بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمْ اُمَّہٰتُکُمْ وَبَنٰتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ، وَاُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ، وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمْ، وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ، فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ، وَحَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ، وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْْنَ الْاُخْتَیْْنِ، اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا {۲۳}
وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ، اِلاَّ مَا مَلَکَتْ اَیْْمَانُکُمْ، کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ، وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ، اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ، مُّحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسٰفِحِیْنَ، فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ، فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃً، وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْْتُمْ بِہٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا{۲۴}
تم پر تمھاری مائیں، تمھاری بیٹیاں، تمھاری بہنیں، تمھاری پھوپھیاں، تمھاری خالائیں، تمھاری بھتیجیاں اور تمھاری بھانجیاں حرام کی گئی ہیں۵۲ اور تمھاری وہ مائیں بھی جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا اور رضاعت کے اِس تعلق سے تمھاری بہنیں بھی۔۵۳ (اِسی طرح) تمھاری بیویوں کی مائیں (حرام کی گئی ہیں)۵۴ اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں (حرام کی گئی ہیں) جو تمھاری گودوں میں پلی ہیں۵۵ ــــ اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تم نے خلوت کی ہو، لیکن اگر خلوت نہ کی ہو توکچھ گناہ نہیں ـــ اور تمھارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی ۔۵۶ اور یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ہی نکاح میں جمع کرو،۵۷ مگر جو ہو چکا سو ہو چکا۔ اللہ یقینا بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۲۳
اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی کے نکاح میں ہوں، الا یہ کہ وہ تمھاری ملکیت میں آجائیں۔۵۸ یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کی گئی ہے۔ اور اِن کے ماسوا جو عورتیں ہیں، (اُن کا مہر ادا کرکے) اپنے مال کے ذریعے سے انھیں حاصل کرنا تمھارے لیے حلال ہے،۵۹ اس شرط کے ساتھ کہ تم پاک دامن رہنے والے ہو نہ کہ بدکاری کرنے والے۔۶۰ پھر(اِس سے پہلے اگر مہر ادا نہیں کیا ہے تو) جو فائدہ اُن سے اٹھایا ہے، اُس کے صلے میں اُن کا مہر انھیں ادا کرو، ایک فرض کے طور پر۔ مہر ٹھیرانے کے بعد، البتہ آپس کی رضامندی سے جو کچھ طے کر لو تو اُس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ بے شک، اللہ علیم و حکیم ہے۔ ۲۴
۵۲؎ یہ اور اس کے بعد جو حرمتیں بیان ہوئی ہیں، وہ استاذ امام کے الفاظ میں انسانی فطرت کے اس تقاضے پر مبنی ہیں کہ جہاں رحمی رشتے کی قربت قریبہ موجود ہو یا اس سے مشابہت پائی جاتی ہو، وہاں باہمی ارتباط کی بنیاد صرف رحم، محبت اور رأفت و شفقت کے اعلیٰ جذبات ہی پر ہونی چاہیے۔ اس میں نہ تو نفس کی شہوات و رغبات کی کوئی آمیزش ہونی چاہیے نہ رشک و رقابت کو اس میں خلل انداز ہونے کا موقع دینا چاہیے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو سب سے مقدم یہی نسبی رشتے ہیں اور ان کی قربت اپنے اندر فی الواقع اس نوعیت کا تقدس رکھتی ہے کہ اس میں جنسی رغبت کا شائبہ بھی ہو تو اسے فطرت صالحہ کسی طرح برداشت نہیں کر سکتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ تقدس ہی درحقیقت تمدن کی بنیاد، تہذیب کی روح اور خاندان کی تشکیل کے لیے رأفت و رحمت کے بے لوث جذبات کا منبع ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ماں کے لیے بیٹے، بیٹی کے لیے باپ، بہن کے لیے بھائی، پھوپھی کے لیے بھتیجے، خالہ کے لیے بھانجے، بھانجی کے لیے ماموں اور بھتیجی کے لیے چچا کی نگاہ جنس و شہوت کی ہر آلایش سے پاک رہے اور عقل شہادت دیتی ہے کہ ان رشتوں میں اس نوعیت کا علاقہ شرف انسانی کا ہادم اور شرم و حیا کے اس پاکیزہ احساس کے بالکل منافی ہے جو انسانوں اور جانوروں میں وجہ امتیاز ہے۔
۵۳؎ نسبی رشتوں کے بعد اب یہ رضاعی رشتوں کا بیان ہے۔ یہ رشتے اپنے اندر کیا تقدس رکھتے ہیں؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’ رضاعت کے تعلق کو لوگ ہمارے ہاں اس گہرے معنی میں نہیں لیتے، جس معنی میں اس کو لوگ عرب میں لیتے تھے۔ اس کا سبب محض رواج کا فرق ہے ۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اس کو مادرانہ رشتے سے بڑی گہری مناسبت ہے۔ جو بچہ جس ماں کی آغوش میں، اس کی چھاتیوں کے دودھ سے پلتا ہے، وہ اس کی پوری نہیں تو آدھی ماں تو ضرور بن جاتی ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ جس کا دودھ اس کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے، اس سے اس کے جذبات و احساسات متاثر نہ ہوں۔ اگر نہ متاثر ہوں تو یہ فطرت کا بنائو نہیں،بلکہ بگاڑ ہے اور اسلام جو دین فطرت ہے، اس کے لیے ضروری تھا کہ اس بگاڑ کو درست کرے۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۲۷۵)
یہ تعلق کس طرح دودھ پلانے سے قائم ہوتا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ تعلق مجرد کسی اتفاقی واقعے سے قائم نہیں ہو جاتا۔ قرآن نے یہاں جن لفظوں میں اس کو بیان کیا ہے، اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ اتفاقی طور پر نہیں، بلکہ اہتمام کے ساتھ ایک مقصد کی حیثیت سے عمل میں آیا ہو، تب اس کا اعتبار ہے۔ اول تو فرمایا ہے:’’تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے۔‘‘ پھر اس کے لیے رضاعت کا لفظ استعمال کیا ہے، ’واخواتکم من الرضاعۃ‘ ۔عربی زبان کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ’ارضاع‘ باب افعال سے ہے جس میں فی الجملہ مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ’رضاعت‘ کا لفظ بھی اس بات سے ابا کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت کسی روتے بچے کو بہلانے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ سے لگا دے تو یہ رضاعت کہلائے۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۲۷۵)
آیت کے الفاظ سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ رضاعت کے تعلق سے وہ سب رشتے حرام ہوں گے جو نسبی تعلق سے حرام ہوتے ہیں۔ قرآن کا مدعا یہی ہے، لیکن اس کے لیے عربیت کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ الفاظ و قرائن کی دلالت اور حکم کے عقلی تقاضے جس مفہوم کو آپ سے آپ واضح کر رہے ہوں، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ اصل میں دیکھیے تو ’وامھاتکم التی ارضعنکم‘ کے ساتھ ’واخواتکم من الرضاعۃ‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ بات اگررضاعی ماں ہی پر ختم ہو جاتی تو اس میں بے شک، کسی اضافے کی گنجایش نہ تھی، لیکن رضاعت کا تعلق اگر ساتھ دودھ پینے والی کو بہن بنا دیتا ہے تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ رضاعی ماں کے دوسرے رشتوں کو بھی یہ حرمت لازماً حاصل ہو۔ دودھ پینے میں شراکت کسی عورت کو بہن بنا سکتی ہے تو رضاعی ماں کی بہن کو خالہ، اس کے شوہر کو باپ، شوہر کی بہن کو پھوپھی اور اس کی پوتی اور نواسی کو بھتیجی اور بھانجی کیوں نہیں بنا سکتی؟ لہٰذا یہ سب رشتے بھی یقینا حرام ہیں۔ یہ قرآن کا منشا ہے اور ’اخواتکم من الرضاعۃ‘ کے الفاظ اس پر اس طرح دلالت کرتے ہیں کہ قرآن پر تدبر کرنے والے کسی صاحب علم سے اس کا یہ منشا کسی طرح مخفی نہیں رہ سکتا۔
۵۴؎ نسب اور رضاعت کے بعد اب وہ حرمتیں بیان ہوئی ہیں جو مصاہرت پر مبنی ہیں۔ یہ رشتے چونکہ بیوی اور شوہر کی وساطت سے قائم ہوتے ہیں اور اس سے ایک نوعیت کا ضعف ان میں پیدا ہو جاتا ہے، اس لیے قرآن نے تین شرطیں ان پر عائد کر دی ہیں: ایک یہ کہ بیٹی صرف اس بیوی کی حرام ہے جس سے خلوت ہو جائے۔ دوسری یہ کہ بہو کی حرمت کے لیے بیٹے کا صلبی ہونا ضروری ہے۔ تیسری یہ کہ بیوی کی بہن، بھانجی اور بھتیجی کی حرمت اس حالت کے ساتھ خاص ہے، جب میاں بیوی میں نکاح کا رشتہ قائم ہو۔
۵۵ ؎ یہ الفاظ یہاں بیان شرط کے لیے نہیں، بلکہ حرمت کے حکم کو موثر بنانے کے لیے آئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ عربی زبان میں ہر صفت کو لازماً قید و شرط کی حیثیت حاصل نہیں ہو جاتی کہ ان میں سے کوئی نہ پائی جائے تو وہ حکم کالعدم ہو جائے، بلکہ اس کا انحصار قرینے پر ہوتا ہے۔ قرینہ بتاتا ہے کہ کون سی صفت قید اور شرط کا درجہ رکھتی ہے اور کون سی صفت محض تصویر حال کے لیے ہے۔ یہاں صرف قرینہ ہی نہیں، بلکہ تصریح ہے کہ ربیبہ کی ماں اگر تمھاری مدخولہ نہ بنی ہو تو اس ربیبہ سے نکاح میں کوئی قباحت نہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہو گئی کہ ربیبہ کی حرمت میں اصل موثر چیز اس کی ماں کا مدخولہ ہونا ہے۔ اگر وہ مدخولہ ہے تو اس کی لڑکی سے نکاح ناجائز ہو گا، قطع نظر اس سے کہ وہ آغوش تربیت میں پلی ہے یا نہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اعلیٰ عربی، بالخصوص قرآن حکیم میں اثبات کے بعد نفی کے اسلوب یا نفی کے بعد اثبات کے اسلوب میں جو باتیں بیان ہوتی ہیں، وہ محض سخن گسترانہ نہیں ہوتیں، بلکہ کسی خاص فائدے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان سے مقصود اکثر صورتوں میں رفع ابہام ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان لوگوں کا خیال قرآن کے خلاف ہے جو ربیبہ کے ساتھ نکاح صرف اس صورت میں حرام سمجھتے ہیں، جب وہ نکاح کرنے والے کے آغوش تربیت میںپلی ہو۔ بصورت دیگر وہ اس کے ساتھ نکاح کو جائز سمجھتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۲۷۶)
۵۶؎ اس میں صلبی ہونے کی شرط بالخصوص اس لیے عائد کی گئی ہے کہ اس زمانے کے عرب میں لوگ اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کو ناجائز سمجھتے تھے۔ قرآن نے اس شرط سے واضح کر دیا کہ کسی کو اپنا بیٹا کہہ دینے سے نہ وہ بیٹا بن جاتا ہے اور نہ اس سے کوئی حرمت قائم ہوتی ہے۔
۵۷؎ اصل میں ’وان تجمعوا بین الاختین‘ کے الفاظ آئے ہیں۔یہاں بھی اگر غور کیجیے تو زبان کا وہی اسلوب ہے جس کا ذکر اوپر رضاعت کی بحث میں ہوا ہے۔ قرآن نے ’بین الاختین‘ ہی کہا ہے،لیکن صاف واضح ہے کہ زن و شو کے تعلق میں بہن کے ساتھ بہن کو جمع کرنا اگر اسے فحش بناتا اور دو بہنوں کو بہنیں ہوتے ہوئے بھی سوکنوں کے جلاپے اور رشک و رقابت کے جذبات میں مبتلا کر دیتا ہے تو پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا بھی گویا ماں کے ساتھ بیٹی ہی کو جمع کرنا ہے۔ لہٰذا قرآن کا مدعا، لاریب یہی ہے کہ ’ان تجمعوا بین الاختین، وبین المرأۃ وعمتھا، و بین المرأۃ وخالتھا‘۔وہ یہی کہنا چاہتا ہے، لیکن ’بین الاختین‘ کے بعد یہ الفاظ اس نے اس لیے حذف کر دیے ہیں کہ مذکور کی دلالت اپنے عقلی اقتضا کے ساتھ اس محذوف پر ایسی واضح ہے کہ قرآن کے اسلوب سے واقف اس کا کوئی طالب علم اس کے سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔
۵۸؎ اس لیے کہ کسی کی ملکیت میں آتے ہی ان کا پہلا نکاح آپ سے آپ کالعدم سمجھا جاتاتھا۔ یہ اس زمانے کا قانون تھا جسے قرآن نے بھی باقی رکھا۔ چنانچہ قیدی عورتیں اگر چاہتیں تو پکڑے جانے کے بعد کسی بھی شخص سے نکاح کر سکتی تھیں۔ اس کے لیے انھیں اپنے پہلے شوہروں سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں تھی۔
۵۹؎ اس سے واضح ہے کہ نکاح مال، یعنی مہر کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ نکاح کی ایک لازمی شرط ہے۔ چنانچہ آگے ہدایت فرمائی ہے کہ اس سے پہلے اگر کسی عورت کا مہر ادا نہیں کیا گیا تو اسے فوراً ادا کر دیا جائے۔
یہ مہر کیا ہے؟ مردوعورت نکاح کے ذریعے سے مستقل رفاقت کا جو عہد باندھتے ہیں، اس میں نان و نفقہ کی ذمہ داریاں ہمیشہ سے مرد اٹھاتا رہا ہے، یہ اس کی علامت (Token)ہے۔ قرآن میں اس کے لیے ’صدقۃ‘ اور ’اجر‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔یعنی وہ رقم جو عورت کی رفاقت کے صلے میں اس کی ضرورتوں کے لیے دی جائے۔ نکاح اور خطبے کی طرح یہ بھی ایک قدیم سنت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب میں اسی طرح رائج تھی۔ بائیبل میں بھی اس کا ذکر اسی حیثیت سے ہوا ہے۔*
اس کی یہ اہمیت کیوں ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:
’’۔۔۔ جس معاملے کے ساتھ اداے مال کی شرط لگی ہو اور اس اداے مال کی حیثیت محض ایک تبرع اور احسان کی نہ ہو، بلکہ ایک فریضے کی ہو، یہاں تک کہ اگر وہ مذکو ر نہ بھی ہو جب بھی لازماً مضمر سمجھا جائے اور عورت کی حیثیت عرفی کے اعتبار سے اس کی ادائیگی واجب قرار پائے، شرعاً و عرفاً ایک اہم اور سنجیدہ معاملہ بن جاتا ہے۔ کوئی بھی ذی ہوش آدمی ایسے معاہدے میںایک پارٹی بننے کی جرات نہ کرے گا جب تک وہ سو بار سوچ کر اس میںشرکت کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہ کرے ـــــ ان مصالح سے مہر کی شرط ضروری ہوئی۔ جن لوگوں کی نظر ان مصالح کی طرف نہیں گئی وہ سمجھتے ہیں کہ اس شرط نے عورت کو ایک خریدنی و فروختنی شے کے درجے تک گرا دیا ہے۔ یہ خیال محض نا سمجھی کا نتیجہ ہے۔ یہ شرط تو ایک آگاہی ہے کہ جو بھی عورت کے حرم میں قدم رکھنا چاہے، وہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر قدم رکھے ۔ نکاح و طلاق کے معاملے میں کسی مذاق کی گنجایش نہیں ہے۔ یہاں مذاق بھی حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۷۸)
۶۰؎ اس سے واضح ہے کہ نکاح کے لیے پاک دامن ہونا ضروری ہے۔ کوئی زانی یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی عفیفہ سے بیاہ کرے اور نہ کوئی زانیہ یہ حق رکھتی ہے کہ کسی مرد عفیف کے نکاح میں آئے، الا یہ کہ معاملہ عدالت میں نہ پہنچا ہو اور وہ توبہ و استغفار کے ذریعے سے اپنے آپ کو اس گناہ سے پاک کر لیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
*پیدایش۳۴: ۱۲، خروج۲۲: ۱۷۔