HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: التوبہ ۹: ۷۳- ۸۰ (۶)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ{۷۳} یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوْا وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَۃَ الْکُفْرِ وَکَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِھِمْ وَھَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَکُ خَیْرًا لَّھُمْ وَاِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ عَذَابًا اَلِیْمًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمَا لَھُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَانَصِیْرٍ{۷۴} 
وَمِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ{۷۵} فَلَمَّآ اٰتٰھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَتَوَلَّوْا وَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَ{۷۶} فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوااللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ{۷۷} اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ سِرَّھُمْ وَنَجْوٰھُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ{۷۸} اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُھْدَھُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْھُمْ سَخِرَ اللّٰہُ مِنْھُمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ{۷۹} اِسْتَغْفِرْلَھُمْ اَوْلَا تَسْتَغْفِرْلَھُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَھُمْ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ{۸۰} 
ـــــــــــــــــــــــــ
اے۲۳۶؎ پیغمبر،اِن سب منکروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور اِن کے لیے سخت بن جاؤ۲۳۷؎۔ اِن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔ یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ اِنھوں نے وہ بات نہیں کہی، حالاں کہ کفر کی وہ بات اِنھوں نے ضرور کہی ہے۲۳۸؎ اور (اِس طرح) اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے ہیں اور اِنھوں نے وہ چاہا ہے جو پا نہیں سکے ہیں۲۳۹؎۔ اِن کا یہ عناد اِسی بات کا صلہ ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے اپنے فضل سے اِن کو غنی کر دیا ہے۲۴۰؎۔سو اگر یہ( اب بھی) توبہ کر لیں تو اِن کے لیے بہتر ہے اور اگر اعراض کریں گے تو اللہ اِن کو دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور زمین میں اِن کا نہ کوئی حمایتی ہو گا، نہ مددگار۔۷۳-۷۴
اِن میں وہ بھی ہیں۲۴۱؎ جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر اُس نے ہم کو اپنے فضل سے نوازا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اورضرور نیکیاں کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے اُن کو عطا فرمایا تو اُس میں بخل کرنے لگے اور برگشتہ ہو کر منہ پھیر لیا۲۴۲؎۔اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے اُس دن تک کہ اُس سے ملیں گے، اُن کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا، اِس لیے کہ اُنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کی اور اِس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے۲۴۳؎۔ کیا اُن کو خبر نہیں کہ اللہ اُن کے رازوں اوراُن کی سرگوشیوں کو جانتا ہے اور اللہ ہر غیب کا جاننے والا ہے۲۴۴؎۔ وہ ۲۴۵؎جو صدقات کے معاملے میں اُن مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں جو خوش دلی سے دیتے ہیں اور جن کے پاس دینے کے لیے وہی کچھ ہے جو وہ اپنی محنت مزدوری سے کما لاتے ہیں، اُن کا مذاق اڑاتے ہیں۲۴۶؎۔اللہ اُن (مذاق اڑانے والوں) کا مذاق اڑاتا ہے اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ تم اُن کے لیے مغفرت چاہو یا نہ چاہو۔ اگر تم ستر مرتبہ بھی اُن کے لیے مغفرت چاہو گے تو اللہ ہرگزاُن کو معاف کرنے والا نہیں ہے۔ اِس لیے کہ اُنھوں نے اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اِس طرح کے بد عہدوں کو اللہ راہ نہیں دکھاتا۲۴۷؎۔۷۵-۸۰

۲۳۶؎ یہاں سے پانچواں شذرہ شروع ہوتا ہے۔ اِس کے مضامین سے واضح ہے کہ یہ تبوک میں یا تبوک سے واپسی کے سفر میں کسی وقت نازل ہوا ہے۔

۲۳۷؎ جہاد کا لفظ قتال اور شدت احتساب، سب کو شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کفار اور منافقین ایک ہی زمرے کے لوگ ہیں۔ تمھاری کریم النفسی سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی شرارتوں میں اور دلیر ہو گئے ہیں۔ اُن کے ساتھ اپنا رویہ اب یکسر تبدیل کر لو اور جس کے خلاف جس اقدام کا حکم دیا گیا ہے ، وہ کرو۔ چنانچہ منکروں کو جہاں پائو، قتل کرو، جیسا کہ پیچھے ہدایت کی گئی ہے اور منافقوں کے ساتھ احتساب اور داروگیر کا جہاد کرو اور رأفت و شفقت کے بجاے سختی کے ساتھ پیش آئو تاکہ اُن پر واضح ہو جائے کہ اب اُنھیں مسلمانوں کی طرح مسلمان بن کر رہنا ہو گا، ورنہ اُسی انجام سے دوچار ہوں گے جو پیغمبر کے منکروں کے لیے مقدر ہو چکا ہے۔ 

۲۳۸؎ یہ اُسی طرح کی کسی بات کا حوالہ ہے ، جس طرح کی باتوں کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے کہ منافقین اپنی مجلسوں میں اللہ، اُس کے رسول اور اُس کی آیتوں کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن جب پوچھا جائے تو صاف مکر جاتے ہیں کہ اُنھوں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی، وہ تو محض ہنسی دل لگی کر رہے تھے۔

۲۳۹؎ یہ اُن منصوبوں کی طرف اشارہ ہے جو منافقین نے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بنائے مگر اللہ نے اُن کے راز برسرموقع فاش کر دیے اور اُنھیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ چنانچہ ہر موقع پر اُنھوں نے منہ کی کھائی۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ قرآن نے نہایت بلاغت کے ساتھ دو لفظوں میں اُن کے تمام خبیثانہ منصوبوں اور ساتھ ہی اُن کی محرومیوں اور ناکامیوں کی طرف اشارہ فرما دیا ہے۔

۲۴۰؎ اشارہ ہے اُن غنائم کی طرف جو فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہوئے اور جن سے سب سے زیادہ فائدہ اِنھی منافقین نے اٹھایا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اول تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِن کی دل داری کے خیال سے اِن کو دیتے بھی زیادہ تھے، پھر یہ اپنی طماعی کے سبب سے لیتے بھی سو بہانوں سے تھے۔ مزید براں اِن کے پاس صرف لینے ہی والے ہاتھ تھے، دینے والے ہاتھ تو سر ے سے تھے ہی نہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کوئی موقع آیا تو ۔۔۔صاف کترا جاتے۔ اِس طرح یہ لوگ مال دار بن گئے اور اِس مال داری کا صلہ اسلام کو، جس کے نام پر وہ مال دار بنے، اُنھوں نے یہ دیا کہ اُس کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں کرتے رہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۶۱۰)

۲۴۱؎ یعنی اِنھی لوگوں میں جواب اسلام کی بدولت غنی ہو گئے ہیں۔

۲۴۲؎ اصل الفاظ ہیں:’تَوَلَّوْا وَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَ‘۔’تَوَلَّوْا‘کے بعد ’ھُمْ مُّعْرِضُوْنَ‘ کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ انفاق کا نام لیا جائے تو منہ موڑ کر اِس طرح چل دیتے ہیں کہ پیچھے مڑ کر دیکھتے بھی نہیں۔

۲۴۳؎ یہ اُس سنت کے مطابق ہوا جو اللہ تعالیٰ نے ہدایت و ضلالت کے باب میں مقرر کر رکھی ہے۔ آدمی جب ایک مدت تک کسی روگ کی رضاعت و پرورش کرتا رہتا ہے تو بالآخر ہمیشہ کے لیے توبہ اور اصلاح کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔

۲۴۴؎ یعنی فعلاً بھی جانتا ہے اور اُس کی صفت بھی ہے کہ وہ علام الغیوب ہے۔

۲۴۵؎ آیت کی ابتدا ’اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ‘ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ یہ ’اَلَّذِیْنَ‘ پیچھے ’نَجْوٰھُمْ‘ میں ’ھُمْ‘ کی ضمیر سے بدل ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۲۴۶؎ یعنی خود کچھ کرتے نہیں اور دوسروں کے انفاق پر غصے سے کھولتے اور حسد سے جلتے ہیں۔ چنانچہ اغنیا کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے اور غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔جوفیاض اور مخلص مسلمان فیاضی اور خوش دلی سے خدا کی راہ میں دیتے ہیں، اُن کو تو کہتے ہیں کہ یہ ریاکار اور شہرت پسند ہے۔ اپنی دین داری او رسخاوت کی دھونس جمانے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ جو غریب بے چارے کچھ رکھتے ہی نہیں۔ اپنی محنت مزدوری کی گاڑھی کمائی ہی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اُن کی حوصلہ شکنی کے لیے اُن کا یہ مذاق اڑاتے اور اُن پر پھبتیاں چست کرتے ہیں کہ لو آج یہ بھی اٹھے ہیں کہ حاتم کا نام دنیا سے مٹا کر رکھ دیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۱۳)

۲۴۷؎ یعنی وہ راہ نہیں دکھاتا جو اُنھیں جہنم کے راستے سے ہٹا کر اُس غایت کی طرف گامزن کر دے جو سچے اہل ایمان کی منزل ہے۔ اِس تنبیہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس درجہ رحیم و شفیق تھے اور اِس طرح کے منافقوں کے لیے کس قدرالحاح کے ساتھ مغفرت اور نجات کی دعائیں کرتے رہتے تھے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B