(مسلم، رقم ۴۵)
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ أَوْ قَالَ لِجَارِہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہِ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی یا آپ نے فرمایا کہ اپنے ہمسایے کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّی یُحِبَّ لِجَارِہِ أَوْ قَالَ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہِ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے ہمسایے یا آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
لا یؤمن أحدکم : پچھلی روایت میں بھی یہی اسلوب موجود ہے۔ وہاں ہم نے یہ واضح کیا ہے کہ ایمان کی یہ نفی دراصل کمال ایمان کی نفی ہے۔یہاں ہم اس جملے کے دوسرے پہلو کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔ اس جملے میں ’یؤمن‘ کا مفعول مذکور نہیں۔ جب ’آمن‘ فعل کا مفعول مذکور نہ ہو تو دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ سیاق وسباق سے واضح ہو کہ مفعول کیا ہے۔ دوسری یہ کہ ایمان بحیثیت ایک امر جامع کے مذکور ہو۔ ان دونوں روایتوں میں حذف کا اسلوب اسی پہلو کے لیے ہے۔
یحب: ’حب‘ کا لفظ اردو کے محبت کے معنی میں بھی آتا ہے اور اس کا ایک استعمال ان مواقع کے لیے بھی ہے جس کے لیے ہم اردو میں’پسند کرنے‘ کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔ اس روایت میں اس کے یہی معنی ہیں۔
لأخیہ: بعض شارحین نے ’أخ‘ سے مسلمان بھائی مراد لیا ہے۔ اپنی اس بات کو موکد کرنے کے لیے وہ اس روایت کا وہ متن بھی پیش کرتے ہیں جس میں مسلم کی تصریح بھی مذکور ہے۔ لیکن کچھ روایات میں ’أخ‘ کے بجائے ’جار‘ اور ’الناس‘ کا لفظ بھی آیا ہے۔ ہمارے نزدیک کوئی بھی لفظ ہو،وہ محض بطور مثال ہے اور اصل مقصود دوسروں کے بارے میں سوچنے کا ایک اسلوب واضح کرنا ہے۔
خدا پر مالک وخالق کی حیثیت سے ایمان، قیامت کے دن اس کے حضور جواب دہی کے یقین اور اس زندگی کے صرف اور صرف آزمایش ہونے کے ادراک کے نتیجے میں انسان کی سوچ اور عمل میں نمایاں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ ان سے جہاں وہ خدا کے ساتھ بندگی کے تعلق میں بندھتا ہے، وہاں اس کا اخلاقی وجود پوری طرح فعال ہو جاتا ہے۔ زیر غور روایات میں اسی دوسرے پہلو کی کچھ جہات کو واضح کیا گیا ہے۔
شارحین نے اس روایت کے ضمن میں تین باتیں واضح کی ہیں:
ایک یہ کہ یہاں ایمان کی نفی سے کمال ایمان کی نفی مراد ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات درست ہے، لیکن اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایمان کا نتیجہ کچھ ثمرات ہیں، جن کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری روایت میں ایمان کی شاخوں کی تعبیر اختیار کی ہے۔ جب ان میں سے کوئی ثمرہ ظاہر نہ ہو تو یہ درحقیقت ایمان میں کمی کی علامت ہے اور یہاں ’لایؤمن‘ کی تعبیر اختیار کرکے اسی کمی کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اگر کردار میں یہ خصوصیت پیدا نہیں ہوئی تو اسے پیدا کرنے کی سعی کی جائے اور اس نقصان کو ایمان کا نقصان سمجھا جائے۔
دوسری یہ کہ اس روایت میں ’جو اپنے لیے پسند کرے‘ کا جملہ ہر چیز کے معنی میں نہیں ہے۔ اس سے طاعات اور مباحات ہی مراد ہیں، منہیات اس میں شامل نہیں ہیں۔اسی حوالے سے یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ یہاں صرف حسی چیزیں مراد نہیں ہیں،بلکہ معنوی چیزیں بھی مراد ہیں۔ اسی طرح شارحین نے اس سوال کو بھی لیا ہے کہ کیا دوسرے کے لیے عین وہی چاہنا مراد ہے جو آدمی اپنے لیے چاہتا ہے۔ اس اشکال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ عینیت مراد نہیں ہے، بلکہ اس جیسا ہونا مراد ہے۔ روایت کے اس جملے کو ایک قاعدے کی حیثیت سے لیا جائے تو یہ تصریحات ضروری ہیں اور ان سے اختلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
تیسری یہ کہ اس ہدایت سے کردار میں کیا خصوصیت پیدا کرنا مقصود ہے۔شارحین کے نزدیک یہ ہدایت درحقیقت دوسرے افراد سے حسد، کینہ اور فریب سے روکنے کی ہدایت ہے اور اس ہدایت پر پوری طرح عمل کرنے کے لیے اپنے اندر ایثار کے جذبے کو متحرک کرنا ضروری ہے۔ یہ دونوں باتیں بھی اپنی جگہ پر درست ہیں اور یہ بات بھی درست ہے کہ اس ہدایت پر عمل سے یہ چیزیں بھی کردار کا حصہ بن جائیں گی۔
ہمارے نزدیک یہ ہدایت درحقیقت ایک پیمانہ ہے جس سے ہم یہ بات طے کر سکتے ہیں کہ کسی دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنے میں صحیح فتویٰ کیا ہے۔ہم اپنی فطرت کی سطح پر پوری طرح صالح ہوتے ہیں۔ ہمارے مفادات، جذبات اور تعصبات ہماری فطرت کی آواز کو کمزور کر دیتے ہیں اور ہم غلط کو صحیح قرار دے ڈالتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی کشمکش میں فیصلے کی بنیاد واضح کی ہے۔آپ کی مراد یہ ہے کہ جب دوسرے سے معاملہ کرنے لگو تو اس بنیاد پر فیصلہ کرو کہ تم اس کی جگہ پر ہوتے تو کیا چیز پسند کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے لیے دھوکے، انتقام، جبراور بے توقیری جیسی چیزوں کو کبھی پسندنہیں کرتا، بلکہ وہ انصاف ،عفوودرگزر، آزادی اور عزت کا طلب گار ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے لیے اور اپنے لیے پیمانے کو الگ الگ نہ رکھو۔ جو پیمانہ تمھارے لیے ہے وہی پیمانہ دوسروں کے لیے بھی ہو۔ یہ وہی چیز ہے جو سورۂ مطففین کی ابتدائی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَیْلٌ لِّلْمُطَفَّفِیْنَ، الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ، وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْوَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ.(۸۳ :۱۔۳)
’’تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے۔ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔ اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انھیں گھاٹا دیتے ہیں۔‘‘
ان آیات کریمہ میں ’ویل‘ یعنی بربادی کا لفظ اس حقیقت کے نتیجے کو بیان کرتا ہے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’لا یؤمن‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔
’لایؤمن أحدکم‘ کا جملہ مختلف روایات میں تین اور صورتوں میں بھی منقول ہے۔ایک میں ’أحدکم‘ کی جگہ ’عبد‘ آیا ہے۔ عینی نے ’’عمدۃ القاری‘‘ میں لکھا ہے کہ بخاری ہی کے بعض متون میں ’أحدکم‘ بھی نہیں ہے۔دوسری میں ’یؤمن‘ کا مفعول ’باللّٰہ‘ بھی روایت ہوا ہے۔تیسری صورت میں جملہ بالکل ہی مختلف ہے: ’لا یبلغ العبد حقیقۃ الإیمان‘۔ ’حتی یحب لأخیہ‘ والے جملے میں ایک شک تو مسلم ہی میں روایت ہو گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ راوی خود بھی واضح نہیں ہے کہ اصل میں ’لأخیہ‘ تھا یا ’لجارہ‘ تھا۔ اس کے علاوہ ایک روایت میں ’لأخیہ‘ کے بجائے ’للناس‘ استعمال ہوا ہے۔ جملے کا آخری حصہ ’ما یحب لنفسہ‘ ہے۔ اس میں ایک فرق تو یہ نقل ہوا ہے کہ اس کے ساتھ ’من الخیر‘ کی وضاحت بھی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کی جگہ ایک دوسری بات شامل کر دی گئی ہے۔ ایک متن کے مطابق اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’حتی یحب المرء لا یحب الا اللّٰہ‘ کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔
علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات سوال وجواب کی صورت میں بھی روایت ہوئی ہے۔ ایک متن کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہ پوچھا تھا: ’أ تحب الجنۃ‘ (کیا تم جنت چاہتے ہو؟)جواب دیا گیا:’نعم‘ (ہاں)۔ اس پر آپ نے فرمایا:’فأحب لأخیک ما تحب لنفسک‘ (تو اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کر جو اپنے لیے کرتا ہے)۔مزید براں ایک روایت میں یہی بات براہ راست ارشاد فرمائی:’یا یزید، أحب للناس ما تحب لنفسک‘ (اے یزید، لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو)۔
بخاری، رقم۱۳۔ مسلم، رقم۴۵ ۔ نسائی، رقم۵۰۱۶، ۵۰۱۷، ۵۰۳۹۔ ابن ماجہ، رقم۶۶۔ احمد، رقم۱۲۸۲۴، ۱۳۱۶۹، ۱۳۶۵۴، ۱۳۹۰۱، ۱۳۹۰۲، ۱۳۹۹۵، ۱۴۱۱۴، ۱۶۷۰۶۔ ابن حبان، رقم۲۳۴، ۲۳۵۔ حاکم، رقم ۷۳۱۳۔ دارمی، رقم ۲۷۴۰۔ ابویعلیٰ، رقم۲۸۸۷، ۲۹۵۰، ۲۹۶۷، ۳۰۸۱، ۳۱۵۱۔ سنن کبریٰ، رقم۱۱۷۴۷، ۱۱۷۴۸۔ طیالسی، رقم۲۰۰۴۔ بیہقی، رقم۱۷۷۰۔
_______________