HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

انتخابات ۲۰۱۳ اور بھارت کے ساتھ تعلقات

محمد بلال

اسلامی شریعت یہ ہے کہ ’’اور ان(مسلمانوں) کا نظام ان کے باہمی مشورے کی بنیاد سے چلتا ہے۔‘‘ ۱۱مئی کو پاکستانی عوام نے دھرنوں،احتجاجوں اور دھماکوں کو مستر د کر دیا ۔انھوں نے ۳ ۲۰۱ کے انتخابات میں بھر پور حصہ لیتے ہوئے اپنی راے کا اظہار کیا اور یوں شان دار دین دار ی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس معاملے میں اہل پاکستان نے بلوغ حاصل کرنے میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہمارے سیاسی کلچر کی خرابیاں بھی آہستہ آہستہ کم ہونا شروع جائیں گی۔

ان انتخابات میں بھارت کے ساتھ دشمنی ا ور اس کے خلاف سخت تخریبی پر جوش بیان بازی کو انتخابی مہم میں استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ انتخابی مہم کے عروج کے دنوں میں بھارت کے ساتھ تنازعات ختم کر کے پرامن تعلقات قائم کرنے کی بات کرنے والے سیاست دان کو سب سے زیادہ ووٹ ملے۔یہ با ت پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بھی خوش خبری کا درجہ رکھتی ہے ۔پاک بھارت تناؤ کے موقع پر وہاں کے مسلمان بھی سخت مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہاں کے متشدد لوگ انھیں طنزاً پاکستان چلے جانے کی راہ دکھانے لگتے ہیں۔

ہمارے انتہا پسندوں کی یہ سوچ کہ بھارت کے جسم سے خون ٹپکا تے رہو، ایک نہ ایک دن وہ نیلاہو کر کمزور پڑ جائے گاخود پاکستان کے لیے بھی خطرناک ہے ۔جب ایک قوم دوسری قوم کے جسم سے خون ٹپکائے گی تو دوسری قوم اس کے لیے پھولوں کے ہارتیار نہیں کرے گی بلکہ وہ ردعمل میں اس قوم کے جسم سے زیادہ خون نکالنے کی بھر پور کوشش کرے گی۔اس کڑوی حقیقت کا انکار بھی مشکل ہے کہ آج اس سوچ کا الٹ نتیجہ نکل چکا ہے۔ حتیٰ کہ دنیا میں بھارت پاکستان سے بلند تر مقام حاصل کرچکا ہے۔

چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھ کر بڑے بڑے نقصانات کاسامنا کرنا اور فائدوں سے محروم ہونا دانش مندی نہیں ہے۔پچھلے دنوں چین کے نئے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے سب سے پہلے بھارت کا سرکاری دورہ کیا۔حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری سرحدی تنازعے میں مارچ میں اضافہ ہوگیا تھا۔بھارت نے الزام لگایا تھا کہ چینی فوج نے بھارتی سرحد کی خلاف ورزی کی ہے۔دلی میں چینی وزیر اعظم نے یہ کہا کہ دونوں ملکوں میں اختلافات سے زیادہ مفادات موجود ہیں۔ہمیں ان اختلافات کو کھلے ذہن کے ساتھ سلجھانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے بھارتی وزیر اعظم سے اعتماد کی تعمیر کا وعدہ کیا۔اس دورے میں دونوں ممالک نے آٹھ معاہدوں پر دستخط کئے۔اس دورے میں سرحدی تنازعے پر تفصیل سے اور دوٹوک انداز میں بات ہوئی مگر وہ دوسرے امور پر اثر انداز نہ ہوسکی۔

اسی طرح پاکستان اور بھارت کو بھی اعتماد کی تعمیر کر نی چاہیے۔ نا رمل حالات میں دوقومیں آپس میں ملیں،بات چیت کریں توایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملتا ہے ، غلط فہمیاں رفع ہوتی ہیں، مخفی مشترک امور ظاہر ہوتے ہیں۔ باہمی عزت و احترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔دلوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور باہمی مسائل حل ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔

پاک بھارت تعلقات محض کوئی خارجہ امور کا عام مسئلہ نہیں ہے۔یہ بہتر تعلقات دونوں ملکوں کے غربت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے کروڑوں عوام کے لیے خوش حالی اور تعلیم کا سورج طلوع کر سکتے ہیں، اور انھیں دونوں ملکوں کی ردعمل کی نفسیات اور انا کی شکار قیادت کے ظلم سے بچا سکتے ہیں۔اس ضمن میں حکیمانہ او ر صابرانہ حکمت عملی اختیار کرکے بے پناہ فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔دنیاکی کسی بھی قوت کے مقابلے میں اللہ کا سا تھ ہمیں انتہائی غیر معمولی ثمرات سے ہم کنار کر سکتا ہے۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے ۔پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، مجوسی اور نصرانی بنا دیتے ہیں۔افسوس ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت نے بھی ہمارے عوام کو غیر فطری اور غیر انسانی تعصبات کی کال کوٹھڑی میں قیدکر دیا ہے۔مذہب کی بنیاد پر نفرت کی سیاست کرنے والے اگر و سیع القلبی اور وسیع النظری سے کام لیں تو مذہب ہی کے حوالے سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اجنبیت اوردوری کوبہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔’’ویدیں‘‘ ہندوؤں کی تمام مذہبی کتب میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔اگر کسی دوسری مقدس کتاب کی کوئی عبارت ان کے ساتھ متصادم ہوتو ویدوں ہی کو سند ، حتمی اورمسلمہ مانا جاتاہے۔

ویدوں میں یہ بھی بیان کیا گیاہے:

’’خدا جیسا کوئی نہیں ہے۔‘‘۔۔۔’’خدا عظیم او رطاقت و رہے۔‘‘۔۔۔’’خدا کا کوئی تصور یا خاکہ یا ثانی نہیں۔‘‘ ۔۔۔ ’’اسی کی عبادت کرو،ایک خداکی ، صرف اسی کی تعریف کرو۔‘‘۔۔۔’’خدا صرف اور صرف ایک ہے۔‘‘

وید کے بعد’’ اُپشند‘‘کا درجہ ہے ۔اس میں ہے:

’’اللہ کا کوئی شریک نہیں،کوئی اس جیسا نہیں ،کوئی ثانی نہیں۔‘‘۔۔۔’’کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھگوت گیتا میں ہے:

’’وہ مجھے عظیم خدا کی حیثیت سے جانتے ہیں جو ازل سے ہے ۔جس کی ابتداو انتہا نہیں ہے۔وہ دنیا کا عظیم آقا ہے۔‘‘

وید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیشین گوئیاں کچھ یوں درج ہیں:

’’اس کی پیدایش وشنو یاس(یعنی اللہ کے عبادت گزار،عبداللہ ) کے ہاں ہوگی۔اس کی والدہ کانام سماتی (امن۔آمنہ) ہوگا۔‘‘۔۔۔’’وہ اپنی ماں کا دودھ نہیں پیے گا۔‘‘ ۔۔۔’’ایک نووارد آئے گا اس کی زبان سنسکرت نہیں ہوگی۔وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آئے گا جو صحابہ کہلائیں گے۔اس کانام محمد ہوگا۔‘‘۔۔۔’’ وہ امن کا شہزادہ اور مہاجر ہے۔‘‘۔۔۔’’وہ سفیدگھوڑے پر سوار ہوگا ،اس کے ہاتھ میں تلوار ہوگی اوروہ بدامنی اور ظلم کا خاتمہ کرے گا۔‘‘۔۔۔ ’’وہ ایک ریتلے راستے سے آئے گا اور برائی کے خاتمے کے لیے عظیم قوت مجتمع کرے گا۔‘‘۔۔۔ ’’وہ انتم رشی یعنی آخری رشی ہوگا۔‘‘۔۔۔’’(اس کے پیروکار)ختنہ شدہ ہوں گے۔ان کے سر کے بالوں کی چوٹی نہیں ہوگی۔وہ ڈاڑھی رکھیں گے اور وہ انقلاب برپا کریں گے۔وہ عبادت کے لیے پکاریں گے (اذانیں دیں گے)وہ تمام حلال جانوروں کا گوشت کھائیں گے مگر سور کا گوشت نہیں کھائیں گے۔‘‘


ان چند اقتباسات کے واضح اشارات میں مخفی تفصیل حکمت و دانائی رکھنے والے باآسانی دیکھ سمجھ سکتے ہیں۔ وقت کی گزران اور زمانے کی بدلتی ہوئی کروٹوں سے مذہب کے ساتھ کیسے کیسے معاملات ہوجاتے ہیں،اہل علم بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔اس بات کی رعایت قدیم مذاہب کے حاملین کو دینی چاہیے۔مگر افسوس ہماری قوم میں نفرت، انتقام،تعصبات کے جذبات اس قدر شدت کے ساتھ پیدا کر دیے گئے ہیں اورانھیں دعوتی سوچ سے اتنا دور کر دیا گیا ہے کہ ان کا دوسری اقوام کو رعایت دینے کا ذہن ہی نہیں بنتا۔مگر مایوسی کفر ہے ۔ قومیں’’ طرزکہن‘‘ پر اڑا کرتی ہیں ، چنانچہ انھیں ’’آئین نو‘‘ کی راہ دکھانے کی تعمیری کوشش جاری رکھنا ہوگی۔

یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک معقول مسلمان ہندو مذہب کے بارے میں ایسی معلومات کے سامنے آنے کے بعد ہندوؤں کے ساتھ قربت محسو س نہ کرے۔ دونوں ممالک کویہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں ،ہمساے نہیں......اور اسلام میں تو ہمساے کے حقوق ہی بہت زیادہ ہیں.....دونوں ملکوں کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ جارحانہ سوچ کے حاملیں کے ہاتھوں یرغمال نہ بنیں۔جب دلوں میں وسعت اور نرمی پیدا ہوگی تو پیچیدہ اور بڑے مسائل پر مذاکرات بھی کامیاب ہونے لگیں گے۔ورنہ غصے او رنفرت کی کیفیت میں دل تنگ ہوجاتے اور مذاکرات بھی ڈیڈ لاک کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔ان اقوال سے اختلاف کا کوئی امکان نہیں ہے کہ تشدد کا انجام تخریب ہے او رامن کا انجام تعمیر۔بدامنی کا انجام شرمندگی ہے او رامن کا انجام کامیابی۔تشدد سے نفرت جنم لیتی ہے اور امن سے محبت۔تشدد سے بنے ہوئے کام بگڑ جاتے ہیں اور امن سے بگڑے ہوئے کام سنور جاتے ہیں۔اب یہ ہم پر ہے کہ ہمیں تخریب ، شرمندگی اورنفرت سے اس خطے کو آلودہ کرنا ہے یا تعمیر ،کامیابی اورمحبت کی خوشبو سے اپنے آپ کو او راپنے ہمساے کو معطر کرنا ہے۔

_______________

B