HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]


میلاد کی مجالس

سوال: ہمارے ہاں میلاد کی مجالس بہت ہوتی ہیں، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب: میلادکی مجالس ، اصلاً، حضور سے اظہار عقیدت کے لیے منعقد کی جاتی ہیں۔ اصولاً، ایسی مجالس کے انعقاد میں کوئی حرج نہیں، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن، مناقب اور حالات زندگی بیان کیے جائیں، لیکن ہمارے ہاں ان کے ساتھ بے بنیاد تصورات وابستہ کر دیے گئے ہیں اور ان میں جو کچھ پڑھا اور سنا جاتا ہے، اس میں بھی بہت کچھ ناحق کی آمیزش ہے۔ اس پہلو کو پیش نظر رکھیں تو اس طرح کی مجالس میں شرکت درست قرار نہیں دی جا سکتی۔

یہ ایک اصولی بات تھی۔ اب آپ ایک دوسرے پہلو سے بھی اس مسئلے پر غور کریں۔ وہ پہلو یہ ہے کہ اصلاً، دین میں مطلوب کیا ہے، ایک مسلمان کس طرح کی شخصیت ہوتا ہے اور اس کے شب و روز کس چیز کی تگ و دو میں گزرتے ہیں؟ مختصراً، اس کا جواب یہ ہے کہ بندۂ مومن کے شب و روز اپنے پروردگار کو راضی کر لینے کی سعی سے عبارت ہوتے ہیں۔ وہ اصلاً اپنے پروردگار کا بندہ ہوتا اور جس امتحان میں اسے ڈالا گیا ہے، اس میں کامیابی اس کا مطمح نظر ہوتی ہے۔ اب دیکھیے، شب و روز میں پانچ نمازیں، سال میں تیس روزے، اپنے مال پر زکوٰۃ اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج، اس پر فرض ہیں۔ اپنے اہل و عیال کے لیے نان و نفقے کا انتظام اس کی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اس پر لازم ہے کہ بہرحال، رزق حلال ہی کمائے۔ اپنے ہمسایوں اور اعزہ و اقارب کے دکھ سکھ میں شریک ہو۔ وہ ضرورت مند ہوں تو جس حد تک ممکن ہو، ا ن کی مدد کرے۔ پھر اپنے ماحول (یعنی گھر، محلہ اور دفتر وغیرہ) میں حق کا علم بردار بن کر رہے، برائی ہوتے دیکھے، تو وعظ و تلقین کے ذریعے سے اور اگر اختیار رکھتا ہو، تو حکمت کے ساتھ، اختیار کو استعمال کرکے برائی کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ دین اور دین کے کاموں کو اگر اس کے مال اور مساعی کی ضرورت پڑ گئی ہے تو اس میں اپنا حصہ ڈالے۔ نمازوں میں فرض تک محدود نہ رہے، بلکہ سنن کے اہتمام کی سعی کرے اور ہو سکے تو تہجد بھی پڑھے۔ خیرات میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی، اللہ کی راہ میں غربا اور مساکین پر خرچ کرے۔ حج بھی کرے اور عمرہ بھی۔ رمضان کے روزے بھی رکھے اور نفلی روزے بھی۔ دین سیکھنے کی جدوجہد کرے۔ قرآن کے معنی سیکھے اور اس کی روزانہ تلاوت کا اہتمام کرے۔ غرض یہ کہ اپنے پروردگار اور اپنے دین کے ساتھ وابستگی کا ہر تقاضا پورا کرے اور اپنے سے وابستہ انسانوں کے ساتھ معاملات میں اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے۔

یہ حقیقی معنوں میں بندۂ مومن ہے۔ یہ زندگی ہر شخص سے، اصلاً، مطلوب ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ زندگی اس طرح گزرے تو اس میں میلاد کی مجالس کیا ہوں گی۔


سود پر قرض

سوال:بنک سرکاری ملازمین کو پندرہ تنخواہوں کے برابر قرضہ دیتا ہے۔ جس پر وہ گیارہ فی صد سالانہ سود لیتا ہے۔ بعض علما اسے صریح حرام قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اس سے اجتناب کا حکم دیتے ہیں۔ جبکہ بعض علما کے نزدیک اس سے بچنا چاہیے، لیکن انتہائی ناگزیر حالات ہوں تو اسے لیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک میرے محدود علم کا تعلق ہے، قرآن میں قرض خواہ کو سود کھانے سے منع کیا گیا ہے اور تنقید کا موضوع قرض خواہ ہے ،جبکہ مقروض کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس پر اپنی رائے دیجیے۔(محمد کامران مرزا )

جواب:آپ کی یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید میں جس چیز کو جرم قرار دیا گیا ہے، وہ سود خوری ہے۔ آپ نے جس اختلاف کا ذکر کیا ہے، اس کا باعث قرآن مجید کی کوئی آیت نہیں ہے۔ سود دینے کو گناہ قرار دینے والوں کی بناے استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ مسلم میں نقل ہوا ہے:

لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اٰکل الربوٰا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ وقال: ہم سواء.(رقم۱۵۹۸)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور کھلانے والے اور اس کی دستاویز لکھنے والے اور اس دستاویز کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔‘‘

اس روایت کے لفظ ’مؤکل‘ (کھلانے والے) کا اطلاق عام طور پر علمااس آدمی پر کرتے ہیں جو قرض پر سود ادا کرتا ہے۔ استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی کی تحقیق یہ ہے کہ ’مؤکل‘ کا لفظ سودی کاروبار کے ایجنٹ کے لیے ہے۔ اس لفظ کاعام طور پر طے کردہ مفہوم ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک، سود ادا کرنا ایک کوتاہی ضرور ہے، لیکن اسے حرام قرار دینا مناسب نہیں ہے۔


غیر مسلم کی نجات

سوال: سورۂ مائدہ کی آیت کا ترجمہ ’’تم میں سے کوئی مسلمان ہو ، یہودی ہو، صابی ہو، نصرانی ہو، جو کوئی بھی اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھے گااور نیک اعمال کرے گا، اس کے لیے کوئی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔‘‘میں نے ایک مولوی صاحب کی تقریر سنی۔ انھوں نے کہا: جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان نہیں رکھے گا، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، خواہ وہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو۔ ازراہ کرم اس کی وضاحت کر دیجیے۔(محمد کامران مرزا)

جواب:آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قرآن مجید کی ایک آیت کی مراد سے متعلق ہے اور دوسرا مولوی صاحب کی رائے پر مشتمل۔ جہاں تک آیت کریمہ کا تعلق ہے تو اس میں نجات اخروی کا اصل الاصول بیان کیا گیا ہے۔ ہماری ایمانیات کی اصل صرف یہ ہے کہ ہم اس کائنات کے خالق ومالک کے وجود اور اس کے حضور جواب دہی پر ایمان رکھتے ہوں۔ کتابوں، فرشتوں اور نبیوں پر ایمان اس ایمان کے ایک تقاضے کی حیثیت سے سامنے آتاہے۔(ان تین چیزوں میں بھی اصل کی حیثیت انبیا کی ہے۔ کتابوں اور فرشتوں پر ایمان اس کے لواحق میں سے ہے) لیکن یہ تقاضا ایک ایسا تقاضا ہے جس کے پورا نہ کرنے کا نتیجہ جہنم کی صورت میں نکلتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اگر کسی شخص کو یہ واضح ہے کہ فلاں شخص خدا کا پیغمبر ہے تو اس کی نیکیاں اورخدا اور آخرت پر ایمان اکارت چلا جائے گا، اگر وہ اس شخص کو خدا کا پیغمبر نہیں مانتا اور اس کے لائے ہوئے دین کو اختیار نہیں کر لیتا۔

اس وضاحت سے آپ یہ بات سمجھ گئے ہوں گے کہ مولوی صاحب کی بات ادھوری ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ہر وہ نیک غیر مسلم جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کا یقین ہے، وہ اگر مسلمان نہیں ہوتا تو وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اس کی ساری نیکیاں رد کر دی جائیں اور عذاب میں مبتلا کر دیا جائے۔


حضور کی پیروی کا دائرہ

سوال:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کی پیروی کرنا مسلمانوں کے لیے لازم ہے؟(غلام یاسین )

جواب:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حیثیتیں ہیں : ایک اپنے معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت اور دوسرے آپ کی دینی حیثیت۔فرد کی حیثیت سے آپ اپنے معاشرے میں رائج رہن سہن اختیار کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارے لیے لازم نہیں ہے کہ ہم انھی تمدنی صورتوں کو اختیار کریں۔دوسری حیثیت میں آپ اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کی حیثیت سے دین پر عمل کرتے ہیں۔ اس معاملے میں آپ کا عمل ہمارے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ باقی رہی آپ کی اللہ کے رسول کی حیثیت تو اس میں آپ دین کی حیثیت سے جو کچھ بھی دیں، اسے بے کم وکاست ماننا اور عمل کرنا ضروری ہے۔


اکابر صحابہ اور جمع حدیث سے گریز

سوال: اکابر صحابہ نے احادیث کے نسخے کیوں جلائے اور کیوں ضائع کیے؟(محمد عارف جان)

جواب:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس نوعیت کا ایک واقعہ کتب تاریخ میں نقل ہوا ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پانچ سو روایات پر مشتمل ایک مجموعہ تیار کیا ہوا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھا ہوا تھا۔ ایک رات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت بے چین ہیں۔ انھوں نے سبب پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ نسخہ منگوایا اور اسے جلا دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا سبب پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:

خشیت ان اموت وہی عندی فیکون فیہا احادیث عن رجل قد ائتمنتہ ولم یکن کما حدثنی. فأکون قد نقلت ذاک فہذا لایصح.(اسد الغابہ ۳/ ۲۲۴)
’’مجھے اندیشہ ہوا کہ میں مرجاؤں اور یہ مجموعہ میرے ہاں موجود رہے۔ درآنحالیکہ اس میں ایسی روایات موجود ہیں جو میں نے تو اپنے اعتماد کے آدمی سے سنی ہیں، لیکن ممکن ہے کہ بات اس طرح نہ ہو جیسے اس نے مجھے بتائی ہے۔ جبکہ میں اسے نقل کرنے والا ہوں۔ یہ صورت معاملہ درست نہیں ہے۔‘‘

اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خصوصی حیثیت کی وجہ سے ایسا کیا ہے ۔ غالباً انھوں نے سوچا ہو گا کہ میرے مرتب کردہ مجموعہ کی جو حیثیت بن جائے گی، وہ درست نہیں ہو گی ۔ جب اخبار احاد کو قطعیت حاصل نہیں ہے تو کوئی ایسا عمل بھی موزوں نہیں ہو گا جو اسے قطعی یا قطعیت کے قریب کر دے۔


زکوٰۃ کا نصاب

سوال:زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے؟ کسی نے اپنی بیوی کے لیے (صرف استعمال کی غرض سے) چار تولے سونا خریدا تھااور اس کے پاس اس کے علاوہ کچھ مزید رقم بھی ہے ۔کیا اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے؟(محمد کامران مرزا )

جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا جو نصاب مقرر کیا تھا، وہ آج کے حساب کے مطابق ۶۴۲گرام چاندی ہے۔آپ کے پاس نقدی اور زیورات کی شکل میں جو مال موجود ہے، وہ یقیناًنصاب سے زیادہ ہے ۔ اس لیے آپ پر زکوٰۃ بنتی ہے۔ آپ کے لیے اگر یک مشت زکوٰۃ ادا کرنا ممکن نہ ہو تو آسانی کے لیے یہ کر سکتے ہیں کہ یہ زکوٰۃ ماہانہ اقساط کی شکل میں ادا کردیں۔


انشورنس کا جواز

سوال:کیا انشورنس جائز ہے؟(محمد کامران مرزا )

جواب:انشورنس کے نظام میں اصولاً کوئی غلطی نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی ادارہ لوگوں سے پیسے لے کر ان کو اس وقت ادا کردے جب پہلے سے طے کردہ ضرورت سامنے آجائے۔ یہ ادارہ کوئی کاروبار کرکے اس سرمائے میں اضافہ کرے اور اس اضافے کی ایک شرح لوگوں کی رقوم میں شامل کرتا رہے، اس میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے۔ البتہ، ہمارے ملک میں انشورنس کے ادارے ممکن ہے کہ سرمایہ کاری سودی طریقے پر کرتے ہوں۔ اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے ادارے سے انشورنس کرانے سے اجتناب کیا جائے۔


فجر کی قضا نماز

سوال:فجر کی نماز طلوع آفتاب کے بعد اور زوال سے پہلے ادا کی جائے تو مکمل ادا کرنی پڑتی ہے۔ کیا یہ قضا ہوتی ہے؟(محمد کامران مرزا )

جواب:اس کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کی آنکھ ہی اس وقت کھلی ہے جب سورج طلوع ہو چکا ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ یہ نماز ’’ادا نماز‘‘ قرار پائے گی۔ دوسری یہ کہ نماز سستی اور غفلت کی وجہ سے رہ گئی ۔ اس صورت میں یہ نماز قضا ہوگی۔ مکمل نماز سے غالباًآپ کی مراددو سنت اوردوفرض یعنی چار رکعت پڑھنا ہے۔ دو سنت اصل میں نفل نماز ہے اور احناف اسے سنت اس لیے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مداومت کے ساتھ پڑھے ہیں۔ بہرحال ان کا پڑھنا دونوں صورتوں میں لازم نہیں ہے ۔ لیکن ان کی ادائی کا اجر بہت زیادہ ہے ۔ اس لیے دونوں صورتوں ہی میں اسے پڑھنا افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی یہی ہے۔


ماضی کی قضا نمازیں

سوال: میں گزشتہ چار سال سے پانچ وقت کا نمازی ہوں۔ اس سے پہلے غافل تھا۔ ہزاروں نمازیں قضا ہوں گی۔ کیا ان کو پڑھنا ضروری ہے؟(محمد کامران مرزا )

جواب:اس معاملے میں اہل علم کی دو آرا ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قضا نمازیں ادا کرنی چاہییں۔ دوسری یہ کہ اس کوتاہی پر خدا سے توبہ کرنی چاہیے۔آیندہ نمازوں میں پابندی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا فوراً ازالہ کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ایک اندازہ قائم کرکے قضا نمازیں پڑھ لینی چاہییں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مشورہ یہ ہے کہ سنن کی جگہ اگر یہ نمازیں پڑھ لی جائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ دونوں کا اجر ادا کر دیں گے۔


حدیث اور قرآن میں تضاد

سوال: اگر کوئی حدیث قرآن کے مضمون سے ٹکرا رہی ہو تو کیا کرنا چاہیے؟(غلام یاسین)

جواب:حدیث اور قرآن میں تضاد کی بیش ترمثالیں بالعموم قرآن کی روشنی میں حدیث کو حل نہ کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ مزید براں کلام فہمی کے جو اصول بعض فقہا کے پیش نظر رہے ہیں وہ بھی اس کا باعث بنے ہیں کہ بعض چیزوں کو متضاد یا مختلف قرار دے دیاجائے۔ ہمارے خیال میں صحیح روایت اور قرآن مجید میں تضاد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ بطور اصول یہی بات کہی جائے گی کہ جو حدیث قرآن سے ٹکرا رہی ہو، وہ قبول نہیں کی جاسکتی۔


کیا یہ حرابہ تھا؟

سوال:ایک مشہور روایت ہے کہ ایک خاتون آپ کے پاس آئی اور اس نے زنا کا اعتراف کیا۔ آپ نے فرمایا کہ وضع حمل کے بعد آنا...۔ بعدازاں آپ نے اس کوسنگ سار کرایا۔ اس خاتون کو سنگ سار کیوں کیا گیا۔ اس کو سو کوڑے کیوں نہ لگائے گئے۔ کیا وہ حرابہ کی مرتکب ہوئی تھی۔(محمد عارف جان )

جواب:یہ سوال ایک اصولی حقیقت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ میں اپنی بات کو مثال سے واضح کرتا ہوں۔ اخبارات میں آئے دن مقدمات کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان خبروں سے قانونی ضوابط کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمات کے فیصلوں سے متعلق روایات واقعات کا محض جزوی بیان ہیں۔ راوی نے معلوم نہیں واقعے کے کن اہم پہلووں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ زنا کی سزا قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح حرابہ کی سزا بھی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ہم ذرہ برابر شبے کے بغیر یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قانون اور انصاف کے سب تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر مجرموں کو سزائیں دی ہیں۔جس مجرم کو حرابہ کی سزا دی گئی ہے، وہ یقیناً اسی سزا کا مستحق تھا۔ کسی راوی کے بیان سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔

اصولی بات یہ ہے کہ واقعات سے قانون اخذ کرنا درست نہیں۔ قانون کی روشنی میں واقعات کو سمجھا جائے گا۔


اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر درود

سوال:قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر رحمت بھیجتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو خالق ہیں اور بے نیاز ہیں۔ ایک نبی پر یعنی اپنی ہی ایک مخلوق پر رحمت بھیجنے سے کیا مراد ہے؟(محمد عارف جان)

جواب:عربی زبان میں بالخصوص اور عام زبانوں میں بھی فعل کی فاعل سے نسبت اس کے معنی میں تغیر کر دیتی ہے۔ اس کی اردو میں مثال محبت ہے۔ ماں بیٹے کی محبت اور میاں بیوی کی محبت دو مختلف چیزیں ہے، لیکن ایک اشتراک کے باعث لفظ ایک ہی بولا جاتا ہے۔’ صلی‘ کا لفظ جب بندوں کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس سے رحمت کی دعا کرنا مقصود ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس میں رحمت کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔بے شک، اللہ تعالیٰ خالق اور بے نیاز ہیں، لیکن وہی سب کا سہارا اور ملجاوماویٰ بھی ہیں۔ لہٰذا ان کی عنایات ہی سے یہ کاروبار زیست رواں دواں ہیں۔ سورۂ اخلاص میں یہ دونوں پہلو یکجا بیان ہو گئے ہیں۔ ’ہواللّٰہ احد‘ ’’وہ یکتا ہے‘‘ یعنی ہر شے سے غنی ہے ۔ ’اللّٰہ الصمد‘ ’’اللہ سب کا سہارا ہے۔‘‘ یعنی سب مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب کا حاجت روا ہے۔


غیر مسلم کو زکوٰۃ

سوال: کیا غیر مسلموں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؟(محمد عارف جان)

جواب: اس معاملے میں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن وسنت میں کوئی قطعی چیز نہیں ہے جو اس میں مانع ہو۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ غیر مسلم کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔


خوش عقیدگی اور بدعت

سوال:جو لوگ خوش عقیدگی کی وجہ سے بدعات کا شکار ہیں ان کا انجام کیا ہوگا؟(محمد عارف جان)

جواب:ہر مسلمان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ صرف اسی بات کو دین سمجھے اور اسی کو دین کی حیثیت سے اختیار کرے جس کے بارے میں اس کی رائے یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتائی ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کی یہ رائے براہ راست مطالعے سے بنی ہے یا اس نے یہ بات کسی عالم دین سے جانی ہے۔ یہ رائے اگر غلط بھی ہو تو امید ہے، اجر ملے گا۔ بشرطیکہ یہ آدمی اپنی غلطی واضح ہونے کی صورت میں اپنی رائے اور اپنے عمل کو تبدیل کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور اسے صرف صحیح دین پر عمل کرنے پر اصرار ہے۔ دین میں گمان اور تمنا پر عمل خطرناک راستہ ہے۔ دین کے ساتھ خلوص بنیادی شرط ہے، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ کئی غلطیاں نظر انداز کر دی جائیں گی۔


بدلہ لینا

سوال: حکومت کے کار پرداز اگر مجرموں کے ساتھ ملے ہوئے ہوں تو کیا مجرموں سے خود بدلہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں؟(محمد عارف جان )

جواب:ایک ملک جہاں مجرموں سے نمٹنے کا نظام قائم ہو، وہاں خود بدلہ لینا انارکی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ ہمارے جیسے معاشروں میں عام ہے۔ یہ اس بات کا عذر نہیں بننی چاہیے کہ ہم خود ہی کسی کو مجرم ٹھہرائیں اور خود ہی اسے سزا دے ڈالیں۔ بہتر یہی ہے کہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیاجائے۔ اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ حالات کو بدل دے اور مجرم اپنے کیفر کردار کو پہنچ جائیں۔ اگر اس کی مصلحت یہی تھی کہ اس دنیا میں ایسا نہ ہو توآخرت میں مجرم بھی اپنے انجام کو پہنچے گا اور مظلوم بھی وہ کچھ پالے گا جس کے بعد کوئی شکایت باقی نہ رہے گی۔


لونڈیوں کا نظام

سوال:لونڈیوں اور کنیزوں کا نظام کب تک رہا؟ جس طرح شراب کو واضح طور پر حرام قرار دے دیا گیا، لونڈیوں کو کیوں ختم نہ کیا گیا۔اگر لونڈی کا نظام صرف سوسال پہلے ختم ہوا ہے تو آخر آج ایک لونڈی کیوں نہیں رکھی جا سکتی۔(محمد عارف جان )

جواب:قرآن مجید نے لونڈیوں اور غلاموں کے نظام کو واضح مصالح کے پیش نظر یک قلم ختم نہیں کیا۔ ایسے معاشرے جہاں غلام ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں اور ہر گھر میں ان کے معاشی سیٹ اپ کا حصے بنے ہوئے ہوں۔ غلامی کو یک قلم ختم کرنا انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بے سہارا اور بے گھر کر دینے کے مترادف تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کو غلام بنانے کا آپشن ختم کر دیا اور یہ کہا کہ انھیں فدیہ لے کر یا احسان کرکے چھوڑ دیا جائے۔ موجود غلاموں کو مکاتبت کی اجازت دے کر ان کے لیے آزادی حاصل کرنے کی راہ پیدا کر دی۔خلافت راشدہ میں انھی دونوں ضوابط پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ مشکل یہ پیش آئی کہ اسلام سے باہر کی سوسائٹی میں غلام بنانے کا عمل جاری رہا اور مکاتبت کی راہ سے فائدہ اٹھانے کا عمل بھی بہت محدود پیمانے پر ہوا چنانچہ آیندہ کئی صدیوں تک غلامی کا رواج قائم رہا۔غلام بنانا ایک کریہہ عمل ہے ،یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جائز رکھتے۔ سورۂ محمد(۴۷:۴) کی محولہ آیت نے واضح طور پر غلام بنانے سے روک دیا ہے۔ جاری غلامی کو ختم کرنے کی جو کوشش امویوں اور عباسیوں کو کرنی چاہیے تھی، وہ انھوں نے نہیں کی اور اس کا اعزاز امریکیوں کو حاصل ہوا کہ انھوں نے اس مکروہ کاروبار کو بالکلیہ ختم کر دیا۔ کسی کو غلام بنانا ایک ناپسندیدہ فعل ہے، اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔

_______________

B