واقعۂ کربلا اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا کہ اس میں ایک جلیل القدر ہستی کو اس کے خاندان سمیت تہ تیغ کر دیا گیا۔ اگرچہ اس سانحے کے واقعات کی تفصیل و تبیین میں بہت کچھ کد و کاوش کی گئی، لیکن اس کے علمی پہلو کو کم ہی قابل توجہ سمجھاگیا اور اس میں بھی،بالعموم، روایات کے تجزیے ہی پر انحصار رہا۔
اس میں شبہ نہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کا قتل ایک ظالمانہ کارروائی تھی۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ان کے سامنے ایک صحیح مقصد تھا، یعنی وہ اسلام کے اجتماعی نظام کی بعض دفعات کی حفاظت کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت حسین انتقال اقتدار کے جس طریقے کو روکنے کے لیے میدان میں اترے تھے، وہی طریقہ آٹھ نو سال تک اس امت میں جاری رہا اور نواسۂ رسول کی جاں نثاری کے باوجود، اہل اقتدار اپنی روش پر قائم رہے۔
حکمرانوں کے ساتھ، اگر وہ راہ حق سے ہٹ جائیں تو کیا معاملہ کیا جائے؟ اس بارے میں بہت کچھ افراط و تفریط کا امکان ہے۔ احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی یہ بات رہی ہے۔ چنانچہ آپ نے حکمران کی اطاعت ہی کا رویہ اختیار کیے رکھنے کی ہدایت فرمائی، سوائے اس کے کہ اس کی طرف سے کھلا کفر سامنے آ جائے۔ اسی طرح آپ نے فرمایا: حکمران کی معروف میں اطاعت کرتے رہو، جب تک وہ نماز پر قائم رہے۔ عربوں کے نسلی تفاخر کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا: تمھیں اپنے امیر کی اطاعت کرنی ہے، خواہ وہ حبشی غلام ہو اور اس کا سر انگور کے دانے کی طرح ہو۔ یہ ساری وعظ و نصیحت اس کے سوا اور کیا مقصد رکھتی ہے کہ ریاستی نظام مجتمع رہے اور اختلال و فساد کی راہ روک دی جائے۔
دوسری طرف قرآن مجید کی ہدایت ’امر ھم شورٰی بینھم‘ (اُن کا نظام ان کے مشورے سے چلتا ہے) جہاں یہ اصول دیتی ہے کہ حکمران مسلمانوں کے مشورے سے منتخب ہو، وہاں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ صاحب اقتدار کو چیلنج کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ملک کی اکثریت کی تائید، عملاً، حاصل ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ اقدام اوراس کے نتیجے میں ہونے والی خوں ریزی محض رائگاں جائے گی۔ یہاں یہ اصول بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ مسلح اقدام کا راستہ صرف اسی صورت میں اختیار کیا جائے گا، جب نظام حکومت استبدادی ہو اور پر امن طریقوں سے انقلاب قیادت کی راہیں مسدود ہوں۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے معاملے پر اگر غور کیا جائے تو جو بات بہت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے، وہ یہی ہے کہ انھوں نے عوامی تائید کے بارے میں غلط اندازہ قائم کیا تھا۔ اگرچہ صحیح صورت حال ان کے سامنے آ گئی تھی، لیکن پہلے ان کے ساتھی واپسی کی راہ میں حائل ہو گئے، اور بعد میں اہل اقتدار کی نا عاقبت اندیشی کے باعث معاملہ اس اندوہ ناک انجام تک پہنچ گیا۔
ہمارے نزدیک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور قرآن مجید کی رہنمائی اہل اقتدار کی اصلاح یا انقلاب قیادت کا ایسا منہاج دیتی ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا نظم اجتماعی نہ صرف انارکی اور انتشار سے محفوظ رہتا ہے، بلکہ جب تبدیلی آتی ہے، تو ہمہ جہت اور پائدار ہوتی ہے۔ یہ منہاج اس حکمت عملی پر مبنی ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ حریفانہ کشاکش سے گریز کرتے ہوئے، عامۃ الناس کو تبدیلی کے لیے تیار کیا جائے اور اس وقت تک کوئی اقدام نہ کیا جائے، جب تک یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح نہ ہو جائے کہ یہ وہ متبادل قیادت ہے، جس کے افراد اور فکر کو ملک کی اکثریت کی تائید حاصل ہے۔
_________________