بیہقی، رقم۱۶۶۴۲، ۱۶۶۴۳، ۱۶۶۴۴کے مطابق بیان کیا جاتاہے کہ:
روی أن امرأۃ یقال لہا أم مروان ارتدت عن الإسلام، فأمر النبی أن یعرض علیہا الإسلام، فإن رجعت، وإلا قتلت.
’’روایت ہے کہ ام مروان نامی ایک خاتون اسلام سے مرتد ہوگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے اسلام قبول کرنے کا کہا جائے اوراگر وہ پلٹ آئے تو ٹھیک ہے، وگرنہ اسے ماردیاجائے۔‘‘
امام بیہقی اور دارقطنی نے اس روایت کو مختلف اسناد سے روایت کیاہے۔ دو اسناد کو خود امام بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ایک سند کے نیچے وہ لکھتے ہیں:
فی ہذا الإسناد بعض من یجہل.(سنن البیہقی، رقم۱۶۶۴۲)
’’اس سند میں بعض راوی ایسے ہیں کہ جو مجہول ہیں۔‘‘
دوسری سند کے نیچے انھوں نے لکھاہے:
وروی من وجہ آخر ضعیف عن الزہری عن عروۃ عن عائشۃ.(سنن البیہقی، رقم۱۶۶۴۴)
’’یہ روایت بھی ایک دوسری ضعیف سند سے مروی ہے، جس میں زہری روایت کرتے ہیں عروہ سے اور عروہ روایت کرتے ہیں سیدہ عائشہ سے۔‘‘
امام بیہقی سے مروی تیسری سند میں معمربن بکارالسعدی شامل ہے، جس کے بارے میں ماہرین فن مختلف آرا رکھتے ہیں۔ ابن ابی حاتم نے اگرچہ اسے قابل اعتماد ٹھہرایا ہے، جبکہ عقیلی نے اسے ضعیف راویوں کی فہرست میں شامل کیا ہے اور کہاہے:
معمر بن بکار السعدی فی حدیثہ وہم ولا یتابع علی أکثرہ من حدیثہ.
’’معمربن بکار کی روایتوں میں وہم ہوتاہے اور اس کی اکثر روایتوں پر اتفاق نہیں کیاگیا۔‘‘
دارقطنی میں یہ حدیث تین مختلف اسناد سے روایت ہوئی ہے۔ان میں سے ایک سند یہ ہے کہ جس میں زہری روایت کرتے ہیں عروہ سے اور عروہ روایت کرتے ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔اس سند کے بارے میں امام بیہقی کی رائے ہم اوپر نقل کرآئے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔ روایت کی دوسری سند میں معمربن بکارہے جوبہت سے ماہرین فن کے نزدیک قابل اعتماد نہیں۔ اس روایت کی تیسری سند میں احمد بن یحییٰ ہے جس کے بارے میں دارقطنی کا تبصرہ اس طرح سے ہے:
قال الدار قطنی فی الغرائب لیس بشیء فی الحدیث.(لسان المیزان ۱/ ۳۲۳)
’’دارقطنی نے الغرائب میں کہاہے کہ یہ حدیث کی روایت میں کوئی مقام نہیں رکھتا۔‘‘
اس روایت کی کوئی بھی سند، چونکہ مکمل طور پر قابل اطمینان نہیں ہے، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے میں توقف کیا جائے۔
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
_________________