HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

گوہ، بجو، خرگوش اور لومڑی کا حکم

إن۱ عبد الرحمن بن معقل السلمی صاحب الدثنیۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قلت: یا رسول اللّٰہ ما تقول فی الضبع؟ فقال: لا آکلہ ولا أنہی عنہ. قال: قلت: ما لم تنہ عنہ فأنا آکلہ.
قال: قلت: یا نبی اللّٰہ ما تقول فی الضب؟ قال: لا آکلہ ولا أنہی عنہ. قال: قلت: ما لم تنہ عنہ فإنی آکلہ.
قال: قلت: یا نبی اللّٰہ، ما تقول فی الأرنب؟ قال لا آکلہا ولا أحرمہا. قال: قلت: ما لم تحرمہ فإنی آکلہ.
قال: قلت: یا نبی اللّٰہ، ما تقول فی الذئب؟ قال أو یأکل ذلک أحد؟ (أوقال: أویأکل الذئب أحد فیہ خیر!۲)
فقلت: یا نبی اللّٰہ، ما تقول فی الثعلب؟ قال أو یأکل ذلک أحد؟
’’عبد الرحمن بن معقل سلمی دثنیہ والے کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے رسول اللہ، آپ بجو کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : میں نہ اسے کھاتا ہوں، نہ اس سے روکتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں: میں نے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جس سے آپ روکیں گے نہیں، میں تو اسے کھاؤں گا۔
وہ کہتے ہیں:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے رسول اللہ، آپ گوہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : میں نہ اسے کھاتا ہوں، نہ اس سے روکتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں: میں نے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جس سے آپ روکیں گے نہیں، میں تو اسے کھاؤں گا۔
وہ کہتے ہیں:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے رسول اللہ، آپ خرگوش کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : میں نہ اسے کھاتا ہوں، نہ اس سے روکتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں: میں نے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جس سے آپ روکیں گے نہیں، میں تو اسے کھاؤں گا۔
وہ کہتے ہیں:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے رسول اللہ، آپ بھیڑیے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : اسے بھی کوئی کھاتا ہے!( یا آپ نے فرمایا تھا:جس میں کوئی خیر ہے، آیا وہ بھیڑیے کو کھائے گا!)۔
وہ کہتے ہیں:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے رسول اللہ، آپ لومڑی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : اسے بھی کوئی کھاتا ہے!‘‘۱؂
ترجمے کے حواشی

۱۔بجو، گوہ اور خرگوش کے بارے میں آپ نے ہمارے اختیار پر چھوڑا ہے۔ ہماری فطرت اور طبیعت چاہے تو ہم کھالیں، اور ابا کرے تو نہ کھائیں۔البتہ، بھیڑیے اور لومڑی کے بارے میں آپ نے یہ فرمایا ہے کہ یہ تو کھائے جانے والے جانور ہی نہیں ہیں۔ بجو کے بارے میں صحیح روایتوں سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا معاملہ وہی ہے جو گوہ کا ہے۔ واضح رہے ترمذی کی تخریج کردہ سیدنا جابر کی ایک حسن اور صحیح روایت سے بھی اس کے کھانے کی اباحت معلوم ہوتی ہے۔ البتہ، بجو کی حلت ان روایتوں کے خلاف ہے، جن میں ’ذی مخلب‘اور ’ذی ناب‘ (پنجوں اور کچلیوں والے )جانوروں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔بجو ایک گوشت خور جانور ہے۔ یہ انعام کی قسم میں داخل نہیں ہے۔ غالباً روایتوں میں ’ضب‘اور ’ضبع ‘کے قریب الصوت الفاظ کی وجہ سے راویوں کو سماعت میں غلطی لگی ہے۔ اس کی تفصیلی وضاحت ہم پچھلی روایت میں کر چکے ہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ’ الضبع‘ کا ترجمہ ہمارے ہاں بجو کیا گیا ہے۔جبکہ لغات جدیدہ چونکہ مصورہوتی ہیں۔ چنانچہ ’الضبع‘ کے تحت جو تصویر دی گئی ہے، وہ بجو کی نہیں، بلکہ لگڑ بھگڑ (Hyena)کی ہے۔ یہ بھی واضح طور پر درندہ ہے۔ اس کی حرمت بھی واضح ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ یہ روایت ان تمام سوالات کے ساتھ صرف بیہقی، رقم ۱۹۱۷۱میں آئی ہے،مگر اس کی سند میں ضعف ہے۔انھی جانوروں سے متعلق سوالات پر مبنی مختلف روایات ان حوالوں پردیکھی جا سکتی ہیں: ابن ماجہ، رقم ۳۲۳۷، ۳۲۳۵، ۳۲۴۵۔

ابن ماجہ، رقم ۳۲۳۵میں یہی مضمون اس طرح سے بیان ہوا ہے:’ عن خزیمۃ بن جزء قال قلت: یارسول اللّٰہ جئتک لاسالک عن أحناش الأرض، ما تقول فی الثعلب ؟ قال: ومن یاکل الثعلب ! قلت: یا رسول اللّٰہ ما تقول فی الذئب ؟ قال: ویاکل الذئب احد فیہ خیر!‘ (خزیمہ کہتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : یا رسول اللہ، میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ آپ سے زمین کے جانوروں کے بارے میں پوچھوں، لومڑی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: اسے کون کھاتا ہے؟ میں نے پوچھا :بھیڑیے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟آپ نے فرمایا: جس میں کوئی خیر ہے، آیا وہ بھیڑیے کو کھائے گا!)

ابن ماجہ، رقم ۳۲۳۷ میں خزیمہ ہی کے بجو کے بارے میں سوال کا جواب بھی وہی ہے جو مذکورہ بالا روایت میں بھیڑیے اور لومڑی کے بارے میں ہے :’ یا رسول اللّٰہ ما تقول فی الضبع. قال: ومن یاکل الضبع!‘ (اے رسول اللہ، آپ بجو کے بارے میں کیا فرماتے ہیں: آپ نے فرمایا کہ اسے بھی کوئی کھاتا ہے!)یہ بیہقی کی روایت، رقم ۱۹۱۷۱کے خلاف ہے۔

علامہ البانی کی تعلیقا ت کے مطابق ابن ماجہ (رقم ۳۲۳۷، ۳۲۳۵، ۳۲۴۵) کی تینوں روایتیں بھی ضعیف ہیں۔

۲۔یہ اضافہ ابن ماجہ، رقم ۳۲۳۷ سے کیاگیا ہے۔

 _________________

B