہودی نے مذکورہ آیت کے بارے میں درج بالا بات کہی توانھوں نے یہی جواب دیا۔ حضرت علی اور حضرت معاویہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ابن کثیر نے ابن عباس کے حوالے سے یہ بھی بیان کیاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حج کے بعد ۸۱ دن تک حیات رہے۔(ابن کثیر۱/۴۹)
۳۔ ابو داؤد، رقم۱۹۰۵ میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۱۳ ذوالحجہ بروزمنگل تک منیٰ میں قیام فرمایا۔ آپ ۱۳ ذوالحجہ ہی کو زوال کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے۔ وادی محصب میں رات گزاری۔ بدھ کی صبح کو خانہ کعبہ کا آخری طواف کیا اور نماز فجر کے بعد مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے۔اس سے واضح ہے کہ اگر ۱۳ ذی الحجہ کو منگل ہے تو ۹ ذی الحجہ کو لازماًجمعہ ہو گا۔
۴۔ مسند احمد،رقم۲۵۰۶ میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیر کو پیدا ہوئے، پیر ہی کے دن منصب نبوت پر فائز ہوئے، پیر ہی کو مکہ سے ہجرت فرمائی، پیر ہی کو مدینہ منورہ تشریف لائے اور پیر ہی کو دنیا سے رخصت ہوئے ۔
۵۔حضرت حسان بن ثابت کا شعر ہے:
بابی وامی من شھدت وفاتہ
فی یوم الاثنین النبی المھتدی
’’اس ہستی پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ پیر کے روز جن کی وفات کے وقت میں حاضر تھا۔ راہ ہدایت پر گامزن اور نبی تھے۔ ‘‘(دیوان حسان)
۶۔ابن سعد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت شروع ہونے کی دو تاریخیں ۱۹ اور ۲۹ صفردرج کی ہیں اور بدھ کا دن لکھا ہے۔ ابن ہشام نے بھی بدھ کا دن اور صفر کا مہینا لکھا ہے۔ آپ کی علالت کا دورانیہ تمام سیرت نگاروں نے ۱۳ دن بیان کیا ہے۔
۷۔جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات کا تعلق ہے تو سیرت کی کتابوں میں ۱،۲ اور ۱۲ ربیع الاول کی تاریخیں مذکور ہیں۔ یعقوبی نے ابن ہشام کے حوالہ سے سائب کلبی اور ابو مخنف کی ۲ ربیع الاول والی روایت قبول کی ہے، مگر محدثین کے نزدیک یہ دونوں دروغ گو اور غیر معتبر ہیں۔ ابن سعد نے واقدی کے حوالہ سے ۱۲ ربیع الاول نقل کی ہے۔ یہ بھی محدثین کے نزدیک معتوب ہے۔ یکم ربیع الاول کی روایت ثقہ ترین سیرت نگار موسیٰ بن عقبہ اور مشہور محدث امام لیث بن سعد مصری سے مروی ہے۔ (فتح الباری وفات النبی) امام السہیلی نے ’’الروض الانف‘‘ میں لکھا ہے کہ یہی روایت حقیقت سے قریب تر ہے۔
درج بالانکات سے چار باتیں متعین ہوتی ہیں:
اولاً، ۱۰ ہجری ، ۹ ذوالحجہ کو جمعہ کا دن تھا۔
ثانیاً،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت ۱۱ ہجری،ماہ صفر میں بدھ کو شروع ہوئی۔
ثالثاً، آپ کی وفات پیر کے دن ہوئی۔
رابعاً، تاریخ وفات کے حوالے سے ۱، ۲ اور ۱۲ ربیع الاول کی تاریخیں روایت ہوئی ہیں، مگر ان میں ثقہ ترین روایت یکم ربیع الاول کی ہے۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ماہ ربیع الاول میں پیر کا دن کن تاریخوں کو ممکن ہے۔
اگر ذوالحجہ، محرم اور صفر تینوں مہینوں کو۳۰،۳۰ دن کا شمار کیا جائے تو پیر کا دن ۶ اور ۱۳ تاریخ کو آتا ہے۔
اگر تینوں مہینے ۲۹ ، ۲۹ کے شمار کیے جائیں تو پیر ۲ اور ۹ ربیع الاول کوہو گا۔
اگر دو مہینے ۳۰ کے اور ایک ۲۹ کا شمار کریں تو پیر ۷ اور ۱۴ کوہو گا۔
اگر دو مہینے ۲۹ کے اور ایک ۳۰ کاشمار کریں تو پیرکا دن ۱،۸ اور ۱۵ ربیع الاول کوہو گا۔
ان مفروضہ تاریخوں میں سے ۶،۷،۸،۹،۱۳،۱۴اور ۱۵ کی تائید میں کوئی روایت نہیں ہے، اس لیے یہ تاریخیں خارج از بحث ہیں۔ ۲ تاریخ کی صورت میں تینوں مہینے ۲۹ ، ۲۹ دن کے تصور کرنے پڑتے ہیں جو کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ ۱۲ تاریخ کسی مفروضے میں بھی پیر کے دن نہیں آتی۔ اب یکم ربیع الاول کی تاریخ باقی بچتی ہے۔ اور یہی تاریخ ہے جو محدثین کے روایت و درایت کے اصولوں، اصول تقویم اور چاند کی گردش کے قانون سے مطابقت رکھتی ہے۔ ثقہ روایت میں بھی یہی تاریخ بیان ہوئی ہے۔چاند کی گردش کے لحاظ سے بھی یہی موزوں ہے، کیونکہ اس صورت میں دو مہینے ۲۹ کے اور ایک ۳۰ کا قرار پاتا ہے ۔ اس تاریخ کو درست ماننے کی صورت میں ان روایات کی بھی تطبیق ہو جاتی ہے جن کی رو سے یوم عرفہ کا دن جمعہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کے آغاز کا دن بدھ ہے۔چنانچہ یہ بات زیادہ قرین حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات پیر،یکم ربیع الاول ۱۱ ہجری قرار دی جائے۔
_____________