پروفیسر الطاف احمد اعظمی*
[یہ مصنف کی طبع شدہ کتاب ’’اسلامی عبادات:تحقیقی مطالعہ‘‘ کا ایک جز ہے۔ قارئین ’’اشراق‘‘
کے افادے کے لیے اس کتاب کے جملہ مباحث بالاقساط شائع کیے جا رہے ہیں۔]
(۳)
امام ترمذی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص کو اپنی ہر حاجت خدا ہی سے مانگنا چاہیے یہاں تک کہ جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا ہی سے مانگے۔‘‘ یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے:
’’ایک دن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا، آپ نے فرمایا: اے لڑکے، میں تجھے چند باتوں کی تعلیم دیتا ہوں: اللہ کا خیال رکھو وہ تمھارا خیال رکھے گا، اللہ کا دھیان رکھو، اسے اپنے سامنے پاؤ گے۔ جب مانگو، خدا سے مانگو اور جب مدد کے طالب ہو تو خدا سے مدد مانگو۔ جان رکھو کہ اگر سارے لوگ مل کر تمھیں کوئی نفع پہنچانا چاہیں تو تجھے نفع نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر سارے لوگ مل کر تمھیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے بجز اس کے جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور کاغذ کی سیاہی خشک ہو چکی ہے۔‘‘ (ترمذی و احمد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کی پیروی کرتے ہوئے ہر دور میں علماے حق نے مسلمانوں کو بتایا کہ بزرگان دین کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا، خواہ بالواسطہ یا بلاواسطہ، فعل شرک ہے۔ امام ابن تیمیہ نے ایک سائل کے استفسار میں لکھا ہے:
ومن اعظم الشرک ان یستغیث الرجل بمیۃ او غائب کما ذکرہ السائل ویستغیث بہ عند المصائب، یقول یا سیدی فلاں، کانہ یطلب منہ ازالۃ ضرہ وجلب منفعہ، وھذا حال النصاریٰ فی المسیح وامہ واحبارھم ورھبانھم، ومعلوم ان خیر الخلق واکرمھم عند اللّٰہ نبینا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، واعلم الناس بقدرہ وحقہ اصحابہ ولم یکونوا یفعلون شیئا من ذلک لافی الغیبۃ ولا بعد مماتہ. (مجموعۂ فتویٰ، جامع الفرید ۴۳۹)
’’یہ ایک بڑا شرک ہے کہ آدمی مردہ یا غائب کو پکارے جیسا کہ سائل نے دریافت کیا ہے، اور مصائب میں اس سے مدد مانگے، کہے یا سیدی فلاں، گویا وہ اس سے اپنی تکلیف کا ازالہ اور نفع حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی معاملہ عیسائیوں کا مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کے بارے میں ہے۔ اور معلوم ہے کہ مخلوق میں فضل اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور آپ کی قدر اور آپ کا حق سب سے زیادہ آپ کے اصحاب (صحابہ) جانتے تھے، لیکن انھوں نے اس قسم کا فعل نہ تو آپ کی زندگی میں کیا اور نہ آپ کی وفات کے بعد۔‘‘
اس تفصیلی گفتگو سے بالکل واضح ہو گیا کہ نماز اور شرک کا اجتماع ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ نماز توحید ہی کی عملی صورت ہے۔ نماز کا عقیدۂ توحید سے ویسا ہی تعلق ہے جیسا تعلق پھول اور اس کے رنگ و بو میں ہے۔ اگر پھول رنگ و بو سے محروم ہو کر حقیقی معنی میں پھول نہیں رہتا تو توحید کی خوشبو سے خالی نماز بھی ایک بے سود جسمانی عمل ہے۔ اس سے نمازی کو نہ دنیا میں کوئی فائدہ حاصل ہو گا اور نہ ہی آخرت میں بلکہ سخت ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ’خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ہُوَ خُسْرَانُ الْمُبِیْنْ‘۔
اسلام میں توحید کی حیثیت بنیاد کی ہے اور دین کی کل عمارت اسی بنیاد پر کھڑی ہے، اور توحید کی عملی شکل، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، نماز ہے۔ سورۂ بقرہ (۲) کے بالکل ابتدا میں فرمایا گیا ہے:
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ. (آیت: ۳)
’’وہ غیب (اللہ تعالیٰ) پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں ’وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ‘ کا جملہ اس بات کی وضاحت کے لیے لایا گیا ہے کہ نماز ایمان بالغیب میں داخل ہے، یعنی اس کے ایک لازمی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ دین قیم کا تعارف ان لفظوں میں کرایا گیا ہے:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ.(سورۂ بینہ ۹۸: ۵)
’’ان کو اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ ہی کی بندگی کریں، اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ، بالکل یک سو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی ٹھیک دین ہے۔‘‘
اس آیت میں جس دین قیم کا تعارف کرایا گیا ہے اس میں نماز اس کے اولین جز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی بنا پر نماز کو دوسری عبادات پر تقدم حاصل ہے۔ اس تقدم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ ہر رکن عبادت یعنی مخصوص حالات میں یا تو ترک ہو سکتا ہے یا موخر کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر زکوٰۃ صرف اس شخص پر عاید ہوتی ہے جو بقدر نصاب مال کا مالک ہو۔ روزہ طاقت نہ ہونے کی صورت میں ساقط ہو جاتا ہے اور بیماری یا سفر میں موخر کیا جا سکتا ہے۔ بیت اللہ کا حج راستے کے امن اور زاد راہ پر منحصر ہے۔ لیکن نماز ہر عاقل و بالغ مسلمان پر ہر حالت میں فرض ہے۔ یہ نہ بیماری میں چھوٹ سکتی ہے، نہ سفر اس کو ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی زمانۂ پیری اس کی ادائی میں مانع ہو سکتا ہے۔ آدمی کھڑا ہو کر نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر پڑھے، بیٹھ کر پڑھنا ممکن نہ ہو تو لیٹ کر اشاروں سے پڑھے۔ حالت سفر میں جان و مال کے خوف کی وجہ سے اگر کسی جگہ ٹھہر کر نماز ادا کرنا محال ہو تو جس حال میں ہو، خواہ پیدل خواہ سوار، نماز ادا کرے۔ فرمایا گیا ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَا اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُم مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.(سورۂ بقرہ ۲: ۲۳۹)
’’پس اگر تمھیں (دشمنوں سے) خوف دامن گیر ہو تو پیدل یا سوار جس حالت میں بھی ہو نمازادا کرو۔ پھر جب خوف دور ہو جائے تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جیسا کہ اس نے تم کو سکھایا ہے، جس کو تم نہیں جانتے تھے۔‘‘
اتنا ہی نہیں، مسلمانوں کو عین حالت جنگ میں بھی نماز کی اقامت کا حکم دیا گیا ہے:
وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآءِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآءِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ.(سورۂ نساء ۴: ۱۰۲)
’’اور (اے پیغمبر) جب تم مسلمانوں میں موجود ہو (یعنی حالت جنگ میں) اور تم نماز میں ان کی امامت کر رہے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمھارے ساتھ کھڑا ہو اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں۔ پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو تمھارے پیچھے ہو جائیں اور دوسرا گروہ، جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے، تمھارے ساتھ نماز پڑھے۔‘‘
عین حالت جنگ میں بھی نماز کا معاف نہ ہونا دین میں اس کے بلند مقام اور اس کی غیر معمولی اہمیت کی ایک بڑی دلیل ہے۔ عبادات کی مشروعیت کے پہلو سے دیکھیں تو اس سے بھی دین میں نماز کی اہمیت اور اس کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتداے نبوت میں جو سب سے پہلا حکم ملا وہ قیام نماز کا تھا۔ سورۂ علق (۹۶) میں، جو نزول وحی کی ترتیب کے اعتبار سے پہلی سورہ ہے، فرمایا گیا ہے:
کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ.(۱۹)
’’ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو۔‘‘
سورۂ مزمل (۷۴) میں ارشاد ہوا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَاَنْذِرْ، وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ.(۱۔۳)
’’اے چادر لپیٹ کر سونے والے! اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کرو۔‘‘
اس سے قریبی زمانہ کی ایک دوسری سورہ کے اندر یہ حکم قدرے تفصیل کے ساتھ آیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ، قُمِ الَّیْْلَ اِلَّا قَلِیْلاً، نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً، اَوْ زِدْ عَلَیْْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً.(سورۂ مزمل ۷۳: ۱۔۴)
’’اے چادر لپیٹ کر سونے والے! رات کو نماز میں تھوڑی دیر کے لیے کھڑے رہو، آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ کر لو، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔‘‘
قرآن مجید میں بعض دوسرے مقامات پر بھی نماز کے اہتمام کی ہدایت ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
وَاْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْْہَا. (سورۂ طٰہٰ ۲۰: ۱۳۲)
’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر جمے رہو۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
قُلْ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْہُدٰی وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَاَنْ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّقُوْہُ وَہُوَ الَّذِیْٓ اِلَیْْہِ تُحْشَرُوْنَ. (سورۂ انعام ۶: ۷۱۔۷۲)
’’کہہ دو، اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ اور ہم کو یہ حکم ملا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے آگے سراطاعت خم کریں، اور یہ کہ نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔ اور وہی ہے جس کے حضور تم سب جمع کیے جاؤ گے۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا ہے:
اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ.(سورۂ عنکبوت ۲۹: ۴۵)
’’جو کتاب تمھاری طرف بذریعۂ وحی بھیجی گئی ہے اس کو پڑھو اور نماز قائم کرو۔‘‘
احادیث سے بھی دین کے اندر نماز کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ اس امر کے قائل ہو جائیں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں۔ اگر وہ ایسا کر لیں گے تو وہ بجز حق اسلام کے، اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے محفوظ کر لیں گے اور ان کا حساب خدا کے ذمہ ہے۔‘‘
بخاری و مسلم دونوں میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو فرمایا:
’’تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ انھیں سب سے پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں۔ اگر وہ یہ بات تسلیم کر لیں تو پھر انھیں بتانا کہ خداوند پاک نے رات اور دن میں ان پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اسے بھی تسلیم کر لیں تو ان سے کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ بھی فرض کی ہے جو ان کے مال داروں سے لے کر ان کے غربا میں تقسیم کی جائے گی۔ پس جب وہ لوگ اس بات کو بھی مان لیں تو خبردار ان کے اعلیٰ درجہ کے مال (چھانٹ چھانٹ کر) نہ لینا اور مظلوم کی آہ سے بچتے رہنا، کیونکہ اس کے اور جناب باری تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔‘‘
پچھلی شریعتوں کو دیکھیں تو اس سے بھی نماز کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ ہر نبی اور رسول کے دین میں نماز کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریت کو مکہ کی وادی بے آب و گیاہ میں بسایا تو اس کی غرض قیام نماز کے سوا کوئی دوسری چیز نہ تھی، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
رَّبَّنَا اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ.(سورۂ ابراہیم۱۴: ۳۷)
’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے، اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔‘‘
آگے ان الفاظ میں دعا فرماتے ہیں:
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ.(سورۂ ابراہیم۱۴: ۴۰)
’’اے میرے پروردگار! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی میرے پروردگار، اور میری دعا قبول فرما۔‘‘
آپ کا یہ دعا فرمانا کہ الٰہی مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا، جہاں اللہ سے آپ کی غیرمعمولی محبت اور تعلق خاطر کی علامت ہے وہیں اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ایک مسلم کی زندگی میں نماز کا کیا مقام ہونا چاہیے اور دنیا میں اس کی تگ و دو اور جاں فشانی کس مقصد کے لیے ہونی چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد کو اللہ کی طرف سے جو احکام دیے گئے ان میں بھی نہ صرف نماز کا حکم موجود ہے بلکہ وہ سرفہرست ہے۔ فرمایا گیا ہے:
وَوَہَبْنَا لَہٗ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ نَافِلَۃً وَکُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ، وَجَعَلْنٰہُمْ اَءِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَیْْنَآ اِلَیْْہِمْ فِعْلَ الْخَیْْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءَ الزَّکٰوۃِ وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ.(سورۂ انبیاء۲۱: ۷۲۔۷۳)
’’اور ہم نے اسے اسحاق اور فضل مزید کے طور پر یعقوب عطا کیے۔ اور دونوں ہی کو صالح بنایا، اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے تھے۔ اور ہم نے ان کو اچھے کاموں کی اور اقامت صلوٰۃ اور ایتاے زکوٰۃ کی ہدایت کی، اور وہ ہماری بندگی کرنے والے تھے۔‘‘
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذکر میں ہے:
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلاً نَّبِیًّا، وَکَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا.(سورۂ مریم۱۹: ۵۴۔۵۵)
’’اور کتاب میں اسماعیل کی سرگزشت کو یاد کرو۔ بے شک وہ وعدے کا پکا اور رسول اور نبی تھا۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھا۔‘‘
حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کے بعد جو پیغمبر بھی آیا اس کے دین کا سرعنوان نماز تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور کی وادی مقدس میں جو پہلا فرمان خدا ملا وہ یہ تھا:
اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ.(سورۂ طٰہٰ۲۰: ۱۴)
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘
سورۂ یونس (۱۰) میں یہی حکم قدرے تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، فرمایا:
وَاَوْحَیْْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ. (آیت ۸۷)
’’اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں چند گھر خاص کر لو اور اپنے ان گھروں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو، اور اہل ایمان کو خوش خبری سنا دو۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی پیدایش کے فوراً بعد قوم یہود کے سامنے جو معجزانہ تقریر کی اس کا ایک اہم جز نماز ہے۔ فرمایا:
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا، وَجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْْنَ مَا کُنْتُ وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا.(سورۂ مریم ۱۹: ۳۱)
’’(حضرت عیسیٰ نے) کہا، میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی اور نبی بنایا اور مجھے بابرکت ٹھہرایا جہاں کہیں بھی میں ہوں۔ اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں۔‘‘۳
تعمیل شریعت کے پہلو سے بھی نماز کی اہمیت بالکل واضح ہے۔ بلاشبہ نماز اللہ کے حکموں کی بجا آوری کو آسان بناتی ہے۔ اس کی حیثیت شہر پناہ کی ہے۔ جو شخص اس شہر پناہ کے اندر داخل ہوا وہ نفس کے فتنوں سے محفوظ ہو گیا، اور جس کو یہ شہر پناہ نہیں ملی اس کے لیے ناممکن ہے کہ وہ نفس کی فتنہ انگیزیوں سے مامون رہ سکے۔ فرمایا گیا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ، الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ، اِلَّا عَلآی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُوْمِیْنَ، فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُونَ. (سورۂ مومنون۲۳: ۱۔۹)
’’ان مومنوں نے فلاح پائی جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں، جو فضول باتوں سے منہ موڑنے والے ہیں، جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں، جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے۔ اس معاملے میں ان کو کوئی ملامت نہیں مگر جس نے اس کے علاوہ چاہا تو وہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں، اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی پاس داری کرنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی خبر گیری کرتے ہیں۔‘‘
دیکھیں، ان آیتوں کی ابتدا نماز سے ہوئی اور نماز ہی پر اختتام ہوا ہے اور ان کے درمیان میں دین کے چند بنیادی احکام اور اخلاقی باتوں کا ذکر ہے۔ اس اسلوب بیان سے بالکل واضح ہے کہ نماز کے بغیر دین کے بنیادی احکام کی تعمیل اور حسن اخلاق کی حفاظت مشکل ہے۔ ترک نماز کا مطلب دین و اخلاق کی پوری عمارت کا انہدام ہے۔ نماز اور اخلاق و شرائع میں اس گہرے تعلق کی وجہ سے قرآن مجید میں جہاں احکام بیان کیے گئے ہیں وہاں بالعموم ان کے آخر میں نماز کا ذکر ہوا ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ (۲) میں نکاح و طلاق کے احکام کے بعد فرمایا گیا ہے:
حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ والصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ.(سورۂ بقرہ ۲: ۲۳۸)
’’نماز کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان کی نماز کی، اور اللہ کے آگے فرماں بردار کی طرح کھڑے رہو۔‘‘
اسی طرح سورۂ نور (۲۴) میں احکام زنا اور عائلی زندگی سے متعلق بعض احکام کے بیان کے بعد ایک حسین تمثیل کا ذکر ہے اور پھر فرمایا گیا ہے:
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ، رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءِ الزَّکٰوۃِ. (۳۶۔۳۷)
’’یہ طاق ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعمیر کا خدا نے حکم دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔ ان میں صبح و شام ایسے لوگ خدا کی تسبیح کرتے ہیں جن کو تجارت اور خرید و فروخت (کے مشاغل) اللہ کے ذکر، اہتمام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتے۔‘‘
سورۂ نساء (۴) میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، بیوہ عورتوں سے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت، میراث کے احکام، ارتکاب فواحش کے بعد کی تعزیری تدابیر، عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اور نکاح و طلاق کے اہم مسائل کے متعلق واضح ہدایات، خداے واحد کی عبادت اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک اور انفاق مال کے ذکر کے بعد اہل ایمان کو نماز کے متعلق ایک اہم ہدایت دی گئی ہے۔ فرمایا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ. (آیت: ۴۳)
’’اے ایمان والو، نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ تا آنکہ جان لو جو تم (اپنی زبان سے) کہتے ہو۔‘‘
اسی طرح سورۂ مائدہ (۵) میں حرام اور حلال چیزوں کی تفصیل کے بعد فرمایا گیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ. (آیت: ۶)
’’اے ایمان والو، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو۔‘‘
ہم نے گذشتہ صفحات میں مختلف جہتوں سے نماز کے مقام اور اس کی اہمیت کا جو جائزہ لیا ہے اس سے بالکل واضح ہو گیا کہ دین میں اس کی وہی حیثیت ہے جو جسم میں روح کی ہے۔ جس قدر نماز میں ضعف آئے گا اسی قدر دین میں بھی ضعف پیدا ہو گا، اور اگر نماز قوی ہے تو لازماً دین بھی قوی ہو گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نماز کی اس خصوصیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں تمام عاملوں کو لکھا کرتے تھے۔
ان اھم امرکم عندی الصلٰوۃ فمن حفظھا وحافظ علیہا حفظ دینہ ومن ضیعھا فھو لماسواھا اضیع. (موطا، کتاب الصلوٰۃ، رواہ نافع مولیٰ عبداللہ ابن عمر)
’’میرے نزدیک تمھارے کاموں میں سب سے بڑھ کر اہمیت نماز کو حاصل ہے۔ جس نے اس کی حفاطت کی اور اس پر مداومت اختیار کی اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے اسے ضائع کیا وہ دوسری چیزوں کو اور بھی ضائع کرنے والا ہو گا۔‘‘
دین کے اندر نماز کی اس اہمیت کے پیش نظر یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے کہ کوئی مسلمان تارک نماز ہو گا۔ لیکن آج بہت سے مسلمان زبان سے اقرار ایمان کے باوجود نماز نہیں پڑھتے۔ کیا وہ فی الواقع مسلمان ہیں؟ اس وقت چونکہ مسلم معاشرہ کی ایمانی حالت میں ناقابل بیان ضعف آ گیا ہے اس لیے یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جو آدمی زبان سے اقرار ایمان کرے، کم از کم جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھتا ہو اور بعض مذہبی شعائر، مثلاً قربانی و ختنہ وغیرہ، مسلمانوں جیسے رکھتا ہو تو وہ مسلمان ہے۔ لیکن قرآن مجید سے اس خیال کی تائید نہیں ہوتی۔ ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
فَاِن تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ.(سورۂ توبہ ۹: ۱۱)
’’اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ دین میں تمھارے بھائی ہیں۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں داخل ہونے کے لیے تین باتوں پر عمل ضروری ہے، ایک شرک سے توبہ اور توحید کا اقرار، دوسرے قیام نماز اور تیسرے ایتاے زکوٰۃ۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو اس میں شاید ہی کسی مسلمان کو اختلاف ہو، یعنی یہ کہنے کی جرأت کوئی مسلمان نہ کرے گا کہ خدا کی ذات و صفات میں وحدانیت کا منکر بھی مسلمان ہو سکتا ہے۔ البتہ دوسری اور تیسری بات میں تھوڑا تردد ممکن ہے جبکہ ان کا تارک، زبان سے اقرار ایمان کرتا ہو۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ قرآن کے مطلوب مسلمان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے کہ وہ نماز جیسے بنیادی فرض کا تارک ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور نماز لازم و ملزوم ہیں۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوْنَ.(سورۂ مائدہ ۵: ۵۵)
’’تمھارے دوست تو بس اللہ، اس کے رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور فروتنی اختیار کرتے ہیں۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’یہ ’لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘ سے بدل ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایمان کی عملی تعبیر اقامت صلوٰۃ اور ایتاے زکوٰۃ ہے۔ عطف کے بجاے بدلیت کے اسلوب سے اس کو تعبیر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکمت شریعت کے پہلو سے ایمان اور نماز و زکوٰۃ میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ دونوں بالکل لازم و ملزم ہیں۔ جہاں ایمان موجود ہے نماز اور زکوٰۃ لازماً موجود ہوں گی۔ اگر یہ غائب ہیں تو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ایمان بھی غائب ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، ۲/ ۵۴۸)
احادیث سے بھی اس خیال کی تائید ہوئی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے:
العھد الذی بیننا وبینھم الصلٰوۃ فمن ترکھا فقد کفر. (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، رواہ بریدہ)
’’ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے (یعنی بناے تعلق) وہ نماز ہے۔ پس جس نے اس کو چھوڑ دیا اس نے کفر کیا (اور اس سے ہمارا تعلق منقطع ہو گیا)۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوا ہے:
ان بین الرجل وبین الشرک والکفر ترک الصلٰوۃ.(مسلم، رواہ جابر بن عبداللہ)
’’بلاشبہ آدمی اور شرک و کفر کے درمیان جو حد فاصل ہے وہ ترک نماز ہے۔‘‘
ان روایات سے بالکل واضح ہو گیا کہ جس شخص نے فرض نماز ترک کر دی اس نے اپنے ’’ایمان بالغیب‘‘ کی خود اپنے عمل سے تکذیب کر دی۔ ہم لکھ چکے ہیں کہ نماز خدا پر ایمان کا خارجی اظہار ہے۔ اگر نماز نہیں تو گویا ایمان باللہ بھی موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا کوئی شخص مسلمان نہیں سمجھا جاتا تھا جو تارک نماز ہو۔ اس سلسلے میں تین واقعے قابل ذکر ہیں جن کا تعلق عہد نبوت سے ہے۔
ایک واقعے کے راوی ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ:
’’حضرت علی نے یمن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دباغت شدہ چمڑے میں سونا بھیجا جس میں ابھی کان کی مٹی لگی ہوئی تھی۔ رسول اللہ نے اسے چار لوگوں، زید الخیر، اقرع بن حابس، عینیہ بن حصن اور علقمہ بن علاثہ (یا عامر بن طفیل) میں تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم سے بعض لوگوں کو ناراضی ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ مجھے امین نہیں سمجھتے، جبکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ پھر ایک آدمی آیا جس کی آنکھیں ڈھیلے کے اندر، رخسار بڑے اور بھرے ہوئے، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی کے بال گٹھے ہوئے، تہ بند پنڈلیوں سے اٹھا ہوا اور سر کے بال منڈے ہوئے تھے۔ اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! اللہ سے ڈریں۔ آپ نے اس کی طرف سر اٹھایا اور فرمایا، تیری ہلاکت، کیا میں تمام ساکنان زمین سے زیادہ اس بات کا حق دار نہیں کہ اللہ سے ڈروں۔ یہ کہہ کر آپ نے اس کی طرف سے چہرہ پھیر لیا۔ یہ دیکھ کر خالد نے کہا، یارسول اللہ، کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: شاید نماز پڑھتا ہو ’فلعلہ یکون یصلی‘ خالد نے کہا: کبھی کبھی پڑھتا ہے، اپنی زبان سے وہ بات کہتا ہے جو اس کے دل میں نہیں ہے ’انہ ربّ مصلی، یقول بلسانہ ما لیس فی قلبہ‘ رسول اللہ نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں یا ان کے شکم چاک کروں۔ ’انی لم أومر أن انقب عن قلوب الناس ولااشق بطونھم‘ ’’ (مسند امام احمد بن حنبل ۳/۴۰۳)
دوسرے واقعے کے راوی بسر بن محجن ہیں۔ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’ایک بار وہ (محجن) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مجلس میں شریک تھے۔ اذان ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور لوگوں کے ساتھ نماز ادا فرمائی اور پھر مجلس میں واپس تشریف لائے۔ وہ (یعنی محجن) مجلس ہی میں بیٹھے رہے، رسول اللہ کے ساتھ شریک نماز نہ ہوئے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہیں ادا کی، کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ ’ألست برجل مسلم‘ انھوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسول اللہ، میں دراصل اپنے اہل خانہ کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا (اس لیے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی) آپ نے فرمایا: تم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ لیتے خواہ پہلے پڑھ چکے تھے۔‘‘ (موطا، کتاب الصلوٰۃ، باب: اعادۃ الصلوٰۃ مع الامام)
تیسرے واقعے کے راوی عبید اللہ ابن عدی بن الخیار ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
’’ایک بار کا واقعہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی (عتبان بن مالک) آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کے انداز میں کچھ کہا، لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا کہ اس نے کیا سرگوشی کی یہاں تک کہ اسے رسول اللہ نے ظاہر کر دیا۔ وہ شخص ایک منافق آدمی (مالک بن الدخشم) کے قتل کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچی آواز میں فرمایا: کیا وہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں؟ اس شخص نے کہا: کیوں نہیں، لیکن اس کی شہادت، شہادت نہیں ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟ اس شخص نے کہا: کیوں نہیں، لیکن اس کی نماز، نماز نہیں ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ نَھَانِی اللّٰہُ عَنْھُمْ‘ ’’ایسے لوگوں کو قتل کرنے سے اللہ نے مجھ کو منع کر دیا ہے۔‘‘(موطا، کتاب الصلوٰۃ، باب جامع الصلوٰۃ )
متذکرہ بالا واقعات سے، جن کا تعلق دور نبوت سے ہے، کسی ادنیٰ اشتباہ کے بغیر معلوم ہو گیا کہ کسی شخص کے مسلمان ہونے کے لیے ’’شہادتین‘‘ کے اقرار کے ساتھ نماز کا باضابطہ اہتمام ضروری ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ قلب میں حقیقی معنی میں ایمان موجود ہو اور بندے کے عمل سے اس کا اظہار نہ ہو یعنی وہ تارک نماز ہو۔
اس سلسلے میں علما و فقہا کی راے مختلف ہے۔ جو شخص تارک نماز ہو اور اس کو فرض بھی نہ جانتا ہو تو وہ متفقہ طور پر کافر ہے۔ لیکن اگر اس کی فرضیت کا منکر نہ ہو اور محض غفلت ترک نماز کی علت ہے تو علما و فقہا کے ایک بڑے گروہ کا خیال ہے کہ وہ کافر نہ ہو گا بلکہ فاسق سمجھا جائے گا، اور اگر وہ اپنی غلطی محسوس کر لے اور اقامت صلوٰۃ پر کاربند ہو جائے تو قابل معافی ہے ورنہ واجب القتل ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ لیکن فقہا کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ تارک نماز بہرحال کافر ہے۔ اس سلسلے میں امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ تارک نماز کو کافر نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن سزا کے طور پر اس وقت تک قید رکھا جائے گا جب تک کہ وہ نماز نہ شروع کر دے۔ ۴
ممکن ہے کہ اس دنیا میں تارک نماز کو قانونی اعتبار سے مسلمان سمجھ لیا جائے اور وہ سزا سے بچ بھی جائے لیکن روزآخرت وہ بہرحال مسلمانوں کے زمرہ سے خارج ہو گا۔ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے:
’’جس نے نماز کی نگہداشت نہیں کی اس کے لیے (روز قیامت) نہ روشنی ہو گی نہ (اس کے مومن ہونے کی) دلیل بنے گی اور نہ اس کے لیے وجہ نجات ہو گی۔ قیامت میں اس کا حشر قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔‘‘ (رواہ احمد، الدارمی و البیہقی، مشکوٰۃ ۱/۵۹)
[باقی]
_______
* آر زیڈ ۹۰۱ بی، فلیٹ نمبر ۴۰۲، تغلق آباد ایکسٹنشن، نئی دہلی۔۱۹۔
۳ مقام حیرت ہے کہ ان واضح تعلیمات کے باوجود یہود و نصاریٰ نے نہ صرف قیام نماز میں غفلت دکھائی بلکہ اپنی مقدس کتاب سے اس کا نام و نشان تک حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ چنانچہ موجودہ تورات اور اناجیل میں کہیں نماز کا واضح ذکر نہیں ملتا حتیٰ کہ تورات میں اس مقام پر جہاں میثاق بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے نماز کا کوئی ذکر نہیں، جبکہ وہ میثاق میں شامل تھی، جیسا کہ قرآن مجید کا بیان ہے۔ (سورۂ بقرہ ۲: ۸۳) اس پختہ عہد و میثاق کے بعد بنی اسرائیل کا تارک نماز ہو جانا اور اپنی مذہبی کتابوں سے اس کو محو کر دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ دین میں نماز کے مقام اور اس کی اہمیت سے قطعاً غافل ہو چکے تھے۔ ان کی اس غفلت پیہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خواہشات نفسانی کے اسیر و پرستار بن گئے، فرمایا گیا ہے:
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا. (سورۂ مریم ۱۹: ۵۹)
’’پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز ضائع کر دی اور خواہشات نفس کی پیروی کی۔ پس وہ لوگ عنقریب گم راہی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔‘‘
۴ نیل الاوطار ۱/ ۳۶۹۔
_______________