HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

حقیقت ربا (سود)

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


متعدد دینی مسائل کی طرح جن میں علما و فقہا کا اختلاف ہے، ربا۱؂ کا مسئلہ بھی ایک عرصہ سے نزاعی چلا آ رہا ہے۔ برٹش گورنمنٹ کے زمانے میں علما کا ایک طبقہ بنک سے سودی لین دین کے جواز کا قائل تھا۔ ایک استفتا کے جواب میں مفتی کفایت اللہ صاحب نے درج ذیل فتویٰ دیا تھا:

’’مسلمانوں کو حتی الامکان روپیہ مسلمان امین کے پاس رکھنا چاہیے، لیکن اگر کوئی امین دستیاب نہ ہو اور وہ بنک میں روپیہ رکھنے پر مجبور و مضطر ہوں تو ایسی حالت میں ان کو بنک کے پاس سود کی رقم نہ چھوڑنی چاہیے، کیوں کہ وہ مسیحی مشنری کو دی جاتی ہے اور تبلیغ مسیحیت میں خرچ ہوتی ہے۔‘‘۲؂

لیکن علما کے ایک دوسرے طبقہ نے اس نقطۂ نظر کی شدت کے ساتھ مخالفت کی اور اس کے عدم جواز کا فتویٰ صادر کیا۔ مولوی حکیم مرزا احمد قادری فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں کو نہایت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور حتی الامکان مال وقف یا رقوم دینی تو کیا اپنی ذاتی رقوم کو بھی بنک میں نہ رکھیں اور نہ کسی حیلہ سے ان رقوم کے ذریعہ سود کا استعمال روا رکھیں۔‘‘۳؂

یہی صورت کم و بیش آج بھی قائم ہے، یعنی بعض علما بنک کی حد تک جواز سود کے قائل ہیں، لیکن اکثر علما اس کے مخالف ہیں۔ مسلمان بالخصوص ان کا ملازمت پیشہ اور تاجر طبقہ سخت ذہنی تردد میں مبتلا ہے کہ حق بات کیا ہے۔ راقم سطور کی یہ تحریر اسی سوال کا جواب اور اس معاملے میں مسلمانوں کے ذہنی تردد کے ازالے کی ایک ناچیز کوشش ہے۔

قرآن مجید میں ایک جگہ مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ.(سورۂ نساء۴ :۲۹)
’’اے ایمان والو، آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ، ہاں، اگر باہم رضا مندی سے بطور تجارت ہو تو یہ جائز ہے۔‘‘

اس آیت میں تجارت ۴؂ کے سوا ہر قسم کے مالی مباد لے کو ناجائز بتایا گیا ہے اور تجارت میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ فریقین کی رضا مندی سے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر فریقین میں سے کسی ایک کی رضا مندی شامل نہ ہو تو اس مالی معاملت پر تجارت کا اطلاق نہ ہو گا، بلکہ وہ جبری مبادلہ کہلائے گا اور اسی کو قرآن نے اکل اموال بالباطل سے تعبیر کیا ہے۔

ناجائز طریقے سے مال کھانے کی تین صورتیں ہیں۔ ایک دھوکا اور فریب سے کسی کا مال ہڑپ کر لینا اور ظاہر ہے کہ یہ صاحب مال کی مرضی کے بغیر ہو گا۔ اگر صاحب مال کو معلوم ہو کہ اس کو دھوکا دیا جا رہا ہے تو وہ ہرگز مال کے تبادلے پر راضی نہ ہو گا۔ فقہ کی اصطلاح میں اس کو بیع فاسدکہا جاتا ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو ہم آگے چل کر کریں گے۔

اکل اموال بالباطل کی دوسری صورت وہ ہے جس میں ایک دولت مند کسی آدمی کی محتاجی و مفلسی یا کسی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ قرض یا ادھار میں ممکن ہے۔ اس صورت میں دائن( قرض دینے والا) اور مدیون (قرض لینے والا) میں جو بھی معاہدہ ہو گا، اس میں لازماً مدیون کی مرضی کا کچھ دخل نہ ہو گا، اس کی حیثیت ایک مجبور فریق کی ہو گی۔ ناجائز انتفاع یا اکل اموال بالباطل کی یہ سب سے ظالمانہ صورت ہے اور اسی کو قرآن مجید میں ربا کہا گیا ہے۔

ناجائز انتفاع کی تیسری صورت جھوٹے مقدمات ہیں۔ ایک شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ مال یا جائداد اس کی ملک نہیں ہے محض قانونی داؤں پیچ سے اور کبھی قاضی یا حاکم کو رشوت دے کر اس پر قابض ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

وَلاَ تَأْکُلُوْآ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُوْا فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.(سورۂ بقرہ۲ :۱۸۸)
’’اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ اور مال کے ذریعہ سے حکام تک رسائی حاصل نہ کرو کہ اس طرح دوسروں کے مال کا کچھ حصہ ہڑپ کر سکو، دراں حالیکہ تم جانتے ہو کہ یہ حق تلفی ہے۔‘‘

یہاں میری گفتگو اکل اموال بالباطل کی مذکورہ دوسری صورت یعنی ربا تک محدود رہے گی۔

ربا کا مفہوم

ربا کے لفظی معنی مطلق زیادتی کے ہیں، اور شریعت میں اس سے مراد وہ اضافہ ہے جو ایک خاص شرح کے ساتھ اصل یعنی راس المال پر لیا جاتا ہے۔ ۵؂ فقہا کی اصطلاح میں ربا اس زیادتی کو کہتے ہیں جو کسی مالی معاوضہ کے بغیر حاصل ہو۔ (الربا ھو فضل خال عن عوض) یعنی کسی قرض پر بغیر کسی مالی معاوضہ کے محض مدت ادائیگی بڑھا دینے کی بنا پر اضافہ کا استحقاق حاصل ہو جائے۔۶؂

ربا کی قسمیں

فقہا نے ربا کی دو بنیادی قسمیں قرار دی ہیں، ربا الفضل اور ربا النسیۂ (ربا الدین)۔

ربا الفضل

ربا الفضل سے مراد وہ زیادتی اور اضافہ ہے جو ہم جنس چیزوں کے دست بدست مبادلہ کرنے سے حاصل ہو۔ مثلاً ایک کلو جو کے بدلے میں اگر دو کلو جو لیا جائے تو یہ فقہا کے نزدیک ربا ہے۔ اسی طرح ایک تولہ چاندی کے عوض میں دو تولہ چاندی ربا ہے۔ فقہ حنفی میں ہم جنسیت کیل و وزن کے ساتھ مشروط ہے۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:

’’ربا (زیادتی) ہر اس چیز میں حرام ہے جو ناپ کر یا وزن کرکے فروخت ہوتی ہے، بشرطیکہ ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس سے زیادتی کے ساتھ کیا جائے۔پس ہمارے (علماے احناف کے) نزدیک حرمت ربا کی علت جنسیت ہے کیل و وزن کے ساتھ مشروط۔ ...اور امام شافعی کے نزدیک علت حرمت ماکولات میں غذائیت (طعم) اور نقود میں ان کی قیمت (ثمنیت) ہے ... اور (علماے احناف کے نزدیک) جب یہ دونوں وصف یعنی جنسیت اور کیل و وزن نہ ہوں تو زیادتی (تفاضل) اور ادھار (النسئیہ)، دونوں جائز ہیں... اور ایک انڈے کو دو انڈوں سے، ایک کھجور کو دو کھجوروں سے اور ایک اخروٹ کو دو اخروٹوں کے عوض میں بیچنا جائز ہے، اس لیے کہ معیار (یعنی وزن و کیل) اس میں معدوم ہے ... امام شافعی کو اس معاملے میں علما ے احناف سے اختلاف ہے، کیونکہ ان اشیا میں غذائیت ہے ... اور ایک پیسہ کا دو پیسوں سے تبادلہ بجنسہٖ جائز ہے ... اورگیہوں کی فروخت آٹے یا ستو سے جائز نہیں ہے کیونکہ ان میں مجانست باقی ہے۔ یعنی یہ دونوں چیزیں گیہوں ہی کے اجزا ہیں اور ان کا پیمانہ ناپ ہے اور ناپ ان میں اورگیہوں میں مساوی نہیں ہو سکتی ہے، کیونکہ پس جانے کی وجہ سے آٹے اور ستو کی مقدار پیمانہ میں زیادہ آجائے گی اور گیہوں دانوں کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے نسبتاً کم مقدار میں آئے گا۔ ... اور آٹے کا آٹے سے برابر مقدار میں لین دین کرنا جائز ہے ... اورگوشت کی فروخت جانور کے عوض میں جائز ہے ... اور روٹی کی فروحت گیہوں یا آٹے سے زیادتی کے ساتھ جائز ہے، کیونکہ روٹی یا تو شمار کرکے بکتی ہے یا وزن کی جاتی ہے جس سے وہ کیل سے خارج ہو جاتی ہے... اور مسلم اور حربی کے درمیان ربا نہیں۔(ولا ربا بین المسلم والحربی)۔‘‘۷؂

مولانا عبدالحئی نے ایک استفتا کے جواب میں لکھا ہے:

’’ربا کو حرام قرار دینے کی وجہ کیا ہے؟ جواب ہے، ناپ ، تول یا اتحاد جنس۔ اگر یہ دونوں باتیں موجود نہ ہوں تو مثلاً ایک تھان کپڑے کے عوض دو تھان کپڑا تفاضل اور نسئیہ دونوں طرح سے حلال ہے۔‘‘ ۸؂

لیکن امام شافعی کے نزدیک قیمتی چیزوں (ثمنیت رکھنے والی) جیسے سونا، چاندی اور خوردنی (طعمیت رکھنے والی) اشیا میں زیادتی ربا ہے، یعنی علت حرمت غذائیت اور ثمنیت ہے۔ امام مالک کے نزدیک قیمتی مال (سونا، چاندی) اور وہ چیزیں جن کا بقاے حیات سے تعلق ہے، مثلاً نمک وغیرہ، اس میں تفاضل ربا ہے۔

علت ربا کے تعین میں اس اختلاف کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک امام کے نزدیک ایک چیز جو ربا کے حکم میں داخل ہے وہی چیز دوسرے امام کے نزدیک ربا سے خارج ہے۔ مثلاً امام شافعی کے نزدیک لوہا اور چونا جیسی چیزوں میں تفاضل ربا نہیں ہے، کیونکہ ان کا تعلق کھانے پینے کی چیزوں سے نہیں ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ان میں اضافہ ربا ہے۔ اسی طرح ایک صاع سے کم غلہ کے مبادلے میں اضافہ حنفی فقہ میں ربا نہیں ہے، جبکہ امام شافعی اس کو ربا قرار دیتے ہیں۔ پھل اور کھانے کی چیزوں میں، جو کیل و وزن سے نہیں بکتیں، بڑھوتری امام ابو حنیفہ کے نزدیک ربا نہیں ہے، جبکہ امام شافعی کے نزدیک وہ حکم ربا میں داخل ہے، کیونکہ ان میں غذائیت (طعمیت) ہے۔

اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ فقہ حنفی میں ہم جنس ہونے کی قید میں شے کے جید (عمدہ ) اور ردی (خراب) اور کھرا اور کھوٹا ہونے کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا ہے اور ان میں صرف تساوی (برابر برابر ہونا) کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ دنیا میں کوئی احمق ہی ہو گا جو ایک کلو خراب کھجور کے بدلے میں ایک کلو اچھی کھجور دے گا۔ ایسی معاملت تو آج تک دنیا میں شاید ہی کہیں واقع ہوئی ہو گی۔ کسی خراب چیز کا مبادلہ اسی جنس کی اچھی چیز سے صرف اس وقت ممکن ہے جب خراب چیز مقدار میں زیادہ دی جائے۔

اس کے علاوہ کیل و وزن کی شرط بھی قابل غور ہے۔ اس شرط کی وجہ سے بہت سی چیزوں میں، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اضافہ کے باوجود ان پر ربا کا اطلاق نہ ہو گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک چیز کیل یا وزن کے بغیر شمار کرکے بکتی ہے، لیکن دوسرے وقت میں وہی چیز کیل یا وزن کے ساتھ فروخت کی جاتی ہے۔ اس صورت میں ایک ہی چیز پر کبھی ربا کا اطلاق ہو گا اور کبھی وہ حکم ربا سے باہر ہو گی۔ امام ابو حنیفہ کے زمانے میں پھل وزن کرکے نہیں بکتے تھے، لیکن آج کل اکثر پھل وزن کرکے بکتے ہیں، اس لیے اس میں اضافہ ربا میں داخل ہو گا،حالاں کہ فقہ حنفی کی رو سے وہ ربا سے خارج ہے۔۹؂

حقیقت یہ ہے کہ ربا الفضل دست بدست بیع (مراطلت) کے زمرے میں آتا ہے، اور یہ ربا نہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت اسامہ سے مروی ہے کہ:’ لا ربا فیما کان یدا بید‘’’دست بدست معاملات میں ربا نہیں ہے۔‘‘ ۱۰؂ اس معاملے میں فقہا کو غلط فہمی ہوئی۔ انھوں نے بیع فاسد کی بعض شکلوں کو ربا سمجھ لیا اور اسی کو ربا الفضل کہا ہے۔ اس سلسلے میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر میں عامل مقرر کیا تھا، وہ جنیب کھجوریں لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: کیا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟ عامل نے کہا: واللہ ، نہیں۔ ہم ان کھجوروں کی ایک صاع (معمولی) کھجوروں کے دو صاع کے عوض میں خریدتے ہیں اور اسی طرح دو صاع، تین صاع کے عوض میں۔ آپ نے فرمایا: یہ نہ کرو۔ (معمولی) کھجوروں کو سکوں کے بدلے فروخت کرو اور پھر ان سکوں سے جنیب کھجوریں خریدو۔‘‘۱۱؂

اسی نوعیت کا ایک دوسرا واقعہ ہے جس کے راوی حضرت بلال ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

’’میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مد۱۲؂ کھجور تھی۔ میں نے اس سے عمدہ کھجور دیکھی جو دو صاع کے بدلے ایک صاع ملتی تھی تو میں نے اس کھجور میں سے خرید لیا اور آپ کے پاس لایا۔ آپ نے پوچھا: بلال، یہ کھجور تمھارے پاس کہاں سے آئی؟ میں نے کہا: دو صاع دے کر ایک صاع خریدی ہے۔ آپ نے فرمایا: اس کو واپس کر دو اور ہماری کھجوریں واپس لاؤ۔‘‘۱۳؂

مذکو رہ دونوں حدیثوں سے صاف ظاہر ہے کہ عہد نبوی میں ہم جنس اشیا کے مبادلے کی ایک صورت یہ بھی تھی اور لوگ بظاہر اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باریک بیں نگاہ نے دیکھ لیا کہ مبادلے کی یہ شکل خریدار کے لیے نقصان دہ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقۂ بیع کو نا پسند کیا اور اس کی جگہ ایک دوسرا مناسب طریقہ تجویز کیا۔ ان دونوں حدیثوں کا کوئی تعلق ربا سے نہیں، ملحوظ رہے کہ ان حدیثوں میں لفظ ربا نہیں آیا ہے۔ یہ دراصل بیع فاسد کی ایک شکل ہے۔ لیکن بعد کے راویوں نے اس میں اپنی ذاتی رائے شامل کرکے اس کو ربا قرار دے دیا، جیسا کہ درج ذیل روایت سے بالکل ثابت ہے:

’’ابو سعید خدری کہتے تھے: بلال برنی کھجوریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ نے پوچھا: کہاں سے لائے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: میرے پاس خراب کھجوریں تھیں۔ اس میں سے ایک صاع کے عوض میں دو صاع دے کر حضور کے کھانے کے لیے لایا ہوں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اوہ! یہ تو عین ربا ہے (اوہ، اوہ، عین الربا) ایسا نہ کرو۔ جب تمھیں کھجور کے بدلے کھجور خریدنا ہو تو پہلے اپنی کھجوروں کو کسی دوسری چیز سے بیچو پھر اس سے کھجور خریدو۔‘‘۱۴؂

اس روایت میں ایک اضافہ اور ایک حذف ہے۔ اضافہ کا تعلق ’’عین الربا‘‘ کے الفاظ سے اور حذف کا تعلق ’’دراہم‘‘ سے ہے۔ پہلی روایت میں، جس کا تعلق خیبر کے عامل سے ہے اور جس کے راوی خود ابو سعید خدری ہیں، اس طرح کی کھجوروں کو سکوں (دراہم) سے بیچنے کی ہدایت ہے۔ لیکن اس دوسری روایت میں سکوں کے بجائے ’’بیع آخر‘‘کے الفاظ ہیں جو واضح طور پر بعد کے راوی کا سہو ہے۔ عربوں میں ہم جنس یا قرب الجنس اشیا کے مبادلے (مراطلت) کا رواج تھا، جیسا کہ حضرت بلال سے مروی روایت سے بالکل واضح ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقے کو بالکلیہ ممنوع قرار نہیں دیا، بلکہ اس کی بعض فاسد شکلوں کو نا پسندیدہ قرار دیا تھا۔ بعض واقعات سے اس کی تائید ہوئی ہے۔

۷ ہجری میں فتح خیبر کے موقع پر بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا جن میں نقرئی اور طلائی ظروف بھی شامل تھے۔ بعض صحابہ نے بے خبری میں ان طلائی ظروف کو بہت کم قیمت پر یہودیوں کے ہاتھ بیچنا شروع کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا کہ سونے کے سامان کم قیمت چاندی کے سکوں کے عوض میں فروخت کیے جا رہے ہیں تو آپ نے صحابہ کو اس عمل سے روکا۔ حضرت فضالہ بن عبید روایت کرتے ہیں:

’’ہم لوگ فتح خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم یہودیوں کو ایک اوقیہ۱۵؂ سونے کا سامان دو یا تین دیناروں کے عوض فروخت کرتے تھے۔ آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا: سونے کو بعوض سونے کے برابر وزن کے ساتھ ہی بیچو۔‘‘۱۶؂

یہ مطلق حکم نہیں ہے۔ اس کا تعلق صرف ان چیزوں کی فروخت سے ہے جن میں سونا ایک جز کے طور پر شامل ہو۔ اس ممانعت کی علت بالکل واضح ہے۔ طلائی ظروف وغیرہ کو بیچنے کی صورت میں نقصان کا احتمال ہے، کیونکہ اس شکل میں سونے کا وزن معلوم کرنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ طلائی ظروف وغیرہ میں بسا اوقات نگینے وغیرہ جڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے بہتر شکل یہ ہے کہ سونے کو الگ کر لیا جائے اور اگر نگینہ ہو تو اس کو بھی جدا کر لیا جائے اور پھر ان کو الگ الگ فروخت کیا جائے۔ اس صورت میں سامان کی پوری قیمت وصول ہو جائے گی۔ چنانچہ حضرت فضالہ بن عبیدہی فرماتے ہیں:

’’فتح خیبر کے دن مجھے سونے کا ایک جڑاؤہار ملا۔ میں اس کو بیچنا چاہتا تھا اور اس ارادے کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: نگینہ اور سونا،دونوں کو علیحدہ کرو پھر بیچو۔‘‘۱۷؂

جن روایتوں میں سونے کو سونے سے،چاندی کو چاندی سے، گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے برابر برابر فروخت کرنے کا حکم آیا ہے، وہ محل نظر ہیں۔ قرین قیاس ہے کہ وہ صحابہ یا بعد کے راویوں کا ذاتی اجتہاد ہے جس کی بنیاد تمرردی والی وہ روایت ہے جو حضرت بلال سے مروی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ وزن اور وصف میں مساوی ہم جنس اشیا کا مبادلہ محض خیالی بات ہے۔ دنیا میں کبھی نہ اس قسم کا مبادلہ ہوا ہے اور نہ آیندہ ہو گا۔ ہم جنس اشیا کا مبادلہ اسی وقت ممکن ہے جب وصف یا وزن کے اعتبار سے ان میں کمی وبیشی ہو۔ اور اس صورت میں، جیسا کہ ذکر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ خراب شے کو پہلے سکہ کے عوض بیچ لیا جائے پھر اس سے اچھی چیز خریدی جائے۔

اس گفتگو سے بالکل واضح ہو گیا کہ دست بدست اشیا کے مبادلے کا کوئی تعلق ربا سے نہیں ہے۔ اور اگر اس طرح کے معاملات میں نا پسندیدہ اضافہ ہوتا ہے تو اس پر بیع فاسد کا اطلاق ہو گا، جو شریعت میں ممنوع ہے۔ بیع سے متعلق بعض حدیثوں میں ربا کے الفاظ بے شک آئے ہیں، لیکن ا س کا تعلق فرمودۂ رسول سے نہیں،بلکہ بعد کے راویوں کا استنباطی اضافہ ہے جو ارشاد رسول کا صحیح منشا نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوا۔ رسول اللہ کا واضح ارشاد ہے:

لا ربا فیما کان یدا بید.۱۸؂
’’دست بدست معاملات میں ربا نہیں ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ ابن عباس صرف قرض میں ربا کے قائل تھے اور نقد معاملات میں ربا (اضافہ) کو جائز سمجھتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ خدا نے بیع کو حلال کیا ہے، اس میں ایک درہم کو دو درہموں کے عوض دست بدست بیچنا داخل ہے۔ ’وحرم الربوا‘ سے صرف وہ بڑھوتری حرام ہے جو ادھار میں ہو اور بیع کے حلال کرنے سے وہ اضافہ جو نقداً دست بدست ہو، حرام کے زمرے میں داخل نہیں ہو سکتا ہے۔۱۹؂

کہا جاتا ہے کہ ابن عباس نے اپنے ا س قول سے رجوع کر لیا تھا۔ لیکن عکرمہ کا کوئی بیان اس رجوع کے حق میں نہیں ملتا ،حالاں کہ وہ ان کے معتمد شاگرد تھے اور ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے تھے۔ اگر ابن عباس کے رجوع کو درست مان لیا جائے تو بھی اس سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ بیع فاسد کے اضافہ کو وہ پہلے جائز سمجھتے تھے پھر اس کو ناجائز قرار دیا، لیکن یہ کہاں مذکور ہے کہ وہ اس اضافہ کو ربا مصطلحہ بھی سمجھتے تھے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ بعض احادیث میں غیر مماثل اشیا کے تبادلے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں، جیسا کہ فقہا کا خیال ہے کہ اس میں ربا ہے، بلکہ وہ ایک غلط طریقۂ بیع تھا جس سے معاملے کے ایک فریق کو نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ تھا۔ بہرحال نقداً دست بدست مبادلہ میں اضافہ پر اصطلاحی ربا کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کی بعض شکلیں بے شک بیع فاسد کے زمرے میں آتی ہیں اور وہ شریعت میں ممنوع ہے۔

یہ بات بڑی اہم ہے کہ قرآن کی جس آیت میں ربا کو حرام کیا گیا ہے اس کا تعلق آخری زمانۂ وحی سے ہے اور روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقت ربا کی کوئی وضاحت نہیں کی اور آپ کی وفات ہو گئی۔ اس لیے ربا کی ممانعت کا اطلاق اسی طریقۂ مبادلہ پر ہو گا جو عہد رسالت میں عربوں میں مروج تھا اور وہ ربا النسئیہ ہے۔

ربا النسئیہ

فقہا کی تشریح کے مطابق، جیسا کہ پہلے بیان ہوا، ربا کی دوسری قسم کا نام ربا النسئیہ ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے:

الربا ھو القرض علی ان یودی الیہ اکثر و افضل مما اخذ.۲۰؂
’’ربا وہ قرض ہے جو اس شرط پر دیا جائے کہ مدیون (قرض لینے والا) دائن (قرض دینے والا) کو اس سے زیادہ اور اس سے اچھا واپس کرے۔‘‘

اس وضاحت سے نہ صرف یہ متعین ہو جاتا ہے کہ ربا کا تعلق دراصل قرض سے ہے، بلکہ اس کی اصل پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عربوں میں جو ربا معروف و مشہور تھا وہ یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے کو کچھ مال ایک معینہ مدت کے لیے بطور قرض دیتا تھا، اس شرط پر کہ مدیون ہر مہینا ایک معین مقدار اس کو دے اور راس المال بدستور مدیون کے ذمہ باقی رہے۔ جب قرض کی ادائیگی کا وقت گزر جاتا تو دائن راس المال کو اس سے طلب کرتا تھا۔ اگر وہ ادائیگی پر قادر نہ ہوتا تو دائن معیاد اور راس المال، دونوں کو بڑھا دیتا تھا اور حسب دستور سابق ہر مہینا معین مقدار وصول کرتا تھا۔۲۱؂

عربوں میں ربا کی ایک دوسری صورت بھی رائج تھی۔ زید بن اسلم فرماتے ہیں:

’’ایام جاہلیت میں ربا اس طور پر ہوتا تھا کہ ایک شخص کا قرض دوسرے شخص پر متعین میعاد کے ساتھ ہوتا تھا۔ جب میعاد گزر جاتی تو قرض خواہ قرض دار سے کہتا کہ تم قرض ادا کرو گے یا اس میں اضافہ منظور ہے؟ اگر وہ قرض ادا کر دیتا تو معاملہ ختم ہو جاتا ورنہ دائن اپنے راس المال میں اضافہ کر دیتا اور مہلت بڑھا دیتا تھا۔‘‘۲۲؂
ربا سے قرآن کی مراد

قرآن میں جس ربا (اضافہ) کو حرام کیا گیا ہے، کیا اس سے وہی ربا مراد ہے جو عربوں میں معروف تھا اور جس کا اوپر ذکر ہوا یا اس کے علاوہ بھی اس کا کچھ مفہوم ہے؟ ربا۲۳؂ کے لغوی معنی زیادتی اور اضافہ کے ہیں۔ لیکن ظاہرہے کہ ہر قسم کی بڑھوتری پر اس کا اطلاق نہ ہو گا، ورنہ بیع و تجارت سے حاصل ہونے والا اضافہ (نفع) بھی ربا میں شمار ہو گا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے ربا سے یقیناًایک خاص طرح کا اضافہ مراد ہے۔

یہ خاص قسم کا اضافہ وہی ہے جو عہد جاہلیت کے عربی معاشرے میں رائج تھا اور فتح مکہ سے پہلے مسلمان تاجر بھی اس طریقے پر عمل کرتے تھے۔ امام بغوی نے آیت تحریم کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’عطا اور عکرمہ کا قول ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت عباس بن عبدالمطلب اور حضرت عثمان ذوالنورین کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ یہ دونوں حضرات کھجور کی فصل تیار ہونے سے قبل پیداوار کے معاملات کرتے تھے (یعنی درہم و دینار یا کھجوریں دے کر) اور جب فصل کی تیاری کا زمانہ آجاتا تو کھجور والا کہتا کہ اگر آپ لوگوں نے اپنا پورا حق لے لیا تو اتنا کہاں بچے گا جو میرے بال بچوں کے لیے کافی ہو، اس لیے اس وقت صرف آدھی کھجوریں لے لیجیے بقیہ آدھی کو دوگنا کرکے اگلی فصل میں لے لیجیے گا۔ اس پر معاملہ طے ہو جاتا ۔ اور جب مقررہ وقت آجاتا تو یہ لوگ اضافے کے طالب ہوتے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تو آپ نے منع فرمایا اور اللہ نے یہ آیت نازل کی۔‘‘۲۴؂

امام رازی نے آیت تحریم کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’اس آیت کے شان نزول میں چند روایات ہیں۔ پہلی روایت یہ ہے کہ اس میں اہل مکہ مخاطب ہیں۔ وہ سودی لین دین کرتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب وہ مسلمان ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اپنے راس المال لے لیں اور اضافہ (ربا) نہ لیں... تیسری روایت یہ ہے کہ آیت حضرت عباس اور حضرت عثمان بن عفان کے بارے میں نازل ہوئی کہ دونوں کھجوروں کا معاملہ بطور قرض کیا کرتے تھے۔ جس وقت فصل کی تیاری کا وقت آجاتا تھا تو کچھ لے لیتے تھے اور بقیہ میں اضافہ کر دیتے تھے۔ پس یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ عطا و عکرمہ کا قول ہے۔ چوتھی روایت یہ ہے کہ حضرت عباس اور خالد بن ولید کے بارے میں نازل ہوئی کہ دونوں کھجوروں میں قرض کا معاملہ کرتے تھے۔‘‘۲۵؂

ان تفسیری روایات سے معلوم ہواکہ اہل عرب جس طرح کے لین دین کو ربا کہتے تھے، وہ دراصل بیع سلف تھا۔ امام رازی نے حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :’ انھا نزلت فی السلف‘’’یہ آیت بیع سلف کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘۲۶؂

حقیقی ربا کا تحقق دو حالتوں سے مشروط ہے، ایک نوعیت معاملہ اور دوسرے اشخاص معاملہ۔ اگر معاملے کی نوعیت ادھار یا قرض کی ہے اور صاحب معاملہ (مدیون) محتاج و مفلس ہے تو اصل میں، خواہ وہ مقدار میں قلیل ہو یا کثیر، ہر نوع کا اضافہ حقیقی معنی میں ربا کہلائے گا، اور وہ قرآن کی نظر میں مال حرام ہے۔ قرآن مجید میں جن مقامات پر حرمت ربا کا ذکر آیا ہے، ان کے سیاق و سباق سے ربا کے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:

فَآتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ وَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ. وَمَآ آتَیْْتُمْ مِّنْ رِّباً لِّیَرْبُوَ فِیْٓ أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَآ آتَیْْتُمْ مِّنْ زَکَاۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ.(سورۂ روم۳۰ :۳۸۔۳۹)
’’پس قرابت دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی دو۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور جو سود تم اس لیے دیتے ہو کہ وہ دوسروں کے مال کے اندر (شامل ہو کر) بڑھ جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ اور جو زکوٰۃ تم دو گے اللہ کی رضا جوئی کے لیے تو یہی لوگ ہیں جو اللہ کے ہاں اپنا مال بڑھانےوالے ہیں۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:

لِّلّٰہِ مَا فِیْ السَّمَاواتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہٖ اللّٰہُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ . آمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلآءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہِ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْْکَ الْمَصِیْرُ.لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْْہَا مَا اکْتَسَبَتْ رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْْنَا إِصْراً کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ.(سورۂ بقرہ۲ :۲۸۴۔۲۸۶)
’’جو لوگ اپنے مال شب و روز، پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے اور نہ ان کے لیے خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (روز آخرت) اس شخص کی طرح اٹھیں گے جس کو شیطان نے چھو کر باولا بنا دیا ہو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالاں کہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا اور سود کو حرام۔ تو جس کو اللہ کی تنبیہ پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ وہ لے چکا ہے، وہ اس کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی اس فعل کا ارتکاب کریں گے تو وہی دوزخی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ سود کو گھٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ نا شکروں اور حق تلفوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

مذکورہ دونوں آیات میں ربا کا ذکر زکوٰۃ اور صدقہ کے بالمقابل ہوا ہے۔ اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ حرمت ربا کی علت ظلم و زیادتی یعنی غربا کا استحصال ہے۔ عہد جاہلیت میں اصحاب ثروت سماج کے غربا و مساکین کی دست گیری کے بجائے اپنے فاضل مال سے مزید مال پیدا کرنے کی فکر میں رہتے تھے اور بسا اوقات غربا سے بھی سودی معاملہ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک روایت ملاحظہ ہو:

’’حضرت علی نے ہم لوگوں کو خطبہ دیا کہ عنقریب لوگوں پر سخت زمانہ آنے والا ہے جبکہ دولت مند اپنی مٹھی بند رکھے گا حالاں کہ ان کو اس کا حکم نہیں ملا ہے۔ خدا فرماتا ہے: ’’آپس میں فراخ دلی کو نہ بھولو۔‘‘ (بقرہ۲: ۲۳۷) اور مضطر (محتاج و مجبور) سے معاملت کی جائے گی، حالاں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مضطر سے منع کیا ہے۔‘‘۲۷؂

معلوم ہوا کہ جو لوگ صدقہ و زکوٰۃ کا استحقاق رکھتے ہیں، ان کے قرضوں میں کسی طرح کا اضافہ جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں یہودیوں کے اکل اموال بالباطل کے ذکر میں فرمایا گیا ہے:

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا. وَّأَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُوْا عَنْہُ وَأَکْلِہِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ مِنْہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً.(سورۂ نساء۴ :۱۶۰۔۱۶۱)
’’پس ان یہودیوں کے ظلم کے سبب سے ہم نے بعض پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کر دیں جو ان کے لیے حلال تھیں اور اس کے سبب بھی کہ وہ اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، اور بایں وجہ بھی کہ وہ سود لیتے ہیں، حالاں کہ اس سے ان کو روکا گیا ہے، اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کے سبب سے بھی۔ اور ہم نے ان کے ناشکروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

ان آیات میں یہودیوں کے جو جرائم بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک سود کھانا بھی ہے۔ وہ اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرنے کے بجائے ان سے سودی کاروبار کرتے تھے، حالاں کہ ان کی مذہبی کتابوں میں صاف لفظوں میں لکھا ہے:

’’اگر تو محتاج شخص کو اپنی چاندی بطور قرض کے دے تو اس کے لیے اضافہ نہ لے۔‘‘۲۸؂
’’اگرتمھارا بھائی تمھارے بیچ میں محتاج اور تہی دست ہو جائے اور دستگیری کے قابل ہو تو اس سے سود اور نفع نہ لے، اسے سودی قرض نہ دے۔ نہ نفع کے لیے کھانا کھلا۔‘‘۲۹؂
’’اور تو اپنے بھائی کو سودی روپے اور سودی طعام یا کوئی چیز عاریت اور قرض مت دے۔ تو اجنبی کو سودی قرض دے سکتا ہے پر اپنے بھائی کو سودی قرض مت دیجو، تاکہ خداوند تیرا خدا اس زمین پر جس کا تو وارث ہونے جاتا ہے، تجھ کو ہر اس کام میں برکت دے جس میں تو ہاتھ ڈالے۔‘‘ ۳۰؂

یہ ٹھیک اسی قسم کا ربا ہے جس کا ذکر سورۂ بقرہ میں ہوا ہے، یعنی محتاجوں اور مفلسوں کی اعانت کے بجائے ان کو سودی قرض دینا اور پھر سود کھانا۔ دونوں شریعتوں میں اس کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

کیا غنی کے قرض میں اضافہ جائز ہے؟

غربا اور مساکین کے قرض میں ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، اضافہ (ربا) تو حرام ہے، لیکن کیا مستطیع اشخاص (غنی) سے، جو اپنی مختلف خانگی ضرورتوں، مثلاً تعمیر مکان وغیرہ یا تجارتی اغراض کے لیے قرض لیتے ہیں، اضافی مال لینا ناجائز ہے اور وہ حکم ربا میں داخل ہے؟ بہت سے علما کا خیال ہے کہ اس صورت پر بھی حکم ربا کا اطلاق ہو گا۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

’’اس زمانے میں بعض کم سواد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عرب میں زمانۂ نزول قرآن سے پہلے جو سود رائج تھا، یہ صرف مہاجنی سود تھا۔ غریب اور نادار لوگ اپنی ناگزیر ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لیے مہاجنوں سے قرض لینے پر مجبور ہوتے تھے اور یہ مہاجن ان مظلوموں سے بھاری بھاری سود وصول کرتے تھے۔ اسی سود کو قرآن نے ربا قرار دیا ہے اور اسی کو یہاں حرام ٹھہرایا ہے۔ رہے یہ تجارتی کاروباری قرضے جن کا اس زمانے میں رواج ہے تو ان کا نہ اس زمانے میں دستور تھا، نہ ان کی حرمت و کراہت سے قرآن نے کوئی بحث کی ہے۔ ان لوگوں کا نہایت واضح جواب خود اسی آیت (سورۂ بقرہ:۲۸۰) کے اندر ہی موجود ہے۔ جب قرآن یہ حکم دیتا ہے کہ اگر قرض دار تنگ دست (ذوعسرہ) ہو تو اس کو کشادگی (میسرہ) حاصل ہونے تک مہلت دو تو اس آیت نے گویا پکار کر یہ خبر دے دی کہ اس زمانے میں قرض لینے والے امیر اور مال دار لوگ بھی ہوتے تھے۔‘‘۳۱؂

’وان کان ذوعسرۃ‘ کی مذکورہ تاویل محل نظر ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں مدیون دو طرح کے تھے۔ ایک وہ لوگ جن کا تعلق سماج کے متوسط طبقہ سے تھا۔ ان کے بارے میں حکم ہوا کہ دائن ان سے اپنا راس المال واپس لے لے اور اضافہ چھوڑ دے۔ دوسرے وہ مدیون تھے جن کا تعلق سماج کے غریب طبقہ سے تھا۔ ان کے متعلق حکم ہوا کہ ان کو راس المال کی واپسی کے لیے مہلت دی جائے۔ چونکہ یہ لوگ زیادہ غریب اور مفلوک الحال تھے، اس لیے دائن کو ترغیب دی گئی کہ اگر وہ ان کے حق میں راس المال سے بھی دست بردار ہو جائے تو اس کے لیے موجب اجر ہو گا۔

اس سلسلے میں صحیح نقطۂ نظر یہ ہے کہ غنی کے قرضوں پر، خواہ وہ تجارتی ہوں یا غیر تجارتی، ایک معقول اضافی رقم لینا عقل اور نقل، دونوں کے لحاظ سے بالکل جائز ہے۔ معلوم ہے کہ سودی قرضوں میں اضافی رقم کا تعین مدیون کی مرضی کے بغیر ہوتا ہے اور تحریم ربا کی یہ ایک بڑی علت ہے۔ اگر راس المال میں ایک معقول اضافہ مدیون کی مرضی اور خوشی سے ہو تو اس پر ربا کا اطلاق نہ ہو گا۔ ملحوظ رہے کہ دائن مال دے کر اپنا حق انتفاع مدیون کو منتقل کر دیتا ہے، اس لیے تقاضاے انصاف ہے کہ وہ اس حق انتفاع کے عوض میں ایک معقول اضافی رقم دائن کو اس وقت دے جب وہ قرض کی رقم واپس کرے۔ اس اضافی رقم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ پہلے سے طے ہو۔ اور اگر مدیون کی مرضی سے کسی جبر کے بغیر یہ پہلے سے طے کر لی گئی ہو تو اس میں بھی کوئی مضایقہ نہیں، لیکن اول الذکر صورت راجح ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل سے ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے۔آپ نے فرمایا:

احسنکم احسن قضاء.۳۲؂
’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو۔‘‘

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو سالہ اونٹ قرض لیا اور ویسا ہی ایک اونٹ واپس دیا، اور اس کے اوپرسے ایک اونٹ اور دیا اور فرمایا کہ تم میں سے اچھا وہ ہے جو بہتر طور پر قرض ادا کرے۔‘‘۳۳؂ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر عمل پیرا تھے۔ مجاہد روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر نے ایک شخص سے کچھ دراہم قرض لیے۔ جب واپس کیے تو اس سے عمدہ دراہم واپس کیے۔ اس نے کہا: اے ابو عبدالرحمن، یہ میرے درہموں سے اچھے ہیں۔ عبداللہ بن عمر نے کہا: میں بھی جانتا ہوں، لیکن میرا دل اس سے خوش ہے۔(قد علمت ولکن نفسی بذلک طیبۃ)۳۴؂ ۔

اس مسئلے کو ایک دوسرے پہلو سے بھی دیکھیے۔ موجودہ معاشی دور میں جس طرح مہنگائی روز افزوں ہے اور سکوں بالخصوص ہندی سکے کی قوت خرید جس تیزی سے گرتی جاتی ہے، اس کے پیش نظر دائن کو مالی نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے، جبکہ بوقت واپسی مدیون اس کو کوئی اضافی رقم نہ دے۔ مثال کے طور پر زید نے احمد کو آج ایک لاکھ روپے دیے اور احمد نے دوچار سال کے بعد کسی اضافے کے بغیر اصل رقم واپس کر دی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے زید کو باعتبار مالیت ایک لاکھ کے بجائے پچاسی ہزار ہی واپس کیے۔ کون عقل مند اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مال سے انتفاع کا حق چھوڑے اور پھر راس المال میں کمی بھی برداشت کرے۔

یہی وجہ ہے کہ آج کل بہت سے دولت مند مسلمان ضرورت مند مسلمانوں کو قرض کی بڑی رقم دینے سے احتراز کرتے ہیں اور کوئی بہانہ کر دیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مستطیع اشخاص کے قرضوں میں ایک معقول اضافہ کو جائز تسلیم کیا جائے تاکہ مسلمانوں میں تجارت کو فروغ ہو اور ان کی دوسری سماجی ضرورتیں پوری ہوں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قرض کو، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، تحریری شکل دی جائے اور تمام ضروری امور لکھ لیے جائیں تاکہ قرض کی واپسی کے وقت دائن اور مدیون کے درمیان کوئی نزاع واقع نہ ہو، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا تَدَایَنتُمْ بِدَیْْنٍ إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوہُ...وَلاَ تَسْأَمُوْا أَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا أَو کَبِیْرًا إِلَی أَجَلِہِ ذَلِکُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰہِ وَأَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَأَدْنَی أَلاَّ تَرْتَابُوْا.(سورۂ بقرہ۲ :۲۸۲)
’’اے ایمان والو، جب تم کسی معین مدت کے لیے ادھار کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو ... اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی میعاد تک اس کو لکھنے میں تساہل نہ برتو۔ یہ بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف، گواہی کو زیادہ ٹھیک رکھنے والی اور زیادہ قرین قیاس ہے کہ تم شبہات میں نہ پڑو۔‘‘
بنک سود اور بیمہ سود کی حقیقت

گزشتہ صفحات میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ربا کا تعلق قرضوں کی اس اضافی رقم سے ہے جو مدیون کی مرضی کے بغیر اس کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لی جاتی ہے۔ قرآن نے اسی نوع کی اضافی رقم کو حرام قرار دیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بنک وغیرہ سے جمع مال کی صورت میں جو اضافی رقم ملتی ہے یا بنک سے قرض لینے پر جو اضافی رقم اس کو دی جاتی ہے اس پر قرآنی ربا کا اطلاق ہو گا یا نہیں؟

آج کل ساری تجارتی سرگرمیوں کا محور و مرکز بنکنگ نظام ہے۔ بنکوں کے مالی تعاون (قرض) کے بغیر کوئی شخص کاروبار نہیں کر سکتا۔ تاجر لوگ جہاں تجارتی قرضے لیتے ہیں، وہاں وہ اپنے راس المال کا ایک بڑا حصہ بنکوں میں رکھتے ہیں اور حسب ضرورت اس کو نکالتے اور پھر جمع کرتے ہیں۔ اول الذکر صورت میں وہ بنک کو سود دیتے ہیں اور موخر الذکر صورت میں اس سے تھوڑا بہت سود لیتے بھی ہیں۔ بہت سے لوگ غیر تجارتی ضرورتوں کے لیے بنکوں سے قرض لیتے ہیں، مثلاً تعمیر مکان یا موٹر گاڑی وغیرہ خریدنے کے لیے۔ اس صورت میں بھی بنک کو سود دینا پڑتا ہے۔ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی ستم رانی سے بچنے کے لیے بھی لوگ ان مقاصد کے لیے بنک سے قرض لیتے ہیں، بہت سے ملازمت پیشہ اور غیر ملازمت پیشہ لوگ بھی اپنی پس انداز کی ہوئی رقم کو بنکوں میں فکسڈ ڈیپازٹ کی شکل میں رکھتے ہیں۔اس سے تھوڑا بہت نفع ان کو مل جاتا ہے جس سے ان کی بہت سی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ ان تمام صورتوں میں بنک سے جو اضافی رقم ملتی ہے یا اضافی رقم اس کو دینی پڑتی ہے کیاوہ شریعت کے حکم ربا میں داخل ہے؟ اس میں علما کا اختلاف ہے۔ بعض علما اس کو جائز او ربعض ناجائز بتاتے ہیں۳۵؂ جواز کے قائل علما میں مولانا سید احمد علی سعید، جودارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم رہ چکے ہیں، قابل ذکر ہیں۔ ایک استفتا کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:

’’اسی طرح بنک میں جو رقم جمع کی جائے اور اس پر بنک اپنی طرف سے جو زائد رقم دے، امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے مسلک کی رو سے وہ سود نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ بنک کو رقم قرض نہیں دی جاتی کہ ’کل قرض جر نفعا فھو ربا‘ کے تحت اس کو داخل کیا جائے۔ اور یہ بھی عام طور پر معلوم ہے کہ بنک تجارت کرتا ہے تو جو رقم کسی نے اس میں داخل کی تو اس کو اپنی رقم کے تناسب کے اعتبار سے تجارت میں شریک مانا جائے اور صورت مضاربت کی بن جائے، اس زائد رقم کو سود کہہ کر اقتصادیات اور معاشرہ کو نقصان پہنچانا مذہب کے بھی خلاف ہے اور عقل و سیاست کے فقدان کی دلیل بھی۔ شامی میں ہے کہ’ ان البیوع الفاسدۃ لیست کلھا من الربوا‘(۴/۲۴۵) ’’ہر بیع فاسد میں ربا و سود نہیں ہوتا‘‘ البتہ یہ حکم وہاں جاری ہو گا جس ملک میں اقتدار اعلیٰ مسلمان کا نہ ہو، اور اس ملک پر جہاں حدودوتعزیرات کا نفاذ نہ ہو اور مسلم حکومت ہو دارالحرب کا اطلاق درست نہ ہو گا، نہ ہی مذکورہ احکامات جائز قرار دیے جا سکیں گے... شدید ضرورت میں خواہ تجارت کے لیے ہو یا کسی اور ضروری مقصد کے لیے ہو، فقہا کے ضابطے ’الضرورات تبیج المحظورات‘کے تحت لون (قرض) کے لینے کی گنجایش ہے جبکہ کہیں سے غیر سودی رقم نہ مل سکے۔۳۶؂

مولانا نے یہ بھی لکھا ہے:

’’جو زائد رقم کمپنیاں اپنے قواعد و ضوابط کے تحت رضامندی سے دیتی ہیں ،خواہ وہ اس کو سود کہیں حقیقت میں سود نہیں، نام سے حقیقت نہیں بدلا کرتی ۔ سود نام رکھ دینے سے مال مباح یا مباح رقم سود نہیں بن جائے گی۔‘‘۳۷؂

مولانا بنک کے سود کی طرح انشورنس کمپنی کے ذریعہ سے دیے گئے زائد مال کو بھی سود نہیں کہتے اور اس کو جائز بتاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’امام صاحب اور امام محمد رحمہمااللہ تعالیٰ کے مسلک کی رو سے یہ ماننا صحیح ہو گا کہ بنک سے جو زائد رقم ملتی ہے یا بیمہ کمپنی سے ملے وہ سود نہیں ہے، نام کی تبدیلی سے حقیقت نہیں بدلے گی۔‘‘۳۸؂

مولانا نے آخر میں افسوس کے ساتھ لکھا ہے کہ مسلمانوں کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اسلام میں سود لینا اور دینا حرام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کہاں اور کس صورت میں حرام ہے؟ ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’مسلمانوں کو یہ تعلیم دینی ضروری تھی کہ سود کا لینا دینا حرام ہے۔ساتھ ہی یہ بھی ضروری تھا کہ مسلمانوں کو یہ بتلایا جاتا کہ جہاں تم رہتے ہو وہاں غیر مسلم کو ایک روپیہ دے کر دو روپے لو گے تو جو زائد ایک روپیہ لیا ہے وہ سود ہی نہیں ہے۔ لیکن اس کی عدم وضاحت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس (غیر مسلم) سے منافع نہ لے سکا اور سود دے کر اپنی جائداد، مکانوں، زمینوں اور باغات کو سود در سود کی بھینٹ چڑھاتا رہا۔‘‘۳۹؂
دارالحرب کی شرط

یہاں قارئین یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ جواز سود کی مذکورہ بحث کا مداراس بات پر ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے۔ لیکن کیا فی الواقع ہندوستان دارالحرب ہے؟ ماضی میں یہ مسئلہ اس وقت اٹھا جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی نے اس وقت کے حالات میں اس کو دارالحرب قرار دیا تھا۔ لکھتے ہیں:

’’اس شہر میں مسلمانوں کے امام کا حکم بالکل جاری نہیں،بلکہ نصاریٰ کے سرداروں اور افسروں کا حکم بے دغدغہ جاری ہے ... اگر بعض اسلامی احکام مثلاً جمعہ اور عیدین اور اذان اور گاؤ کشی وغیرہ سے یہ لوگ تعرض نہیں کرتے ہیں تو بھلے نہ کریں۔ ان احکام کی اصل الاصول ان کے نزدیک بالکل ہیچ ہیں۔ انگریزوں سے پناہ لیے بغیر اگر کوئی شخص دلی یا اس کے گردونواح کی کسی مسجد میں داخل ہونا چاہے تو ممکن نہیں ہے۔ یہاں تک کہ شجاع الملک اور ولایتی بیگم بھی ان لوگوں کی اجازت کے بغیر اس شہر میں نہیں آ سکتے ہیں ... غرضیکہ حدیثوں اور صحابۂ کرام اور خلفاے عظام کی سیرت پر متجسس نگاہیں ڈالی جاتی ہیں تو سمجھ میں یہی آتا ہے کہ یہ شہر دارالحرب کا حکم رکھتا ہے۔ ۴۰؂ ‘‘

مولانا عبدالحئی ، جو سید احمد شہید کی تحریک جہاد میں شامل تھے، فرماتے ہیں:

’’عیسائیوں کی پوری سلطنت کلکتہ سے لے کر دہلی اور ہندوستان خاص سے ملحق ممالک (یعنی شمالی مغربی سرحدوں کے صوبے تک) سب کے سب دارالحرب ہیں، کیونکہ کفر اور شرک ہر جگہ رواج پا چکا ہے۔ اور ہمارے شرعی قوانین کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔ جس ملک میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں وہ دارالحرب ہے۔‘‘۴۱؂

بعد کے اکثر علما نے اسی مسلک کی پیروی کی ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی لکھتے ہیں:

’’ہندوستان کے دارالحرب ہونے میں کلام ہے جیسا کہ گزشتہ روایات منقولہ سے تم کو معلوم ہوا ہو گا۔ اگرچہ اس ہیچ مداں کے نزدیک راجح یہی ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے۔‘‘۴۲؂

مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی ایک فتویٰ میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا ہے۔ ۴۳؂ مولانا حسین احمد مدنی اور شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کشمیری کا بھی یہی خیال تھا۔ اول الذکر لکھتے ہیں:

’’ہند دارالحرب ہے۔ وہ اس وقت تک دارالحرب باقی رہے گا، جب تک اس میں کفر کو غلبہ حاصل رہے گا۔ دارالحرب کی جس قدر تعریفیں کی گئیں ہیں اور جو شروط بیان کی گئی ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں۔‘‘ ۴۴؂

موخر الذکر یعنی مولانا انور شاہ کشمیری کا فتویٰ ملاحظہ ہو:

’’ہندوستان پر کفر کا تسلط اس درجہ پر ہے کہ اس سے زیادہ کسی وقت میں بھی کسی دارالحرب میں نہیں تھا۔ مسلمان جو مراسم اسلام پر عمل کرتے ہیں ان کی اجازت سے کرتے ہیں اور مسلمانوں سے زیادہ عاجز یہاں کوئی دوسری قوم نہیں ہے۔ ‘‘۴۵؂

بعض دوسرے علما کا خیال ہے کہ ہندوستان دارالحرب کے بجائے دارالاسلام ہے۔ مولانا ابوالحسنات عبدالحئی فرنگی محلی لکھنوی نے ایک استفتا کے جواب میں لکھا ہے:

’’دارالاسلام کے دارالحرب ہونے میں یہ شرط ہے کہ احکام کفر علانیہ جاری ہوں اور احکام اسلام بالکلیہ موقوف کر دیے جائیں، اور شعائر اسلام اور ضروریات دین میں کفار مداخلت کرنے لگیں اور یہ شرط متفق علیہ ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اس کے سوا اور بھی دو شرطیں عائد کی ہیں۔ ایک یہ کہ اس بلدہ میں اور دارالحرب میں کوئی بلدہ مملکت اہل اسلام کا باقی نہ رہے،دوسرے یہ کہ امان اول اٹھ جائے اور بامان کفار اقامت کی نوبت آگئی ہو۔ اور ظاہر ہے کہ بلاد ہندوستان میں یہ مفقود ہے۔ اس لیے کہ شعائر اسلام میں ہنوز حکام کی طرف سے مداخلت اور ممانعت نہیں ہے اگرچہ اکثر قضاۃ کفار ہیں اور خلاف اسلام احکام جاری کرتے ہیں۔ مگر بہت سے امور میں مذہب اسلام و شرع کے موافق بھی فیصلہ کرتے ہیں۔ پس ہندوستان امام ابو حنیفہ اور صاحبین کے نزدیک دارالحرب نہیں ہے۔‘‘۴۶؂

مولانا کرامت علی جونپوری نے بھی نفی دارالحرب کا فتویٰ دیا ہے:

’’وہابی لوگ بطمع دنیاوی اس ملک کو دارالحرب کہتے ہیں ...یہ ملک بلا شبہ دارالاسلام ہے۔‘‘۴۷؂

ہندوستان کے دارالحرب ہونے کے معاملے میں علما ہند کے ان اختلافات پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں وقت اور حالات کا بڑا دخل ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ انگریزوں نے مسلم ہندوستان پر بزور شمشیر قبضہ کیا تھا اور اس کے بعد جس طرح قابض قومیں مفتوحین کے ساتھ سلوک کرتی ہیں تقریباً وہی سلوک انگریزوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا اور جبر و تعدی کے متعدد واقعات پیش آئے۔ ان حالات میں شاہ عبدالعزیز صاحب نے جو فتویٰ دیا، وہ صحیح تھا۔ لیکن بعد کے علما نے محض انگریز دشمنی کی وجہ سے اس فتویٰ کی پیروی کی، حالاں کہ حالات میں کافی تبدیلی آ چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جو علما انگریز دشمنی میں مبتلا نہ تھے، انھوں نے تبدیلی حالات کی وجہ سے ہندوستان کو دارالحرب قرار نہیں دیا، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس کو دارالاسلام قرار دیا۔۴۸؂

لیکن آج صحیح معنی میں دنیا میںکہیں دارالاسلام نہیں ہے، کیونکہ کسی ملک میں اسلام کے احکام بالکلیہ نافذ نہیں ہیں، اس بنا پر دارالحرب کا وجود بھی باقی نہیں رہا۔ صاحبین نے دارالحرب کی تعریف میں لکھا ہے کہ جس میں احکام اسلام جاری نہ ہوں (ان لا یحکم فیھا بحکم الاسلام)۔معلوم ہوا کہ دارالحرب کی اصطلاح دارالاسلام کی ضد ہے۔ اس تعریف کے مطابق جس طرح ہندوستان دارالحرب قرار پاتا ہے، اسی طرح بنگلہ دیش، پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک پر بھی اس کا اطلاق ہو گا، کیونکہ ان ممالک میں بھی اسلام کے اکثر قوانین نافذ نہیں ہیں۔ ڈاکٹر جمیل عبداللہ مصری لکھتے ہیں:

قسم الاسلام الارض الی قسمین، دارالاسلام، وھی الدیار التی تسودھا شریعۃ الاسلام وتقام فیھا حدودہ، وان کان جل أھلھا من غیر المسلمین، الثانی دار الحرب، وھی الارض التی تسودھا فیھا شرائع غیر شریعۃ اللّٰہ وان کان جل اھلھا من المسلمین۔ والواقع أنہ لیس فی الدنیا الیوم أرض فیھا الاسلام الا القلیل۔۴۹؎
 ’’اسلام نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، ایک دارالاسلام جس میں اسلامی شریعت کو غلبہ حاصل ہو اور اس کے قوانین جاری ہوں، اگرچہ غیر مسلموں کی اکثریت ہو۔ دوسری قسم دارالحرب ہے اور اس سے مراد وہ ملک ہے جس میں خدائی شریعت کے برخلاف شریعت غالب ہو اگرچہ اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو۔ فی الواقع، اس وقت دنیا میں کہیں بھی اسلام پورے طور پر موجود نہیں ہے۔‘‘

اس افسوس ناک صورت حال کے پیش نظر بعض علما نے دارالحرب کی تعریف میں تبدیلی کی ہے اور لکھا ہے کہ جہاں مسلمانوں کو غلبہ و تسلط حاصل نہ ہو، وہ دارالحرب ہے۔ مولانا محمد انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:

باید دانست کہ مدار بودن بلدہ یا ملکے دارالاسلام یا دارالحرب بر غلبۂ مسلمان و کفار است۔۵۰؎
  ’’معلوم ہونا چاہیے کہ کسی شہر یا ملک کے دارالاسلام یا دارالحرب ہونے کا مدار صرف مسلمانوں اور کافروں کے غلبہ پر ہے۔‘‘

اس تعریف کی رو سے ہندوستان بدستور دارالحرب قرار پائے گا اور یہاں سودی لین دین جائز ہو گا۔ لیکن جو علما ہندوستان کو دارالاسلام کہتے ہیں، ان کے مسلک کے لحاظ سے یہاں سودی لین دین ناجائز ہو گا۔ جن علما نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر سودی لین دین کو جائز بتایا ہے، انھوں نے صورت معاملہ کو پوری طرح پیش نہیں کیا ہے۔ حقیقی معنی میں جس قسم کے دارالحرب میں سودی لین دین جائز ہے، اس کا تعلق دارالاسلام کے مسلمان تاجروں سے ہے۔ اگر دارالاسلام کا کوئی مسلمان تاجر کسی دارالحرب میں وہاں کی حکومت کی امان لے کر بغرض تجارت جاتا ہے تو ازروے فقہ اسلامی اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر مسلموں سے ان کی مرضی سے سود لے، بلکہ ناجائز ذرائع ۵۱؎ مثلاً قمار اور شراب سے بھی کسب مال کرے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ وہ سودی رقم کو دارالحرب کے بجائے دارالاسلام میں استعمال کرے۔ اس اجازت کا تعلق دارالحرب کے ان مسلمانوں سے نہیں ہے جو وہاں مستقل سکونت رکھتے ہوں۔

بنک انٹرسٹ کا جائزہ غیر حربی زاویۂ نگاہ سے

اکثر علمانے، جیسا کہ ابھی اوپر بیان ہوا، سود کے جواز اور عدم جواز کا فیصلہ ہندوستان کے دارالحرب اور دارالاسلام ہونے کی بنیاد پر کیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نقطۂ نظر صحیح نہیں ہے۔ موجودہ دور کے حالات میں دارالحرب اور دارالاسلام جیسی فقہی اصطلاحیں حد درجہ مغالطہ انگیز ہیں، اس لیے ان سے اجتناب ضروری ہے۔

سود کا معاملہ حقیقی اسلامی ریاست کے معاشی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ اس سے الگ کرکے اس کے جواز اور عدم جواز کا فتویٰ دینا بالکل غلط ہو گا۔ کیا یہ ایک تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ جب تک مدینہ کی اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی، بہت سے اصحاب رسول سودی کاروبار کرتے تھے، حتیٰ کہ مدنی ریاست کے قیام کے بعد بھی ایک عرصہ تک اس کا سلسلہ قائم رہا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات کے بالکل آخری ایام میں حجۃ الوداع کے موقع پر اس کی حرمت کا اعلان کیا۔

کیا اس طرزعمل سے واضح نہیں ہوجاتا کہ اگر حقیقی اسلامی ریاست موجود نہیں ہے تو پھر مسئلۂ سود کا جائزہ اس دور کے معاشی حالات کی روشنی میں لینا ہو گا۔ ہم لکھ چکے ہیں کہ غربا و مساکین سے سودی معاملہ ہر حال میں ممنوع ہے، لیکن غنی سے لین دین میں، چاہے وہ کوئی فرد ہو یا کوئی تجارتی ادارہ (مثلاً بنک وغیرہ)، باہم رضامندی سے ایک معقول اضافی رقم لینا یا دینا بالکل جائز ہے۔

غور سے دیکھیں تو اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ بنک میں جو رقم فریقین کی باہم رضامندی سے جمع کی جاتی ہے، اس کو بنک کے ارباب معاملہ تجارت وغیرہ میں لگاتے ہیں اور اس سے ان کو جو نفع حاصل ہوتا ہے، اس میں سے ایک متعین حصہ وہ اصل رقم کے ساتھ فریق ثانی کو واپس کرتے ہیں۔ اس صورت پر ربا کا اطلاق نہیں ہو گا، خواہ اس کا نام کچھ بھی رکھا جائے۔ یاد رکھیں ، تحریم ربا کی ایک بڑی علت ظلم و استحصال ہے۵۲؎ اور یہاںیہ علت موجود نہیں ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ جمع کنندہ کا نفع پہلے سے متعین ہے، اس لیے اضافی رقم سود ہے۔ ۵۳؎  یہ خیال کم نظری کا پیدا کردہ ہے۔نفع اس لیے متعین ہے کہ ہر جمع کنندہ کو بنک کے کاروبار میں شریک کرنا ممکن نہیں ہے۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ اس کو بنک جو اضافی رقم دیتا ہے، وہ نفع قلیل ہے اور چونکہ وہ نقصان میں شریک نہیں ہوتا، اس لیے نفع قلیل پر راضی ہو جاتا ہے، گویا یہ نقصان میںعدم شرکت کا بدل ہے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ موجودہ حالات میں مال کے تحفظ کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اس کو بنکوں میں رکھا جائے۔ لیکن ایک خطرہ یہاں بھی ہے اور وہ سکے کی قیمت میں گراوٹ ہے۔ سکے کی قدر و قیمت میں گراوٹ کے موجودہ رجحان سے ہر شخص واقف ہے۔ اس کے علاوہ مہنگائی روزافزوں ہے۔ ان حالات میں اگر بنک میں جمع شدہ رقم کو جوں کا توں لیا جائے تو اس میں جمع کنندہ کا خسارہ ہے۔ اس مالی خسارے سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ بنک کی اضافی رقم کو لیا جائے۔ یہ اضافہ حق انتفاع سے دست برداری اور سکے کی قیمت میں گراوٹ کا بدل ہو گا۔ بنکوں میں اضافی رقم کو سود سمجھ کر چھوڑنا بدترین حماقت ہے، جس میں آج کل بہت سے نادان مسلمان علما کی غلط رہنمائی کی وجہ سے مبتلا ہیں۔ اس سفیہانہ طرز عمل سے مسلم قوم کو عظیم اقتصادی خسارہ پہنچ رہا ہے۔

جہاں تک بغرض تجارت یا تعمیر مکان یا کسی اور بڑی ضرورت کے لیے بنکوں سے قرض لینے کی صورت میں اضافی رقم دینے کا تعلق ہے، اس کو بھی ربا نہیں کہیں گے، کیونکہ موجودہ حالات میں جو دراصل حالت اضطرار ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ آج دنیا کے بیش تر ملکوں میں جن میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں، سرمائے کے حصول کے لیے غیر سودی مالیاتی ادارے موجود نہیں ہیں۔ کثیر سرمائے کی فراہمی کا اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ بنک ہیں جو سودی لین دین کے نظام پر قائم ہیں اور اضافی رقم (سود) دیے بغیر ان بنکوں سے کوئی رقم لینا ممکن نہیں ہے۔

اس وقت مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں، ان میں دیگر اسباب کے علاوہ سود کے بارے میں علما کی غلط رہنمائی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اسلامی احکام کی تعبیر و تنفیذ میں احوال و ظروف کو جو اہمیت حاصل ہے، اس کو علما بالعموم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس طرز فکر کو بدلنا ہو گا۔ ہم اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ سود کی علی الاطلاق حرمت اسلامی ریاست کے قیام سے مشروط ہے۔ بد قسمتی سے آج دنیا میں کہیں بھی حقیقی معنی میں اسلامی ریاست موجود نہیں ہے، اس لیے سود کی موجودہ مروجہ صورتوں پر قرآنی ربا کا اطلاق کرنا صحیح نہ ہو گا۔

لیکن اسی کے ساتھ یہ بات فراموش نہ ہو کہ غربا و مساکین سے ہر طرح کا سودی معاملہ، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، ناجائز ہو گا۔ اہل ثروت مسلمانوں کی دینی اخوت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے غریب بھائیوں کی خبرگیری سے کسی حال میں غافل نہ ہوں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎  ربا دراصل اس چیز کا نام ہے جسے انگریزی میں’Usury‘کہتے ہیں۔

۲؎ ’’مسئلۂ سود میں شرعی طریق عمل‘‘ (قادح نظام الربوا)، مولوی حکیم مرزا احمد قادری، مطبوعہ جہانگیر علوی پریس، لاسس روڈ بمبئی، ۱۳۴۴ہجری، ۲۔

۳؎ ایضاً، ۱۸۔

۴؎ تجارت اس مالی معاملت کو کہتے ہیں جس میں دو اشخاص اپنے اپنے مال کا مبادلہ، خواہ نقد ہو یا ادھار، باہم رضامندی سے بغرض نفع کرتے ہیں اور دونوں اشخاص اس معاملے میں بالکل آزاد ہوتے ہیں۔

۵؎ مفردات راغب۔ مزید دیکھیں: اقرب الموارد وغیرہ۔

۶؎ دیکھیں: الفقہ علی المذاہب الاربعہ۶/ ۶۴۰۔ مزید دیکھیں، بدایۃ المجتہد ۶/۱۰۶۔

۷؎ مرغینانی، الہدایہ، کتاب البیوع۳/ ۶۱-۷۰۔

۸؎ مجموعۂ فتاویٰ، مولانا عبدالحئی ۳/ ۱۰۷۔

۹؎ مولانا عبدالحئی نے اپنے ایک فتویٰ میں لکھا ہے کہ اگر خریدار بصورت خرید نقد ایک مال کو سو روپیہ میں خریدتا ہے اور ادھار کی شکل میں ایک ماہ کی مدت کے بعد ایک سو تین روپیہ، دو ماہ کے بعد ایک سو چھ روپیہ، تین ماہ کے بعد ایک سو نو روپیہ ادا کرتا ہے تو جائز ہے اور ہر ماہ تین روپے کے اضافے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ (فتاویٰ مولانا عبدالحئی ۳۹۴-۳۹۵)

اسی طرح ایک تھان کپڑا دے کر اسی حیثیت کے دو تھان لینا دست بدست اور ادھار، دونوں صورتوں میں جائز ہے۔ محض اس لیے کہ اتحاد جنس کے باوجود کیل وو زن سے اس کو خریدا نہیں جاتا۔ (فتاویٰ مولانا عبدالحئی ۱۰۷)

دیکھا آپ نے، ایک ہم جنس شے میں زیادتی کو محض اس لیے جائز بتا دیا گیا کہ وہ ہم جنس ہونے کے باوجود کیل وو زن کے بغیر فروخت کی گئی ہے۔ اسی طرح کے تماشے فقہ کی کتابوں میں کثرت سے ملیں گے۔

۱۰؎ بخاری میں ہے: التمر بالتمر ربا الاھاء ھاء ’’کھجور کے بدلے میں کھجور (لینا دینا) سود ہے، مگر ہاتھ در ہاتھ‘‘ ۔ (بخاری: کتاب البیوع، باب بیع التمر بالتمر۔ مزید دیکھیں،فتح الباری۴/ ۳۰۰)

۱۱؎ بخاری: کتاب الوکالۃ، باب: الوکالت فی الصرف والمیزان۔ مزید دیکھیں: فتح الباری ۴/ ۳۷۹۔ صحیح مسلم: کتاب المساقاۃ ۲/ ۱۲۱۵۔

۱۲؎ وزن ہے، ایک تہائی رطل کے برابر۔

۱۳؎ سنن دارمی ۲/ ۲۵۷۔

۱۴؎ صحیح بخاری: کتاب البیوع ، باب: اذا باع الوکیل شیئا فاسد افبیعہ مردود۔ مزید دیکھیں: فتح الباری ۲/۳۸۶۔

۱۵؎ ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے۔

۱۶؎ صحیح مسلم: کتاب المساقاۃ۲/ ۱۲۱۴۔

۱۷؎ نسائی : کتاب البیوع۷/ ۲۷۹۔

۱۸؎ صحیح مسلم: کتاب المساقاۃ۲/ ۱۲۱۸ (رقم۱۰۳)، رواہ اسامہ۔

۱۹؎ تفصیل کے لیے دیکھیں: ’’تفسیر کبیر‘‘ (آیت تحریم)۔

۲۰؎ حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۱۶۱۔

۲۱؎ ’’تفسیر کبیر‘‘۷/ ۸۵۔

۲۲؎ موطا امام مالک: کتاب البیوع، باب: ماجاء فی الربا فی الدین۔

۲۳؎ انگریزی میں اس کا مترادف ’’Usury‘‘ہے، جس کا مطلب ہے سود کی قانونی شرح سے زائد ہونا۔

۲۴؎ معالم التنزیل، (مع تفسیر خازن)۱/ ۳۸۹۔

۲۵؎ ’’تفسیر کبیر‘‘۷/ ۸۷۔

۲۶؎ ’’تفسیر کبیر‘‘۷/ ۹۴۔

۲۷؎ ابودائود: کتاب البیوع، رقم ۳۳۸۲، ۳/ ۲۵۵۔

۲۸؎ سفر خروج، ۱۰، صحاح ۲۲، آیت ۲۵۔

۲۹؎ لاویین۱۰، صحاح ۲۵، آیات ۳۵-۳۷۔ مزید دیکھیں: کتاب احبار، باب ۲۵:۳۵-۳۸۔

۳۰؎ تثنیہ ۱۰، صحاح ۲۳، آیات ۱۹-۲۰۔

۳۱؎ تدبر قرآن۱/ ۶۳۹ ۔سورۂ بقرہ: ۲۸۰۔

۳۲؎ ابودائود: کتاب البیوع، (رقم ۳۳۸۲)، ۳/ ۲۵۵۔

۳۳؎ صحیح مسلم: کتاب المساقاۃ، باب’ من استلف شیئا فقضی خیرا منہ‘ رقم۱۲۱،۲/ ۱۲۲۵۔

۳۴؎ موطا امام مالک: کتاب البیوع، باب’ ما یجوز من السلف‘ رقم ۳۷۳، ۴۷۴۔

۳۵؎ علما کہتے ہیں کہ مجبوری کی وجہ سے بنک سے سودی قرض تو لیا جا سکتا ہے، لیکن بنک میں جمع شدہ رقم پر جو اضافہ ملتا ہے ،وہ سود ہے اور حرام ہے۔ اس کو لے کر بیت الخلا وغیرہ تعمیر کر دیا جائے، اس کو ذاتی استعمال میں نہ لایا جائے۔ علما کا یہ نقطۂ نظر متعدد وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔

۳۶؎ رسالہ ترجمان دارالعلوم جدید دہلی ، نمبر ۲۰،۲۱ (۲:۸-۹) جنوری۔ فروری ۱۹۶۵، ۲۰-۳۲۔

۳۷؎ ایضاً۔

۳۸؎ رسالہ ترجمان دارالعلوم جدید دہلی ، نمبر ۲۰ ،۲۱ (۲:۸-۹) جنوری۔ فروری ۱۹۶۵، ۲۰-۳۲۔

۳۹؎ ایضاً۔

۴۰؎ فتاویٰ عزیزیہ، ۱۶ (مطبع مجتبائی)۔

۴۱؎ نقش حیات، ۴ (برحاشیہ)۔

۴۲؎ قاسم العلوم۱/ ۳۵ (مکتوب ہشتم)۔

۴۳؎ فتاویٰ رشیدیہ، ۴۳۰۔

۴۴؎ فیصلۃ الاعلام فی دارالحرب و دارالاسلام ، اردو ترجمہ ’’کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟‘‘ دو فتوے ان کی طرف اور بھی منسوب ہیں۔ ایک میں سکوت ظاہر کیا گیا ہے اور دوسرے میں ہندوستان کو دارالامن کہا گیا ہے۔ دیکھیں، فیصلۃ الاعلام، ۱۶۔

۴۵؎ ترجمان دارالعلوم جدید دہلی، نمبر۲۰۔۲۱، جنوری و فروری ۱۹۶۵، ۳۲۔

۴۶؎ مجموعۂ الفتاویٰ (اردو ترجمہ)۱/ ۱۲۳-۱۲۶ (قیومی کانپور)۔

۴۷؎ اطمینان القلوب، ۲۰(طبع تاریخ ندارد)، مزید دیکھیں: ہندوستانی مسلمان، ۵۔

۴۸؎ صحیح بات یہ ہے کہ انگریزوں کے عہد میں ہندوستان دارالاسلام کے بجائے دارالامن تھا اور یہی صورت آزاد ہندوستان میں بھی برقرار ہے۔(مصنف)

۴۹؎ حاضر العالم الاسلامی وقضایا ۃ المعاصرۃ۱/ ۱۳۔

۵۰؎ ترجمان دارالعلوم جدید، دہلی ، جنوری، فروری ۱۹۶۵، ۳۲۔

۵۱؎ راقم کے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ اسلام میں مال کی طہارت کے ساتھ کسب مال کے ذرائع کی پاکی بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اور یہ دارالحرب اور دارالاسلام، دونوں میں یکساں طور پر مطلوب ہے۔

۵۲؎ ملاحظہ ہو یہ آیت’ وان تبتم فلکم رؤوس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون‘ (سورۂ بقرہ۲: ۲۷۹)۔

۵۳؎ یہ اصول فقہا کا وضع کردہ ہے، کسی نص صریح یا سنت ثابتہ سے ثابت نہیں ہے۔

B