ترجمہ: شاہد رضا
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِیْ ظِلِّ الْکَعْبَۃِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُوْنَ عَلَیْہِ. فَأَتَیْتُہُمْ فَجَلَسْتُ إِلَیْہِ، فَقَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ یُّصْلِحُ خِبَاءَ ہُ وَمِنَّا مَنْ یَّنْتَضِلُ وَمِنَّا مَنْ ہُوَ فِیْ جَشَرِہِ. إِذْ نَادَی مُنَادِی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الصَّلٰوۃُ جَامِعَۃً، فَاجْتَمَعْنَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ: إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌٌ قَبْلِیْ إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَیْہِ أَنْ یَّدُلَّ أُمَّتَہُ عَلٰی خَیْرِ مَا یَعْلَمُہُ لَہُمْ وَیُنْذِرَہُمْ شَرَّمَا یَعْلَمُہُ لَہُمْ وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ ہٰذِہِ جُعِلَ عَافِیَتُہَا فِیْ أَوَّلِہَا وَسَیُصِیْبُ آخِرَہَا بَلَاءٌ وَأُمُوْرٌ تُنْکِرُوْنَہَا وَتَجِیْءُ فِتْنَۃٌ فَیُرَقِّقُ بَعْضُہَا بَعْضًا وَتَجِیْءُ الْفِتْنَۃُ، فَیَقُوْلُ الْمُؤْمِنُ: ہٰذِہِ مُہْلِکَتِیْ ثُمَّ تَنْکَشِفُ وَتَجِیْءُ الْفِتْنَۃُ فَیَقُوْلُ الْمُؤْمِنُ: ہٰذِہِ ہٰذِہِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُّزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَیُدْخَلَ الْجَنَّۃَ فَلْتَأْتِہِ مَنِیَّتُہُ وَہُوَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِیْ یُحِبُّ أَنْ یُّؤْتَی إِلَیْہِ وَمَنْ بَایَعَ إِِمَامًا فَأَعْطَاہُ صَفْقَۃَ یَدِہِ وَثَمَرَۃَ قَلْبِہِ فَلْیُطِعْہُ إِنِ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَاءَ آخَرُ یُنَازِعُہُ فَاضْرِبُوْا عُنُقَ الْآخَرِ.
حضرت عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ (رضی اللہ عنہ)نے کہا:میں مسجد میں داخل ہوا تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ)کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے۔چنانچہ میں ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔انھوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ہم نے ایک مقام پر قیام کیا۔ہم میں سے بعض وہ تھے جو اپنے خیمے درست کر رہے تھے، بعض وہ تھے جو تیر اندازی میں مقابلہ کر رہے تھے اور بعض وہ تھے جو اپنے مواشی چرا رہے تھے۱ کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے ندا دی کہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع ہو جانا چاہیے۲، چنانچہ ہم جلدی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:مجھ سے پہلے جو نبی بھی آیا، اس پر یہ فرض تھا کہ اپنے پیروکاروں کی اس بات کی طرف رہنمائی کرے جس کو وہ ان کے لیے بہتر جانتا ہے، اور اس بات سے ڈرائے جس کو وہ ان کے لیے برا جانتا ہے۳، اور بے شک، تمھاری اس جماعت کی عافیت اس کے پہلے دور میں ہے اور اس کے بعد والے دور میں عنقریب آزمایشیں آئیں گی۴ اور ایسے امور در پیش ہوں گے جو تمھارے لیے عجیب ہوں گے۵اوریکے بعد دیگرے آزمایش آئے گی، آنے والی آزمایش گذشتہ آزمایش کو حقیر بنا دے گی۶۔ جب آزمایش آئے گی تو مومن کہے گا کہ یہ میری ہلاکت لانے والی ہے۔جب یہ آزمایش ختم ہو جائے گی تو ایک اور آزمایش آئے گی تو مومن کہے گا کہ یہ یقیناًمجھے ختم کرنے والی ہے۔چنانچہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے جہنم سے نجات دی جائے اور جنت میں داخل کیا جائے، اس کو اللہ تعالیٰ اور یوم آخر پر ایمان کی حالت میں فوت ہونا چاہیے۷ اور اس کو لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنا چاہیے، جس طرح کا وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ سلوک کیا جائے۸۔جو شخص کسی حکمران کی بیعت کرے۹ اپنے ہاتھ (اس کے ہاتھ پر)رکھتے ہوئے۱۰، اور خلوص دل سے اس کی بیعت کرتے ہوئے اسے چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے، اس کی اطاعت کرے۔پھر کوئی دوسرا شخص آئے اور اس سے حکومت چھیننے کی کوشش کرے، تو اس کی گردن مار دو۱۱۔
۱۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مختلف امور میں مشغول ہو گئے۔
۲۔ نماز کے لیے منادی اس وقت بھی کرائی جاتی تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود کسی معاملے میں مشاورت یا کسی عام اعلان کے لیے نمازوں کے مقام پر لوگوں کو جمع کرنا ہوتا تھا۔
۳۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا پیغمبر اپنے پیروکاروں کو نہ صرف یہ بتاتا ہے کہ ان کو کس شے کے حصول کی خواہش کرنی چاہیے، بلکہ ان کو ایسے خطرات سے آگاہ بھی کرتا ہے جن سے ان کو اپنی بھلائی کے لیے احتراز کرنا چاہیے۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک تنبیہ اور انذار ہے۔
۴۔ روایت کے مضمون سے اس بات کی طرف، بالخصوص، اشارہ ہے کہ امن وسکون، ہم آہنگی اور اتحاد کے دور کے بعد امور سیاست میں آزمایشیں اور مصائب درآئیں گی۔
۵۔ خاص طور پر، یہ امرا کے طرز عمل کی طرف اشارہ ہے کہ لوگ ان کے ناقابل قبول اور مکروہ طرز عمل کا مشاہدہ کریں گے۔
۶۔ آنے والی آزمایش اس قدر بڑی ہو گی کہ گذشتہ آزمایش کو یہ چھوٹی اور معمولی بنا دے گی۔
۷۔ اس بحران اور مصائب والے دور میں لوگوں کو محفوظ اور اللہ تعالیٰ اور یوم آخر کی آمد کے بارے میں اپنے عقیدہ پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔یہ عقیدہ ان کو کسی قسم کی ناانصافی اور ظلم میں عادل اور غیر جانب دار رہنے میں استحکام کا باعث بنے گا، خواہ وہ ناانصافی اور ظلم امرا کی طرف سے ہو یا ایسے گروہ کی طرف سے جو امرا کا تختۂ حکومت الٹ دینے کی کوشش کر رہا ہو۔
۸۔ اجتماعی اور اخلاقی رویہ کی بنیاد، لوگوں کے ساتھ اس طرح سلوک کرنا ہے، جس طرح ایک شخص چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے ساتھ کریں، نہ کہ دوسروں کے ساتھ اس طرح سلوک کرنا، جس طرح کہ دوسرے لوگ، اصل میں، اس کے ساتھ کرتے ہیں۔
۹۔ یہ ایک قانون کا قیام ہے۔روایتی طور پر، قائدین، شیوخ اور مختلف قبائل کے نمائندگان اپنا دایاں ہاتھ حکمران کے ہاتھ میں رکھ کراور اس کے لیے اپنی اطاعت گزاری کا اعلان کرکے یہ بیعت کر سکتے ہیں۔قائدین اور شیوخ کی یہ بیعت ان کے متعلقہ قبائل کے تمام افراد کی طرف سے ہو گی اور قبائل کے تمام افراد اس بیعت کے پابند ہوں گے۔
۱۰۔ جس طریقے کے مطابق عموماً بیعت لی جاتی تھی، یہ اسی کی طرف اشارہ ہے، وہ طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص حکمران کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا تھا۔
۱۱۔ قرآن مجید کے مطابق،* مجرم کو موت کی سزا صرف دو صورتوں میں دی جا سکتی ہے:
ا۔ وہ کسی کو قتل کرنے کا مرتکب پایا گیا ہو۔
ب۔ وہ فساد فی الارض پھیلانے کا مرتکب پایا گیا ہو۔
ریاست کے خلاف فتنہ انگیزی اور غیر آئینی ذرائع سے حکومت پر تسلط جمانے کے لیے اس کی نمائندہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش بھی فساد فی الارض کا بیج بونے کی ایک واضح دلیل ہے۔چنانچہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے کہ جو شخص بھی اس جرم کا ارتکاب کرے، وہ سزاے موت کا مستحق ہے۔
اللہ تعالیٰ کے پیغمبر پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی نہ صرف اس بات کی طرف رہنمائی کرے اور رغبت دلائے جو ان کے لیے بہتر ہے، بلکہ تمام خطرات سے آگاہ بھی کرے اور اس سے انذار کرے۔ان خطرات میں سے ایک یہ ہے کہ امن وسکون، ہم آہنگی اور اتحاد کے دور کے بعد مسلمانوں کو امور سیاست میں بہت سی مصائب و ابتلاء ات درپیش ہوں گی ان میں سے ہر ایک پہلی سے عظیم اور سخت ہو گی جب لوگ حکومت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑیں گے۔جب یہ دور آئے گا، تو ہر وہ شخص جو روز قیامت میں فلاح و کامیابی کا خواہاں ہے، اس کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر اپنے عقیدے پر ثابت قدم رہے اور دیگر انسانوں کے ساتھ بہ احسن طریق پیش آئے۔اجتماعی طور پر، ہر فرد کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ مسلم امرا کا اطاعت گزار رہنا چاہیے۔مزید براں، جب مسلم ریاست کسی ایک حکمران کے ماتحت متحد ہو اور کوئی دوسرا شخص غیر آئینی ذرائع سے اس سے حکومت چھیننے کے لیے اس کا تختہ الٹ دینے اور اپنا تسلط جمانے کی کوشش کرے، جس کے نتیجے میں اس ریاست کے مسلمان باشندے مختلف فریقوں میں تقسیم ہو جائیں، تو اس طرح کا شخص فتنہ اور فساد فی الارض پھیلانے کا مجرم ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، یہ شخص سزاے موت کا مستحق ہے۔یہ روایت قرآن مجید کے حکم کے عین مطابق ہے، جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو لوگ فساد فی الارض پھیلانے کے جرم کا ارتکاب کریں، ان کو عبرتناک طریقے سے موت کی سزا دی جائے (المائدہ۵:۳۳)۔
یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ مسلم، رقم۱۸۴۴ا،۱۸۴۴ب، ۱۸۴۴ج؛ نسائی، رقم۴۱۹۱؛ ابن ماجہ، رقم ۳۹۵۶؛ احمد، رقم۶۵۰۳،۶۷۹۳؛ بیہقی، رقم۱۶۴۶۹۔۱۶۴۷۰؛ ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۱۰۹اورسنن النسائی الکبریٰ، رقم۷۸۱۴،۸۷۲۹میں روایت کی گئی ہے۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۵۰۳میں’ فاجتمعنا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.فقال...‘ (چنانچہ ہم جلدی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے ارشاد فرمایا...) کے الفاظ کے بجاے’ فاجتمعنا. فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فخطبنا، فقال...‘(چنانچہ ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد)جمع ہو گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور (لوگوں سے) خطاب فرمایا، کہتے ہوئے...)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۵۰۳میں ’إلا کان حقًا علیہ أن یدل أمتہ‘(مگر اس پر یہ فرض تھا کہ اپنے پیروکاروں کی رہنمائی کرے)کے الفاظ کے بجاے ’إلا دل أمتہ‘(مگر اس نے اپنے پیروکاروں کی رہنمائی کی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۱۰۹میں یہ الفاظ ’إلا کان حق اللّٰہ علیہ أن یدل أمتہ‘(مگر اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض تھا کہ اپنے پیروکاروں کی رہنمائی کرے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۴ا میں’ علی ما یعلمہ خیرًا لہم‘(اس پر جس کو وہ ان کے لیے بہتر جانتا ہے)کے الفاظ کے بجاے’ علی خیر ما یعلمہ لہم‘(تمام بھلائی پر جس کو وہ ان کے لیے جانتا ہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۱۰۹میں یہ الفاظ’ علی ما ہو خیر لہم‘(اس پر جو ان کے لیے بہتر ہے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۵۰۳میں ’ینذرہم‘(ان کو ڈرائے)کے الفاظ کے بجاے ’یحذرہم‘(ان کو تنبیہ کرے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۴ا میں ’ما یعلمہ شرًا لہم‘(جس کو وہ ان کے لیے برا جانتا ہے)کے الفاظ کے بجاے’ شر ما یعلمہ لہم‘(تمام برا جس کو وہ ان کے لیے جانتا ہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۴۶۹میں ’وإن أمتکم ہذہ جعلت عافیتہا فی أولہا‘(اور بے شک، تمھاری اس جماعت کی عافیت اس کے پہلے دور میں ہے)کے الفاظ کے بجاے ’ألا، وإن عافیۃ ہذہ الأمۃ فی أولہا‘(سن لو،بے شک، تمھاری اس جماعت کی عافیت اس کے پہلے دور میں ہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۴ا میں ’جعلت عافیتہا‘(اس کی عافیت رکھی گئی ہے)کے الفاظ کے بجاے اس کے مترادف الفاظ’ جعل عافیتہا‘(اس کی عافیت رکھی گئی ہے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۵۰۳میں ’وسیصیب آخرہا بلاء وأمور تنکرونہا‘(اور اس کے بعد والے دور میں عنقریب آزمایشیں آئیں گی اور ایسے امور در پیش ہوں گے جو تمھارے لیے عجیب ہوں گے)کے الفاظ کے بجاے’ وإن آخرہا سیصیبہم بلاء شدید وأمور تنکرونہا‘(اور بے شک، اس کے بعد والے دور میں عنقریب ان پر سخت آزمایشیں آئیں گی اور ایسے امور در پیش ہوں گے جو تمھارے لیے عجیب ہوں گے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۱۰۹میںیہ الفاظ ’وإن آخرہا سیصیبہم بلاء وأمور تنکرونہا‘(اور بے شک، اس کے بعد والے دور میں عنقریب ان پر آزمایشیں آئیں گی اور ایسے امور در پیش ہوں گے جو تمھارے لیے عجیب ہوں)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۴۱۹۱میں یہ الفاظ ’سیصیبہم بلاء وأمور ینکرونہا‘(عنقریب آزمایشیں آئیں گی اور ایسے امور در پیش ہوں گے جو ان کے لیے عجیب ہوں گے)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۳۹۵۶میں ’إن آخرہم یصیبہم بلاء وأمور تنکرونہا‘(بے شک، ان کے بعد والے دور میں ان پرآزمایشیں آئیں گی اور ایسے امور درپیش ہوں گے جو تمھارے لیے عجیب ہوں گے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۴۶۹میں یہ الفاظ ’سیصیب آخرہا بلاء وفتن یدفق بعضہا بعضًا‘(اس کے بعد والے دور میں عنقریب آزمایشیں اور مصائب آئیں گی،ہر ایک دوسری کو پیچھے چھوڑتے ہوئے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۴ا میں’ تجیء فتن یرقق بعضہا لبعض‘(آزمایشیں آئیں گی، آنے والی آزمایش گذشتہ آزمایش کو حقیر بنا دے گی )کے الفاظ کے بجاے’ تجیء فتنۃ فیرقق بعضہا بعضًا‘ (آزمایش آئے گی اور آنے والی آزمایش گذشتہ آزمایش کو حقیر بنا دے گی)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۴۱۹۱میں یہ الفاظ ’تجیء فتن فیدقق بعضہا لبعض‘(آزمایشیں آئیں گی، آنے والی آزمایش گذشتہ آزمایش کو حقیر بنا دے گی)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۳۹۵۶ میں یہ الفاظ’ تجیء فتن یرقق بعضہا بعضًا‘(آزمایشیں آئیں گی، آنے والی آزمایش گذشتہ آزمایش کو حقیر بنا دے گی) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۳۹۵۶میں ’وتجیء الفتنۃ‘(اور آزمایش آئے گی)کے الفاظ ’وتجیء الفتنۃ، فیقول المؤمن:ہذہ مہلکتی‘(اور آزمایش آئے گی، تو مومن کہے گا:یہ مجھے ہلاک کرنے والی ہے) کے جملے سے محذوف ہیں؛بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۴۶۹میں یہ الفاظ’ تجیء الفتن‘(آزمایشیں آئیں گی)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۴۶۹میں ’وتجیء الفتنۃ‘(اور آزمایش آئے گی)کے جملے سے دوسرا واقعہ ’وتجیء‘ (اور وہ (دوبارہ)آئے گی)کے لفظ سے روایت ہوا ہے۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۵۰۳میں ’فیقول المؤمن: ہذہ ہذہ‘(مومن کہے گا کہ یہ یقینامجھے ختم کرنے والی ہے)کے الفاظ کے بجاے ’فیقول المؤمن: ہذہ‘(مومن کہے گا:یہ (خاتمہ ہے))کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۴۱۹۱میں یہ الفاظ ’فیقول: ہذہ مہلکتی‘(مومن کہے گا:یہ مجھے ہلاک کرنے والی ہے)روایت کیے گئے ہیں۔
’ہذہ، ہذہ‘(یہ یقیناًمجھے ختم کرنے والی ہے)کے الفاظ کے بعد’ ثم تنکشف‘(پھر یہ ختم ہو جائے گی) کے الفاظ احمد، رقم۶۵۰۳میں روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۷۹۳میں پہلے دو واقعات کے بعد، جیساکہ اوپر متن میں مذکور ہے،’ ثم تجیء فیقول:ہذہ ہذہ، ثم تنکشف‘(پھر وہ (دوبارہ)آئے گی اور وہ کہے گا:یقیناًیہ ہلاک کرنے والی ہے، پھر یہ بھی ختم ہو جائے گی)کا جملہ تیسری مرتبہ تکرار کے ساتھ آیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۵۰۳میں ’فمن أحب أن یزحزح عن النار‘(چنانچہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے جہنم سے نجات دی جائے)کے الفاظ کے بجاے ’فمن سرہ منکم أن یزحزح عن النار‘(چنانچہ تم میں سے جو شخص خوش ہو کہ اسے جہنم سے نجات دی جائے)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۴۱۹۱میں یہ الفاظ’ فمن أحب منکم أن یزحزح عن النار‘(چنانچہ تم میں سے جو شخص چاہے کہ اسے جہنم سے نجات دی جائے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۵۰۳میں ’ویدخل الجنۃ‘(اور جنت میں داخل کیا جائے)کے الفاظ کے بجاے’ وأن یدخل الجنۃ‘(اور یہ کہ اسے جنت میں داخل کیا جائے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۶۵۰۳میں’ فلتأتہ منیتہ‘(تو اس کو موت (اس حالت میں)آنی چاہیے)کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’فلتدرکہ موتتہ‘(تو اس کو اس کی موت (اس حالت میں)پائے) روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلا سنن النسائی الکبریٰ، رقم۸۷۲۹میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ’ فلیدرکہ موتہ‘(تو اس کو اس کی موت (اس حالت میں)پائے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۴۱۹۱میں ’وہو یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر‘(جبکہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہو)کے الفاظ کے بجاے ’وہو مؤمن باللّٰہ والیوم الآخر‘(جبکہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والا ہو)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۱۰۹میں ’ولیأت إلی الناس الذی یحب أن یؤتی إلیہ‘(اور اس کو لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنا چاہیے، جس طرح کا وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ سلوک کیا جائے) کے الفاظ کے بجاے ’ولیأت إلی الناس الذی یحب أن یأتوا إلیہ‘(اور اس کو لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنا چاہیے، جس طرح کا وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ سلوک کریں)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۳۹۵۶میں ’فأعطاہ صفقۃ یدہ‘(اپنے ہاتھ (اس کے ہاتھ پر)رکھتے ہوئے)کے الفاظ کے بجاے ’فأعطاہ صفقۃ یمینہ‘(اپنا دایاں ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۴ا میں ’ما استطاع‘(جہاں تک وہ کر سکے)کے الفاظ کے بجاے ’إن استطاع‘(اگر وہ کر سکے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۴۱۹۱میں ’فاضربوا عنق الآخر‘(تو اس دوسرے کی گردن مار دو)کے الفاظ کے بجاے اس کے مترادف الفاظ ’فاضربوا رقبۃ الآخر‘(تو اس دوسرے کی گردن مار دو)روایت کیے گئے ہیں۔
________
* المائدہ۵:۳۲’اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا‘ (جس نے کسی کو قتل کیا، اس کے بغیر کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو، تو اس نے گویا سب انسانوں کو قتل کیا)۔
_______________