HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

نیا پاکستان مبارک!

وزیراعظم: نواز شریف، قائد حزب اختلاف: عمران خان۔

پاکستان کے لیے اس سے بہتر سیاسی مستقبل ممکن نہیں تھا۔ اگر یہ ترتیب الٹ جاتی تو بھی میری راے یہی ہوتی۔ وزیراعظم: عمران خان، قائد حزب اختلاف: نواز شریف۔ پاکستان کے عوام نے بالعموم جس ذہنی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے جمہوریت پر میرے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ نواز شریف نے ۱۱ مئی کی شب جو تقریر کی، وہ بلاشبہ ایک نئے پاکستان کی خبر دے رہی ہے۔ شہباز شریف کے چند جملوں نے فضا میں جو تلخی پیدا کر دی تھی میاں صاحب کی بصیرت نے بڑی حد تک اس کا تدارک کر دیا۔ انھوں نے زبان حال سے بتا دیا کہ شہباز شریف صاحب وزارت عظمیٰ کے لیے جتنے غیر موزوں ہو سکتے ہیں، نواز شریف صاحب اتنے ہی موزوں ہیں۔ قومی راہنما ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ آدمی کے دل میں ایک کائنات سما جائے۔ مخالفین کے لیے بھی وہ سراپا شفقت ہو۔ عمران خان کو بھی اس باب میں ابھی بہت تربیت کی ضرورت ہے۔

نواز شریف اور عمران خان اب ایک نئے عرصۂ امتحان میں ہیں۔ دونوں کے لیے نئے چیلنج ہیں۔ نواز شریف نے باہمی تعاون کی بنیاد پر ایک نئے عہد کے خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی، تاہم عمران خان اس کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے۔ یہ ان کی راے ہے جن کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ میں ان کی بات پر اعتبار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کر رہا ہوں۔ اس میں بھی پاکستان کے لیے خیر ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے اچھی اپوزیشن اتنی ہی ضروری ہے جتنی اچھی حکومت۔ اس وقت یہ خطرہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مل کر اپوزیشن کا منصب لے سکتے ہیں۔ نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ یہ منصب عمران خان کے پاس رہے۔

نئے پاکستان میں نواز شریف صاحب اور عمران خان کو جو چیلنج درپیش ہوں گے، ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے نواز شریف، عوامی تائید کے ساتھ اس وقت ان کے دو مثبت امتیازات ہیں۔ ایک یہ کہ انھیں پاکستان کے کاروباری طبقے کا اعتماد حاصل ہے۔ دوسرا بین الاقوامی برادری کا۔ آج پاکستان کو ایسے ہی راہنما کی ضرورت تھی۔ اس سے پاکستان کی معیشت اور ساکھ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس زاد راہ کے ساتھ وہ جس سفر کا آغاز کریں گے، اس میں انھیں چار اہم سوالات کا سامنا ہو گا۔ ان کا جواب دیے بغیر وہ سیاست کے پل صراط سے کامیابی کے ساتھ نہیں گزر پائیں گے۔

۱۔ پاکستان سکیورٹی سٹیٹ بنا رہے گا یا اسے ایک فلاحی جمہوری ریاست بننا ہے؟ آٹھ ماہ پہلے میں نے ایک بالمشافہ ملاقات میں بھی میاں صاحب کے سامنے یہ سوال رکھا تھا۔ آسان لفظوں میں اس کا مطلب ہے خارجہ پالیسی سمیت قومی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین۔ انتخابات کی رات ’’دنیا‘‘ ٹی وی پر امتیاز گل صاحب نے ایک اہم بات کہی۔ ان کے بقول میاں صاحب نے اپنے قریبی حلقے سے یہ کہا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک فیصلہ کن بات کریں گے: مشرقی اور مغربی سرحدوں پر وہ پرانی حکمت عملی برقرار رکھیں گے یا نئی حکمت عملی ترتیب دینے کا موقع دیں گے۔ اگر وہ پرانی حکمت عملی پر اصرار کریں گے تو میاں صاحب حکومت بنانے سے معذرت کر لیں گے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کا مطلب ہے، وہ پاکستان کے بنیادی مسئلے کا ادراک رکھتے ہیں اور اصلاح چاہتے ہیں۔ گویا اس صورت میں پاکستان کو اس مسلسل غلطی سے نجات مل سکتی ہے جسے سٹریٹجک ڈیپتھ کا عنوان دیا جاتا ہے۔ اگر میاں صاحب یہ کام کر گزرے تو بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اس سے پاکستان کے بہت سے مسائل کا تدارک ہو سکے گا۔

۲۔ دہشت گردی کے بارے میں وہ کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج یہ پاکستان کی جنگ ہے۔ قاتل اور مقتول، حملہ آور اور ہدف دونوں پاکستانی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے وابستگان پاکستانی ہیں اور بشیر بلور اور منیر اورکزئی جیسے لوگ بھی پاکستانی۔ اس میں امریکا فریق نہیں ہے۔ یہ طے ہے کہ دہشت گردی سے نجات کے بغیر پاکستان ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ نہ سیاسی حوالے سے نہ معاشی اعتبار سے۔ نواز شریف صاحب کے لیے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔ کیا وہ طالبان کو پاکستان میں حملوں سے باز رکھ پائیں گے؟

۳۔ کیا وہ امن و امان اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل پر ایک سال میں قابو پا سکیں گے؟ اگر عوام کو ان دو مسائل سے نجات نہ مل سکی یا بڑی حد تک ان کا خاتمہ نہ ہوا تو نواز شریف صاحب کی عوامی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے نیچے آئے گا۔ اس وقت عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہے۔ پیپلز پارٹی کو دراصل اسی کی سزا ملی ہے۔ شہباز شریف صاحب کے دعووں کی بازگشت اب باربار سنی جاتی رہے گی۔

۴۔ کیا وہ مرکزی حکومت میں دوسرے صوبوں کو نمائندگی دے پائیں گے؟ حکومت کی ساکھ اور وفاق کی یک جہتی کے لیے ضروری ہے کہ تمام صوبوں کے لوگ حکومت کا حصہ ہوں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو شامل کیے بغیر مرکزی حکومت کتنی نمائندہ ہو گی؟ میاں صاحب کو ابتدا میں ہی اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔

عمران خان کو بھی چار سوالات کا سامنا ہے:

۱۔ کیا وہ ملک کو ایک موثر اور مثبت اپوزیشن دے پائیں گے؟ انتخابی مہم کے دوران میں عمران خان کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ سابقہ پارلیمنٹ میں موجود کسی جماعت سے اتحاد نہیں کریں گے۔ یہ انداز نظر غیر جمہوری ہے۔ اگر وہ خیر میں تعاون اور شر میں عدم تعاون کے اصول کو پیش نظر رکھیں تو اس سے ان کی پذیرائی میں اضافہ ہو گا اور اس طرح وہ اس نظام کی تقویت کا باعث بن سکیں گے۔

۲۔ انھیں یہ بات بھی سامنے رکھنا ہو گی کہ اس نظام میں تبدیل ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انھیں عوامی فیصلے کی تائید کرنی چاہیے اور کھلے دل کے ساتھ ن لیگ کی کامیابی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ نواز شریف نے ان کے حادثے پر جس ردعمل کا اظہار کیا، اس سے ان کو اخلاقی برتری ملی ہے۔ اگر عمران خان بھی ہسپتال میں شہباز شریف صاحب سے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا۔ پارلیمنٹ میں موثر اپوزیشن کا کردار نبھانے کے لیے انھیں خوے دل نوازی پیدا کرنی ہو گی۔

۳۔ انتخابی کامیابی کو وہ کس حد تک پارٹی کی مضبوطی کے لیے استعمال کر پائیں گے؟ انتخابات میں تحریک انصاف کی کارکردگی بہت متاثر کن رہی ہے۔ وہ بہت آگے جا سکتی ہے۔ اس کے لیے عمران خان کو پارٹی پر بہت توجہ دینا ہو گی۔ میرا یہ خیال اب پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ ملک ایک بار پھر دو جماعتی نظام کی طرف بڑھے گا اور ان میں ایک جماعت تحریک انصاف ہو گی، تاہم اس کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کس طرح اپنے خدو خال کا تعین کرتی ہے۔

۴۔ کیا تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں امید کی کرن بن سکتی ہے؟ امکان یہی ہے کہ تحریک انصاف صوبے میں حکومت بنائے گی۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان ہے۔ اب طالبان کے ساتھ ان کا براہ راست پالا پڑنے والا ہے۔ اس مرحلے پر وہ جو پالیسی اختیار کریں گے، اس سے ان کے مستقبل کا تعین ہو گا۔ اچھی حکومت اور امن میں توازن پیدا کرنا ہی امتحان ہے۔ ڈرون حملوں اور قبائلی علاقوں میں آپریشن جیسے مسائل پر انھیں عملی کردار ادا کرنا ہے۔ ان کے سامنے ایک مجلس عمل کا وجود ہے۔ جن کے نعروں اور عمل میں تفاوت نے ان کے سیاسی مستقبل کو تاریک کر دیا۔ خیبر پختون خوا کی حکومت اعزاز سے کہیں زیادہ ایک چیلنج ہے۔

آج ایک نیا پاکستان ہمارے سامنے ہے۔ کئی نئے حقائق جنم لے چکے۔ ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھٹو اور اینٹی بھٹو کی نفسیات سے باہر آ گیا ہے۔ نئی عصبیتیں جنم لے رہی ہیں۔ جمہوریت اسی کا نام ہے کہ سماج متحرک رہتا ہے۔ نواز شریف اور عمران خان دونوں کے ساتھ امید وابستہ ہے۔ پاکستان کو آج امید ہی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ یہ جمہوریت کا تحفہ بھی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ہم کس طرح اس کی قدر افزائی کرتے ہیں۔

_______________

B